حضور ﷺ کے نبوی خصائصِ مبارکہ

حضور ﷺ کی تمام انبیاء اور رسولوں علیھم السلام پر فضیلت کا بیان

بَابٌ فِي تَفْضِيْلِهِ ﷺ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ عليهم السلام

11/ 1. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَاَوَّلُ شَافِعٍ وَاَوَّلُ مُشَفَّعٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَاَحْمَدُ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ.

اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب تفضيل نبينا ﷺ علی جميع الخلائق، 4/ 1782، الرقم: 2278، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في التخيير بين الانبياء عليهم الصلاة والسلام، 4/ 218، الرقم: 4673، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 540، الرقم: 10985، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 257، الرقم: 35849، وابن حبان عن عبد ﷲ رضي الله تعالیٰ عنه في الصحيح، 14/ 398، الرقم: 6478، وابو يعلی عن عبد ﷲ بن سلام رضي الله تعالیٰ عنه في المسند، 13/ 480، الرقم: 7493، وابن ابي عاصم في السنة، 2/ 369، الرقم: 792، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 4/ 788، الرقم: 1453، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 4، وايضًا في شعب الإيمان، 2/ 179، الرقم: 1486.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن اولادِ آدم کا سردار ہوں گا، اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس کی قبر شق ہو گی، اور سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلا شخص بھی میں ہی ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

اِسے امام مسلم، ابو داود، اَحمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

12/ 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَقَدْ رَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قَطُّ، قَالَ: فَرَفَعَهُ اللهُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْاَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسٰی عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَهَ. وَ إِذَا عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَهِيْمُ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَةُ فَاَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَةِ، قَالَ قَائِلٌ: يَا مُحَمَّدُ، هٰذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّـلَامِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ عَوَانَهَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1/ 156، الرقم: 172، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 455، الرقم: 11480، وأبو عوانة في المسند، 1/ 116 الرقم: 350، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 1/ 239، الرقم: 433، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 487.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا۔ قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ اُنہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے کبھی اتنا پریشان نہیں ہوا تھا۔ تب ﷲ تعالیٰ نے اُسے (بیت المقدس کو) میرے لیے بلند (اور اتنا قریب) کر دیا کہ میں اُسے دیکھ سکوں۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (دیکھ کر) اُنہیں بتا دیتا۔ پھر میں نے خود کو انبیاءِ کرام علیہم السلام کی جماعت میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ عليہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور وہ قبیلہ شنواہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے۔ پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام (کو دیکھا کہ جو) کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور لوگوں میں سے سب سے زیادہ اُن سے مشابہت رکھنے والے عروہ بن مسعود ثقفی ہیں اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام (کو دیکھا کہ جو) کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم ﷺ ) تمام لوگوں میں اُن کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں۔ پھر نماز کا وقت آیا۔ اور میں نے ان سب انبیاءِ کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا: یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجیے۔ سو میں اُن کی طرف متوجہ ہوا تو اُنہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔‘‘

اِسے امام مسلم، نسائی، ابو عوانہ اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

13/ 3. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عليه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي  ﷺ، 5/ 586، الرقم: 3613، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2/ 1443، الرقم: 4314، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 137،138، الرقم: 21283، 21290، والحاکم في المستدرک، 1/ 143، الرقم: 240، 6969، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 90، الرقم: 171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3/ 385، الرقم: 1179، والمزي في تهذيب الکمال، 3/ 118.

’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اِس پر (مجھے) فخر نہیں۔‘‘

اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔

14/ 4. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ اعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَجُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا وَارْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُوْنَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب السير، باب ما جاء في الغنيمة، 4/ 123، الرقم: 1553، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/ 248، الرقم: 22190، والمزي في تهذيب الکمال، 12/ 317، الرقم: 2672، وقال: حسن صحيح، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1/ 16، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 412، وقال: رواه الترمذي، والسّيوطي في الدر المنثور، 2/ 343، وقال: أخرجه احمد والتّرمذي وصحّحه.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے چھ باتوں میں دوسرے انبیائے کرام پر فضیلت دی گئی ہے۔ مجھے جوامع الکلم (یعنی معرفت و حکمت سے معمور کلام جس کے الفاظ کم اور معانی زیادہ ہوں) عطا کیے گئے اور (حاسدین و معاندین پر) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی، میرے لیے مالِ غنیمت حلال کیا گیا، زمین کو میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک کرنے والی بنایا گیا ہے، مجھے تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبوت ختم کر دی گئی۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

15/ 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ يَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ فَخَرَجَ، حَتّٰی إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَجَبًا أَنَّ اللهَ تعالیٰ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْـلًا، اتَّخَذَ إِبْرَهِيْمَ خَلِيْـلًا، وَقَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَـلَامِ مُوْسٰی: کَلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ: فَعِيْسٰی کَلِمَةُ اللهِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَسَلَّمَ وَقَالَ: قَدْ سَمِعْتُ کَـلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَهِيْمَ خَلِيْلُ اللهِ وَهُوَ کَذَالِکَ وَمُوْسٰی نَجِيُّ اللهِ وَهُوَ کَذَالِکَ، وَعِيْسٰی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَهُوَ کَذَالِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَهُ اللهُ وَهُوَ کَذَالِکَ، أَ لَا وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اللهُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْاَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ عَلَی اللهِ وَلَا فَخْرَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

اخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5/ 587، الرقم: 3616، والدارمي في السنن، باب ما اعطي النّبي ﷺ من الفضل، 1/ 39، 42، الرقم: 47، 54.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، حضور نبی اکرم ﷺ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپ ﷺ تشریف لے آئے جب اُن کے قریب پہنچے تو اُنہیں باہم گفتگو کرتے سنا۔ آپ ﷺ نے اُن کی باتیں سنیں۔ اُن میں سے بعض نے کہا: کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم عليہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ عليہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ کلمۃ ﷲ اور روح اللہ ہیں۔ کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عليہ السلام کو چن لیا۔ اِسی دوران حضور نبی اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم عليہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ عليہ السلام نجی اللہ ہیں۔ بیشک وہ بھی اِسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ عليہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم عليہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا۔ وہ بھی یقینا ایسے ہی (شرف والے) ہیں۔ سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لیے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

16/ 6. عَنْ أَنَسٍ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا. اَلْکَرَامَةُ وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلٰی رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالْخَلَّالُ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5/ 585، الرقم: 3610، والدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1/ 39، الرقم: 48، والخلال في السنة، 1/ 208، الرقم: 235، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 47، الرقم: 117، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 1/ 235.

’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میں (اپنی قبر انور) سے نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر (بارگاہِ الٰہی میں) جائیں گے تو میں ہی اُن کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے ربّ کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم و معزز ہوں۔ میرے ارد گرد اُس روز ہزار خادم پھریں گے گویاکہ وہ پوشیدہ حسن ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘

اِسے امام ترمذی، دارمی نے مذکورہ الفاظ میں اور خلال نے روایت کیا ہے۔

17/ 7. عَنْ أَنَسٍ رضي الله تعالیٰ عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَهَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هٰذَا؟ قَالَ: فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمَ عَلَی اللهِ مِنْهُ. قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5/ 301، الرقم: 3131، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/ 164، الرقم: 12694، وابن حبان في الصحيح، 1/ 234، وأبو يعلی في المسند، 5/ 459، الرقم: 3184، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 357، الرقم: 1185، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 7/ 23، الرقم: 2404، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3/ 435، الرقم: 1574، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 206.

’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شبِ معراج، حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں براق لایا گیا جس کو لگام ڈالی ہوئی اور زین کَسی ہوئی تھی۔ (آپ ﷺ کی سواری بننے کی خوشی میں اُس براق کے رقص کی وجہ سے) آپ ﷺ کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرائیل عليہ السلام نے اُس براق سے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ اس طرح کر رہاہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسی ہستی سوار نہیں ہوئی جو ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ سے زیادہ معزز و محترم ہو۔ یہ سُن کر وہ براق شرم سے پانی پانی ہو گیا۔‘‘

اِسے امام ترمذی، اَحمد، ابو یعلی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

18/ 8. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ ص، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَنَا اَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْاَرْضُ فَاکْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ اَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ اَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُوْمُ ذَالِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5/ 585، الرقم: 3620، والمبارکفوري في تحفة الاحوذي، 7/ 92، والمناوي في فيض القدير، 3/ 41.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلا شخص میں ہوں جس کی زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا، اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی فائز نہیں ہو گا۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

19/ 9. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا، فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا: أَنْتَ رَسُوْلُ اللهِ عَلَيْکَ السَّلَامُ، قَالَ: أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اللهَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب: (99)، 5/ 543، الرقم:3532، وايضًا في کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ، 5/ 584، الرقم: 3607.3608، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 210، الرقم: 1788، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 149، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 41، الرقم: 95، والحسيني في البيان والتعريف، 1/ 178، الرقم: 466، والهندي في کنز العمال، 11/ 415، الرقم: 31950.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور شاید اُنہوں نے (کافروں سے) کچھ ناشائستہ کلمات سنے تھے۔ پس (واقعے پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ پر سلامتی ہو، آپ ﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھے اُن میں سب سے بہترین گروہ (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا، پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)، تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا۔ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانے (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لیے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب ہر ایک لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

20/ 10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: أُعْطِيْتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي وَلَا أَقُوْلُهُنَّ فَخْرًا: بُعِثْتُ إِلَی النَّاسِ کَافَّةً اَلْاَحْمَرِ وَالْاَسْوَدِ وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيْرَهَ شَهْرٍ وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ وَلَمْ تَحِلَّ لِاَحَدٍ قَبْلِي وَجُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُوْرًا وَأُعْطِيْتُ الشَّفَاعَهَ فَأَخَّرْتُهَا لِامَّتِي فَهِيَ لِمَنْ لَا يُشْرِکُ بِاللهِ شَيْئًا.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ وَابْنُ حُمَيْدٍ. وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: رَوَاهُ أَحْمَدُ وَإِسْنَادُهُ جَيِّدٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1/ 250، 301، الرقم: 2256، 2742، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 303، الرقم: 31643، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 215، الرقم: 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 258، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 256.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ﷲ عنہما سے روایت کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں عطا کی گئیں اور میں اِنہیں بطور فخر بیان نہیں کر رہا، مجھے تمام سرخ و سیاہ لوگوں کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا، ایک ماہ کی مسافت سے ہی طاری ہونے والے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی، اور میرے لیے اموالِ غنیمت کو حلال کیا گیا جبکہ مجھ سے پہلے کسی نبی کے لیے یہ حلال نہیں تھے، اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاک بنا دی گئی، اور مجھے شفاعت عطا کی گئی جسے میں نے اپنی اُمت کے لیے (روزِ قیامت تک) موخر کر دیا، اور یہ شفاعت اُس کے لیے ہوگی جو کسی شے کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہیں ٹھہرائے گا۔‘‘

اِسے امام اَحمد، ابن ابی شیبہ اور ابن حمید نے روایت کیا ہے۔ علامہ ابن کثیر نے فرمایا: اِسے امام اَحمد نے روایت کیا اور اس کی سند عمدہ ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا: امام اَحمد کی روایت کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

21/ 11. عَنْ عَلِيِّ بْنِ اَبِي طَالِبٍ رضي الله تعالیٰ عنه يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اعْطِيْتُ مَا لَمْ يُعْطَ اَحَدٌ مِنَ الْاَنْبِيَاءِ. فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا هُوَ؟ قَالَ: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ وَاعْطِيْتُ مَفَاتِيْحَ الْاَرْضِ وَسُمِّيْتُ اَحْمَدَ وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَهُوْرًا وَجُعِلَتْ امَّتِي خَيْرَ الْامَمِ.

رَوَاهُ ابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَاَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

أخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 6/ 304، الرقم: 31647، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 98، الرقم: 763، 1361، والبيهقي في السنن الکبری، 1/ 213، الرقم: 965، واللالکائي في اعتقاد اهل السنة، 4/ 783، الرقم: 1443، 1447، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 2/ 348، الرقم: 728-729، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 260، ايضًا، 8/ 269.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے وہ کچھ عطا کیا گیا جو انبیاء کرام علیھم السلام میں سے کسی کو عطا نہیں کیا گیا۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! وہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میری رعب و دبدبہ سے مدد کی گئی اور مجھے زمین (کے خزانوں) کی کنجیاں عطا کی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور مٹی کو میرے لیے پاک بنایا گیا اور میری اُمت کو سب اُمتوں سے بہترین اُمت بنایا گیا۔‘‘

اِسے امام ابن ابی شیبہ، احمد اور بیہقی روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔

22/ 12. عَنْ جَابِرٍ رضي الله تعالیٰ عنه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

اخرجه الدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1/ 40، الرقم: 49، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 61، الرقم: 170، والبيهقي في الاعتقاد/ 192، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 254، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 10/ 223، والمناوي في فيض القدير، 3/ 43.

’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا اور میں آخری نبی ہوں اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور میں یہ فخریہ نہیں کہتا ۔‘‘

اِسے امام دارمی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

23/ 13. عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ رضي الله تعالیٰ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: نَحْنُ الْآخِرُوْنَ، وَنَحْنُ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَهِيْمُ خَلِيْلُ اللهِ، وَمُوْسٰی صَفِيُّ اللهِ، وَأَنَا حَبِيْبُ اللهِ، وَمَعِي لِوَائُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ اللهَ تعالیٰ وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي، وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَـلَاثٍ: لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ، وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلٰی ضَلَالَةٍ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

اخرجه الدارمي في السنن، باب ما أعطي النّبيّ ﷺ من الفضل، 1/ 42، الرقم: 54، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 6/ 323.

’’حضرت عمرو بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہم (بلحاظِ بعثت) آخر میں آنے والے اور قیامت کے دن سب سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم عليہ السلام خلیل اللہ ہیں اور حضرت موسیٰ عليہ السلام صفی اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری اُمت کے متعلق وعدہ کر رکھا ہے اور تین باتوں سے اِسے (یعنی اُمت کو) بچایا ہے۔ ایسا قحط اُن پر نہیں آئے گا جو پوری اُمت کا احاطہ کر لے اور کوئی دشمن اُسے جڑ سے نہیں اُکھاڑ سکے گا اور (اللہ تعالیٰ) اُنہیں گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘

اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

24/ 14. عَنْ عَائِشَهَ رضي ﷲ عنها، عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُـلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ ﷺ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 6/ 237، الرقم: 6285، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 752، الرقم: 1402، والهیثمي في مجمع الزوائد، 8/ 217.

’’اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت جبریل عليہ السلام نے (مجھ سے) کہا: میں نے تمام زمین کے مشارق و مغارب (اطراف و اکناف) کی سیر کی ہے، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی ﷺ سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘

اِسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

25/ 15. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اتَّخَذَ اللهُ إِبْرَهِيْمَ خَلِيْـلًا وَمُوْسٰی نَجِيًّا وَاتَّخَذَنِي حَبِيْبًا، ثُمَّ قَالَ: وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي لَاوْثِرَنَّ حَبِيْبِي عَلٰی خَلِيْلِي وَنَجِيْيِي.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالسُّيُوْطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.

اخرجه البيهقي في شعب الإيمان، فصل في برائة نبينا ﷺ في النبوة، 2/ 185، الرقم: 1494، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 422، الرقم:1716، والسيوطي في الفتح الکبير، 1/ 29، وأيضًا في جامع الاحاديث، 1/ 29، الرقم:169، والهندي في کنز العمال، 1/ 2278، الرقم: 31893، والمناوي في فيض القدير، 1/ 109.

’’حضرت ابو ہریرہ رضي اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عليہ السلام کو (اپنا) خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ عليہ السلام کو اپنے ساتھ کلام و سرگوشی کرنے والا بنایا اور مجھے اپنا حبیب بنایا اور پھر (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی! میں ضرور اپنے حبیب کو اپنے خلیل و نجی پر ترجیح و فوقیت دوں گا۔‘‘

اِسے امام بیہقی، دیلمی، سیوطی اور ہندی نے روایت کیا ہے۔

26/ 16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي ﷲ عنهما قَالَ: إِنَّ اللهَ فَضَّلَ مُحَمَّدًا عَلَی الْاَنْبِيَاءِ وَعَلٰی هْلِ السَّمَاءِ؟ فَقَالُوْا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، بِمَ فَضَّلَهُ عَلٰی هْلِ السَّمَاءِ قَالَ: إِنَّ اللهَ قَالَ لِهْلِ السَّمَاءِ: {وَ مَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ اِنِّيْ اِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهِ فَذٰلِکَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الظّٰلِمِيْنَo} [الانبياء، 21: 29]، وَقَالَ اللهُ تعالیٰ لِمُحَمَّدٍ ﷺ : {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِيْنًاo لِّيَغْفِرَ لَکَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ} [الفتح، 48: 1-2]، قَالُوْا: فَمَا فَضَّلَهُ عَلَی الْاَنْبِيَاءِ؟ قَالَ: قَالَ اللهُ: {وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ} [إبراهيم، 14: 4]، وَقَالَ اللهُ لِمُحَمَّدٍ ﷺ : {وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا کَآفَّةً لِّـلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّنَذِيْراً} [سبا، 34: 28]، فَاَرْسَلَهُ اللهُ إِلَی الْجِنِّ وَالإِنْسِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

اخرجه الدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1/ 38، الرقم: 46، والطبراني في المعجم الکبير، 11/ 329، الرقم: 11610، والحاکم في المستدرک، 2/ 381، الرقم: 3335، والبيهقي في شعب الإيمان، 1/ 173، الرقم: 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 254، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 3/ 263، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 539-540.

’’حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا محمد مصطفی ﷺ کو جملہ انبیاء کرام اور تمام اہل آسمان پر فضیلت بخشی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا: اے ابن عباس! ﷲ تعالیٰ نے اُنہیں اہل آسمان پر کس چیز میں فضیلت دی؟ حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہما نے فرمایا: بیشک ﷲ تعالیٰ نے اہل آسمان کے لیے فرمایا: ’’اور ان میں سے کون ہے جو کہہ دے کہ میں اس (ﷲ) کے سوا معبود ہوں سو ہم اسی کو دوزخ کی سزا دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ اور ﷲ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لیے فرمایا: ’’(اے حبیب مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لیے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا۔ (اس لیے کہ آپ کی عظیم جدوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے تاکہ آپ کی خاطر ﷲ تعالیٰ کی امت (کے ان تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: آپ ﷺ کی انبیاء کرام پر کیا فضیلت ہے؟ انہوں نے فرمایا: ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ۔‘‘ اور ﷲ تعالیٰ نے محمد مصطفی ﷺ کے لیے فرمایا: ’’اور (اے حبیب مکرم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لیے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔‘‘ سو ﷲ تعالیٰ نے آپ کو تمام جنات و انسانوں کے لیے رسول بنایا۔‘‘

اِسے امام دارمی، حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

27/ 17. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: سَيِّدُ الْاَنْبِيَاءِ خَمْسَةٌ، وَمُحَمَّدٌ ﷺ سَيِّدُ الْخَمْسَةِ: نُوْحٌ، وَإِبْرَهِيْمُ، وَمُوْسٰی، وَعِيْسٰی صلوات ﷲ وسلامه عليهم.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ نَحْوَهُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ وَإِنْ کَانَ مَوْقُوْفًا عَلٰی اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله تعالیٰ عنه.

اخرجه الحاکم في المستدرک، باب ذکر نوح النبي ﷺ، 2/ 595، الرقم: 4007، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 177، الرقم: 2884، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 62/ 272.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انبیاء کرام علیھم السلام کے سردار پانچ نبی ہیں اور محمد مصطفی ﷺ اُن پانچوں کے بھی سردار ہیں (اور وہ سردار انبیاءِ کرام یہ ہیں:) حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسیٰ عليہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔‘‘

اِسے امام حاکم، دیلمی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس کی سند صحیح ہے اگرچہ یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر موقوف ہے۔

28/ 18. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: خِيَارُ وَلَدِ آدَمَ خَمْسَةٌ: نُوْحٌ وَإِبْرَهِيْمُ وَعِيْسٰی وَمُوْسٰی وَمُحَمَّدٌ ﷺ، وَخَيْرُهُمْ مُحَمَّدٌ ﷺ.

رَوَاهُ الْخَلَّالُ وَالْهِنْدِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

اخرجه الخلال في السنة، باب جامع امر الخلافة بعد رسول ﷲ ﷺ، 3/ 264، الرقم: 324، والهندي في کنز العمال، 11/ 407، 483، الرقم: 31905، 32282، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 470، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 570، وقال: اخرجه البزار، وايضًا في جامع الاحاديث، 12/ 328، الرقم: 12008، وايضًا في جمع الجوامع، 1/ 12211، الرقم: 12317، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 255، وابن منظور في مختصر تاريخ دمشق، 1/ 163، والآلوسي في روح المعاني، 21/ 154، والحکمي في معارج القبول، 2/ 679، والمناوي في فيض القدير، 3/ 464.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: تمام اولادِ آدم میں پانچ ہستیاں سب سے افضل ہیں: حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، حضرت موسیٰ عليہ السلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ اور ان میں سب سے افضل حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں۔‘‘

اِسے امام خلال، متقی ہندی اور ابن کثیر نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام بزار نے صحیح حدیث کے رجال سے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved