اَربعین کا لفظی معنی ’’چالیس‘‘ ہے۔ اِصطلاحِ محدثین میں اِس سے مراد چالیس اَحادیث کا مجموعہ ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں چالیس احادیث اُمت تک پہنچانے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسا شخص قیامت کے دن فقہاء و شہداء کے زمرے میں اٹھایا جائے گا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی شفاعت فرمائیں گے اور اس کے حق میں گواہی دیں گے؛ نیز دنیا میں اسے یہ اعزاز نصیب ہوگا کہ اس کا نام طبقہ علماء میں شامل کر لیا جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ حَفِظَ عَلَی أُمَّتِي أَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا فِیْمَا یَنْفَعُهُمْ مِنْ أَمْرِ دِیْنِهِمْ، بَعَثَهُ ﷲُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ مِنَ الْعُلَمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ سَبْعِیْنَ دَرَجَةً، اَللهُ أَعْلَمُ بِمَا بَیْنَ کُلِّ دَرَجَتِیْنِ.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 2/ 270، الرقم: 1725
’’جس شخص نے میری اُمت (کے اَفراد) کے لئے چالیس ایسی احادیث کو محفوظ کیا جو انہیں ان کے دین کے معاملہ میں نفع پہنچائیں، تو اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت علماء کے درجہ میں اٹھائے گا، اور عالم کی عابد پر ستر درجے فضیلت ہے، اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کے ہر دو درجوں میں کتنا فاصلہ ہے۔‘‘
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے علم کی اُس حد کے بارے پوچھا گیا کہ جس کے حصول کے بعد کوئی شخص فقیہ بن جاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ حَفِظَ عَلَی أُمَّتِي أَرْبَعِیْنَ حَدِیْثًا مِنْ أَمْرِ دِیْنِهَا، بَعَثَهُ ﷲُ فَقِیْهًا، وَکُنْتُ لَهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ شَافِعًا وَشَهِیْدًا.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 2/ 270، الرقم: 1726
’’جس شخص نے میری امت کے لئے چالیس ایسی احادیث کو محفوظ کیا جن کا تعلق ان کے دین کے معاملہ سے ہو تو اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت فقیہ کے درجہ میں اٹھائے گا، اور روزِ قیامت میں اس کی شفاعت کرنے والا اور اس کے حق میں گواہی دینے والا ہوں گا۔‘‘
اَحادیثِ مبارکہ کے مبلغ کے لیے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خصوصی دعا بھی فرمائی ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب و مبارک اور حسین ہونٹوں سے نکلے ہوئے الفاظ و کلماتِ دُعا کے رد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شانِ کریمی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر بات قبول فرماتی ہے، اس لیے یہ دعا بھی کسی شک و شبہ کے بغیر قبول ہے اور مبلغِ حدیث کو واقعتاً یہ عزت نصیب ہوتی ہے اور وہ اپنی زندگی میں اس کے اثرات و ثمرات اور اس کی برکات واضح طور پر محسوس کرتا ہے۔
مذکورہ حدیث پاک اس طرح ہے:
نَضَّرَ ﷲُ امْرَاّ سَمِعَ مَقَالَتِي، فَوَعَاهَا وَحَفِظَهَا وَبَلَّغَهَا.
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في الحث علی تبلیغ السماع، 5/ 134، الرقم: 2658
’’اللہ تعالیٰ اُس مردِ مومن کو رونق و تازگی اور حسن و خوبی عطا فرمائے جس نے میری حدیث سنی، پھر اسے یاد رکھا اور بعینہٖ اُسے آگے پہنچایا۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مبلغِ حدیث کے لیے یہ حسین دعا ہی نہیں فرمائی بلکہ اس کی تبلیغ اور حدیث آگے پہنچانے کا حکم بھی دیا ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
فَلْیُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ.
أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الحج، باب الخطبة أیام منی، 2/ 619، 620، الرقم: 1652، 1654، ومسلم في الصحیح، کتاب القسامة والمحاربین والقصاص والدیات، باب تغلیظ تحریم الدماء والأعراض والأحوال، 3/ 1306، الرقم: 1679
’’پس حاضر شخص (جو حدیث سنے) غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دے۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس واضح حکم او ر تبلیغِ حدیث کی فضیلت اور اس سے حاصل ہونے والے دنیوی و اخروی فیوض و برکات نیز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک دعا کا مصداق بننے کے لیے امت کے اہلِ علم نے ہر دور میں اس طرف خصوصی توجہ دی ہے، اور اپنے اپنے ذوق کے مطابق چالیس احادیث کے مختلف مجموعے منتخب کرکے شائع کیے ہیں۔ چنانچہ کسی صاحبِ ذوق نے ایسی احادیث کو لیا ہے جن میں دین کے اصول بیان کیے گئے ہیں اور کسی دل والے نے راہِ خدا میں قربان ہونے کے پاکیزہ جذبے سے سرشار موضوعِ جہاد کو ترجیح دی ہے۔ کسی نے اپنے طبع و مزاج کے مطابق احادیثِ زہد کا انتخاب کیا ہے اور کسی نے آداب و خطبات کو اہم اور افرادِ امت کے لیے زیادہ ضروری گردانا ہے۔ غرض ذوقِ نظر، وجدان، طبع و مزاج اور حسنِ انتخاب کی ایک متنوع دنیا آباد ہے جس سے اربعینات کے مؤلفین کے رجحانِ طبع کا بھی پتہ چلتا ہے اور ان کے دور کی ضرورت کا بھی۔
اللہ تعالیٰ نے شیخ الااسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مد ظلہ العالی کو دو خصوصی نور عطا فرمائے ہیں۔ ایک نور اس عشق سے پیدا ہواہے جو انہیں اللہ تعالیٰ کے حبیب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ پاک کے ساتھ ہے۔ اس عشق کی تجلیات ان کے اقوال و اعمال، خطبات و ارشادات، جسم و روح اور چہرے مہرے کا ہالہ بنی رہتی ہیں اور محبت والے قدم قدم پر اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ دوسرا نور جذبۂ محبت و خیر خواہی سے عبارت ہے جو وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے لیے اپنے دل میں موجود پاتے ہیں۔ قدرت نے اس محبت سے آپ کو حصہ وافر عطا فرمایا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یہ بے پناہ تڑپ رکھتے ہیں کہ شام ہونے سے پہلے پہلے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت دنیوی اور اُخروی معراج تک جاپہنچے اور صبح ہونے سے پہلے پہلے وہ تمام بھلائیاں، رحمتیں، سعادتیں اور برکتیں حاصل کرلے جو دنیا اور آخرت کو گھیرے ہوئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کہ جب دیگر اہلِ علم کی اقتداء میں حصولِ فیض و برکت کے لیے آپ نے چالیس احادیث کا ایک حسین مجموعہ منتخب کرنے کا ارادہ فرمایا تو کسی اور چیز کو موضوع بنانے کی بجائے اپنے طبع و مزاج کے مطابق اسی عشق اور تعلقِ خاطر کو موضوع بنایا جو آپ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے ساتھ تھا۔ چنانچہ ایسی احادیث کا انتخاب فرمایا جن میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری و باطنی شخصی کمالات و امتیازات اورجمیع خلائق پر فضیلت و برتری کا بیان تھا۔
جمال و کمال ظاہری ہویا باطنی، صاحبِ کمال کی توقیر و عظمت دل میں پیدا کر دیتا ہے اور اس کے ساتھ نسبت و تعلق سے انسان غیر شعوری طور پر اپنے اندر یک گونہ افتخار اور احساس برتری محسوس کرنے لگ جاتا ہے اور خود کو تنہا اور بے یار و مددگار محسوس نہیں کرتا اور خوش ہوتاہے کہ ایسی عظیم ہستی کے ساتھ اس کی نسبتِ غلامی اور تعلقِ روحانی قائم ہے جو خدا کو ہر شے سے زیادہ محبوب ہے۔
یہ مجموعہ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ نے آج سے تقریبا 39 سال قبل (1972ء میں) جھنگ میں اپنی رہائش گاہ کے قریب واقع مسجد پرانی عیدگاہ میں دورانِ اعتکاف مرتب کیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپ پنجاب یونی ورسٹی میں ایم۔ اے علومِ اسلامیہ کے طالب علم تھے اور ہر سال مذکورہ مسجد میں اِعتکاف بیٹھتے تھے۔
اس ایمان افروز مجموعۂ احادیث کے متعلق یہ بات خاصی دل چسپ اور اہم ہے کہ جب آپ نے اکیسویں فصل مکمل کی تو خواب میں آقاے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اذان اور نمازِ جمعہ کی اِمامت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ یہ اس مجموعہ کی قبولیت کی طرف واضح اشارہ تھا۔ اوائلِ جوانی میں علمی شغف اور طبعی ذوق کا یہ رجحان دیکھ کر رشک آتا ہے اور یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ واقعی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن ہی میںعشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی لازوال دولت سے سے نواز دیا تھا اور اسی وقت سے ہی آپ کی طبیعت میں یہ احساس موجود ہے کہ پوری اُمتِ مسلمہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت جیسی سعادت نعمت سے آشنا کروانا وقت کی اہم ایمانی ضرورت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ محبت کا یہی انداز آج بھی ان کی کل کائنات ہے۔۔
حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری مدظلہ کا مقصودِ نظریہی نسبتِ غلامی پیدا کرنا ہے تاکہ اُمت کا ٹوٹا ہوا رشتہ پوری قوت کے ساتھ جڑ جائے اور اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالاتِ معنوی اور جمالِ ظاہری سے آشنا ہو کر امت کا ہر فرد اسی احساس سے سرشار ہو جائے کہ وہ ایک بے مثل عظیم اورباکمال نبی کا امتی ہے نہ کہ کوئی گری پڑی چیز کہ کوئی اس کا پر سان حال نہ ہو۔
حضرت شیخ الاسلام مدظلہ نے اِس مجموعے میں چالیس احادیث کی بجائے چالیس فصول پر مشتمل 105 احادیث جمع کر کے ایک اور منفرد کام کیا ہے۔ یوں چالیس احادیث کے فضیلت والے فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح کو بھی برقرار رکھا گیاہے اور امت کے فائدہ کے لئے موضوع سے متعلق اَحادیث کا زیادہ مواد بھی فراہم کیا گیا ہے۔ یہ اَحادیث پڑھیں اور اپنا ایمان تازہ کریں۔ آپ فیصلہ دیں گے کہ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے یہ احادیث منتخب کرکے جہاں عشق و محبت اور حسنِ انتخاب کا ثبوت دیا ہے وہاں امت پرکتنا اِحسانِ عظیم فرمایا ہے۔
((محمدمعراج الاسلام)
شیخ الحدیث، منہا ج یونی ورسٹی لاہور
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved