اربعین: اسماء و صفات الٰہیہ

اللہ تعالیٰ ہی عرش عظیم کا رب ہے

إِنَّهُ تَعَالٰی رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ

اللہ تعالیٰ ہی عرشِ عظیم کا رب ہے

اَلْقُرْآن

  1. لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْکُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِيْمٌo فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُزق صل لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ط عَلَيْهِ تَوَکَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo

(التوبة، 9/ 128-129)

بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزومند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیںo اگر (ان بے پناہ کرم نوازیوں کے باوجود) پھر (بھی) وہ روگردانی کریں تو فرما دیجیے: مجھے اللہ کافی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں اسی پر بھروسہ کیے ہوئے ہوں اور وہ عرشِ عظیم کا مالک ہے۔

  1. اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِo

(النمل، 27/ 26)

اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں (وہی) عظیم تختِ اقتدار کا مالک ہے۔

  1. اِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِيْدٌo اِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيْدُo وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُo ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُo فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُo

(البروج، 85/ 12-16)

بے شک آپ کے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔ بے شک وہی پہلی بار پیدا فرماتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔ اور وہ بڑا بخشنے والا بہت محبت فرمانے والا ہے۔ مالکِ عرش (یعنی پوری کائنات کے تختِ اقتدار کا مالک) بڑی شان والا ہے۔ وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے (اسے) خوب کر دینے والا ہے۔

اَلْحَدِيْث

  1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْلُ عِنْدَ الْکَرْبِ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِيْمِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الدعوات، باب الدعاء عند الکرب، 5/ 2336، الرقم/ 5986، وايضًا في الادب المفرد/ 245، الرقم/ 702، ومسلم في الصحيح، کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب دعاء الکرب، 4/ 2092، الرقم/ 2730، واحمد بن حنبل في المسند، 1/ 228، الرقم/ 2012، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب ما جاء ما يقول عند الکرب، 5/ 495، الرقم/ 3435، وابن ماجه في السنن، کتاب الدعاء، باب الدعاء عند الکرب، 2/ 1278، الرقم/ 3883، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 397، الرقم/ 7674-7675، وابن ابي شيبة في المصنف، 6/ 20، الرقم/ 29155.

حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکلیف کے وقت یوں فرماتے: {لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيْمُ الْحَلِيْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَرَبُّ الْاَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِيْمِ} ’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیںہے، جو عظیم اورحلیم ہے۔اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیںہے، جو عرشِ عظیم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیںہے، جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے اور عزت والے عرش کا رب ہے۔‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

  1. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنهما قَالَ: کُنْتُ فِي الْبَطْحَائِ فِي عِصَابَةٍ فِيْهِمْ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَرَّتْ بِهِمْ سَحَابَةٌ فَنَظَرَ إِلَيْهَا فَقَالَ: مَا تُسَمُّوْنَ هٰذِهِ قَالُوْا: السَّحَابَ، قَالَ: وَالْمُزْنَ، قَالُوْا: وَالْمُزْنَ، قَالَ: وَالْعَنَانَ قَالُوْا: وَالْعَنَانَ، قَالَ اَبُوْ دَاوُدَ: لَمْ اتْقِنِ الْعَنَانَ جَیِّدًا، قَالَ: هَلْ تَدْرُوْنَ مَا بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْاَرْضِ؟ قَالُوْا: لَا نَدْرِي، قَالَ: إِنَّ بُعْدَ مَا بَيْنَهُمَا إِمَّا وَاحِدَةٌ اَوْ اثْنَتَانِ اَوْ ثَـلَاثٌ وَسَبْعُوْنَ سَنَةً ثُمَّ السَّمَاءُ فَوْقَهَا کَذٰلِکَ حَتّٰی عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ثُمَّ فَوْقَ السَّابِعَةِ بَحْرٌ بَيْنَ اَسْفَلِهِ وَاَعْـلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلٰی سَمَاءٍ ثُمَّ فَوْقَ ذٰلِکَ ثَمَانِيَهُ اَوْعَالٍ بَيْنَ اَظْلَافِهِمْ وَرُکَبِهِمْ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلٰی سَمَاءٍ ثُمَّ عَلٰی ظُهُوْرِهِمُ الْعَرْشُ مَا بَيْنَ اَسْفَلِهِ وَاَعْـلَاهُ مِثْلُ مَا بَيْنَ سَمَاءٍ إِلٰی سَمَاءٍ ثُمَّ اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی فَوْقَ ذٰلِکَ.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 1/ 206، الرقم/ 1770، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في الجهمية، 4/ 231، الرقم/ 4723، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الحاقة، 5/ 424، الرقم/ 3320، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فيما انکرت الجهمية، 1/ 69، الرقم/ 193.

حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں بطحاء کے مقام پر ایک جماعت میں تھا جس کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جلوہ افروز تھے۔ جماعت کے اوپر سے بادل کا ایک ٹکڑا گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا: تم اسے کیا نام دیتے ہو؟ لوگوں نے کہا: السَّحَابُ، فرمایا: المُزن بھی؟ لوگوں نے کہا: المُزن بھی، فرمایا کہ العَنان بھی؟ لوگوں نے کہا: العَنان بھی۔ (یہ سارے الفاظ عربی میں بادل کے نام ہیں۔) امام ابو داؤد نے فرمایا: مجھے العَنان کے بارے میں زیادہ اِتقان (پختہ یقین) نہیں ہے۔ فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ صحابہ کرام l نے عرض کیا: ہمیں معلوم نہیں۔ فرمایا: ان دونوں کے درمیان اکہتر یا بہتر یا تہتر سال کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ پھر اس آسمان اور دوسرے کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہے۔ یہاں تک کہ ساتویں آسمان تک اسی طرح بتایا۔ پھر ساتویں کے اوپر (نور کا) سمندر ہے جس کی نچلی سطح اور اوپر والی سطح میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے کا۔ پھر اس کے اوپر آٹھ فرشتے ہیں (یہ حاملینِ عرش ہیں) جن کے قدموں اور گھٹنوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا، پھر ان کے اوپر عرش ہے جس کے نیچے والے حصے اور اوپر والے حصے میں اتنا فاصلہ ہے جتنا ایک آسمان سے دوسرے آسمان کا۔ پھر اللہ تبارک تعالیٰ (کی مسندِ اِقتدار، جیسے اس کی شان کے لائق ہے اور وہ کمیّت و کیفیت سے پاک ہے) اس سے بلند و برتر ہے (جس کا احاطہ عقلِ انسانی نہیں کرسکتی)۔

اِسے امام احمد نے، ابو داود نے مذکورہ الفاظ سے، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved