57 /1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّه قَالَ فِي قَوْلِ اﷲ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} [الإسراء، 17: 79]، قَالَ: يُجْلِسُه فِيْمَا بَيْنَه وَبَيْنَ جِبْرِيْلَ، وَيَشْفَعُ لِأُمَّتِه. فَذَالِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
1: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 48، الرقم: 12474، والسيوطي في الدر المنثور، 5 /328.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے اور حضرت جبریل کے درمیان بٹھائے گا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی اُمت کی شفاعت فرمائیں گے۔ یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقامِ محمود ہے۔‘‘
اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
58 /2. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: يُجْلِسُنِي مَعَه عَلَی السَّرِيْرِ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ.
2: أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 3 /58، الرقم: 4159، والسيوطي في الدر المنثور، 5 /328، والشوکاني في فتح القدير، 3 /255.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اﷲ ربّ العزت مجھے اپنے ساتھ پلنگ (خصوصی نشست) پر بٹھائے گا۔‘‘ اِس حدیث کو امام دیلمی نے روایت کیا ہے۔
59 /3. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَـلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جِيئَ بِنَبِيِّکُمْ صلی الله عليه واله وسلم فَأُقْعِدَ بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ عَلٰی کُرْسِيِّه.
رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْخَلَّالُ وَابْنُ جَرِيْرٍ وَالْأجُرِّيُّ.
3: أخرجه ابن أبي عاصم في السنة، 2 /358، الرقم: 786، والخلال في السنة، 1 /211.212، الرقم: 237.238، والطبري في جامع البيان، 15 /148، والآجري في کتاب الشريعة، 6 /1609، الرقم: 1097، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 /93، الرقم: 223، والعسقلاني في فتح الباري، 11 /427، والعيني في عمدة القاري، 23 /123، وأحمد بن إبراهيم في توضيح المقاصد وتصحيح القواعد، 1 /233.
’’حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا: قیامت کے دن تمہارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو (عظیم شان و شوکت کے ساتھ) لایا جائے گا تو انہیں اﷲ کے سامنے اس کی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔‘‘
اِس روایت کو امام ابنِ ابی عاصم، خلال، طبری اور آجری نے بیان کیا ہے۔
60 /4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنه فِي قَوْلِه: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ.
4: أخرجه الخلال في السنة، 1 / 252، الرقم: 295، وابن الجوزي في زاد المسير، 5 /76، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 /131، الرقم: 359.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما نے اﷲ تعالیٰ کے اِس فرمان: ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا ‘‘ کے بارے میں فرمایا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام خلال اور ابنِ جوزی نے روایت کیا ہے۔
61 /5. عَنْ مُجَاهِدٍ رحمه اﷲ فِي قَوْلِه: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo}، قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ.
62 /6. وفي رواية: قَالَ: يُجْلِسُه عَلٰی عَرْشِه.
63 /7. وفي رواية: قَالَ: يُقْعِدُه مَعَه عَلَی الْعَرْشِ.
64 /8. وفي رواية: قَالَ: يُجْلِسُه مَعَه عَلٰی عَرْشِه.
رَوَاهَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْخَلَّالُ وَالطَّبَرِيُّ وَالْآجُرِّيُّ وَالسَّمْعَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ وَغَيْرُهُمْ.
5-8: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 /305، الرقم: 31652، والخلال في السنة، 1 /213.214، الرقم: 241.244، 246، والطبري في جامع البيان، 15 /145، والآجري في کتاب الشريعة، 6 /1614.1615، الرقم: 1101.1105، والسمعاني في التفسير، 3 /269، والبغوي في معالم التنزيل، 3 /132، وابن الجوزي في زاد المسير، 5 /76، والرازي في التفسير الکبير، 21 /27، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /311، والعسقلاني في فتح الباري، 11 /426، والعيني في عمدة القاري، 23 /123، والقسطلاني في المواهب اللّدنية، 3 /448-450، والسَّيوطي في الدر المنثور، 5 /328، والشوکاني في فتح القدير، 3 /252، وجمال الدين القاسمي في محاسن التأويل، 6 /491-495.
’’حضرت مجاہد رحمہ اﷲ اﷲ تعالیٰ کے اِس فرمان: ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
’’ایک روایت میں ہے کہ آپ رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ایک روایت میں ہے کہ آپ رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
’’ایک روایت میں ہے کہ آپ رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’اﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
ان روایات کو امام ابنِ ابی شیبہ، طبری، آجری، سمعانی، بغوی، ابنِ جوزی اور دیگر ائمہ نے بیان کیا ہے۔
65 /9. عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه أَنَّه قَرَأَ هٰذِهِ الْآيَةَ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo}، وَقَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ.
رَوَاهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَالْخَازِنُ.
9: أخرجه ابن الجوزي في زاد المسير، 5 /76، والخازن في لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 /177، والقسطلاني في المواهب اللّدنية، 3 /448-450.
’’حضرت ابو وائل رحمہ اﷲ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنھما سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ تو فرمایا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
اِس روایت کو امام ابنِ جوزی اور خازن نے بیان کیا ہے۔
66 /10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی الله عنه فِي قَوْلِه: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo}، قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْکُرْسِيِّ.
رَوَاهُ السَّمْعَانِيُّ وَالْبَغَوِيُّ وَالْخَازِنُ.
10: أخرجه السمعاني في التفسير، 3 /269، والبغوي في معالم التنزيل، 3 /132، والخازن في لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 /177.
’’حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: اﷲ ربّ العزت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘
اِسے امام سمعانی، بغوی اور خازن نے روایت کیا ہے۔
67 /11. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه قَالَ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَقْرَأُ عَلَيْهِ حَتّٰی بَلَغْتُ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: يُجْلِسُنِي عَلَی الْعَرْشِ. رَوَاهُ الذَّهْبِيُّ.
11: أخرجه الذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 /93، الرقم: 222.
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ تلاوت کرتے ہوئے جب اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اﷲ ل مجھے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ اِسے امام ذہبی نے بیان کیا ہے۔
68 /12. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم قَرَأَ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} قَالَ: يُجْلِسُه عَلَی السَّرِيْرِ.
رَوَاهُ السُّيُوْطِيُّ.
12: أخرجه السيوطي في الدر المنثور، 5 /326.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ آپ کو خصوصی نشست پر بٹھائے گا۔‘‘
اِسے امام سیوطی نے روایت کیا ہے۔
69 /13. قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ: يُجْلِسُه عَلَی الْعَرْشِ لِيَرَی الْخَـلَائِقُ کَرَامَتَه عَلَيْهِ ثُمَّ يَنْزِلُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم إِلٰی أَزْوَاجِه وَجَنَّاتِه. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
13: أخرجه الخلال في السنة، 1 /219، الرقم: 252.
’’امام ابو جعفر محمد بن مصعب رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر اِس لئے بٹھائے گا تاکہ ساری مخلوق اﷲ تعالیٰ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو دیکھے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی ازواج اور اپنے باغات کی طرف تشریف لے جائیں گے۔‘‘ اِسے امام خلال نے روایت کیا ہے۔
70 /14. قَالَ سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ الْبَکْرَاوِيُّ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا مَسْعُوْدٍ الْجَرِيْرِيَّ، فَإِذَا أَجْلَسَه بَيْنَ يَدَيْهِ (عَلٰی کُرْسِيِّه) فَهُوَ مَعَه؟ قَالَ: وَيْلَکَ، مَا سَمِعْتُ حَدِيْثًا قَطُّ أَقَرَّ لِعَيْنِي مِنْ هٰذَا الْحَدِيْثِ حِيْنَ عَلِمْتُ أَنَّه يُجْلِسُه مَعَه. رَوَاهُ الْخَلَّالُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْآجُرِّيُّ.
14: أخرجه الخلال في السنة، 1 /211.212، الرقم: 237.238، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /365، الرقم: 786، والآجري في کتاب الشريعة، 6 /1609، الرقم: 1097، والذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 /93، الرقم: 223.
’’حضرت سلم بن جعفر البکراوی رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں: میں نے امام ابو مسعود الجریری رحمہ اﷲ سے پوچھا: جب اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے سامنے (اپنی کرسی پر) بٹھائے گا پھر تو وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ہی ہو گا؟ اُنہوں نے فرمایا: تیری خرابی ہو، میں نے آج تک کوئی بھی ایسی حدیث نہیں سنی جو اس حدیث سے بڑھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے والی ہو جب سے مجھے یہ معلوم ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ (عرش پر) بٹھائے گا۔‘‘ اِسے امام خلال، ابن ابی عاصم اور آجری نے بیان کیا ہے۔
71 /15. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ وَاصِلٍ: مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ جَهْمِيٌّ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
15: أخرجه الخلال في السنة، 1 /214، الرقم: 243.
’’امام محمد بن احمد بن واصل رحمہ اﷲ نے فرمایا: جس شخص نے امام مجاہد کی بیان کردہ حدیث کو جھٹلایا وہ (باطل فرقہ جہمیہ کا معتقد) جہمی ہے۔‘‘
اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
72 /16. قَالَ أَبُوْ دَاودَ السِّجِسْتَانِيُّ ’صَاحِبُ السُّنَنِ‘: مَنْ أَنْکَرَ هٰذَا فَهُوَ عِنْدَنَا مُتَّهَمٌ، وَقَالَ: مَا زَالَ النَّاسُ يُحَدِّثُوْنَ بِهٰذَا يُرِيْدُوْنَ مُغَايَظَةَ الْجَهْمِيَةِ، وَذَالِکَ أَنَّ الْجَهْمِيَةَ يُنْکِرُوْنَ أَنَّ عَلَی الْعَرْشِ شَيئٌ.
رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
16: أخرجه الخلال في السنة، 1 /214، الرقم: 244، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /311، وابن جماعة في إيضاح الدليل في قطع حجج أهل التعطيل، 1 /31، والعسقلاني في فتح الباري، 11 /427، والعيني في عمدة القاري، 23 /123، والشوکاني في فتح القدير، 3 /252.
’’امام ابو داود سجستانی رحمہ اﷲ ’صاحب السنن‘ نے فرمایا: جو شخص اِس حدیث یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا: لوگ فرقہ جہمیہ کی مخالفت کے باعث اِس حدیث کو بیان کرتے آ رہے ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ جہمیہ عرش پر کسی بھی چیز کے ہونے کا انکار کرتے ہیں۔‘‘ اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
73 /17. قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ يَحْيَی بْنُ أَبِي طَالِبٍ: مَنْ رَدَّه فَقَدْ رَدَّ عَلَی اﷲِ، وَمَنْ کَذَبَ بِفَضِيْلَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَقَدْ کَفَرَ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ.
رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
17: أخرجه الخلال في السنة، 1 /215، الرقم: 246.
’’امام ابو بکر یحییٰ بن ابی طالب رحمہ اﷲ نے فرمایا: جس شخص نے اِس حدیثِ مجاہد کو جھٹلایا اُس نے درحقیقت اﷲ ل کو جھٹلایا اور جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی فضیلت کو جھٹلایا اُس نے درحقیقت اﷲ ربّ العزت کا انکار کیا۔‘‘
اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
74 /18. قَالَ أَبُوْ بَکْرِ بْنُ حَمَّادٍٍ الْمُقْرِيُّ: مَنْ ذُکِرَتْ عِنْدَه هٰذِهِ الْأَحَادِيْثُ فَسَکَتَ فَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَکَيْفَ مَنْ طَعَنَ فِيْهَا.
رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
18: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217، الرقم: 250.
’’امام ابو بکر بن حماد المقری رحمہ اﷲ نے فرمایا: جس شخص کے پاس اِن احادیث کا تذکرہ کیا گیا اور وہ خاموش رہا (اس کا چہرہ خوشی کے باعث نہ کهِلا) تو وہ اسلام پر تہمت لگانے والا ہے، پس جس نے ان احادیث کو طعن کا نشانہ بنایا تو اُس کی بدبختی کا عالم کیا ہو گا۔‘‘ اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
75 /19. قَالَ أَبُوْ جَعْفَرٍ الدَّقِيْقِيُّ: مَنْ رَدَّهَا فَهُوَ عِنْدَنَا جَهْمِيٌّ وَحُکْمُ مَنْ رَدَّ هٰذَا أَنْ يُتَّقٰی. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
19: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217، الرقم: 250.
’’امام ابو جعفر الدقیقی رحمہ اﷲ نے فرمایا: جس شخص نے اِن احادیث کو جھٹلایا وہ ہمارے نزدیک جہمی ہے، اور اُس کو جھٹلانے والے کا حکم یہ ہے کہ اُس سے بچا جائے۔‘‘
اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
76 /20. قَالَ عَبَّاسٌ الدُّوْرِيُّ: لَا يَرُدُّ هٰذَا إِلَّا مُتَّهَمٌ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
20: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217، الرقم: 250.
’’امام عباس الدوری رحمہ اﷲ نے فرمایا: تہمت زدہ شخص ہی اِس حدیث کو جھٹلاتا ہے۔‘‘ اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
77 /21. قَالَ إِسْحَاقُ بْنُ رَاهَوَيْهِ: اَلْإِيْمَانُ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ وَالتَّسْلِيْمُ لَه. وقَالَ أَيْضًا: مَنْ رَدَّ هٰذَا الْحَدِيْثَ فَهُوَ جَهْمِيٌّ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
21: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217، الرقم: 250.
’’امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اﷲ نے فرمایا: اِس حدیث پر ایمان رکھنا اور اِسے تسلیم کرنا ہی حق ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا: جس شخص نے اس حدیثِ مجاہد کو جھٹلایا وہ جہمی ہے۔‘‘ اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
78 /22. قَالَ عَبْدُ الْوَهَابِ الْوَرَّاقُ لِلَّذِي رَدَّ فَضِيْلَةَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ: فَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَی الْإِسْلَامِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
22: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217، الرقم: 250.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرنے والے کے لئے امام عبد الوہاب الوراق رحمہ اﷲ نے فرمایا: درحقیقت وہ اسلام پر تہمت باندھنے والا ہے۔‘‘ اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
79 /23. قَالَ إِبْرَاهِيْمُ الْأَصْبَهَانِيُّ: هٰذَا الْحَدِيْثُ حَدَّثَ بِهِ الْعُلَمَاءُ مُنْذُ سِتِّيْنَ وَمِائَةِ سَنَةٍ وَلَا يَرُدُّه إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
23: أخرجه الخلال في السنة، 1 /217.218، الرقم: 250.
’’امام ابراہیم اصبہانی رحمہ اﷲ نے فرمایا: علماء اِس حدیث کو ایک سو ساٹھ (160) سال سے بیان کرتے چلے آ رہے ہیں، اور اس کو سوائے اہلِ بدعت کے کوئی نہیں جھٹلاتا۔‘‘
اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
80 /24. قَالَ حَمْدَانُ بْنُ عَلِيٍّ: کَتَبْتُ هٰذَا الْحَدِيْثَ مُنْذُ خَمْسِيْنَ سَنَةً، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا يَرُدُّه إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
24: أخرجه الخلال في السنة، 1 /218، الرقم: 250.
’’امام حمدان بن علی رحمہ اﷲ نے فرمایا: میں نے پچاس سال سے اس حدیث کو لکھ رکھا ہے، اور میں نے اہلِ بدعت کے علاوہ کسی کو اِسے جھٹلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘
اسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
81 /25. قَالَ هَارُوْنُ بْنُ مَعْرُوْفٍ: هٰذَا حَدِيْثٌ يُسَخِّنُ اﷲُ بِه أَعْيُنَ الزَّنَادِقَةِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
25: أخرجه الخلال في السنة، 1 /218، الرقم: 250.
’’امام ہارون بن معروف رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: یہ وہ حدیث ہے جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ زنادِقہ کی آنکھوں کو تپش دے رہا ہے۔‘‘
اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
82 /26. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ السُّلَمِيُّ: مَنْ تَوَهَمَ أَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم لَمْ يَسْتَوْجِبْ مِنَ اﷲِ مَا قَالَ مُجَاهِدٌ فَهُوَ کَافِرٌ بِاﷲِ الْعَظِيْمِ. رَوَاهُ الْخَلَّالُ.
26: أخرجه الخلال في السنة، 1 /218، الرقم: 250.
’’امام محمد بن اسماعیل السلمی رحمہ اﷲ نے فرمایا: جس شخص نے یہ وہم وگمان کیا کہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو وہ مقام حاصل نہیں ہوگا جو امام مجاہد نے کہا ہے، وہ اﷲ ربّ العزت کا منکر ہے۔‘‘ اِسے امام خلال نے بیان کیا ہے۔
83 /27. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رحمه اﷲ: قَدْ تَلَقَّتْهُ الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُوْلِ.
27: أخرجه الذهبي في العلو للعلي الغفار، 1 /170، الرقم: 461، وأحمد بن إبراهيم في توضيح المقاصد وتصحيح القواعد، 1 /233.
’’امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ نے فرمایا: اس قول (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے) کو علماء کے ہاں تلقی بالقبول (قبولیتِ عامہ) حاصل ہے۔‘‘
84 /28. قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ الْآجُرِّيُّ: وَأَمَّا حَدِيْثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيْلَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم وَتَفْسِيْرُه لِهٰذِهِ الْآيَةِ أَنَّه يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ، فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوْخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيْثِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ، وَقَـبُلُوْهَا بِأَحْسَنِ قَبُوْلٍ، وَلَمْ يُنْکِرُوْهَا، وَأَنْکَرُوْا عَلٰی مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَاهِدٍ إِنْکَارًا شَدِيْدًا، وَقَالُوْا: مَنْ رَدَّ حَدِيْثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوْءٍ.
28: ذکره الآجري في کتاب الشريعة، 6 /1612.1613.
’’امام محمد بن حسین آجری رحمہ اﷲ نے فرمایا: فضیلتِ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں حدیثِ مجاہد اور سورہ بنی اسرائیل کی آیتِ مبارکہ میں آپ کی تفسیر کہ اﷲ ل آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا، تو اِن احادیث کو اکابر اہلِ علم و نقل نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بناء پر احسن طریقہ سے سیکھا اور قبول کیا ہے اور اُن کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ اُنہوں نے حدیثِ مجاہد کا ردّ کرنے والے شخص کی شدید مخالفت کی ہے اور کہا ہے: جس شخص نے حدیثِ مجاہد کو جھٹلایا وہ برا شخص ہے۔‘‘
85 /29. قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ: إِذَا تَبَيَنَ هٰذَا فَقَدْ حَدَّثَ الْعُلَمَاءُ الْمَرْضِيُوْنَ وَأَوْلِيَاؤُهُ الْمُقْبُوْلُوْنَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يُجْلِسُه رَبُّه عَلَی الْعَرْشِ مَعَه.
رَوٰی ذَالِکَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ فِي تَفْسِيْرِ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} وَذَکَرَ ذَالِکَ مِنْ وُجُوْهٍ أُخْرٰی مَرْفُوْعَةً وَغَيْرَ مَرْفُوْعَةٍ.
29: أخرجه ابن تيمية في مجموع الفتاوي، 4 /374.
’’علامہ ابن تیمیہ نے بیان کیا: جب یہ بات واضح ہو گئی تو معروف علماء اور اﷲ تعالیٰ کے مقبول اولیاء نے بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اُن کا ربّ اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
اِس بات کو امام محمد بن فضیل رحمہ اﷲ نے حضرت لیث رحمہ اﷲ سے اور اُنہوں نے حضرت مجاہد رحمہ اﷲ سے {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} کی تفسیر کے ذیل میں نقل کیا ہے اور اسے کئی دیگر مرفوع اور غیر مرفوع طرق سے بھی روایت کیا ہے۔
86 /30. قَالَ الْعَسْقَـلَانِيُّ فِي قَوْلِ مُجَاهِدٍ: ’يُجْلِسُه مَعَه عَلٰی عَرْشِه‘: لَيْسَ بِمَدْفُوْعٍ لَا مِنْ جِهَةِ الْعَقْلِ وَلَا مِنْ جِهَةِ النَّظَرِ.
وَقَالَ أَيْضًا فِي قَوْلِه تَعَالٰی:{عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: وَيُمْکِنُ رَدَّ الْأَقْوَالِ کُلِّهَا إِلَی الشَّفَاعَةِ العَامَّةِ، فَإِنَّ إِعْطَائَه لِوَاءَ الْحَمْدِ، وَثَنَائَه عَلٰی رَبِّه، وَکَـلَامَه بَيْنَ يَدَيْهِ، وَجُلُوْسَه عَلٰی کُرْسِيِّه، وَقِيَامَه أَقْرَبُ مِنْ جِبْرِيْلَ، کُلُّ ذَالِکَ صِفَاتٌ لِلْمَقَامِ الْمَحْمُوْدِ الَّذِي يَشْفَعُ فِيْهِ لِيَقْضِيَ بَيْنَ الْخَلْقِ.
30: أخرجه العسقلاني في فتح الباري، 11 /426.427.
’’امام عسقلانی رحمہ اﷲ نے قولِ مجاہد کہ ’’اﷲ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا‘‘ کے متعلق فرمایا: اس قول کی صحت کا عقلی اور نقلی دونوں طریقوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
’’امام عسقلانی نے آیتِ مبارکہ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} میں ’مقامِ محمود‘ کے مختلف معانی بیان کرنے کے بعد خلاصۃً فرمایا:
’’اِن تمام اقوال کو شفاعتِ عامہ پر منطبق کیا جا سکتا ہے، بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لوائے حمد کا عطا کیا جانا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنا اور اپنے ربّ کی بارگاہ میں کلام کرنا، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرسی پر تشریف فرما ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جبریل ں سے بھی زیادہ اﷲ تعالیٰ کے قریب قیام فرما ہونا، یہ تمام باتیں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقامِ محمود کی صفات ہیں۔ جن پر فائز ہو کر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفاعت فرمائیں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔‘‘
87 /31. قَالَ الْقُسْطَـلَانِيُّ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: قِيْلَ: هُوَ إِجْلَاسُه صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْعَرْشِ، وَقِيْلَ عَلَی الْکُرْسِيِّ، رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّه قَالَ: يُقْعِدُ اﷲُ تَعَالٰی مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْعَرْشِ، وَعَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّه قَالَ: يُجْلِسُه مَعَه عَلَی الْعَرْشِ.
31: أخرجه القسطلاني في المواهب اللّدنية، 3 /448.
’’امام قسطلانی رحمہ اﷲ اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: کہا گیا کہ اِس سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عرش پر بٹھایا جانا ہے اور یہ بھی کہا گیا کہ اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرسی پر بٹھایا جانا ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا کہ اُنہوں نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا جب کہ حضرت مجاہد التابعی سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
أَقْوَالُ أَئِمَّةِ التَّفْسِيْرِ فِي تَأْيِيْدِ هٰذِهِ الرِّوَايَاتِ
{اِن روایات کی تائید میں اَئمہ تفسیر کی آرائ}
88 /1. قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ الطَّبَرِيُّ: إِنَّ اﷲَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوْعٍ صِحَّتُه وَلَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ، وَذَالِکَ لِأَنَّه لَا خَبَرَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِه وَلَا عَنِ التَّابِعِيْنَ بِإِحَالَةِ ذَالِکَ.
1: أخرجه الطبري في جامع البيان، 15 /147.
’’امام ابنِ جریر طبری رحمہ اﷲ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ اِس قول کی صحت کا نقلی اور عقلی دونوں طریقوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، صحابہ کرام ث اور تابعین رحمھم اﷲ تعالی کی کوئی روایت یا قول اس چیز (حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر بٹھائے جانے) کا ناممکن ہونا بیان نہیں کرتا۔‘‘
89 /2. قَالَ أَبُوْ الْمُظَفَّرِ السَّمْعَانِيُّ: عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّه قَالَ: يُجْلِسُه عَلَی الْعَرْشِ، وَعَنْ غَيْرِه: يُقْعِدُه عَلَی الْکُرْسِيِّ بَيْنَ يَدَيْهِ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: يُقِيْمُه عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ.
2: أخرجه السّمعاني في تفسيره، 3 /269.
’’امام ابو مظفر سمعانی رحمہ اﷲ نے فرمایا: حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اُنہوں نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ کسی اور نے کہا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے سامنے خصوصی کرسی پر بٹھائے گا، اور بعض ائمہ نے کہا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش کے دائیں جانب کھڑا فرمائے گا۔‘‘
90 /3. قَالَ الْبَغَوِيُّ: عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}، قَالَ: يُجْلِسُه عَلَی الْعَرْشِ. وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَـلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْکُرْسِيِّ.
3: أخرجه البغوي في معالم التنزيل، 3 /132.
’’امام بغوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: حضرت مجاہد التابعی رضی اللہ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا‘‘ کے متعلق بیان کیا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘
91 /4. قَالَ الْقَاضِي أَبُوْ مُحَمَّدِ بْنُ عَطِيَةَ الْأُنْدَلَسِيُّ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: وَحَکَی الطَّبَرِيُّ عَنْ فِرْقَةٍ مِنْهَا مُجَاهِدٌ، أَنَّهَا قَالَتْ: اَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ هُوَ أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی يُجْلِسُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم مَعَه عَلٰی عَرْشِه، وَرَوَتْ فِيْ ذَالِکَ حَدِيْثًا. وَعَضَّدَ الطَّبَرِيُّ فِي جَوَازِ ذَالِکَ بِشَطَطٍ مِنَ الْقَوْلِ.
4: أخرجه ابن عطية الأندلسي في المحرر الوجيز في تفسير الکتاب العزيز، 3 /479.
’’قاضی ابو محمد ابنِ عطیہ اندلسی رحمہ اﷲ نے مقامِ محمود کے بارے میں فرمایا: امام طبری رحمہ اﷲ نے ایک فرقہ کا موقف درج کیا ہے جن میں امام مجاہد رحمہ اﷲ بھی ہیں، وہ فرماتے ہیں: ’’مقامِ محمود سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ اس بارے میں اس گروہ نے ایک حدیث روایت کی ہے۔ نیز امام طبری رحمہ اﷲ نے متعدد اقوال سے اس کے جواز کو تقویت دی ہے۔‘‘
92 /5. قَالَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: وَالثَّانِي: يُجْلِسُه عَلَی الْعَرْشِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَی أَبُوْ وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه أَنَّه قَرَأَ هٰذِهِ الْآيَةَ وَقَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ. وَکَذَالِکَ رَوَی الضَّحَّاکُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما، وَلَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ.
5: أخرجه ابن الجوزي في زاد المسير، 5 /76.
’’امام ابن الجوزی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: مقامِ محمود کے بارے میں دوسرا قول یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو روزِ قیامت عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت ابو وائل نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اُنہوں نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ یہی الفاظ حضرت ضحاک رحمہ اﷲ نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنھما سے اور حضرت لیث نے حضرت مجاہد التابعی رحمہ اﷲ سے روایت کیے ہیں۔‘‘
93 /6. قَالَ الْقُرْطَبِيُّ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: اَلْقَوْلُ الثَّالِثُ: مَا حَکَاهُ الطَّبَرِيُّ عَنْ فِرْقَةٍ، مِنْهَا مُجَاهِدٌ، أَنَّهَا قَالَتْ: اَلْمُقَامُ الْمَحْمُوْدُ هُوَ أَنْ يُجْلِسَ اﷲُ تَعَالٰی مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم مَعَه عَلٰی کُرْسِيِّه، وَرَوَتْ فِي ذَالِکَ حَدِيْثًا. وَعَضَّدَ الطَّبَرِيُّ جَوَازَ ذَالِکَ بِشَطَطٍ مِنَ الْقَوْلِ. وَذَکَرَ النَّقَّاشُ عَنْ أَبِيْ دَاودَ السِّجِسْتَانِيِّ أَنَّه قَالَ: مَنْ أَنْکَرَ هٰذَا الْحَدِيْثَ فَهُوَ عِنْدَنَا مُتَّهَمٌ، مَا زَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُوْنَ بِهٰذَا، مَنْ أَنْکَرَ جَوَازَه عَلٰی تَأوِيْلِه. قَالَ أَبُوْ عُمَرَ وَمُجَاهِدٌ: وَإِنْ کَانَ أَحَدُ الْأَئِمَّةِ يَتَأَوَّلُ الْقُرْآنَ فَإِنَّ لَه قَوْلَيْنِ مَهْجُوْرَيْنِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَحَدُهُمَا هٰذَا وَالثَّانِي فِي تَأْوِيْلِ قَوْلِه تَعَالٰی: {وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌo إِلٰی رَبِّهَا نَاظِرَةٌo} [القيامة، 75: 22، 23] قَالَ: تَنْتَظِرُ الثَّوَابَ، لَيْسَ مِنَ النَّظَرِ.
قُلْتُ: ذُکِرَ هٰذَا فِي بَابِ ابْنِ شِهَابٍ فِي حَدِيْثِ التَّنْزِيْلِ، وَرُوِيَ عَنْ مُجَاهِدٍ أَيْضًا فِي هٰذِهِ الْآيَةِ قَالَ: يُجْلِسُه عَلَی الْعَرْشِ. وَهٰذَا تَأْوِيْلٌ غَيْرُ مُسْتَحِيْلٍ، لِأَنَّ اﷲَ تَعَالٰی کَانَ قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ کُلَّهَا وَالْعَرْشَ قَائِمًا بِذَاتِه، ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ حَاجَةٍ إِلَيْهَا، بَلْ إِظْهَارًا لِقُدْرَتِه وَحِکْمَتِه، وَلْيُعْرَفْ وُجُوْدُه وَتَوْحِيْدُه وَکَمَالُ قُدْرَتِه وَعِلْمُه بِکُلِّ أَفْعَالِهِ الْمُحْکَمَةِ، وَخَلَقَ لِنَفْسِه عَرْشًا اسْتَوٰی عَلَيْهِ کَمَا شَاءَ مِنْ غَيْرِ أَنْ صَارَ لَه مُمَاسًّا، أَوْ کَانَ الْعَرْشُ لَه مَکَانًا. قِيْلَ: هُوَ الْآنَ عَلَی الصِّفَةِ الَّتِي کَانَ عَلَيْهَا مِنْ قَبْلِ أَنْ يَخْلُقَ الْمَکَانَ وَالزَّمَانَ، فَعَلٰی هٰذَا الْقَوْلِ سَوَاءٌ فِي الْْجَوَازِ أَقْعَدَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْعَرْشِ أَوْ عَلَی الْأَرْضِ، لِأَنَّ اسْتَوَاءَ اﷲِ تَعَالٰی عَلَی الْعَرْشِ لَيْسَ بِمَعْنَی الْاِنْتِقَالِ وَالزَّوَالِ وَتَحْوِيْلِ الْأَحْوَالِ مِنَ الْقِيَامِ وَالْقُعُوْدِ وَالْحَالِ الَّتيْ تُشْغِلُ الْعَرْشَ، بَلْ هُوَ مُسْتَوٍ عَلٰی عَرْشِه کَمَا أَخْبَرَ عَنْ نَفْسِه بِلَا کَيْفٍ. وَلَيْسَ إِقْعَادُه مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْعَرْشِ مُوْجِبًا لَه صِفَةَ الرُّبُوْبِيَةِ أَوْ مُخْرِجًا لَه عَنْ صِفَةِ الْعُبُوْدِيَةِ، بَلْ هُوَ رَفْعٌ لِمَحَلِّه وَتَشْرِيْفٌ لَه عَلٰی خَلْقِه. وَأَمَّا قَوْلُه فِي الإِْخْبَارِ: ’’مَعَه‘‘ فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ قَوْلِه: {اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّکَ} [الأعراف، 7: 206]، وَ{رَبِّ ابْنِ لِيْ عِنْدَکَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ} [التحريم،66: 11]، {وَاِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ} [العنکبوت29: 69]، وَنَحْوَ ذَالِکَ. کُلُّ ذَالِکَ عَائِدٌ إِلَی الرُّتْبَةِ وَالْمَنْزِلَةِ وَالْحُظْوَةِ وَالدَّرَجَةِ الرَّفِيْعَةِ، لَا إِلَی الْمَکَانِ.
6: أخرجه القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /311، 312.
’’امام قرطبی نے مقام محمود کے بارے میں ’’تیسرا قول‘‘ درج کرتے ہوئے فرمایا: امام طبری نے ایک جماعت کا موقف درج کیا ہے جن میں امام مجاہد رحمہ اﷲ بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ’’مقامِ محمود سے مراد یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی مخصوص کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اس بارے میں احادیث روایت کی گئی ہیں۔امام طبری نے متعدد اقوال سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نقاش نے امام ابو داود سجستانی صاحب السنن سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا: ’’جو اِس حدیث یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کا انکار کرے وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔‘‘ اہلِ علم آج تک اس کو روایت کرتے آ رہے ہیں۔ جس نے اس کا تاویل کی بناء پر انکار کیا تو ان کے بارے میں ابو عمر اور مجاہد فرماتے ہیں: اگر کوئی امام قرآنِ مجید کی آیات کی تاویل کرے تو اہلِ علم کے نزدیک اُس کے پاس دو متروک قول ہیں: ایک تو اس آیت مقام محمود کے بارے میں دوسرا اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان: ’’بہت سے چہرے اُس دن شگفتہ و تر و تازہ ہوں گےo اور (بلا حجاب) اپنے ربّ (کے حسن و جمال ) کو تک رہے ہوں گےo‘‘ کی تاویل میں کہتے ہیں کہ لوگ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اَجر و ثواب کا انتظار کریں گے نہ کہ اُس کی نظر کا۔
’’میں کہتا ہوں: یہ تمام تاویلات ابنِ شہاب سے حدیثِ تنزیل کی بحث میں ذکر کی گئی ہیں اور حضرت مجاہد رحمہ اﷲ سے اس آیت کے تحت یہ قول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ’’اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ یہ تاویل ناممکن نہیں ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ عرش اور دیگر تمام اشیاء کی تخلیق سے بھی پہلے بذاتِ خود قائم تھا۔ پھر اُس نے تمام اشیاء کو پیدا کیا لیکن اس میں اس کی ذاتی کوئی حاجت شامل نہ تھی بلکہ یہ اپنی قدرت و حکمت کے اظہار کے لیے کیا تاکہ اس کے وجود، توحید اور کمالِ قدرت و علم کو اس کے تمام پُر حکمت افعال کے باعث پہچانا جا سکے۔ پھر اُس نے اپنے لیے عرش تخلیق کیا اور اُس پر متمکن ہوا جیسا اس نے چاہا بغیر اس کے کہ وہ عرش کو مَس کرنے والا ہوگیا یا وہ عرش اس کے لئے مکان تھا۔ کہا گیا ہے کہ وہ آج بھی اپنی انہی صفات کے ساتھ قائم ہے جن کے ساتھ وہ زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے تھا۔ پس اس قول کی بناء پر جواز کے اعتبار سے برابر ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے یا زمین پر کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا عرش پر استواء فرمانا انتقال و زوال اور قیام و قعود کے احوال کی تحویل و تبدیلی اور عرش کو مشغول کر دینے کی حالت کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ اﷲ تعالیٰ تو بغیر کسی کیفیت کے اپنے عرش پر متمکن ہے جیسا کہ اُس نے اپنے بارے میں خبر دی ہے اور اﷲ تعالیٰ کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھانا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے صفتِ ربوبیت کو مستلزم نہیں اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو صفتِ عبدیت سے نکالنے والا ہے، بلکہ یہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقام و مرتبہ کو بلند کرنے اور دیگر مخلوقِ خداوندی پر آپ کے شرف و عزت کے اظہار کے لئے ہے۔ رہا حضرت مجاہد کا ’’مَعَہ‘‘ فرمانا کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ’’اپنے ساتھ‘‘ بٹھائے گا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے ان فرامین کے معنی میں ہے: ’’(بے شک جو (ملائکہ مقربین) تمہارے رب کے حضور میں ہیں۔)‘‘، ’’(اے میرے رب! تُو میرے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دے۔)‘‘، ’’اور بیشک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے۔‘‘ اِس طرح کی دیگر تمام آیات رتبہ، قدر و منزلت کی بلندی اور اعلیٰ درجات کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ کہ کسی مخصوص جگہ و مکان کی طرف۔‘‘
94 /7. قَالَ الْخَازِنُ: رَوٰی أَبُوْ وَائِلٍ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّه قَالَ: إِنَّ اﷲَ اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْـلًا وَإِنَّ صَاحِبَکُمْ خَلِيْلُ اﷲِ وَأَکْرَمُ الْخَلْقِ عَلَيْهِ. ثُمَّ قَرَأَ: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ. وَعَنْ مُجَاهِدٍ مِثْلَه.
وَعَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: يُقْعَدُ عَلَی الْکُرْسِيِّ.
7: أخرجه الخازن في لباب التأويل في معاني التنزيل، 3 /177.
’’امام خازن رحمہ اﷲ نے فرمایا: حضرت ابو وائل رحمہ اﷲ نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ اُنہوں نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ں کو اپنا خلیل بنایا جب کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اﷲ کے خلیل ہیں اور تمام مخلوق سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مکرم ہیں۔ پھر اُنہوں نے یہ آیت تلاوت کی: {یقینا آپ کا رب آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا۔} اور فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ حضرت مجاہد التابعی رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔‘‘
’’اور حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خصوصی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔‘‘
95 /8. ذَکَرَ الْقَاضِي مُحَمَّدٌ ثَنَاءُ اﷲِ الْبَانِي بَتِّي فِي تَفْسِيْرِه مِثْلَ مَا ذَکَرَ الْبَغْوِيُّ وَالْخَازِنُ.
8: أخرجه القاضي ثناء اﷲ في التفسير المظهري، 4 /272.
’’قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اﷲ نے بھی اس کی تائید میں اپنی تفسیر میں امامِ بغوی رحمہ اﷲ اور خازن رحمہ اﷲ کے بیان کی طرح اقوال درج کیے ہیں۔‘‘
96 /9. قَالَ الشَّوْکَانِيُّ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا}: اَلْقَوْلُ الثَّالِثُ: أَنَّ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ هُوَ أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی يُجْلِسُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم مَعَه عَلٰی کُرْسِيِّه، حَکَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ عَنْ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ مُجَاهِدٌ، وَقَدْ وَرَدَ فِي ذَالِکَ حَدِيْثٌ، وَحَکَی النَّقَّاشُ عَنْ أَبِي دَاودَ السِّجِسْتَانِيِّ أَنَّه قَالَ: مَنْ أَنْکَرَ هٰذَا الْحَدِيْثَ فَهُوَ عِنْدَنَا مُتَّهَمٌ، مَا زَالَ أَهْلُ الْعِلْمِ يَتَحَدَّثُوْنَ بِهٰذَا الْحَدِيْثِ.
9: أخرجه الشوکاني في فتح القدير، 3 /252.
’’علامہ شوکانی رحمہ اﷲ مقامِ محمود کے بارے میں تیسرا قول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مقامِ محمود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنی کرسی پر بٹھائے گا۔‘‘ اس قول کو امام ابنِ جریر طبری رحمہ اﷲ نے مفسرین کے ایک گروہ سے روایت کیا ہے جن میں حضرت مجاہد التابعی رحمہ اﷲ بھی شامل ہیں۔ اس باب میں حدیث بھی وارد ہوئی ہے۔ نقاش نے امام ابو داود سجستانی رحمہ اﷲ کا قول بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے فرمایا: ’’جس نے اس حدیث کا انکار کیا وہ ہمارے نزدیک تہمت زدہ ہے۔‘‘ اہلِ علم کثرت سے اس حدیث کو روایت کرتے آئے ہیں۔‘‘
97 /10. قَالَ الْآلُوْسِيُّ: عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّه قَالَ: اَلْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ أَنْ يُجْلِسَه مَعَه عَلٰی عَرْشِه.
10: أخرجه الآلوسي في روح المعاني، 15 /142.
’’امام آلوسی رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں: امام مجاہد رحمہ اﷲ نے فرمایا: مقامِ محمود یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘
98 /11. ذَکَرَ الْعَـلاَّمَةُ جَمَالُ الدِّيْنِ الْقَاسِمِيُّ فِي تَفْسِيْرِه ’’مَحَاسِنِ التَّأْوِيْلِ‘‘ فِي قَوْلِه تَعَالٰی: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} بَحْثًا طَوِيْـلًا. وَنَحْنُ َنذْکُرُ هُنَا ذَالِکَ الْبَحْثَ مِنْ تَفْسِيْرِه. قَالَ:
11: تفسير القاسمي المسمي محاسن التأويل، 6 /2639.2643.
قَالَ ابْنُ جَرِيْرٍ: ذَهَبَ آخَرُوْنَ إِلٰی أَنَّ ذَالِکَ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ، الَّذِي وَعَدَ اﷲُ نَبِيَه صلی الله عليه واله وسلم أَنْ يَبْعَثَه إِيَاه، هُوَ أَنْ يُجْلِسَه مَعَه عَلٰی عَرْشِه، رَوَاهُ لَيْثٌ عَنْ مُجَاهِدٍ، وَقَدْ شَنَّعَ الْوَاحِدِيُّ عَلَی الْقَائِلِ بِه، مَعَ أَنَّه رَوَاهُ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه أَيْضًا وَعِبَارَتُه-عَلٰی مَا نَقَلَهَا الرَّازِيُّ-وَهٰذَا قَوْلُ رَذْلٍ مُوْحِشٍ فَظِيْعٍ، وَنَصُّ الْکِتَابِ يُنَادِي بِفَسَادِ هٰذَا التَّفْسِيْرِ وَيَدُلُّ عَلِيْهِ وَجُوْهٌ:
اَلأَوَّلُ: أَنَّ الْبَعْثَ ضِدُّ الْإِجْـلَاسِ، يُقَالَ: بَعَثْتُ النَّازِلَ وَالْقَاعِدَ فَانْبَعَثَ، وَيُقَالُ: بَعَثَ اﷲُ الْمَيِّتَ، أَي أَقَامَه مِنْ قَبْرِه، فَتَفْسِيْرُ الْبَعْثِ بِالْإِجْـلَاسِ تَفْسِيْرٌ لِلضِّدِّ بِالضِّدِّ وَهُوَ فَاسِدٌ.
اَلثَّانِي: أَنَّه تَعَالٰی قَالَ: {مَقَامًا مَحْمُوْدًا} وَلَمْ يَقُلْ مَقْعَدًا، وَالْمَقَامُ مَوْضِعُ الْقِيَامِ لَا مَوْضِعُ الْقُعُوْدِ.
اَلثَّالِثُ: لَوْ کَانَ تَعَالٰی جَالِسًا عَلَی الْعَرْشِ، بِحَيْثُ يَجْلِسُ عِنْدَه مُحَمَّدٌ صلی الله عليه واله وسلم ، لَکَانَ مَحْدُوْدًا مُتَنَاهِيًا، وَمَنْ کَانَ کَذَالِکَ فَهُوَ مُحْدَثٌ.
اَلرَّابِعُ: يُقَالَ: إِنَّ جُلُوْسَه مَعَ اﷲِ عَلَی الْعَرْشِ لَيْسَ فِيْهِ کَثِيْرُ إِعْزَازٍ، لِأَنَّ هٰـؤُلَاءِ الْجُهَالُ وَالْحَمْقٰی يَقُوْلُوْنَ ’’ فِي کُلِّ أَهْلِ الْجَنَّةِ ‘‘: إِنَّهُمْ يَزُوْرُوْنَ اﷲَ تَعَالٰی وَإِنَّهُمْ يَجْلِسُوْنَ مَعَه وَإِنَّه تَعَالٰی يَسْأَلُهُمْ عَنْ أَحْوَالِهِمُ الَّتِي کَانُوْا عَلَيْهَا فِي الدُّنْيَا، وَإِذَا کَانَتْ هٰذِهِ الْحَالَةُ حَاصِلَةٌ عِنْدَهُمْ لِکُلِّ الْمُؤْمِنِيْنَ، لَمْ يَکُنْ لِتَخْصِيْصِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم بِهَا مَزِيْدُ شَرَفٍ وَرُتْبَةٍ.
اَلْخَامِسُ: أَنَّه إِذَا قَيْلَ: السُّلْطَانُ بَعَثَ فَـلَانًا، فُهِمَ مِنْه أَنَّه أَرْسَلَه إِلٰی قَوْمٍ لِإِصْلَاحِ مُهِمَّاتِهِمْ، وَلَا يُفْهَمُ مِنْه أَنَّه أَجْلَسَه مَعَ نَفْسِه، فَثَبَتَ أَنَّّ هٰذَا الْقَوْلَ کَـلَامٌ رَذْلٌ سَقْطٌ، لَا يَمِيْلُ إِلَيْهِ إِلَّا إِنْسَانٌ قَلِيْلُ الْعَقْلِ عَدِيْمُ الدِّيْنِ. انْتَهَی کَـلَامُ الْوَاحِدِيِّ.
’’علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اﷲ نے اپنی تفسیر ’’محاسن التاویل‘‘ میں اﷲ تعالیٰ کے فرمان مبارک: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گاo‘‘ پر تفصیلی بحث کی ہے۔ ہم اُن کی تفسیر سے اِس بحث کو مِن و عَن درج کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا:
’’ امام ابنِ جریر نے بیان کیا: دوسرے علماء اس طرف گئے ہیں کہ جس مقامِ محمود کا اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اس پر فائز فرمائے گا، وہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا۔ اس قول کو حضرت لیثرحمہ اﷲ نے حضرت مجاہد رحمہ اﷲ سے روایت کیا ہے۔ واحدی نے یہ کہنے والے کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا ہے، باوجود یکہ انہوں نے حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اِس کو روایت کیا ہے۔ اس کی عبارت یہ ہے جس کو امام رازی رحمہ اﷲ نے نقل کیا ہے۔ (واحدی کہتے ہیں:) یہ قول گھٹیا، وحشت ناک اور قبیح ہے، نصِ کتاب اس تفسیر کے فاسد ہونے کا اعلان کرتی ہے اور کئی وجوہ اس معنی کے فساد پر دلالت کرتی ہیں:
پہلا اعتراض: بے شک بعث (کھڑا ہونا) یہ اجلاس (بٹھانے) کی ضد ہے۔ جیسے کہتے ہیں: بعثت النازل والقاعد فانبعث ’’میں نے آنے والے اور بیٹھنے والے کو کھڑا کیا تو وہ کھڑا ہو گیا‘‘۔ اور اسی طرح کہا جاتا ہے: بعث اﷲ المیت ’’یعنی اللہ تعالیٰ نے میت کو اس کی قبر سے کھڑا کر دیا‘‘۔ لہذا بعث کی اجلاس کے ساتھ تفسیر کرنا یہ ضد کی ضد کے ساتھ تفسیر ہے جو فاسد ہے۔
دو سرا اعتراض: اﷲ تعالیٰ نے مقامًا محمودًا فرمایا ہے نہ کہ مقعدًا (اگر بٹھانا مقصود تھا تو مقعدًا محمودًا فرمایا جاتا)۔ مقام کھڑے ہونے کی جگہ کو کہتے ہیں نہ کہ بیٹھنے کی جگہ کو۔
تیسرا اعتراض: اگر اﷲ تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھے ہوں تو اللہ تعالیٰ محدود اور متناہی ہو جائے گا اور جو ایسا ہوگا وہ حادث ہوگا (حالانکہ اللہ تعالیٰ حادث نہیں قدیم ہے)۔
چوتھا اعتراض: کہا جاتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کے ساتھ عرش پر تشریف فرما ہونے میں کثرتِ اعزاز نہیں ہے کیونکہ یہی جاہل اور بیوقوف لوگ ’’تمام اہلِ جنت ‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی زیارت کریں گے اور اس کے ہمراہ بیٹھیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے ان کے دنیا میں گزرے ہوئے احوال پوچھے گا۔ جب ان کے نزدیک یہ حال تمام مسلمانوں کو حاصل ہوگا تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے اس کی تخصیص کرنے میں کوئی زیادہ شرف اور رتبہ نہیں۔
پانچواں اعتراض: جب یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شخص کو مبعوث (تقرر) کیا ہے تو اس سے یہی سمجھا جاتا ہے کہ بادشاہ نے اسے کسی قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ بادشاہ نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا ہے تو ثابت ہوا کہ یہ قول گھٹیا اور ساقط الاعتبار ہے۔ اس کی طرف وہی انسان مائل ہو سکتا ہے جو کم عقل اور بے دین ہو۔ واحدی کا کلام ختم ہوا۔‘‘
وَلَيْتَهُ اطَّلَعَ عَلٰی مَا کَتَبَهُ ابْنُ جَرِيْرٍ حَتّٰی يُمْسِکَ مِنْ جِمَاحٍ يَرَاعُه وَيُبْصِرُ الْأَدَبَ مَعَ السَّلَفِ مَعَ الْمَخَارِجِ الْعِلْمِيَةِ لَهُمْ، وَهَاکَ مَا قَالَهُ ابْنُ جَرِيْرٍ رحمه اﷲ -بَعْدَ مَا نَقَلَ عَنْ مُجَاهِدٍ قَوْلَهُ الْمُتَّقَدَّمَ-:
وَأَوْلَی الْقَوْلَيْنِ بِالصَّوَابِ، مَا صَحَّ بِهِ الْخَبَرُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَنَّه مَقَامُ الشَّفَاعَةِ - ثُمَّ قَالَ - وَهٰذَا وَإِنْ کَانَ هُوَ الصَّحِيْحُ فِي الْقَوْلِ، فِي تَأْوِيْلِ الْمَقَامِ الْمَحْمُوْدِ، لِمَا ذَکَرْنَا مِنَ الرِّوَايَةِ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَأَصْحَابِه وَالتَّابِعِيْنَ، فَإِنَّ مَا قَالَه مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اﷲَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوْعٍ صِحَّتُه، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ، وَذَالِکَ لِأَنَّه لَا خَبَرَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِه، وَلَا عَنِ التَّابِعِيْنَ، بِإِحَالَةِ ذَالِکَ، فَأَمَّا مِنْ جِهَةِ النَّظَرِ فَإِنَّ جَمِيْعَ مَنْ يَنْتَحِلُ الْإِسْـلَامَ إِنَّمَا اخْتَلِفُوْا فِي مَعْنَی ذَالِکَ عَلٰی أَوْجَهٍ ثَـلَاثَةٍ:
’’کاش واحدی امام ابن جریر طبری کی تحریر پر مطلع ہوتا تاکہ وہ اس قسم کے خطرناک تبصرہ سے باز رہتا اور بزرگانِ سلف کے علمی مرتبہ اور مقام کو ملحوظ رکھ کر ادب کا راستہ اختیار کرتا۔ یہ جو امام ابن جریر نے حضرت مجاہد رحمہ اﷲ سے ان کا وہ قول جو پہلے بیان کیا جا چکا ہے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے:
’’دونوں باتوں میں سے صحیح ترین بات وہی ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مروی صحیح خبر وارد ہوئی ہے کہ اس سے مراد مقامِ شفاعت ہے۔ پھر فرمایا: ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کرام اور تابعین ث سے جو روایات بیان کی ہیں کی بناء پر مقام محمود کی تاویل میں اگرچہ یہی قول ہی صحیح ہے کیونکہ جو کچھ حضرت مجاہد نے فرمایا ہے کہ ’’اﷲ تبارک و تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا۔‘‘ ایسا قول ہے جس کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کیا جاسکتا، نہ خبر کی رو سے نہ نظر کی رو سے اور یہ اِس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور کسی صحابی و تابعی سے اس کا محال اور ناممکن ہونا مروی نہیں ہے۔ جہتِ فکر و نظر سے دیکھا جائے تو اسلام کی طرف منسوب تمام اہل علم نے اس کی توجیح اور تفسیر میں تین وجوہات کی بناء پر اختلاف کیا ہے:
فَقَالَتْ فِرْقَةٌ مِنْهُمْ: اَﷲُ بَائِنٌ مِنْ خَلْقِه، کَانَ قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ، ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ فَلَمْ يُمَاسَّهَا، وَهُوَ کَمَا لَمْ يَزَلْ، غَيْرَ أَنَّ الْأَشْيَاءَ الَّتِي خَلْقَهَا، إِذَا لَمْ يَکُنْ هُوَ لَهَا مُمَاسًّا، وَجَبَ أَنْ يَکُوْنَ لَهَا مُبَايِنًا، إِذْ لَا فَعَّالَ لِـلْأَشْيَاءِ إِلَّا وَهُوَ مُمَاسٌّ لِـلْأَجْسَامِ أَوْ مُبَايِنٌ لَهَا، قَالُوْا: فَإِذَا کَانَ ذَالِکَ کَذَالِکَ، وَکَانَ اﷲُ فَاعِلُ الْأَشْيَاءِ، وَلَمْ يَجُزْ فِي قَوْلِهِمْ أَنَّه يُوْصَفُ بِأَنَّه مُمَاسٌّ لِـلْأَشْيَاءِ، وَجَبَ بِزَعْمِهِمْ أَنَّه لَهَا مُبَايِنٌ - فَعَلٰی مَذْهَبِ هٰـؤُلَاءِ سَوَاءٌ أَقْعَدَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه أَوْ عَلَی الْأَرْضِ، - إِذَا کَانَ مِنْ قَوْلِهِمْ إِنَّ بَيْنُوْنَتَه ِمنْ عَرْشِه وَبَيْنُوْنَتَه مِنْ أَرْضِه بِمَعْنًی وَاحِدٍ فِيْ أَنَّه بَائِنٌ مِنْهُمَا کِلَيْهِمَا غَيْرُ مُمَاسٍّ لِوَاحِدٍ مِنْهُمَا.
’’ان میں سے ایک جماعت نے کہا: اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا اور ممتاز ہے کہ وہ اشیاء کو تخلیق کرنے سے پہلے موجود تھا۔ پھر اس نے اشیاء پیدا کیں اور اس نے انہیں مَس نہیں کیا اور وہ جس طرح ہمیشہ سے ان اشیاء کا غیر رہا ہے جن کو اس نے پیدا فرمایا ہے۔ جب وہ ان اشیاء کو چھوتا نہیں تو لام ہے کہ وہ ان سے الگ تھلگ ہو جبکہ ان اشیاء کو پیدا کرنے والا کوئی نہیں مگر وہی ان اجسام کو مس کرنے والا ہے یا ان سے مُباین (الگ ہونے والا) ہے۔ ان علماء نے کہا: جب یہ سب کچھ اسی طرح ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ہی تمام اشیاء میں فاعل حقیقی ہے اور ان کے اس قول کے اعتبار سے یہ جائز نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو اشیاء کو مَس کرنے والے کی صفت سے متصف قرار دیا جائے تو ان کے گمان کے اعتبار سے لازم آئے گا کہ وہ ان اشیاء سے الگ تھلگ ہے۔ تو ان لوگوں کے مذہب کے مطابق برابر ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا زمین پر۔ جب ان کا قول یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی اپنے عرش سے جدائی (الگ تھلگ ہونا) اور اپنی زمین سے جدائی ایک ہی معنی میں ہے یعنی یہ کہ وہ ان دونوں (عرش اور زمین) سے الگ ہے کہ ان میں سے کسی کو نہیں چھوتا۔‘‘
وَقَالَتْ فِرْقَةٌ أُخْرٰی: کَانَ اﷲُ تَعَالٰی ذِکْرُه قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ، لَا شَيْئَ يُمَآسُّه وَلَا شَيْئَ يُبَايِنُه، ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ فَأَقَامَهَا بِقُدْرَتِه وَهُوَ کَمَا لَمْ يَزَلْ قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ لَا شَيْئَ يُمَآسُّه وَلَا شَيْئَ يُبَايِنُه، فَعَلٰی قَوْلِ هٰـؤُلَائِ أَيْضًا سَوَاءٌ أَقْعَدَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه أَوْ عَلٰی أَرْضِه -إِذْ کَانَ سَوَاءٌ عَلٰی قَوْلِهِمْ عَرْشُه وَأَرْضُه فِيْ أَنَّه لَا مُمَآسَّ وَلَا مُبَايِنَ لِهٰذَا، کَمَا أَنَّه لَا مُمَآسَّ وَلَا مُبَايِنَ لِهٰذِه.
’’علماء کی دوسری جماعت کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ کے مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل بھی کوئی شے نہ تو اللہ تعالیٰ کو مس کرتی تھی اور نہ جدا تھی، پھر اُس نے مخلوق کو پیدا کر کے اپنی قدرت سے اُنہیں قائم کیا اور اللہ تعالیٰ کی شان ویسی ہی ہے جیسے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے تھی کہ نہ کوئی چیز اسے مس کرتی ہے اور نہ کوئی شے اس سے جدا ہے۔ پس اُن لوگوں کے قول کے مطابق بھی برابر ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا زمین پر کیونکہ ان کے قول کے مطابق اﷲ تبارک و تعالیٰ کا عرش اور اس کی زمین برابر ہے۔ اس اعتبار سے کہ وہ نہ اس (عرش) سے مس کرتا ہے اور نہ اس سے جدا ہے جس طرح کہ وہ نہ اس (زمین) سے مس کرتا ہے اور نہ اس سے جدا ہے۔‘‘
وَقَالَتْ فِرْقَةٌ أُخْرٰی: کَانَ اﷲُ عَزَّ ذِکْرُه قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ لَا شَيئَ يُمَآسُّه وَلَا شَيئَ يُبَايِنُه، ثُمَّ أَحْدَثَ الْأَشْيَاءَ وَخَلَقَهَا، فَخَلَقَ لِنَفْسِه عَرْشًا اسْتَوٰی عَلَيْهِ جَالِسًا وَصَارَ لَه مُمَاسًّا، کَمَا أَنَّه قَدْ کَانَ قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ لَا شَيئَ يَرْزُقُه رِزْقًا وَلَا شَيئَ يَحْرِمُه ذَالِکَ، ثُمَّ خَلَقَ الْأَشْيَاءَ فَرَزَقَ هٰذَا وَحَرَمَ هٰذَا وَأَعْطٰی هٰذَا وَمَنَعَ هٰذَا، قَالُوْا: فَکَذَالِکَ کَانَ قَبْلَ خَلْقِهِ الْأَشْيَاءَ، لَا شَيئَ يُمَآسُّه وَلَا يُبَايِنُه، وَخَلَقَ الْأَشْيَاءَ فَمَآسَّ الْعَرْشَ بِجُلُوْسِه عَلَيْهِ دَوْنَ سَائِرِ خَلْقِه، فَهُوَ مُمَآسٌّ مَا شَاءَ مِنْ خَلْقِه وَمُبَايِنٌ مَا شَاءَ مِنْه، فَعَلٰی مَذْهَبِ هٰـؤُلَائِ أَيْضًا سَوَاءٌ أَقْعَدَ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه أَوْ أَقْعَدَه عَلٰی مِنْبَرٍ مِنْ نُوْرٍ، إِذْ کَانَ مِنْ قَوْلِهِمْ: أَنَّ جُلُوْسَ الرَّبِّ عَلٰی عَرْشِه لَيْسَ بِجُلُوْسٍ يَشْغَلُ جَمِيْعَ الْعَرْشِ، وَلَا فِيْ إِقْعَادِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم مُوْجِبًا لَه صِفَةَ الرَّبُوْبِيَةِ، وَلَا مُخْرِجُه مِنْ صِفَةِ الْعُبُوْدِيَةِ لِرَبِّه، کَمَا أَنَّ مُبَايَنَةَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم مَا کَانَ مُبَايِنًا لَه مِنَ الْأَشْيَاءِ غَيْرِ مَوْجِبَةٍ لَه صِفَةَ الرَّبُوْبِيَةِ وَلَا مُخْرِجَتُه مِنْ صِفَةِ الْعُبُوْْدِيَةِ لِرَبِّه مِنْ أَجْلِ أَنَّه مُوْصُوْفٌ بِأَنَّه مُبَايِنٌ لَه، کَمَا أَنَّ اﷲَ مَوْصُوْفٌ - عَلٰی قَوْلِ قَائِلِ هٰذِهِ الْمَقَالَةِ- بِأَنَّه مُبَايِنٌ لَهَا، هُوَ مُبَايِنٌ لَه، قَالُوْا: فَإِذَا کَانَ مَعْنٰی ’’مُبَايِنٌ وَمُبَايِنٌ‘‘ لَا يَوْجِبُ لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم الْخُرُوْجَ مِنْ صِفَةِ الْعُبُوْدِيَةِ، وَالدُّخُوْلِ فِي مَعْنَی الرُّبُوْبِيَةِ، فَکَذَالِکَ لَا يُوْجِبُ لَه ذَالِکَ قُعُوْدُه عَلٰی عَرْشِ الرَّحْمٰنِ.
’’تیسری جماعت کا کہنا ہے: اللہ تعالیٰ مخلوق کے پیدا کرنے سے پہلے اس حال میں تھا کہ نہ کوئی شے اُسے مس کرتی تھی اور نہ اس سے جدا تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اپنی ذات کے لئے عرش بنا کر اس کے اوپر بیٹھ گیا تو وہ اس سے مس ہو گیا اسی طرح جیسے اشیاء کو پیدا کرنے سے قبل نہ وہ کسی چیز کو رزق دیتا تھا اور نہ کسی چیز کو اس رزق سے محروم کرتا تھا پھر اس نے اشیاء کو پیدا کر کے کسی کو رزق دیا اور کسی کو اس رزق سے محروم کر دیا، کسی کو عطا فرما دیا اور کسی سے اپنی عطا کو روک لیا(یعنی جسے جو چاہا دیا اور جسے جو چاہا نہ دیا)۔ اِن لوگوں کا کہنا ہے: پس یہی حال اشیاء کو پیدا کرنے سے پہلے تھا کہ نہ کوئی چیز اُس کو مس کرتی تھی اور نہ کوئی اس سے الگ تھی (کیونکہ تھا ہی کچھ نہیں)، پھر اس نے اشیاء کو پیدا کیا اور عرش پر بیٹھ کر اس کو مس کیا جبکہ اس کے علاوہ باقی مخلوق پر نہ بیٹھا (نہ کسی کو مس کیا)۔ لھذا وہ اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہے مس کرے اورجس سے چاہے الگ رہے۔ تو ان لوگوں کے مذہب کے مطابق بھی برابر ہے کہ’’اللہ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے یا نور کے منبر پر بٹھائے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ربّ کا اپنے عرش پر بیٹھنا ایسا بیٹھنا نہیں جو تمام عرش کو مشغول کر دے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اس پر بٹھانے میں نہ ان کے لئے صفتِ ربوبیت کو واجب کرنے والی کوئی چیز ہے اور نہ ہی انہیں اپنے رب کی عبودیت سے خارج کرنے والی کوئی صورت ہے (یعنی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے سے نہ تو وہ ربّ ہوں گے اور نہ بندگی سے نکلیں گے، اللہ تعالیٰ اپنی جگہ خالق رہے گا اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنی جگہ مخلوق ہوں گے)۔ جیسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مخلوق سے الگ تھلگ ہونا، جب تک آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشیاء سے الگ تھلگ رہے، ان کے لئے صفتِ ربوبیت کو واجب نہیں کرتا اور نہ ہی وہ انہیں اپنے رب کی بارگاہ میں صفتِ عبودیت سے باہر نکالنے والا ہے اس بات کے قائل کے قول کے مطابق جس طرح اﷲ تعالیٰ ایسا موصوف ہے جو صفت عبودیت سے مباین اور الگ ہے اسی طرح وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بھی مباین اور الگ ہے۔ انہوں نے کہا: جب مبائن مُباین (الگ الگ اور جدا ہونے) کا معنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے صفتِ عبودیت سے خروج اور معنی ربوبیت میں دخول کو واجب نہیں کرتا تو اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عرش پر بیٹھنا بھی آپ کے لئے اس کو واجب نہیں کرتا۔‘‘
فَقَدْ َتبَيَنَ إِذًا بِمَا قُلْنَا أَنَّـه غَيْرُ مُحَالٍ فِي قَوْلِ أَحَدٍ مِمَّنْ يَنْتَحِلُ الْإِسْلَامَ مَا قَالَه مُجَاهِدٌ، مِنْ أَنَّ اﷲَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه، فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: فَإِنَّا لَا نُنْکِرُ إِقْعَادَ اﷲِ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلٰی عَرْشِه، وَإِنَّمَا نُنْکِرُ إِقْعَادَه مَعَه. ’’حَدَّثَنِي‘‘ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيْمِ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنَ کَثِيْرٍ عَنِ الْجَرِيْرِيِّ عَنْ سَيْفٍ السَّدُوْسِيِّ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَـلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلٰی کُرْسِيِّ الرَّبِّ بَيْنَ يَدَيِ الرَّبِّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی.
’’جو کچھ ہم نے کہا اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلام کی پرکھ رکھنے والوں میں سے کسی کے بھی قول میں حضرت مجاہد رحمہ اﷲ کا قول محال نہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے گا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا بلکہ اِس بات کا انکار ہے کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ’’اپنے ساتھ‘‘ عرش پر بٹھائے گا۔ مجھ سے عباس بن عبد العظیم نے حدیث بیان کی، اُن سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، اُنہوں نے جریری سے، اُنہوں نے سیف السدوسی سے اور اُنہوں نے حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم قیامت کے دن اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی کرسی پر بیٹھیں گے۔‘‘
وَإِنَّمَا يُنْکَرُ إِقْعَادُه إِيَاه مَعَه قِيْلَ: أَفَجَائِزٌ عِنْدَکَ أَنْ يُقْعِدَه عَلَيْهِ لَا مَعَه؟ فَإِنْ أَجَازَ ذَالِکَ صَارَ إِلَی الْإِقْرَارِ بِأَنَّه إِمَّا مَعَه أَوْ إِلٰی أَنَّه يُقْعِدُه، وَاﷲُ لِلْعَرْشِ مُبَايِنٌ، أَوْ لَا مُمَآسٌّ وَمُبَايِنٌ، وَبِأَيِّ ذَالِکَ قَالَ، کَانَ مِنْهُ دُخُوْلًا فِي بَعْضِ مَا کَانَ يُنْکِرُه، وَإِنْ قَالَ ذَالِکَ غَيْرُ جَائِزٍ مِنْهُ، خُرُوْجًا مِنْ قَوْلِ جَمِيْعِ الْفِرَقِ الَّتِي حَکَيْنَا قَوْلَهُمْ، وَذَالِکَ فِرَاقٌ لِقَوْلِ جَمِيْعِ مَنْ يَنْتَحِلُ الْإِسْلَامَ: إِذْ کَانَ لَا قَوْلَ فِي ذَالِکَ إِلَّا الْأَقْوَالَ الثَّـلَاثَةَ الَّتِي حَکَيْنَاهَا، وَغَيْرُ مُحَالٍ فِيْ قَوْلٍ مِنْهَا مَا قَالَ مُجَاهِدٌ فِيْ ذَالِکَ. اِنْتَهٰی کَـلَامُ ابْنِ جَرِيْرِ(1) رحمه اﷲ.
(1) ابن جرير طبری، جامع البيان في تأويل القرآن، 15 /147.148.
’’اور اﷲ تعالیٰ کا آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے ساتھ بٹھائے جانے کا انکار کیا جاتا ہے۔ تو کہا جائے گا کہ کیا تمہارے نزدیک یہ جائز ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اپنے عرش پر بٹھائے اور ساتھ نہ بٹھائے؟ اگر اس نے یہ جائز قرار دیا تو یہ جواز اس اقرار کی طرف لے جائے گا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم یا تو اﷲ تعالیٰ کے ساتھ ہوں گے یا اس کی طرف لے جائے گا کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بٹھائے گا اور اﷲ تعالیٰ عرش سے الگ ہے یا نہ اس کو مَس کرنے والا ہے نہ الگ ہے۔ اور ان میں سے جس کا بھی قول کرے اس کی طرف سے کچھ نہ کچھ اس میں داخل ہونا لازم آئے گا جس کا وہ انکار کرتا تھا اگر وہ ہمارے بیان کردہ تمام گروہوں کے اقوال کو رد کرتے ہوئے کہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا جائز نہیں ہے تو یہ اسلام کی پرکھ رکھنے والے تمام لوگوں کے قول سے الگ اور جدا قول ہوگا کیونکہ اس معاملے میں ہمارے بیان کردہ تین اقوال کے علاوہ اور کوئی قول نہیں ہے، اور اس معاملے میں مجاہد کے قول میں کوئی استحالہ نہیں۔ ابنِ جریر کی بات ختم ہوئی۔‘‘
وَأَقُوْلُ: لَکَ أَنْ تُجِيْبَ أَيْضًا عَنْ إِيْرَادَاتِ الْوَاحِدِيِّ الْخَمْسَةِ الَّتِي أُفْسِدَ بِهَا قَوْلُ مُجَاهِدٍ.
أَمَّا جَوَابُ إِيْرَادِهِ الْأَوَّلِ: فَإِنَّ مُجَاهِدًا لَمْ يُفَسِّرْ مَادَةَ الْبَعْثِ وَحْدَهَا بِالْإِجْـلَاسِ، وَإِنَّمَا فَسَّرَ بَعْثَهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ بِمَا ذُکِرَ.
وَعَنِ الثَّانِي: بِأَنَّ الْمَقَامَ هُوَ الْمَنْزِلَةُ وَالْقُدْرَةُ وَالرِّفْعَةُ، مَعْرُوْفٌ ذَالِکَ فِي اللُّغَةِ.
وَعَنِ الثَّالِثِ: بِدَفْعِ اللَّازِمِ الْمَذْکُوْرِ، لِأَ نَّه کَمَا اتَّفَقَ عَلٰی أَنَّ لَه ذَاتًا لَا تُمَاثِلُهَا الذَّوَاتُ، فَکَذَالِکَ کُلُّ مَا يُوْصَفُ بِه مِمَّا وَرَدَ فِي الْکِتَابِ وَالْآثَارِ، فَإِنَّه لَا يُمَاثِلُ الصِّفَاتَ، وَلَا يَجُوْزُ قِيَاسُ الْخَاِلقِ عَلَی الْمَخْلُوْقِ.
وَعَنِ الرَّابِعِ: بِأَنَّه مُکَابَرَةٌ، إِذْ کُلُّ أَحَدٍ يَعْرِفُ -فِي الشَّاهِدِ- لَوْ أَنَّ مَلَکًا اسْتَدْعَی جَمَاعَةً لِلْحُضُوْرِ لَدَيْهِ، وَرَفَعَ أَفْضَلَهُمْ عَلٰی عَرْشِه أَنَّ الْمَرْفُوْعَ ذُوْ مَقَامٍ يَفُوْقُ بِهِ الْکُلَّ.
وَعَنِ الْخَامِسِ: بِأَنَّـه مِنْ وَادٍ آخَرَ غَيْرَ مَا نَحْنُ فِيْهِ، إِذْ لَا بَعْثَ لِإِصْلَاحِ الْمُهِمَّاتِ فِي الْآخِرَةِ، وَإِنَّمَا مَعْنَی الآيَةِ: إِنَّه يَرْفَعُکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا، وَذَالِکَ يُصَدِّقُ مَا قَالَه مُجَاهِدٌ، وَمَا قَالَهُ الْأَکْثَرُ: فَتَأَمَّلْ وَأَنْصِفْ.
’’(علامہ جمال الدین قاسمی کہتے ہیں:) میں کہتا ہوں: آپ کا حق ہے کہ واحدی کے ان پانچ سوالوں کے جوابات دیں جن کے ذریعے مجاہد کے قول کو غلط قرار دیا گیا۔
اس کے پہلے سوال کا جواب: یقینًا حضرت مجاہد رحمہ اﷲ نے لفظِ ’’بعث‘‘ کی تفسیر صرف ’’بٹھانے‘‘ سے نہیں کی بلکہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مقامِ محمود پرفائز ہونے کی تفسیر کی ہے۔ (بیٹھنے اور کھڑے ہونے کی بات ہی نہیں کی۔)
دوسرے سوال کا جواب: یہ ہے کہ مقام کا معنی اور مفہوم مرتبہ، قدرت اور بلندی ہے جو لغت میں مشہور ہیں۔
تیسرے سوال کا جواب: کہ یہ اعتراض ہم نہیں مانتے۔ اس لئے کہ جیسے اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جیسی کوئی ذات نہیں اسی طرح قرآن و حدیث میں اﷲ تعالیٰ کی جو بھی صفات بیان کی گئی ہیں ان صفات میں بھی وہ مخلوق کے مماثل نہیں ہے اور خالق کو مخلوق پر قیاس کرنا جائز نہیں۔
چوتھے سوال کا جواب: یہ اعتراض ضد بازی اور تعصب ہے۔ ہر ایک کے مشاہدے میں یہ بات ہے کہ بادشاہ اگر ایک جماعت کو اپنے پاس بلائے اور ان میں افضل شخص کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھائے تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ بلند مقام پر فائز کیا جانے والا یہ شخص اس مقام و مرتبہ کا اہل ہے کہ جس بناء پر وہ ہر ایک پر فوقیت حاصل کر رہا ہے۔
پانچویں سوال کا جواب: اس آیت میں جس جہاں کی بات ہو رہی ہے وہ ہماری اس دنیا سے مختلف ہے کہ وہاں آخرت میں مہمات کو حل کرنے کے لئے کسی کو مقرر نہیں کیا جائے گا۔ جب کہ آیت کا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور یہ اس تفسیر کی تصدیق کرتا ہے جو حضرت مجاہد رحمہ اﷲ نے اور دیگر اکثر (مفسرین) نے کی ہے۔ پس تو غور کر اور انصاف کر۔‘‘
وَقَدْ أَنْشَدَ الْحَافِظُ الذَّهَبِيُّ فِي کِتَابِه ’’اَلْعُلُوُّ ِﷲِ الْعَظِيْمِ‘‘ ِللْإِمَامِ الدَّارَ قُطْنِيِّ فِي تَرْجَمَتِه، قَوْلَه:
حَدِيْثُ الشَّفَاعَةِ فِيْ أَحْمَدَ
إِلٰی أَحْمَدَ الْمُصْطَفٰی نُسْنِدُه
وَأَمَّا حَدِيْثٌ بَإِقْعَادِه
عَلَی الْعَرْشِ أَيْضًا فَـلَا نَجْحَدُه
أَمِرُّوْا الْحَدِيْثَ عَلٰی وَجْهِه
وَلَا تُدْخِلُوْا فِيْهِ مَا يُفْسِدُه
’’حافظ ذہبی نے اپنی کتاب ’العلوّ للّٰہ العظیم‘ میں امام دار قطنی کے حالاتِ زندگی میں یہ اشعار درج کیے ہیں:
(ہم حدیثِ شفاعت کو احمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرف ہی منسوب کرتے ہیں۔ رہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھانے کی روایت تو ہم اُس کا بھی انکار نہیں کرتے۔ حدیث کو اُس کے اصل معنی پر قائم رکھو اور اُس میں ایسی چیزیں داخل نہ کرو جو اُس حدیث کے اصل معنی کو ہی فاسد کر دے)۔‘‘
وَقَالَ الذَّهَبِيُّ فِي کِتَابِهِ الْمُنَوَّهِ بِه: تَرْجَمَةُ ’’مُحَمَّدِ بْنِ مُصْعَبٍ‘‘ الْعَابِدِ شَيْخِ بَغْدَادَ مَا مِثَالُه: وَقَالَ الْمَرْوَزِيُّ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اﷲِ الْخَفَّافَ، سَمِعْتُ ابْنَ مُصْعَبٍ وَتَـلَا: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: نَعَمْ يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ. ذَکَرَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ، مُحَمَّدَ بْنَ مُصْعَبٍ، فَقَالَ: قَدْ کَتَبْتُ عَنْه. وَأَيُّ رَجُلٍ هُوَ.
’’اِس کے بعد امام ذہبی نے اپنی مذکورہ کتاب میں شیخِ بغداد عبادت گزار محمد بن مصعب رحمہ اﷲ کے حالاتِ زندگی بیان کیے اور اُن سے مقامِ محمود کی یہ تفسیر بیان کی ہے: ’’امام مروزی رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبد اﷲ الخفاف رحمہ اﷲ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابنِ مصعب رحمہ اﷲ سے سنا: اُنہوں نے اِس آیت {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} کی تلاوت کی اور فرمایا: ہاں اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ نے شیخِ بغداد محمد بن مصعب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اُن سے احادیث نقل کی ہیں (یعنی وہ امام احمد بن حنبل کے اساتذہ میں سے ہیں)۔‘‘ اور کس بلند مقام کا حامل ہے وہ شخص!‘‘
قَالَ الذَّهَبِيُّ: فَأَمَّا قَضِيَةُ قُعُوْدِ نَبِيِّنَا عَلَی الْعَرْشِ، فَلَمْ يَثْبُتْ فِي ذَالِکَ نَصُّ، بَلْ فِي الْبَابِ حَدِيْثٌ وَاهٍ، وَمَا فَسَّرَ بِه مُجَاهِدٌ الْآيَةَ، کَمَا ذَکَرْنَاه، فَقَدْ أَنْکَرَه بَعْضُ أَهْلِ الْـکَـلَامِ، فَقَامَ الْمَرْوَزِيُّ وَقَدْ بَالَغَ فِي الْاِنْتِصَارِ لِذَالِکَ وَجَمَعَ فِيْهِ کِتَابًا وَطُرُقَ قَوْلِ مُجَاهِدٍ مِنْ رِوَايَةِ لَيْثِ بْنِ أَبِيْ سُلَيْمٍ، وَعَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ وَأَبِيْ يَحْيَی الْقَتَّاتِ وَجَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، وَمِمَّنْ أَفْتٰی فِيْ ذَالِکَ الْعَصْرِ، بِأَنَّ هٰذَا الْأَثْرَ يُسَلَّمُ وَلَا يُعَارَضُ، أَبُوْ دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ صَاحِبُ السُّنَنِ وَإِبْرَاهِيْمُ الْحَرْبِيُّ وَخَلْقٌ.
’’امام ذہبی رحمہ اﷲ نے کہا: ہمارے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر بیٹھنے کا مسئلہ کسی قرآن کی نص سے ثابت نہیں بلکہ اس باب میں کمزور حدیث ہے۔ حضرت مجاہد رحمہ اﷲ نے جو آیتِ مبارکہ کی تفسیر کی ہے جیسا کہ ہم نے اس کا ذکر کیا ہے بعض اہلِ کلام نے اس کا انکار کیا ہے۔ تو امام مروزی رحمہ اﷲ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے کو ثابت کرنے کے لیے بہت تحقیق کی اور اس پر ایک کتاب مرتب کی جس میں حضرت مجاہد رحمہ اﷲ کے اس قول - حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر بٹھائے جانے - کو لیث بن ابی سلیم، عطاء بن السائب، ابو یحییٰ القتات اور جابر بن زید کے طرق سے جمع کیا ہے۔ اس کے علاوہ جن ائمہ نے اُس زمانے میں فتویٰ دیا کہ قولِ مجاہد کو تسلیم کیا جائے گا اور اس کی مخالفت نہیں کی جائے گی، ان کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان میں امام ابو داود سجستانی صاحب السنن، ابراہیم حربی اور بہت سے دیگر علماء شامل ہیں۔‘‘
بِحَيْثُ إِنَّ ابْنَ الْإِمَامِ أَحْمَدَ قَالَ عُقَيْبَ قَوْلِ مُجَاهِدٍ: أَنَا مُنْکِرٌ عَلٰی کُلِّ مَنْ رَدَّ هٰذَا الْحَدِيْثَ، وَهُوَ عِنْدِي رَجُلُ سُوْءٍ مُتَّهَمٌ. سَمِعْتُه مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ مُحَدِّثًا يُنْکِرُه، وَعِنْدَنَا إِنَّمَا تُنْکِرُهُ الْجَهْمِيَةُ.
’’امام احمد بن حنبل کے صاحبزادے نے حضرت مجاہد رحمہ اﷲ کے اس قول پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: جس شخص نے اس حدیث کا انکار کیا میں اُس کا منکر ہوں اور وہ شخص میرے نزدیک ناپسندیدہ اور تہمت زدہ ہے۔ میں نے اس حدیث کو محدّثین کی ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے ایسا کوئی محدث نہیں دیکھا جو اس حدیث کا انکار کرتا ہو۔ ہمارے ہاں اس کا انکار صرف جہمیہ (باطل فرقہ کے پیروکار) کرتے ہیں۔‘‘
وَقَدْ حَدَّثَنَا هَارُوْنُ بْنُ مَعْرُوْفٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِه: {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} قَالَ: يُقْعِدُه عَلَی الْعَرْشِ. فَحَدَّثْتُ بِه أَبِي رحمه اﷲ فَقَالَ: لَمْ يُقَدَّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَه مِنِ ابْنِ فُضَيْلٍ. بِحَيْثُ إِنَّ الْمَرْوَزِيَّ رَوٰی حِکَايَةً بِنُزُوْلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ عَرَفَةَ، وَسَمِعْتُ ابْنَ عُمَيْرٍ يَقُوْلُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُوْلُ: هٰذَا قَدْ تَلَقَّتْهُ الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُوْلِ.
’’اور ہمیں ہارون بن معروف رحمہ اﷲ نے حدیث بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا: ہمیں محمد بن فضیل رحمہ اﷲ نے حدیث بیان کی حضرت لیث رحمہ اﷲ سے اور اُنہوں نے حضرت مجاہد رحمہ اﷲ سے روایت کیا کہ اُنہوں نے اﷲ تعالیٰ کے اِس فرمان - {عَسٰی اَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا} - کی تفسیر میں فرمایا: اﷲ تعالیٰ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا۔ میں نے یہ حدیث اپنے والدِ گرامی (امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ) سے بیان کی تو اُنہوں نے فرمایا: میری قسمت میں نہ تھا کہ میں یہ حدیث ابنِ فضیل رحمہ اﷲ سے براہِ راست سن سکوں۔ امام مروزی رحمہ اﷲ، سند نازل کے ساتھ ابراہیم بن عرفہ رحمہ اﷲ کے طریق سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابنِ عمیر سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اِس قول (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عرش پر تشریف فرما ہونے) کو علماء کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے۔‘‘
وَقَالَ الْمَرْوَزِيُّ: قَالَ أَبُوْ دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: ثَنَا ابْنُ أَبِي صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ، ثَنَا يَحْيَی بْنُ أَبِي کَثِيْرٍ، ثَنَا سَلْمُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَکَانَ ثِقَةٌ، ثَنَا الْجَرِيْرِيُّ، ثَنَا سَيْفٌ السَّدُوْسِيُّ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ رضی الله عنه قَالَ: إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ جِيْئَ بِنَبِيِّکُمْ صلی الله عليه واله وسلم حَتّٰی يُجْلَسَ بَيْنَ يَدَيِ اﷲِ عَلٰی کُرْسِيِّه…الحديث. وَقَدْ رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرِ فِيْ تَفْسِيْرِه، أَعْنِي قَوْلَ مُجَاهِدٍ، وَکَذَالِکَ أَخْرَجَهُ النَّقَّاشُ فِيْ تَفْسِيْرِه، وَکَذَالِکَ رَدَّ شَيْخُ الشَّافِعِيَةِ ابْنُ سُرَيْجٍ عَلٰی مَنْ أَنْکَرَه.
’’امام مروذی رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں کہ امام ابو داود سجستانی رحمہ اﷲ نے فرمایا: ہمیں ابن ابی صفوان الثقفی نے حدیث بیان کی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سلم بن جعفر نے حدیث بیان کی، اور یہ ثقہ ہیں، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں الجریری نے حدیث بیان کی ، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں سیف الدوسی نے حضرت عبد اﷲ بن سلامص سے روایت بیان کی کہ انہوں نے فرمایا: ’’روزِ قیامت تمہارے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو لایا جائے گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو، اﷲ ل کے سامنے اﷲ تعالیٰ کی کرسی پر بٹھایا جائے گا۔ الخ ‘‘ حضرت مجاہد رحمہ اﷲ کے اس قول کو امام ابنِ جریر رحمہ اﷲ نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے اور اسی طرح نقاش نے اسے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اسی طرح شیخ الشافعیہ ابنِ سریج نے اس قول کے منکر کا رد کیا ہے۔‘‘
بَحْيَثُ إِنَّ الْإِمَامَ أَبَا بَکْرِ الْخَلَّالَ قَالَ فِي کِتَابِ ’’السُّنَّةِ‘‘ مَنْ جَمَعَه: أَخْبَرَنِيَ الْحَسَنُ بْنُ صَالِحٍ الْعَطَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ السِّرَاجِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فِي النَّوْمِ فَقُلْتُ:إِنَّ فُـلَانًا التِّرْمِذِيَّ يَقُوْلُ: إِنَّ اﷲَ لَا يُقْعِدُکَ مَعَه عَلَی الْعَرْشِ. وَنَحْنُ نَقُوْلَ: بَلْ يُقْعِدُکَ. فَأَقْبَلَ ( صلی الله عليه واله وسلم ) عَلَيَّ شِبْهَ الْمُغْضَبِ وَهُوَ يَقُوْلُ: بَلٰی، وَاﷲِ، بَلٰی، وَاﷲِ، يُقْعِدُنِيْ عَلَی الْعَرْشِ. فَانْتَبَهْتُ.
’’اِس قول کی تائید میں امام ابو بکر الخلال رحمہ اﷲ اپنی کتاب ’السنۃ‘ میں (ایک خواب) بیان کرتے ہیں: مجھے حسن بن صالح العطار نے، انہوں نے محمد بن علی السراج سے خبر دی وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خواب میں دیکھا تو میں نے عرض کیا: (یارسول اﷲ!) فلاں ترمذ کا رہنے والا شخص کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو عرش پر اپنے ساتھ نہیں بٹھائے گا جب کہ ہم کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو بٹھائے گا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم جلال بھرے چہرے کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرما رہے تھے: ہاں ، اﷲ کی قسم!، ہاں، اﷲ کی قسم! اﷲ تعالیٰ مجھے عرش پر بٹھائے گا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
بَحَيْثُ إِنَّ الْفَقِيْهَ أَبَا بَکْرٍ أَحْمَدَ بْنَ سُلَيْمَانَ النَّجَّادَ الْمُحَدِّثَ قَالَ: فِيْمَا نَقَلَه عَنْهُ الْقَاضِي أَبُو يَعْلَی الْفَرَّاءُ لَوْ أَنَّ حَالِفًا حَلَفَ بِالطَّلَاقِ ثَـلَاثًا، إِنَّ اﷲَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صلی الله عليه واله وسلم عَلَی الْعَرْشِ. وَاسْتَفْتَانِي، لَقُلْتُ لَه: صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ.
’’قاضی ابو یعلی الفراء نے نقل کیا کہ محدّث و فقیہ امام ابو بکر احمد بن سلیمان النجاد رحمہ اﷲ بیان کرتے ہیں: اگر کوئی شخص اس بات پر حلف اُٹھائے: ’’اگر یہ بات غلط ہو کہ اﷲ تعالیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا تو میری بیوی کو تین طلاقیں‘‘ اور وہ مجھ سے فتویٰ لینے آئے تو میں اس سے کہوں گا: تُو نے حق اور سچ بات کہی۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved