حضور ﷺ کے نبوی خصائصِ مبارکہ

حضور ﷺ کی ذات اقدس اور آپ کے آثار مبارکہ سے توسل کا بیان

بَابٌ فِي التَّوَسُّلِ بِالنَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم وَبِآثَارِهِ

210/ 1. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِيْنَارٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي الله عنهما يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ اَبِي طَالِبٍ:

وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْاَرَامِلٖ

وَقَالَ عُمَرُ بْنُ حَمْزَهَ: حَدَّثَنَا سَالِمٌ، عَنْ اَبِيْهِ: رُبَّمَا ذَکَرْتُ قَوْلَ الشَّاعِرِ، وَأَنَا اَنْظُرُ إِلٰی وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم يَسْتَسْقِي، فَمَا يَنْزِلُ حَتّٰی يَجِيْشَ کُلُّ مِيْزَابٍ.

وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلْاَرَامِلٖ

وَهُوَ قَوْلُ اَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

أخرجه البخاري في الصحیح،کتاب الاستسقاء، باب سؤال الناس الإمام الإستسقاء إذا قحطوا، 1/ 342، الرقم: 963، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیہا، باب ما جاء في الدعاء في الاستسقاء، 1/ 405، الرقم: 1272، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 93، الرقم: 5673،26، والبیهقي في السنن الکبری، 3/ 352، الرقم: 6218.6219، والخطیب البغدادي في تاریخ بغداد، 14/ 386، الرقم: 7700، والعسقلاني في تغلیق التعلیق، 2/ 389، الرقم: 1009، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 4/ 2، 471، والمزي في تحفة الاشراف، 5/ 359، الرقم: 6775.

’’حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کو حضرت ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:

’’وہ سفید مکھڑے والے (محمد مصطفی ﷺ ) کہ جن کے چہرہ اَنور کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘

حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ)نے اپنے والد ماجد سے روایت کیا کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رُخِ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ ﷺ (ابھی منبر سے) نیچے بھی تشریف نہ لاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابو طالب کا ہے۔‘‘

اِسے امام بخاری، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔

211/ 2. عَنْ عَائِشَهَ رضي الله عنها أَنَّهَا تَمَثَّلَتْ بِهٰذَا الْبَيْتِ وَأَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه يَقْضِي:

وَأَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
رَبِيْعُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلاَرَامِلٖ

فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه: ذَاکَ وَاللهِ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 7، الرقم: 26، وابن أبي شیبة في المصنف، 5/ 279، الرقم: 26067، وأیضًا، 6/ 535، الرقم: 31967، وأیضًا فيکتاب الأدب/ 381، الرقم: 414، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3/ 198، والمروزي في مسند ابي بکر رضی الله عنه، 1/ 91، الرقم: 39، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 272، والذهبي في میزان الاعتدال، 5/ 158.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ وہ یہ اَشعار پڑھا کرتی تھیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ (ان اَشعار کے بارے میں) فیصلہ فرماتے تھے:

’’وہ سفید (مکھڑے والے ﷺ ) جن کے چہرہ اَنور کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے۔ جو یتیموں کے والی اور بیواؤں کے سہارا ہیں۔‘‘

’’توحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر سن کر فرمایا: الله کی قسم! اس سے مراد حضور نبی اکرم ﷺ کی ذات والا صفات ہی ہے۔‘‘

اِسے امام اَحمد، ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔

212/ 3. وفي روایة: عَنْ جُلْهَمَهَ بْنِ عُرْفَطَهَ قَالَ: قَدِمْتُ مَکَّهَ وَهُمْ فِي قَحْطٍ فَقَالَتْ قُرَيْشٌ: يَا اَبَا طَالِبٍ، اقْحِطَ الْوَادِي وَاَجْدَبَ الْعِيَالُ، فَهَلُمَّ وَاسْتَسْقِ، فَخَرَجَ اَبُوْ طَالِبٍ، وَمَعَهُ غُـلَامٌ، کَاَنَّهُ شَمْسُ دَجْنٍ تَجَلَّتْ عَنْهُ سَحَابَةٌ قَتْمَاءُ وَحَوْلَهُ اغَيْلِمَةٌ، فَاَخَذَهُ اَبُوْ طَالِبٍ، فَاَلْصَقَ ظَهْرَهُ بِالْکَعْبَةِ، وَلَاذَ بِإِصْبَعِهِ الْغُـلَامَ، وَمَا فِي السَّمَاءِ قَزْعَةٌ، فَاَقْبَلَ السَّحَابُ مِنْ هَهُنَا وَهَهُنَا، وَاغْدَقَ وَاغْدَوْدَقَ وَانْفَجَرَ لَهُ الْوَادِي، وَاَخْصَبَ الْبَدِيُّ وَالنَّادِي، فَفِي ذَالِکَ يَقُوْلُ اَبُوْ طَالِبٍ:

وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَی الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ
ثِمَالُ الْيَتَامٰی عِصْمَةٌ لِلاَرَامِلٖ
يَلُوْذُ بِهِ الْهُـلَّاکُ مِنْ آلِ هَاشِمٖ
فَهُمْ عِنْدَه فِي نِعْمَةٍ وَفَوَاضِلٖ

رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ وَقَالَ: رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

اخرجه السیوطي في الخصائص الکبری، 1/ 146، والحلبي في السیرة، 1/ 190.

’’حضرت جلہمہ بن عرفطہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میں مکہ مکرمہ آیا، اس زمانے میں اہلِ مکہ قحط میں مبتلا تھے، پس قریش نے حضرت ابو طالب سے کہا کہ پورا علاقہ قحط زدہ ہو گیا ہے، اور لوگ قحط میں مبتلا ہیں، پس آپ جلدی تشریف لائیں اور بارش کے لیے دعا کریں۔ تب حضرت ابو طالب دعا کے لیے نکلے، اور ان کے ساتھ ایک اتنا خوبصورت (اور روشن چہرے والا) لڑکا تھا کہ گویا کالی گھٹا سے سورج نکلا ہو اور اس کے اردگرد دیگر بچے تھے۔ پس حضرت ابو طالب نے اس لڑکے (محمد مصطفی ﷺ ) کو تھاما، اس کی پشت کو کعبہ سے لگا دیا، اور اپنی انگلیوں سے اس لڑکے کی طرف اشارہ کیا۔ اُس وقت آسمان میں بادلوں کانام و نشان نہ تھا، پس بادل ادھر ادھر سے اکٹھے ہونا شروع ہو گئے، اور پھر موسلا دھار بارش ہوئی، جس کی وجہ سے وادی پانی سے بھر گئی اور ہر طرف خوب خوشحالی و فراخی ہو گئی، اس بارے میں حضرت ابو طالب نے یہ اشعار کہے تھے:

’’وہ گورے مکھڑے والے (محمد مصطفی ﷺ ) کہ جن کے چہرئہ انور کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے، جو یتیموں کے ملجا اور بیوائوں کے فریاد رس ہیں۔ بنو ہاشم کے ہلاکت زدہ لوگ جن کی پناہ مانگتے ہیں۔ پس وہ (بنو ہاشم) ان کے ہوتے ہوئے خوب نعمتوں اور فراخی میں ہیں۔‘‘

اِسے امام سیوطی نے روایت کیا اور فرمایا: اسے امام ابن عساکر نے بھی روایت کیا ہے۔

213/ 4. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيْئَهَ قَالَ: يَا رَبِّ، أَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لِمَا غَفَرْتَ لِي فَقَالَ اللهُ: يَا آدَمُ، وَکَيْفَ عَرَفْتَ مُحَمَّدًا وَلَمْ أَخْلُقْهُ؟ قَالَ: يَا رَبِّ، لِاَنَّکَ لَمَّا خَلَقْتَنِي بِيَدِکَ، وَنَفَخْتَ فِيَّ مِنْ رُوْحِکَ، رَفَعْتُ رَأْسِي فَرَيْتُ عَلٰی قَوَائِمِ الْعَرْشِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ فَعَلِمْتُ أَنَّکَ لَمْ تُضِفْ إِلَی اسْمِکَ إِلَّا أَحَبَّ الْخَلْقِ إِلَيْکَ، فَقَالَ اللهُ: صَدَقْتَ يَا آدَمُ، إِنَّهُ لَاَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَيَّ، اُدْعُنِي بِحَقِّهِ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُکَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإْسْنَادِ.

214/ 5. وذکر العـلامة ابن تیمیة: عَنْ مَيْسَرَهَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَتٰی کُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْاَرْضَ، وَاسْتَوَی إِلَی السَّمَاءِ فَسَوَّهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ، وَخَلَقَ الْعَرْشَ، کَتَبَ عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ. وَخَلَقَ اللهُ الْجَنَّهَ الَّتِي أَسْکَنَهَا آدَمَ وَحَوَّاءَ، فَکَتَبَ اسْمِي عَلَی الْاَبْوَابِ وَالْاَوْرَاقِ وَالْقِبَابِ وَالْخِيَامِ وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ، فَلَمَّا اَحْيَهُ اللهُ تَعَالٰی، نَظَرَ إِلَی الْعَرْشِ، فَرَاَی اسْمِي، فَاَخْبَرَهُ اللهُ اَنَّهُ سَيِّدُ وَلَدِکَ، فَلَمَّا غَرَّهُمَا الشَّيْطَانُ تَابَا وَاسْتَشْفَعَا بِاسْمِي إِلَيْهِ.

اخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 672، الرقم: 4228، والبیهقي في دلائل النبوة، 5/ 489، والقاضي عیاض في الشف/ 227، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 7/ 437، وابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 2/ 150، وأیضًا في قاعدة جلیلة في التوسل والوسیلة/ 84، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 1/ 131، 2/ 291، 1/ 6، والسیوطي في الخصائص الکبری، 1/ 6، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعاء/ 130، الرقم: 206.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم عليہ السلام سے خطا سرزد ہوئی، تو انہوں نے (بارگاہ الٰہی میں) عرض کیا: اے پروردگار! میں تجھ سے محمد( ﷺ ) کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما، اس پر الله تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے محمد ( ﷺ ) کو کس طرح پہچان لیا حالانکہ ابھی تک تو میں نے انہیں (ظاہراً) پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم عليہ السلام نے عرض کیا: اے پروردگار! جب تو نے اپنے دستِ قدرت سے مجھے تخلیق کیا اور اپنی روح میرے اندر پھونکی، میں نے اپنا سر اٹھایا تو عرش کے ہر ستون پر لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ لکھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے جان لیا کہ تیرے نام کے ساتھ اسی کا نام ہوسکتا ہے جو تمام مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اس پر الله تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا ہے مجھے ساری مخلوق میں سے سب سے زیادہ محبوب وہی ہیں، اُن کے وسیلہ سے مجھ سے دعا مانگو، آگاہ ہو جاؤ میں نے تمہیں معاف فرما دیا اور اگر محمد( ﷺ ) نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

اسے امام حاکم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کو نبوت کب ملی؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے اسے سات آسمانوں میں تقسیم کر دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے عرش کو تخلیق کیا اور اس کی پیشانی پر لکھا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ ’’محمد مصطفی ﷺ الله تعالیٰ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے جنت کو تخلیق کیا کہ جہاں اس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کوبسایا تھا، تو جنت کے دروازوں، درختوں کے پتوں، خیموں اور محلات پر میرا نام لکھا۔ اس وقت حضرت آدم عليہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے، پھر جب اللہ تعالیٰ نے اُنہیں حیات بخشی تو اُنہوں نے عرش کی طرف دیکھا اور اُس پر میرا نام لکھا دیکھا، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی کہ (اے آدم!) وہ تیری اولاد کے سردار ہیں۔ اس لیے جب شیطان نے اُنہیں دھوکا دیا تو انہوں نے توبہ کی اور میرے نام کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور وسیلہ اختیار کیا (تو الله تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی)۔‘‘

215/ 6. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: لَمَّا اَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي اَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَاْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: اَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَاَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَاْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَرَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ اَنَّهُ لَيْسَ اَحَدٌ اَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَاَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ: يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ امَّتَهُ آخِرُ الْامَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَهُ، يَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

اخرجه الطبراني في المعجم الصغیر، 2/ 182، الرقم: 992، وأیضًا في المعجم الاوسط، 6/ 313، الرقم: 6502، وابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 2/ 151، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 253، والسیوطي في جامع الاحادیث، 11/ 94.

216/ 7. وذکر العـلامة ابن تیمیة: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: وَلَمَّا اَصَابَ آدَمَ الْخَطِيْئَةُ، رَفَعَ رَاْسَهُ فَقَالَ: يَا رَبِّ، بِحَقِّ مُحَمَّدٍ إِلاَّ غَفَرْتَ لِي، فَاوْحِيَ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: يَا رَبِّ، إِنَّکَ لَمَّا أَتْمَمْتَ خَلْقِي، رَفَعْتُ رَاْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَإِذَا عَلَيْهِ مَکْتُوْبٌ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ، فَعَلِمْتُ اَنَّهُ اَکْرَمُ خَلْقِکَ عَلَيْکَ، إِذْ قَرَنْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ غَفَرْتُ لَکَ، وَهُوَ آخِرُ الاَنْبِيَاءِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَهُ مَا خَلَقْتُکَ.

’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے روایت بیان فرمائی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم عليہ السلام سے (بغیر کسی اِرادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو اُنہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا الله!) میں (تجھ سے، تیرے محبوب) محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف فرما دے تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، تو میں جان گیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے تیرے نزدیک اس ہستی سے بڑھ کر قدر ومنزلت والی ذات کوئی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سب سے آخری نبی ہیں، اور ان کی اُمت بھی تمہاری نسل کی آخری اُمت ہو گی۔ اور اے آدم! اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’علامہ ابن تیمیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم عليہ السلام سے خطا سرزد ہوگئی، تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور عرض کیا: اے میرے ربّ! میں تجھ سے محمد( ﷺ ) کے توسل سے دعا کرتا ہوں کہ تو میری خطاء معاف فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليہ السلام کی طرف وحی کی: یہ محمد ( ﷺ ) کیا ہیں؟ اور محمد( ﷺ ) کون ہیں؟ حضرت آدمں نے عرض کیا: مولا! جب تو نے میری تخلیق کی مکمل کی تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تو اس پر لکھا ہوا دیکھا: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ تو میں جان گیا بے شک وہ تیرے نزدیک تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر مقام و مرتبہ والے ہیں۔ تبھی تو، تو نے ان کا نام اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہاں (ایسا ہی ہے) اور (ان کے توسل سے) میں نے تیری مغفرت فرما دی اور وہ تیری نسل سے آخری نبی ہوں گے، اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

217/ 8. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ:کَانَتْ يَهُوْدُ خَيْبَرَ تُقَاتِلُ غَطْفَانَ، فَکُلَّمَا الْتَقَوْا هُزِمَتْ يَهُوْدُ خَيْبَرَ، فَعَاذَتِ الْيَهُوْدُ بِهٰذَا الدُّعَاءِ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّا نَسْاَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْامِّيِّ الَّذِي وَعَدْتَنَا اَنْ تُخْرِجَهُ لَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ، إِلَّا نَصَرْتَنَا عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَکَانُوْا إِذَا الْتَقَوْا دَعَوْا بِهٰذَا الدُّعَاِء فَهَزَمُوْا غَطْفَانَ، فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم کَفَرُوْا بِهِ، فَاَنْزَلَ اللهُ وَقَدْ کَانُوْا يَسْتَفْتِحُوْنَ بِکَ يَا مُحَمَّدُ عَلَی الْکَافِرِيْنَ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالآجُرِّيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

اخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 289، الرقم: 3042، والآجري في الشریعة/ 448، والبیهقي في دلائل النبوة، 2/ 76.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: خیبر کے یہودی غطفان قبیلے سے برسرپیکار رہا کرتے تھے، پس جب بھی دونوں کا سامنا ہوا یہودی شکست کھا گئے ۔ پھر یہودیوں نے اس دعا کے ذریعے پناہ مانگی: ’’اے اللہ! ہم تجھ سے اُمی نبی محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتے ہیں جنہیں تونے آخری زمانہ میںہمارے لیے بھیجنے کا ہم سے وعدہ فرمایاہے کہ ان کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘‘ راوی کہتے ہیں: پس جب بھی وہ دشمن کے سامنے آتے تو انہوں نے یہی دعا مانگی اور بنو غطفان (قبیلہ) کو شکست دی ۔ لیکن جب حضور نبی اکرم ﷺ معبوث ہو گئے تو انہوں نے (تعصب کے باعث آپ ﷺ ) کا انکار کر دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی حالانکہ اس سے پہلے اے محمد! وہ خود آپ کے وسیلے سے کافروں پرفتح یابی کی دعا مانگتے تھے۔‘‘

اسے امام حاکم، آجری اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

218/ 9. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: اَنَّ يَهُوْدَ کَانُوْا يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الْاَوْسِ وَالْخَزْرَجِ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَبْلَ مَبْعَثِهِ، فَلَمَّا بَعَثَهُ اللهُ مِنَ الْعَرَبِ کَفَرُوْا بِهِ، وَجَحَدُوْا مَا کَانُوْا يَقُوْلُوْنَ فِيْهِ، فَقَالَ لَهُمْ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، وَبِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُوْرٍ رضي الله عنهما أَخُوْ بَنِي سَلَمَهَ: يَا مَعْشَرَ الْيَهُوْدِ، اتَّقُوا الله وَأَسْلِمُوْا، وَقَدْ کُنْتُمْ تَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَيْنَا بِمُحَمَّدٍ، وَإِنَّا اَهْلُ الشِّرْکِ، وَتُخْبِرُوْنَا بِأَنَّهُ مَبْعُوْثٌ، وَتَصِفُوْنَهُ لَنَا بِصِفَتِهِ، فَقَالَ سَـلَّامُ بْنُ مِشْکَمٍ: مَا هُوَ بِالَّذِي کُنَّا نَذْکُرُ لَکُمْ، مَا جَاءَ نَا بِشَيئٍ نَعْرِفُهُ، فَاَنْزَلَ اللهُ فِي ذَالِکَ مِنْ قَوْلِهِمْ:{وَلَمَّا جَآءَ هُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِيْنَ کَفَرُوْاج فَلَمَّا جَآءَ هُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَی الْکٰفِرِيْنَo} [البقرة، 2: 89].

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرِيُّ وَابْنُ أَبِي حَاتِمٍ.

أخرجه أبو نعیم في دلائل النبوة، 1/ 52، الرقم: 44، والعسقلاني في الإصابة، 2/ 383، الرقم: 2390، والطبري في جامع البیان، 1/ 411، وابن أبي حاتم في تفسیره، 1/ 172، الرقم: 905، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1/ 125، والسیوطي في الدر المنثور، 1/ 217.

وذکر المفسرون في تفاسیرهم هذا الحدیث بألفاظ مختلفة وبروایات مختلفة ومن تلک التفاسیر: الطبري في جامع البیان، 1/ 23،325، والبغوي في معالم التنزیل،1/ 93، والزمخشري في الکشاف، 1/ 164، وابن الجوزي في زاد المسیر، 1/ 114، والرازي في التفسیر الکبیر، 3/ 180، والقرطبي في الجامع لاحکام القرآن، 2/ 27، والبیضاوي في أنوار التنزیل، 1/ 228، والنسفي في مدارک التنزیل، 1/ 61، والخازن في لباب التاویل في معاني التنزیل، 1/ 65، وابو حیان الأندلسي في البحر المحیط، 1/ 303، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1/ 116،124، ونظم الدرر في تناسب الآیات والسور،2/ 36، والسیوطي في الجلالین/ 14، وأبو السعود في إرشاد العقل السلیم، 1/ 128، وإسماعیل حقي في روح البیان، 1/ 179،والقاضي ثناءالله في تفسیر المظهري، 1/ 94، والشوکاني فيفتح القدیر، 1/ 112، والآلوسي في تفسیر روح المعاني، 1/ 320، ورشید الرضا في تفسیر المنار، 1/ 381،ومجاهد بن جبیر المخزومي في التفسیر، 1/ 83.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت سے قبل یہود آپ ﷺ کے وسیلہ سے قبیلہ اَوس و خزرج پر فتح کی دعا مانگا کرتے تھے، مگر جب اللہ نے آپ ﷺ کو عرب سے ظاہر کیا تو وہ آپ ﷺ کے منکر ہوگئے ۔ایک مرتبہ بنو سلمہ کے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور بشر بن براء بن معرور رضی الله عنھما نے انہیں کہا: اے یہود ! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اسلام لے آئو،جب ہم اہل شرک تھے توتم نام ِ محمد ﷺ کے ساتھ ہم پر فتح مانگاکرتے تھے، آپ ﷺ کی بعثت اور سیرت کو ہم پر پیش کیا کرتے تھے۔ یہ سن کر سلام بن مشکم نے کہا: یہ وہ نبی نہیں جن کا ذکرہم کرتے تھے اور جو صفات ہم بیان کیا کرتے تھے، وہ ان میں نہیں ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب (القرآن) آئی جو اس کتاب (تورات) کی اصلاً تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس موجود تھی، حالانکہ اس سے پہلے وہ خود (نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ اور ان پر اترنے والی کتاب قرآن کے وسیلے سے) کافروں پر فتح یابی کی دعا مانگتے تھے ۔ سو جب ان کے پاس وہی نبی (حضرت محمد ﷺ اپنے اوپر نازل ہونے والی کتاب قرآن کے ساتھ) تشریف لے آیا جسے وہ (پہلے ہی سے) پہچانتے تھے تو اسی کے منکر ہوگئے، پس ایسے دانستہ انکار کرنے والوں پراللہ کی لعنت ہے۔‘‘ اسے امام ابو نعیم، طبری اور ابو حاتم نے روایت کیا ہے۔

219/ 10. قَالَ عَلِيٌّ الْاَزْدِيُّ رضی الله عنه: کَانَتِ الْيَهُوْدُ تَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ ابْعَثْ لَنَا هٰذَا النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم يَحْکُمُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ النَّاسِ يَسْتَفْتِحُوْنَ بِهِ اَي يَسْتَنْصِرُوْنَ بِهِ عَلَی النَّاسِ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرِيُّ.

أخرجه البیهقي في دلائل النبوة، 2/ 76، والطبري في جامع البیان، 1/ 411، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 2/ 274.

’’حضرت علی ازدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (حضور ﷺ کی بعثت مبارکہ سے قبل) یہود کہا کرتے تھے: اے اللہ ! ہمارے لیے اس نبی (امّی) کو بھیج جو ہمارے اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرے، ان کے وسیلہ سے فتح طلب کرتے تھے یعنی ان کے وسیلہ سے دشمنوں پر غلبہ مانگا کرتے تھے۔‘‘

اسے امام بیہقی اور طبری نے روایت کیا ہے۔

220/ 11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أَسْمَعُ مِنْکَ حَدِيْثًا کَثِيْرًا أَنْسَهُ؟ قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ. فَبَسَطْتُهُ، قَالَ: فَغَرَفَ بِيَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: ضُمَّهُ. فَضَمَمْتُهُ، فَمَا نَسِيْتُ شَيْئًا بَعْدَهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب حفظ العلم، 1/ 56، الرقم: 119، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هریرة الدوسي رضی الله عنه، 4/ 1939، الرقم: 2491، والترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب مناقب لأبي هریرة رضی الله عنه، 5/ 684، الرقم: 3834-3835، وأبو یعلی في المسند، 11/ 121، الرقم: 6248، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 247، الرقم:881.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت بیان فرمائی کہ میں نے (حضور ﷺ کی بارگاہ میں) عرض کیا: یا رسول الله! میں آپ سے بہت سی احادیث سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی چادر پھیلائو؟ میں نے اپنی چادر پھیلا دی۔ آپ ﷺ نے (فضا میں سے کچھ) چُلّو بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا: اسے سینے سے لگا لو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

221/ 12. وفي روایة: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رضی الله عنه يَقُوْلُ: شَکَوْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم نِسْيَانَ الْقُرْآنِ فَضَرَبَ صَدْرِي بِيَدِهِ فَقَالَ: يَا شَيْطَانُ، اُخْرُجْ مِنْ صَدْرِ عُثْمَانَ، قَالَ عُثْمَانُ: فَمَا نَسِيْتُ مِنْهُ شَيْئًا بَعْدُ أَحْبَبْتُ أَنْ أَذْکُرَهُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 9/ 47، الرقم: 8347، والحارث في المسند، 2/ 932، الرقم: 1028، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9/ 3.

’’حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول الله! میں قرآن یاد کرتاہوں اور بھول جاتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے میری چھاتی پر اپنا دست اقدس مارا اور فرمایا: اے شیطان! عثمان کے سینے سے نکل جا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے جو چیز بھی یاد کرنا چاہی وہ کبھی نہ بھولی۔‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

222/ 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّکُمْ تَزْعُمُوْنَ اَنَّ اَبَا هُرَيْرَهَ يُکْثِرُ الْحَدِيْثَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَاللهُ الْمَوْعِدُ، إِنِّي کُنْتُ امْرَأً مِسْکِيْنًا اَلْزَمُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم عَلٰی مِلْئِ بَطْنِي، وَکَانَ الْمُهَاجِرُوْنَ يَشْغَلُهُمُ الصَّفْقُ بِالْاَسْوَاقِ وَکَانَتِ الْاَنْصَارُ يَشْغَلُهُمُ الْقِيَامُ عَلٰی اَمْوَالِهِمْ، فَشَهِدْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ وَقَالَ: مَنْ يَبْسُطْ رِدَائَهُ حَتّٰی اَقْضِيَ مَقَالَتِي ثُمَّ يَقْبِضْهُ فَلَنْ يَنْسٰی شَيْئًا سَمِعَهُ مِنِّي؟ فَبَسَطْتُ بُرْدَةً کَانَتْ عَلَيَّ، فَوَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ، مَا نَسِيْتُ شَيْئًا سَمِعْتُهُ مِنْهُ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

13: اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب الحجة من قال: إن احکام النبي صلی الله علیه وآله وسلم کانت ظاهر وما کان یغیب بعضهم من مشاهد النبي صلی الله علیه وآله وسلم وامور الإسلام، 6/ 2677، الرقم: 6921، وأیضًا في کتاب البیوع، باب ما جاء في قول الله تعالی: فإذا قضیت الصلاة، 2/ 721، الرقم: 1942، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل ابي هریرة الدوسي رضی الله عنه، 4/ 1939-1940، الرقم: 2492، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 240، الرقم: 7273، وابن حبان في الصحیح، 16/ 104، الرقم: 7153، وابو یعلی في المسند، 11/ 121، الرقم: 6248، والطبراني في مسند الشامیین، 4/ 170، الرقم: 3026.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اُنہوں نے (لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا: تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ ابو ہریرہ تو اتنی کثرت سے اَحادیث رسول ﷺ بیان کرتا ہے، الله تعالیٰ اِس پر گواہ ہے کہ میں ایک غریب آدمی تھا، پیٹ بھرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ وابستہ رہتا تھا جبکہ مہاجرین تو بازاروں میں خرید و فروخت میں مشغول ہوتے اور انصار اپنی کھیتی باڑی میں مصروف ہوتے۔ چنانچہ ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: جو میری گفتگو ختم ہونے تک اپنی چادر پھیلائے رکھے گا اور پھر سمیٹ لے گا تو وہ کبھی کوئی چیز نہیں بھولے گا۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنے اُوپر اُوڑھی ہوئی چادر پھیلا دی۔ پس قسم ہے اُس ذات کی جس نے اُنہیں حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں نے (آپ ﷺ کی اس عطا کے بعد) جو بھی آپ ﷺ سے سنا اس میں سے کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

223/ 14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: اَصَابَ اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ الله يَسْقِيْنَا، فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا. قَالَ اَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيْحٌ اَنْشَاَتْ سَحَابًا، ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ اَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتّٰی اَتَيْنَا مَنَازِلَنَا، فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْاخْرٰی. فَقَامَ إِلَيْهِ ذَالِکَ الرَّجُلُ اَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَادْعُ الله يَحْبِسْهُ، فَتَبَسَّمَ، ثُمَّ قَالَ: حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا. فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ، تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَاَنَّهُ إِکْلِيْلٌ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3/ 1313، الرقم: 3389، وأیضًا في الادب المفرد/ 214، الرقم: 612، ومسلم في الصحیح، کتاب الاستسقاء، باب الدعاء في الاستسقاء، 2/ 614، الرقم: 897، وأبو داود في السنن،کتاب صلاة الاستسقاء، باب رفع الیدین في الاستسقاء، 1/ 304، الرقم: 1174، والطبراني في المعجم الاوسط، 3/ 95، الرقم: 2601، وأیضًا في الدعاء/ 596-597، الرقم: 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2/ 434، والحسیني في البیان والتعریف، 2/ 26، الرقم: 957.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ (اُس دوران) ایک دن آپ ﷺ خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں پانی عطا فرمائے۔ آپ ﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا پھر فوراً ہوا چلی، بادل گھر کر آئے اور آسمان نے ایسے اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے۔ اور اگلے جمعہ تک متواتر بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ ﷺ (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے اسے حکم) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر، ہمارے ارد گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

224/ 15. عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه فَقَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم لَمَّا رَاَی مِنَ النَّاسِ إِدْبَارًا، قَالَ: اَللّٰهُمَّ، سَبْعٌ کَسَبْعِ يُوْسُفَ فَاَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ کُلَّ شَيئٍ حَتّٰی اَکَلُوا الْجُلُوْدَ وَالْمَيْتَهَ وَالْجِيَفَ وَيَنْظُرَ اَحَدُهُمْ إِلَی السَّمَاءِ فَيَرَی الدُّخَانَ مِنَ الْجُوْعِ فَاَتَهُ اَبُوْ سُفْيَانَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّکَ تَاْمُرُ بِطَاعَةِ اللهِ وَبِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ قَدْ هَلَکُوْا فَادْعُ الله لَهُمْ. قَالَ اللهُ تَعَالٰی: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍo} ]الدخان، 44: 10[، إِلٰی قَوْلِهِ: {إِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَهَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُوْنَo} ]الدخان، 44: 16[، فَالْبَطْشَةُ يَوْمَ بَدْرٍ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاستسقاء، باب دعاء النبي صلی الله علیه وآله وسلم اجعلها علیهم سنین کسني یوسف، 1/ 341، الرقم: 962، وأیضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب وراودته التي هو في بیتها عن نفسه وغلقت الأبواب وقالت هیت لک، 4/ 1730، الرقم: 4416، وأیضًا في باب تفسیر سورة آلم غلبت الروم، 4/ 1791، الرقم: 4496، ومسلم في الصحیح، کتاب صفة القیامة والجنة والنار، باب الدخان، 4/ 2155، الرقم: 2798، والترمذي في السنن،کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة الدخان، 5/ 297، الرقم: 3254، والنسائی في السنن الکبری، 6/ 456، الرقم: 11483، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 431،441، الرقم: 4140، 4206، والحمیدی في المسند، 1/ 63، الرقم: 116، وابن حبان في الصحیح، 11/ 80، الرقم:4764، وأبو یعلی في المسند، 9/ 78، الرقم: 5145، والطبراني في المعجم الکبیر، 9/ 214، الرقم: 9046- 9048، والبیهقي في السنن الکبری، 3/ 352، الرقم: 6221.

’’حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نے جب لوگوں کی سرکشی دیکھی تو کہا: اے الله! ان پر حضرت یوسف عليہ السلام کے زمانے جیسی قحط سالی مسلط فرما۔ پس قحط پڑ گیا اور سب چیزیں برباد ہوگئیں یہاں تک کہ لوگوں نے کھالیں اور مردار تک کھائے اور جب ان میں سے کوئی آسمان کی طرف دیکھتا تو بھوک کے باعث دھواں سا نظر آتا۔ پس ابو سفیان نے آکر کہا: یا محمد! آپ الله کا حکم ماننے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ جبکہ آپ کی قوم ہلاک ہو گئی۔ ان کے لیے الله سے دعا فرمائیں تو الله تعالیٰ نے (قرآنِ پاک میں) فرمایا: ’’اس روز کا انتظار کرو جب آسمان واضح طور پر دھواں لائے گا۔‘‘ اور پھر فرمایا: ’’جس روز ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے۔‘‘ بطشۃ سے مراد یوم بدر ہے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

225/ 16. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَرَامٍ رضی الله عنه وَعَلَيْهِ دَيْنٌ، فَاسْتَعَنْتُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم عَلٰی غُرَمَائِهِ اَنْ يَضَعُوْا مِنْ دَيْنِهِ، فَطَلَبَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم إِلَيْهِمْ فَلَمْ يَفْعَلُوْا، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: اذْهَبْ فَصَنِّفْ تَمْرَکَ اَصْنَافًا الْعَجْوَهَ عَلٰی حِدَةٍ وَعَذْقَ زَيْدٍ عَلٰی حِدَةٍ، ثُمَّ اَرْسِلْ إِلَيَّ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ اَرْسَلْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، فَجَاءَ فَجَلَسَ عَلٰی اَعْـلَهُ اَوْ فِي وَسَطِهِ، ثُمَّ قَالَ: کِلْ لِلْقَوْمِ، فَکِلْتُهُمْ حَتّٰی اَوْفَيْتُهُمُ الَّذِي لَهُمْ وَبَقِيَ تَمْرِي کَاَنَّهُ لَمْ يَنْقُصْ مِنْهُ شَيئٌ.

226/ 17. وفي روایة عنه: عَنِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم: فَمَا زَالَ يَکِيْلُ لَهُمْ حَتّٰی اَدَّهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه البخاري في الصحیح،کتاب البیوع، باب الکیل علی البائع والمعطي، 2/ 748، الرقم: 2020، وأیضًا فيکتاب الاستقراض وأداء الدیون والحجر والتفلیس، باب الشفاعة في وضع الدین، 2/ 847، الرقم: 2275، وأبو داود في السنن،کتاب الوصایا، باب ما جاء في الرجل یموت وعلیہ دین ولہ وفاء، 3/ 118، الرقم: 2884، والنسائي في السنن، کتاب الوصایا، باب قضاء الدین قبل المیراث، 6/ 245، الرقم: 3637-3638، وأیضًا في السنن الکبری، 4/ 105، الرقم: 6464-6465، وابن ماجه في السنن،کتاب الأحکام، باب أداء الدین عن المیت، 2/ 813، الرقم: 2434، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 313، الرقم: 14398، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 314، الرقم: 31710، وأبو یعلی في المسند، 3/ 431، الرقم: 1921، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 593، والعیني في عمدة القاري، 11/ 246، الرقم: 7212، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 43/ 218.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کے والد) حضرت عبد الله بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ وفات پا گئے اور ان کے اوپر قرض تھا۔ (وہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے قرض خواہوں کے (بے پناہ) اصرار پر حضور نبی اکرم ﷺ سے مدد چاہی تاکہ لوگ اپنے قرض سے کچھ کم کر دیں۔ آپ ﷺ نے انہیں بلایا لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: جائو اور تمام اقسام کی کھجوریں الگ الگ رکھنا یعنی عجوہ ایک طرف اور غدق ایک طرف۔ پھر میرے لیے پیغام بھیج دینا۔ میں نے ایسا ہی کر کے حضور نبی اکرم ﷺ کے لیے پیغام بھیج دیا۔ آپ ﷺ ان کے اوپر یا درمیان میں بیٹھ گئے، پھر مجھے فرمایا: لوگوں کو تول کر دیتے جاؤ۔ میں اُنہیں تول کر دیتا گیا یہاں تک کہ سب کا قرض ادا کر دیا اور میری تمام کھجوریں بچ رہیں گویا ایک بھی کم نہ ہوئی۔ ایک روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے روایت بیان کی کہ وہ ناپتے رہے (اور لوگوں کو دیتے رہے) یہاں تک کہ سب کے قرض کی ادائیگی کر دی (اور تمام کھجوریں ویسی کی ویسی رہیں)۔‘‘

اِسے امام بخاری، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

227/ 18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ اَدْعُوْ امِّي إِلَی الإِسْـلَامِ وَهِيَ مُشْرِکَةٌ، فَدَعَوْتُهَا يَوْمًا فَاَسْمَعَتْنِي فِي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ مَا اَکْرَهُ، فَاَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَاَنَا اَبْکِي، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي کُنْتُ اَدْعُوْ امِّي إِلَی الإِْسْلَامِ فَتَاْبٰی عَلَيَّ فَدَعَوْتُهَا الْيَوْمَ، فَاَسْمَعَتْنِي فِيْکَ مَا اَکْرَهُ فَادْعُ الله اَنْ يَهْدِيَ امَّ اَبِي هُرَيْرَهَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ اهْدِ امَّ اَبِي هُرَيْرَهَ. فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَةِ نَبِيِّ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَی الْبَابِ فَإِذَا هُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ امِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ، فَقَالَتْ: مَکَانَکَ يَا اَبَا هُرَيْرَهَ، وَسَمِعْتُ خَضْخَضَهَ الْمَاءِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَهَا وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِهَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا اَبَا هُرَيْرَهَ، اَشْهَدُ اَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ. قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَاَتَيْتُهُ وَاَنَا اَبْکِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اللهُ دَعْوَتَکَ وَهَدَی امَّ اَبِي هُرَيْرَهَ. فَحَمِدَ الله وَاَثْنٰی عَلَيْهِ وَقَالَ خَيْرًا. قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اُدْعُ الله اَنْ يُحَبِّبَنِي اَنَا وَامِّي إِلٰی عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَيُحَبِّبَهُمْ إِلَيْنَا. قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: اَللّٰهُمَّ، حَبِّبْ عُبَيْدَکَ هٰذَا يَعْنِي اَبَا هُرَيْرَهَ وَامَّهُ إِلٰی عِبَادِکَ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَحَبِّبْ إِلَيْهِمُ الْمُؤْمِنِيْنَ فَمَا خُلِقَ مُؤْمِنٌ يَسْمَعُ بِي وَلَا يَرَانِي إِلَّا اَحَبَّنِي.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبي هریرة الدوسي رضی الله عنه، 4/ 1938، الرقم: 2491، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 319، الرقم: 8242، وابن حبان في الصحیح، 16/ 107، الرقم: 7154، والحاکم في المستدرک، 2/ 677، الرقم: 4240، وقال: هذا حدیث صحیح الإسناد، والبغوی في شرح السنة، 13/ 306، الرقم: 3726، والخطیب التبریزي في مشکاة المصابیح،کتاب الفضائل، 3/ 297، الرقم: 5795، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 328، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 85، الرقم: 77، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 67/ 325.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ محترمہ مشرکہ تھیں، میں ان کو اسلام کی دعوت دیتا تھا، ایک دن میں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے متعلق ایسی بات کہی جو مجھے ناگوار گزری، میں روتا ہوا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا لیکن وہ انکار کرتی تھی، آج میں نے اسے دعوتِ اسلام دی تو اس نے آپ کے متعلق ایسا کلمہ کہا جو مجھے ناگوار گزرا، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ابوہریرہ کی والدہ کو ہدایت عطا فرمائے، رسول اللہ ﷺ نے دعا کی: اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما۔‘‘ میں رسول اللہ ﷺ کی دعا لے کر خوشی سے (گھر کی طرف) روانہ ہوا، جب میں گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دروازہ بند تھا، ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی، اس نے کہا: اے ابوہریرہ! اپنی جگہ ٹھہرو، پھر میں نے پانی گرنے کی آواز سنی، میری ماں نے غسل کیا اور قمیص پہنی اور جلدی میں بغیر دوپٹہ کے باہر آئیں، پھر دروازہ کھولا اور کہا: اے ابو ہریرہ میں گواہی دیتی ہوں کہ محمد مصطفی ﷺ ، اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے (سچے) رسول ہیں۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) پھر میں خوشی کے آنسو لے کر آپ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرما لی اور ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما دی، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی اور کلمہ خیر ارشاد فرمایا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے، اور ہمارے دلوں میں مومنوں کی محبت ڈال دے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! اپنے اس بندے (ابوہریرہ) اور اس کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں پیدا کردے، اور مومنوں کی محبت ان کے دل میں ڈال دے، پھر ایسا کوئی مسلمان پیدا نہیں ہوا جو میرا ذکر سن کر یا مجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔‘‘

اسے امام مسلم، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

228/ 19. عَنْ رَبِيْعَهَ بْنِ کَعْبٍ الْاَسْلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَبِيْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَأَتَيْتُهُ بِوَضُوْئِهِ وَحَاجَتِهِ فَقَالَ لِي: سَلْ، فَقُلْتُ: أَسْأَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِي الْجَنَّةِ. قَالَ: أَوْ غَيْرَ ذَالِکَ؟ قُلْتُ: هُوَ ذَاکَ، قَالَ: فَأَعِنِّي عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب الصلاة، باب فضل السجود والحث علیه، 1/ 353، الرقم: 489، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب وقت قیام النبي صلی الله علیه وآله وسلم من اللیل، 2/ 35، الرقم: 1320، والنسائي في السنن، کتاب التطبیق، باب فضل السجود، 2/ 227، الرقم: 1138، وأیضًا في السنن الکبری، 1/ 242، الرقم: 724، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/ 59، الرقم: 16628، والبغوي في شرح السنة، 3/ 149، الرقم: 655، والطبراني في المعجم الکبیر، 5/ 56، الرقم:4570، والبیهقي في السنن الکبری، 2/ 486، الرقم: 4344، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 152، الرقم: 564.

’’حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رات کو حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں رہا کرتا تھا اور آپ ﷺ کے استنجاء اور وضو کے لیے پانی لاتا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ نے مجھے فرمایا: ’’(اے ربیعہ!) مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘ میں نے عرض کیا: (یا رسول الله!) میں آپ سے جنت میں آپ کی رفاقت مانگتا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کے علاوہ ’’اور کچھ‘‘؟ میں نے عرض کیا: (یا رسول الله!) مجھے یہی کافی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (جنت تو عطا کر دی) اب تم کثرتِ سجود سے اپنے معاملے میں میری مدد کرو۔‘‘

اِسے امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

229/ 20. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَهَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ شَابٌ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم وَيُخِفُّ فِي حَوَائِجِهِ، فَقَالَ: سَلْنِي حَاجَةً فَقَالَ: اُدْعُ الله تَعَالٰی لِي بِالْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَتَنَفَّسَ وَقَالَ: نَعَمْ، وَلٰـکِنْ أَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 245، الرقم: 2029، وأیضًا في المعجم الاوسط، 3/ 63، الرقم: 2488، وابن المبارک في الزهد/ 455، الرقم: 1287، والمروزي في تعظیم قدر الصلاة، 1/ 329، الرقم: 319، والعسقلاني في الإصابة، 6/ 125، وقال: رواہ البزار.

230/ 21. وفي روایة لابن المبارک: عَنْ فَاطِمَهَ بِنْتِ الْحُسَيْنِ اَنَّ رَجُـلًا قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، ادْعُ الله اَنْ يَجْعَلَنِي مِنْ اَهْلِ شَفَاعَتِکَ، قَالَ: اَعِنِّي بِکَثْرَةِ السُّجُوْدِ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 2/ 245، الرقم: 2029، وأیضًا في المعجم الاوسط، 3/ 63، الرقم: 2488، وابن المبارک في الزهد/ 455، الرقم: 1287، والمروزي في تعظیم قدر الصلاة، 1/ 329، الرقم: 319، والعسقلاني في الإصابة، 6/ 125، وقال: رواہ البزار.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا لیکن اپنی ذاتی ضروریات بیان نہ کرتا۔ پس آپ ﷺ نے فرمایا: مجھ سے (جو چاہو) مانگو۔ تو اس نے عرض کیا: (یا رسول الله!) الله تعالیٰ کی بارگاہ میں میرے لیے جنت کی دعا فرما دیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے سر انور اوپر اٹھایا، سانس لیا اور فرمایا: ٹھیک ہے لیکن کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ابن مبارک کی ایک روایت میں حضرت فاطمہ بنت حسین رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول الله! آپ الله تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے (بھی) آپ کی شفاعت کے مستحقین میں سے بنا دے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: (تم بھی میری شفاعت کے اہل لوگوں میں سے ہو جاؤ گے) مگر تم کثرت سجود کے ساتھ میری مدد کرو۔‘‘

231/ 22. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه اَنَّ رَجُـلًا ضَرِيْرَ الْبَصَرِ اَتَی النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: اُدْعُ الله لِي اَنْ يُعَافِيَنِي. فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ اَخَّرْتُ لَکَ وَهُوَ خَيْرٌ. وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ. فَقَالَ: اُدْعُهُ. فَاَمَرَهُ اَنْ يَتَوَضَّاَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَ هُ وَيُصَلِّيَ رَکْعَتَيْنِ. وَيَدْعُوَ بِهٰذَا الدُّعَاءِ: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِهِ لِتُقْضٰی، اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ}.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَهُ وَاَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ اَبُوْ إِسْحَاقَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْاَلْبَانِيُّ: صَحِيْحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء الضعیف، 5/ 569، الرقم: 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في صلاة الحاجة، 1/ 441، الرقم: 1385، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 138، الرقم: 17279-17282، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 168، الرقم: 10494-10495، وابن خزیمة في الصحیح، 2/ 225، الرقم: 1219، والحاکم في المستدرک، 1/ 458، 700، 707، الرقم:1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/ 306، الرقم: 508، وأیضًا في المعجم الکبیر، 9/ 30، الرقم:8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6/ 209، الرقم: 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 147، الرقم: 379، والبیهقي في دلائل النبوة، 6/ 166، والفسوي في المعرفة والتاریخ، 3/ 294، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 272، الرقم: 1018، وابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 1/ 74، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/ 279.

232/ 23. وفي روایة لأحمد: قَالَ: فَفَعَلَ الرَّجُلُ فَبَرَاَ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء الضعیف، 5/ 569، الرقم: 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في صلاة الحاجة، 1/ 441، الرقم: 1385، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 138، الرقم: 17279-17282، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 168، الرقم: 10494-10495، وابن خزیمة في الصحیح، 2/ 225، الرقم: 1219، والحاکم في المستدرک، 1/ 458، 700، 707، الرقم:1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/ 306، الرقم: 508، وأیضًا في المعجم الکبیر، 9/ 30، الرقم:8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6/ 209، الرقم: 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 147، الرقم: 379، والبیهقي في دلائل النبوة، 6/ 166، والفسوي في المعرفة والتاریخ، 3/ 294، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 272، الرقم: 1018، وابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 1/ 74، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/ 279.

233/ 24. وفي روایة: قَالَ عُثْمَانُ: فَوَاللهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَلَا طَالَ بِنَا الْحَدِيْثَ حَتّٰی دَخَلَ الرَّجُلُ وَکَاَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الْبُخَارِيِّ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب في دعاء الضعیف، 5/ 569، الرقم: 3578، وابن ماجه في السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فیها، باب ما جاء في صلاة الحاجة، 1/ 441، الرقم: 1385، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 138، الرقم: 17279-17282، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 168، الرقم: 10494-10495، وابن خزیمة في الصحیح، 2/ 225، الرقم: 1219، والحاکم في المستدرک، 1/ 458، 700، 707، الرقم:1180، 1909، 1929، والطبراني في المعجم الصغیر، 1/ 306، الرقم: 508، وأیضًا في المعجم الکبیر، 9/ 30، الرقم:8311، والبخاري في التاریخ الکبیر، 6/ 209، الرقم: 2192، وعبد بن حمید في المسند، 1/ 147، الرقم: 379، والبیهقي في دلائل النبوة، 6/ 166، والفسوي في المعرفة والتاریخ، 3/ 294، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 272، الرقم: 1018، وابن تیمیة في مجموع الفتاوی، 1/ 74، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/ 279.

234/ 25. وذکر العـلامة ابن تیمیة: عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه اَنَّ رَجُـلًا اَعْمٰی اَتَی النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: إِنِّي أُصِبْتُ فِي بَصَرِي فَادْعُ الله لِي قَالَ: اِذْهَبْ فَتَوَضَّاْ وَصَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي سَائِلُکَ وَاَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيٍّ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، أَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلٰی رَبِّي فِي رَدِّ بَصَرِي، اَللّٰهُمَّ، فَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي وَشَفِّعْ نَبِيّ فِي رَدِّ بَصَرِي، وَإِنْ کَانَتْ حَاجَةٌ فَافْعَلْ مِثْلَ ذَالِکَ، فَرَدَّ اللهُ عَلَيْهِ بَصَرَهُ.

’’حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک نابینا شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! الله تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے صحیح کر دے (یعنی میری بینائی لوٹ آئے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو تیرے لیے دعا کو مؤخر کر دوں جو تیرے لیے بہتر ہے اور اگر تو چاہے تو تیرے لیے (ابھی) دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا: (آقا) دعا فرما دیں۔ آپ ﷺ نے اسے اچھی طرح وضو کرنے اور دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: پھر یہ دعا کرو: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي اَسْاَلُکَ وَاَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِکَ إِلٰی رَبِّي فِي حَاجَتِي هٰذِهِ لِتُقْضٰی۔ اَللّٰهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ} ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں تیرے نبی رحمت محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے، یا محمد! میں آپ کے وسیلہ سے اپنے ربّ کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرتا ہوں تاکہ پوری ہو۔ اے اللہ! میرے حق میں سرکار دوعالم ﷺ کی شفاعت قبول فرما۔‘‘

اسے امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

’’اور امام اَحمد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ تب اس شخص نے فوراً ہی وہ عمل کیا اور اسی وقت صحت یاب ہو گیا۔‘‘

’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: پس خدا کی قسم! ابھی ہم وہاں سے اٹھے بھی نہ تھے اورنہ ہی اس بات کو کچھ دیر گزری تھی کہ وہ آدمی اِس حال میں آیا کہ جیسے اُسے کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔‘‘

اسے امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام بخاری کی شرائط پر صحیح ہے۔

’’علامہ ابن تیمیہ نے بیان کیا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک نابینا صحابی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بصارت جواب دے گئی ہے۔ آپ میرے حق میں دعا فرمائیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جائو وضو کرو، پھر دو رکعت نماز پڑھو اور پھر یوں کہو: {اَللّٰهُمَّ، إِنِّي سَائِلُکَ وَاَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيٍّ مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، أَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلٰی رَبِّي فِي رَدِّ بَصَرِي، اَللّٰهُمَّ، فَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي وَشَفِّعْ نَبِيِّ فِي رَدِّ بَصَرِي} ’’اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد مصطفی ﷺ جو کہ تیرے رحیم نبی ہیں ان کے توسّل سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یا محمد! میں آپ کے توسّل سے اپنے ربّ کی بارگاہ میں اپنی بینائی کی شفایابی کا سوال کرتا ہوں۔ یااللہ! مجھے شفاء عطا فرما اور اپنے نبی ﷺ کی شفاعت میرے بینائی کے لوٹانے میں قبول فرما۔‘‘ حضور ﷺ نے فرمایا: اگر تجھے پھر بھی آرام نہ آئے تو دوبارہ ایسا کرنا، تو اللہ نے اسے بینائی عطا فرما دی۔‘‘

235/ 26. عَنْ أَبِي أُمَامَهَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا کَانَ يَخْتَلِفُ إِلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه فِي حَاجَةٍ، فَکَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ، وَلَا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَشَکٰی ذَالِکَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: ائْتِ الْمِيْضَهَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ، فَصَلِّ فِيْهِ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم نَبِيِّ الرَّحْمَةِ صلی الله علیه وآله وسلم، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلٰی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي، وَتَذَکَّرْ حَاجَتَکَ، وَرُحْ حَتّٰی أَرُوْحَ مَعَکَ، فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَهُ، ثُمَّ أَتٰی بَابَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَص، فَجَاءَ الْبَوَّابُ حَتّٰی أَخَذَ بِيَدِهِ، فَأَدْخَلَهُ عَلٰی عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَص، فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَی الطُّنْفُسَةِ، فَقَالَ: حَاجَتُکَ، فَذَکَرَ حَاجَتَهُ وَقَضَاهَا لَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ، حَتّٰی کَانَ السَّاعَهَ وَقَالَ: مَا کَانَتْ لَکَ مِنْ حَاجَةٍ فَاذْکُرْهَا، ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ، فَقَالَ لَهُ: جَزَاکَ اللهُ خَيْرًا، مَاکَانَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِي، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيَّ حَتّٰی کَلَّمْتَهُ فِيَّ، فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: وَاللهِ مَا کَلَّمْتُهُ، وَلٰـکِنِّي شَهِدْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم، وَأَتَهُ ضَرِيْرٌ، فَشَکٰی إِلَيْهِ ذِهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: فَتَصْبِرُ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: ائْتِ الْمِيْضَهَ، فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَيْنِ، ثُمَّ اُدْعُ بِهٰذِهِ الدَّعَوَاتِ. قَالَ ابْنُ حُنَيْفٍ: فَوَ اللهِ، مَا تَفَرَّقْنَا، وَطَالَ بِنَا الْحَدِيْثُ، حَتّٰی دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ کَأَنَّهُ لَمْ يَکُنْ بِهِ ضَرٌّ قَطُّ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: وَالْحَدِيْثُ صَحِيْحٌ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 9/ 30، الرقم: 8311، وأیضًا في المعجم الصغیر، 1/ 183، الرقم:508، وأیضًا في الدعاء/ 320، الرقم: 1050، والبیهقي في دلائل النبوة، 6/ 167، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 32، 274، الرقم: 1018، وقال: والحدیث صحیح، والسبکي في شفاء السقام/ 125، والهیثمي في مجمع الزوائد، 2/ 279، والسیوطي في الخصائص الکبری، 2/ 201.

’’حضرت ابو اُمامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اپنے چچا حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس کسی ضرورت سے آتا جاتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے تھے اور اس کی ضرورت پر غور نہ فرماتے تھے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس بات کا گلہ کیا۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: لوٹا لاؤ اور وضو کرو، اس کے بعد مسجد میں آکر دو رکعت نماز پڑھو، پھر (یہ دعا) پڑھو: {اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ صلی الله علیه وآله وسلم، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِکَ إِلٰی رَبِّي، فَتَقْضِي لِي حَاجَتِي} ’’اے الله! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے نبی محمد مصطفی ﷺ نبی رحمت کے وسیلے سے متوجہ ہوتا ہوں، یا محمد! میں آپ کے وسیلے سے اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کہ وہ میری یہ حاجت پوری فرما دے۔‘‘ اور پھر اپنی حاجت کا تذکرہ کرو۔ اور (پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ) یہاں تک کہ میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں۔ پس وہ آدمی گیا اور اس نے وہی کیا جو اسے کہا گیا تھا۔ پھر وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا تو دربان نے اس کا ہاتھ تھاما اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ حضرت عثمان صنے اسے اپنے پاس چٹائی پر بٹھایا اور پوچھا: تیری کیا حاجت ہے؟ اُس نے اپنی حاجت بیان کی تو اُنہوں نے اسے فوراً پورا کر دیا۔ پھر انہوں نے اس سے کہا: تو نے اپنی اس حاجت کا آج تک ذکر کیوں نہ کیا؟ آئندہ تمہاری جو بھی ضرورت ہو فوراً مجھ سے بیان کیا کرو۔ پھر وہ آدمی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس سے چلا گیا اور حضرت عثمان بن حنیف سے ملا اور ان سے کہا: الله آپ کو بہتر جزا دے، جب تک آپ نے اُن سے میرے متعلق بات نہیں کی اُنہوں نے میرے کام پر غور نہیں فرمایا اور نہ ہی میری طرف متوجہ ہوئے۔ حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا: بخدا! یہ میں نے اُنہیں نہیں کہا بلکہ میں نے رسول الله ﷺ کو دیکھا کہ ایک نابینا آدمی آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور اپنی بینائی چلے جانے کا شکوہ کیا، تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: تو صبر کر۔ اس نے عرض کیا: یا رسول الله! میرا کوئی خادم نہیں اور مجھے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: لوٹا لیکر آؤ اور وضو کرو (اور پھر یہی دعا اسے سکھائی)، ابن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا: خدا کی قسم! ہم لوگ نہ تو ابھی وہاں سے اُٹھے تھے اور نہ ہی اس بات کو زیادہ دیر گذری تھی کہ وہ آدمی ہمارے پاس (اس حالت میں) آیا کہ گویا اسے کبھی کوئی تکلیف ہی نہ تھی۔‘‘

اِسے امام طبرانی اوربیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔

236/ 27. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَبِکَفِّي سَلْعَةٌ، فَقُلْتُ: َیا نَبِيَّ اللهِ، هٰذِهِ السَّلْعَةُ قَدْ أَذَتْنِي تَحُوْلُ بَيْنِي وَبَيْنَ قَائِمَةِ السَّيْفِ أَنْ أَقْبِضَ عَلَيْهِ وَعَنْ عِنَانِ الدَّآبَّةِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: اُدْنُ مِنِّيِ. فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقَالَ: افْتَحَ يَدَکَ. فَفَتَحْتُهَا، ثُمَّ قَالَ: اِقْبِضْهَا فَقَبَضْتُهَا قَالَ: اُدْنُ مِنِّي. فَدَنَوْتُ مِنْهُ قَالَ: افْتَحْهَا فَفَتَحْتُهَا فَنَفَثَ فِي کَفِّي. ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَی السَّلْعَةِ. فَمَا زَالَ يَطْحَنُهَا بِکَفِّهِ حَتّٰی رَفَعَ عَنْهَا وَمَا أَرَی أَثَرَهَا.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

اخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 7/ 306، الرقم: 7215، والبخاري في التاریخ الکبیر، 4/ 250، الرقم: 2694، وابن عبد البر في الاستیعاب، 2/ 697، الرقم: 1163، والعسقلاني في الإصابة، 3/ 331، الرقم: 3876، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 298.

’’حضرت عبد الرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ میرے ہاتھ پر ایک پھوڑا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس پھوڑے نے مجھے بہت تکلیف دی ہے اور اس کی وجہ سے میں تلوار کا دستہ بھی مضبوطی سے پکڑنے اور سواری کے جانور کو قابو کرنے سے معذور ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے قریب آؤ۔ پس میں آپ ﷺ کے قریب ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اپنا ہاتھ کھولو میں نے اپنا ہاتھ کھولا تو آپ ﷺ نے فرمایا: مٹھی بند کرو۔ پھر میں نے اسے بند کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: میرے قریب آؤ، پس میں آپ ﷺ کے اور قریب ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کھولو، میں نے کھولا تو آپ ﷺ نے میرے ہاتھ پر پھونک ماری پھر آپ ﷺ نے اس پھوڑے پر اپنا دستِ اقدس رکھا اور اسے مسلسل دباتے رہے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نے اپنا دست اقدس ہٹایا تو اس پھوڑے کا نام و نشان تک باقی نہ تھا۔‘‘

اسے امام طبرانی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

237/ 28. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا کَانَ يَوْمُ أُحُدٍ شُجَّ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فِي جَبْهَتِهِ فَأَتَهُ مَالِکُ بْنُ سِنَانٍ رضی الله عنه (وَهُوَ وَالِدُ أَبِي سَعِيْدٍ) فَمَسَحَ الدَّمَ عَنْ وَجْهِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم، ثُمَّ أَزْدَرَدَهُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلٰی مَنْ خَالَطَ دَمِي دَمَهُ فَلْيَنْظُرْ إِلٰی مَالِکِ بْنِ سِنَانٍ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 651، الرقم: 6394، والطبراني في المعجم الکبیر، 6/ 34، الرقم: 5430، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4/ 124، الرقم: 2097، والھثیمي في مجمع الزوائد، 6/ 114.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ اُحد کے دن حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرئہ مبارک پر زخم آ گیا۔ آپ ﷺ کے پاس حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرئہ مبارک سے خون صاف کرنے لگے اور پھر اس خون مبارک کو (اپنے ہونٹوں سے چوس کر حلق کے اندر) نگل لیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص پسند کرتا ہے کہ وہ اس شخص کو دیکھے جس کے خون کے ساتھ میرا خون مل چکا ہے تو وہ مالک بن سنان کو دیکھ لے۔‘‘

اِسے امام حاکم، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔

238/ 29. وفي روایة: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه أَنَّ أَبَهُ مَالِکَ بْنُ سَنَانٍ رضی الله عنه لَمَّا أُصِيْبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي وَجْهِهِ يَوْمَ احُدٍ، مَصَّ دَمَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَازْدَرَدَهُ، فَقِيْلَ لَهُ: أَتَشْرَبُ الدَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَشْرَبُ دَمَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: خَالَطَ دَمِي بِدَمِهِ لَا تَمَسُّهُ النَّارُ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 9/ 47، الرقم: 9098، والھیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 270.

’’ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد حضرت مالک بن سنان رضی اللہ عنہ غزوہ اُحد میں حضور نبی اکرم ﷺ کے (چہرئہ اقدس پر آنے والے) زخم مبارک کو (اپنی زبان سے) چاٹنے اور (اس میں سے بہنے والا خون) چوسنے لگے۔ جس سے زخم کی جگہ چمکنے لگی۔ اُن سے کہا گیا کہ کیا تم خون پی رہے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں میں حضورنبی اکرم ﷺ کا (پاک) خون پی رہا ہوں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کے خون سے میرا خون مل گیا اسے دوزخ کی آگ کبھی نہیں چھوئے گی۔‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

239/ 30. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا مَاتَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَسَدِ بْنِ هَاشِمٍ رضي الله عنها أُمُّ عَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍص، دَخَلَ عَلَيْهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم وَوَقَفَ عِنْدَ رَاْسِهَا، فَقَالَ: رَحِمَکِ اللهُ، يَا أُمِّي، کُنْتِ أُمِّي بَعْدَ أُمِّي وَتُشْبِعِيْنِي، وَتَعْرِيْنَ وَتَکْسِيْنِي، وَتَمْنَعِيْنَ نَفْسَکِ طَيِّبًا وَتُطْعِمِيْنِي تُرِيْدِيْنَ بِذَالِکَ وَجْهَ اللهِ وَالدَّارَ الْآخِرَهَ، ثُمَّ اَمَرَ اَنْ تُغْسَلَ ثَـلَاثًا، فَلَمَّا بَلَغَ الْمَاءُ الَّذِي فِيْهِ الْکَافُوْرُ، سَکَبَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِيَدِهِ، ثُمَّ خَلَعَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَمِيْصَهُ، فَاَلْبَسَهَا يَهُ، وَکَفَّنَهَا بِبُرْدٍ فَوْقَهُ، ثُمَّ دَعَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم اسَامَهَ بْنَ زَيْدٍ وَأَبَا يُوْبَ الْاَنْصَارِيَّ وَعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ وَغُـلَامًا اَسْوَدَ يَحْفَرُوْنَ، فَحَفَرُوْا قَبْرَهَا، فَلَمَّا بَلَغُوا اللَّحْدَ، حَفَرَهُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم بِيَدِهِ، وَأَخْرَجَ تُرَابَهُ بِيَدِهِ، فَلَمَّا فَرَغَ دَخَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَاضْطَجَعَ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ:اللهُ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيْتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوْتُ، اغْفِرْ لِامِّي فَاطِمَهَ بِنْتِ اَسَدٍ، وَلَقِّنْهَا حُجَّتَهَا، وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مَدْخَلَهَا بِحَقِّ نَبِيِّکَ وَالْاَنْبِيَاءِ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِي، فَإِنَّکَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِيْنَ، وَکَبَّرَ عَلَيْهَا أَرْبَعًا وَأَدْخَلُوْهَا اللَّحْدَ هُوَ وَالْعَبَّاسُ وَأَبُوْ بَکْرٍ الصِّدِّيْقُ رضی الله عنه.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 24/ 351، الرقم: 871، وأیضًا في المعجم الأوسط، 1/ 67، الرقم: 189، وأبو نعیم في حلیة الأولیاء، 3/ 121، والھیثمي في مجمع الزوائد، 9/ 257.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت علی بن ابی طالب کرم الله وجہہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم رضی الله عنہا کی وفات ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ وہاں (قبرستان) تشریف لے گئے اور اُن کے سرہانے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: الله تعالیٰ تجھ پر رحم فرمائے۔ اے میری ماں! تو میری ماں کے بعد میری ماں (کی طرح ہی) تھی اور تو مجھے شکم سیرکرتی تھی اور مجھے کپڑے پہناتی تھی اور میری خاطر خود پھٹے پرانے کپڑے پہن لیتی تھی اور اپنے آپ کو اعلیٰ چیزوں سے محروم رکھتی تھی اور مجھے کھلاتی تھی اور اس سارے عمل سے توالله تعالیٰ کی رضا اور جنت کی طلب رکھتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے تین دفعہ انہیں غسل دینے کا حکم فرمایا۔ پس جب کافور ملا پانی پہنچا تو آپ ﷺ نے اپنے ہاتھ سے اسے انڈیلا پھر اپنا کرتہ مبارک اُتارا اور انہیں پہنا دیا اور اس چادر کے ذریعے جو آپ ﷺ پر تھی انہیں کفن پہنایا۔ پھر حضورنبی اکرم ﷺ نے حضرت اُسامہ بن زید، ابو ایوب انصاری، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ایک حبشی غلام کو قبر کھودنے کے لیے فرمایا۔ انہوں نے قبر کھودی اور جب لحد تک پہنچے تو آپ ﷺ نے اسے خود اپنے دستِ اقدس سے کھودا۔ اور اس کی مٹی اپنے ہاتھوں سے نکالی اور جب لحد کھود کر فارغ ہوئے تو آپ ﷺ اس کے اندر لیٹ گئے پھر فرمایا: الله تعالیٰ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور وہ زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آنی۔ اے الله! میری والدہ فاطمہ بنت اسد کو بخش دے اور اسے اس کی حجت کی تلقین فرما اور اپنے نبی اور مجھ سے قبل انبیاء کے توسّل سے اس پر قبر کشادہ فرما۔بے شک تو سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔ پھر ان پر چار تکبیریں پڑھیں اور خود آپ ﷺ نے اور حضرت عباس اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہما نے انہیں لحد میں اتارا۔‘‘

اسے امام طبرانی اور ابونعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند میں روح بن صلاح راوی ہے اسے امام ابن حبان اور حاکم نے ثقہ قرار دیا ہے۔ اِس کے علاوہ اِس حدیث کے تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

240/ 31. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: يَاْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُقَالُ: هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَاْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئَامٌ مِنَ النَّاسِ؟ فَيُقَالُ: هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ، ثُمَّ يَاْتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ فَيَغْزُوْ فِئاَمٌ مِنَ النَّاسِ فَيُقَالُ: هَلْ فِيْکُمْ مَنْ صَاحَبَ مَنْ صَاحَبَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم ؟ فَيَقُوْلُوْنَ: نَعَمْ، فَيُفْتَحُ لَهُمْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أصحاب النبي صلی الله علیه وآله وسلم، 3/ 1335، الرقم: 3449، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضل الصحابة ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم، 4/ 1962، الرقم: 2532، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 7، الرقم: 1056، وابن حبان في الصحیح، 11/ 86، الرقم: 4768.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کوئی ایسا شخص ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ کی صحبت میں رہا ہو؟ پس وہ لوگ کہیں گے: ہاں، تو انہیں (ان صحابہ کرام کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جب لوگوں کی ایک بڑی جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے کہ جس نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی صحبت پائی ہو؟ وہ کہیں گے: ہاں، پھر اُنہیں (ان تابعین کے توسل سے) فتح حاصل ہو جائے گی۔ پھر لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک کثیر جماعت جہاد کرے گی تو ان سے پوچھا جائے گا: کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص ہے جس نے رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی صحبت پانے والوں کی صحبت پائی ہو؟ تو وہ کہیں گے کہ ہاں! تو انہیں (تبع تابعین کے توسل سے) فتح دے دی جائے گی۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

241/ 32. عَنْ أَسِيْرِ بْنِ جَابِرٍ رضی الله عنه أَنَّ أَهْلَ الْکُوْفَةِ وَفَدُوْا إِلَی عُمَرَ رضی الله عنه، فِيْهِمْ رَجُلٌ مِمَّنْ کَانَ يَسْخَرُ بِأُوَيْسٍ، فَقَالَ عُمَرُ: هَلْ هٰهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرْنِيِّيْنَ؟ فَجَاءَ ذَالِکَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم قَدْ قَالَ: إِنَّ رَجُـلًا يَاْتِيْکُمْ مِنَ الْيَمَنِ، يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ، قَدْ کَانَ بِهِ بَيَاضٌ، فَدَعَا الله، فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ إِلاَّ مَوضِعَ الدِّيْنَارِ أَوِ الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْکُمْ فَلْيَسَتَغْفِرْلَکُمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ.

أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل اویس القرني، 4/ 1968، الرقم: 2542، وابو نعیم في حلیة الٔاولیاء، 2/ 79، وابن سعد في الطبقات الکبری، 6/ 162، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 3/ 123، والذهبي في میزان الاعتدال، 1/ 447.

’’حضرت اسیر بن جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ اہلِ کوفہ ایک وفد لے کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وفد میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو حضرت اویس رضی اللہ عنہ سے مذاق کیا کرتا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہاں کوئی قرن کا رہنے والاہے؟ یہ سن کر وہ شخص حاضر ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہارے پاس یمن سے ایک شخص آئے گا اس کا نام اویس ہو گا۔ یمن میں اس کی والدہ کے سوا کوئی نہیں ہو گا۔ اسے برص کی بیماری تھی، اس نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ایک دینار یا درہم کے برابر سفید داغ کے سوا باقی (برص کے) داغ اس سے دور کر دیے، تم میں سے جس شخص کی اس سے ملاقات ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اس سے تمہاری مغفرت کی دعا کرائے۔‘‘

اسے امام مسلم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

242/ 33. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم: مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَی الصَّـلَةِ، فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُـکَ بِحَقِّ السَّائِلِيْنَ عَلَيْکَ، وَأَسْأَلُـکَ بِحَقِّ مَمْشَاءَ هٰذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَائً وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِکَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، فَاَسْأَلُـکَ أَنْ تُعِيْذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اللهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ.

أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب المشی إلی الصلاة، 1/ 256، الرقم: 778، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 21، الرقم: 11172، وابن أبي شیبة في المصنف، 6/ 25، الرقم: 29202، وابن الجعد في المسند، 1/ 299، الرقم: 2031، وابن السني في عمل الیوم واللیلة/ 30، الرقم: 83، والمنذري في الترغیب والترهیب، 1/ 135، الرقم: 488.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص نماز کے ارادے سے اپنے گھرسے نکلے اور یہ دعا مانگے: اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَسْأَلُـکَ بِحَقِّ السَّائِلِيْنَ عَلَيْکَ وَأَسْأَلُـکَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هٰذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا وَلَا رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ سُخْطِکَ وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِکَ، فَاَسْأَلُـکَ أَنْ تُعِيْذَنِي مِنَ النَّارِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلَّا أَنْتَ ’’اے اللہ ! میں تجھ سے تیرے سائلین کے وسیلہ سے سوال کرتاہوں اور میں تجھ سے (نماز کی طرف اٹھنے والے) اپنے قدموں کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں۔ بے شک میں نہ کسی برائی کی طرف چلا ہوں نہ تکبر اور غرور سے، نہ دکھاوے اور نہ کسی دنیاوی شہرت کی خاطر نکلاہوں۔ میں توصرف تیری ناراضگی سے بچنے کے لیے اور تیری رضا کے حصول کے لیے نکلا ہوں ۔ سو میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے دوزخ کی آگ سے نجات دے، میرے گناہوں کو بخش دے۔ بے شک تو ہی گناہوں کو بخشنے والاہے‘‘۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ستر ہزار فرشتے اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘

اسے امام ابن ماجہ، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

243/ 34. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: إِنَّ ِاللهِ مَـلَائِکَةً فِي الْاَرْضِ سِوَی الْحَفَظَةِ يَکْتُبُوْنَ مَا يَسْقُطُ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَإِذَا اَصَابَ اَحَدَکُمْ عُرْجَةٌ فِي الْاَرْضِ، لَا يَقْدِرُ فِيْهَا عَلَی الْاَعْوَانِ فَلْيَصِحْ فَلْيَقُلْ: عِبَادَ اللهِ، اَغِيْثُوْنَا اَوْ اَعِيْنُوْنَا رَحِمَکُمُ اللهُ فَإِنَّهُ سَيُعَانُ. وَفِي رِوَيَةِ رَوْحٍ: إِنَّ ِاللهِ مَـلَائِکَةً فِي الْاَرْضِ يُسَمَّوْنَ الْحَفَظَهَ يَکْتُبُوْنَ مَا يَقَعُ فِي الْاَرْضِ مِنْ وَرَقِ الشَّجَرِ، فَمَا اَصَابَ اَحَدًا مِنْکُمْ عُرْجَةٌ اَوِ احْتَاجَ إِلٰی عَوْنٍ بِفَـلَةٍ مِنَ الْاَرْضِ فَلْيَقُلْ: اَعِيْنُوْنَا، عِبَادَ اللهِ، رَحِمَکُمُ اللهُ فَإِنَّهُ يُعَانُ إِنْ شَاءَ اللهُ.

رَوَاهُ ابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

اخرجه ابن ابي شیبة في المصنف، 6/ 91، الرقم: 29721، والبیهقي في شعب الإیمان، 6/ 128، الرقم: 7697، 1/ 183، الرقم: 167، والمناوي في فیض القدیر، 1/ 307، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 132.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے، انسان کے اعمال لکھنے والے فرشتوں کے علاوہ ایسے بھی ہیں جو درختوں کے پتوں کے گرنے تک کو لکھتے ہیں، پس تم میں سے جب کوئی کسی جگہ (کسی بھی مشکل میں پڑ) جائے، جہاں بظاہر اس کا کوئی مددگار بھی نہ ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ پکار کر کہے: اے اللہ کے بندو، اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، تو پس اس کی مدد کی جائے گی۔ اور حضرت روح کی روایت میں ہے کہ بے شک زمین پر اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے ایسے ہیں جنہیں حَفَظَۃ (حفاظت کرنے والے) کا نام دیا جاتا ہے، اور جو زمین پر گرنے والے درختوں کے پتوں تک کو لکھتے ہیں، پس جب تم میں سے کوئی کسی جگہ محبوس ہوجائے یا کسی ویران جگہ پر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ یوں کہے: اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے، ہماری مدد کرو، پس اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس شخص کی (فوراً) مدد کی جائے گی۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں۔

244/ 35. عَنْ أُسَامَهَ بْنِ عُمَيْرٍ رضی الله عنه أَنَّهُ صَلّٰی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم رَکْعَتَي الْفَجْرِ فَصَلّٰی قَرِيْبًا مِنْهُ، فَصَلَّی النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم رَکْعَتَيْنِ خَفِيْفَتَيْنِ، فَسَمِعَهُ يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ، رَبَّ جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ وَإِسْرَافِيْلَ وَمُحَمَّدٍ (صلی الله علیه وآله وسلم)، أَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَاَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَفِيْهِ عِبَادُ بْنُ سَعِيْدٍ قَدْ ذَکَرَهُ ابْنُ حِبَّانَ فِي الثِّقَاتِ.

أخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 721، الرقم: 6610، وابو یعلی في المسند، 8/ 213، الرقم: 4779، والطبراني في المعجم الکبیر، 1/ 195، الرقم: 520، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 4/ 205-206، الرقم: 1422-1423، وابن سرایا في سلاح المؤمن في الدعاء/ 349، الرقم: 647، والھیثمي في مجمع الزوائد، 2/ 219، والحسیني في البیان والتعریف، 1/ 150، الرقم: 398.

’’حضرت اسامہ بن عمیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کی دو رکعت نماز ادا کی اور وہ آپ ﷺ کے قریب ہی کھڑے تھے۔ آپ ﷺ نے دو رکعتوں میں آہستہ آواز میں قراء ت فرمائی، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے سنا کہ حضور نبی اکرم ﷺ (نماز سے فارغ ہو کر) یہ دعا مانگ رہے ہیں: ’’ اے جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور محمد مصطفی ﷺ کے ربّ! میں دوزخ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کی سند میں عباد بن سعید نامی راوی ہے اسے امام ابن حبان نے الثقات میں ذکر کیا ہے۔

245/ 36. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه کَانَ إِذَا قُحِطُوْا اسْتَسْقٰی بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما، فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِيْنَا، وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْکَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، قَالَ: فَيُسْقَوْنَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَهَ وَابْنُ حِبَّانَ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الاستسقائ، باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا، 1/ 342، الرقم: 964، وأیضًا فيکتاب فضائل الصحابة، باب ذکر العباس بن عبد المطلب رضي الله عنهما، 3/ 1360، الرقم: 3507، وابن خزیمة في الصحیح، 2/ 337، الرقم: 1421، وابن حبان في الصحیح، 7/ 110، الرقم: 2861، والطبراني في المعجم الاوسط، 3/ 49، الرقم: 2437، والبیهقي في السنن الکبری، 3/ 352، الرقم: 6220، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 1/ 270، الرقم: 351، واللالکائي في کرامات الاولیاء / 135، الرقم: 87، وابن عبد البر في الاستیعاب، 2/ 814، والطبري في تاریخ الأمم والملوک، 4/ 433.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کیا کرتے تھے اور (بارگاہِ الٰہی میں) یوں عرض کرتے: اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم ﷺ کو اپنا وسیلہ بنایا کرتے تھے اور تُو ہم پر بارش برسا دیتا تھا۔ اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم ﷺ کے چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں۔ پس ہم پر بارش برسا۔ راوی نے بیان کیا: پس ان پر بارش برسا دی جاتی۔‘‘

اسے امام بخاری، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

246/ 37. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما اَنَّهُ قَالَ: اسْتَسْقٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه عَامَ الرِّمَادَةِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنھما فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ، هٰذَا عَمُّ نَبِيِّکَ الْعَبَّاسُ، نَتَوَجَّهُ إِلَيْکَ بِهِ، فَاسْقِنَا، فَمَا بَرِحُوْا حَتّٰی سَقَهُمُ اللهُ قَالَ: فَخَطَبَ عُمَرُ رضی الله عنه النَّاسَ، فَقَالَ: يُهَا النَّاسُ، إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ يَرَی لِلْعَبَّاسِ مَا يَرَی الْوَلَدُ لِوَالِدِهِ، يُعَظِّمُهُ، وَيُفَخِّمُهُ، وَيَبَرُّ قَسَمَهُ، فَاقْتَدُوْا، ايُهَا النَّاسُ، بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي عَمِّهِ الْعَبَّاسِ، وَاتَّخِذُوْهُ وَسِيْلَةً إِلَی اللهِ فِيْمَا نَزَلَ بِکُمْ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْخَـلَّالُ وَاللَّالْکَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب معرفة الصحابة رضوان الله علیهم اجمعین، باب ذکر إسلام العباسص، 3/ 377، الرقم: 5438، وأبو بکر بن الخلال في السنة / 91، الرقم: 27، واللالکائي في کرامات الأولیاء / 135، الرقم: 87-89، والطبراني في الدعاء / 300، 607، الرقم: 965، 2211، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3/ 98، والذھبي في سیر اعلام النبلاء، 2/ 92، والعسقلاني في فتح الباري، 2/ 497، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1/ 305، الرقم: 559، والقسطلاني في المواهب اللدنیة، 4/ 277، والسبکي في شفاء السقام / 128، والمبارکفوري في تحفة الاحوذي، 9/ 348، والمناوي في فیض القدیر، 5/ 215.

’’حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عام الرمادہ (یعنی قحط و ہلاکت کے سال) حضرت عباس بن عبد المطلب رضی الله عنھما کو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بنا کر بارش کے لیے یوں دعا مانگی: اے الله! یہ تیرے نبی کے چچا حضرت عباس ہیں، ہم اِن کے وسیلہ سے آپ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ہم پر بارش برسا، وہ یونہی دعا کرتے رہے حتی کہ الله تعالیٰ نے اُن پر بارش برسا دی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب فرمایا: اے لوگو! حضورنبی اکرم ﷺ ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ویسے ہی سمجھتے تھے جیسے بیٹا باپ کو سمجھتا ہے۔ آپ ﷺ ان کی تعظیم و توقیر کرتے اور ان کے وعدوں کو پورا کرتے تھے۔ اے لوگو! تم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کیا کرو اور انہیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں وسیلہ بناؤ تاکہ وہ تم پر (بارش) برسائے۔‘‘

اسے امام حاکم، خلال، لالکائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

247/ 38. وقال العسقـلاني في ’’الفتح‘‘: أَنَّ الْعَبَّاسَ رضی الله عنه لَمَّا اسْتَسْقٰی بِهِ عُمَرُ رضی الله عنه قَالَ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَـلَائٌ إِلَّا بِذَنْبٍ وَلَمْ يُکْشَفْ إِلَّا بِتَوْبَةٍ، وَقَدْ تَوَجَّهَ الْقَوْمُ بِي إِلَيْکَ لِمَکَانِي مِنْ نَبِيِّکَ، وَهٰذِهِ يْدِيْنَا إِلَيْکَ بِالذُّنُوْبِ، وَنَوَاصِيْنَا إِلَيْکَ بِالتَّوْبَةِ، فَاسْقِنَا الْغَيْثَ، فَأَرْخَتِ السَّمَاءُ مِثْلَ الْجِبَالِ حَتّٰی أَخْصَبَتِ الْاَرْضُ وَعَاشَ النَّاسُ.

وَأَخْرَجَ يْضًا مِنْ طَرِيْقِ دَاوُدَ عَنْ عَطَائٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: اسْتَسْقٰی عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی الله عنه عَامَ الرِّمَادَةِ بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فذکر الحدیث وفیہ فَخَطَبَ النَّاسَ عُمَرُ رضی الله عنه فَقَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم کَانَ يَرَی لِلْعَبَّاسِ مَا َیرَی الْوَلَدُ لِلْوَالِدِ فَاقْتَدُوْا، يُهَا النَّاسُ، بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فِي عَمِّهِ الْعَبَّاسِ، وَاتَّخِذُوْهُ وَسِيْلَةً إِلَی اللهِ … وَفِيْهِ، فَمَا بَرِحُوْا حَتّٰی سَقَهُمُ اللهُ.

ذکره العسقلاني في فتح الباري،2/ 497.

’’امام عسقلانی نے فتح الباری میں بیان کیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کے لیے بارگاہ الٰہی میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بطور وسیلہ پیش کیا توحضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ دعاکی: ’’اے اللہ! ہمارے گناہوں کی وجہ سے ہی بلائیں نازل ہوتی ہیں اور (تیری بارگاہ میں خلوصِ قلب سے) توبہ کرنے سے ہی ٹلتی ہیں۔ اس قوم نے تیرے نبی ﷺ کے ساتھ میرے تعلق کا وسیلہ اختیارکیا ہے اورہمارے یہ گناہ گار ہاتھ تیری بارگاہ میں اُٹھے ہوئے ہیں اور ہماری پیشانیاں توبہ کے لیے (تیری بارگاہ میں) جھکی ہوئی ہیں۔ پس تو ہمیں بارش عطا فرما۔‘‘ (ان کی یہ دعا ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اُسی وقت) پہاڑوں کی طرح بادل اُمڈ آئے اور زمین خوب سر سبز و شاداب ہو گئی اور لوگوں کو ایک نئی زندگی مل گئی۔

’’اور امام عسقلانی نے ہی امام داود کے طریق سے روایت بیان کی ہے کہ انہوںنے عطاء سے، انہوں نے حضرت زید بن اسلم سے اور انہوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما کے طریق سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عام الرّمادہ (قحط والے سال) حضور نبی اکرم ﷺ کے چچا محترم حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کے توسل سے بارش طلب کی، پھر آگے پوری حدیث ذکر کی جس میں ہے کہ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایسے ہی سمجھتے تھے، جیسے ایک بیٹا اپنے والد کو، پس اے لوگو!آپ ﷺ کے چچا کے حق میں، حضور نبی اکرم ﷺ کی اقتدا کرو اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا وسیلہ پیش کرو۔ اسی حدیث میں یہ بھی ہے کہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بارش سے سیراب فرما دیا۔‘‘

248/ 39. وقال الشیخ تقي الدین السّبکي (756ھ): وکذالک یجوز مثل هٰذا التوسّل بسائر الصّالحین، وهذا شيء لا يُنْکِرُهُ مسلم، بل مَنْ يَدِيْنُ بملة من الملل.

ذکره تقي الدین السبکي في شفاء السقام في زیارة خیر الأنام/ 128.

’’اور امام تقی الدین سبکی نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’اس طرح اس واقعہ سے تمام صالحین کرام سے توسل کا جواز ثابت ہوتا ہے اور یہ ایسی چیز ہے جس کا مسلمانوں نے انکار نہیں کیا بلکہ تمام مذاہب میں سے کسی بھی مذہب کے پیرو کاروں نے توسل کا انکار نہیں کیا۔‘‘

249/ 40. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ سَعْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، مَا لِرِجْلِکَ؟ قَالَ: اجْتَمَعَ عَصَبُهَا مِنْ هَهُنَا. فَقُلْتُ: اُدْعُ اَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَانْبَسَطَتْ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْاَدَبِ وَابْنُ السُّنِّيِّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

اخرجه البخاري في الادب المفرد، باب ما یقول الرجل إذا خدرت رجلہ / 335، الرقم: 964، وابن الجعد في المسند، 1/ 369، الرقم: 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 154، وابن السني في عمل الیوم واللیلة / 141-142، الرقم: 168-170، 172، والقاضي عیاض في الشفا / 498، الرقم: 1218، ویحیی بن معین في التاریخ، 4/ 24، الرقم: 2953، والمناوي في فیض القدیر، 1/ 399، والمزي في تہذیب الکمال، 17/ 142.

250/ 41. وفي روایة: عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدَاه، فَقَامَ فَمَشٰی.

رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِّ.

اخرجه البخاري في الادب المفرد، باب ما یقول الرجل إذا خدرت رجلہ / 335، الرقم: 964، وابن الجعد في المسند، 1/ 369، الرقم: 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 154، وابن السني في عمل الیوم واللیلة / 141-142، الرقم: 168-170، 172، والقاضي عیاض في الشفا / 498، الرقم: 1218، ویحیی بن معین في التاریخ، 4/ 24، الرقم: 2953، والمناوي في فیض القدیر، 1/ 399، والمزي في تہذیب الکمال، 17/ 142.

251/ 42. وفي روایة: خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما: اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ. فَقَالَ: مُحَّمَدٌ صلی الله علیه وآله وسلم، فَذَهَبَ خَدِرَهُ.

رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِ.

اخرجه البخاري في الادب المفرد، باب ما یقول الرجل إذا خدرت رجلہ / 335، الرقم: 964، وابن الجعد في المسند، 1/ 369، الرقم: 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 154، وابن السني في عمل الیوم واللیلة / 141-142، الرقم: 168-170، 172، والقاضي عیاض في الشفا / 498، الرقم: 1218، ویحیی بن معین في التاریخ، 4/ 24، الرقم: 2953، والمناوي في فیض القدیر، 1/ 399، والمزي في تہذیب الکمال، 17/ 142.

252/ 43. وفي روایة: عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ قَالَ: کُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اُذْکُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْکَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ (صلی الله علیک وسلم)، فَقَالَ: فَقَامَ فَکَأَنَّمَا نُشِّطَ مِنْ عِقَالٍ.

رَوَاهُ ابْنُ السُّنِّيِ.

اخرجه البخاري في الادب المفرد، باب ما یقول الرجل إذا خدرت رجلہ / 335، الرقم: 964، وابن الجعد في المسند، 1/ 369، الرقم: 2539، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/ 154، وابن السني في عمل الیوم واللیلة / 141-142، الرقم: 168-170، 172، والقاضي عیاض في الشفا / 498، الرقم: 1218، ویحیی بن معین في التاریخ، 4/ 24، الرقم: 2953، والمناوي في فیض القدیر، 1/ 399، والمزي في تہذیب الکمال، 17/ 142.

’’حضرت عبد الرحمن بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ تھے کہ ان کا پاؤں سن ہوگیا تو میں نے اُن سے عرض کیا: اے ابو عبد الرحمن! آپ کے پاؤں کو کیا ہوا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا: یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا: تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اسے یاد کریں، اُنہوں نے یا محمد (صلی الله علیک وسلم) کا نعرہ بلند کیا۔ (راوی بیان کرتے ہیں کہ) اسی وقت ان کے اعصاب کھل گئے۔‘‘

اسے امام بخاری نے الادب المفرد میں اور ابن السنی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

’’ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کے ساتھ چل رہا تھا کہ ان کی ٹانگ سن ہو گئی، تو وہ بیٹھ گئے، پھر انہیں کسی نے کہا کہ لوگوں میں سے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کریں۔ تو انہوں نے یا محمداہ! (اے محمد صلی الله علیک وسلم!) کا نعرہ لگایا۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ اُٹھ کر چلنے لگ گئے۔‘‘ اسے امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

’’ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس شخص سے فرمایا: لوگوں میں سے جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو۔ اُس شخص نے یا محمد (صلی الله علیک وسلم) کا نعرہ لگایا تو اسی وقت اس کا پاؤں ٹھیک ہو گیا۔‘‘ اِسے امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت ہیثم بن حنش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما کے پاس تھے کہ ایک آدمی کی ٹانگ سن ہوگئی، تو اس سے کسی شخص نے کہا: لوگوں میں سے جو شخص تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو، تو اس نے کہا: یا محمد (صلی الله علیک وسلم)! راوی بیان کرتے ہیں: پس وہ یوں اٹھ کھڑا ہوا گویا باندھی ہوئی رسی سے آزاد ہو کر دوڑنے لگ گیا ہو۔‘‘

اِسے امام ابن السنی نے روایت کیا ہے۔

253/ 44. ذَکَرَ ابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه … وَحَمَلَ خَالِدُ بْنُ وَلِيْدٍ رضی الله عنه حَتّٰی جَاوَزَهُمْ وَسَارَ لِجِبَالِ مُسَيْلَمَهَ وَجَعَلَ يَتَرَقَّبُ أَنْ يَصِلَ إِلَيْهِ فَيَقْتُلَهُ ثُمَّ رَجَعَ ثُمَّ وَقَفَ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ وَدَعَا الْبِرَازَ وَقاَلَ: اَنَا ابْنُ الْوَلِيْدِ الْعُوْدِ أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ ثُمَّ نَادٰی بِشِعَارِ الْمُسْلِمِيْنَ، وَکَانَ شِعَارُهُم يُوْمَئِذٍ ’’يَا مُحَمَّدَاه‘‘.

أخرجه الطبري في تاریخ الأمم والملوک، 2 / 281، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 6/ 324.

’’امام ابن جریر طبری اور ابن کثیر نے بیان کیا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے (طویل روایت میں) مروی ہے: ’’(جنگ یمامہ کے موقع پر حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا اٹھایا اور لشکر سے گزر کر مسیلمہ کذاب کے مستقر پہاڑ کی طرف چل دیئے اور وہ اِس انتظار میں تھے کہ مسیلمہ تک پہنچ کر اُسے قتل کر دیں۔ پھر وہ لوٹ آئے اور دونوں لشکروں کے درمیان کھڑے ہو کر مقابلہ کی دعوت دی اور بلند آواز سے فرمایا: میں ولید کا بیٹا ہوں، میں عامر و زید کا بیٹا ہوں۔ پھر اُنہوں نے مسلمانوں کا مروجہ نعرہ بلند کیا اور اُن دنوں اُن کا جنگی نعرہ ’’یا محمداہ صلی الله علیک وسلم‘‘ (یا محمد! مدد فرمائیے) تھا۔‘‘

254/ 45. عَنْ اَبِي الْجَوْزَاءِ اَوْسِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: قُحِطَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ قَحْطًا شَدِيْدًا، فَشَکَوْا إِلٰی عَائِشَهَ رضي الله عنها فَقَالَتْ: اُنْظُرُوْا قَبْرَ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَاجْعَلُوْا مِنْهُ کِوًی إِلَی السَّمَاءِ، حَتّٰی لَا يَکُوْنَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ سَقْفٌ، قَالَ: فَفَعَلُوْا، فَمُطِرْنَا مَطَرًا، حَتّٰی نَبَتَ الْعُشْبُ، وَسَمِنَتِ الإِبِلُ، حَتّٰی تَفَتَّقَتْ مِنَ الشَّحْمِ، فَسُمِّيَ عَامَ الْفَتْقِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْخَطِيْبُ التَّبْرِيْزِيُّ.

أخرجه الدارمي في السنن، باب ما اکرم الله تعالی نبیّہ صلی الله علیه وآله وسلم بعد موته، 1/ 56، الرقم: 92، والخطیب التبریزي في مشکاة المصابیح، 4/ 400، الرقم: 5950، وابن الجوزي في الوفاء باحوال المصطفی صلی الله علیه وآله وسلم، 2/ 801، وتقي الدین السبکي في شفاء السقام/ 128، والقسطلاني في المواهب اللدنیة، 4/ 276، والزرقاني في شرحه، 11/ 150.

’’حضرت ابو جوزاء اَوس بن عبد الله رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے لوگ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے (اپنی ناگفتہ بہ حالت کی) شکایت کی۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور (یعنی روضہ اقدس) کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبرِ انور اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایسا ہی کیا تو (اسی وقت) بہت زیادہ بارش ہوئی، یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ (سبزہ کھا کھا کر) اس قدر موٹے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے۔ لہٰذا اس سال کا نام ہی عَامُ الْفَتْق (پیٹ) پھٹنے کا سال رکھ دیا گیا۔‘‘

اسے امام دارمی اور خطیب تبریزی نے روایت کیا ہے۔

255/ 46. عَنْ مَالِکٍ الدَّارِ رضی الله عنه وَکَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَی الطَّعَامِ قَالَ: اَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ رضی الله عنه، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلٰی قَبْرِ النَّبِيِّ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اسْتَسْقِ لِامَّتِکَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَکُوْا، فَاَتَی الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيْلَ لَهُ: اِئْتِ عُمَرَ فَاَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَاَخْبِرْهُ اَنَّکُمْ مَسْقِيُوْنَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْکَ الْکَيْسُ، عَلَيْکَ الْکَيْسُ، فَاَتٰی عُمَرَ، فَاَخْبَرَهُ، فَبَکٰی عُمَرُ، ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ، لَا آلُوْ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ.

رَوَاهُ ابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي الدَّلَائِلِ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ: رَوَاهُ ابْنُ اَبِي شَيْبَهَ بِإِسْنَادٍ صَحِيْحٍ.

أخرجه ابن ابي شیبة في المصنف، کتاب الفضائل، باب ما ذکر في فضل عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 6/ 356، الرقم: 32002، والبیهقي في دلائل النبوة، 7/ 47، وابن عبد البر في الاستیعاب، 3/ 1149، والسبکي في شفاء السقام/ 130، والھندي في کنز العمال، 8/ 431، الرقم: 23535، وابن تیمیة في اقتضاء الصراط المستقیم/ 373، وابن کثیر في البدایة والنهایة، 5/ 167، وقال: إسنادہ صحیح، والعسقلاني في الإصابة، 3/ 484.

’’حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے تو ایک صحابی، حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر اطہر پر حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول الله! آپ (الله تعالیٰ سے) اپنی اُمت کے لیے سیرابی مانگیں کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث) ہلاک ہو گئی ہے۔ تو خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی) کہہ دو (دین کے دشمن تمہاری جان لینے کے درپے ہیں ان سے) ہوشیار رہو، ہوشیار رہو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے الله! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ کسی کام میں عاجز ہو جاؤں۔‘‘

اسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر نے فرمایا: اس کی اسناد صحیح ہے۔امام عسقلانی نے بھی فرمایا: امام ابن ابی شیبہ نے اسے اسنادِ صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔

256/ 47. عَنْ اَبِي حَرْبٍ الْهَـلَالِيِّ رضی الله عنه قَالَ: حَجَّ اَعْرَابِيٌّ فَلَمَّا جَاءَ إِلٰی بَابِ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم اَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَعَقَلَهَا ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ حَتّٰی اَتَی الْقَبْرَ وَوَقَفَ بِحِذَاءِ وَجْهِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: ’’اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ‘‘ ثُمَّ سَلَّمَ عَلٰی اَبِي بَکْرٍ وَعُمَرَ رضي الله عنھما ثُمَّ اَقْبَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم فَقَالَ: بِاَبِي اَنْتَ وَامِّي يَا رَسُوْلَ اللهِ، جِئْتُکَ مُثْقَـلًا بِالذُّنُوْبِ وَالْخَطَيَا مُسْتَشْفِعًا بِکَ عَلٰی رَبِّکَ لِاَنَّهُ قَالَ فِي مُحْکَمِ کِتَابِهِ:{وَلَوْ اَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَاءُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا الله وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا الله تَوَّابًا رَحِيْمًا} [النساء، 4: 64]، وَقَدْ جِئْتُکَ بِاَبِي اَنْتَ وَامِّي مُثْقَـلًا بِالذُّنُوْبِ وَالْخَطَيَا اَسْتَشْفِعُ بِکَ عَلٰی رَبِّکَ اَنْ يَغْفِرَ لِي ذُنُوْبِي وَاَنْ تَشْفَعَ فِيَّ ثُمَّ اَقْبَلَ فِي عَرْضِ النَّاسِ، وَهُوَ يَقُوْلُ:

يَا خَيْرَ مَنْ دُفِنَتْ فِي الْاَرْضِ اَعْظُمُهُ
فَطَابَ مِنْ طِيْبِهِ الْاَبْقَاعُ، وَالْاَکَمُ
نَفْسِ الْفِدَاءُ بِقَبْرٍ اَنْتَ سَاکِنُهُ
فِيْهِ الْعَفَافُ وَفِيْهِ الْجُوْدُ وَالْکَرَمُ

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

اخرجه البیهقي في شعب الإیمان، فضل الحج والعمرة، 3/ 495، الرقم: 4178، وابن قدامة في المغني، 3/ 298، وابن کثیر في تفسیر القرآن العظیم، 1/ 521، والسیوطي في الدر المنثور، 1/ 570.

’’حضرت ابو حرب ہلالی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی ﷺ کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد وہ مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کی قبر انور کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے چہرۂ انور کے سامنے کھڑے ہو کر اُس نے عرض کیا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اللهِ پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی الله عنھما کی خدمت میں سلام عرض کیا، پھر حضورنبی اکرم ﷺ (کے روضۂ اقدس) کی جانب (دوبارہ) بڑھا اور عرض کرنے لگا: یا رسول الله! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آپ کے دربار میں حاضر ہوا ہوں تاکہ آپ کے ربّ کی بارگاہ میں آپ کو اپنی بخشش کے لیے وسیلہ بنا سکوں کیونکہ الله تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآنِ پاک میں فرمایا ہے: ’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘ اور (یا رسول اللہ!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں آپ کے پاس گناہوں اور خطاؤں سے لدا ہوا آیا ہوں، اور میں آپ کے ربّ کی بارگاہ میں آپ کو اپنا وسیلہ بناتا ہوں اور یہ (عرض ہے) کہ آپ (اپنے ربّ کی بارگاہ میں) میرے حق میں سفارش فرمائیں، پھر وہ صحابہ کے ایک بڑے گروہ کی طرف بڑھا (جو کہ اسے دیکھ رہے تھے) اور (ان اشعار میں اپنے دل کی کیفیت) بیان کرنے لگا:

’’اے سب سے افضل ذات! آپ کی مبارک استخوان اس (با برکت) زمین میں مدفون ہیں، پس ان (کے جسدِ اقدس) کی پاکیزہ خوشبو سے اس زمین کے ٹکڑے اور ٹیلے بھی معطر و پاکیزہ ہیں، (یا رسول اللہ!) میری جان اس روضہ اقدس پر فدا ہو جس میں آپ آرام فرما ہیں اور (اپنی) اس قبر انور میں (بھی اسی طرح) پارسائی اور جود و کرم کا سرچشمہ اور منبع ہیں (جیسے اپنی ظاہری حیاتِ طیبہ میں تھے)۔‘‘

اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

257/ 48. عَنْ اَبِي إِسْحَاقَ الْقُرْشِيِّ رضی الله عنه يَقُوْلُ: کَانَ عِنْدَنَا رَجُلٌ بِالْمَدِيْنَةِ إِذْ رَاَی مُنْکَرًا لَا يُمْکِنُهُ اَنْ يُغَيِّرَهُ اَتَی الْقَبْرَ فَقَالَ:

يَا قَبْرَ النَّبِيِّ وَصَاحِبَيْهِ
اَلَا يَا غَوْثَنَا لَوْ تَعْلَمُوْنَ

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

اخرجه البیهقي في شعب الإیمان، فضل الحج والعمرة، 3/ 495، الرقم: 4177.

’’حضرت ابو اسحاق قرشی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں مدینہ منورہ میں ہمارے پاس ایک آدمی تھا جب وہ کوئی ایسی برائی دیکھتا جسے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا تو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور کے پاس آتا اور (آپ ﷺ کی بارگاہ میں یوں) عرض کرتا:

’’اے (سرورِ دوعالم) صاحب قبر! (اور اپنی قبور میں آرام فرما) آپ کے دونوں رفقائ! اور اے ہمارے مددگار (اور ہمارے آقا و مولا) کاش آپ ہماری (اس ناگفتہ بہ حالتِ زار پر) نظر کرم فرمائیں۔‘‘

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

258/ 49. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، حَتّٰی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْاذُنِ، فَبَيْنَهُمْ کَذَالِکَ اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسٰی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الزکاة، باب من سأل الناس تکثرا، 2/ 536، الرقم: 1405، وابن مندہ في الإیمان، 2/ 854، الرقم: 884، والطبراني في المعجم الأوسط، 8/ 30، الرقم: 8725، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/ 269، الرقم: 3509، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/ 377، الرقم: 3677، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10/ 371، ووثّقه.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا، یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم عليہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ عليہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفی ﷺ سے مدد مانگیں گے۔‘‘

اِسے امام بخاری، ابن مندہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

259/ 50. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ رضی الله عنه قَالَ: اَرْدَفَنِي رَسُوْلُ اللهِ خَلْفَهُ ذَاتَ يَوْمٍ وقال في روایة طویلة: فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْاَنْصَارِ فَإِذَا جَمَلٌ. فَلَمَّا رَاَی النَّبِيَّ صلی الله علیه وآله وسلم حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَهُ. فَاَتَهُ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم فَمَسَحَ ذِفْرَهُ، فَسَکَتَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هٰذَا الْجَمَلِ؟ لِمَنْ هٰذَا الْجَمَلُ؟ فَجَاءَ فَتًی مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ: لِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ: اَفَـلَا تَتَّقِي الله فِي هٰذِهِ الْبَهِيْمَةِ الَّتِي مَلَّکَکَ اللهُ يَهَا، فَإِنَّهُ شَکَا إِلَيَّ اَنَّکَ تُجِيْعُهُ وَتُدْئِبُهُ.

رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَاَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: فِيْهِ عَبْدُ الْحَکِيْمِ ابْنِ سُفْيَانَ ذَکَرَهُ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَلَمْ يَجْرِحْهُ أَحَدٌ وَبَقِيَةُ رِجَالِهِ ثِقَاتٌ.

اخرجه ابو داود في السنن،کتاب الجهاد، باب ما یؤمر به من القیام علی الدواب والبهائم، 3/ 23، الرقم: 2549، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 205، الرقم: 1754، وأبو یعلی في المسند، 12/ 157، الرقم: 6787، والحاکم في المستدرک، 2/ 109، الرقم: 2485، والبیهقي في السنن الکبری، 8/ 13، الرقم: 15592، والطبراني في المعجم الاوسط، 9/ 54، وابن ابي عاصم في الآحاد والمثاني، 1/ 314، الرقم: 437، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 159، الرقم: 186، وأبو عوانة في المسند، 1/ 197، 168، الرقم: 497، والمقدسي في الأحادیث المختارة، 9/ 158-160، الرقم: 1330-1336، وابن عساکر في تاریخ مدینة دمشق، 4/ 374، 27/ 374، والاندلسي في تحفة المحتاج، 2/ 238، الرقم: 1536، والنووي في ریاض الصالحین/ 243، الرقم: 243، والمزي فيتهذیب الکمال، 6/ 165، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 2/ 19، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9/ 8.

’’حضرت عبد الله بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ ایک انصاری شخص کے باغ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک اُونٹ تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کو دیکھا تو وہ رو پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر دست شفقت پھیرا تو وہ خاموش ہو گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اِس اُونٹ کا مالک کون ہے؟ یہ کس کا اونٹ ہے؟ انصار کا ایک نوجوان حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ میرا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اِس بے زبان جانور کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں مالک بنایا ہے۔ اِس نے مجھے شکایت کی ہے کہ تم اِسے بھوکا رکھتے ہو اور اِس سے بہت زیادہ کام لیتے ہو۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد، ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی سند میں عبد الحکیم بن سفیان نامی راوی ہیں امام ابن ابی حاتم نے ان کا بغیر کسی جرح کے ذکر کیا ہے اور ان کے علاوہ بھی تمام رجال ثقہ ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved