46/ 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْاَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ: هَـلَّا وُضِعَتْ هٰذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ: فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
47/ 2. وفي رواية: عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : فَاَنَا مَوْضِعُ اللَّبِنَةِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْاَنْبِيَاءَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
48/ 3. وفي رواية: عَنْ أُبَيِّ ابْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه اَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: وَاَنَا فِي النَّبِيِّيْنَ بِمَوْضِعِ تِلْکَ اللَّبِنَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب،باب خَاتَم النّبيِّين ﷺ ، 3/ 1300، الرقم: 3341-3342، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب ذکر کونه ﷺ خاتمِ النَّبِيِّين، 4/ 1791، الرقم: 2286- 2287، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5/ 586، الرقم: 3613، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 436، الرقم: 11422، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/ 398، الرقم: 9156، 3/ 361، 5/ 136، وابن ابي شيبة في المصنف، 6/ 324، الرقم: 31770، وابن حبان في الصحيح، 14/ 315، الرقم: 6405، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 5، وأيضًا في شعب الإيمان، 2/ 178، الرقم: 1484.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیائِ کرام کی مثال اُس آدمی کے جیسی ہے جس نے ایک مکان بنایا اور اُسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ آکر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگے: یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میری آمد سے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسے امام مسلم اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اور میں نبیوں میں اُس اینٹ کی جگہ ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور اَحمد نے روایت کیا ہے۔
49/ 4. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ اَبِيْهِ رضی الله عنه اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا اَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ما جاء في أسماء رسول ﷲ ﷺ ، 3/ 1299، الرقم: 3339، وأيضًا في کتاب التفسير، باب تفسير سورة الصف، 4/ 1858، الرقم: 4614، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في اسمائه ﷺ ، 4/ 828، الرقم: 2354، والترمذي في السنن، کتاب الأدب عن رسول ﷲ ﷺ ، باب ما جاء في اسماء النبي ﷺ ، 5/ 135، الرقم:2840، وَقَالَ: هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائي في السنن الکبری، 6/ 489، الرقم: 11590، ومالک في الموطأ، کتاب اسماء النبي ﷺ ، باب اسماء النبي ﷺ ، 2/ 1004، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 80، 84، والدارمي في السنن، 2/ 409، الرقم: 2775، وابن حبان في الصحيح، 14/ 219، الرقم: 6313، والطبراني في المعجم الاوسط، 4/ 44، الرقم: 3570، وأيضًا في المعجم الکبير، 2/ 120، الرقم: 1520-1529، وابو يعلی في المسند، 13/ 388، الرقم: 7395، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 140، الرقم: 1397، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 105، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 284.
’’حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعہ کفر کو مٹایا جائے گا او رمیں حاشر ہوں، یعنی میرے بعد قیامت آجائے گی اور حشر برپا ہو گا (اور کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
50/ 5. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْاَنْبِيَاءُ، کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي… الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذکر عن بني إسرائيل، 3/ 1273، الرقم: 3268، ومسلم في الصحيح، کتاب الإمارة، باب وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء الاول فالاول، 3/ 1471، الرقم: 1842، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب الوفاء بالبيعة، 2/ 958، الرقم: 2871، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 297، الرقم: 7947، وابن حبان في الصحيح، 10/ 418، الرقم: 4555، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 464، الرقم: 37260، وابو يعلی في المسند، 11/ 75، الرقم: 6211، وابو عوانة في المسند، 4/ 409، الرقم: 7126، والبيهقي في السنن الکبری، 8/ 144، الرقم: 16325.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل پر حکمران انبیاء کرام ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کے بعد تشریف لے آتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
51/ 6. عَنْ عُقْبَهَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِِيُّ وَاَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
52/ 7. وفي رواية: عَنْ اَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : لَوْ کَانَ ﷲ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
6-7: اخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر بن الخطاب رضی الله عنه، 5/ 619، الرقم: 3686، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 154، والحاکم في المستدرک، 3/ 92، الرقم: 4495، والطبراني في المعجم الکبیر، 17/ 180، 298، الرقم: 475، 822، والروياني في المسند، 1/ 174، الرقم: 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9/ 68.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں)۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام حاکم نے بھی فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
اور ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن الخطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔‘‘
امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
53/ 8. عَنْ سَعْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ خَرَجَ إِلٰی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا رضی الله عنه فَقَالَ: أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ: اَ لَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4/ 1602، الرقم: 4154، 3/ 1359، الرقم: 3503، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن ابي طالب رضی الله عنه، 4/ 1870، 171 الرقم: 2404، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب، 5/ 640، 641، الرقم: 3730، 3731، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل علي بن ابي طالب، 1/ 42، 45، الرقم: 115، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 170، 173، 175،177، 179، 182،184،185،330، والطبراني في المعجم الکبير، 1/ 146، 148، الرقم: 328، 333.
’’حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ غزوہ تبوک کے لیے نکلے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) اپنا نائب مقرر فرمایا۔ وہ عرض گزار ہوئے: (یا رسول ﷲ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی، ماسوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
54/ 9. عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: خَلَّفَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ عَلِيَّ بْنَ اَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، اَتُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ اَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی عليهما السلام؟ إِلَّا اَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4/ 1602، الرقم: 4154، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4/ 1871، 1870، الرقم: 2404، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب، 5/ 638، الرقم: 3724، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 185، الرقم: 1608، وابن حبان في الصحيح، 15/ 370، الرقم: 6927، والبيهقي في السنن الکبری، 9/ 40.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا نائب بنایا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! کیآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (اے علی!) کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون علیہ السلام کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
55/ 10. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ يَقُوْلُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : أَمَا تَرْضٰی اَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّهَ بَعْدِي…الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن ابي طالب، 4/ 1871، الرقم: 2404، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب، 5/ 638، الرقم: 3724.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کو (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) فرماتے ہوئے سنا جب آپ ﷺ نے بعض غزوات میں اُنہیں (اپنا نائب بنا کر) پیچھے (مدینہ منورہ میں) چھوڑ دیا، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون ںتھے، البتہ میرے بعد نبوت نہیں ہو گی۔‘‘
اِسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
56/ 11. عَنْ سَعْدِ بْنِ اَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَکَرُوْا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ: تَقُوْلُ هٰذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ يَقُوْلُ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: اَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی إِلاَّ اَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ: لَاعْطِيَنَّ الرَّيَهَ الْيَوْمَ رَجُـلًا يُحِبُّ ﷲ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ اَبِي شَيْبَهَ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل علي بن ابي طالب، 1/ 45، الرقم: 121، والنسائي في السنن الکبری، 5/ 108، الرقم: 8399، وابن ابي شیبة في المصنف، 6/ 366، الرقم: 32078.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لیے آئے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس گئے تو اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کچھ اس طرح کیا جسے سن کر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا: تم اس شخص کے بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کے بارے میں حضورنبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: جس کا میں ولی ہوں علی بھی اس کا ولی ہے اور (اُن سے) فرمایاتھا: تمہارا میرے ساتھ وہی تعلق ہے جو ہارون علیہ السلام کا موسیٰ علیہ السلام سے تھا مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور فرمایا: آج میں اُس شخص کو عَلَم (جھنڈا) عطا کروں گاجو ﷲ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، نسائی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
57/ 12. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ اَبِي أَوْفٰی: رَيْتَ إِبْرَهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ ﷺ ؟ قَالَ: مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ ﷺ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلٰـکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب من سمی باسماء الانبياء، 5/ 2289، الرقم: 5841، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی ابن رسول ﷲ ﷺ وذکر وفاته، 1/ 484، الرقم: 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6/ 368، الرقم: 6638، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3/ 135، والزيلعي في تخريج الأحاديث والآثار، 3/ 115.
’’امام اسماعیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا: کیا آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا تھا؟ اُنہوں نے فرمایا: وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں (سو اُن کی بچپن میں ہی وفات ہو گئی)۔‘‘
اِسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
58/ 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْاَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ: اعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْاَرْضُ طَهُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُوْنَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، 1/ 371، الرقم: 523، والترمذي في السنن، کتاب السير، باب ما جاء في الغنيمة، 4/ 123، الرقم: 1553، وابن حبان في الصحيح، 6/ 87، الرقم: 2313، 14/ 311، الرقم: 6401، 6403، وابو يعلی في المسند، 11/ 377، الرقم: 6491، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/ 12، الرقم: 506، وابو عوانة في المسند، 1/ 330، الرقم: 1169، والبيهقي في السنن الکبری، 2/ 433، الرقم: 4063.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لیے اموالِ غنیمت حلال کیے گئے ہیں اور میرے لیے (ساری) زمین پاک اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے بعثتِ انبیاء کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔‘‘
اِسے امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
59/ 14. عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعُمُ اَنَّهُ نَبِيٌّ، وَاَنـَا خَاتَمُ النَّبِیِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ نَحْوَهُ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
اخرجه الترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذّابون، 4/ 499، الرقم: 2219، وابو داود في السنن، کتاب الفتن والملاحم، باب ذکر الفتن ودلائلها، 4/ 97، الرقم: 4252، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب ما يکون من الفتن، 2/ 130، الرقم: 3952، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 503، الرقم: 3565، والحاکم في المستدرک، 4/ 496، الرقم: 8390، والطبراني في المعجم الاوسط، 9/ 200، الرقم: 397، وابن ابي عاصم في الآحاد والمثاني، 1/ 332، الرقم: 456، 3/ 24، الرقم: 1309، والمقری في السنن الواردة في الفتن، 4/ 861، الرقم: 442، 4/ 863، الرقم: 444.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعویٰ ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ (سن لو!) میں خاتم النبیین ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابو داود اور اسی طرح امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
60/ 15. عَنْ حُذَيْفَهَ رضی الله عنه أَنَّ نَبِيَّ ﷲِ ﷺ قَالَ: فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِیِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ..
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/ 396، الرقم: 23406، والطبراني في المعجم الأوسط، 5/ 327، الرقم: 5450، وأيضًا في المعجم الکبير، 3/ 169، الرقم: 3026، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 454، الرقم: 8724، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 332.
’’حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری اُمت میں جھوٹی نبوت کے دعویدار اور دجال ستائیس ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں اور بے شک میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
اِسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
61/ 16. عَنْ جَابِرٍص أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.
اخرجه الدارمي في السنن، باب ما أعطي النبي ﷺ من الفضل، 1/ 40، الرقم: 49، والطبراني في المعجم الأوسط، 1/ 61، الرقم: 170، والبيهقي في کتاب الاعتقاد/ 192، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 254، والذهبي في سير اعلام النبلاء، 10/ 223، والمناوي في فيض القدير، 3/ 43.
’’حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اِس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اِس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اِس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
اِسے امام دارمی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
62/ 17. عَنْ اَبِي سَلَمَهَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَاَبِي عَبْدِ ﷲِ الْاَغَرِّ مَوْلَی الْجُهَنِيِّيْنَ وَکَانَ مِنْ اَصْحَابِ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه اَنَّهُمَا سَمِعَا اَبَا هُرَيْرَهَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: صَلَةٌ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ اَفْضَلُ مِنْ اَلْفِ صَلَةٍ فِيْمَا سِوَهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدَهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ… قَالَ عَبْدُ ﷲِ بْنُ إِبْرَهِيْمَ: اَشْهَدُ اَنِّي سَمِعْتُ اَبَا هُرَيْرَهَ يَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : فَإِنِّي آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الحج، باب فضل الصلاة بمسجدي مکة والمدينة، 2/ 1012، الرقم: (507) 1394، والنسائي في السنن، کتاب المساجد، باب فضل مسجد النبي ﷺ والصلاة فيه، 2/ 35، الرقم: 694، وايضًا في السنن الکبری، 1/ 257، الرقم: 773، وابن حبان في الصحيح، 4/ 500، الرقم: 1621، والبخاري في التاريخ الکبير، 8/ 253، الرقم: 2901، والطبراني في مسند الشاميين، 4/ 118، الرقم: 2883.
’’قبیلہ جہنی کے آزاد کردہ غلام حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن اور ابو عبد اللہ اغر جو کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگردوں میں سے ہیں دونوں نے بیان کیا کہ اُنہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا آپ فرماتے تھے: حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد میں ایک نماز پڑھنا، مسجد حرام کے سوا باقی تمام مساجد میں نماز ادا کرنے سے ایک ہزار گنا افضل ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم ﷺ آخر الانبیاء اور آپ کی مسجد آخر المساجد ہے۔۔۔۔ حضرت عبد اللہ بن ابراہیم نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا ہے، وہ فرماتے تھے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں سب سے آخری نبی ہوں اور میری مسجد (انبیاء کی) آخری مسجد ہے۔‘‘
اِسے امام مسلم، نسائی، ابن حبان اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔
63/ 18. عَنْ عَائِشَهَ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ اَنَا خَاتَمُ الْاَنْبِيَاءِ وَمَسْجِدِي خَاتَمُ مَسَاجِدِ الاَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ.
اخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 2/ 139، الرقم: 1831، والديلمي في مسند الفردوس، 1/ 45، الرقم: 112، والفاکهي في اخبار مکة، 2/ 93، الرقم: 1192، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4/ 4، والمزي في تهذيب الکمال، 8/ 450، الرقم: 1786، والعيني في عمدة القاري، 7/ 257، والسيوطي في الدر المنثور، 2/ 269.
’’حضرت عائشہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں سلسلہ انبیاء کا خاتم ہوں، اور میری مسجد، مساجد انبیاء کی خاتم ہے۔‘‘
امام منذری اور ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام بزار نے روایت کیا ہے علاوہ ازیں اِسے امام دیلمی نے بھی روایت کیا ہے۔
64/ 19. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي ﷲ عنه، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ يَعْنِي إِصْبَعَيْنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
65/ 20. قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: قَالَ اَبُوْ حَاتِمٍ: يُشْبِهُ اَنْ يَکُوْنَ مَعْنٰی قَوْلِهِ ﷺ : بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَةُ کَهَاتَيْنِ اَرَادَ بِهِ اَنِّي بُعِثْتُ اَنَا وَالسَّاعَةُ کَالسَّبَابَةِ وَالْوُسْطٰی مِنْ غَيْرِ اَنْ يَکُوْنَ بَيْنَنَا نَبِيٌّ آخَرُ لِاَنِّي آخِرُ الاَنْبِيَاءِ وَعَلٰی امَّتِي تَقُوْمُ السَّاعَةُ.
اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الرقاق، باب قول النبي ﷺ : بعثت انا والساعة کهاتين، 5/ 2385، الرقم: 6140، ومسلم في الصحيح، کتاب الفتن واشراط السّاعة، باب قرب السّاعة، 4/ 2268، الرقم: 2951، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في قول النبي ﷺ : بعثت انا والسّاعة کهاتين، 4/ 496، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب اشراط السّاعة، 2/ 1341، الرقم: 4040، وابن حبان في الصحيح، 15/ 11، الرقم: 6640.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے اور قیامت کو اِس طرح بھیجا گیا ہے یعنی دو انگلیوں کی طرح۔‘‘
’’امام ابن حبان بیان کرتے ہیں کہ امام ابو حاتم نے فرمایا: اس چیز کا احتمال ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے اِس فرمان مبارک: مجھے اور قیامت کو ان دو (انگلیوں) کی طرح (اکٹھا) بھیجا گیا، اِس سے آپ ﷺ کی مراد یہ ہو کہ مجھے اور قیامت کو شہادت کی انگلی اور اس کے ساتھ متصل درمیان والی انگلی کی طرح بھیجا گیا بایں طور کے ہمارے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہے کیوں کہ میں آخری نبی ہوں اور میری اُمت پر ہی قیامت واقع ہو گی۔‘‘
66/ 21. عَنْ اَبِي امَامَهَ الْبَهِلِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : أَنَا آخِرُ الْاَنْبِيَاءِ وَاَنْتُمْ آخِرُ الْامَمِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَابْنُ اَبِي عَاصِمٍ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2/ 1359، الرقم: 4077، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 171، الرقم: 391، والحاکم في المستدرک، 4/ 580، الرقم: 8620، والطبراني في المعجم الکبير، 8/ 146، الرقم: 7644، والروياني في المسند، 2/ 295، الرقم: 1239، والطبراني في مسند الشاميين، 2/ 28، الرقم: 861.
’’حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمام انبیاء کرام میں سے آخری ہوں اور تم اُمتوں میں سے آخری اُمت ہو۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، ابن ابی عاصم اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
67/ 22. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : إِنَّ الرِّسَالَهَ وَالنُّبُوَّهَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ: فَشَقَّ ذَالِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ: لٰـکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا: يَا رَسُوْل ﷲِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْءٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الرويا، باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، 4/ 533، الرقم: 2272، واحمد بن حنبل في المسند، 3/ 267، الرقم: 13851، والحاکم في المستدرک، 4/ 433، الرقم: 8178، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 7/ 206، الرقم: 2645.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے سو میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ بات لوگوں پر گراں گزری (کہ اب سلسلہ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لیکن مبشرات (باقی ہیں) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: (یا رسول ﷲ!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کے اجزاء کا ایک جزو ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
68/ 23. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ يَقُوْلُ: لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ: اَلرُّوْيَا الصَّالِحَةُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
اخرجه البخاري في الصحیح، کتاب التعبیر، باب المبشرات، 6/ 2564، الرقم: 6589.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نیک خواب۔‘‘
اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
69/ 24. عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَةِ رضي ﷲ عنها قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ يَقُوْلُ: ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَاَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب تعبیر الرّويا، باب الرؤيا الصالحة يراها المسلم أو تُری له، 2/ 1283، الرقم: 3896، واحمد بن حنبل في المسند، 6/ 381، الرقم: 27185، وابن حبان في الصحيح، 13/ 411، الرقم: 6024.
’’حضرت اُم کرز کعبیہ رضی ﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا ہے کہ آپ ﷺ فرما رہے تھے: نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔‘‘
اِسے امام ابن ماجہ، اَحمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
70/ 25. عَنْ اَبِي الطُّفَيْلِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : لَا نُبُوَّهَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ: قِيْلَ: وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُوْلَ ﷲِ؟ قَالَ: اَلرُّوْيَا الْحَسَنَةُ اَوْ قَالَ: اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ نَحْوَهُ.
أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 5/ 454، الرقم: 23846، 23283، والطبراني في المعجم الکبير، 3/ 179، الرقم: 3051، وابن منصور في السنن، 5/ 321، الرقم: 1068، والديلمي في مسند الفردوس، 2/ 247، الرقم: 3162، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 8/ 223، الرقم: 264، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 173، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 494.
’’حضرت ابو الطفیل رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول ﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اچھے خواب یا فرمایا: نیک خواب۔‘‘
اِسے امام اَحمد اور اسی طرح طبرانی نے روایت کیا ہے۔
71/ 26. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَهَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : إِنِّي عِنْدَ ﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَانَبِّئُکُمْ بِاَوَّلِ ذَالِکَ دَعْوَةُ اَبِي إِبْرَهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسٰی بِي، وَرُوْيَا امِّي الَّتِي رَاَتْ وَکَذَالِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
72/ 27. وفي رواية عنه: قَالَ: إِنِّي عَبْدُ ﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فذکر مثله وزاد فيه: إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَائَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 4/ 127128، الرقم: 16700، 16712، وابن حبان في الصحيح، 14/ 313، الرقم: 6404، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 179، الرقم:409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6/ 68، الرقم: 1736، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 252، 253، الرقم: 629، 630، والحاکم في المستدرک، 2/ 656، الرقم: 4175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 134، الرقم: 1385.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اُس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں: میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت ہوں اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘
اِسے امام اَحمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں ﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حدیث کی مثل حدیث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا: ’’بے شک حضور نبی اکرم ﷺ کی والدہ ماجدہ نے آپ ﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت نور دیکھا جس سے شام کے محلات تک روشن ہو گئے۔‘‘
اِسے امام اَحمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔
73/ 28. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَهَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : إِنِّي عِنْدَ ﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِیِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَاْوِيْلَ ذَالِکَ: دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَهِيْمَ، دَعَا: {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} [البقرة، 2: 129]، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ: {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، [الصف، 61: 6]. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَائَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَاحِدُ اَسَانِيْدِ اَحْمَدَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرُ سَعِيْدُ بْنُ سُوَيْدٍ وَقَدْ وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب ذکر کتبه ﷲ جل وعلا عنده محمد ﷺ خاتم النبيين، 14/ 312، الرقم: 6404، والطبراني في المعجم الکبير، 18/ 253، الرقم: 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6/ 40، وايضًا في دلائل النبوة، 1/ 17، والحاکم في المستدرک، 2/ 656، الرقم: 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 583، والطبري في جامع البيان، 6/ 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1/ 185، وايضًا في البداية والنهاية، 2/ 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1/ 512، الرقم: 2093، وايضًا في مجمع الزوائد، 8/ 223.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے (مرحلہ خلقت میں) تھے۔ میں تمہیں اِس کی تفصیل بتاتا ہوں کہ میں اپنے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں جو اُنہوں نے مانگی: ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما۔‘‘ اور میں حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی بشارت ہوں اُنہوں نے کہا: ’’اور اُس رسولِ (معظم ﷺ ) کی (آمد کی) بشارت سنانے والاہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( ﷺ ) ہے۔‘‘ اور میں اپنی والدہ کا خواب ہوں جو اُنہوں نے دیکھا کہ اُنہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا ہے جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام ابن حبان، طبرانی، ابو نعیم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام اَحمد کی ایک سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے سعید بن سوید کے، اُنہیں امام ابن حبان نے ثقہ قرار دیا ہے۔
74/ 29. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ رضی الله عنه في رواية طويلة قَالَ: وَلَمْ يَبْعَثِ ﷲ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنٰی إِلَّا اَنْ يَکُوْنَ نَبِيُنَا مُحَمَّدٌ ﷺ فَإِنَّ شَامَهَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُنَا ﷺ عَنْ ذَالِکَ فَقَالَ: هٰذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتِفَيَّ شَامَةُ الْاَنْبِيَاءِ قَبْلِي لِاَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
اخرجه الحاکم في المستدرک، باب ذکر النبي الکليم موسی بن عمران واخيه هارون بن عمران، 2/ 631، الرقم: 4105.
’’حضرت وہب بن منبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اُس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم ﷺ کے۔ آپ ﷺ کی مہرِ نبوت آپ ﷺ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے اِس بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام کی مہر (نبوت) ہے کیوں کہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لیے میرے بعد کسی کے لیے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘
اِسے امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved