حضور ﷺ کے شمائل مبارکہ

حضور ﷺ کا تمام مخلوق سے حسین تر اور سراپا نور ہونے کا بیان

بَابٌ فِي کَوْنِه ﷺ أَحْسَنَ الْخَلَائِقِ خِلْقَةً وَأَنْوَرَهَ

{حضور ﷺ کا تمام مخلوق سے حسین تر اور سراپا نور ہونے کا بیان}

1 /1. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه يَقُوْلُ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَحْسَنَ النَّاسِ وَجْهًا، وَأَحْسَنَهُمْ خَلْقًا، لَيْسَ بِالطَّوِيْلِ الْبَائِنِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3 /1303، الرقم: 3356، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنه أحسن الناس وجهًا، 4 /1819، الرقم: 2337، وابن حبان في الصحيح، 14 /196، الرقم: 6285.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ بلحاظ صورت و خِلقت لوگوں میں سب سے حسین تھے، نہ تو زیادہ دراز قد تھے اور نہ ہی پستہ قد۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2 /2. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ مَرْبُوْعًا، بَعِيْدَ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ، لَه شَعَرٌ يَبْلُغُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ، رَأَيْتُه فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ لَمْ أَرَ شَيْئًا قَطُّ أَحْسَنَ مِنْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب صفة النبي ﷺ، 3 /1303، الرقم: 3358، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنّه کان أحسن الناس وجهًا، 4 /1818، الرقم: 2337، والترمذي في الشمائل المحمدية /30، الرقم: 3، وأبوداود في السنن، کتاب اللباس، باب في الرخصة في ذلک، 4 /54، الرقم: 4072، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /281، الرقم: 18496.

’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ میانہ قد تھے۔ دونوں کندھوں کے درمیان فاصلہ تھا۔ گیسوئے مبارک کانوں کی لَو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ ﷺ کو سرخ جبے میں ملبوس دیکھا اور آپ ﷺ سے بڑھ کر کوئی حسین کبھی نہیں دیکھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3 /3. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِنْ ذِي لِمَّةٍ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

وفي رواية عنه: يَقُوْلُ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِ اللهِ أَحْسَنَ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ . رَوَاهُ أَحْمَدُ.

3: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب اللباس، باب الجعد، 5 /2211، الرقم: 5561، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب في صفة النبي ﷺ وأنه کان أحسن الناس وجهًا، 4 /1818، الرقم: 2337، والنسائي في السنن، کتاب الزينة، باب اتخاذ الشعر، 8 /133، الرقم: 5062، وأبو داود في السنن، کتاب الترجل، باب ما جاء في الشعر، 4 /81، الرقم: 4183، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /290، 295، 300، الرقم: 18581، 18636، 18688.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی دراز گیسوؤں والے شخص کو سرخ پوشاک پہنے ہوئے حضور نبی اکرم ﷺ سے زیادہ حسین نہیں دیکھا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

’’اوران ہی سے مروی ایک روایت میں ہے آپ بیان کرتے ہیں: میں نے اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی کو سرخ پوشاک میں ملبوس حضورنبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر حسین نہیں دیکھا۔‘‘ اِس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

4 /4. عَنِ الْبَرَاءِ رضی الله عنه قَال: رَأَيْتُ النَّبِيَّ ﷺ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، مُتَرَجِّـلًا، لَمْ أَرَ قَبْلَه وَلَا بَعْدَه أَحَدًا هُوَ أَجْمَلُ مِنْهُ.

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

4: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزينة، باب لبس الحلل، 8 /203، الرقم: 5314، وأيضًا في السنن الکبری، 5 /476، الرقم: 9639، وأبو يعلی في المسند، 3 /253، الرقم: 1699، وابن الجعد في المسند، 1 /312، الرقم: 2111، والجرجاني في تاريخ الجرجان، 1 /514، الرقم: 1059، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /289، 43 /112.

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کی زیارت کی درآنحالیکہ آپ ﷺ سرخ پوشاک زیبِ تن کیے ہوئے تھے اور زلفوں میں مانگ نکالے ہوئے تھے، میں نے آپ ﷺ سے زیادہ خوبصورت نہ تو آپ ﷺ سے پہلے دیکھا اورنہ آپ ﷺ کے بعد۔‘‘ اِس حدیث کو امام نسائی اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

5 /5. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ فِي لَيْلَةِ إِضْحِيَانٍ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَی الْقَمَرِ. قَالَ: فَلَهُوَ کَانَ أَحْسَنَ فِي عَيْنِي مِنَ الْقَمَرِ.

وفي رواية: فَلَهُوَ أَجْمَلُ عِنْدِي مِنَ الْقَمَرِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

5: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1 /44، الرقم: 57، والنسائي في السنن الکبري، 5 /476، الرقم: 9640، والحاکم في المستدرک، 4 /207، الرقم: 7383، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /206، الرقم: 1842، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /150، الرقم: 1417، والترمذي في الشمائل المحمدية، 39، الرقم: 10، وابن عبد البر في الاستيعاب، 1 /224.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک چاندنی رات میں، میں نے حضورنبی اکرم ﷺ کی زیارت کی اور اُس وقت آپ ﷺ سرخ پوشاک زیبِ تن کئے ہوئے تھے، میں نے آپ ﷺ کی طرف اور چاند کی طرف دیکھنا شروع کیا، پس آپ ﷺ میری نظروں میں چاند سے کئی گنا بڑھ کر حسین تھے۔‘‘

اور ایک روایت میں ہے: ’’میرے نزدیک آپ ﷺ چاند سے کئی گنا بڑھ کر صاحبِ جمال تھے۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، نسائی، حاکم، طبرانی، بیہقی اور ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔

6 /6. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ وَمَا عَلٰی وَجْهِ اْلأَرْضِ رَجُلٌ رَآهُ غَيْرِي، قَالَ: فَقُلْتُ لَه: فَکَيْفَ رَأَيْتَه؟ قَالَ: کَانَ أَبْيَضَ مَلِيْحًا مُقَصَّدًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

وفي رواية عنه: قَالَ: کَانَ أَبْيَضَ مَلِيْحًا. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

6: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کان النبي ﷺ أبيض مليح الوجه، 4 /1820، الرقم: (2)2340، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في هدي الرجل، 4 /267، الرقم: 4864، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /454، الرقم: 23848، والبخاري في الأدب المفرد /276، الرقم: 790.

’’حضرت ابو طفیل سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی تھی اور (اِس وقت) میرے سوا روئے زمین پر کوئی ایسا شخص (زندہ) نہیں ہے، جس نے (ظاہری آنکھ سے) حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی ہو، راوی بیان کرتے ہیں: میں نے پوچھا: آپ نے حضور نبی اکرم ﷺ کو کیسا دیکھا؟ اُنہوں نے فرمایا: آپ ﷺ سفید، خوبصورت اور میانہ قامت تھے۔‘‘

اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔

’’اور ان ہی سے مروی ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا: حضور نبی اکرم ﷺ نورانی و خوبصورت رنگت والے تھے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

7 /7. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ: لَمْ يَکُنْ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِالطَّوِيْلِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ، شَثْنَ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، ضَخْمَ الرَّأسِ، ضَخْمَ الْکَرَادِيْسِ، طَوِيْلَ الْمَسْرُبَة. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.

7: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5 /598، الرقم: 3637، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /96، 127، الرقم: 746، 1053، والحاکم في المستدرک، 2 /662، الرقم: 4194، والبخاري في التاريخ الکبير، 1 /8، وأبويعلی في المسند، 1 /304، الرقم: 370، والبزار في المسند، 2 /18، الرقم: 474، والطيالسي في المسند، 1 /24، الرقم: 171، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /149، الرقم: 1414.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نہ تو بہت دراز قد تھے اور نہ ہی پست قامت، آپ ﷺ کی ہتھیلیاں اور پاؤں کے مبارک تلوے پُرگوشت تھے، سر مبارک موزوں حد تک بڑا، ہڈیوں کے جوڑ بڑے تھے، سینے اور ناف مبارک کے درمیان بالوں کی لمبی سی (باریک) لکیر تھی۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی، احمد، حاکم اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔

8 /8. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ مُحَمَّدٍ مِنْ وَلَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ عَلِيٌّص إِذَا وَصَفَ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: لَمْ يَکُنْ بِالطَّوِيْلِ الْمُمَّغِطِ وَلَا بِالْقَصِيْرِ الْمُتَرَدِّدِ، وَکَانَ رَبْعَةً مِنَ الْقَوْمِ، وَلَمْ يَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ کَانَ جَعْدًا رَجِـلًا، وَلَمْ يَکُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلَا بِالْمُکَلْثَمِ وَکَانَ فِي الْوَجْهِ تَدْوِيْرٌ، أَبْيَضُ مُشْرَبٌ، أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ، أَهْدَبُ الْأَشْفَارِ، جَلِيْلُ الْمُشَاشِ وَالْکَتَدِ، أَجْرَدُ، ذُوْ مَسْرُبَةٍ، شَثْنُ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ إِذَا مَشٰی تَقَلَّعَ کَأَنَّمَا يَمْشِي فِي صَبَبٍ وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا، بَيْنَ کَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، أَجْوَدُ النَّاسِ کَفًّا، وَأَشْرَحُهُمْ صَدْرًا، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيْکَةً، وَأَکْرَمُهُمْ عِشْرَةً، مَنْ رَأهُ بَدِيْهَةً هَابَه، وَمَنْ خَالَطَه مَعْرِفَةً أَحَبَّه، يَقُوْلُ نَاعِتُه: لَمْ أَرَ قَبْلَه وَلَا بَعْدَه مِثْلَه.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

8: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في صفة النبي ﷺ، 5 /599، الرقم: 3638، وأيضًا في الشمائل المحمدية / 32، الرقم: 7، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /328، الرقم: 31805، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /149، الرقم: 1415، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /411، والنميري في أخبار المدينة، 1 /319، الرقم: 968، وابن عبد البر في الاستذکار، 8 /331، وأيضًا في التمهيد، 3 /29، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /261.

’’حضرت ابراہیم بن محمد جو حضرت علی ابن اَبی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے فرماتے: آپ ﷺ نہ تو بہت دراز قد تھے اور نہ ہی بہت پستہ قد، بلکہ میانہ قد تھے۔ آپ ﷺ کے بال مبارک نہ تو بالکل گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے بلکہ قدرے خمیدہ (کنڈل والے) تھے۔ نہ آپ ﷺ بھاری بھرکم تھے اور نہ ہی دبلے پتلے، چہرہ مبارک میںکچھ گولائی تھی۔ رنگ مبارک سرخی مائل سفید تھا۔ چشمانِ مقدس سیاہ، پلکیں دراز، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں، مونڈھوں کے سرے اور درمیان کی جگہ بھی پُر گوشت تھی۔ بدن مبارک بالوں سے صاف تھا، سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی (ایک باریک) لکیر تھی۔ ہتھیلیاں مبارک اور دونوں پاؤں مبارک مضبوط اور پُرگوشت تھے۔ چلتے وقت متوازن اور مضبوط قدم اُٹھاتے گویا کہ ڈھلوان جگہ میں چل رہے ہوں۔ کسی طرف متوجہ ہوتے تو بھرپور توجہ فرماتے۔ دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ ﷺ آخری نبی تھے، سب سے زیادہ کشادہ دل اور سب سے زیادہ سچ بولنے والے تھے، سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے زیادہ محترم شریف گھرانے والے تھے۔ آپ ﷺ کو اچانک دیکھنے والا مرعوب ہو جاتا اور آپ ﷺ کو پہچان کر میل جول رکھنے والا محبت کرنے لگتا۔ آپ ﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے والا ضرور کہے گا: میں نے آپ ﷺ جیسا حسین نہ آپ سے پہلے دیکھا (سنا) اور نہ آپ ﷺ کے بعد دیکھا (سنا)۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

9 /9. عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ: قُلْتُ لِلرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاء: صِفِي لَنَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ؟ فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّ، لَوْ رَأَيْتَه رَأَيْتَ الشَّمْسَ طَالِعَةً. رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

9: أخرجه الدارمي في السنن، المقدمة، باب في حسن النبي ﷺ، 1 /44، الرقم: 60، والطبراني في المعجم الکبير، 24 /274، الرقم: 696، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /151، الرقم: 1420، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 6 /116، الرقم: 3335، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /313.

’’حضرت ابو عبیدہ بن محمد بن عمار بن یاسر ث بیان فرماتے ہیں کہ میںنے حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہما سے عرض کیا: ہمارے سامنے حضور نبی اکرم ﷺ کے اوصاف مبارکہ بیان کریں، تو اُنہوں نے فرمایا: اے میرے بیٹے! اگر تم اُنہیں دیکھتے تو ایسے دیکھتے جیسے طلوع ہوتے سورج کو دیکھ رہے ہو۔‘‘

اِس حدیث کو امام دارمی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

10 /10. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عليهما السلام قَالَ: سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ التَّمِيْمِيَّ رضی الله عنه وَکَانَ وَصَّافًا عَنْ حُلْيَةِ النَّبِيِّ ﷺ وَأَنَا أَشْتَهِي أَنْ يَصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِه، فَقَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ فَخْمًا مُفَخَّمًا يَتَـلَأْلَأُ وَجْهُه تَـلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ وَابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

10: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية /37، الرقم: 8، وابن حبان في الثقات، 2 /145.146، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /155.156، الرقم: 414، وأيضًا في أحاديث الطوال، 1 /245، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /422، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /154.155، الرقم: 1430، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /277، 338، 344، 348، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /273، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 /163.

’’حضرت حسن بن علی علیہما السلام بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے ماموں حضرت ہند بن ابی ہالہ تمیمی رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور وہ (سب سے بہتر) حضور نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کو بیان فرمانے والے تھے اور میری یہ خواہش تھی کہ وہ میرے لئے (حضور نبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک سے) کوئی ایسی شے بیان کریں کہ جسے میں دل میں بٹھا لوں تو اُنہوں نے کہا: حضور نبی اکرم ﷺ بلند رتبہ اور عالی شان تھے۔ آپ ﷺ کا چہرئہ انور چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا۔‘‘

اِسے امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں اور امام ابن حبان، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

11 /11. عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: سُئِلَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنْ صِفَةِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: أَحْسَنُ الصِّفَةِ وَأَجْمَلُهَا، کَانَ رَبْعَةً إِلَی الطُّوْلِ، مَا هُوَ بَعِيْدٌ مَا بَيْنَ الْمَنْکِبَيْنِ، أَسِيْلَ الْجَبِيْنِ، شَدِيْدَ سَوَادِ الشَّعَرِ، أَکْحَلَ الْعَيْنِ، أَهْدَبَ، إِذَا وَطِیَ بِقُدُوْمِه وَطِیَ بِکُلِّهَا، لَيْسَ لَهَا أَخْمَصُ، إِذَا وَضَعَ رِدَائَه عَنْ مَنْکِبَيْهِ فَکَأَنَّه سَبِيْکَةُ فِضَّةٍ، وَإِذَا ضَحِکَ کَادَ يَتَـلَأْ لَأُ فِي الْجُدَرِ، لَمْ أَرَ قَبْلَه وَلَا بَعْدَه مِثْلَه ﷺ . رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ.

11: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 11 /259، الرقم: 20490، والازدي في الجامع، 11 /259، الرقم: 20490، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /275، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 /127، وأيضًا في الشمائل الشريفة /27.

’’امام زہری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضورنبی اکرم ﷺ کے حلیہ مبارک کے متعلق پوچھا گیا تو اُنہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نہایت ہی حسین و جمیل حلیہ والے تھے، آپ ﷺ مائل بہ طول درمیانہ قد تھے، سینہ مبارک کشادہ، کشادہ جبیں، نہایت سیاہ بال، سرمئی چشمانِ مقدس اور دراز پلکوں والے تھے، جب آپ ﷺ اپنا پاؤں مبارک زمین پر رکھتے تو پورا رکھتے، پاؤں مبارک چپٹے تھے۔ جب آپ ﷺ اپنی چادر مبارک اپنے مبارک کندھوں سے اُتارتے تو یوں محسوس ہوتا گویا چاندی میں ڈھلا ہوا پیکر ہیں اور جب آپ ﷺ مسکراتے تو قریب ہوتا کہ آپ کا نور دیواروں میں جھلکنے لگے۔ میں نے آپ ﷺ سے پہلے اور آپ ﷺ کے بعد بھی کسی کو آپ ﷺ کی مثل نہیں دیکھا۔‘‘ اِس حدیث کو امام عبد الرزاق نے بیان کیا ہے۔

12 /12. عَنْ يُوْسُفَ بْنِ مَازِنٍ أَنَّ رَجُـلًا سَأَلَ عَلِيًّا رضی الله عنه فَقَالَ: يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ، انْعَتْ لَنَا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، صِفْهُ لَنَا؟ فَقَالَ: کَانَ لَيْسَ بَالذَّاهِبِ طُوْلًا وَفَوْقَ الرَّبْعَةِ إِذَا جَاءَ مَعَ الْقَوْمِ غَمَرَهُمْ، أَبْيَضَ شَدِيْدَ الْوَضَحِ، ضَخْمَ الْهَامَةِ، أَغَرَّ أَبْلَجَ، هَدِبَ الْأَشْفَارِ، شَثْنَ الْکَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ، إِذَا مَشٰی يَتَقَلَّعُ کَأَنَّمَا يَنْحَدِرُ فِي صَبَبٍ، کَأَنَّ الْعَرَقَ فِي وَجْهِهِ اللُّؤْلُؤُ، لَمْ أَرَ قَبْلَه وَلَا بَعْدَه مِثْلَه ﷺ بِأَبِي وَأُمِّي.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ سَعْدٍ.

12: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 /151، الرقم: 1299، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 /411.412، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /261، والنميري في أخبار المدينة، 1 /319، الرقم: 967، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /272.

’’حضرت یوسف بن مازن سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اے امیر المؤمنین! ہمارے لیے حضورنبی اکرم ﷺ کا وصف مبارک بیان فرمائیے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ ﷺ بہت زیادہ دراز قد تھے نہ ہی کوتاہ قد (بلکہ میانہ قد تھے)۔ جب آپ ﷺ کچھ لوگوں کے ساتھ ہوتے تو اُن سب میں نمایاں ہوتے، نہایت سفید اور شفاف رنگت والے تھے، موزوں سر مبارک والے، گورے مکھڑے والے، دراز پلکوں والے، ہتھیلیاں مبارک اور دونوں پاؤں مبارک مضبوط اور پُر گوشت تھے۔ جب آپ ﷺ چلتے تو اہتمامِ توازن سے پاؤں اُٹھاتے گویا کہ آپ ﷺ بلندی سے پست زمین کی طرف اُتر رہے ہوں۔ پسینہ مبارک کے قطرے آپ ﷺ کے چہرہ انور پر موتیوں کی طرح چمکتے تھے، میں نے آپ ﷺ سے پہلے اور آپ ﷺ کے بعد، آپ ﷺ جیسا حسین کوئی نہیں دیکھا، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں۔‘‘

اِس حدیث کو امام احمد اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

13 /13. عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَجُـلًا ظَاهِرَ الْوَضَائَةِ، أَبْلَجَ الْوَجْهِ، حَسَنَ الْخَلَقِ، لَمْ تُعِبْهُ ثَجَلَةٌ، وَلَمْ تَزْرِ بِه صَعَلَةٌ، وَسِيْمٌ قَسِيْمٌ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِه وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِه صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِه سَطَعٌ، وَفِي لِحْيَتِه کَثَاثَةٌ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الْوَقَارُ، وَإِنْ تَکَلَّمَ سَمَاهَ وَعَـلَاهَ الْبَهَاءُ، أَجْمَلُ النَّاسِ وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيْدٍ، وَأَحْسَنُه وَأَجْمَلُه مِنْ قَرِيْبٍ، حُلْوُ الْمَنْطِقِ، فَصْلًا لَا نَزِرٌ وَلَا هَذِرٌ، کَأَنَّ مَنْطِقَه خَرَزَاتُ نَظْمِ يَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَأُه مِنْ طُوْلٍ وَلَا تَقْتَحِمُه عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّـلَاثَةِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا، لَه رُفَقَاءُ يَحُفُّوْنَ بِه، إِنْ قَالَ سَمِعُوْا لِقَوْلِه، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوْا إِلٰی أَمْرِه، مَحْفُوْدٌ مَحْشُوْدٌ لَا عَابِسٌ وَلَا مُفَنَّذٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ.

13: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /10، 11، الرقم: 4274، والطبراني في المعجم الکبير، 4 /49، 50، الرقم: 3605، وابن حبان في الثقات، 1 /125127، وابن أبي عاصم في الاحاد والمثاني، 6 /252254، الرقم: 3485، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 /19581960، الرقم: 4215، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 /139، 140، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /279، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 /310.

’’حضرت اُم معبد بیان فرماتی ہیں: میں نے ایک ایسا شخص دیکھا جس کا حسن نمایاں اور چہرہ نہایت ہشاش بشاش (اور خوبصورت) تھا اور خوبصورت خلقت والے تھے۔ نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اُنہیں معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سر کا پتلا ہونا اُن میں نقص پیدا کر رہا تھا (یعنی آپ ﷺ مناسب جسامت والے تھے)۔ بہت خوبرو اور حسین تھے۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی تھیں اور پلکیں لمبی تھیں۔ اُن کی آواز گونج دار تھی۔ گردن چمکدار اور ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پروقار ہوتے اور جب گفتگو فرماتے تو چہرہ اقدس پُر نور اور بارونق ہوتا۔ دُور سے دیکھنے پر سب سے بارعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے دیکھیں تو سب سے خوبرو دکھائی دیتے۔ آپ ﷺ شیریں گفتار تھے۔ آپ ﷺ کی گفتگو واضح ہوتی، بے فائدہ اور بیہودہ نہ ہوتی، گفتگو گویا موتیوں کی لڑی جس سے موتی جھڑ رہے ہوں۔ قد درمیانہ تھا، نہ اِتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے اور نہ اتنا پست کہ آنکھیں معیوب جانیں۔ آپ ﷺ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ تھے جو خوب سرسبز و شاداب اور قد آور ہو۔ ان کے ساتھی ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے، جب آپ ﷺ کچھ فرماتے تو وہ ہمہ تن گوش ہو کر غور سے سنتے اور اگر آپ ﷺ حکم دیتے تو وہ فوراً اسے بجا لاتے۔ سب آپ ﷺ کے خادم تھے اور آپ ﷺ نہ ترش رو تھے اور نہ ہی آپ ﷺ کے فرمان کی مخالفت کی جاتی۔‘‘

اِس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

14 /14. عَنْ مُوْسَی بْنِ عُقْبَةَ رضی الله عنه قَالَ: أَنْشَدَ النَّبِيَّ ﷺ کَعْبُ بْنُ زُهَيْرٍ ’’بَانَتْ سُعَادُ‘‘ فِي مَسْجِدِه بِالْمَدِيْنَةِ فَلَمَّا بَلَغَ قَوْلَه:

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاء بِه

وَصَارِمٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ

أَشَارَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِکُمِّه إِلَی الْخَلْقِ لَيَسْمَعُوْا مِنْهُ.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

وفي رواية: عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ رضی الله عنه قَالَ: لَمَّا انْتَهٰی خَبَرُ قَتْلِ ابْنِ خَطَلٍ إِلٰی کَعْبِ بْنِ زُهَيْرِ بْنِ أَبِي سُلْمٰی وَکَانَ بَلَغَه أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أَوْعَدَه بِمَا أَوْعَدَهُ ابْنَ خَطَلٍ، فَقِيْلَ لِکَعْبٍ: إِنْ لَمْ تُدْرِکْ نَفْسَکَ قُتِلْتَ، فَقَدِمَ الْمَدِيْنَةَ فَسَأَلَ عَنْ أَرَقِّ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَدُلَّ عَلٰی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه وَأَخْبَرَه خَبَرَه فَمَشٰی أَبُوْ بَکْرٍ وَکَعْبٌ عَلٰی أَثْرِه حَتّٰی صَارَ بَيْنَ يَدَي رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، فَقَالَ يَعْنِي أَبَا بَکْرٍ: اَلرَّجُلُ يُبَايِعُکَ فَمَدَّ النَّبِيُّ ﷺ يَدَه، فَمَدَّ کَعْبٌ يَدَه فَبَايَعَه وَسَفَرَ عَنْ وَجْهِه، فَأَنْشَدَه:

نُبِّئْتُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ أَوْعَدَنِي

وَالْعَفْوُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ مَأْمُوْلُ

إِنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ يُسْتَضَاءُ بِه

مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوْفِ اللهِ مَسْلُوْلُ

فَکَسَاهُ النَّبِيُّ ﷺ بُرْدَةً لَه فَاشْتَرَاهَا مُعَاوِيَةُ رضی الله عنه مِنْ وَلَدِه بِمَالٍ فَهِيَ الَّتِي تَلْبَسُهَا الْخُلَفَاءُ فِي الْأَعْيَادِ.

رَوَاهُ ابْنُ قَانِعٍ وَالْعَسْقَـلَانِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ فِي الْبِدَايَة.

وَقَالَ ابْنُ کَثِيْرٍ: قُلْتُ: وَرَدَ فِي بَعْضِ الرِّوَايَاتِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَعْطٰی بُرْدَتَه حِيْنَ أَنْشَدَهُ الْقَصِيْدَةَ…وَهٰکَذَا ذَکَرَ ذَالِکَ الْحَافِظُ أَبُو الْحَسَنِ ابْنُ اْلأَثِيْرِ فِي الْغَابَةِ قَالَ: هِيَ الْبُرْدَةُ الَّتِي عِنْدَ الْخُلَفَاءِ، قُلْتُ: وَهٰذَا مِنَ الْأُمُوْرِ الْمَشْهُوْرَةِ جِدًّا.

14: أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 /673، الرقم: 6479، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /243، الرقم: 77، والطبراني في المعجم الکبير، 19 /177.178، الرقم: 403، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 /381، والعسقلاني في الإصابة، 5 /594، وابن هشام في السيرة النبوية، 5 /191، والکلاعي في الاکتفائ، 2 /268، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 4 /373.

’’حضرت موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشہور قصیدے ’’بانت سعاد‘‘ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی مسجد نبوی میں مدح کی اور جب وہ اپنے اس شعر پر پہنچے:

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیزدھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

تو حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے دستِ اقدس سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا کہ وہ انہیں (یعنی کعب بن زہیر کو غور سے) سنیں۔‘‘

اِسے امام حاکم، بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

’’اور حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جب حضرت کعب بن زہیر کے پاس (قبول اسلام سے قبل،گستاخِ رسول) ابن خطل کے قتل کی خبر پہنچی اور اسے یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے اُس کے حق میں بھی وہی وعید سنائی ہے جو آپ ﷺ نے ابن خطل کے بارے میں سنائی تھی۔ پس کعب سے کہا گیا: اگر تو بھی حضور نبی اکرم ﷺ کی ہجو سے باز نہیں آئے گا تو قتل کر دیا جائے گا۔ کعب مدینہ آئے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے سب سے زیادہ نرم دل صحابی کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اُسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتایا گیا، اُنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ساری بات بتا دی۔ پس حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت کعب بن زہیر چپکے سے چلے یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کے سامنے پہنچ گئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ آدمی آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہے۔ آپ ﷺ نے اپنا دستِ اقدس آگے بڑھایا تو حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر آپ ﷺ کی بیعت کر لی پھر اپنے چہرے سے نقاب ہٹا لیا اور آپ کو اپنا قصیدہ سنایا:

’’مجھے خبر دی گئی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے وعید سنائی ہے حالانکہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں عفو و درگزر کی (زیادہ) اُمید کی جاتی ہے۔‘‘

’’بیشک (یہ) رسولِ مکرم ﷺ وہ نور ہیں جس سے روشنی حاصل کی جاتی ہے اور آپ ﷺ (کفر و ظلمت کے علمبرداروں کے خلاف) اللہ تعالیٰ کی تیز دھار تلواروں میں سے ایک عظیم تیغِ آبدار ہیں۔‘‘

پس حضور نبی اکرم ﷺ نے (خوش ہو کر) اُنہیں اپنی چادر پہنائی جسے (بعد میں) حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اُن کی اولاد سے مال دے کر خرید لیا اور یہی وہ چادر ہے جسے خلفاء عیدوں پر پہنا کرتے تھے۔‘‘

اِس حدیث کو ابن قانع، ابن حجر عسقلانی اور حافظ ابن کثیر نے البدایۃ میں روایت کیا ہے۔

حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں: ’’میں کہتا ہوں کہ بعض روایات میں آیا ہے: جب اُنہوں نے اپنے قصیدے کے ذریعے آپ ﷺ کی مدح فرمائی تو حضور ﷺ نے اُنہیں چادر عطا فرمائی اور اسی طرح حافظ ابو الحسن ابن الاثیر نے ’’اسد الغابہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ یہ وہی چادر ہے جو خلفا کے پاس رہی۔ (حافظ ابن کثیر کہتے ہیں) یہ واقعہ مشہور واقعات میں سے ہے۔‘‘

15 /15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: لَمَّا خَلَقَ اللهُ آدَمَ خَبَّرَ ِلآدَمَ بَنِيْهِ، فَجَعَلَ يَرٰی فَضَائِلَ بَعْضِهِمْ عَلٰی بَعْضٍ، قَالَ: فَرَآنِي نُوْرًا سَاطِعًا فِي أَسْفَلِهِمْ، فَقَالَ: يَا رَبِّ، مَنْ هٰذَا؟ قَالَ: هٰذَا ابْنُکَ أَحْمَدُ هُوَ الْأَوَّلُ وَالآخِرُ وَهُوَ أَوَّلُ شَافِعٍ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَاللَّفْظُ لَه وَابْنُ عَسَاکِرَ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ. وَإِسْنَادُه حَسَنٌ.

15: أخرجه ابن أبي عاصم في الأوائل، 1 /61، الرقم: 5، والبيهقي في دلائل النبوة، 5 /483، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 42 /67، والديلمي في مسند الفردوس، 3 /283، الرقم: 4851، والعسقلاني في لسان الميزان، 2 /229، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 /39.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اُنہیں اُن کے بیٹوں کی خبر دی۔ پس حضرت آدم علیہ السلام اُن میں سے بعض کی بعض پر فضیلت دیکھنے لگے پھر اُنہوں نے مجھے سب سے نیچے ایک چمکتے ہوئے نور کی شکل میں دیکھا (یعنی باعتبار بعثت سب سے آخر میں دیکھا) اور عرض کیا: اے میرے اللہ! یہ کون ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تیرا بیٹا احمد ہے جو کہ اوّل بھی ہے اور آخر بھی اور (روزِ قیامت) سب سے پہلے شفاعت کرنے والا بھی یہی ہے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابن ابی عاصم، بیہقی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی نے فرمایا اور اس کی اسناد حسن ہے۔

16 /16. عَنْ خُرَيْمِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لَامٍ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ لَهُ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي اللہ عنهما: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي أُرِيْدُ أَنْ أَمْدَحَکَ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ : هَاتِ لَا يَفْضُضِ اللهُ فَاکَ. فَأَنْشَأَ الْعَبَّاسُ رضی الله عنه يَقُوْلُ:

وَأَنْتَ لَمَّا وُلِدْتَ أَشْرَقَتِ

الْأَرْضُ وَضَائَتْ بِنُوْرِکَ الْأُفُقُ

فَنَحْنُ فِي الضِّيَاء وَفِي

النُّوْرِ وَسُبُلُ الرَّشَادِ نَخْتَرِقُ

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.

16: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 4 /213، الرقم: 4167، والحاکم في المستدرک، 3 /369، الرقم: 5417، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 1 /364، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 /102، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 1 /53، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 /447، الرقم: 664، والعسقلاني في الإصابة، 2 /274، الرقم: 2247، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /217، وابن کثير في البداية والنهاية (السيرة)، 2 /258، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 /66، والحلبي في السيرة النبوية، 1 /92، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 13 /146.

’’حضرت خریم بن اوس بن حارثہ بن لام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم ﷺ کے خدمتِ اقدس میں موجود تھے، حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں مدح و نعت پیش کرنا چاہتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا: لائیے مجھے سنائیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کو سلامت رکھے۔ تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ پڑھا:

’’اور (یا رسول اللہ!) آپ وہ ذات ہیں کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو ساری زمین چمک اٹھی اور آپ کے نور سے اُفقِ عالم روشن ہو گیا۔ پس ہم ہیں اور ہدایت کے راستے ہیں اور (یا رسول اللہ!) ہم آپ کی عطا کردہ روشنی اور آپ ہی کے نور میں (ہدایت کی) اِن راہوں پر گامزن ہیں۔‘‘

اِس حدیث کو امام طبرانی، حاکم اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

17 /17. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ أَبْيَضَ کَأَنَّمَا صِيْغَ مِنْ فِضَّةٍ، رَجِلَ الشَّعْرِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ.

17: أخرجه الترمذي في الشمائل المحمدية /40، الرقم: 12، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 /241، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 /271، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 /297.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ (اتنی) سفید رنگت والے تھے گویا چاندی سے ڈھالے گئے ہیں۔ آپ ﷺ کے بال مبارک قدرے گھنگریالے تھے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیۃ میں روایت کیا ہے۔

18 /18. قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه: لَمَّا نَظَرْتُ إِلٰی أَنْوَارِه ﷺ وَضَعْتُ کَفِّي عَلٰی عَيْنِي خَوْفًا مِنْ ذَهَابِ بَصَرِي. رَوَاهُ النَّبْهَانِيُّ.

18: أخرجه النبهاني في جواهر البحار، 2 /450

’’حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب حضور ﷺ کے اَنوار کو دیکھا تو اپنی ہتھیلی اپنی آنکھوں پر رکھ لی، اِس خوف سے کہ (رُوئے منوّر کی تابانیوں سے) کہیں میری بینائی نہ چلی جائے۔‘‘ اِسے امام نبہانی نے روایت کیا ہے۔

وَأَيْضًا قَالَ:

وَأَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَيْنٌ

وَأَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِّنْ کُلِّ عَيْبٍ

کَأَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاء

(2) حسان بن ثابت، ديوان /21

’’حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ اقدس میں یہ اشعار عرض کیے:

’’(یا رسول اللہ!) آپ سے حسین تر کسی آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں اور نہ کبھی کسی ماں نے آپ سے بڑھ کر کوئی حسین جنم ہی دیا ہے۔ آپ ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں، گویا کہ آپ کو آپ کی خواہش کے مطابق پیدا کیا گیا۔‘‘

19 /19. قَالَ الإِمَامُ الْقُرْطُبِيُّ: لَمْ يَظْهَرْ لَنَا تَمَامُ حُسْنِه ﷺ، لِأَنَّه لَوْ ظَهَرَ لَنَا تَمَامُ حُسْنِه لَمَا أَطَاقَتْ أَعْيُنُنَا رُؤْيَتَه ﷺ .

19: ذکره الزرقاني في شرح المواهب اللدنية، 5 /241

’’امام قرطبی نے فرمایا: حضور ﷺ کا حسن و جمال مکمل طور پر ہم پر ظاہر نہیں ہوا اور اگر آپ ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم پر ظاہر ہو جاتا تو ہماری آنکھیں حضور ﷺ کے جلوؤں کا نظارہ کرنے کی طاقت نہ رکھتیں (صرف انسانی بصارت کی طاقت کے مطابق آپ کا حسن ظاہر ہوا مکمل ظاہر نہ ہوا)۔‘‘

20 /20. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ الْهَيْتَمِيُّ: وَمَا أَحْسَنَ قَوْلَ بَعْضِهِمْ: لَمْ يَظْهَرْ لَنَا تَمَامُ حُسْنِه ﷺ .

20: ذکره النبهاني في جواهر البحار، 2 /101

’’امام ابن حجر ہیتمی بیان کرتے ہیں: بعض ائمہ کا یہ کہنا کہ حضور ﷺ کا تمام حسن و جمال ہم (یعنی مخلوق) پر ظاہر نہیں ہوا نہایت ہی احسن قول ہے۔‘‘

21 /21. قَالَ أَبُوْ مُحَمَّدٍ عَبْدُ الْجَلِيْلِ الْقِصْرِيِّ: وَحُسْنُ يُوْسُفَ وَغَيْرُه جُزْءٌ مِنْ حُسْنِه ﷺ، لِأَنَّه عَلٰی صُوْرَةِ اسْمِه خُلِقَ، وَلَوْلَا أَنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی سَتَرَ جَمَالَ صُوْرَةِ مُحَمَّدٍ ﷺ بِالْهَيْبَةِ وَالْوَقَارِ، وَأَعْمٰی عَنْهُ آخِرِيْنَ لَمَا اسْتَطَاعَ أَحَدٌ النَّظَرَ إِلَيْهِ بِهٰذِهِ الْأَبْصَارِ الدُّنْيَاوِيَةِ الضَّعِيْفَةِ.

21: ذکره محمد مهدي الفاسي في مطالع المسّرات /394

’’الشیخ ابو محمد عبد الجلیل القصری فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف اور دیگر حسینانِ عالم کا حسن و جمال حضور ﷺ کے حسن و جمال کا ایک جز ہے کیونکہ آپ ﷺ اپنے اسم مبارک کے مصداق پیدا کئے گئے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حسن کو ہیبت اور وقار کے پردوں سے نہ ڈھانپا ہوتا اور کفار و مشرکین کو آپ ﷺ کے دیدار سے اندھا نہ کیا گیا ہوتا تو کوئی شخص آپ ﷺ کی طرف اِن دنیاوی اور کمزور آنکھوں سے نہ دیکھ سکتا۔‘‘

22 /22. قَالَ أَشْرَفُ عَلِيٌّ التَّهَانَوِيُّ: أَقُوْلُ: وَأَمَّا عَدَمُ تَعَشُّقِ الْعَوَامِ عَلَيْهِ کَمَا کَانَ عَلٰی يُوْسُفَ فَلِغِيْرَةِ اللهِ تَعَالٰی حَتّٰی لَمْ يُظْهِرْ جَمَالُه کَمَا هُوَ عَلٰی غَيْرِه، کَمَا أَنَّه لَمْ يُظْهِرْ جَمَالَ يُوْسُفَ کَمَا هُوَ إِلَّا عَلٰی يَعْقُوْبَ أَوْ زُلَيْخَا.

22: ذکره أشرف علی التهانوي في نشر الطيب / 217

’’مولانا اشرف علی تھانوی کہتے ہیں: میں کہتا ہوں کہ عام لوگوں کا آپ ﷺ پر اُس طور پر عاشق نہ ہونا جیسا حضرت یوسف پر عاشق ہوا کرتے تھے بسبب غیرتِ الٰہی کے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے جمال کو جیسا کہ تھا (وہ پورا) غیروں پر ظاہر نہ کیا، جیسا خود حضرت یوسف کا جمال بھی جس درجہ کا تھا وہ بجز حضرت یعقوب یا زلیخا کے اوروں پر ظاہر نہیں کیا۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved