29/ 1. عَنْ اَبِي هُرَيْرَهَ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَاَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي ﷺ ، 5/ 585، الرقم: 3609، واحمد بن حنبل في المسند، 4/ 66، 5/ 59،379، الرقم: 23620، والحاکم في المستدرک، 2/ 665-666، الرقم: 4209-4210، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 369، الرقم: 36553، وأبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی ﷺ ، 1/ 286، الرقم: 75، والطبراني في المعجم الاوسط، 4/ 272، الرقم: 4175، وأيضًا في المعجم الکبير، 12/ 92، 119، الرقم: 12571، 12646، وأيضًا، 20/ 353، الرقم: 833، وابو نعيم في حلية الاولياء، 7/ 122، 9/ 53، وأيضًا في دلائل النبوة، 1/ 17، والبخاري في التاريخ الکبير، 7/ 374، الرقم: 1606، والخلال في السنة، 1/ 188، الرقم: 200، إسناده صحيح، وابن أبي عاصم في السنة، 1/ 179، الرقم: 411، إسناده صحيح، وأيضًا في الآحاد والمثاني، 5/ 347، الرقم: 2918، وعبد الله بن أحمد في السنة، 2/ 398، الرقم: 864، إسناده صحيح، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/ 148، 7/ 60، وابن حبان في الثقات، 1/ 47، وابن قانع في معجم الصحابة، 2/ 127، الرقم: 591، 3/ 129، 1103، وابن خياط في الطبقات، 1/ 59،125، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4/ 753، الرقم: 1403، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9/ 142-143، الرقم: 123-124، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1/ 10، وأيضًا في الإکمال، 1/ 428، الرقم: 898، والديلمي في مسند الفردوس، 3/ 284، الرقم: 4845، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 26/ 382، 45/ 488-489، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3/ 70، الرقم: 1032، 5/ 82، الرقم: 2472، 10/ 146، الرقم: 5292، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2/ 244، والعسقلاني في تهذيب التهذيب، 5/ 147، الرقم: 290، وأيضًا في الإصابة، 6/ 239، وأيضًا في تعجيل المنفعة، 1/ 542، الرقم: 1518، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4/ 1488، الرقم: 2582، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7/ 384، 11/ 110، وقال: هذا حديث صالح السند، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 307، 320-321، والجرجاني في تاريخ جرجان، 1/ 392، الرقم: 653، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 7-8،18، وأيضاً في الحاوي للفتاوی، 2/ 100، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1/ 60، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 223، وقال: رواه الطبراني والبزار، وذکره الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 4/ 471، الرقم: 1856.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کاباہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
30/ 2. وفي رواية: عَنْ مَيْسَرَهَ الْفَجْرِ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قُلْتُ لِرَسُوْلِ ﷲِ ﷺ : مَتٰی کُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ سَعْدٍ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت میسرہ فجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ سے پوچھا: (یا رسول اللہ!) آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اِسے امام حاکم، طبرانی، ابو سعد اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا: اِس کی سند صحیح ہے۔
31/ 3. وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَتٰی کُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ رِجَالُ الصَّحِيْحِ. وَقَالَ الذَّهَبِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ السَّنَدِ.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: (یا رسول اللہ!) آپ کے لیے نبوت کب فرض کی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا جبکہ) حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اِسے امام احمد، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ الفاظ طبرانی کے ہیں نیز اِس حدیث کی سند صحیح اور تمام رجال ثقات اور صحیح حدیث کے رجال ہیں۔ امام ذہبی نے فرمایا: یہ حدیث اچھی سند والی ہے۔
32/ 4. وفي رواية عنه: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَتٰی أُخِذَ مِيْثَاقُکَ؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کا میثاق (یعنی وعدہ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
33/ 5. وفي رواية: عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ شَقِيْقٍ عَنْ رَجُلٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَتٰی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن شقیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک صحابی سے روایت کیا، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کب نبی بنائے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اُس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ’’ الصحیح ‘‘ کے رجال ہیں۔
34/ 6. وفي رواية: عَنْ عُمَرَ رضي الله تعالیٰ عنه قاَلَ: يَا رَسُوْلَ ﷲِ، مَتٰی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ: وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ.
رَوَاهُ ابْنُ کَثِيْرٍ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السُّيُوْطِيُّ.
’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘
اسے علامہ ابن کثیر نے روایت کیا اور امام سیوطی نے کہا: اسے امام ابو نعیم نے بھی روایت کیا ہے۔
35/ 7. وفي رواية: عَنْ عَامِرٍ رضي الله تعالیٰ عنه قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ ﷺ : مَتٰی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ: وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّي الْمِيْثَاقُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کئے گئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
36/ 8. عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ: أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتّٰی أَتَی رَسُوْلَ ﷲِ ﷺ وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ: أَلَا تُعْطِيْنِي شَيْئًا اَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ: مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ: فَاَفْرَجُوْا لَهُ، حَتّٰی جَلَسَ، قَالَ: أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ: أَخَذَ اللهُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَـلَا: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} [الأحزاب، 33: 7] وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ ﷲِ ﷺ فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنِ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَائَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22/ 333، الرقم: 835، وايضًا في مسند الشاميين، 2/ 98، الرقم: 984، وابن ابي عاصم في الأحاد والمثاني، 4/ 397، الرقم: 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1/ 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2/ 323.
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ اُس وقت تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اُس اعرابی نے عرض کیا: (یا رسول الله !) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور وہ مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ لوگوں نے اُسے کہا: ٹھہرو، بیٹھ جاؤ، اِس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اِسے چھوڑ دو، بے شک آدمی جاننے کے لیے ہی سوال کرتا ہے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اِس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اُس نے عرض کیا: یا رسول الله ! آپ کی نبوت کا سب سے پہلا معاملہ کیا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی: ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (علیہم السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ ﷺ کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ ﷺ کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
37/ 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: اَوْحَی اللهُ إِلٰی عِيْسٰی، يَا عِيْسٰی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ، وَاْمُرْ مَنْ اَدْرَکَهُ مِنْ امَّتِکَ اَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ، فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ آدَمَ، وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ، مَا خَلَقْتُ الْجَنَّهَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ، فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلٰـهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
اخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 671، الرقم: 4227، والخلال في السنة، 1/ 261، الرقم: 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5/ 299، الرقم: 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4/ 354، الرقم: 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين باصبهان، 3/ 287.
’’حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی: اے عیسیٰ! محمد (ﷺ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی اُمت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد مصطفی (ﷺ) نہ ہوتے تو میں آدم (علیہ السلام) کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی (ﷺ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہٰذا میں نے اس پر {لَا إِلٰـهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ} لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اسے امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
38/ 10. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ : لَمَّا اَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي اَذْنَبَهُ، رَفَعَ رَاْسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ: اَسْأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ ﷺ إِلَّا غَفَرْتَ لِي، فَاَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ: وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ: تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي، رَفَعْتُ رَاْسِي إِلٰی عَرْشِکَ، فَرَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا: لَا إِلٰـهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ، فَعَلِمْتُ اَنَّهُ لَيْسَ اَحَدٌ اَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَاَوْحَی اللهُ إِلَيْهِ: يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ امَّتَهُ آخِرُ الْامَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَهُ، يَا آدَمُ، مَا خَلَقْتُکَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
اخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2/ 182، الرقم: 992، وأيضًا في المعجم الاوسط، 6/ 313، الرقم: 6502، وابن تيمية في مجموع الفتاوي، 2/ 151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 253، والسيوطي في جامع الاحاديث، 11/ 94.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت بیان فرمائی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب حضرت آدم عليہ السلام سے (بغیر کسی اِرادہ کے) لغزش سرزد ہوئی تو اُنہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے: (یا الله !) میں (تجھ سے، تیرے محبوب) محمد مصطفی ﷺ کے وسیلہ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: (اے آدم!) محمد مصطفی کون ہیں؟ حضرت آدم نے عرض کیا: (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے، جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لَا إِلٰـهَ إِلَّا اللهُ، مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲِ‘‘ لکھا ہوا دیکھا، تو میں جان گیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ جوڑا ہے تیرے نزدیک اس ہستی سے بڑھ کر قدر ومنزلت والی ذات کوئی نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی: اے آدم! وہ (محمد ﷺ ) تمہاری نسل میں سب سے آخری نبی ہیں، اور ان کی اُمت بھی تمہاری نسل کی آخری اُمت ہو گی۔ اور اے آدم! اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved