آیئے پہلے ہم اِس موضوع پر ہونے والی سائنسی تحقیقات کے نمایاں خدّوخال کا مختصر جائزہ لیتے ہیں :
قرآنِ مجید کائنات کے تمام موجودات کی کششی دھماکے سے رُونما ہونے والی حالت اور اُس کی بے تحاشا تباہی۔ ۔ ۔ جس کے نقوش یومِ قیامت کی صورت میں ہیں۔ ۔ ۔ کو یوں واضح طور پر بیان کرتا ہے :
إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةO لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا کَاذِبَةٌO خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌO إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّاO وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاO فَکَانَتْ هَبَآءً مُّنْبَثًّاO
(الواقعه، 56 : 1 - 6)
(یاد رکھو) جب قیامت واقع ہو جائے گیo تب اُسے جھوٹ سمجھنے کی گنجائش کسی کے لئے نہ ہو گیo کسی کو پست اور کسی کو بلند کرنے والیo جب زمین کپکپا کر لرزنے لگے گیo اور پہاڑ ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گےo پھر (مکمل طور پر) غبار بن کر اُڑنے لگیں گےo
يوْمَ تَرْجُفُ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ وَ کَانَتِ الْجِبَالُ کَثِيْبًا مَّهِيْلاًO
(المزمل، 73 : 14)
جس دِن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ (ریزہ ریزہ ہو کر) ریت کے بھربھرے تودّے ہو جائیں گےo
اَلسَّمَآءُ مُنْفَطِرٌ مبِه‘ط کَانَ وَعْدُه‘ مَفْعُوْلاًO
(المزمل، 73 : 18)
جس (دِن کی دہشت) سے آسمان پھٹ جائے گا، (یاد رکھو کہ) اُس کا وعدہ (پورا) ہو کر رہے گاo
وَ حُمِلَتِ الْأَرْضُ وَ الْجِبَالُ فَدُکَّتَا دَکَّة وَّاحِدَةًO فَيَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَةُO وَ انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَهِیَ يَوْمَئِذٍ وَّاهِيَةٌO
(الحاقه، 69 : 14 - 16)
اور زمین اور پہاڑ اُٹھائے جائیں گے پھر یکبارگی ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گےo پس اُسی وقت جس (قیامت) کا ہونا یقینی ہے وہ واقع ہو جائے گیo اور آسمان پھٹ جائے گا، پھر اُس دن وہ بالکل بودا (بے حقیقت) ہو جائے گاo
وَ نَرَاهُ قَرِيْبًاO يَوْمَ تَکُوْنُ السَّمَآءُ کَالْمُهْلِO وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِهْنِO
(المعارج، 70 : 7 - 9)
اور وہ ہماری نظر میں قریب ہےo جس دِن آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی مانند ہو گاo اور پہاڑ رنگین اُون کے گالے کی طرح ہلکے ہوں گےo
إِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْO وَ إِذَا النُّجُومُ انْکَدَرَتْO وَ إِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْO
(التکوير، 81 : 1 - 3)
جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گاo اور جب ستارے (اپنی کہکشاؤں سے) گِر پڑیں گےo اور جب پہاڑ (غبار بن کر فضا میں) چلا دیئے جائیں گےo
إِذَا السَّمَآءُ انْفَطَرَتْO وَ إِذَا الْکَوَاکِبُ انْتَثَرَتْO وَ إِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْO
(الانفطار، 82 : 1 - 3)
جب (سب) آسمانی کرے پھٹ جائیں گےo اور سیارے گِر کر بھر جائیں گےo اور جب سمندر (اور دریا) اُبھر کر بہہ جائیں گےo
وَ الْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلّٰهِ.
(الانفطار، 82 : 19)
اور اُس دن (ہر طرح کی) حکم فرمائی اﷲ ہی کی ہو گیo
يَسْئَلُ أَيَّاَن يَوْمُ الْقِيَامَةِO فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُO وَ خَسَفَ الْقَمَرُO وَ جُمِعَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُO يَقُوْلُ الْإِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ أَيْنَ الْمَفَرُّO
(القيامة، 75 : 6 - 10)
وہ پوچھتا ہے کہ قیامت کا دِن کب ہو گاo پھر جب (ربُّ العزت کی تجلئ قہری سے) آنکھیں چکا چوند ہو جائیں گیo اور چاند بے نور ہو جائے گاo اور سورج اور چاند ایک سی حالت پر آ جائیں گےo اُس روز اِنسان کہے گا کہ (اب) کہاں بھاگ کر جاؤںo
إِنَّمَا تُوْعَدُوْنَ لَوَاقِعٌO فَإِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْO وَ إِذَا السَّمَآءُ فُرِجَتْO وَ إِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْO
(المرسلات، 77 : 7 - 10)
بیشک تم سے جو وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور (پورا) ہو کر رہے گاo پھر جب تارے بے نور ہو جائیں گےo اور جب آسمان پھٹ جائے گاo اور جب پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر اُڑتے پھریں گےo
وَ فُتِحَتِ السَّمَآءُ فَکَانَتْ أَبْوَاباًO وَّ سُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَکَانَتْ سَرَاباًO
(النباء، 78 : 19، 20)
اور آسمان کے طبقات پھاڑ دیئے جائیں گے تو (پھٹنے کے باعث گویا) وہ دروازے ہی دروازے ہو جائیں گےo اور پہاڑ (غبار بن کر فضا میں) اُڑا دیئے جائیں گے، سو وہ سراب (کی طرح کالعدم) ہو جائیں گےo
الْقَارِعَةُO مَا الْقَارِعَةُO وَ مَآ أَدْرٰکَ مَا الْقَارِعَةُO يَوْمَ يَکُوْنُ النَّاسُ کَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوْثِO وَ تَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِO
(القارعة، 101 : 1 - 5)
(زمین و آسمان کی ساری کائنات کو) کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑکo وہ (ہر شے) کو کھڑکھڑا دینے والا شدید جھٹکا اور کڑک کیا ہے؟o اور آپ کیا سمجھے ہیں کہ (ہر شے کو) کھڑکھڑا دینے والے شدید جھٹکے سے کیا مُراد ہے؟o (اِس سے مُراد) وہ یومِ قیامت ہے جس دِن سارے لوگ بکھرے ہوئے پروانوں کی طرح ہو جائیں گےo اور پہاڑ رنگ برنگ دُھنکی ہوئی اُون کی طرح ہو جائیں گےo
کَلاَّ إِذَا دُکَّتِ الْأَرْضُ دَکًّا دَکًّاO
(الفجر، 89 : 21)
یقیناً جب زمین پاش پاش کرکے ریزہ ریزہ کر دی جائے گیo
وَ إِذَا السَّمَآءُ کُشِطَتْO
(التکوير، 81 : 11)
اور جب سماوِی طبقات کو پھاڑ کر اپنی جگہوں سے ہٹا دیا جائے گاo
يَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءُ.
(الأنبياء، 21 : 104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوِی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
وَ الْأَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُه‘ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِيَّاتٌ مبِيَمِيْنِهط.
(الزُمر، 39 : 67)
قیامت کے دِن تمام زمین اُس کی مٹھی میں (ہو گی) اور آسمان (کاغذ کی طرح) لپٹے ہوئے اُس کے داہنے ہاتھ میں ہوں گے۔
مذکورہ بالا آیاتِ کریمہ کی تشریح و توضیح سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے شمار اَحادیثِ مبارکہ میں بھی پائی جاتی ہے :
1۔ تاجدارِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ مُکَوَّرَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
(صحيح البخاری، کتاب بدء الخلق، 1 : 454)
روزِ قیامت چاند اور سورج اپنی روشنی کھو کر ایک دُوسرے سے جا ٹکرائیں گے۔
مختلف شارِحینِ حدیث کے مطابق سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اِس حدیثِ مبارکہ میں’’ مُکَوَّرَانِ‘‘ کا لفظ اپنے اندر تین معانی رکھتا ہے :
2۔ سیدنا مِقداد رضی اللہ عنہ سے مروِی اِسی مفہوم میں وارِد ہونے والی ایک اور حدیثِ مبارکہ میں تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تُدْنَی الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْخَلْقِ.
(الصحيح لمسلم، 2 : 384)
(جامع الترمذی، 2 : 64)
(مسند احمد بن حنبل، 4 : 157)
(مسند احمد بن حنبل، 5 : 254)
قیامت کے روز سورج مخلوق سے اِنتہائی قریب آن پہنچے گا۔
-3 سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اِسی مفہوم میں ایک اور حدیثِ مبارکہ روایت کی ہے :
يَقْبِضُ اﷲُ الْأَرْضَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ يَطْوِی السَّمَآءَ بِيَمِيْنِهِ، ثُمَّ يَقُوْلُ : (أَنَا الْمَلِکُ أَيْنَ مُلُوْکُ الْأَرْضِ)؟
(صحيح البخاری، 2 : 1098)
(الصحيح لمسلم، 2 : 370)
(سنن ابنِ ماجه، مقدمه : 192)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 374)
(سنن الدارمی، 2 : 233)
قیامت کے دن اﷲتعالیٰ زمین اور آسمان(کائنات کی تمام موجودات) کو لپیٹ لے گا اور اپنی قوّت سے اُنہیں باہم ٹکرا دے گا اور فرمائے گا : ’’میں کائنات کا مالک ہوں، زمین کی بادشاہی (کا دعویٰ کرنے) والے کہاں ہیں‘‘؟
ہمیں کائنات کے قیامت خیز اِنہدام کے بارے میں جدید سائنسی تحقیقات اور علومِ قرآنیہ کے مابین ناقابلِ تصوّر یگانگت اور مطابقت دیکھنے کو ملتی ہے۔ فلکی طبیعیات کی سائنس قیامت سے متعلقہ اُمور کو بالکل اُسی طرح واضح کرتی ہے جس طرح اُنہیں قرآنِ مجید نے بیان کیا ہے۔ سیاہ شگافوں یا ناقابلِ دید مُنہدم ستاروں کی تصدیق قرآنِ مجید نے بھی ناقابلِ دید گزرگاہوں کے طور پر کی ہے۔
’انجینئر فتح خان‘٭ کا یہ قول بالکل درُست ہے کہ بیسویں صدی کی طبیعی سائنس اور قرآنِ حکیم کے درمیان معجزاتی موافقت اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔
قرآنِ مجید نے بیشتر سائنسی حقائق اَدبی، اِستعاراتی یا تمثیلی اَنداز میں بیان کئے ہیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں :
’آئن سٹائن‘ کے نظریہ کے مطابق کشش محض ایک پابندِ جہات ہے جو مادّے اور توانائی کی موجودگی میں گِھری ہوئی ہے، بالکل اِسی طرح جیسے ایک گدّا (Mattress) بھاری بھرکم جسم کے بوجھ تلے دَب جاتا ہے۔ جتنا کسی مادّے کا مقامی اِرتکاز زیادہ ہو گا مکاں کا اِنحناء اُس کے آس پاس اُسی قدر زیادہ ہو گا۔ جب تھرمونیوکلیائی آگ کا اِیندھن ختم ہو جائے گا اور کشش اُسے اندرونی سمت مُنہدم کر دے گی تو اُس وقت کیا وُقوع پذیر ہو گا؟ (آج ہم اُس کا تصوّر کرنے سے بھی قاصر ہیں)
ہمارے سورج کی جسامت کا ستارہ سکڑ کر زمین جتنے قد کا ’سفید بونا‘ (White Dwarf) بن جاتا ہے جبکہ اُس سے بڑے ستاروں کو کشش کچل کر ’نیوٹران‘ پر مشتمل ٹھوس گیند بنا سکتی ہے۔ جس کے ایک چمچ بھر مِقدارِ مادّہ کا وزن۔ ۔ ۔ جو 20میل قطر کے حامل ایٹمی مرکزوں کے جڑے ہونے کی حالت ہے۔ ۔ ۔ کئی ارب ٹن ہوتا ہے۔ اُس کے بعد ’نیوٹران تارے‘ کے مرحلے میں اُس کی کثافت اِتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ مکاں اُس کے گِرد سیاہ مکے کی طرح لپٹ جاتا ہے اور روشنی سمیت کوئی بھی شے پھر اُس ستارے کو چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ ستارے کا باقی ماندہ (ملبہ) اپنے آپ کو خوب دباتے ہوئے یوں بھینچتا چلا جاتا ہے کہ اُس کی کثافت لامحدُود ہو جاتی ہے اور مکاں لامحدُود سطح تک مُڑ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ کائناتی موت کی صورت میں نکلتا ہے جسے ’اِکائیت‘ (Singularity) کہتے ہیں، اور یہاں عمومی اِضافیت، مکاں، زماں اور علمِ طبیعیات کے دُوسرے بہت سے قوانین ٹوٹ جاتے ہیں۔
قیامت کے روز اِن حالات کے تمام کائنات پر غالب آ جانے کا معاملہ قرآنِ مجید یوں بیان کرتا ہے :
يَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِط کَمَا بَدَأْ نَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه‘ط وَعْدًا عَلَيْنَاط إِنَّا کُنَّا فَاعِلِيْنَO
(الأنبياء، 21 : 104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوِی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo
’جان وِیلر‘ (John Wheeler) کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص ’عمومی اِضافیت‘ کو سنجیدگی سے لے تو (وہ دیکھے گا کہ) عام کششی تباہی ایک حقیقی اِمکان ہے اور اُس نے فطرت کی اِس عجیب و غریب تخلیق کو ’سیاہ شگاف‘ کا نام دیا ہے۔ اِسی چیز کا ذِکر قرآنِ مجید ’ناقابلِ دِید آسمان‘ کے طور پر کرتا ہے۔ جان وِیلر کے مطابق (کائنات میں جابجا موجود) سیاہ شگاف آخری (قیامت خیز) تباہی کے سلسلے میں فقط ریہرسل ہے، جو اُس کے خیال میں اِختتامِ کائنات کے وقت تخلیق (کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہوئے اُس) کا پردہ چاک کر دے گی۔ قرآنِ مجید کے مطابق وہ آخری تباہی یومِ قیامت کی صورت میں برپا ہو گی۔
’جان وِیلر‘ کہتا ہے کہ اگر کائنات سیاہ شگاف کے متعلق طبیعیاتی قوانین کے مطابق ٹکرائی تو نئی جیومیٹری کے ساتھ اُس کے پھر سے معرضِ وُجود میں آ جانے کے اِمکانات بھی رَوشن ہیں۔ ’عظیم آخری تباہی‘ (Big Crunch) کائنات کے (ایک نئے) ’اوّلین عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کا باعث بن سکتی ہیں۔ جس کا نتیجہ ’جھولتی ہوئی کائنات‘ (Oscillating Universe) یعنی ’ناقابلِ اِختتام کائناتی پھیلاؤ اور ٹکراؤ کے چکر‘ کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ کائنات کی ایک شکل سے دُوسری میں تبدیلی کے دوران ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جسے جان وِیلر ’بہت اَعلیٰ مکاں‘ (Super Space) کہتا ہے۔ وہ ایک مطلق لامحدُود جہات کا حامل مکاں ہے، جس کا ہر نقطہ کائنات کی مکمل ترکیب اور جیومیٹری کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ وِیلر زور دے کر کہتا ہے کہ ’بہت اَعلیٰ مکاں‘ شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ ’عمومی اِضافیت کا متحرّک اکھاڑا‘ ہے۔ جیسا کہ وہ ذرا سی مبہم لائن پر ایک نقطے(بِگ بینگ) سے دُوسرے نقطے (بِگ کرنچ) کا پیچھا کرتے ہوئے نظریہ اِضافیت کے مطابق کائنات میں دخل اَنداز ہے۔
دُوسری کائنات کِس نقطے پر رُوپذیر ہو گی؟ اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید میں پہلے سے موجود ہے، جو قطعی طور پر یہ کہتا ہے کہ ہاں دُوسری کائنات یقیناً پیدا ہو گی اور یہ اﷲ ربُّ العزّت کا وعدہ ہے، جس کا اِیفاء اُس نے اپنے اُوپر لازِم قرار دیا ہے۔ مُندرجہ ذیل (پہلی) آیتِ کریمہ اُوپر مذکورہ سائنسی تصوّر کی طرف اِشارہ کرتی ہے اور وِیلر کے اِکتشافات باقی دی گئی آیات کے نزول سے مطابقت رکھتے ہیں :
يَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِط کَمَا بَدَأْ نَآ أَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُه‘ط وَعْدًا عَلَيْنَاط إِنَّا کُنَّا فَاعِلِيْنَO
(الأنبياء، 21 : 104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوِی کائنات کو اِس طرح لپیٹ دیں گے جیسے لکھے ہوئے کاغذ کو لپیٹ دیا جاتا ہے، جس طرح ہم نے کائنات کو پہلی بار پیدا کیا تھا ہم (اِس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عملِ تخلیق کو دُہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے اپنے اُوپر لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْاِﷲِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِO
(إبراهيم، 14 : 48)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو سب پر غالب ہےo
أَ وَ لَيْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ بِقٰدِرٍ عَلٰی أَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْط بَلٰی وَ هُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِيْمُO
(يٰسين، 36 : 81)
کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ اِس پر قادِر نہیں کہ اُن جیسے لوگوں کو (قیامت کے دِن پھر) پیدا کر دے، یقیناً (وہ قادِر ہے) اور وُہی تو اصل بنانے والا سب کچھ جاننے والا ہےo
أَ وَ لَمْ يَرَوْا أَنَّ اﷲَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ قَادِرٌ عَلٰی أَنْ يَّخْلُقَ مِثْلَهُمْ وَ جَعَلَ لَهُمْ أَجَلاً لاَّ رَيْبَ فِيْهِط فَأَبَی الظّٰلِمُوْنَ إِلاَّ کُفُوْرًاO
(الأسراء، 17 : 99)
کیا اُنہوں نے نہیں دیکھا کہ جس اﷲ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا ہے (وہ) اِس بات پر (بھی) قادِر ہے کہ وہ اُن لوگوں کی مِثل (دوبارہ) پیدا فرما دے اور اُس نے اُن کے لئے ایک وقت مقرر فرما دیا ہے جس میں کوئی شک نہیں، پھر بھی ظالموں نے اِنکار کر دیا ہے، مگر (یہ) ناشکری ہےo
مذکورہ بالا قرآنی آیات کائنات کی آخرکار ’چکردار کششی تباہی‘، کائنات کے دُوربینی جہت سے ٹکراؤ، اوّلین عدم اور سیاہ شگاف سے متعلقہ طبیعیات کے قوانین سے بڑی حد تک مطابقت رکھتی ہیں، جو اِس بات کی طرف اِشارہ کرتی ہے کہ مختلف جیومیٹری کے تحت نئی کائنات کا ظہور ممکن ہے۔
وِیلر کہتا ہے کہ اِس قسم کی دوبارہ ظہور میں آنے والی کائنات کشش کو محو کرنے (پر قدرت رکھنے) والے (کے اِرادے) سے اِنعقاد پذیر ہو گی جو شاید ہماری کائنات سے مشابہہ نہ ہو۔ اِس مظہر کی مزید تائید ’چکردار کائنات کے نظریہ‘ (Oscillating Universe Theory) سے بھی ملتی ہے۔ قرآنِ حکیم اِس حقیقت کو یوں عیاں کرتا ہے :
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ وَ بَرَزُوْاِللّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِO
(اِبراهيم، 14 : 48)
جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب لوگ اﷲ کے رُو برُو حاضر ہوں گے جو سب پر غالب ہےo
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیثِ مبارکہ یوں مروی ہے :
سَأَلْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَوْلِهِ : (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَ السَّمٰوٰتُ) فَأَيْنَ يَکُوْنُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم؟ فَقَالَ : عَلٰی الصِّرَاطِ.
(الصحيح لمسلم، 2 : 371)
(جامع الترمذی، 2 : 140)
(جامع الترمذی، 2 : 157)
(سنن ابن ماجه : 326)
(سنن الدارمی، 2 : 336)
(مسند احمد، 6 : 35، 101، 134، 218)
میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس آیتِ کریمہ کا مفہوم دریافت کیا (جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ) جس دِن (یہ) زمین دُوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے۔ پھر اُس دِن لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’صراط پر‘‘۔
سائنسی اور قرآنی بیانات میں ایک اور مطابقت یہ ہے کہ کائنات پھر سے ’دُخانی حالت‘ (Gaseous State) میں تبدیل ہو جائے گی۔ قرآنِ مجید میں ہے :
فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِی السَّمَآءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍO
(الدُخان، 44 : 10)
پس اُس دِن کا اِنتظار کرو جب آسمان سے ایک نظر آنے والا دُھواں ظاہر ہو گاo
اِسی حقیقت کو سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں واضح کیا ہے :
إنّ السّاعةَ لَا تَکُوْنُ حَتّٰی عَشَر آيَاتِ. . . الدُّخَانُ. . . وَ طُلُوْعُ الشَّمْسِ مِنْ مَّغْرِبِهَا. . .
(سنن ابنِ ماجه : 302)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 372)
(مسند احمد بن حنبل، 4 : 7)
قیامت اُس وقت تک برپا نہیں ہو گی جب تک 10 علامات ظاہر نہ ہو جائیں۔ دُخان اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا (بھی اُنہی میں سے ہے)۔
ایسا قوّتِ کشش کے زائل ہو جانے کی وجہ سے ہو گا، جس نے تمام ستاروں اور اَجرامِ فلکی کو اُن کے مداروں میں جکڑ رکھا ہے۔
جدید دَور کے ذرّاتی طبیعیات دان (Particle Physicists) یہ کہتے ہیں کہ اِنجام کے طور پر اَیٹموں کے نیوکلیائی اَجزاء تباہ ہو جائیں گے اور اُس کے نتیجے میں محض لیپٹون (Lepton)، ہلکے اِلیکٹران، پازیٹران اور کثافت سے عاری نیوٹران باقی بچیں گے۔ نتیجہ ’فوٹانز کے بادلوں‘ کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ ایسی کائنات کو شعاع ریزی سے مغلوب کہا جائے گا کیونکہ اُس کی توانائی کا بیشتر حصہ ایسے کثافت سے عاری ذرّات ہوں گے جو روشنی کی رَفتار سے متحرّک ہوں گے۔ جبکہ دُوسری طرف آج کی کائنات ایسے مادّے سے مغلوب ہے جس کی زیادہ تر توانائی کثیف ذرّات پر مشتمل ہے اور اُس کی کم ترین توانائی کی حالت ابھی باقی ہے۔
رِیڈرز ڈائجسٹ نومبر 1977ء میں شائع شدہ ’جان ایل وِلہم‘ (John L. Wilhelm) کے مضمون کا ایک اِقتباس جس کا اُوپر مذکورہ سیاق سے خاصا گہرا تعلق ہے، نیچے دیا جا رہا ہے۔ اسے نزولِ قرآن کے اُس تناظر میں پڑھنا چاہیئے جو کائنات کی تخلیق و اِرتقاء اور آخری تباہی سے متعلق ہے۔
ایکس ریز کے شدید قسم کے (دھماکوں سے پیدا ہونے والی) لہریں جو آسمان پر واقع مجمع النّجوم ’دجاجہ‘ (Cygnus) میں سے ستاروں کی گیس سے بنی ہوئی کثیف ندیوں کی صورت میں تیزی سے نکل رہی ہیں، دُوربین کی مدد سے اُن کا بخوبی مُشاہدہ کیا جا چکا ہے۔ گیس کی یہ ندیاں ایک قابلِ دِید چمکدار ستارے میں سے نکل کر دُوسرے پُراسرار ناقابلِ دِید مقام کی طرف بھاگتی ہوئی جاتی دِکھائی دیتی ہیں۔ تمام تر شواہد اِنسانی دِماغ کے تراشیدہ اِس مُہیب ترین مفروضے کی بھرپور تائید کرتے دِکھائی دیتے ہیں کہ خلاء میں (اُس مقام پر) ایک ناقابلِ دِید سیاہ شگاف موجود ہے جو مادّے (Matter) کو ہڑپ کر جاتا ہے، مکاں (Space) کو مُنحنی (ٹیڑھا) کر دیتا ہے اور وقت (Time) کو لپیٹ دیتا ہے۔
سیاہ شگاف اِس قدر ناقابلِ یقین قوّتِ کشش رکھتے ہیں کہ ایٹموں کو لامحدُود کمیّت کی حد تک رَوندھتے ہوئے (ہر قسم کے) مادّے کو بلا لحاظ کچل کر رکھ دیتے ہیں۔ سیاہ شگاف ایسے تباہ حال ستارے کا ملبہ ہوتا ہے جس کا اِیندھن جل جل کر ختم ہو چکا ہو۔ اُس ستارے کی جسامت کسی دَور میں اِتنی بڑی (رَہ چکی) ہوتی ہے کہ اُس کی بے پناہ قوّتِ کشش اُسے تباہ کر کے گالف کی گیند کی جسامت جتنا کر دیتی ہے اور پھر وہ لاشئ ہو کر معدُوم ہو جاتا ہے۔
اپنی ناقابلِ یقین کثافت کی وجہ سے ایک تباہ شدہ ستارے کی قوّتِ کشش کا دائرہ اِس قدر وسیع ہو جاتا ہے کہ وہ بہت زیادہ حصے پر حاوِی ہو جاتا ہے۔ ہر وہ شے جو (اُس کشش) کی حدُود میں سے گزرتی ہے وہ ستارے کے بھنور میں گِر کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پھنس جاتی ہے۔ حتیٰ کہ روشنی بھی اُس سے چھٹکارہ نہیں پا سکتی، یہی وجہ ہے کہ اُس کے اندر یا بذاتِ خود اُسے دیکھا نہیں جا سکتا۔ سابقہ ستارہ خلاء میں ناقابلِ پیمائش پاتال بن جاتا ہے۔ یہ آسمانی بھوت ہیں اور اُنہیں سیاہ شگاف کہا جاتا ہے۔
آج کل بہت سے سائنسدان (اِس نقطے پر) سوچ رہے ہیں کہ عین ممکن ہے کہ ہماری ملکی وے سمیت اکثر کہکشاؤں کے وسط میں ’جینیاتی سیاہ شگاف‘ گھن لگائے ہوئے ہوں جو ستاروں کو ہڑپ کر کے نِگل جاتے ہوں۔ (ایک اَندازے کے مطابق) پوری کائنات کی شاید 90 فیصد کمیّت پہلے سے اُن سیاہ شگافوں میں گم ہو چکی ہے۔ پُراسرار قواسرز جو خلاء کے دُور دراز گوشوں سے بے پناہ توانائی کے کڑھاؤ کا شور مچاتے ہیں، شاید وہ تمام کہکشاؤں کے دِلوں کو ہڑپ کرتے ہوئے عظیم سیاہ شگاف ہوں۔ ’ہاروَرڈسمتھ‘ کے فلکی طبیعیات کے مرکز پر (ایک سائنسدان) ’ہربرٹ گرسکی‘ نے دِماغ کو چونکا کر رکھ دینے والا اِمکان ظاہر کیا کہ عین ممکن ہے کہ پوری کائنات خود ایک بہت بڑا سیاہ شگاف ہو۔
سیاہ شگاف کے بننے کے لئے دو شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک تو بہت زیادہ مِقدار میں مادّے کی موجودگی ہے اور دُوسرے اُس مادّے کا اِنتہائی قلیل جگہ پر سما جانا ہے۔ مطلوبہ مِقدارِ مادّہ بڑے بڑے ستارے مہیا کرتے ہیں۔
جب ستارے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور اُن کا ’تھرمونیوکلیائی اِیندھن‘ اِختتام کو جا پہنچتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک اپنی بیرونی تہہ کو اَندرونی کشش کے مقابلے میں برقرار نہیں رکھ پاتے۔ نتیجۃًیہ بیرونی تہیں اَیٹموں کو لپیٹتے ہوئے اور سِتاروں کو سکیڑتے ہوئے اَندر کی سمت گِرنا شروع کر دیتی ہیں۔
ایک چھوٹا کم کششی طاقت کا حامل ستارہ جو اِس قابل نہیں ہوتا کہ اِلیکٹرانوں کو باہم قریب قریب کر کے بے پناہ کثافت حاصل کر لے، اَیسا خاکستر ستارہ ’سفید بونا‘ (White Dwarf) کہلاتا ہے، جس کے تمام اِلیکٹران اُس کے پروٹانوں کے ساتھ مل کر نیوٹرانوں کو تشکیل دیتے ہیں۔ یا پھر اَیسا ستارہ(بن جاتا ہے) جو آخری تباہی تک لامحدُود کثافت کے حامل نقطہ تک آن پہنچتا ہے۔ اُس آخری تحت الثریٰ کی رفتار روشنی کی سمتی رفتار (Velocity) کو جا چھوتی ہے اور اَیسا ایک سیکنڈ کے معمولی حصے میں ہو سکتا ہے۔ ستارہ غائب ہو جاتا ہے، اَدبی اَلفاظ میں پلک جھپک جاتا ہے اور ایک ’سیاہ شگاف‘ کو جنم دیتا ہے۔
قرآنِ حکیم کی اِس آیتِ مبارکہ کو اِس سائنسی وضاحت کے بعد پھر سے پڑھنا چاہیئے :
وَ لِلّٰه غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِط وَ مَآ أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُط إِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO
(النحل، 16 : 77)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک اﷲ ہر چیز پر قادِر ہےo
عام اِرتقائی عمل کے تحت کائنات جب تک قائم و دائم رہتی ہے، اُس کی قیامت خیز تباہی کا باعث مندرجہ ذیل اَسباب میں سے کچھ بھی ہو سکتا ہے، جیسا کہ سیاہ شگاف کی سائنس اور ذرّاتی سائنس بیان کرتی ہیں :
تاہم پروٹان بھی ہمیشہ زِندہ نہیں رہ سکتے بلکہ اُن کی زِندگی ہر شے کے معدُوم ہو جانے کے 1032سال بعد تک ہو گی۔ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ اِس بات کا پابند نہیں کہ وہ (قیامت برپا کرنے کے لئے) 1032سال تک پروٹانوں کی تباہی کا اِنتظار کرے۔ کائنات کے خاتمے یا قیامت کا علم صرف اﷲ ربُّ العزّت ہی کے پاس ہے۔ قیامت کی ساعت اﷲ نے طے کر رکھی ہے اور وہ اﷲ کی مرضی سے کسی بھی لمحے (اور کسی بھی طریقے سے) وُقوع پذیر ہو سکتی ہے اور اﷲ اُسے اُس کے مناسب وقت پر ہی آشکار کرے گا۔ ’سٹیفن ہاکنگ‘ (Stephen Hawking) کہتا ہے کہ
’’سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ کائنات کو تباہی اور پھیلاؤ (اَفزائش) دونوں کو تقسیم کرنے والی لائن کے اِنتہائی قریب واقع ہونا چاہیئے‘‘۔
سیاہ شگاف یا قرآنِ مجید کے اَلفاظ میں ’ناقابلِ دِید آسمان‘ سے متعلقہ سائنس ہمیں اِس نتیجے پر پہنچاتی ہے کہ (پوری) کائنات بالآخر سیاہ شگاف میں تبدیل ہو جائے گی اور اُس کے بعد عدم ہو جائے گی جس سے قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق اِبتدائی تخلیق عمل میں آئی تھی۔ اِسی طرح مابعدُالطّبیعیاتی دُنیا میں کائنات کی اُس تباہی کے بعد نوعِ اِنسانی کا اِنجام بھی یقینی ہے۔ ۔ ۔ جو آخرت میں اُس کی دوبارہ زِندگی ہے۔ ۔ ۔ اور ایک اَبدی اور حقیقی دُنیا۔ ۔ ۔ زیادہ آرام دِہ۔ ۔ ۔ بہتر۔ ۔ ۔ زیادہ رہنے والی۔ ۔ ۔ اور نسلِ اِنسانی کا مستقل گھر ہے۔ تمام جہانوں کے مالک کی طرف سے نوعِ اِنسانی کے اَچھے لوگوں کے لئے آخرت میں خوش آمدید کا تحفہ منتظر ہے۔ اِس بات سے قرآنِ حکیم نے ہی اِنسانیت کو آگاہ کیا، جبکہ اِنسانی اِستعداد کی ساختہ سائنس طبیعی کائنات سے ماوراء نہیں جا سکتی اور اُسے یہ نہیں بتا سکتی کہ آخرت کی مُستقل اور زیادہ بہتر زِندگی اِنسانیت کے لئے منطقی اِنجام اور مستقل ٹھکانہ ہے۔ بلاشک و شبہ قرآنِ مجید اِس منظر کی تصدیق کرتا ہے جس کا نوعِ اِنسانی کے لئے فیصلہ ہو چکا ہے۔ اَب یہ اِنسان کا فرض ہے کہ وہ (قرآنی) اَحکامات کی تعمیل اور (اُس کی) تعلیمات پر عمل کرے، جس سے اُس کی حقیقی زِندگی سنورے اور آخرت میں (اُس کا) مقدّر بھلا ہو۔
پہلے بیان شدہ (حقائق) میں اِضافہ کے طور پر (ہم یہاں یہ بات دُہرانا چاہیں گے کہ) ذرا سوچیں کہ کائنات اُلٹی سمت بھاگ رہی ہے۔ تمام کائنات اور باقی مادّہ 18اَرب سال کے چکر میں اُس صفر سیکنڈ پر قریب قریب غالب آتے ہوئے جو ’ کائناتی اِحتراقی لمحہ‘ ہے، اُسی لمحے کی طرف (جا رہا) ہے جہاں سے (اِس کائنات کی اوّلین) تخلیق عمل میں آئی تھی۔ قرآنِ حکیم اِس بات کو یوں بیان کرتا ہے کہ ’ کائنات کا کششی اِنہدام‘ قیامت کی ساعت میں واقع ہو گا مگر پلک جھپکنے میں یا اُس سے بھی کم مدّت میں اﷲ ربُّ العزّت اِس کائنات کو یوں لپیٹ کر رکھ دے گا کہ جیسے (ٹیپ) رِیکارڈر (کیسٹ کے) لکھے ہوئے فیتے کو لپیٹ کر رکھ دیتا ہے۔
پھر اُس کے بعد اﷲ تعالیٰ عملِ تخلیق کو اُسی طرح دُہرائے گا جیسے اُس نے پہلی بار (سارا عالم) تخلیق کیا تھا۔ اﷲ ربُّ العزّت نے خالق، بدیع اور اَحسنُ الخالقین کی صفات کے ساتھ خود یہ وعدہ کیا ہے اور وہ ضرور اِسے پورا کرے گا۔ یہ سب کچھ اُس کے پاک کلام میں سچ سچ لکھا ہوا ہے۔ آیئے چند آیات ملاحظہ کریں :
وَ لِلّٰه غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِط وَ مَآ أَمْرُ السَّاعَةِ إِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُط إِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO
(النحل، 16 : 77)
اور آسمانوں اور زمین کا (سب) غیب اﷲ ہی کے لئے ہے، اور قیامت کے بپا ہونے کا واقعہ اِس قدر تیزی سے ہو گا جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اُس سے بھی تیز تر۔ بیشک اﷲ ہر چیز پر قادِر ہےo
يَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءُ.
(الأنبياء، 21 : 104)
اُس دِن ہم (ساری) سماوِی کائنات کو لپیٹ دیں گے۔
يَسْئَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسٰهَاط قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيج لاَ يُجَلِّيْهَا لِوَقْتِهَآ إِلاَّ هُوَط ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِط لاَ تَأْتِيْکُمْ إِلاَّ بَغْتَةًط.
(الأعراف، 7 : 187)
یہ کفار آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ اُس کے قائم ہونے کا وقت کب ہے؟ فرما دیں کہ اُس کا علم تو صرف میرے ربّ کے پاس ہے، اُسے اپنے (مقرّرہ) وقت پر اُس (اﷲ) کے سوا کوئی ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین (کے رہنے والوں) پر (شدائد و مصائب کے خوف کے باعث) بوجھل (لگ رہی) ہے۔ وہ تم پر اچانک (حادثاتی طور پر) آ جائے گی۔
قرآنِ مجید عالمِ اِنسانیت کی توجہ کائنات کے لپیٹے جانے اور دوبارہ معرضِ وُجود میں آنے کی طرف دِلا رہا ہے، جب یہ زمین کسی دُوسری زمین کے ساتھ تبدیل یا مزیّن کر دی جائے گی اور کائنات بھی اُس وقت تبدیل ہو چکی ہو گی۔
فلکی طبیعیات کی سائنس کی قرآنی آیات کے ساتھ کافی حد تک مطابقت پائی جاتی ہے۔ دُنیا بھر کے سائنسدانوں کو یہ دَعوت دی جاتی ہے کہ وہ قرآنِ مجید کا مطالعہ کریں اور اِن آیاتِ کریمہ پر (بطورِخاص) غور و فکر کریں جو اُنہیں یقیناً حیران کر دیں گی اور بالآخر وہ اِس حتمی سچائی یعنی اِسلام کے پیغام کی طرف آ جائیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved