حضور ﷺ کے نبوی خصائصِ مبارکہ

حضور ﷺ کا ظاہری چشمان مبارک اور قلب انور سے دیدار الٰہی کرنے اور اللہ تعالیٰ کا آپ کے لیے دیدار اور کلام کو ایک جگہ جمع فرما دینے کا بیان

بَابٌ فِي اَنَّهُ ﷺ رَاَی رَبَّهُ تَعَالٰی بِعَيْنَيْهِ وَبِفُؤَادِهِ وَجَمَعَ اللهُ تَعَالٰی لَهُ بَيْنَ الْکَـلَامِ وَالرُّؤْيَةِ

171/ 1. عَنْ اَبِي ذَرٍّ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ: هَلْ رَيْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ: نُوْرٌ اَنّٰی اَرَهُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبَزَّارُ.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قوله: نور انی اراه وفي قوله: رايت نورًا، 1/ 161، الرقم: 178، والبزار في المسند، 9/ 362، الرقم: 3931، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 10، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 608.

’’حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نور ہے اور میں نے اُس کو جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔‘‘

اِسے امام مسلم اور بزار نے روایت کیا ہے۔

172/ 2. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قُلْتُ لِاَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه: لَوْ رَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ لَسَاَلْتُهُ فَقَالَ: عَنْ اَيِّ شَيئٍ کُنْتَ تَسْاَلُهُ؟ قَالَ: کُنْتُ اَسْاَلُهُ هَلْ رَيْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ اَبُوْ ذَرٍّ: قَدْ سَاَلْتُ، فَقَالَ: رَيْتُ نُوْرًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَنْدَه وَابْنُ حِبَّانَ.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب في قوله: نور انی اراه وفي قوله: رايت نورا، 1/ 161، الرقم: 178، وابن حبان في الصحيح، 1/ 254، الرقم: 58، وابن منده في الإيمان، 2/ 768، الرقم: 772، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 192، الرقم: 441، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 1011.

’’حضرت عبد اللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: اگر مجھے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کا موقع ملا ہوتا تو میں آپ ﷺ سے ایک چیز ضرور پوچھتا، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کیا پوچھتے؟ عرض کیا: میں پوچھتا: (یا رسول الله !) کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا تھا: آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے نور کو دیکھا ہے۔‘‘

اِسے امام مسلم، ابن مندہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

173/ 3. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله تعالیٰ عنه يَقُوْلُ: لَيْلَهَ اسْرِيَ بِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ مِنْ مَسْجِدِ الْکَعْبَةِ وقال في رواية طويلة: حَتّٰی جَاءَ سِدْرَهَ الْمُنْتَهٰی وَدَنَا لِلْجَبَّارِ رَبِّ الْعِزَّةِ فَتَدَلَّی حَتّٰی کَانَ مِنْهُ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی فَاَوْحَی اللهُ فِيْمَا اَوْحٰی إِلَيْهِ خَمْسِيْنَ صَلَةً عَلٰی امَّتِکَ کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثُمَّ هَبَطَ حَتّٰی بَلَغَ مُوْسٰی فَاحْتَبَسَهُ مُوْسٰی فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَاذَا عَهِدَ إِلَيْکَ رَبُّکَ؟ قَالَ: عَهِدَ إِلَيَّ خَمْسِيْنَ صَلَةً کُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ قَالَ: إِنَّ امَّتَکَ لَا تَسْتَطِيْعُ ذَالِکَ فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ وَعَنْهُمْ فَالْتَفَتَ النَّبِيُّ ﷺ إِلٰی جِبْرِيْلَ کَاَنَّهُ يَسْتَشِيْرُهُ فِي ذَالِکَ فَاَشَارَ إِلَيْهِ جِبْرِيْلُ اَنْ نَعَمْ إِنْ شِئْتَ فَعَـلَا بِهِ إِلَی الْجَبَّارِ فَقَالَ: وَهُوَ مَکَانَهُ يَا رَبِّ، خَفِّفْ عَنَّا فَإِنَّ امَّتِي لَا تَسْتَطِيْعُ هٰذَا فَوَضَعَ عَنْهُ عَشْرَ صَلَوَاتٍ ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مُوْسٰی فَاحْتَبَسَهُ فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُ مُوْسٰی إِلٰی رَبِّهِ حَتّٰی صَارَتْ إِلٰی خَمْسِ صَلَوَاتٍ ثُمَّ احْتَبَسَهُ مُوْسٰی عِنْدَ الْخَمْسِ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، وَاللهِ، لَقَدْ رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِيْلَ قَوْمِي عَلٰی اَدْنَی مِنْ هٰذَا فَضَعُفُوْا فَتَرَکُوْهُ فَامَّتُکَ اَضْعَفُ اَجْسَادًا وَقُلُوْبًا وَاَبْدَانًا وَاَبْصَارًا وَاَسْمَاعًا فَارْجِعْ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ رَبُّکَ کُلَّ ذَالِکَ يَلْتَفِتُ النَّبِيُّ ﷺ إِلٰی جِبْرِيْلَ لِيُشِيْرَ عَلَيْهِ وَلَا يَکْرَهُ ذَالِکَ جِبْرِيْلُ فَرَفَعَهُ عِنْدَ الْخَامِسَةِ فَقَالَ: يَا رَبِّ، إِنَّ امَّتِي ضُعَفَائُ اَجْسَادُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ وَاَسْمَاعُهُمْ وَاَبْصَارُهُمْ وَاَبْدَانُهُمْ فَخَفِّفْ عَنَّا فَقَالَ الْجَبَّارُ: يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: لَبَّيْکَ وَسَعْدَيْکَ، قَالَ: إِنَّهُ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ کَمَا فَرَضْتُهُ عَلَيْکَ فِي امِّ الْکِتَابِ قَالَ: فَکُلُّ حَسَنَةٍ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا فَهِيَ خَمْسُوْنَ فِي امِّ الْکِتَابِ وَهِيَ خَمْسٌ عَلَيْکَ فَرَجَعَ إِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ: کَيْفَ فَعَلْتَ؟ فَقَالَ: خَفَّفَ عَنَّا اَعْطَانَا بِکُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ اَمْثَالِهَا قَالَ مُوْسٰی: قَدْ وَاللهِ، رَاوَدْتُ بَنِي إِسْرَائِیلَ عَلٰی اَدْنٰی مِنْ ذَالِکَ فَتَرَکُوْهُ ارْجِعْ إِلٰی رَبِّکَ فَلْيُخَفِّفْ عَنْکَ يْضًا قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَا مُوْسٰی، قَدْ وَاللهِ، اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي مِمَّا اخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ قَالَ: فَاهْبِطْ بِاسْمِ اللهِ قَالَ: وَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ فِي مَسْجِدِ الْحَرَامِ…الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه وَاَبُوْ عَوَانَهَ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قوله: وکلّم الله موسی تکليما، 6/ 3730، 2731، الرقم: 7079، وابو عوانة في المسند، 1/ 136، 137، وابن منده في الإيمان، 2/ 715، 716، الرقم: 712، والبيهقي في السنن الکبری، 1/ 360، الرقم: 1571، والطبري في جامع البيان، 15/ 45، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 45.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جس رات حضور نبی اکرم ﷺ کو خانہ کعبہ سے معراج کروائی گئی _اِس کے بعد وہ طویل روایت میں بیان کرتے ہیں_ یہاں تک کہ سدرۃ المنتہی کا مقام آ گیا۔ پھر آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے نزدیک ہوئے، پھر اور قریب ہوئے، یہاں تک کہ الله تعالیٰ سے دو کمان کا فاصلہ رہ گیا یا اِس سے بھی کم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر جو چاہی وحی فرمائی اور آپ ﷺ کی اُمت پر رات دن میں روزانہ پچاس نمازوں کی وحی فرمائی گئی۔ پھر آپ ﷺ نیچے اُترے یہاں تک کہ حضرت موسیٰں تک پہنچے تو حضرت موسیٰ عليہ السلام نے آپ کو روک کر کہا، اے محمد! آپ کے رب نے آپ سے کیا عہد لیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے روزانہ پچاس نمازوں کا عہد لیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا: آپ کی اُمت سے یہ نہیں ہو سکے گا، لہذا واپس جائیے اور اس میں اپنے رب سے کمی کروائیے۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل عليہ السلام کی طرف دیکھا گویا آپ ﷺ اُن سے مشورہ فرما رہے تھے۔ حضرت جبرائیل عليہ السلام نے اشارہ کیا کہ اگر آپ چاہیں تو ضرور ایسا کریں۔ پھر آپ ﷺ کو اُوپر لے گئے یعنی پہلی جگہ پر اور عرض گزار ہوئے: اے رب! ہم سے کمی فرما کیونکہ میری اُمت اتنی طاقت نہیں رکھتی۔ پس الله تعالیٰ نے آپ ﷺ سے دس نمازوں کی کمی فرما دی۔ پھر آپ ﷺ ، حضرت موسیٰ عليہ السلام کے پاس واپس لوٹے تو اُنہوں نے آپ کو روک لیا۔ پس برابر حضرت موسیٰ عليہ السلام آپ کو بارگاہ الٰہیہ کی طرف لوٹاتے رہے یہاں تک کہ تعداد پانچ نمازوں تک آ پہنچی۔ پانچ نمازوں پر بھی حضرت موسیٰ عليہ السلام نے آپ کو روکا اور کہا کہ اے محمد! میں اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس سے کم نمازوں پر آزما چکا ہوں تو وہ کمزور پڑ گئے اور چھوڑ بیٹھے تھے، جبکہ آپ کی اُمت تو جسمانی، قلبی، بدنی، نظری اور سمعی لحاظ سے بہت کمزور ہے۔ لہذا واپس جا کر اپنے رب سے اور کمی کروائیے۔ حضور نبی اکرم ﷺ ہر دفعہ حضرت جبرائیل کی طرف مشورے کی غرض سے دیکھتے تھے اور حضرت جبرائیل اس کو ناپسند نہیں فرماتے تھے۔ پس پانچویں دفعہ بھی آپ ﷺ کو اُوپر لے گئے۔ عرض گزار ہوئے: اے رب! میری اُمت جسمانی، قلبی، سمعی اور بدنی لحاظ سے کمزور ہے، لہذا ہمارے لیے اور کمی فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! آپ ﷺ عرض گزار ہوئے کہ میں حاضر و مستعد ہوں۔ فرمایا: میرے نزدیک یہ بات بدلا نہیں کرتی جیسا کہ میں نے آپ پر اُم الکتاب میں فرض کیا ہے۔ پس یہ ثواب کے لحاظ سے لوح محفوظ میں پچاس ہیں اور پڑھنے کے لیے تم پر پانچ فرض ہیں۔ پس آپ ﷺ حضرت موسیٰ کی طرف لوٹے۔ اُنہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ کہا کہ ہمارے لیے یہ کمی فرمائی گئی کہ ہمیں ہر نیکی کا ثواب دس گنا عطا فرمایا گیا۔ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے کہا: خدا کی قسم! میں اس سے کم نمازوں پر بنی اسرائیل کو آزما چکا ہوں، پھر بھی وہ چھوڑ بیٹھے تھے لہذا اپنے رب کی طرف جائیے اور مزید کمی کروائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے موسیٰ! خدا کی قسم مجھے اپنے رب کے حضور بار بار جانے کے باعث اب شرم آتی ہے۔ تو انہوں نے کہا: تب اللہ کا نام لے کر اُتر جائیے۔ راوی کا بیان ہے کہ جب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو مسجد حرام میں تھے۔‘‘

اِسے امام بخاری، ابن مندہ اور ابو عوانہ نے روایت کیا ہے۔

174/ 4. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قُلْتُ لِاَبِي ذَرٍّ رضی الله تعالیٰ عنه: لَوْ اَدْرَکْتُ النَّبِيَّ ﷺ لَسَاَلْتُهُ. فَقَالَ: عَمَّا کُنْتَ تَسْاَلُهُ؟ قُلْتُ: اَسْاَلُهُ هَلْ رَاَی مُحَمَّدٌ ﷺ رَبَّهُ؟ فَقَالَ: قَدْ سَاَلْتُهُ فَقَالَ: نُوْرٌ اَنّٰی اَرَهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة النجم، 5/ 396، الرقم: 3282، واحمد بن حنبل في المسند، 5/ 170، الرقم: 21537.

’’حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: اگر میں حضور نبی اکرم ﷺ کو پاتا تو آپ ﷺ سے ایک بات پوچھتا۔ اُنہوں نے فرمایا: کیا بات پوچھتے؟ میں نے کہا میں پوچھتا: (یا رسول الله !) کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے پوچھا تھا تو حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نور ہے اور میں نے اُسے جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

175/ 5. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ شَقِيْقٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قُلْتُ لِاَبِي ذَرٍّ رضی الله تعالیٰ عنه: لَوْ رَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ لَسَاَلْتُهُ قَالَ: وَمَا کُنْتَ تَسْاَلُهُ؟ قَالَ: کُنْتُ اَسْاَلُهُ هَلْ رَاَی رَبَّهُ قَالَ: فَإِنِّي قَدْ سَاَلْتُهُ فَقَالَ: قَدْ رَيْتُهُ، نُوْرًا اَنّٰی اَرَهُ.

رَوَاهُ اَحْمَدُ.

اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 5/ 147، الرقم: 21351، وابن کثیر في تفسير القرآن العظيم، 4/ 253.

’’حضرت عبد اللہ بن شقیق سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: اگر میں حضور نبی اکرم ﷺ کو پاتا تو آپ ﷺ سے ایک بات ضرور پوچھتا۔ اُنہوں نے فرمایا: کیا بات پوچھتے؟ میں نے عرض کیا: میں پوچھتا: (یا رسول الله !) کیا آپ نے اپنے رب کا دیدار کیا ہے؟ حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: میں نے پوچھا تھا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے اور بے شک میں نے جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔‘‘

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

176/ 6. عَنْ کَعْبٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: إِنَّ اللهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَکَـلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوْسٰی عليهما السلام. فَکَلَّمَ مُوْسٰی عليه السلام مَرَّتَيْنِ وَرَهُ مُحَمَّدٌ ﷺ مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة والنجم، 5/ 368، الرقم: 3278، والحاکم في المستدرک، 2/ 629، الرقم: 4099، وعبد الله بن أحمد في السنة، 1/ 286، الرقم: 548، ورجاله ثقات، وابن راهويه في المسند، 3/ 790، الرقم: 1421، وابن النجاد في الرد علی من يقول القرآن مخلوق، 1/ 37، الرقم: 17.

’’حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک الله تعالیٰ نے اپنی رؤیت (دیدار) اور اپنے کلام کو حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت موسیٰ عليہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا۔ پس الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰں کے ساتھ دو مرتبہ کلام فرمایا اور محمد مصطفی ﷺ نے الله تعالیٰ کو دو مرتبہ دیکھا۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔

177/ 7. عَنْ عِکْرِمَهَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: رَاَی مُحَمَّدٌ ﷺ رَبَّهُ. قُلْتُ: اَلَيْسَ اللهُ يَقُوْلُ: {لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ، وَهُوَ يُدْرِکُ الْاَبْصَارَ}؟ [الانعام، 6: 103]، قَالَ: وَيْحَکَ ذَاکَ إِذَا تَجَلّٰی بِنُوْرِهِ الَّذِي هُوَ نُوْرُهُ، وَقَالَ: ارِيَهُ مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة النجم، 5/ 395، الرقم: 3279، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 521، الرقم: 920، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 606، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 251.

’’حضرت عکرمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔ حضرت عکرمہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا: کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیںاور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘؟ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: تم پر افسوس ہے یہ تو اُس وقت ہے جب وہ اپنے ذاتی نور سے جلوہ گر ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کو جلوہ خدا دو مرتبہ دکھایا گیا ہے۔‘‘

اِسے ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

178/ 8. عَنْ عِکْرِمَهَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّهُ سُئِلَ: هَلْ رَاَی مُحَمَّدٌ ﷺ رَبَّهُ؟ قَالَ: نَعَمْ رَاَی کَانَ قَدَمَيْهِ عَلٰی خُضْرَةٍ دُوْنَهُ سِتْرٌ مِنْ لُوْلُوٍ. فَقُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، اَلَيْسَ يَقُوْلُ اللهُ: {لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِکُ الْاَبْصَارَ} [الانعام، 6: 103]؟ قَالَ: يَا لَا امَّ لَکَ ذَاکَ نُوْرُهُ وَهُوَ نُوْرُهُ إِذَا تَجَلَّی بِنُوْرِهِ لَا يُدْرِکُهُ شَيئٌ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

اخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 346، الرقم: 3234، والسيوطي في الدر المنثور، 7/ 570.

’’حضرت عکرمہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ اُن سے پوچھا گیا: کیا حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں، اور اُس کے قدم (اُس کی شان کے لائق) سر سبز و شاداب جگہ پر تھے۔ جس کے سامنے موتیوں کا ایک پردہ تھا تو میں نے عرض کیا: اے ابن عباس! کیا الله تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا: ’’نگاہیں اُس کا احاطہ نہیں کر سکتیںاور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایاـ: اے، تیری ماں نہ رہے! یہ اُس کے نور کے بارے میں ہے کیونکہ اُس کا نور جب اپنی روشنی کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے تو اُسے کوئی چیز نہیں پا سکتی۔‘‘

اِسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

179/ 9. عَنْ اَبِي الْعَالِيَةِ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: سُئِلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: هَلْ رَيْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ: رَيْتُ نَهَرًا وَرَيْتُ وَرَاءَ النَّهَرِ حِجَابًا وَرَيْتُ وَرَاءَ الْحِجَابِ نُوْرًا، لَمْ اَرَ غَيْرَ ذَالِکَ. رَوَاهُ ابْنُ اَبِي حَاتِمٍ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

اخرجه ابن ابي حاتم في تفسير القرآن العظيم، 10/ 3319، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 251، والسيوطي في الدر المنثور، 7/ 648.

’’حضرت ابو العالیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا گیا: (یا رسول الله !) کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ایک نہر دیکھی، نہر کے پیچھے ایک پردہ دیکھا اور اُس پردے کے پیچھے میں نے ایک نور دیکھا۔ اِس کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا۔‘‘

اسے امام ابن ابی حاتم اور حافظ ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔

180/ 10. عَنْ عَبَّادِ بْنِ مَنْصُوْرٍ قَالَ: سَاَلْتُ عِکْرِمَهَ {مَا کَذَبَ الْفُوَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، فَقَالَ عِکْرِمَةُ: تُرِيْدُ اَنْ اخْبِرَکَ اَنَّهُ قَدْ رَاهُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: قَدْ رَاهُ، ثُمَّ قَدْ رَهُ. قَالَ: فَسَاَلْتُ عَنْهُ الْحَسَنَ فَقَالَ: رَاَی جَـلَالَهُ وَعَظَمَتَهُ وَرِدَائَهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

اخرجه ابن ابي حاتم في تفسير القرآن العظيم، 10/ 3318، 3319، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 251.

’’حضرت عباد بن منصور رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مَا کَذَبَ الْفُوَادُ مَا رَاَء ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘ کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں تمہیں اس بات کے بارے میں بتاؤں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے الله تعالیٰ کو دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ اُنہوں نے فرمایا: ہاں حضور نبی اکرم ﷺ نے الله تعالیٰ کو دیکھا تھا، ہاں آپ ﷺ نے الله تعالیٰ کو دیکھا تھا۔ حضرت عباد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اس بارے میں حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے الله تعالیٰ کے جلال، عظمت اور الله تعالیٰ کی چادرِ رحمت کو دیکھا۔‘‘

اِسے امام ابن ابی حاتم اور حافظ ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔

181/ 11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِ اللهِ: {وَلَقَدْ رَاهُ نَزْلَةً اخْرَیo عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰیo} [النجم، 53: 13، 14]، {فَاَوْحٰی إِلٰی عَبْدِهِ مَا اَوْحٰیo} [النجم، 53: 10]، {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo} [النجم، 53: 9]، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: قَدْ رَاهُ النَّبِيُّ ﷺ .

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة النجم، 5/ 395، الرقم: 3280، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 515، 516، الرقم: 906، والطبري في جامع البيان، 27/ 52، والسيوطي في الدر المنثور، 7/ 569.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے الله تعالیٰ کے ان فرامین {وَلَقَدْ رَهُ نَزْلَةً اخْرَیo عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی} ’’اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔ سِدرۃ المنتھیٰ کے قریب۔‘‘، {فَاَوْحٰی إِلٰی عَبْدِهِ مَا اَوْحٰیo} ’’پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (الله) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔‘‘، {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo}’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا ہے۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

182/ 12. عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما کَعْبًا بِعَرَفَهَ، فَسَاَلَهُ عَنْ شَيئٍ فَکَبَّرَ حَتّٰی جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: إِنَّا بَنُوْ هَاشِمٍ. فَقَالَ کَعْبٌ: إِنَّ اللهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَکَـلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوْسٰی، فَکَلَّمَ مُوْسٰی مَرَّتَيْنِ وَرَهُ مُحَمَّدٌ مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة النجم، 5/ 394، الرقم: 3278، وابن ابي شیبة في المصنف، 6/ 333، الرقم: 31838، والطبري في جامع البیان، 27/ 51، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 251.

’’حضرت شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے عرفات میں حضرت کعب سے ملاقات کی اور اُن سے کوئی بات دریافت کی، اِس پر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ پہاڑ گونج اُٹھے۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: ہم بنو ہاشم ہیں۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار و کلام حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت موسیٰ عليہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ عليہ السلام نے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے شرفِ ہم کلامی حاصل کیا اور دو ہی مرتبہ حضور نبی اکرم ﷺ دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوئے۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

183/ 13. وفي روایة عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: لَقِيَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما کَعْبًا بِعَرَفَهَ فَسَاَلَهُ عَنْ شَيئٍ فَکَبَّرَ حَتّٰی جَاوَبَتْهُ الْجِبَالُ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّا بَنُوْ هَاشِمٍ نَزْعَمُ اَنْ نَقُوْلَ: إِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ رَاَی رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ فَقَالَ کَعْبٌ: إِنَّ اللهَ قَسَمَ رُؤْيَتَهُ وَکَـلَامَهُ بَيْنَ مُحَمَّدٍ وَمُوْسٰی فَرَاَی مُحَمَّدٌ رَبَّهُ مَرَّتَيْنِ وَکَلَّمَ مُوْسٰی مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 569.

’’حضرت شعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے عرفات میں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کوئی بات دریافت کی، اِس پر حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ پہاڑ گونج اُٹھے۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: ہم بنوہاشم ہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمیں یہ کہنا چاہئے: بے شک حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا ہے۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنا دیدار و کلام حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت موسیٰ عليہ السلام کے درمیان تقسیم فرمایا ہے۔ سو حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ دیکھا اور حضرت موسیٰ عليہ السلام نے دو مرتبہ اللہ تعالیٰ سے شرفِ ہم کلامی حاصل کیا۔‘‘ اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

184/ 14. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: اَتَعْجَبُوْنَ اَنْ تَکُوْنَ الْخِلَّةُ لِإِبْرَهِيْمَ وَالْکَلَامُ لِمُوْسٰی وَالْرُّؤْيَةُ لِمُحَمَّدٍ؟

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ مَنْدَہ وَابْنُ اَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ وَلَهُ شَهِدٌ صَحِيْحٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي الرُّؤْيَةِ.

اخرجه النسائي في السنن الکبری، باب قوله تعالٰی: ما کذب الفؤاد وما رای، 6/ 472، الرقم: 11539، وایضًا، 2/ 309، 509، الرقم: 3114، 3747، وابن منده في الإیمان، 2/ 761، الرقم: 762، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 192، الرقم: 442، والحاکم في المستدرک، 1/ 133، الرقم: 216، والدار قطني في رؤیة الله، 1/ 184، 189، الرقم: 293، 312، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 515، الرقم: 905، والزرکشي في الإجابة، 1/ 95، الرقم: 95، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 6/ 215، وایضًا، 61/ 104، والعسقلاني في فتح الباري، 8/ 608، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 251، والسیوطي في الدر المنثور، 2/ 3.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں: کیا تم یہ بات پسند کرتے ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے الله تعالیٰ کی دوستی ہو، حضرت موسیٰ عليہ السلام کے لئے الله تعالیٰ کے ساتھ کلام فرمانا اور حضرت محمد ﷺ کے لیے الله تعالیٰ کا دیدار ہو؟‘‘

اِسے امام نسائی، حاکم، ابن مندہ اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

185/ 15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: رَاَی مُحَمَّدٌ ﷺ رَبَّهُ ل مَرَّتَيْنِ: مَرَّةً بِبَصِرِهِ وَمَرَّةً بِفُؤَادِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

15: اخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 90، الرقم: 12564، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 79، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 569.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دو بار دیکھا: ایک بار جسمانی آنکھ سے اور ایک بار دل سے۔‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

186/ 16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: رَيْتُ رَبِيّ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ اَبِي عَاصِمٍ.

اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1/ 285، الرقم: 2580، وایضًا، 1/ 290، الرقم: 2634، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 513، الرقم: 896، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 188، الرقم: 433، والهیثمي في مجمع الزوائد، 1/ 78، والعیني في عمدة القاري، 15/ 143، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 251.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔‘‘

اِسے امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

187/ 17. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ رَاَی رَبَّهُ بِعَيْنِهِ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 569.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

188/ 18. عَنْ اَنَسٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: رَاَی مَحَمَّدٌ ﷺ رَبَّهُ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 569.

’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دیکھا۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

189/ 19. قَالَ الْبَغَوِيُّ: ذَهَبَ جَمَاعَةٌ إِلٰی اَنَّهُ رَهُ بِعَيْنِهِ. وَهُوَ قَوْلُ اَنَسٍ وَالْحَسَنِ وَعِکْرِمَهَ.

رَوَاهُ الْبَغَوِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

اخرجه البغوي في معالم التنزیل، 4/ 247، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 250.

’’امام بغوی فرماتے ہیں: ایک جماعت نے اس قول کو اختیار کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے الله رب العزت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور یہ قول حضرت انس، حضرت حسن بصری اور حضرت عکرمہ رضوان اللہ علیهم اجمعین کا ہے۔‘‘

اِسے امام بغوی اور حافظ ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔

190/ 20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: اَتَانِي اللَّيْلَهَ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِي اَحْسَنِ صُوْرَةٍ قَالَ: اَحْسِبُهُ قَالَ فِي الْمَنَامِ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قَالَ: قُلْتُ: لَا. قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ اَوْ قَالَ: فِي نَحْرِي. فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ. قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: فِي الْکَفَّارَاتِ. وَالْکَفَّارَاتُ: اَلْمُکْثُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَالْمَشْيُ عَلَی الْاَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ فِي الْمَکَارِهِ. وَمَنْ فَعَلَ ذَالِکَ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَکَانَ مِنْ خَطِيْئَتِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ امُّهُ. وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِذَا صَلَّيْتَ فَقُلْ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُکَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِيْنِ وَإِذَا اَرَدْتَ بِعِبَادِکَ فِتْنَةً فَاقْبِضْنِي إِلَيْکَ غَيْرَ مَفْتُوْنٍ. قَالَ: وَالدَّرَجَاتُ إِفْشَائُ السَّلَامِ وَإِطْعَامُ الطَّعَامِ وَالصَّلَةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَمَالِکٌ وَاَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة صٓ، 5/ 366، الرقم: 3233، ومالک في الموطا، کتاب القرآن، باب العمل في الدعاء، 1/ 218، الرقم: 508، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 368، الرقم: 3484، 5/ 243، الرقم: 22162، والحاکم في المستدرک، 1/ 708، الرقم: 1932، والطبراني في المعجم الکبیر، 20/ 109، الرقم: 216، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 228، الرقم: 682، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 159، الرقم: 591، والهیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 177.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: آج رات میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ فرمایا: خواب میں آیا اور فرمایا: یا محمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ تو الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی۔(راوی کو شک ہے کہ حضور ﷺ نے بین ثدي فرمایا یا في نحري فرمایا) اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پھر پوچھا: اے محمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: ہاں رب جانتا ہوں کفارات کے بارے میں بحث کر رہے ہیں اور کفارات یہ ہیں: نماز کے بعد مسجد میں ٹھہرنا، باجماعت نماز کے لیے (مساجد کی طرف) پیدل چل کر جانا اور مشقت کے وقت کامل وضو کرنا۔ جس نے ایسا کیا وہ بھلائی کے ساتھ زندہ رہا اور اسے بھلائی پر ہی موت آئی، وہ گناہوں سے ایسے پاک ہو گا جیسے پیدائش کے وقت تھا۔ نیز الله تعالی نے فرمایا: اے محمد! جب آپ نماز ادا کر چکیں تو یہ دعا مانگیں: اے الله ! میں تجھ سے اچھے اعمال کے اپنانے، برے اعمال کو چھوڑنے اور مساکین کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور جب تو اپنے بندوں کو آزمانے کا ارادہ کرے تو مجھے اس سے پہلے ہی بغیر آزمائے اپنے پاس بلا لے۔ درجات یہ ہیں سلام کا پھیلانا، کھانا کھلانا اور رات کو نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘

اِسے امام ترمذی، مالک اور احمدنے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے، جب کہ امام حاکم نے بھی اِسے صحیح قرار دیا ہے۔

191/ 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: اَتَانِي رَبِّي فِي اَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْکَ رَبِّ وَسَعْدَيْکَ قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: رَبِّ لَا اَدْرِي. فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقُلْتُ: لَبَّيْکَ رَبِّ وَسَعْدَيْکَ قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: فِي الدَّرَجَاتِ وَالْکَفَّارَاتِ وَفِي نَقْلِ الْاَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَإِسْبَاغِ الْوُضُوْئِ فِي الْمَکْرُوْهَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَةِ بَعْدَ الصَّلَةِ وَمَنْ يُحَافِظْ عَلَيْهِنَّ عَاشَ بِخَيْرٍ وَمَاتَ بِخَيْرٍ وَکَانَ مِنْ ذُنُوْبِهِ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ امُّهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

أخرجه الترمذي في السنن،کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة صٓ، 5/ 367، الرقم: 3234.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (معراج کی رات) میرا رب میرے پاس (اپنی شان کے لائق) نہایت حسین صورت میں آیا اور فرمایا: یا محمد! میں نے عرض کیا: میرے پروردگار! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ فرمایا: عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ تو الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی اور میں وہ سب کچھ جان گیا جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔ الله تعالیٰ نے پھر فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا: اے رب! میں حاضر ہوں بار بار حاضر ہوں۔ عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کفارات، درجات، مساجد کی طرف چل کر جانے، تکلیف و مشقت کے وقت کامل وضو کرنے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں (بحچ کرتے ہیں)۔ جس نے اِن اعمال کی حفاظت کی اُس نے زندگی بھی اچھی گزاری اور اُس کی موت بھی بہتر ہو گی اور وہ گناہوں سے ایسے پاک ہوگا جیسے پیدائش کے دن تھا۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

192/ 22. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: احْتُبِسَ عَنَّا رَسُوْلُ اللهِ ﷺ ذَاتَ غَدَةٍ عَنْ صَلَةِ الصُّبْحِ حَتّٰی کِدْنَا نَتَرَائَی عَيْنَ الشَّمْسِ فَخَرَجَ سَرِيْعًا فَثُوِّبَ بِالصَّلَةِ فَصَلَّی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ دَعَا بِصَوْتِهِ فَقَالَ لَنَا: عَلٰی مَصَافِّکُمْ کَمَا اَنْتُمْ ثُمَّ انْفَتَلَ إِلَيْنَا ثُمَّ قَالَ: اَمَا إِنِّي سَاحَدِّثُکُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْکُمُ الْغَدَهَ اَنِّي قُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ فَتَوَضَّاْتُ وَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي فَاسْتَثْقَلْتُ فَإِذَا اَنَا بِرَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فِي اَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْکَ رَبِّ قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: لَا اَدْرِي رَبِّ. قَالَهَا ثَـلَاثًا. قَالَ: فَرَيْتُهُ وَضَعَ کَفَّهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ حَتّٰی وَجَدْتُ بَرْدَ اَنَامِلِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَتَجَلّٰی لِي کُلُّ شَيئٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، قُلْتُ: لَبَّيْکَ رَبِّ قَالَ: فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَـلَا الْاَعْلٰی؟ قُلْتُ: فِي الْکَفَّارَاتِ. قَالَ: مَا هُنَّ؟ قُلْتُ مَشْيُ الْاَقْدَامِ إِلَی الْجَمَاعَاتِ وَالْجُلُوْسُ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَوَاتِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوْئِ فِي الْمَکْرُوْهَاتِ. قَالَ: ثُمَّ فِيْمَ؟ قُلْتُ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَلِيْنُ الْکَلَامِ وَالصَّلَةُ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ. قَالَ: سَلْ: قُلْ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي اَسْاَلُکَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِيْنِ وَاَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي، وَإِذَا اَرَدْتَ فِتْنَهَ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُوْنٍ اَسْاَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُ إِلٰی حُبِّکَ. قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوْهَا ثُمَّ تَعَلَّمُوْهَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ سَاَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمٰعِيْلَ (اَي البخاري) عَنْ هٰذَا الْحَدِيْثِ فَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة صٓ، 5/ 368، الرقم: 3235.

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نمازِ فجر کے وقت حضور نبی اکرم ﷺ کو ہمارے پاس تشریف لانے میں تاخیر ہو گئی یہاں تک کہ قریب تھا ہم سورج کی ٹکیہ دیکھ لیتے۔ اتنے میں آپ ﷺ جلدی جلدی تشریف لائے، نماز کے لیے تکبیر کہی گئی اور آپ ﷺ نے اختصار کے ساتھ نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد ہمیں بآواز بلند فرمایا: اپنی صفوں میں ٹھہرے رہو، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں بتاتا ہوں کہ آج صبح کس چیز نے مجھے تمہارے پاس آنے سے روکا، (فرمایا) میں رات کو اُٹھا، وضو کیا اور جس قدر نماز (تہجد) میرے لیے مقدر تھی پڑھی، نماز میںمجھے اونگھ آنے لگی حتی کہ مجھ پر نیند غالب آ گئی، اچانک میں نے اپنے رب کو نہایت اچھی صورت میں دیکھا، الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا: اے میرے رب! میں حاضر ہوں، فرمایا: عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میں نہیں جانتا۔ تین مرتبہ یہی کہا، پھر فرمایا: میں نے دیکھا کہ الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت (اپنی شان کے مطابق) میرے شانوں کے درمیان رکھا تو میں نے اُس کے پوروں کی ٹھنڈک اپنے سینے کے درمیان محسوس کی۔ پھر میرے لیے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے ہر چیز کو پہچان لیا۔ پھر الله تعالیٰ نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا: حاضر ہوں، اے رب! فرمایا: مقرب فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کفارات میں۔ فرمایا: وہ کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا: باجماعت نماز کے لیے (مساجد کی طرف) چل کر جانا، نماز کے بعد مسجد میں بیٹھنا اور تکلیف کی حالت میں کامل وضو کرنا، فرمایا: مزید کس چیز میں؟ میں نے عرض کیا: کھانا کھلانا، نرم گفتگو کرنا اور رات کو نماز پڑھنا جب لوگ سوئے ہوئے ہوں، پھر الله تعالیٰ نے فرمایا: یوں دعا مانگو: اے الله ! میں تجھ سے نیک کام کرنے، برائیوں کے چھوڑنے اور مساکین سے محبت کرنے کا سوال کرتا ہوں، اور یہ کہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما، اور جب کسی قوم کو فتنہ میں مبتلا کرے تو مجھے فتنہ سے محفوظ، موت دے۔ (اے الله !) میں تجھ سے تیری محبت، اور تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور ایسے عمل کی محبت کاسوال کرتا ہوں جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ حق ہے اسے پڑھو اور سیکھو۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔(نیز فرمایا:) میں نے امام محمد بن اسماعیل بخاری (صاحب الصحیح) سے اِس حدیث کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

193/ 23. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: رَيْتُ رَبِّي فِي اَحْسَنِ صُوْرَةٍ فَقَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ، هَلْ تَدْرِي فِيْمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَا الْاَعْلَی فَقُلْتُ: لَا يَا رَبِّ، فَوَضَعَ يَدَهُ بَيْنَ کَتِفَيَّ فَوَجَدْتُ بَرْدَهَا بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَعَلِمْتُ مَا فِي السَّمَائِ وَالْاَرْضِ فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، فِي الدَّرَجَاتِ وَالْکَفَّارَاتِ وَنَقْلِ الْاَقْدَامِ إِلَی الْجُمُعَاتِ وَانْتِظَارِ الصَّلَةِ بَعْدَ الصَّلَةِ فَقُلْتُ: يَا رَبِّ، إِنَّکَ اتَّخَذْتَ إِبْرَهِيْمَ خَلِيْلاً، وَکَلَّمْتَ مُوْسَی تَکْلِيْمًا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ، فَقَالَ: اَلَمْ اَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ اَلَمْ اَضَعْ عَنْکَ وِزْرَکَ؟ اَلَمْ اَفْعَلْ بِکَ، اَلَمْ اَفْعَلْ؟ قَالَ: فَاَفْضٰی إِلَيَّ بِاَشْيَاءَ لَمْ يُؤْذَنْ لِي اَنْ احَدِّثَکُمُوْهَا، قَالَ: فَذَالِکَ قَوْلُهُ فِي کِتَابِهِ يُحَدِّثُکُمُوْهُ {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰیo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo} [النجم، 53: 8-11]، فَجَعَلَ نُوْرَ بَصَرِي فِي فُؤَادِي فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ بِفُؤَادِي.

رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ اَبِي حَاتِمٍ.

اخرجه الطبري في جامع البیان ، 27/ 48، وابن ابي حاتم في تفسیر القرآن العظیم، 10/ 3446، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 252، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 647، 648.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے رب کو نہایت حسین صورت میں دیکھا۔ الله تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! کیا آپ جانتے ہیں کہ عالمِ بالا کے فرشتے کس بات میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اے میرے پروردگار! میں نہیں جانتا۔ پس الله تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت میرے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا اور میں نے اپنے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس کی لہٰذا میں نے زمین و آسمان میں جو کچھ تھا وہ سب جان لیا۔ پھر میں نے عرض کیا: اے رب! کفارات، درجات، نمازِ جمعہ کے لئے مساجد کی طرف چل کر جانے، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں (بحث کرتے ہیں)۔ پھر میں نے عرض کیا: اے میرے رب! تُو نے حضرت ابراہیم عليہ السلام کو اپنا خلیل بنایا، حضرت موسیٰ عليہ السلام کو اپنے ساتھ کلام سے سرفراز فرمایا اور تُو نے فلاں فلاں کام کیا۔ الله رب العزت نے فرمایا: (اے محبوب!) کیا میں نے آپ کے لئے آپ کا سینہ کھول نہیں دیا، کیا میں نے غمِ اُمت کا بوجھ آپ سے اُتار نہیں دیا؟ کیا میں نے آپ کے لئے یہ نہیں کیا، وہ نہیں کیا؟ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر الله تعالیٰ نے مجھے وہ چیزیں عطا فرمائیں جن کے بارے میں تمہیں بتانے کی مجھے اجازت نہیں ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: یہی قرآن میں وہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے جو وہ تمہیں بیان کرتا ہے: ’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (الله) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔ (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘۔ پھر الله تعالیٰ نے میری آنکھوں کا نور میرے دل میں منتقل فرما دیا، پس میں نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام طبری اور امام ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے۔

194/ 24. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: رَاهُ بِقَلْبِهِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الإیمان، باب معنی قول الله: {ولقد رآہ نزلة آخری} وهل رای النبي ﷺ ربه لیلة الإسراء، 1/ 158، الرقم: 176، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 518، الرقم: 913، وابن منده في الإیمان، 2/ 759، الرقم: 755.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے قلب اطہر سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

195/ 25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، {وَلَقَدْ رَهُ نَزْلَةً اخْرَیo} [النجم، 53: 13]، قَالَ: رَهُ بِفُؤَادِهِ مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

اخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الایمان، باب معنی قول الله: {ولقد رآہ نزلة آخری} وهل رای النبي ﷺ ربہ لیلة الإسراء، 1/ 158، الرقم: 176، وابو عوانة في المسند، 1/ 133، الرقم: 398، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 519، الرقم: 917، وابن مندہ في الإیمان، 2/ 759، الرقم: 754، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 250.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘ اور ’’اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔‘‘

اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

196/ 26. عَنْ عِکْرِمَهَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، قَالَ: رَهُ بِقَلْبِهِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة النجم، 5/ 396، الرقم: 3281، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 472، الرقم: 11535، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 3/ 518، الرقم: 910، وابن منده في الإیمان، 2/ 759، الرقم: 755، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 646.

’’حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما نے (سورۃ النجم کی) اِس آیت: ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘ کے بارے میں فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دل (کی آنکھوں) سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

197/ 27. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْعَـلَاءِ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، قَالَ: رَاَی مُحَمَّدٌ رَبَّهُ ل بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

اخرجه النسائي في السنن الکبری، کتاب التفسیر، من سورة النجم، 6/ 472، الرقم: 11535.

’’حضرت محمد بن العلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشادِ باری تعالیٰ ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

198/ 28. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِهِ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، قَالَ: رَاَی مُحَمَّدٌ رَبَّهُ بِقَلْبِهِ مَرَّتَيْنِ.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَابْنُ مَنْدَہ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ.

اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1/ 223، الرقم: 1956، وابن منده في الإیمان، 2/ 760، الرقم: 757، والدار قطني في رؤیة الله/ 23، الرقم: 3، وابو نعیم في المسند المستخرج، 1/ 241، الرقم: 440، والمزي في تهذیب الکمال، 9/ 456، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 568.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام احمد، ابن مندہ اور دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

199/ 29. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، رَيْتَ رَبَّکَ؟ قَالَ: رَيْتُهُ بِفُؤَادِي مَرَّتَيْنِ. ثُمَّ قَرَاَ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11].

رَوَاهُ ابْنُ کَثِيْرٍ.

اخرجه ابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 4/ 251

’’حضرت محمد بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا: یا رسول الله ! کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے الله تعالیٰ کو اپنے دل سے دو مرتبہ دیکھا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔‘‘

اِسے امام ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔

200/ 30. عَنْ اَبِي صَالِحٍ فِي قَوْلِهِ: {مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاَیo} [النجم، 53: 11]، قَالَ: رَهُ مَرَّتَيْنِ بِفُؤَادِهِ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 570.

’’حضرت ابو صالح رضی اللہ تعالیٰ عنہ الله تعالیٰ کے اِس فرمان ’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھاo‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ نے الله تعالیٰ کو دو مرتبہ اپنے دل سے دیکھا۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

201/ 31. عَنْ هَبَّارِ بْنِ الاَسْوَدِ قَالَ: کَانَ اَبُوْ لَهَبٍ وَابْنُهُ عُتَيْبَةُ تَجَهَزَا إِلَی الشَّامِ وَتَجَهَزْتُ مَعَهُمَا فَقَالَ ابْنُهُ عُتَيْبَةُ: وَاللهِ، لَاَنْطَلِقَنَّ إِلٰی مُحَمَّدٍ فَـلَاوْذِيَنَّهُ فِي رَبِّهِ سُبْحَانَهُ، فَاتِيَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، هُوَ يَکْفُرُ بِالَّذِي {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo} [النجم، 53: 8، 9]، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: اَللّٰهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ کَلْبًا مِنْ کِلَابِکَ. ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُ فَرَجَعَ إِلٰی اَبِيْهِ فَقَالَ: يَا بُنَيَّ، مَا قُلْتَ لَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: کَفَرْتُ بِالَّذِي {دَنَا فَتَدَلّٰی} [النجم، 53: 8]، قَالَ: فَمَا قَالَ لَکَ؟ قَالَ: قَالَ: اَللّٰهُمَّ سَلِّطْ عَلَيْهِ کَلْبًا مِنْ کِلَابِکَ. قَالَ: يَا بُنَيَّ، وَاللهِ، مَا آمَنُ عَلَيْکَ دُعَائَهُ فَسِرْنَا حَتّٰی نَزَلْنَا الشِّرَهَ وَهِيَ مَاْسَدَةٌ فَنَزَلْنَا إِلٰی صَوْمَعَةِ رَهِبٍ فَقَالَ الرَّهِبُ: يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ، مَا اَنْزَلَکُمْ هٰذِهِ الْبِلَادَ فَإِنَّمَا يَسْرَحُ الْاَسَدُ فِيْهَا کَمَا يَسْرَحُ الْغَنَمُ فَقَالَ لَنَا اَبُوْ لَهَبٍ: إِنَّکُمْ قَدْ عَرَفْتُمْ کِبْرَ سِنِّي وَحَقِّي فَقُلْنَا: اَجَلْ يَا اَبَا لَهَبٍ. فَقَالَ: إِنَّ هٰذَا الرَّجُلَ قَدْ دَعَا عَلَی ابْنِي دَعْوَةً وَاللهِ، مَا آمَنُهَا عَلَيْهِ فَاجْمَعُوْا مَتَاعَکُمْ إِلٰی هٰذِهِ الصَّوْمَعَةِ وَافْرَشُوْا لِابْنِي عَلَيْهَا ثُمَّ افْرَشُوْا حَوْلَهَا فَفَعَلْنَا فَجَمَعْنَا الْمَتَاعَ ثُمَّ فَرَشْنَا لَهُ عَلَيْهِ وَفَرَشْنَا حَوْلَهُ فَبِتْنَا نَحْنُ حَوْلَهُ وَاَبُوْ لَهَبٍ مَعَنَا اَسْفَلُ وَبَاتَ هُوَ فَوْقَ الْمَتَاعِ فَجَاءَ الْاَسَدُ فَشَمَّ وُجُوْهَنَا فَلَمَّا لَمْ يَجِدْ مَا يُرِيْدُ تَقَبَّضَ فَوَثَبَ وَثْبَةً فَإِذَا هُوَ فَوْقَ الْمَتَاعِ ثُمَّ هَزَمَهُ هَزْمَةً فَفَسَخَ رَاْسَهُ فَقَالَ اَبُوْ لَهَبٍ: قَدْ عَرَفْتُ اَنَّهُ لَا يَنْفَلِتُ مِنْ دَعْوَةِ مُحَمَّدٍ.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَاَبُوْ نُعِيْمٍ.

اخرجه ابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 67/ 161، 162، وابو نعیم في دلائل النبوة/ 220، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم مختصرًا، 4/ 249، والبیهقي في السنن الکبری مختصرًا، 5/ 211، الرقم: 9832.

’’حضرت ہبار بن اسود بیان کرتے ہیں کہ ابو لہب اور اس کے بیٹے عتیبہ نے سفر شام کی تیاری کی اور میں بھی اُن کے ساتھ تھا۔ ابو لہب کے بیٹے عتیبہ نے کہا: الله کی قسم! میں محمد ( ﷺ ) کی طرف ضرور بالضرور جاؤں گا اور اُنہیں اُن کے رب کے متعلق اذیت دوں گا۔ پس اُسے حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس لایا گیا اور اُس نے کہا: اے محمد! وہ (عتیبہ) اِس آیت کا انکار کرتا ہے: ’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا۔ پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اے الله ! اُس پر اپنے کتوں میں سے کوئی کتا مسلط فرما۔ پھر وہ وہاں سے لوٹ آیا اور اپنے والد کے پاس گیا تو اُس نے پوچھا: اے میرے بیٹے! تُو نے اُنہیں کیا کہا؟ اُس نے کہا: میں نے اُنہیں کہا: میں اِس آیت کا انکار کرتا ہوں: ’’وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا‘‘۔ ابو لہب نے کہا: پھر اُنہوں نے کیا کہا؟ اُس نے کہا: اُنہوں نے کہا: اے الله ! اِس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط فرما۔ اُس نے کہا: اے میرے بیٹے! بخدا! میں تجھے اُن کی تمہارے خلاف دعا (کے پورا ہونے) سے محفوظ نہیں سمجھتا۔ پس ہم چلے یہاں تک کہ ہم شراہ پہنچ گئے اور یہ جگہ شیر کی کچھار تھی۔ پس ہم نے وہاں راہب کی عبادت گاہ میں پڑاؤ ڈالا۔ راہب نے کہا: اے گروہِ عرب! تمہیں کس چیز نے یہاں پڑاو ڈالنے پر مجبور کیا ہے؟ اس جگہ تو شیر یوں گھومتے پھرتے ہیں جس طرح بکریاں۔ ابو لہب نے ہمیں کہا: تم میرے بڑھاپے میرے حقِ سرداری کو جانتے ہو۔ ہم نے کہا: ہاں، اے ابو لہب۔ اُس نے کہا: بے شک اس شخص (حضور نبی اکرم ﷺ ) نے میرے بیٹے کے خلاف دعا کی ہے اور بخدا میں اپنے بیٹے کو اس (دعا کے پورا ہونے) سے محفوظ نہیں سمجھتا۔ لہٰذا تم اپنا سارا مال و متاع اس عبادت گاہ میں جمع کر لو اور اس پر میرے بیٹے کا بستر لگا دو اور اس کے ارد گرد تم اپنے بستر لگا لو۔ پس ہم نے ایسا ہی کیا، اپنا مال و متاع جمع کر لیا اور اس پر عتیبہ کا بستر لگا دیا اور اُس کے ارد گرد اپنے بستر لگا لیے۔ ہم نے اِسی حال میں رات بسر کی اور ابو لہب بھی ہمارے ساتھ نیچے ہی سویا ہوا تھا۔ اچانک شیر آگیا اور اُس نے ہمارے چہرے سونگھنے شروع کر دئیے جب اُس نے اپنے مطلوبہ شخص کو نہ پایا تو وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور چھلانگ لگا کر مال و اسباب پر چڑھ گیا۔ اُس نے عتیبہ کو خوب روندھا اور اُس کا سر اُتار دیا۔ اِس پر ابو لہب نے کہا: میں جان گیا تھا کہ یہ محمد (مصطفی ﷺ ) کی دعا سے نہیں بچ سکتا۔‘‘

اِسے امام ابن عساکر اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

202/ 32. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo} [النجم، 53: 8]، قَالَ: هُوَ مُحَمَّدٌ ﷺ دَنٰی فَتَدَلّٰی إِلٰی رَبِّهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ اَبِي عَاصِمٍ.

اخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 11/ 150، الرقم: 11328، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 190، 191، الرقم: 438، والهیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 114، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo} ’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وہ حضرت محمد ﷺ ہیں جو اپنے رب کے قریب ہوئے اور پھر مزید قریب ہوئے۔‘‘

اِسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

203/ 33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی: {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنَیo} [النجم، 53: 9]، قَالَ: اَلْقَابُ اَلْقَيْدُ، وَالْقَوْسَيْنِ اَلذِّرَاعَيْنِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدِسِيُّ.

اخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 12/ 103، الرقم: 12603، والمقدسي في الاحادیث المختارة، 10/ 44، الرقم: 39، والهیثمي في مجمع الزوائد، 7/ 114، والعیني في عمدة القاري، 19/ 196، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ: {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo} ’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قاب‘‘ سے مراد فاصلہ ہے اور ’’قوسین‘‘ سے مراد دو ہاتھ ہیں۔‘‘

اِسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

2204/ 34. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo} [النجم، 53: 8]، قَالَ: دَنَا رَبَّهُ فَتَدَلّٰی.

رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ.

اخرجه الطبري في جامع البیان، 27/ 45، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ: {ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo} ’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد ﷺ سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہو گیا‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ اپنے رب کے قریب ہوئے اور پھر مزید قریب ہوئے۔‘‘

اِسے امام طبری اور امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

205/ 35. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی: {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ} [النجم، 53: 9]، قَالَ: کَانَ دُنُوُّهُ قَدْرَ قَوْسَيْنِ.

ولفظ عبد بن حمید قال: کَانَ بَيْنَهُ وبَيْنَهُ مِقْدَارُ قَوْسَيْنِ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 567

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ: {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ} ’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور نبی اکرم ﷺ کا الله تعالیٰ سے قرب دو کمانوں کے فاصلے کے برابر تھا۔‘‘

’’حضرت عبد بن حمید کے الفاظ یہ ہیں: الله تعالیٰ اور حضور نبی اکرم ﷺ کے درمیان دو کمانوں کا فاصلہ تھا۔‘‘

اسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

206/ 36. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما فِي قَوْلِهِ: {قَابَ قَوْسَيْنِ} [النجم، 53: 9]، قَالَ: ذِرَاعَيْنِ، اَلْقَابُ، اَلْمِقْدَارُ، اَلْقَوْسُ اَلذِّرَاعُ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما ارشادِ باری تعالیٰ: {قَابَ قَوْسَيْنِ} ’(جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قوسین سے مراد دو ہاتھ ہیں۔ ’’القاب‘‘ سے مراد مقدار اور ’’قوس‘‘ سے مراد ہاتھ ہے۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

207/ 37. عَنْ شَقِيْقِ بْنِ سَلَمَهَ فِي قَوْلِهِ: {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ} [النجم، 53: 9]، قَالَ: ذِرَاعَيْنِ وَالْقَوْسُ اَلذِّرَاعُ يُقَاسُ بِهِ کُلَّ شَيئٍ.

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت شقیق بن سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشادِ باری تعالیٰ: ’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا۔‘‘ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’قوسین‘‘ سے مراد دو ہاتھ ہیں۔ ’’قوس‘‘سے مراد ہاتھ ہے جس سے ہر چیز ماپی جاتی ہے۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

208/ 38. عَنْ اَبِي سَعَيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: لَمَّا اسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ اقْتَرَبَ مِنْ رَبِّهِ {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo} [النجم، 53: 9]، قَالَ: اَلَمْ تَرَ إِلَی الْقَوْسِ مَا اَقْرَبَهَا مِنَ الْوَتَرِ. رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه السیوطي في الدر المنثور، 7/ 567.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کو معراج کروائی گئی تو آپ ﷺ اپنے رب سے قریب ہوئے۔ آپ نے {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo} ’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘ کی تفسیر میں فرمایا: کیا تم نے کمان کو نہیں دیکھا کہ وہ اپنی تانت سے کتنی قریب ہوتی ہے۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

2209/ 39. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَمَّا عُرِجَ بِي مَضَی جِبْرِيْلُ حَتّٰی جَاءَ الْجَنَّهَ قَالَ: فَدَخَلْتُ فَاعْطِيْتُ الْکَوْثَرَ ثُمَّ مَضَی حَتّٰی جَاءَ السِّدْرَهَ الْمُنْتَهٰی فَدَنَا رَبُّکَ فَتَدَلّٰی {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰیo} [النجم، 53: 9، 10].

رَوَاهُ الطَّبَرِيُّ السُّيُوْطِيُّ.

اخرجه الطبري في جامع البیان، 27/ 47، والسیوطي في الدر المنثور، 7/ 574.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب مجھے معراج کروائی گئی تو حضرت جبریل عليہ السلام میرے آگے چلے حتی کہ جنت آ گئی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: سو میں جنت میں داخل ہوا اور مجھے حوضِ کوثر پر لایا گیا پھر ہم چلے حتی کہ سدرۃ المنتہی آ گیا پس وہاں تیرا رب قریب ہوا اور پھر مزید قریب ہوا۔ {فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهِ مَآ اَوْحٰیo} ’’پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم ﷺ میںصِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (الله) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔‘‘

اِسے امام طبری اور امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved