431 / 1. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه وَکَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ ﷺ، وَخَدَمَهٗ وَصَحِبَهٗ، أَنَّ أَبَا بَکْرٍ کَانَ یُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ ﷺ الَّذِي تُوُفِّيَ فِیهِ، حَتّٰی إِذَا کَانَ یَوْمُ الْاِثْنَیْنِ وَهُمْ صُفُوْفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَکَشَفَ النَّبِيُّ ﷺ سِتْرَ الْحُجْرَةِ، یَنْظُرُ إِلَیْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، کَأَنَّ وَجْهَهٗ وَرَقَۃُ مُصْحَفِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ یَضْحَکُ فَهَمَمْنَا أَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْیَةِ النَّبِيِّ ﷺ، فَنَکَصَ أَبُوْ بَکْرٍ عَلٰی عَقِبَیْهِ لِیَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ، فَأَشَارَ إِلَیْنَا النَّبِيُّ ﷺ أَنْ أَتِمُّوْا صَلَاتَکُمْ وَأَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ یَوْمِهٖ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأذان، باب أہل العلم والفضل أحقّ بالإمامۃ، 1 / 240، الرقم: 648، وأیضًا في کتاب الأذان، باب ہل یلتفت لأمر ینزل بہ، 1 / 262، الرقم: 721، وأیضًا في کتاب التہجد، باب من رجع القھقری في صلاتہ، 1 / 403، الرقم: 1147، وأیضًا في کتاب المغازي، باب مرض النبي ﷺ ووفاتہ، 4 / 1616، الرقم: 4183، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب استخلاف الإمام إذا عرض لہ عذر من مرض وسفر وغیرھما من یصلی بالناس، 1 / 316، الرقم: 419، والنسائي نحوہ في السنن، کتاب الجنائز، باب الموت یوم الاثنین، 4 / 7، الرقم: 1831، وابن ماجہ نحوہ في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ذکر مرض رسول الله ﷺ، 1 / 517، الرقم: 1624، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 163، 196۔197،211، وابن حبان في الصحیح، 14 / 587، الرقم: 587، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 372، الرقم: 1488
’’حضرت انس بن مالک انصاری رضی الله عنه جو کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے صحابی اور خادم خاص تھے فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے مرضِ وصال میں حضرت ابوبکر رضی الله عنه لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے، چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور ﷺ نے حجرہ مبارک کا پردہ اُٹھایا اور کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنے لگے۔ اُس وقت آپ ﷺ کا چہرۂ انور قرآن کے اوراق کی طرح معلوم ہوتا تھا، جماعت کو دیکھ کر آپ ﷺ مسکرائے۔ آپ ﷺ کے دیدار پرُ انوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنه کو خیال ہوا کہ شاید آپ ﷺ نماز میں تشریف لا رہے ہیں۔ اِس لیے اُنہوں نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر صف میں مل جانا چاہا، لیکن حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو، پھر آپ ﷺ نے پردہ گرا دیا اور اُسی روز آپ ﷺ کا وصال ہو گیا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
432 / 2. عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ذَهَبَ إِلٰی بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ لِیُصْلِحَ بَیْنَهُمْ فَحَانَتِ الصَّلَاۃُ، فَجَاءَ الْمُؤَذِّنُ إِلٰی أَبِي بَکْرٍ، فَقَالَ: أَتُصَلِّي لِلنَّاسِ فَأُقِیْمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَصَلّٰی أَبُوْ بَکْرٍ، فَجَاءَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَالنَّاسُ فِي الصَّلَاةِ فَتَخَلَّصَ حَتّٰی وَقَفَ فِي الصَّفِّ فَصَفَّقَ النَّاسُ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ لَا یَلْتَفِتُ فِي صَلَاتِهٖ، فَلَمَّا أَکْثَرَ النَّاسُ التَّصْفِیْقَ، الْتَفَتَ، فَرَأَی رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَأَشَارَ إِلَیْهِ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَنِ امْکُثْ مَکَانَکَ. فَرَفَعَ أَبُوْ بَکْرٍص یَدَیْهِ، فَحَمِدَ اللهَ عَلٰی مَا أَمَرَهٗ بِهٖ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مِنْ ذَالِکَ، ثُمَّ اسْتَأْخَرَ أَبُوْ بَکْرٍ حَتَّی اسْتَوَی فِي الصَّفِّ، وَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: یَا أَبَا بَکْرٍ، مَا مَنَعَکَ أَنْ تَثْبُتَ إِذْ أَمَرْتُکَ. فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: مَا کَانَ لِابْنِ أَبِي قُحَافَۃَ أَنْ یُصَلِّيَ بَیْنَ یَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا لِي رَأَیْتُکُمْ أَکْثَرْتُمُ التَّصْفِیْقَ، مَنْ رَابَهٗ شَيئٌ فِي صَلَاتِهٖ فَلْیُسَبِّحْ، فَإِنَّهٗ إِذَا سَبَّحَ الْتُفِتَ إِلَیْهِ، وَإِنَّمَا التَّصْفِیْقُ لِلنِّسَاءِ.
مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأذان، باب من دخل لیؤمّ النّاس فجاء الإمام الأول فتأخّر الأوّل أو لم یتأخر جازت صلاتہ فیہ عائشۃ عن النبي ﷺ، 1 / 242، الرقم: 652، وأیضًا في أبواب العمل في الصلاۃ، باب ما یجوز من التسبیح والحمد في الصلاۃ للرجال، 1 / 402، الرقم: 1143، وأیضًا في باب التصفیق للنساء، 1 / 403، الرقم: 1146، وأیضًا في باب الأیدي في الصلاۃ، 1 / 407، الرقم: 1160، وأیضًا في أبواب السہو، باب الإشارۃ في الصلاۃ، 1 / 414، الرقم: 1177، 2544، 2547، 6767، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب تقدیم الجماعۃ من یصلی بہم إذا تأخر الإمام، 1 / 316، الرقم: 421، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب التصفیق في الصلاۃ، 1 / 247، الرقم: 940، والنسائي في السنن، کتاب آداب القضاۃ، باب مصیر الحاکم إلی رعیتہ للصلح بینہم، 8 / 243، الرقم: 5413، وأیضًا في کتاب الإمامۃ، باب إذ تقدم الرجل من الرعیۃ ثم جاء الوالی ہل یتأخر، 2 / 77، الرقم: 784، ومالک في الموطأ، کتاب قصر الصلاۃ في السفر، باب الإلتفات والتصفیق عند الحاجۃ في الصلاۃ، 1 / 163، الرقم: 61.
’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنه فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں (کسی مسئلہ پر) صلح کرانے تشریف لے گئے، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا۔ مؤذن نے حضرت ابوبکرصدیق رضی الله عنه کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: کیا آپ نماز پڑھا دیں گے تاکہ میں اقامت کہوں؟ اُنہوں نے فرمایا: ہاں۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنه نے لوگوں کو نماز پڑھانا شروع کر دی، دورانِ نماز حضور ﷺ بھی تشریف لے آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے صفِ اوّل میں جا کر کھڑے ہو گئے، لوگوں نے (حضرت ابوبکر رضی الله عنه کو متوجہ کرنے کے لیے) تالیاں بجائیں لیکن حضرت ابوبکر رضی الله عنه نماز میں کسی اور جانب التفات نہیں فرمایا کرتے تھے۔ جب تالیوں کی آواز زیادہ ہو گئی تو حضرت ابوبکر رضی الله عنه متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے ہیں (تو اُنہوں نے اپنی جگہ سے پیچھے ہٹنے کا ارادہ کیا) لیکن آپ ﷺ نے اُنہیں اپنی جگہ پر کھڑے رہنے کا اشارہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی الله عنه نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے اُنہیں امامت کا حکم دیا ہے۔ اِس کے بعد حضرت ابوبکر رضی الله عنه پیچھے ہٹے حتی کہ صفِ اوّل کے برابر آ گئے اور حضور نبی اکرم ﷺ نے آگے بڑھ کر امامت کرائی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابوبکر! جب میں نے حکم دیا تھا تو تم مصلّٰی پر کیوں نہیں ٹھہرے رہے؟ حضرت ابوبکر رضی الله عنه نے عرض کیا: (یا رسول الله !) ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال کہ وہ رسول الله ﷺ کے سامنے امامت کرائے۔ اِس کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ کرام رضی الله عنه کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اِس کی کیا وجہ ہے کہ میں نے تمہیں تالیاں بجاتے دیکھا؟ اگر کسی کو نماز میں کوئی معاملہ پیش آئے تو (بلند آواز سے) سبحان اللہ کہے چنانچہ جب کوئی سبحان اللہ کہے تو اُس کی طرف توجہ دی جائے، اور تالیاں بجانا تو صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
433 / 3. عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِیْنَ رضي الله عنھا أَنَّھَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ فِي مَرَضِهٖ: مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ یُصَلِّي بِالنَّاسِ. قَالَتْ عَائِشَۃُ: قُلْتُ: إِنَّ أَبَا بَکْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِکَ لَمْ یُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُکَاءِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْیُصَلِّ لِلنَّاسِ فَقَالَتْ عَائِشَۃُ: فَقُلْتُ لِحَفْصَۃَ: قُوْلِي لَهٗ: إِنَّ أَبَا بَکْرٍ إِذَا قَامَ فِي مَقَامِکَ لَمْ یُسْمِعِ النَّاسَ مِنَ الْبُکَاءِ فَمُرْ عُمَرَ فَلْیُصَلِّ لِلنَّاسِ فَفَعَلَتْ حَفْصَۃُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَہْ، إِنَّکُنَّ لَأَنْتُنَّ صَوَاحِبُ یُوْسُفَ مُرُوْا أَبَا بَکْرٍ فَلْیُصَلِّ لِلنَّاسِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الآذان، باب أھل العلم والفضل أحق بالإمامۃ، 1 / 240، الرقم: 647، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر رضي الله عنھما کلیھما، 5 / 613، الرقم: 3672، ومالک في الموطأ، 1 / 170، الرقم:412، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 96، الرقم: 24691، وابن حبان في الصحیح، 14 / 566، الرقم: 6601۔
’’اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے مرضِ وصال میں فرمایا: ابوبکر کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: حضرت ابوبکر رضی الله عنه جب آپ کی جگہ پر کھڑے ہوں گے تو وہ کثرتِ گریہ کی وجہ سے لوگوں کو (قرأت) نہیں سنا سکیں گے۔ (اِس لئے) آپ حضرت عمر رضی الله عنه کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ سے کہا کہ آپ حضور نبی اکرم ﷺ سے عرض کریں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنه جب آپ کے مقام (مصلّٰی) پر کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو کچھ سنا نہ پائیں گے۔ پس آپ حضرت عمر رضی الله عنه کو حکم فرمائیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں چنانچہ حضرت حفصہ رضی الله عنہا نے ایسے ہی کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: رُک جاؤ! بیشک تم صواحب یوسف (یعنی زنانِ مصر) کی طرح ہو۔ ابوبکر کو (میری طرف سے) حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، مالک اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
434 / 4. عَنْ أَبِي سَعِیدِ بْنِ الْمُعَلّٰی رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ مَرَّ بِهٖ وَهُوَ یُصَلِّي فَدَعَاهٗ قَالَ: فَصَلَّیْتُ ثُمَّ أَتَیْتُهٗ، قَالَ: فَقَالَ: مَا مَنَعَکَ أَنْ تُجِیْبَنِي؟ قَالَ: کُنْتُ أُصَلِّي. قَالَ: أَلَمْ یَقُلِ اللهُ: {یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ} [الأنفال، 8:24].
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهٗ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب یا أیھا الذین آمنوا استجیبوا ﷲ وللرسول إذا دعاکم لما یحییکم الخ، 4 / 1704، الرقم: 4370، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاۃ، باب فاتحۃ الکتاب، 2 / 71، الرقم: 1458، والنسائي في السنن، کتاب الافتتاح، باب تأویل قول الله ل: ولقد آتیناک سبعا من المثاني الخ، 2 / 139، الرقم: 913، وأیضًا في السنن الکبری، 5 / 11، الرقم: 8010، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 450، الرقم: 15768، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 38، الرقم: 862، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1 / 10، وأیضًا، 2 / 558
’’حضرت ابو سعید بن المعلّٰی رضی الله عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ اُن کے پاس سے گزرے اور وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ ﷺ نے اُنہیں بلایا اُن کا بیان ہے کہ میں نماز پڑھ کر آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: میری خدمت میں حاضر ہونے سے (اب تک) تمہیں کس شے نے روکے رکھا؟ عرض گزار ہوئے: میں نماز پڑھ رہا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا الله تعالیٰ یہ نہیں فرماتا: (اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو)۔‘‘
اِسے امام بخاری، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ابو داود کے ہیں۔
435 / 5. وقال ابن حبان في الصحیح: اَلْوَاجِبُ عَلَیْهِمْ أَنْ یُجِیْبُوْهُ وَإِنْ کَانُوْا فِي نَفْسِ الصَّلاَةِ لِقَوْلِ اللهِ جَلَّ وَعَـلَا: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج} [الأنفال، 8:24].
أخرجہ ابن حبان في الصحیح، 6 / 406
’’امام ابن حبان نے الصحیح میں فرمایا: اُن (صحابہ کرام ) پر واجب تھا کہ وہ (آپ ﷺ کی پکار پر) لبیک کہیں اگرچہ وہ نفسِ نماز کے اندر ہی کیوں نہ ہوں الله تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے: (اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو)۔‘‘
436 / 6. وقال ابن حزم في المحلی: فَصَحَّ أَنَّ هٰذَا بَعْدَ تَحْرِیْمِ الْکَـلَامِ فِي الصَّلَاةِ لِامْتِنَاعِ أَبِي سَعِیْدٍ مِنْ إِجَابَةِ النَّبِيِّ ﷺ حَتّٰی أَتَمَّ الصَّلَاۃَ وَصَحَّ أَنَّ الْکَـلَامَ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ مُبَاحٌ فِي الصَّلَاةِ هٰذَا خَاصٌ لَهٗ وَفِیْهِ حَمْلُ اللَّفْظِ عَلَی الْعُمُوْمِ وَإِجْمَاعُ أَہْلِ الإِسْلَامِ الْمُتَیَقَّنُ عَلٰی أَنَّ الْمُصَلِّيَ یَقُوْلُ فِي صَلَاتِهِ: السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ، وَلَا یَخْتَلِفُ الْحَاضِرُوْنَ مِنْ خُصُوْمِنَا عَلٰی أَنَّ مَنْ قَالَ عَامِدًا فِي صَلَاتِهٖ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا فُـلَانُ أَنَّ صَلَا تَهٗ قَدْ بَطَلَتْ وَبِاللهِ تَعَالَی التَّوْفِیْقُ.
أخرجہ ابن حزم في المحلی، 4 / 6
’’ابن حزم نے المحلّٰی میں کہا ہے کہ در حقیقت صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ نماز میں کلام کے حرام قرار دیے جانے کے بعد کا ہے، اور یہی حضرت ابو سعید رضی الله عنه کے حضور نبی اکرم ﷺ کو جواب نہ دینے کی وجہ ہے یہاں تک کہ اُنہوں نے نماز مکمل کی۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ نماز میں حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ کلام کرنا مباح ہے، اور یہ بس آپ ﷺ کے ساتھ خاص ہے، اور اس میں لفظ کو عموم پر محمول کیا گیا ہے، (یعنی جب بھی تمہیں پکاریں۔ خواہ تم نماز پڑھ رہے ہو یا نہ پڑھ رہے ہو آپ ﷺ کی پکار پر جواب دینا فرض ہے۔) اور اہلِ اسلام کا اِس بات پر پختہ یقین ہے کہ نمازی اپنی نماز میں ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہتا ہے، اور ہمارے مخالف ہم عصر علماء کا بھی اس چیز میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص اپنی نماز میں جان بوجھ کر (حضور ﷺ کے علاوہ کسی کو) ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا فُـلَانُ‘‘ کہتا ہے تو اُس کی نماز باطل ہو جاتی ہے اور توفیق الله تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘
437 / 7. وقال ابن حزم أیضا في الإحکام: خُصَّ عَلَیْهِ السَّلَامُ دُوْنَ سَائِرِ النَّاسِ أَنْ یُکَلِّمَهُ الْمُصَلُّوْنَ إِذَا کَلَّمَهُمْ وَلَا یَکُوْنَ ذَالِکَ قَاطِعًا لِصَلَا تِهِمْ.
أخرجہ ابن حزم في الإحکام، 3 / 293
’’امام ابن حزم نے الإحکام میں یہ بھی فرمایا: سارے لوگوں کو چھوڑ کر صرف حضور نبی اکرم ﷺ اِس چیز کے ساتھ خاص ہیں کہ نمازی آپ کے ساتھ ہم کلام ہو سکتے ہیں جبکہ آپ ﷺ اُن سے ہم کلام ہوں اور اِس سے اُن کی نماز بھی نہیں ٹوٹتی۔‘‘
438 / 8. وقال الآمدي في الإحکام: قَوْلُهٗ تَعَالٰی: {اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ} [الأنفال، 8:24]، إِنَّمَا کَانَ مَحْمُوْلًا عَلٰی وَجُوْبِ إِجَابَةِ النِّدَاءِ تَعْظِیْمًا لِلّٰهِ تَعَالٰی وَلِرَسُوْلِهٖ فِي إِجَابَةِ دُعَائِهٖ وَنَفْیًا لِلإِهَانَةِ عَنْهُ وَالتَّحْقِیْرِ لَهٗ بِالإِعْرَاضِ عَنْ إِجَابَةِ دُعَائِهٖ لِمَا فِیْهِ مِنْ هَضْمِهٖ فِي النُّفُوْسِ وَإِفْضَاءِ ذَالِکَ إِلَی الإِخْـلَالِ بِمَقْصُوْدِ الْبِعْثَةِ وَلَا یَمْتَنِعُ صَرْفُ الْأَمْرِ إِلَی الْوُجُوْبِ بِقَرِیْنَۃٍ.
أخرجہ الآمدي في الإحکام، 2 / 170
’’امام ابو الحسن علی بن محمد آمدی نے الإحکام میں فرمایا: الله تعالیٰ کا فرمان: (جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو) اِس بات سے الله تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی تعظیم بجا لاتے ہوئے اُن کی پکار پر لبیک کہنے کا وجوب ثابت ہوتا ہے۔ آپ کی پکار پر لبیک کہنے سے بندہ اُس اہانت اور تحقیر سے بچ جاتا ہے جس کا جواب نہ دینے کی صورت میں امکان ہوتا ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے دلوں میں آپ ﷺ کی عزت کم ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُس مقصد کے پورا ہونے میں خلل پیدا ہو جاتا ہے جس کے لیے حضور ﷺ کی بعثت ہوئی۔ اور یہاں ندا پر لبیک کہنے کے امر کو قرینہ کے ذریعے وجوب کے معنی میں لینے میں کوئی امر مانع نہیں ہے۔‘‘
439 / 9. عَنْ أَبِي هُرَیْرَۃَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ خَرَجَ عَلٰی أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا أُبَيُّ، وَهُوَ یُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ وَلَمْ یُجِبْهُ وَصَلّٰی أُبَيٌّ فَخَفَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَعَلَیْکَ السَّلَامُ، مَا مَنَعَکَ یَا أُبَيُّ، أَنْ تُجِیْبَنِي إِذْ دَعَوْتُکَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي کُنْتُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَمْ تَجِدْ فِیْمَا أَوْحَی اللهُ إِلَيَّ أَنْ {اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ} [الأنفال، 8:24]، قَالَ: بَلٰی وَلَا أَعُوْدُ إِنْ شَاءَ اللهُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ خُزَیْمَۃَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.
أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل فاتحۃ الکتاب، 5 / 155، الرقم: 2875، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 351، الرقم: 11205، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 412، الرقم: 9334، وابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 37، الرقم: 861، والمنذري في الترغیب والترھیب،2 / 238، الرقم: 2238، وقال: حدیث حسن صحیح، والزیلعي في تخریج الأحادیث والآثار، 1 / 29، وقال: حدیث حسن صحیح
’’حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنه سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه کی طرف تشریف لائے اور اُنہیں آواز دی: اے اُبی! وہ نماز پڑھ رہے تھے اُنہوں نے آپ ﷺ کی طرف توجہ کی لیکن جواب نہ دیا۔ پھر مختصر نماز پڑھ کر آپ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ رسول الله ﷺ نے جواب میں فرمایا: ’’وَعَلَیْکَ السَّلَامُ‘‘ اے اُبی! جب میں نے تجھے پکارا تو جواب دینے سے کیا چیز تمہیں مانع ہوئی؟ عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نماز میں تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے میری طرف کی گئی الله تعالیٰ کی وحی میں یہ فرمان نہیں پایا: (جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو) اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، یا رسول اللہ! انشاء اللہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، نسائی، احمد اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
440 / 10. وقال ابن خزیمۃ في الصحیح: کَانَ الْجَوَابُ الْمَفْرُوْضُ عَلَیْهِمْ أَنْ یَجِیْبُوْهُ عَلَیْهِ السَّلَامُ وَإِنْ کَانُوْا فِي الصَّلَاةِ عَالِمِیْنَ مُسْتَیْقِنِیْنَ أَنَّهُمْ فِي نَفْسِ فَرْضِ الصَّلَاةِ إِذِ اللهُ فَرَّقَ بَیْنَ نَبِیِّهِ الْمُصْطَفٰی وَبَیْنَ غَیْرِهٖ مِنْ أُمَّتِهٖ بِکَرَمِهٖ لَهٗ وَفَضْلِهٖ بِأَنْ أَوْجَبَ عَلَی الْمُصَلِّیْنَ أَنْ یُجِیْبُوْهُ وَإِنْ کَانُوْا فِي الصَّلَاةِ فِي قَوْلِهٖ: { یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُم}[الأنفال، 8:24]، وَقَدْ قَالَ الْمُصْطَفٰی ﷺ لِأُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ وَلِأَبِي سَعِیْدِ بْنِ الْمُعَلّٰی لَمَّا دَعَا کُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَی الْاِنْفِرَادِ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ فَلَمْ یُجِبْهُ حَتّٰی فَرَغَ مِنَ الصَّلَاةِ: أَلَمْ تَسْمَعْ فِیْمَا أُنْزِلَ عَلَيَّ أَوْ نَحْوَ ہٰذِهِ اللَّفْظَةِ: {یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُم}.
أخرجہ ابن خزیمۃ في الصحیح، 2 / 122
’’امام ابن خزیمہ نے الصحیح میں ذکر کیا: اُن (صحابہ کرام رضوان الله علیهم اجمعین) پر فرض تھا کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو جواب دیں اگرچہ وہ نماز میں ہی کیوں نہ ہوں اور یہ جانتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے کہ وہ عین فرض نماز میں ہیں، کیونکہ الله تبارک و تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم ﷺ کو اپنے خصوصی فضل و کرم سے نواز کر آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس میں اور آپ ﷺ کی اُمت کے دیگر افراد میں فرق واضح فرما دیا ہے۔ بایں طور کہ نمازیوں پر یہ واجب کیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کو جواب دیں اگرچہ وہ نماز میں ہی کیوں نہ ہوں اپنے اِس قول میں: (اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو) اور حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت اُبی بن کعب رضی الله عنه اور حضرت ابو سعید بن معلی رضی الله عنه کو فرمایا، جب آپ ﷺ نے اُن دونوں کو الگ الگ بلایا اور وہ نماز میں تھے اور اُنہوں نے جواب نہ دیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا جو آیت مبارکہ مجھ پر نازل ہوئی ہے یا اِس طرح کے الفاظ فرمائے: (اے ایمان والو! جب (بھی) رسول (ﷺ) تمہیں کسی کام کے لیے بلائیں جو تمہیں (جاودانی) زندگی عطا کرتا ہے تو اللہ اور رسول (ﷺ) کو فرمانبرداری کے ساتھ جواب دیتے ہوئے (فوراً) حاضر ہو جایا کرو)۔‘‘
441 / 11. وقال ابن الجوزي في التّحقیق: وَإِذَا ثَبَتَ أَنَّ جَوَابَ الرَّسُوْلِ ﷺ وَاجِبٌ لَمْ تَبْطُلْ.
أخرجہ ابن الجوزي في التحقیق في أحادیث الخلاف، 1 / 422
’’علامہ ابن جوزی نے اپنی کتاب التحقیق میں فرمایا: جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو جواب دینا واجب ہے تو اِس سے نماز باطل نہیں ہوتی۔‘‘
442 / 12. وذکر المبارکفوري في تحفۃ الأحوذي: قَالَ الطَّیِّبِيُّ وَغَیْرُهٗ مِنَ الشَّافِعِیَّةِ دَلَّ الْحَدِیْثُ عَلٰی أَنَّ إِجَابَۃَ الرَّسُوْلِ ﷺ لَا یُبْطِلُ الصَّلَاۃَ کَمَا أَنَّ خِطَابَهٗ بِقَوْلِکَ: السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ لَا تَقْطَعُهَا.
أخرجہ المبارکفوري في تحفۃ الأحوذي، 8 / 144
’’علامہ مبارکپوری نے تحفۃ الأحوذی میں ذکر کیا: امام طیبی اور آپ کے علاوہ دوسرے ائمہ شوافع نے کہا ہے کہ یہ حدیث اِس چیز پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں حضور نبی اکرم ﷺ کو جواب دینا نماز کو باطل نہیں کرتا جیسا کہ آپ ﷺ کو مخاطب کر کے ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّهَا النَّبِيُّ‘‘ کہنا نماز کو نہیں توڑتا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved