91/ 1. عَنْ عَائِشَهَ أُمِّ الْمُؤْمِنِيْنَ رضي ﷲ عنها أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِيئَ بِهِ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ مِنَ الْوَحْيِ اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ (وفي رواية: اَلرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ) فِي النَّوْمِ، فَکَانَ لَا يَرَی رُؤْيَا إِلَّا جَائَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَـلَائُ، وَکَانَ يَخْلُوْ بِغَارِ حِرَائٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيْهِ. وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ. قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلٰی هْلِهِ، وَيَتَزَوَّدُ لِذَالِکَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلٰی خَدِيْجَهَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا، حَتّٰی جَائَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ،… فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيْجَةُ، حَتّٰی أَتَتْ بِهِ وَرَقَهَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّی بْنَ عَمِّ خَدِيْجَهَ، وَکَانَ امْرَأً قَدْ تَنَصَّرَ فِي الْجَهِلِيَةِ، وَکَانَ يَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَکْتُبُ مِنَ الإِنْجِيْلِ بِالْعِبْرَانِيَةِ مَا شَائَ اللهُ أَنْ يَکْتُبَ، وَکَانَ شَيْخًا کَبِيْرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيْجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنِ ابْنِ أَخِيْکَ. فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَی؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ خَبَرَ مَا رَأَی، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِي نَزَّلَ اللهُ عَلٰی مُوْسٰی عليه السلام، يَا لَيْتَنِي فِيْهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَکُوْنُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُکَ قَوْمُکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ؟ قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُوْدِيَ، وَإِنْ يُدْرِکْنِي يَوْمُکَ أَنْصُرْکَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا…
الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب بدء الوحي، باب کيف کان بدء الوحي، 1/ 4، الرقم: 3، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بدء الوحي إلی رسول ﷲ ﷺ ، 1/ 139، الرقم: 160، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/ 232، الرقم: 26001، وابن حبان في الصحيح، 1/ 216-219، الرقم: 33 وعبد الرزاق في المصنف، 5/ 321، الرقم: 9719، والحاکم في المستدرک، 3/ 202، الرقم: 4843، وابن منده في الإيمان، 2/ 689، الرقم: 681، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 756، الرقم: 1409، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 5، وابن راهويه في المسند، 2/ 314، الرقم: 840.
’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ پر وحی کی ابتدا پاکیزہ اور سچے خوابوں سے ہوئی۔ آپ ﷺ جو خواب بھی دیکھتے اُس کی تعبیر (حقیقت میں بھی) صبحِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی، پھر آپ ﷺ کے دل میں خلوت گزینی کی محبت ڈال دی گئی اور آپ ﷺ غارِ حراء میں خلوت فرمانے لگے۔ آپ ﷺ اپنے کاشانہ اقدس کی طرف لوٹنے سے پہلے وہاں کافی دنوں تک عبادت فرماتے رہتے، اور کھانے پینے کی چیزیں ساتھ لے جاتے، پھر حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے پاس تشریف لاتے اور وہ اسی طرح کھانے پینے کا بندوبست کر دیتیں۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی جبکہ آپ ﷺ غارِ حراء ہی میں تھے۔۔۔ پھر حضرت خدیجہ رضی الله عنہا آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ کے پاس لے گئیں۔ انہوں نے دورِ جاہلیت میں نصرانیت اختیار کر لی تھی، اور اُنہوں نے جتنا الله تعالیٰ نے توفیق دی انجیل کو عبرانی میں لکھا اور اس وقت بوڑھے نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا نے ان سے کہا: اے چچا کے بیٹے! اپنے بھتیجے کی بات سنیے۔ ورقہ نے آپ ﷺ سے پوچھا: اے بھتیجے! آپ نے کیا دیکھا؟ رسول الله ﷺ نے جو دیکھا تھا اسے بتا دیا۔ پس ورقہ نے آپ ﷺ سے کہا کہ یہی تو وہ فرشتہ ہے جو الله تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عليہ السلام پر اُتارا تھا۔ اے کاش! میں ان دنوں جوان ہوتا، اے کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جبکہ آپ کی قوم آپ کو (مکہ سے) نکالے گی۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: کیا میری قوم مجھے نکالے گی؟ ورقہ نے کہا: جی ہاں! جب بھی کوئی شخص آپ ﷺ کی طرح شریعت لے کر آیا تو اس کے ساتھ عداوت کی گئی۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ کی بھرپور مدد کروں گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
92/ 2. وفي رواية: عَنْ أَبِي مَيْسَرَهَ أَنَّ رَسُوْلَ ﷲ ﷺ کَانَ إِذَا بَرَزَ سَمِعَ مَنْ يُنَادِيْهِ يَا مُحَمَّدُ…وذکر الحديث…أَتٰی وَرَقَهَ فَذَکَرَ ذَالِکَ لَهُ فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: أَبْشِرْ ثُمَّ اَبْشِرْ ثُمَّ اَبْشِرْ فَإِنِّي اَشْهَدُ اَنَّکَ الرَّسُوْلُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيْسٰی بِرَسُوْلٍ يَاْتِي مِنْ بَعْدِي اسْمُهُ اَحْمَدُ وَاَنَا اَشْهَدُ اَنَّکَ اَنْتَ اَحْمَدُ وَاَنَا اَشْهَدُ اَنَّکَ مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَشْهَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ ﷲِ وَلَيُوْشِکُ اَنْ تُؤْمَرُ بِالْقِتَالِ وَلَئِنْ امِرْتَ باِلْقِتَالِ وَاَنَا حَيٌّ لَأُقَاتِلَنَّ مَعَکَ فَمَاتَ وَرَقَةُ فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : رَيْتُ الْقِسَّ فِي الْجَنَّةِ عَلَيْهِ ثِيَابٌ خُضْرٌ.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَهَ.
أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 329، الرقم: 36555.
’’ایک روایت میں حضرت میسرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (اعلانِ نبوت سے قبل) جب (عبادت کے لیے) باہر تشریف لے جاتے تو ایک (غیبی) ندا دینے والے کی آواز سنتے، وہ کہتا: یا محمد! پھر آگے حدیث بیان کی۔ پھر آپ ﷺ ورقہ بن نوفل کے پاس آئے اور سارا ماجرا سنایا تو ورقہ نے کہا: آپ کو خوشخبری ہو، خوشخبری ہو، خوشخبری ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسٰی عليہ السلام نے دی کہ میرے بعد ایک رسول آئیں گے جن کا نام اَحمد ہے، بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی اَحمد ہیں اور بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی محمد ہیں اور بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ہی اللہ تعالیٰ کے (آخری) رسول ہیں، اور قریب ہے کہ آپ کو جہاد کا حکم دیا جائے، اور اگر آپ کو جہاد کا حکم دیا گیا اور میں زندہ ہوا تو میں ضرور بالضرور آپ کی معیت میں جہاد کروں گا۔ پھر ورقہ فوت ہو گئے تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے اُس راہب کو جنت میں دیکھا ہے اور اُس نے سبز لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
93/ 3. عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ سَـلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: مَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرَةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَصِفَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ. قَالَ: فَقَالَ: اَبُوْ مَوْدُوْدٍ: وَقَدْ بَقِيَ فِي الْبَيْتِ مَوْضِعُ قَبْرٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
اخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5/ 588، الرقم: 3617.
’’حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں تورات میں حضور نبی اکرم ﷺ کا وصف مذکور ہے اور حضرت عیسیٰ کا وصف بھی لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام، آپ ﷺ کے ساتھ مدفون ہوں گے۔ راوی فرماتے ہیں: امام ابو مودود کہتے ہیں: روضہ مبارک میں ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
94/ 4. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْاَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ ﷺ فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَالِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّهِبُ، حَتّٰی جَائَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ ، قَالَ: هٰذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هٰذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اللهُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الْإِبِلِ، قَالَ: أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلٰی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ: انْظُرُوْا إِلٰی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. قَالَ: فَبَيْنَمَا هُوَ قَائِمٌ عَلَيْهِمْ وَهُوَ يُنَاشِدُهُمْ أَنْ لَا يَذْهَبُوْا بِهِ إِلَی الرُّوْمِ فَإِنَّ الرُّوْمَ إِذَا رَأَوْهُ عَرَفُوْهُ بِالصِّفَةِ فَيَقْتُلُوْنَهُ فَالْتَفَتَ فَإِذَا بِسَبْعَةٍ قَدْ أَقْبَلُوْا مِنَ الرُّوْمِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ فَقَالَ: مَا جَائَ بِکُمْ قَالُوْا: جِئْنَا إِنَّ هٰذَا النَّبِيَّ خَارِجٌ فِي هٰذَا الشَّهْرِ فَلَمْ يَبْقَ طَرِيْقٌ إِلَّا بُعِثَ إِلَيْهِ بِأُنَاسٍ وَإِنَّا قَدْ أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بُعِثْنَا إِلٰی طَرِيْقِکَ هٰذَا فَقَالَ: هَلْ خَلْفَکُمْ أَحَدٌ هُوَ خَيْرٌ مِنْکُمْ قَالُوْا: إِنَّمَا أُخْبِرْنَا خَبَرَهُ بِطَرِيْقِکَ هٰذَا قَالَ: أَفَرَيْتُمْ أَمْرًا أَرَادَ اللهُ أَنْ يَقْضِيَهُ هَلْ يَسْتَطِيْعُ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ رَدَّهُ قَالُوْا: لَا، قَالَ: فَبَيَعُوْهُ وَأَقَامُوْا مَعَهُ قَالَ: أَنْشُدُکُمْ بِﷲِ يُکُمْ وَلِيُهُ؟ قَالُوْا: أَبُوْ طَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتّٰی رَدَّهُ أَبُوْ طَالِبٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
اخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب ما جاء في بدء نبوة النبي ﷺ ، 5/ 590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6/ 317، الرقم: 31733، 36541، وابن حبان في الثقات، 1/ 42، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1/ 45، الرقم: 19، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1/ 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم ﷺ بھی اُن کے ہمراہ تھے جب راہب کے پاس پہنچے تو وہ سواریوں سے اُترے اور اُنہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب اُن کی طرف آ نکلا حالانکہ (روسائے قریش) اُس سے قبل بھی اُس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ اُن کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی اُن کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب اُن کے درمیان چلتا گیا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے قریب پہنچا اور آپ ﷺ کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ الله تعالیٰ اُنہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اُس سے پوچھا: آپ یہ سب کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا: جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو اور یہ سب صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں اُنہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ ﷺ اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ ﷺ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ ﷺ کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا: درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ ﷺ پر جھک گیا ہے۔ راوی فرماتے ہیں: راہب ان کے پاس کھڑا انہیں قسمیں دے رہا تھا کہ انہیں روم کی طرف نہ لے جاؤ، کیوں کہ رومیوں نے انہیں دیکھ لیا، تو ان کی صفات کے ساتھ پہچان لیں گے اور قتل کر دیں گے، اچانک اس نے مڑ کر دیکھا تو سات آدمی روم کی طرف سے آ رہے تھے، راہب نے ان کا استقبال کیا اور پوچھا کیسے آئے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمیں معلوم ہوا ہے کہ نبی آخر الزماں اس مہینے میں (اپنے شہر سے) باہر نکلنے والے ہیں، اس لیے ہر راستے پر کچھ لوگ بھیجے گئے ہیں، اور ہمیں ان کی خبر ملی تو ہمیں اس راستے کی طرف بھیجا گیا۔ راہب نے پوچھا: کیا تمہارے پیچھے تم سے کوئی بہتر آدمی بھی ہے؟ انہوں نے کہا: ہمیں اُس نبی کے اِس راستے سے آنے کی خبر دی گئی ہے، اس نے کہا: بتاؤ تو سہی اگر اللهتعالیٰ کسی کام کا ارادہ فرمائے تو اسے کوئی روک سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ چنانچہ انہوں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کرلی، اور اس کے ساتھ مقیم رہے۔ پھر راہب نے کہا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سرپرست کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ حضرت ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا (کہ انہیں واپس بھیج دیں) یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ ﷺ کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
95/ 5. عَنْ اَبِي مُوْسَی الاَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: اَمَرَنَا رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ اَنْ نَنْطَلِقَ إِلٰی اَرْضِ النَّجَاشِيِّ فَذَکَرَ حَدِيْثَهُ قَالَ النَّجَاشِيُّ: اَشْهَدُ اَنَّهُ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ وَاَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام وَلَوْلَا مَا اَنَا فِيْهِ مِنَ الْمُلْکِ لَاَتَيْتُهُ حَتّٰی اَحْمِلَ نَعْلَيْهِ.
رَوَاهُ أَبُوْ داَوُدَ.
96/ 6. وزاد أحمد وابن أبي شيبة والحاکم: قَالَ النَّجَاشِيُّ: يَا مَعْشَرَ الْحَبَشَةِ وَالْقِسِّيْسِيْنَ وَالرُّهْبَانِ، وَﷲِ، مَا يَزِيْدُوْنَ عَلَی الَّذِي نَقُوْلُ فِيْهِ مَا يَسْوَی هٰذَا مَرْحَبًا بِکُمْ وَبِمَنْ جِئتُمْ مِنْ عِنْدِهِ أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُوْلُ ﷲِ فَإِنَّهُ الَّذِي نَجِدُ فِي الإِنْجِيْلِ وَأَنَّهُ الرَّسُوْلُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ علیھما السلام اَنْزِلُوْا حَيْثُ شِئْتُمْ، وَﷲِ، لَوْلَا مَا أَنَا فِيْهِ مِنَ الْمُلْکِ لَأَتَيْتُهُ حَتّٰی أَکُوْنَ أَنَا أَحْمِلُ نَعْلَيْهِ وَأُوَضِّئُهُ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَهَ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في الصلاة علی المسلم يموت في بلاد الشرک، 3/ 212، الرقم: 3205، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 461، الرقم: 4400، وابن أبي شيبة في المصنف، 7/ 350، الرقم: 36640، والحاکم في المستدرک، 2/ 338، الرقم: 3208، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 193، الرقم: 550، والبيهقي في السنن الکبری، 4/ 50، الرقم: 6822، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11/ 288.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں حضور نبی اکرم ﷺ نے نجاشی کے ملک میں چلے جانے کا حکم فرمایا۔ پھر مذکورہ حدیث بیان کی۔ شاہ نجاشی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جن کی حضرت عیسیٰ بن مریم علیھما السلام نے بھی بشارت دی تھی اگر میں اپنی ریاستی ذمہ داری میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو خود بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر اُن کے نعلین مبارک اُٹھانے کی سعادت حاصل کرتا۔‘‘
اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
امام احمد، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے اِن الفاظ کا اضافہ بیان کیا: ’’شاہ نجاشی نے کہا: اے گروہ حبشہ اور قسیسین اور رہبان! بخدا اُنہوں (اصحاب رسول) نے اِس چیز میں جس کے ہم (پہلے ہی) قائل ہیں اُس برابر (ذرہ بھر) بھی اضافہ نہیں کیا۔ خوش آمدید ، اور خوش آمدید وہ جن کے پاس سے تم آئے ہو ، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں ، اور وہ وہی ہیں جن کا ذکر ہم انجیل میں پاتے ہیں اور وہ وہی رسول ہیں جن کی بشارت حضرت عیسٰی بن مریم علیھما السلام نے دی تھی ۔ تم جہاں ٹھہرنا چاہتے ہو ٹھہرو ۔ بخدا! اگر مجھ پر (اِس ملک کی) بادشاہت کی ذمہ داری نہ ہوتی جہاں میں ہوں، تو میں اُن کے جوڑے اُٹھا کے اُنہیں وضو کرواتا۔‘‘
اِسے امام احمد، ابن ابی شیبہ اور حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
97/ 7. عَنْ اَبِي صَالِحٍ قَالَ: قَالَ کَعْبٌ رضی الله عنه: نَجِدُهُ مَکْتُوْبًا مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ ﷺ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيْظٌ وَلَا صَخَّابٌ بِالْاَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَهَ وَلٰـکِنْ يَعْفُوْ وَيَغْفِرُ وَامَّتُهُ الْحَمَّادُوْنَ يُکَبِّرُوْنَ اللهَ ل عَلٰی کُلِّ نَجْدٍ وَيَحْمَدُوْنَهُ فِي کُلِّ مَنْزِلَةٍ يَتَاَزَّرُوْنَ عَلٰی اَنْصَافِهِمْ وَيَتَوَضَّئُوْنَ عَلٰی اَطْرَافِهِمْ مُنَادِيْهِمْ يُنَادِي فِي جَوِّ السَّمَائِ صَفُّهُمْ فِي الْقِتَالِ وَصَفُّهُمْ فِي الصَّلَةِ سَوَائٌ لَهُمْ بِاللَّيْلِ دَوِيٌّ کَدَوِيِّ النَّحْلِ مَوْلِدُهُ بِمَکَّهَ وَمُهَاجِرُهُ بِطَيْبَهَ وَمُلْکُهُ بِالشَّامِ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب صفة النبي ﷺ في الکتب قبل مبعثه، 1/ 16، الرقم: 5، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1/ 188.
’’حضرت ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب (الاحبار) رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے یہ چیز (اپنی سابقہ آسمانی کتابوں میں) لکھی ہوئی پائی کہ محمد رسول الله ﷺ (کی صفاتِ عالیہ میں سے ہے کہ آپ ﷺ ) نہ تندخو ہیں، نہ سخت دل ہیں، نہ بازاروں میں آوازیں کسنے والے ہیں، اور نہ ہی برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے ہیں بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور (دشمنوں کو بھی) بخش دینے والے ہیں۔ اور آپ ﷺ کی اُمت کے لوگ الله تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد اور اُس کی بڑائی بیان کرنے والے ہیں، اور وہ ہر جگہ اور ہر بلند مقام پر اس کی حمد کرتے ہیں، اور ٹخنوں پر اپنے تہہ بند باندھتے ہیں، اور اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرہ پر (پانی سے) وضو کرتے ہیں، ایک پکارنے والا (موذن نماز کے لئے) فضا میں انہیں پکارتا ہے، ان کی جہاد کے لئے صف بندی اور نماز کے لئے کی جانے والی صف بندی ایک جیسی ہے۔ رات کے وقت ان کے قرآن پڑھنے کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی ہے۔ آپ ﷺ کا مقام ولادت با سعادت مکہ معظمہ اور مقام ہجرت مدینہ منورہ ہوگا اور آپ ﷺ کی (اُمت کی حکمرانی) شام میں بھی ہو گی۔‘‘
اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
98/ 8. عَنْ ذَکْوَانَ بْنِ اَبِي صَالِحٍ عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه فِي السَّطْرِ الْاَوَّلِ: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ ﷺ عَبْدِيَ الْمُخْتَارُ لَا فَظٌّ وَلَا غَلِيْظٌ وَلَا صَخَّابٌ فِي الْاَسْوَاقِ وَلَا يَجْزِي بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَهَ وَلٰـکِنْ يَعْفُوْ وَيَغْفِرُ مَوْلِدُهُ بِمَکَّهَ وَهِجْرَتُهُ بِطَيْبَهَ وَمُلْکُهُ بِالشَّامِ وَفِي السَّطْرِ الثَّانِي: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ امَّتُهُ الْحَمَّادُوْنَ يَحْمَدُوْنَ اللهَ فِي السَّرَّائِ والضَّرَّائِ، يَحْمَدُوْنَ اللهَ فِي کُلِّ مَنْزِلَةٍ وَيُکَبِّرُوْنَ اللهَ عَلٰی کُلِّ شَرَفٍ، رُعَةُ الشَّمْسِ، يُصَلُّوْنَ الصَّـلَهَ إِذَا جَائَ وَقْتُهَا وَلَوْ کَانُوْا عَلٰی رَاْسِ کُنَاسَةٍ وَيَاْتَزِرُوْنَ عَلٰی اَوْسَاطِهِمْ وَيُوَضِّئُوْنَ اَطْرَافَهُمْ وَاَصْوَاتُهُمْ بِاللَّيْلِ فِي جَوِّ السَّمَائِ کَاَصْوَاتِ النَّحْلِ. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب صفة النبي ﷺ في الکتب قبل مبعثه، 1/ 17، الرقم: 7، والسيوطي في الدر المنثور، 3/ 576.
’’حضرت ذکوان بن ابی صالح، حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ (سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کی آسمانی کتب میں آپ ﷺ کی صفات عالیہ یوں درج تھیں) پہلی سطر میں ہی یہ لکھا ہوا تھا کہ محمد مصطفی ﷺ الله تعالیٰ کے رسول ہیں (اور الله تعالیٰ نے فرمایا:) وہ میرے چنے ہوئے برگزیدہ بندے اور رسول ہیں۔ نہ وہ تند خو ہیں، نہ سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنے والے ہیں، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے، بلکہ معاف کر دیتے ہیں اور (جانی دشمنوں کو بھی) بخش دیتے ہیں، آپ ﷺ کی جائے ولادت مکہ مکرمہ اور مقام ہجرت مدینہ منورہ ہوگا، اور آپ ﷺ کا اقتدار شام میں بھی ہو گا۔ اور دوسری سطر میں لکھا ہوا تھا کہ آپ ﷺ کی اُمت کے لوگ الله تعالیٰ کی بہت زیادہ حمد کرنے والے ہوں گے، وہ خوشحالی اور تنگدستی ہر حال میں الله تعالیٰ کی حمد بیان کریں گے، اور وہ ہر (حال میں) ہر ہر مقام پر الله تعالیٰ کی حمد بیان کریں گے، اور ہر بلند جگہ ہر مقام پر الله تعالیٰ کی بڑائی بیان کریں گے، وہ (عبادات کی خاطر) سورج (کے اوقات) کی نگہبانی کرنے والے ہوں گے، خواہ وہ کسی بھی جگہ پر ہوں، اور وہ نماز اس وقت ادا کریں گے جب اس کا وقت ہو جائے گا، اپنے ٹخنوں پر تہہ بند باندھتے ہوں گے، اور اپنے چہروں اور ہاتھ، پاؤں کو دھونے والے ہوں گے، اور رات کے وقت فضاء میں ان کی (قرآن پڑھنے کی) آوازیں شہد کی مکھیوں کی آوازوں کی طرح ہوں گی۔‘‘
اِسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
99/ 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّهُ سَاَلَ کَعْبَ الْاَحْبَارِ رضی الله عنه کَيْفَ تَجِدُ نَعْتَ رَسُوْل ﷲِ ﷺ فِي التَّوْرَةِ فَقَالَ کَعْبٌ ص: نَجِدُهُ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ ﷲِ ﷺ يُوْلَدُ بِمَکَّهَ وَيُهَاجِرُ إِلٰی طَابَهَ وَيَکُوْنُ مُلْکُهُ بِالشَّامِ وَلَيْسَ بِفَحَّاشٍ وَلَا صَخَّابٍ فِي الْاَسْوَاقِ وَلَا يُکَافِیئُ بِالسَّيِّئَةِ السَّيِّئَهَ وَلٰـکِنْ يَعْفُوْ وَيَغْفِرُ امَّتُهُ الْحَمَّادُوْنَ يَحْمَدُوْنَ اللهَ فِي کُلِّ سَرَّائَ وَضَرَّائَ وَيُکَبِّرُوْنَ اللهَ عَلٰی کُلِّ نَجْدٍ، يُوَضِّئُوْنَ اَطْرَافَهُمْ وَيَاْتَزِرُوْنَ فِي اَوْسَاطِهِمْ يُصَفُّوْنَ فِي صَـلَاتِهِمْ کَمَا يُصَفُّوْنَ فِي قِتَالِهِمْ دَوِيُهُمْ فِي مَسَاجِدِهِمْ کَدَوِيِّ النَّحْلِ يُسْمَعُ مُنَادِیهِمْ فِي جَوِّ السَّمَاءِ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.
9: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب صفة النبي ﷺ في الکتب قبل مبعثه، 1/ 17، الرقم: 8، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1/ 185، والسيوطي في الدر المنثور، 3/ 573.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ وہ تورات میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بیان کی گئیں صفات کو کیسے پاتے ہیں؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم تورات میں آپ ﷺ کا اسمِ گرامی محمد بن عبد الله پاتے ہیں، اور یہ کہ آپ ﷺ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوں گے، اور طابہ یعنی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کریں گے، اور آپ ﷺ کی حکومت شام میں بھی ہوگی، اور یہ کہ آپ ﷺ فحش گو اور بازاروں میں آوازیں کسنے والے نہیں ہوں گے۔ اور آپ ﷺ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیں گے بلکہ معاف فرما دیں گے اور (جانی دشمنوں کو بھی) بخش دیں گے، آپ ﷺ کی اُمت کے لوگ بہت زیادہ حمد کرنے والے ہوں گے، وہ خوشی اور مصیبت (ہر دو حالتوں) میں الله تعالیٰ کی حمد بیان کریں گے، اور ہر بلند جگہ پر الله تعالیٰ کی ثناء بیان کریں گے، اور وہ اپنی اطراف (چہرہ، ہاتھ، پاؤں وغیرہ) کا وضو کریں گے، اور ٹخنوں کے اوپر تک تہہ بند باندھتے ہوں گے، اور نماز میں ایسی ہی صفیں باندھیں گے جیسا کہ میدانِ جہاد میں باندھتے ہوں گے، ان کی مساجد میں ان کے قرآن پاک پڑھنے کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی ہوگی، اور ان کو (نماز کے لئے) ندا دینے والے (یعنی مؤذن) کی آوازیں ہر طرف فضاؤں میں سنائی دیں گی۔‘‘
اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے۔
100/ 10. عَنْ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه قَالَ: کُلَّمَا رَيْتُ وَسَمِعْتُ إِذَا يَهُوْدِيٌّ بِيَثْرَبَ يَصْرَخُ ذَاتَ غَدَةٍ: يَا مَعْشَرَ يَهُوْدٍ، فَاجْتَمَعُوْا إِلَيْهِ وَاَنَا اَسْمَعُ. قَالُوْا: وَيْلَکَ مَا لَکَ؟ قَالَ: طَلَعَ نَجْمُ اَحْمَدَ الَّذِي وُلِدَ بِهِ فِي هٰذِهِ اللَّيْلَةِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
اخرجه الحاکم في المستدرک، 3/ 554، الرقم: 6056، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 110، وابن إسحاق في السيرة، 2/ 63، الرقم: 63، والقزويني في التدوين في اخبار قزوين، 1/ 312، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 2/ 216، الرقم: 450، والمزي في تهذيب الکمال، 6/ 19، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 78، وابن کثير في البدية والنهية، 2/ 267، والحلبي في السيرة، 1/ 112.
’’حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا اور سنا کہ ایک یہودی یثرب (موجودہ مدینہ منورہ) میں چلا چلا کر کہہ رہا تھا: اے گروہ یہود! پس وہ سارے اس کے پاس جمع ہو گئے درآنحالیکہ میں سن رہا تھا، انہوں نے کہا: اس اَحمد (نبی آخر الزمان ﷺ ) کا ستارا طلوع ہوگیا ہے جو آج رات پیدا ہوا ہے۔‘‘
اسے امام حاکم، ابن اسحاق اور بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
101/ 11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَاَلْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ ، قُلْتُ: فِدَاکَ اَبِي وَامِّي، ايْنَ کُنْتَ وَآدَمُ فِي الْجَنَّةِ؟ قَالَ: فَتَبَسَّمَ حَتّٰی بَدَتْ ثَنَيَهُ (وفي رواية: نَوَاجِذُهُ) ثُمَّ قَالَ: کُنْتُ فِي صُلْبِهِ وَرُکِبَ بِي السَّفِيْنَهَ فِي صُلْبِ اَبِي نُوْحٍ، وَقُذِفَ بِي فِي صُلْبِ إِبْرَهِيْمَ، لَمْ يَلْتَقِ اَبَوَايَ قَطُّ عَلٰی سِفَاحٍ، لَمْ يَزَلِ اللهُ تَعَالٰی يَنْقُلُنِي مِنَ الْاَصْلَابِ الْحَسَنَةِ إِلَی الْاَرْحَامِ الطَّهِرَةِ، صِفَتِي مَهْدِيٌّ لَا يَتَشَعَّبُ شَعْبَانِ إِلَّا کُنْتُ فِي خَيْرِهِمَا قَدْ اَخَذَ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی بِالنُّبُوَّةِ مِيْثَاقِي، وَبِالإِسْلَامِ عَهْدِي. وَبُشِّرَ فِي التَّوْرَةِ وَالإِنْجِيْلِ ذِکْرِي. وَبَيَنَ کُلُّ نَبِيٍّ صِفَتِي. تُشْرِقُ الْاَرْضُ بِنُوْرِي. وَالْغَمَامُ لِوَجْهِي. وَعَلَّمَنِي کِتَابَهُ وَرَوَی بِي سَحَابَهُ، وَشَقَّ لِي اِسْمًا مِنْ اَسْمَائِهِ فَذُو الْعَرْشِ مَحْمُوْدٌ وَاَنَا مُحَمَّدٌ، وَوَعَدَنِي يُحِبُّوْنِي بِالْحَوْضِ وَالْکَوْثَرِ، وَاَنْ يَجْعَلَنِي اَوَّلَ شَافِعٍ، وَاَوَّلَ مُشَفَّعٍ، ثُمَّ اَخْرَجَنِي مِنْ خَيْرِ قَرْنٍ لِامَّتِي، وَهُمُ الْحَمَّادُوْنَ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ کَثِيْرٍ وَالسُّيُوْطِيُّ.
اخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 408، والسيوطي في الدر المنثور، 6/ 332، وابن کثير في البدية والنهاية، 2/ 258، والمناوي في فيض القدير، 3/ 437.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: (یا رسول الله!) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ اُس وقت کہاں تھے، جب حضرت آدم عليہ السلام جنت میں تھے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ تبسم کناں ہوئے، یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے پھر فرمایا: میں ان (یعنی حضرت آدم عليہ السلام) کی صُلب میں تھا اور اپنے باپ حضرت نوح عليہ السلام کی صُلب میں مجھے کشتی پر سوار کیا گیا اور حضرت ابراہیم عليہ السلام کی صُلب میں (میرا نور) ڈالا گیا۔ میرے والدین (آباء و اجداد) کبھی بھی بغیر نکاح کے نہیں ملے۔ الله تعالیٰ مجھے ہمیشہ پاک صُلبوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہا۔ میرا وصف ہدایت یافتہ ہونا ہے اور جب بھی دو قومیں بنیں تو میں اُن میں سے بہتر قوم میں تھا۔ الله تعالیٰ نے انبیاء سے بھی میری نبوت اور دینِ اسلام (یعنی مجھ پر ایمان لانے اور میری مدد و نصرت) کا میثاق و عہد لیا۔ تورات و انجیل میں میرے ذکر کی خوشخبری سنائی گئی۔ ہر نبی نے میری صفات بیان کیں۔ میرے نور کی وجہ سے صبح روشن ہوئی اور اُس نے مجھے اپنی کتاب سکھائی، اور بادل میری وجہ سے سایہ فگن ہیں، اور الله تعالیٰ نے مجھے اپنے اسماء حسنیٰ میں سے نام عطا کیا، سو وہ عرش والا (ربّ) محمود ہے اور میں محمد ہوں، اور (الله تعالیٰ نے) میرے ساتھ وعدہ فرمایا ہے کہ لوگ حوض کوثر کی وجہ سے مجھ سے محبت کریں گے، اور یہ کہ مجھے سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بنائے گا، اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ پھر یہ کہ الله تعالیٰ نے مجھے اپنی اُمت کے بہترین زمانے میں پیدا فرمایا، میری اُمت کے لوگ الله کی ثناء بیان کرنے والے ہیں۔ وہ نیکی کا حکم اور بدی سے روکنے والے ہیں۔‘‘ اِسے امام ابن عساکر، ابن کثیر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
102/ 12. عَنْ کَعْبِ الْاَحْبَارِ رضی الله عنه قَالَ (آدَمُ): اَي بُنَيَّ، فَکُلَّمَا ذَکَرْتَ اللهَ فَاذْکُرْ إِلٰی جَنْبِهِ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ ، فَإِنِّي رَيْتُ اسْمَهُ مَکْتُوْبًا عَلٰی سَاقِ الْعَرْشِ، وَاَنَا بَيْنَ الرُّوْحِ وَالطِّيْنِ، کَمَا اَنِّي طُفْتُ السَّمَاوَاتِ، فَلَمْ اَرَ فِي السَّمَاوَاتِ مَوْضِعًا إِلَّا رَيْتُ اِسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَاَنَّ رَبِّي اَسْکَنَنِيَ الْجَنَّهَ، فَلَمْ اَرَ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا وَلَا غُرْفَةً إِلَّا اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلَيْهِ، وَلَقَدْ رَيْتُ اسْمَ مُحَمَّدٍ ﷺ مَکْتُوْبًا عَلٰی نُحُوْرِ الْعِيْنِ، وَعَلٰی وَرَقِ قَصَبِ آجَامِ الْجَنَّةِ، وَعَلٰی وَرَقِ شَجَرَةِ طُوْبَی، وَعَلٰی وَرَقِ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰی، وَعَلٰی اَطْرَافِ الْحُجُبِ، وَبَيْنَ اَعْيُنِ الْمَـلَائِکَةِ فَاَکْثِرْ ذِکْرَهُ، فَإِنَّ الْمَـلَائِکَهَ تَذْکُرُهُ فِي کُلِّ سَاعَاتِهَا.
رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسُّيُوْطِيُّ.
12: اخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23/ 281، والسّيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 12.
’’حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت آدم عليہ السلام نے فرمایا: میرے بیٹے، تم جب کبھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ محمد مصطفی ﷺ کے نام کا بھی ذکر کیا کرو، پس بے شک میں نے ان کا نام عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا، درآنحالیکہ میں روح اور مٹی کے درمیانی مرحلہ میں تھا، جیسا کہ میں نے تمام آسمانوں کا گھوم کر مشاھدہ کیا اور کوئی جگہ ان آسمانوں میں ایسی نہ پائی جس میں، میں نے اسم محمد ﷺ لکھا ہوا نہ دیکھا ہو، بے شک میں نے حور عین کے گلوں پر، جنت کے محلات کے بانسوں کے پتوں پر، طوبی درخت کے پتوں پر، سدرۃ المنتھی کے پتوں پر، دربانوں کی آنکھوں پر، اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان اسم محمد ﷺ لکھا ہوا دیکھا، سو تم کثرت سے اُن کا ذکر کیا کرو، بے شک ملائکہ ہر گھڑی اُنہیں یاد کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اِسے امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔
103/ 13. عَنِ الْعَبَّاسِ رضی الله عنه عَنْ اَبِيْهِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ: قَدِمْتُ الْيَمَنَ فِي رِحْلَةِ الشِّتَاءِ، فَنَزَلْتُ عَلٰی حَبْرِ مِنَ الْيَهُوْدِ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ هْلِ الزَّبُوْرِ يَعْنِي هْلَ الْکِتَابِ: مِمَّنِ الرَّجُلُ؟ قُلْتُ: مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: مِنْ يِّهِمْ؟ قُلْتُ: مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ: يَا عَبْدَ الْمُطَّلِبِ، اَتَأْذَنُ لِي اَنْ اَنْظُرَ إِلٰی بَعْضِکَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَا لَمْ يَکُنْ عَوْرَةً، قَالَ: فَفَتَحَ اَحَدَ مَنْخَرَيَّ، ثُمَّ فَتَحَ الْآخَرَ، فَقَالَ: اَشْهَدُ اَنَّ فِي إِحْدَی يَدَيْکَ مُلْکًا، وَفِي الْاخْرَی نُبُوَّةً، وَاَنَّا نَجِدُ ذَالِکَ فِي بَنِي زُهْرَهَ، فَکَيْفَ ذَالِکَ؟ قُلْتُ: لَا اَدْرِي، قَالَ: هَلْ لَکَ مِنْ شَاعَةٍ؟ قُلْتُ: وَمَا الشَّاعَةُ؟ قَالَ: اَلزَّوْجَهَ. قُلْتُ: اَمَّا الْيَوْمَ فَـلَا، قَالَ: فَإِذَا رَجَعْتَ فَتَزَوَّجْ فِيْهِمْ، فَرَجَعَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ إِلٰی مَکَّهَ، فَتَزَوَّجَ هَالَهَ بِنْتَ وُهَيْبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافِ بْنِ زُهْرَهَ، فَوَلَدَتْ لَهُ حَمْزَهَ وَصَفِيَهَ وَتَزَوَّجَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ آمِنَهَ بِنْتَ وَهْبٍ، فَوَلَدَتْ لَهُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ . (وَهْبٌ، وَوُهَيْبٌ اَخَوَانِ).
رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
اخرجه ابو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 129، الرقم: 71، والحاکم في المستدرک، 2/ 656، الرقم: 4176، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 137، الرقم: 2917، والبيهقي في دلائل النبوة، 1/ 106، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 68، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 251، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 422.
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ نے بیان فرمایا: اُن کے والد محترم حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ نے اُنہیں بتایا: میں ایک مرتبہ سردیوں کے دوران یمن گیا۔ وہاں میں یہودیوں کے ایک بڑے عالم کے پاس ٹھہرا۔ اہلِ زبور (یعنی اہل کتاب) میں سے ایک شخص نے مجھ سے پوچھا: آپ کا تعلق کس خاندان سے ہے؟ میں نے کہا: میں قریش سے ہوں۔ اُس نے پھر پوچھا: قریش کے کس قبیلے سے؟ میں نے کہا: بنو ہاشم سے وہ پھر کہنے لگا: اے عبد المطلب! کیا آپ مجھے اپنے جسم کے بعض حصے دیکھنے کی اجازت دیں گے؟ حضرت عبد المطلب نے فرمایا: اجازت ہے لیکن سوائے ستر کے۔ حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں: اس نے میرا ایک نتھنا دیکھا پھر دوسرا کھول کر دیکھا اور کہنے لگا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تمہارے ایک ہاتھ میں حکومت اور دوسرے ہاتھ میں نبوت ہے، لیکن یہ خصوصیت ہم نے بنو زہرہ کے لئے پڑھی ہے۔ تمہارے اندر یہ کیسے آگئی؟ حضرت عبد المطلب فرماتے ہیں، میں نے کہا: مجھے نہیں معلوم۔ اس نے کہا تمہاری شاعہ ہے۔ میں نے کہا شاعہ کیا ہوتی ہے؟ وہ کہنے لگا بیوی۔ میں نے کہا ابھی تک تو نہیں۔ کہنے لگا اب تم واپس جاتے ہی بنو زہرہ میں شادی کر لینا ۔ پس حضرت عبد المطلب رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ لوٹے اور ھالہ بنت وھیب بن عبد مناف بن زھرہ سے شادی کی جس سے حضرت حمزہ اور حضرت صفیہ رضی الله عنہما پیدا ہوئے۔ اور حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حضرت آمنہ بنت وھب سے شادی کی جن سے حضور نبی اکرم ﷺ پیدا ہوئے۔ (وھب اور وھیب دونوں بھائی تھے)۔‘‘
اسے امام ابو نعیم، حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
104/ 14. عَنْ اَبِي نُعَيْمٍ عَنْ شُيُوْخِهِ قَالُوْا: بَيْنَا يَوْمًا عَبْدُ الْمُطَّلِبِ جَالِسٌ فِي الْحِجْرِ وَعِنْدَهُ أُسْقُفُ نَجْرَانَ، وَکَانَ صِدِّيْقًا لَهُ، وَهُوَ يُحَادِثُهُ وَيَقُوْلُ: إِنَّا نَجِدُ صِفَهَ نَبِيٍّ بَقِيَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، هٰذَا الْبَلَدُ مَوْلِدُهُ مِنْ صِفَتِهِ کَذَا وَکَذَا، وَاَتٰی رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ ، فَنَظَرَ إِلَيْهِ الْاسْقُفُ وَإِلٰی عَيْنَيْهِ وَإِلٰی ظَهْرِهِ، وَإِلٰی قَدَمَيْهِ، فَقَالَ: هُوَ هٰذَا، مَا هٰذَا مِنْکَ؟ قَالَ: ابْنِي. قَالَ الْاسْقُفُ: لَا مَا نَجِدُ اَبَهُ حَيًّا، قَالَ: هُوَ ابْنُ ابْنِي، وَقَدْ مَاتَ اَبُوْهُ، وَامُّهُ حُبْلَی بِهِ. قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ لِبَنِيْهِ: تَحَفَّظُوْا بِابْنِ اَخِيْکُمْ اَلَا تَسْمَعُوْنَ مَا يُقَالُ فِيْهِ.
رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْکَـلَاعِيُّ.
اخرجه ابو نعيم في دلائل النبوة، 1/ 165، الرقم: 100، والکلاعي في الإکتفاء/ 140، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 138.
’’امام ابو نعیم اپنے بعض شیوخ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبد المطلب حرم کعبہ میں تشریف فرما تھے، اور آپ کے پاس نجران کا ایک بڑا پادری بھی بیٹھا تھا جو آپ کا گہرا دوست تھا، وہ کہہ رہا تھا ہم اپنی کتابوں میں اس شہر مکہ میں حضرت اسماعیل عليہ السلام کی اولاد میں سے ایک نبی کی ولادت کا ذکر پاتے ہیں جن کی یہ صفات ہوں گی۔ (ابھی یہ بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ اُسی وقت) حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے۔ پادری نے آپ ﷺ کے چہرہء انور، چشمانِ مقدس، پشتِ اطہر اور مبارک قدموں کو غور سے دیکھا تو پکار اُٹھا وہ نبی تو یہی ہے۔ اے عبد المطلب! یہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میرا بیٹا ہے۔ پادری نے کہا: یہ نہیں ہو سکتا ہم نے تو جوپڑھا ہے اُس کے مطابق ان کے باپ کو زندہ نہیں ہونا چاہیے تو حضرت عبد المطلب نے فرمایا: یہ میرا پوتا ہے۔ اُن کے والد گرامی اُس وقت رحلت کر گئے تھے جب یہ رحم مادر میں تھے۔ پادری نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ اِس کے بعد حضرت عبد المطلب نے اپنے بیٹوں سے فرمایا: اپنے اس بھتیجے کی حفاظت کیا کرو، تم سنتے نہیں ہو اُس کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے۔‘‘
اِسے امام ابو نعیم اور کلاعی نے روایت کیا ہے۔
105/ 15. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَبْزَی، قَالَ الرَّهِبُ لِاَبِي طَالِبٍ: لَا تَخْرُجَنَّ بِابْنِ اَخِيْکَ إِلٰی مَا هَهُنَا، فَإِنَّ الْيَهُوْدَ هْلُ عَدَاوَةٍ، وَهٰذَا نَبِيُّ هٰذِهِ الْامَّةِ، وَهُوَ ابْنُ الْعَرَبِ، وَالْيَهُوْدُ تَحْسُدُهُ تُرِيْدُ اَنْ يَکُوْنَ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ، فَاحْذَرْ عَلَی ابْنِ اَخِيْکَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
15: اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 155، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 145.
’’حضرت سعید بن عبد الرحمن بن اَبزی سے روایت ہے کہ (سفرِ شام کے دوران بحیرا راہب نے حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابو طالب کی دعوت کی تھی) اس راہب نے حضرت ابو طالب سے عرض کیا: اس علاقے سے اپنے بھتیجے کو لے کر نہ گزریے گا کیوں کہ یہودی عداوت پیشہ لوگ ہیں اور آپ کا یہ بھتیجا اس امت کا نبی ہے جو کہ عرب کے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے یہودی لوگ اس سے حسد کرتے ہیں کیوں کہ ان کا خیال ہے کہ وہ آخری نبی ﷺ بنی اسرائیل میں سے ہو، لہٰذا اپنے بھتیجے کے بارے میں محتاط رہیے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
106/ 16. عَنْ اَبِي مِجْلَزٍ أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ أَوْ أَبَا طَالِبٍ (شَکَّ خَالِدٌ) قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ ﷲِ عَطَفَ عَلٰی مُحَمَّدٍ ﷺ . فَکَانَ لَا يُسَافِرُ سَفَرًا إِلَّا کَانَ مَعَهُ فِيْهِ، وَإِنَّهُ تَوَجَّهَ نَحْوَ الشَّامِ فَنَزَلَ مَنْزِلَهُ فَاَتَهُ فِيْهِ رَهِبٌ، فَقَالَ: إِنَّ فِيْکُمْ رَجُـلًا صَالِحًا، فَقَالَ: إِنَّ فِيْنَا مَنْ يَقْرِي الضَّيْفَ وَيَفُکُّ الْاَسِيْرَ وَيَفْعَلُ الْمَعْرُوْفَ، اَوْ نَحْوًا مِنْ هٰذَا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ فِيْکُمْ رَجُـلًا صَالِحًا، ثُمَّ قَالَ: يْنَ اَبُوْ هٰذَا الْغُـلَامِ؟ قَالَ اَبُوْ طَالِبٍ: هَائَنَذَا وَلِيُهُ اَوْ قِيْلَ هٰذَا وَلِيُهُ قَالَ: احْتَفِظْ بِهٰذَا الْغُـلَامِ وَلَا تَذْهَبْ بِهِ إِلَی الشَّامِ، إِنَّ الْيَهُوْدَ حُسَّدٌ، وَإِنِّي اَخْشَهُمْ عَلَيْهِ، قَالَ: مَا اَنْتَ تَقُوْلُ ذَاکَ وَلٰـکِنَّ اللهَ يَقُوْلُهُ فَرَدَّهُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 120، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 9، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 145.
’’حضرت ابو مِجلز بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد المطلب یا حضرت ابو طالب نے (راوی خالد کو شک ہے) حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنے سایہ عاطفت میں لیا۔ وہ جب بھی سفر کرتے تو آپ ﷺ کو اپنے ساتھ لے لیتے۔ ایک مرتبہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے اپنی منزل پر پہنچے تو وہاں ایک راہب اُن کے پاس آیا اور پوچھنے لگا: تم میں کوئی صالح شخص موجود ہے؟ آپ نے جواب دیا: ہم میں ایسے لوگ ہیں جو مہمان کی میزبانی کرتے ہیں، قیدی کو رہا کرتے ہیں اور نیکی کرتے ہیں یا اسی طرح کا کوئی جواب دیا۔ راہب نے پھر کہا: کیا تم میں ایک صالح آدمی ہے؟ پھر کچھ دیر ٹھہر کے پوچھا اس لڑکے (یعنی حضور نبی اکرم ﷺ ) کا باپ کہاں ہیں؟ حضرت ابو طالب نے جواب دیا: میں ہوں، یا کہا گیا کہ یہ اُن کے ولی ہیں۔ راہب نے کہا: اِس بچے کی حفاظت کرو اور اسے شام نہ لے جانا۔ یہودی حاسد لوگ ہیں اور مجھے اس لڑکے کی نسبت اُن سے خوف ہے۔ آپ نے فرمایا: تم یہ نہیں کہہ رہے (بلکہ) الله تعالیٰ (تیرے دل میں یہ خیال ڈال کر) بول رہا ہے۔ پھر اُنہوں نے آپ ﷺ کو واپس مکہ بھیج دیا۔‘‘
اِسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
107/ 17. عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ قَالَ: لَمَّ بَلَغَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ اثْنَتَي عَشَرَهَ سَنَةً، خَرَجَ بِهِ اَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ فِي الْعِيْرِ الَّتِي خَرَجَ فِيْهَا لِلتِّجَارَةِ وَنَزَلُوْا بِالرَّهِبِ بُحَيْرَا، فَقَالَ لِاَبِي طَالِبٍ فِي النَّبِيِّ ﷺ مَا قَالَ وَاَمَرَهُ اَنْ يَحْتَفِظَ بِهِ، فَرَدَّهُ اَبُوْ طَالِبٍ مَعَهُ إِلٰی مَکَّهَ، وَشَبَّ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ مَعَ اَبِي طَالِبٍ يَکْلَؤُهُ اللهُ وَيَحْفَظُهُ وَيَحُوْطُهُ مِنْ امُوْرِ الْجَهِلِيَةِ وَمَعَيِبِهَا، لِمَا يُرِيْدُ بِهِ مِنْ کَرَامَتِهِ، وَهُوَ عَلٰی دِيْنِ قَوْمِهِ، حَتّٰی بَلَغَ اَنْ کَانَ رَجُـلًا اَفْضَلَ قَوْمِهِ مُرُوْئَةً، وَاَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، وَاَکْرَمَهُمْ مُخَالَطَةً، وَاَحْسَنَهُمْ جَوَارًا، وَاَعظَمَهُمْ حِلْمًا وَاَمَانَةً، وَاَصْدَقَهُمْ حَدِيْثًا، وَاَبْعَدَهُمْ مِنَ الْفُحْشِ وَالْاَذَی، وَمَا رُئِيَ مُـلَاحِيًا وَلَا مُمَارِيًا اَحَدًا، حَتّٰی سَمَّهُ قَوْمُهُ الْاَمِيْنَ، لِمَّا جَمَعَ اللهُ لَهُ مِنَ الْامُوْرِ الصَّالِحَةِ فِيْهِ، فَلَقَدْ کَانَ الْغَالِبُ عَلَيْهِ بِمَکَّهَ الْاَمِيْنَ، وَکَانَ اَبُوْ طَالِبٍ يَحْفَظُهُ وَيَحُوْطُهُ وَيُعَضِّدُهُ وَيَنْصُرُهُ إِلٰی اَنْ مَاتَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ إِسْحَاقَ وَالْکَـلَاعِيُّ.
اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 121، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 10، وابن إسحاق في السيرة، 2/ 57، والکلاعي في الاکتفائ، 1/ 151، وابن ھشام في السيرة النبوية، 1/ 323، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 153، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 287، والحلبي في السيرة، 1/ 199.
’’حضرت داود بن حصین روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی عمر مبارک جب بارہ برس ہوئی تو حضرت ابو طالب ایک قافلہ کے ساتھ آپ ﷺ کو لے کر بغرض تجارت شام روانہ ہوئے، راہ میں قافلہ بحیرا راہب کے ہاں ٹھہرا۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلق بحیرا راہب نے پیشین گوئیاں کیں اور حضرت ابو طالب کو آپ ﷺ کی حفاظت کی تاکید کی تھی، پس حضرت ابو طالب آپ ﷺ کو لیے وہیں سے مکہ مکرمہ واپس لوٹ آئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ حضرت ابو طالب کے ہاں پرورش پا کر جوان ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر اپنا فضل فرمانا تھا، اس لئے خود آپ ﷺ کی نگہبانی و حفاظت فرماتا تھا اور جاہلیت کے ناپسندیدہ اُمور اور عیبوں سے آپ ﷺ کو بچاتا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ ﷺ اپنی ہی قوم کے اندر رہ کر جوان ہوئے مگر ایسے کہ مروت و جوان مردی میں تمام قوم سے افضل، خُلق میں سب سے زیادہ اچھے، میل جول و معاشرت میں سب سے شریف تر، گفتگو میں سب سے بہتر، حلم و امانت میں سب سے عظیم، کلام فرمانے میں سب سے سچے، فحش کلامی اور اذیت رسانی میں سب سے بچنے والے تھے، نہ کبھی گالی گلوچ یا بد اخلاقی کرتے دیکھے گئے، نہ کسی سے لڑتے جھگڑتے یا کسی کے متعلق بد ظنی کرتے ہوئے پائے گئے۔ ایسی اچھی اچھی خیر و اصلاح کی عادتیں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ذات گرامی میں جمع فرما دی تھیں کہ قوم نے آپ ﷺ کا نام امین رکھ دیا۔ مکہ میں آپ ﷺ کا یہی لقب تھا، حضرت ابو طالب اپنی رحلت تک آپ ﷺ کی حفاظت و نگہداشت اور حمایت و نصرت میں سر گرم رہے۔‘‘
اِسے امام ابن سعد، ابن عساکر، ابن اسحاق اور کلاعی نے روایت کیا ہے۔
108/ 18. عَنْ نَمْلَهَ بْنِ اَبِي نَمْلَهَ عَنْ اَبِيْهِ قَالَ: کَانَتْ يَهُوْدُ بَنِي قُرَيْظَهَ يَدْرُسُوْنَ ذِکْرَ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ ، فِي کُتُبِهِمْ وَيُعَلِّمُوْنَهُ الْوِلْدَانَ بِصِفَتِهِ وَاسْمِهِ وَمُهَاجَرِهِ إِلَيْنَا، فَلَمَّا ظَهَرَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ حَسَدُوْهُ، وَبَغَوْا عَلَيْهِ، وَقَالُوْا: لَيْسَ بِهِ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 160، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 236، والعسقلاني في الإصابة، 7/ 416، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 46، والحلبي في السيرة، 2/ 661.
’’حضرت نملہ بن ابو نملہ اپنے والد ابو نملہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ بنو قریظہ کے یہود اپنی کتابوں میں حضور نبی اکرم ﷺ کا ذکر پڑھا کرتے تھے، اوراپنے بچوں کو بھی آپ ﷺ کے اوصاف، نام اور آپ ﷺ کا ہماری طرف ہجرت کرکے آنا سکھاتے تھے۔ لیکن جب آپ ﷺ کا ظہور ہوا تو وہ آپ ﷺ سے حسد کرنے لگے، اور آپ ﷺ سے سرکشی کی اور کہا کہ آپ ﷺ وہ نہیں ہیں۔‘‘
اِسے امام ابن سعد اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
109/ 19. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: اَتٰی رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ بَيْتَ الْمَدَارِسِ، فَقَالَ: اَخْرِجُوْا إِلَيَّ اَعْلَمَکُمْ فَقَالُوْا: عَبْدُ ﷲِ بْنُ صُوْرِيَا، فَخَـلَا بِهِ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ ، فَنَاشَدَهُ بِدِيْنِهِ وَبِمَا اَنْعَمَ اللهُ بِهِ عَلَيْهِمْ وَاَطْعَمَهُمْ مِنَ الْمَنِّ وَالسَّلْوَی وَظَلَّلَهُمْ بِهِ مِنَ الْغَمَامِ اَتَعْلَمُ أَنِّي رَسُوْلُ ﷲِ؟ قَالَ: اَللّٰهُمَّ نَعَمْ، وَأَنَّ الْقَوْمَ لَيَعْرِفُوْنَ مَا اَعْرِفُ، وَأَنَّ صِفَتَکَ وَنَعْتَکَ لَمُبَيَنٌ فِي التَّوْرَةِ وَلٰـکِنَّهُمْ حَسَدُوْکَ. قَالَ: فَمَا يَمْنَعُکَ اَنْتَ؟ قَالَ: اَکْرَهُ خِـلَافَ قَوْمِي، وَعَسٰی اَنْ يَتَّبِعُوْکَ وَيُسْلِمُوْا فَاسْلِمُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ.
19: اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 164، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 236، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1/ 88، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 29.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بیت مدارس (جگہ کا نام) تشریف لائے اور (یہودیوں سے) فرمایا: تم میں سے جو سب سے بڑا عالم ہے اسے میرے پاس لاؤ تو انہوں نے کہا: عبد اللہ بن صوریا۔ پس حضور نبی اکرم ﷺ اسے تنہائی میں لے گئے اور اسے اس کے دین، اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان (بنی اسرائیل) پر انعام فرمایا، اور انہیں من و سلوی کھلایا اور ان پر بادلوں کا سایہ فرمایا، کا واسطہ دے کر پوچھا کیا تم جانتے ہوکہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! ہاں (میں جانتا ہوں) اور بے شک میری قوم کے لوگ بھی وہ سب کچھ جانتے ہیں جو میں جانتا ہوں۔ اور بے شک آپ کی صفت اور نعت تورات میں واضح ہے لیکن یہ کہ وہ آپ سے حسد کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اور تجھے (مجھ پر ایمان لانے سے)کون سی شے مانع ہے؟ اس نے کہا: مجھے یہ ناپسند ہے کہ میں اپنی قوم کے بر خلاف کوئی کام کروں اور شاید وہ آپ کی اتباع کریں اور اسلام قبول کرلیں تو میں بھی اسلام قبول کر لوں گا۔‘‘
اسے امام ابن سعد، ابن عساکر اور ابن جوزی نے روایت کیا ہے۔
110/ 20. عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيْعَهَ قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ يَقُوْلُ: اَنَا اَنْتَظِرُ نَبِيًّا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ ثُمَّ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَلَا اَرَانِي ادْرِکُهُ، وَاَنَا اوْمِنُ بِهِ وَاصَدِّقُهُ وَاَشْهَدُ اَنَّهُ نَبِيٌّ، فَإِنْ طَالَتْ بِکَ مُدَّةٌ فَرَيْتَهُ فَاَقْرِئْهُ مِنِّي السَّـلَامَ، وَسَاخْبِرُکَ مَا نَعْتُهُ حَتّٰی لَا يَخْفَی عَلَيْکَ، قُلْتُ: هَلُمَّ، قَالَ: هُوَ رَجُلٌ لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ وَلَا بِکَثِيْرِ الشَّعْرِ وَلَا بِقَلِيْلِهِ، وَلَيْسَتْ تُفَارِقُ عَيْنَيْهِ حُمْرَةٌ، وَخَاتَمُ النُّبُوَّةِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ وَاسْمُهُ اَحْمَدُ، وَهٰذَا الْبَلَدُ مَوْلِدُهُ وَمَبْعَثُهُ، ثُمَّ يُخْرِجُهُ قَوْمُهُ مِنْهُ وَيَکْرَهُوْنَ مَا جَائَ بِهِ، حَتّٰی يُهَاجِرَ إِلٰی يَثْرَبَ فَيَظْهَرُ اَمْرُهُ، فَيَاکَ اَنْ تُخْدَعَ عَنْهُ، فَإِنّي طُفْتُ الْبِـلَادَ کُلَّهَا اَطْلُبُ دِيْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَکُلُّ مَنْ اَسْاَلُ مِنَ الْيَهُوْدِ وَالنَّصَارٰی وَالْمَجُوْسِ، يَقُوْلُوْنَ: هٰذَا الدِّيْنُ وَرَائَکَ، وَيَنْعَتُوْنَهُ مِثْلَ مَا نَعَتُّهُ لَکَ، وَيَقُوْلُوْنَ لَمْ يَبْقَ نَبِيٌّ غَيْرُهُ، قَالَ عَامِرُ بْنُ رَبِيْعَهَ: فَلَمَّا اَسْلَمْتُ اَخْبَرْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَوْلَ زَيْدِ بْنِ عَمْرٍو وَاَقْرَأْتُهُ مِنْهُ السَّلَامَ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَرَحِمَ عَلَيْهِ وَقَالَ: قَدْ رَيْتُهُ فِي الْجَنَّةِ يَسْحَبُ ذُيُوْلًا.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالطَّبَرِيُّ وَالْفَاکِهِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
20: اخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 161.162، وايضًا، 3/ 379، والطبري في تاريخ الامم والملوک، 1/ 529، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 19/ 504، والفاکهي في اخبار مکة، 4/ 85.86، الرقم: 2419، والعسقلاني في فتح الباري، 7/ 143، وايضًا في تهذيب التهذيب، 3/ 364، وايضًا في الإصابة، 2/ 615، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 240، 6/ 64.
’’حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن عمرو بن نفیل کوبیان کرتے ہوئے سنا وہ فرماتے ہیں: میں اس نبی کا انتظار کر رہا ہوں جو اولاد اسماعیل اور پھر حضرت عبد المطلب کے بیٹوں میں سے ہوگا، اور میرا نہیں خیال کہ میںاسے پاسکوں اوراس پر ایمان لاؤں اور اس کی تصدیق کروں اور اس کے نبی ہونے کی گواہی دوں، پس اگر تمہاری عمر لمبی ہو اور تم اس نبی کو دیکھ سکو تو اُنہیں میرا سلام عرض کرنا اور میں تمہیں اس نبی کا حلیہ بیان کرتا ہوں تاکہ وہ تم پر مخفی نہ رہے میں نے کہا: بتلائیے، انہوں نے کہا: وہ نہ تو دراز قد اور نہ ہی کوتاہ قد ہیں (بلکہ قد درمیانہ ہے) نہ (جسم پر) زیادہ بالوں والے اور نہ ہی کم بالوں والے ہیں، اور چشمانِ مقدس میں ہمیشہ سرخی رہتی ہے اور ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہے اور ان کا اسم گرامی احمد ہے اور یہ بلد (مکہ) ان کی جائے ولادت اور جائے بعثت ہے، پھر ان کی قوم انہیں وہاں سے نکال دے گی اور وہ لوگ اسے ناپسند کریں گے جو شریعت وہ نبی لے کر آئیں گے یہاں تک کہ وہ یثرب (مدینہ منورہ) کی طرف ہجرت فرمائیں گے پھر وہاں ان کا دین خوب ظاہر ہو گا (اور پھلے پھولے گا) اور خبردار! تم اُن کے بارے میں کسی کے دھوکہ میں آنے سے بچنا۔ بے شک میں نے دین ابراہیم عليہ السلام کی تلاش میں شہروں کے چکر کاٹے ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں میں سے جس کسی سے بھی میں پوچھتا تھا تو وہ یہی کہتے تھے یہ (نیا) دین تمہارے پیچھے (آ رہا) ہے اور وہ اس نبی آخر الزماں کا اسی طرح حلیہ بیان کرتے تھے جس طرح میں نے تجھے بیان کیا ہے اور وہ کہتے تھے اس کے علاوہ اور کوئی نبی نہیں بچا۔ حضرت عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پس جب میں اسلام لایا میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت زید بن عمرو کا قول سنایا اور ان کا سلام بھی آپ ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا، آپ ﷺ نے اُن کے سلام کا جواب بھی دیا اور اُن کے لئے رحمت کی دعا بھی فرمائی اور فرمایا: بے شک میں نے اُنہیں جنت میں اپنا دامن گھسیٹتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
اِسے امام ابن سعد، طبری، فاکہی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved