33 /1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ: يَا فُـلَانُ، اِشْفَعْ، يَا فُـلَانُ، اِشْفَعْ، حَتّٰی تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَذَالِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اﷲُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ.
رَوَهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله: عسی أن يبعثک ربک مقامًا محمودًا، 4 /1748، الرقم: 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 /381، الرقم: 11295، وابن منده في اليمان، 2 /871، الرقم: 927، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /309، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /56.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا: قیامت کے روز لوگ گروہ در گروہ اپنے اپنے نبی کے پیچھے چلیں گے اور عرض کریں گے: اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے، اے فلاں! ہماری شفاعت فرمائیے حتی کہ طلبِ شفاعت کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر آکر ختم ہو جائے گے۔ یہی وہ دن ہے جب اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
34 /2. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم: مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ النَّاسَ حَتّٰی يْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِيْ وَجْهِه مُزْعَةُ لَحْمٍ. وَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَهُمْ کَذَالِکَ اسْتَغَاثُوْا بآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسٰی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم . وَزَادَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ صَالِحٍ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ: فَيَشْفَعُ لِيُقْضٰی بَيْنَ الْخَلْقِ، فَيَمْشِي حَتّٰی يْخُذَ بِحَلَقَةِ الْبَابِ فَيَوْمَئِذٍ يَبْعَثُهُ اﷲُ مَقَامًا مَحْمُوْدًا، يَحْمَدُه أَهْلُ الْجَمْعِ کُلُّهُمْ. رَوَهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَنْدَه.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الزکاة، باب من سأل الناس تکثرًا، 2 /536، الرقم: 1405، وابن منده في اليمان، 2 /854، الرقم: 884، والبيهقي في شعب اليمان، 3 /269، الرقم: 3509، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /377، الرقم: 3677، والطبري في جامع البيان، 15 /146، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /56.
’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص (دنیا میں پیشہ ور بھکاری بن کر) لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرہ پر گوشت کا ٹکڑا تک نہ ہوگا۔ اور فرمایا: قیامت کے دن سورج (مخلوق کے) اتنا قریب ہوگا کہ (ان کا) پسینہ نصف کان تک پہنچ جائے گا۔ پس وہ اس حال میں حضرت آدم علیہ السلام سے مدد طلب کریں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مدد طلب کرنے جائیں گے۔ حضرت عبد اﷲ بن جعفر نے اتنا اضافہ بیان کیا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ان سے ابنِ ابی جعفر نے بیان کیا: آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جائیں گے حتی کہ جنت کے دروازے کا کنڈا پکڑ لیں گے۔ یہ وہ دن ہوگا جب اﷲ تعالیٰ آپ کو مقامِ محمود پر فائز فرمائے گا اور سارے اہلِ محشر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعریف کریں گے۔‘‘
اِسے امام بخاری اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے۔
35 /3. عَنْ يَزِيْدَ الْفَقِيْرِ قَالَ: کُنْتُ قَدْ شَغَفَنِي رَأْيٌ مِنْ رَأْيِ الْخَوَارِجِ، فَخَرَجْنَا فِي عِصَابَةٍ ذَوِي عَدَدٍ نُرِيْدُ أَنْ نَحُجَّ، ثُمَّ نَخْرُجَ عَلَی النَّاسِ. قَالَ: فَمَرَرْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، جَالِسٌ إِلٰی سَارِيَةٍ، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم . قَالَ: فَإِذَا هُوَ قَدْ ذَکَرَ الْجَهَنَّمِيِّيْنَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَه: يَا صَاحِبَ رَسُوْلِ اﷲِ، مَا هٰذَا الَّذِيْ تُحَدِّثُوْنَ؟ وَاﷲُ يَقُوْلُ: {إِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَه} [آل عمران، 3: 192] وَ{کُلَّمَآ أَرَادُوْا أَنْ يَخْرُجُوْا مِنْهَآ أُعِيْدُوْا فِيْهَا} [السجدة، 32: 20] فَمَا هٰذَا الَّذِي تَقُوْلُوْنَ؟ قَالَ: أَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ بِمَقَامِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ (يَعْنِي الَّذِي يَبْعَثُهُ اﷲُ فِيْهِ)؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّه مَقَامُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم الْمَحْمُوْدُ الَّذِي يُخْرِجُ اﷲُ بِه مَنْ يُخْرِجُ، قَالَ: ثُمَّ، نَعَتَ وَضْعَ الصِّرَاطِ وَمَرَّ النَّاسِ عَلَيْهِ، قَالَ: وَأَخَافُ أَنْ لَا أَکُوْنَ أَحْفَظُ ذَاکَ، قَالَ: غَيْرَ أَنَّه قَدْ زَعَمَ أَنَّ قَوْمًا يَخْرُجُوْنَ مِنَ النَّارِ بَعْدَ أَنْ يَکُوْنُوْا فِيْهَ. قَالَ: يَعْنِي فَيَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمْ عِيْدَانُ السَّمَاسِمِ. قَالَ: فَيَدْخُلُوْنَ نَهْرًا مِنْ أَنْهَارِ الْجَنَّةِ فَيَغْتَسِلُوْنَ فِيْهِ، فَيَخْرُجُوْنَ کَأَنَّهُمُ الْقَرَاطِيْسُ، فَرَجَعْنَا، قُلْنَا: وَيْحَکُمْ أَتَرَوْنَ الشَّيْخَ يَکْذِبُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم ؟ فَرَجَعْنَا فَـلَا وَاﷲِ، مَا خَرَجَ مِنَّا غَيْرُ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَوْ کَمَا قَالَ أَبُوْ نُعَيْمٍ. رَوَهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَابْنُ مَنْدَه.
3: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب أدني أهل الجنة منزلة فيها، 1 /179، الرقم:(320) 191، وأبو عوانة في المسند، 1 /154، الرقم: 448، وابن منده في اليمان، 2 /829، الرقم: 858، والبيهقي في شعب اليمان، 1 /289، الرقم: 315، وأيضًا في الاعتقاد، 1 /195.
’’یزید الفقیربیان فرماتے ہیں کہ مجھے خوارج کی رائے نے گھیر لیا تھا (کہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہمیشہ جہنم میں رہیں گے)۔ ہم لوگوں کی ایک کثیر جماعت کے ساتھ حج کرنے کے لئے نکلے (اور سوچا کہ بعد میں) ہم لوگوں کے پاس (اپنے اس عقیدہ کی تبلیغ کرنے) جائیں گے۔ فرماتے ہیں: ہمارا گزر مدینہ منورہ سے ہوا تو دیکھا کہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما ایک ستون کے پاس بیٹھے لوگوں کو احادیث بیان فرما رہے ہیں۔ بیان کرتے ہیں: اچانک انہوں نے جہنمیوں کا ذکر فرمایا تو میں نے ان سے عرض کیا: اے صحابی رسول! آپ یہ کیا بیان کرتے ہیں؟ اﷲ تعالیٰ تو (جہنمیوں کے بارے) فرماتا ہے: ’’بے شک تو جسے دوزخ میں ڈال دے تو تُو نے اسے واقعۃً رسوا کردی۔‘‘ اور ایک مقام پر ہے: ’’(دوزخی) جب بھی اس میں سے نکلنا چاہیں گے تو پھر اسی میں دھکیل دیئے جائیں گے۔‘‘ آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما نے فرمایا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں! فرمایا: کیا تم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا وہ مقام پڑھا ہے جس پر اﷲ تعالیٰ انہیں فائز فرمائے گا؟ میں نے کہا: ہاں! فرمایا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقام ایسا مقامِ محمود ہے جس پر فائز ہونے کے سبب اﷲ تعالیٰ جس کو چاہے گا جہنم سے نکالے گا۔ فرماتے ہیں: پھر انہوں نے پل صراط اور لوگوں کے اس پر گزرنے کو بیان فرمایا۔ کہتے ہیں: مجھے ڈر ہے کہ شاید میں اسے یاد نہ رکھ سکوں۔ تاہم انہوں نے یہ بیان کیا کہ لوگ جہنم میں داخل ہونے کے بعد اس سے نکلیں گے۔ ابو نعیم کہتے ہیں: وہ ایسے نکلیں گے جیسا کہ آبنوس کی جلی ہوئی لکڑیاں، اُنہوں نے فرمایا: پھر وہ جنت کی نہروں میں سے ایک نہر میں داخل ہوں گے، اُس میں غسل کریں گے پھر اُس نہر سے نکلیں گے گویا کہ وہ سفید کاغذ ہیں۔ پس ہم وہاں سے لوٹے اور ہم نے آپس میں کہا: تم پر افسوس ہو! کیا یہ بزرگ ہستی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر جھوٹ باندھتی ہے؟ پس ہم نے (عقیدہ خوارج) سے رجوع کرلی۔ اﷲ کی قسم! ایک شخص کے سوا ہم میں سے کسی نے خروج نہیں کیا یا جیسا کہ امام ابو نعیم نے بیان کیا ہے۔‘‘
اِسے امام مسلم، ابو عوانہ اور ابنِ مندہ نے روایت کیا ہے۔
36 /4. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ: فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَـلَاثَ فَزَعَاتٍ، فَيَأْتُوْنَ آدَمَ، فَيَقُوْلُوْنَ: أَنْتَ أَبُوْنَا آدَمُ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلٰی رَبِّکَ، فَيَقُوْلُ: إِنِّي أَذْنَبْتُ ذَنْـبًا هْبِطْتُ مِنْهُ إِلَی الْأَرْضِ، وَلٰـکِنِ ائْتُوْا نُوْحًا فَيَأْتُوْنَ نُوْحًا، فَيَقُوْلُ: إِنِّي دَعَوْتُ عَلٰی هْلِ الْأَرْضِ دَعْوَةً فَهْلِکُوْا، وَلٰـکِنِ اذْهَبُوْا إِلٰی إِبْرَهِيْمَ فَيَأْتُوْنَ إِبْرَهِيْمَ، فَيَقُوْلُ: إِنِّي کَذَبْتُ ثَـلَاثَ کَذِبَاتٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : مَا مِنْهَا کَذِبَةٌ إِلَّا مَا حَلَّ بِهَا عَنْ دِيْنِ اﷲِ وَلٰـکِنِ ائْتُوْا مُوْسٰی فَيَأْتُوْنَ مُوْسٰی، فَيَقُوْلُ: إِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا وَلٰـکِنِ ائْتُوْا عِيْسٰی فَيَأْتُوْنَ عِيْسٰی، فَيَقُوْلُ: إِنِّي عُبِدْتُّ مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَلٰـکِنِ ائْتُوْا مُحَمَّدًا، قَالَ: فَيَأْتُوْنَنِي، فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ: قَالَ أَنَسٌ: فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا، فَيُقَالُ: مَنْ هٰذَا؟ فَيُقَالُ: مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُوْنَ لِي وَيُرَحِّبُوْنَ بِي، فَيَقُوْلُوْنَ: مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا، فَيُلْهِمُنِيَ اﷲُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي: اِرْفَعْ رَأْسَکَ وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَوْلِکَ، وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اﷲُ: {عَسٰی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًاo} [الإسراء، 17: 79]. رَوَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
4: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بني إسرائيل، 5 /308، الرقم: 3148.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور یہ فخر کے اظہار کے لئے نہیں (بلکہ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کر رہا ہوں)، حمد کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہوگا اور اس پر فخر کا اظہار نہیں کرتا، حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کے علاوہ سارے انبیاء اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور اس پر فخر کا اظہار نہیں کرتا۔ میں ہی پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور اس پر فخر کا اظہار نہیں کرت۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: لوگ تین بار گھبراہٹ میں مبتلا ہوں گے پھر حضرت آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہو کر عرض کریں گے: آپ ہمارے باپ ہیں اپنے ربّ سے ہماری شفاعت کیجئے۔ آپ فرمائیں گے: مجھ سے لغزش واقع ہوئی جس کے باعث مجھے زمین پر اُتار دیا گیا بلکہ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ، پھر وہ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو آپ فرمائیں گے: میں نے زمین والوں کے لئے ایک بد دعا کی تھی جس کے باعث سارے لوگ ہلاک کر دیئے گئے تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ حضرت ابراہیم کے پاس آئیں گے تو آپ فرمائیں گے: میں نے تین مرتبہ (بظاہر) خلافِ واقعہ بات کہی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: انہوںنے ان تینوں باتوں سے دینِ الٰہی کو بچانے کے لئے حیلہ کیا، حضرت ابراہیم فرمائیں گے حضرت موسیٰ کے پاس جاؤ، وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس حاضر ہوں گے تو آپ فرمائیں گے: میں نے ایک آدمی کو قتل کیا تھا تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، وہ سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے: لوگوں نے اﷲ کے علاوہ مجھے بھی معبود بنا لیا تھا تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں جاؤ، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں: پھر وہ میرے پاس آئیں گے تو میں ان کے ساتھ چلوں گا۔ ابنِ جدعان (راوی حدیث) کہتے ہیں: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گویا میں اب بھی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں جنت کے دروازے کی زنجیر پکڑ کر کھٹکھٹاؤں گا، تو کہا جائے گا: یہ کون ہیں؟ جواب دیا جائے گا: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔ چنانچہ وہ میرے لئے دروازہ کھولیں گے اور مجھے مرحبا کہیں گے، میں (اﷲ کے سامنے) سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا: سر اُٹھائیے، اور مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور کہیے آپ کی بات مانی جائے گی۔ (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:) یہی وہ مقام محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یقینا آپ کا ربّ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘ اِسے امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
37 /5. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُکْسٰی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَـلَائِقِ يَقُوْمُ ذَالِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي.
رَوَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
5: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في فضل النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5 /585، الرقم: 3611، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 7 /92، والمناوي في فيض القدير، 3 /41.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں ہی وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس سے زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے ہی جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا، اس مقام پر ساری مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہو گا۔‘‘
اِسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
38 /6. وفي رواية عَنْ سَلْمَانَ رضی الله عنه قَالَ: فَيُقَالُ لَه صلی الله عليه واله وسلم : سَلْ تُعْطَه يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم فَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَادْعُ تُجَبْ فَيَرْفَعُ رَأْسَه فَيَقُوْلُ: أُمَّتِي أُمَّتِي مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا فَقَالَ سَلْمَانُ: فِي کُلِّ مَنْ فِي قَلْبِه مِثْقَالُ حَبَّةِ حِنْطَةٍ مِنْ يْمَانٍ أَوْ مِثْقَالُ شَعِيْرَةٍ مِنْ يْمَانٍ أَوْ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ يْمَانٍ. قَالَ سَلْمَانُ: فَذَالِکَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ. رَوَهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.
6: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، کتاب اليمان والرؤيا، 6 /166، الرقم: 30387.
’’ایک روایت میں حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کہا جائے کا کہ مانگئے آپ کو عطا کیا جائے گا، شفاعت کیجئے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، دعا مانگئے آپ کی دعا قبول کی جائے گی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنا سر انور اُٹھائیں گے اور دو یا تین مرتبہ اُمتی اُمتی (اے اﷲ! میری اُمت، میری اُمت) کہیں گے۔حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شفاعت ہر اُس شخص کے لئے ہو گی جس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر یا جو کے برابر یا تل کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہی آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مقام محمود ہے۔‘‘
اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
39 /7. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي اﷲ عنهما أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم تَـلَا قَوْلَ اﷲِفِي إِبْرَهِيْمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِيْرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّيْ} الآية [إبرهيم، 14:36] وَقَالَ عِيْسٰی عليه السلام:{إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ} [المائدة،5:118] فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَقَالَ: اَللّٰهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي وَبَکٰی فَقَالَ اﷲُ: يَا جِبْرِيْلُ، اِذْهَبْ إِلٰی مُحَمَّدٍ، وَرَبُّکَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ: مَا يُبْکِيْکَ؟ فَأَتَه جِبْرِيْلُ عليه السلام فَسَأَلَه فَأَخْبَرَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اﷲُ: يَا جِبْرِيْلُ، اِذْهَبْ إِلٰی مُحَمَّدٍ فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِيْکَ فِيْ أُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْئُکَ. رَوَهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وابْنُ مَنْدَه.
7: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب اليمان، باب دعاء النبي صلی الله عليه واله وسلم لأمته وبکائه شفقة عليهم، 1 /191، الرقم: 202، والنسائي في السنن الکبري، 6 /373، وأبو عوانة في المسند، 1 /138، الرقم: 415، وابن منده في اليمان، 2 /868، الرقم: 924 والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /367، الرقم: 8894، والبيهقي في شعب اليمان، 1 /282، الرقم: 303، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 /93، وابن کثير في تفسير القرآن، 2 /122،541، والسيوطي في الدر المنثور، 3 /240، ويضًا، 8 /543.
’’حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرآن کریم میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: ’’اے میرے ربّ! ان (بتوں) نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر ڈالا ہے۔ پس جس نے میری پیروی کی وہ تو میرا ہو گا اور جس نے میری نافرمانی کی تو بے شک تُو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہےo‘‘ اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام کا یہ قول ہے: ’’ اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہےo‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: اے اﷲ! میری امت کو بخش دے، میری امت کو بخش دے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر گریہ طاری ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل! محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے پاس جائو، حالانکہ تیرے رب کو خوب علم ہے، اور ان سے معلوم کرو کہ اُن پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کو خبر دی، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل سے فرمایا: اے جبرائیل! محمد( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کے پاس جائو اور ان سے کہو کہ آپ کی اُمت کی بخشش کے معاملہ میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ خاطر نہیں کریں گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔
40 /8. وفي رواية: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أَشْفَعُ لِأُمَّتِي حَتّٰی يُنَادِيَنِي رَبِّي فَيَقُوْلُ: أَرَضِيْتَ يَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ رَضِيْتُ. رَوَهُ الطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
8: أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط،2 /307، الرقم: 2062، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 /179، والهندي في کنز العمال، 14 /637، الرقم: 39758.
’’اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی اُمت کے لئے شفاعت کروں گا یہاں تک کہ میرا ربّ مجھے پکار کر فرمائے گا: اے محمد، کیا آپ راضی ہو گئے؟ تو میں کہوں گا: ہاں (اے میرے ربّ!) میں راضی ہو گیا ہوں۔‘‘
اِسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
41 /9. وَذَکَرَ الْعَلَّامَةُ الْخَازِنُ فِي تَفْسِيْرِه عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: هِيَ الشَّفَاعَةُ فِي أُمَّتِه صلی الله عليه واله وسلم حَتّٰی يَرْضٰی.
9: ذکره الخازن في لباب التأويل في معاني التنزيل،4 /386.
’’علامہ خازن اپنی تفسیر میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اُمت کے حق میں شفاعت کرنا ہے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم راضی ہو جائیں گے۔‘‘
42 /10. وَذَکَرَ الْعَلَّامَةُ الْقُرْطَبِيُّ وَالرَّازِيُّ وَغَيْرُهُمْ: وَفِي الْحَدِيْثِ لَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْيَةُ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : إِذًا وَاﷲِ، لَا أَرْضٰی وَوَاحِدٌ مِنْ أُمَّتِيْ فِي النَّارِ.
10: ذکره القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20 /96، والرازي في التفسير الکبير، 31 /192، والمحلي والسيوطي في تفسير الجلالين، 1 /812، والواحدي في تفسيره، 2 /1211.
’’علامہ قرطبی، رازی، اور ان کے علاوہ دوسرے ائمہ تفسیر بیان کرتے ہیں کہ حدیث شریف میں ہے: جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اُس وقت تک راضی نہیں ہوں گا جب تک میرا ایک اُمتی بھی دوزخ میں ہو گا۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved