اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ط اِنْ يَشَاْ يُذْهِبْکُمْ وَيَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍo وَّمَا ذٰلِکَ عَلَی اللهِ بِعَزِيْزٍo
(إبراهيم، 14/ 19-20)
(اے سننے والے!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ بے شک اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق (پر مبنی حکمت) کے ساتھ پیدا فرمایا اگر وہ چاہے (تو) تمہیں نیست و نابود فرما دے اور (تمہاری جگہ) نئی مخلوق لے آئےo اور یہ کام اللہ پر(کچھ بھی) دشوار نہیں ہے۔
اَوَلَيْسَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ ط بَلٰی ق وَهُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِيْمُo اِنَّمَآ اَمْرُهُ اِذَآ اَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَقُوْلَ لَهُ کُنْ فَيَکُوْنُo فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهِ مَلَکُوْتُ کُلِّ شَيْئٍ وَّاِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَo
(يٰس، 36/ 81-83)
اور کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسی تخلیق (دوبارہ) کر دے، کیوں نہیں، اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے۔ اس کا امرِ (تخلیق) فقط یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔ پس وہ ذات پاک ہے جس کے دستِ (قدرت) میں ہر چیز کی بادشاہت ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔
تَبٰـرَکَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْکُ ز وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرُo نِالَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ط وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُo الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ط مَا تَرٰی فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ ط فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍo ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ اِلَيْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّهُوَ حَسِيْرٌo
(الملک، 67/ 1-4)
وہ ذات نہایت بابرکت ہے جس کے دستِ (قدرت) میں (تمام جہانوں کی) سلطنت ہے، اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے، اور وہ غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔ جس نے سات (یا متعدّد) آسمانی کرّے باہمی مطابقت کے ساتھ (طبق دَر طبق) پیدا فرمائے، تم (خدائے) رحمان کے نظامِ تخلیق میں کوئی بے ضابطگی اور عدمِ تناسب نہیں دیکھو گے، سو تم نگاہِ (غور و فکر) پھیر کر دیکھو، کیا تم اس (تخلیق) میں کوئی شگاف یا خلل (یعنی شکستگی یا اِنقطاع) دیکھتے ہو۔تم پھر نگاهِ (تحقیق) کو بار بار (مختلف زاویوں اور سائنسی طریقوں سے) پھیر کر دیکھو، (ہر بار) نظر تمہاری طرف تھک کر پلٹ آئے گی اور وہ (کوئی بھی نقص تلاش کرنے میں) ناکام ہو گی۔
اِنَّهُ هُوَ يُبْدِئُ وَيُعِيْدُo وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُo ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيْدُo فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُo
(البروج، 85/ 13-16)
بے شک وہی پہلی بار پیدا فرماتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔ اور وہ بڑا بخشنے والا بہت محبت فرمانے والا ہے۔ مالکِ عرش (یعنی پوری کائنات کے تختِ اقتدار کا مالک) بڑی شان والا ہے۔ وہ جو بھی ارادہ فرماتا ہے (اسے) خوب کر دینے والا ہے۔
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ الْخَلْقَ کَتَبَ فِي کِتَابِهِ فَهُوَ عِنْدَهُ فَوْقَ الْعَرْشِ: إِنَّ رَحْمَتِي تَغْلِبُ غَضَبِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اللہ تعالٰی: ويحذرکم اللہ نفسه، 6/ 2694، الرقم/ 6969، ومسلم في الصحيح، کتاب التوبة، باب في سعة رحمة اللہ تعالٰی وانها سبقت غضبه، 4/ 2107، الرقم/ 2751، واحمد بن حنبل في المسند، 2/ 433، الرقم/ 9595، والترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب خلق اللہ مائة رحمة، 5/ 549، الرقم/ 3543، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب ما يرجی من رحمة اللہ يوم القيامة، 2/ 1435، الرقم/ 4295، والنسائي في السنن الکبری، 4/ 417، الرقم/ 7751، وابن ابي شيبة في المصنف، 7/ 60، الرقم/ 34199.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو اپنے پاس عرش پر موجود کتاب میں اس نے لکھ دیا: میری رحمت میرے غضب پر غالب رہے گی۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
عَنْ حُذَيْفَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللهَ خَالِقُ کُلِّ صَانِعٍ وَصَنْعَتِهِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ اَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللهِ اَبِي الْحُسَيْنِ بْنِ الْکُرْدِيِّ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب الإيمان، 1/ 85، الرقم/ 86، والبزار في المسند، 7/ 852، الرقم/ 7382، وابن ابي عاصم في السنة، 1/ 158، الرقم/ 357، وذکره الهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 197، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 14.
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہر صانع اور اُس کی صنعت کو تخلیق فرمانے والا ہے۔
اِسے امام حاکم، بزار اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے بزار نے روایت کیا ہے اور اُن کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے احمدبن عبد اللہ ابو حسین الکُردی کے اور وہ ثقہ ہیں۔
وَفِي رِوَايَةِ اَبِي مُوْسَی الاَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللهَ تَعَالٰی خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيْعِ الْاَرْضِ، فَجَاءَ بَنُوْ آدَمَ عَلٰی قَدْرِ الْاَرْضِ، فَجَاءَ مِنْهُمُ الْاَحْمَرُ وَالْاَبْيَضُ وَالْاَسْوَدُ وَبَيْنَ ذٰلِکَ وَالسَّهْلُ وَالْحَزْنُ وَالْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَاَبُوْ دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اخرجه احمد بن حنبل في المسند، 4/ 400، الرقم/ 19597، وابو داود في السنن، کتاب السنة، باب في القدر، 4/ 222، الرقم/ 4693، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة البقرة، 5/ 204، الرقم/ 2955، وابن حبان في الصحيح، 14/ 29، الرقم/ 6160، والبزار في المسند، 8/ 42، 43، الرقم/ 3026.
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی (کے اجزا) کی ایک مٹھی سے پیدا کیا جو تمام زمین سے لی تھی، لہٰذا اولادِ آدم زمین کے مطابق پیدا ہوئی ان میں سرخ بھی ہیں، سفید بھی، سیاہ بھی اور اس کے بین بین بھی، نرم مزاج بھی ہیں اور سخت مزاج بھی، خبیث بھی اور پاکیزہ بھی (یعنی سب قسم کے لوگ) ہیں۔
اِسے امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved