تخلیق کائنات

ڈارون کا مفروضۂ ارتقائے حیات

(اِس وقت) ہم مرحلۂ حیاتِ جدید (Cainozoic Era) کے آخری حصے میں موجود ہیں جسے سائنسی اِصطلاح میں ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور کہا جاتا ہے۔ چارلس ڈاروِن کے مطابق نوعِ اِنسانی بھی دُوسرے بہت سے جانوروں کی طرح ممالیہ گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔ اُس نے اِنسان کو جانوروں کے درج ذیل حصے میں شمار کیا ہے :

Phylum........................................Chordata

Sub Phylum...............................Vertebrata

Class........................................Mammalia

Order............................................Primate

Superfamily...............................Hominoid

Family......................................Hominoid

Genus.............................................Homo

Species................................Homosapien

جب سے ڈاروِن کے مفروضۂ اِرتقاء نے نوعِ اِنسانی کو بوزنہ (Ape) ہی کی ایک ترقی یافتہ شکل قرار دیا ہے تب سے موجودہ دَور کو ’ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا دَور‘ کہا جاتا ہے اور (اِس ضمن میں) اِنسان کا الگ سے ذِکر نہیں کیا جاتا۔ تاہم قرآنِ مجید نسلِ اِنسانی کو ’’خَلْقِ آخَر‘‘ (ممیز مخلوق) کہہ کر پکارتا ہے اور اُسے ’’أَحْسَنِ تَقْوِيْم‘‘ (بہترین بناوٹ) قرار دیتا ہے۔ اِس لئے ہم تجویز کریں گے کہ اِس دور کو ’جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کا دَور‘ کہا جائے۔ یہ بات بھی ذِہن نشین رہے کہ جانور، پرندے اور اِنسان، تینوں مخلوقات ایک ہی دَور میں ظہور پذیر ہوئیں۔ قرآنِ حکیم بھی ایک مقام پر اِسی مفہوم میں یوں فرماتا ہے :

وَ مَا مِنْ دَآبَّة فِی الْأَرْضِ وَ لاَ طَآئِرٌ يَّطِيْرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلاَّ أُمَمٌ أَمْثَالُکُمْ.

(الانعام، 6 : 38)

اور کوئی بھی چلنے پھرنے والا (جانور) اور پرندہ جو اپنے دو بازوؤں سے اُڑتا ہو (ایسا) نہیں ہے مگر یہ کہ (بہت سی صفات میں) وہ سب تمہارے ہی مماثل طبقات ہیں۔

ڈاروِنی اِرتقاء کا غیرسائنسی اَفسانہ

لیمارک (Lamarck)، مالتھس (Malthas)، مینڈل (Mandle)، ڈاروِن (Darwin)، وِلسن (Wilson)، اور دُوسرے بہت سے وہ لوگ جنہوں نے لیمارکزم، ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم جیسے اِرتقائی نظریات پیش کئے اُن کے تمام کئے دَھرے کا اِنحصار اِنسان اور دیگر جانوروں کے مابین پائی جانے والی کچھ مماثلتوں پر ہے۔ وہ مماثلتیں مندرجہ ذیل ہیں :

  1. حیاتیاتی مماثلتیں (Biological Similarities)
  2. عضوِی یا ترکیبی مماثلتیں (Anatomical Similarities)
  3. حیاتی کیمیائی مماثلتیں (Biochemical Similarities)
  4. جینیاتی مماثلتیں (Genetic Similarities)

یہ تمام مماثلتیں جو طویل سائنسی تحقیقات کی بدولت دریافت کی گئی ہیں، قرآنِ مجید نے آج سے 14صدیاں قبل اِن کا ذِکر سورۂ اَنعام کی آیت نمبر38 میں کر دیا تھا۔ ’’أَمْثَالُکُمْ‘‘ (تمہارے جیسی) کا لفظ جانوروں، پرندوں اور اِنسانوں کے مابین مختلف اَقسام کی مماثلتوں کی طرف واضح اِشارہ کر رہا ہے۔ تاہم قرآنِ حکیم اُن مماثلتوں سے لئے جانے والے (بیہودہ ڈاروِنی) اِستدلال سے (ہرگز) اِتفاق نہیں کرتا اور نہ تمام کے تمام سائنسدان اِس سے اِتفاق کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ وہ اپنے اس (مَن گھڑت فرسودہ) مفروضے کو قطعی طور پر ثابت بھی نہیں کر سکے۔ وہ اپنے مفروضے میں موجود تسلسل کے فقدان سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ اس عدم تسلسل کو وہ ’گمشدہ کڑیاں‘ (Missing Links) کہتے ہیں۔ اُن بہت سی گمشدہ کڑیوں کے باوصف مفروضۂ اِرتقاء کی بہت سی خلطِ مبحث اور متضاد تعبیرات کی جاتی ہیں اور کوئی بھی متفقہ نظریہ منظرِ عام پر نہیں آ سکا۔

یہاں ہم پر یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ سائنسی تحقیقات کے (سطورِ سابقہ و آئندہ میں پیش کردہ) وہ گوشے جو قرآنی تصوّرات سے ہم آہنگ ہیں، وہ بالکل فطری انداز میں منتج ہوتے ہیں۔ دُوسری طرف (مفروضۂ اِرتقاء سمیت) ہر وہ تصوّر یا تحقیق جو قرآنی تعلیمات سے متعارِض ہو کبھی بھی تذبذُب اور شکوک و شبہات سے نہیں نکل سکتا۔

(اب ہم یہاں ڈاروِن کے غیرمنطقی مفروضۂ اِرتقاء کے بارے میں ترکی کے نامور محقق ڈاکٹر ہلوک نور باقی کی تحقیق پیش کرتے ہیں تاکہ اِرتقاء کا یہ مَن گھڑت اَفسانہ طشت اَز بام ہو سکے)

ڈاکٹر ہلوک نور باقی کے بقول آج سے تقریباً ایک سو سال قبل کیمبرج یونیورسٹی کے کرائسٹ کالج (Christ's Collage) سے ایک پادری چارلس ڈاروِن (Charles Darwin) نے گریجویشن کی۔ اِس سے پہلے اُسے علمِ حیاتیات یا علم الطب کا کوئی خاص تجربہ نہ تھا۔ اُس نے یہ دعویٰ کیا کہ اِنسان ایک جانور تھا جس کا اِرتقاء ’یک خلوی جسیمے‘ (Unicellular Organism) سے ہوا اور وہ بوزنہ (Ape) سے پروان چڑھا ہے۔ بہت سے سائنسدان (بلا سوچے سمجھے) اُچھل کر اُس کی (سستی شہرت کی حامل) بگھی میں سوار ہو گئے اور جلد ہی اِرتقاء کا یہ اَفسانہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا۔ یہ مفروضہ کئی سال تک تمام تعلیمی اِداروں میں اِس طرح پڑھایا جاتا رہا جیسے یہ واقعی کوئی سائنسی حقیقت ہو۔

دورِ جدید کے ایک سائنسدان دُواں گِش (Duane Gish) کے بقول اِرتقاء (اِنسان کا جانور کی ترقی یافتہ قسم ہونا) محض ایک فلسفیانہ خیال ہے، جس کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ آر بی گولڈسمتھ (R. B. Goldschmidt) جو بیالوجی کا ایک پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ مفروضۂ اِرتقاء کا پُرزور حامی بھی ہے، اِس حد تک ضرور دیانتدار ہے کہ اُس نے یہ تسلیم کیا ہے کہ اِرتقاء کے حق میں تمام تر شکوک و شبہات سے بالا تر کوئی شہادت میسر نہیں آسکی اور یہ محض تصوّرات کا ایک تانہ بانہ ہے۔

’آکسفورڈ ڈکشنری‘ کے مطابق ’’کسی نظریئے کے سائنسی حقیقت بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے قابلِ مشاہدہ حقائق کا حامل ہو جو عام قوانین کے تحت پائے جائیں‘‘۔

مفروضۂ اِرتقاء کا کھوکھلا پن

عام آدمی اِس حقیقت سے آگاہ نہیں ہے کہ ڈاروِنزم اور نیوڈاروِنزم کے خلاف سائنسی شہادتوں کے اَنبار لگتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس قسم کے نظریات باطل سوچ کے حامل لوگوں کے لئے ہمیشہ سے پسندیدہ مشاغل رہے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے اِس مفروضہ کے خلاف تنقید میں بڑے بڑے ماہرینِ حیاتیات کا بھرپور اِضافہ ہوا ہے۔ جیریمی رِفکن (Jeremy Rifkin) نے اپنے مقالات میں اِس حقیقت کا اِنکشاف کیا ہے کہ علمِ حیاتیات اور علمِ حیوانات کے بہت سے تسلیم شدہ محققین مثلاً سی ایچ واڈنگٹن (C. H. Waddington)، پائرے پال گریس (Pierre-Paul Grasse) اور سٹیفن جے گولڈ (Stephen Jay Gold) نے مفروضۂ اِرتقاء کے حامی نیم خواندہ سائنسدانوں کے جھوٹ کو طشت اَز بام کر دیا ہے۔

پروفیسر گولڈ سمتھ (Prof. Goldschmidt) اور پروفیسر میکبتھ (Prof. Macbeth) نے دو ٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ مفروضۂ اِرتقاء کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں ہے۔ اِس نظریئے کے پس منظر میں یہ حقیقت کارفرما ہے کہ نیم سائنسدانوں نے خود ساختہ سائنس کو اِختیار کیا ہے۔ مفروضۂ اِرتقاء کے حق میں چھپوائی گئی بہت سی تصاویر بھی جعلی اور مَن گھڑت ہیں۔ اِن تمام اِبتدائی حقائق کے باوجود بھی ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ حیاتیاتی معاملے سے متعلق اِس اَندرونی کہانی کا بالتفصیل ذِکر کر دیا جائے جسے اِرتقاء کے حامی اپنے نظریئے کی بنیاد تصوّر کرتے ہیں تاکہ قرآنِ مجید اور اُس کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے والے لوگوں کے قلوب و اَذہان میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کے دروازے مکمل طور پر مقفّل ہو جائیں۔

1۔ خلیوں کی مَن گھڑت اَقسام

اپنے اِبتدائی تصوّرات کے مطابق اِرتقاء کے حامی ابھی تک خلیوں کی دو اَقسام : ’بنیادی‘ اور ’اِرتقائی‘ پر اَڑے ہوئے ہیں۔ 1955ء کے بعد اِس حقیقت کا انکشاف ہو گیا تھا کہ تمام خلیوں کا تانہ بانہ 99 فیصد تک ایک جیسا ہی ہوتا ہے اور DNA (یعنی کیمیائی تعمیراتی بلاکوں) کے لئے (یکسانی کی) یہ شرح 100 فیصد تک پائی جاتی ہے۔ خلیوں کے مابین فرق (محض) اُن کے ریاضیاتی پروگراموں میں پایا جاتا ہے۔ (جس سے کسی طور بھی اِرتقاء پسندوں کا اِستدلال درست نہیں) جیسا کہ کسی پودے کے خلئے کا پروگرام آکسیجن کو عمل میں لانا ہے جبکہ جگر کے خلئے کے ذِمّہ صفراوِی مادّے کی پیدائش ہے۔ اِن کمپیوٹرائزڈ پروگراموں کو جو مختلفُ النوع کام سراِنجام دیتے ہیں ’قدیم‘ یا ’اِرتقائی‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (کیونکہ اُن میں یہ صلاحیتیں بتدریج نہیں آئیں) اِس لئے اُن سے متعلق اِرتقاء کا دعویٰ ہرگز درُست نہیں ہو سکتا۔ سو مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کو سب سے پہلے تو کسی خلئے اور اُس کے ریاضیاتی پروگرام سے متعلق اپنی (معلومات کی) اِصلاح کر لینی چاہیئے۔

2۔ اِرتقاء کا عمل سُست رَو ہے۔ ۔ ۔ ؟

مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کے خیال میں سلسلۂ اِرتقاء کے موجودہ دَور میں نظر نہ آنے کا سبب یہ ہے کہ یہ عمل بہت آہستگی سے لاکھوں کروڑوں سالوں میں وُقوع پذیر ہوتا ہے۔ (یہ دلیل بھی سراسر بے ہودہ ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) 1965ء میں آئس لینڈ کے قریب زلزلے اور لاوا پھٹنے کے عمل سے ایک نیا جزیرہ سرٹسے (Surtsey) نمودار ہوا اور محض سال بھر کے اندر اندر اُس میں ہزاروں اَقسام کے کیڑے مکوڑے، حشراتُ الارض اور پودے پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ یہ بات اَبھی تک (کسی اِرتقاء پسند کی) سمجھ میں نہیں آسکی کہ وہ سب وہاں کیسے اور کہاں سے آئے۔ ۔ ۔ !

3۔ جینیاتی تبدّل ہمیشہ تخریبی ہوتا ہے

اِرتقاء کے حامیوں کے نزدیک اِرتقاء کا عمل تبدّل یعنی جینیاتی خصوصیات میں تبدیلی کے ذریعے وُقوع پذیر ہوا۔ یہ دعویٰ بھی صحیح معنوں میں حقیقت کو مسخ کرنے کے مُترادف ہے۔ (اصل حقیقت یہ ہے کہ) تبدّل کبھی بھی تعمیری نہیں ہوتا بلکہ (ہمیشہ) تخریبی ہی ہوتا ہے۔ تبدّل کو دریافت کرنے والے سائنسدان ملّر (Muller) کے تجربات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعمیری جینیاتی تبدیلی کا (حقیقت میں) کوئی وُجود نہیں، جینیاتی تبدیلی ہمیشہ تخریبی ہی ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں کئے جانے والے تجربات میں بھی یہ حقیقت اِسی طرح عیاں ہوئی کہ (جینیاتی) خصوصیات تبدیل نہیں ہوا کرتیں بلکہ تباہ ہوا کرتی ہیں۔ جس کا نتیجہ کینسر یا موت کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا ہے۔ یا پھر بگڑنے والی خصوصیات پہلے سے کمزور جسیمے کی تخلیق کا باعث بنتی ہیں (جیسا کہ ملّر کی سبز آنکھوں والی مکھی) آج تک کئے گئے ہزارہا تجربات کے باوُجود کوئی بھی کسی جسیمے میں ہونے والے (مثبت) تبدّل سے نیا جسیمہ حاصل نہیں کر سکا۔ جبکہ دُوسری طرف ہڈی کے گودے میں واقع ایک پِدری خلئے کے ذریعے ہر سیکنڈ میں لاکھوں کی تِعداد میں مختلف نئے خلئے پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اگر تبدّل (کے اَفسانے) میں ذرا بھی حقیقت ہوتی تو اب تک یہ عجوبہ قطعی طور پر ثابت ہو چکا ہوتا۔

4۔ علمی دھوکہ دہی کی ننگی داستان

اِرتقاء کے حامیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ موجودہ آدمی اور اُس کے قدیم وُجود میں ربط پیدا کرنے والا ڈھانچہ موجود ہے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مشہور(ڈھانچہ) پِلٹ ڈاؤن آدمی (Piltdown Man) کا تھا، جس میں موجود دھوکے کا اِنکشاف ’ریڈیو ایکٹو تجربات‘ کے ذریعے ثابت ہو چکا ہے (جس کے بعد) اُسے تمام تر بے ہودہ تحریروں سمیت ’برِٹش میوزیم‘ سے نکال باہر پھینکا گیا ۔ مزید برآں قدیم مخلوق (جس سے نوعِ اِنسانی کا ناطہ جوڑنے کی کوشش کی گئی، اُس) کے دِماغ کا وزن 130گرام ہے جبکہ اِنسان کے دِماغ کا وزن 1350گرام ہے۔ ’مفروضۂ اِرتقائ‘ کے مطابق اِن دونوں کے درمیان (رابطہ پیدا کرنے کے لئے) کم از کم 10جسیمے ہونے چاہیئں۔ اور یہ بات ناقابلِ تسلیم ہے کہ اُن میں سے کوئی (ایک) بھی زِندہ نہ بچ سکا ہو۔ ہم اِرتقاء کے حامی گروہ سے یہ سوال کریں گے کہ بوزنہ (Ape) تو آج بھی اپنی تمام تر اَقسام سمیت زِندہ ہے مگر اُس کے اور اِنسان کے درمیان پائی جانے والی ممکنہ 10 اَقسام (سب کی سب) کہاں گئیں۔ ۔ ۔ ؟

5۔ اَپنڈکس ہرگز غیرضروری نہیں

اِرتقاء پسند تو اِس حد تک گئے ہیں کہ اُن کے نزدیک اِنسان کی آنتوں میں سے اَپنڈکس (Appendix) سلسلۂ اِرتقاء ہی کی بے مقصد باقیات میں سے ہے۔ حالانکہ اَپنڈکس جسم کے چند مُستعد ترین اَعضاء میں سے ایک ہے جو نچلے بدن کے لئے لَوزَتین (Tonsils) کا کام کرتی ہے۔ وہ آنتوں کا لُعاب چھوڑتی اور آنتوں کے بیکٹیریا کی اَقسام اور اُن کی تِعداد کو باقاعدہ بناتی ہے۔ اِنسانی جسم میں کوئی عضو بھی ہرگز فضول نہیں ہے بلکہ بہت سے اَعضاء بیک وقت متنوّع اَقسام کے بہت سے اَفعال سراِنجام دیتے ہیں۔

6۔ کوئی مخلوق اِرتقاء یافتہ نہیں

مفروضۂ اِرتقاء کے جنم لینے کا سبب یہ ہے کہ اِس مفروضہ کے حاملین خالقِ ( کائنات) کے وُجود سے اِنکاری ہیں، اِس لئے وہ (اپنی خود ساختہ) مقصدیت کی تلاش میں مفروضۂ اِرتقاء کے گِرد گھوم رہے ہیں۔ وہ اپنی دانست میں قدیم اور ترقی یافتہ (دونوں) مخلوقات کے درمیان قائم کردہ کڑیوں میں موجود روز اَفزوں پیچیدگیوں کو حل کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ لیکن اِس اِرتقاء کے سلسلے میں اُن کے مفروضے مَن مانے اور محض اُن کے اپنے ہی ذِہنوں کی اِختراع ہیں۔ (اپنے نظریئے کے تحت وہ کبھی بھی کماحقہ‘ یہ بات ثابت نہیں کر سکتے کہ) کمال سے (اُن کی) مُراد کیا ہے؟ مِثال کے طور پر خوشنما رنگوں میں تتلی سب سے بلند مقام رکھتی ہے۔ بجلی کے آلات کے حوالے سے چمگادڑ کا کوئی جواب نہیں جو ایک بہترین ریڈار کی نظر کی حامل ہوتی ہے۔ یاداشت کو محفوظ رکھنے اور دِماغ کے زیادہ وزن کے معاملے میں ڈولفن سب سے ترقی یافتہ مخلوق ہے۔ اور جنگی معاملات کے حوالے سے دِیمک جو ایک چیونٹی سے بھی چھوٹی ہوتی ہے، تمام مخلوقات سے زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ اُس کا ہتھیار اَیسا زہر ہے جس کا نقطۂ کھولاؤ 100ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو اُس کے ماحول کے ہر جسیمے کو مارنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ) اِن سب کو کس نے اِرتقائی عمل سے گزارا؟ اور اِن کا اِرتقاء کس مخلوق سے عمل میں آیا؟ کیمیائی جنگ کے سلسلے میں تو بوزنہ(Ape) اِس حقیر دِیمک سے بہت پیچھے رَہ جانے والی قدیم مخلوق ہے۔ (پھر یہ زِندہ مخلوقات میں سے اِنسان کے قریب ترین مخلوق کیونکر کہلا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟)

7۔ بقائے اَصلح کی حقیقت

مفروضۂ اِرتقاء کی حامیوں کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ تمام مخلوقات ’فطری چناؤ‘ یا ’بقائے اَصلح‘ (Survival of the Fittest) کے قانون کے تابع ہیں۔ اِس سلسلے میں وہ ڈائنوسار (Dinosaur) کی مِثال دیتے ہیں جس کی نسل (ہزاروں سال پہلے کرۂ ارضی سے کلیتاً) معدوم ہو گئی تھی۔ لیکن (اِس تصویر کا دُوسرا رُخ کچھ یوں ہے کہ رُوئے زمین پرموجود) 15لاکھ اَقسام کی زِندہ مخلوقات کے مقابلے میں معدُوم مخلوقات کی تعداد 100سے زیادہ نہیں ہے۔ اِس موقع پر سب سے اہم بات یہ ہے کہ بہت سی مخلوقات (اپنے ماحول میں موجود) مشکل ترین حالات کے باوُجود لاکھوں سالوں سے زِندہ ہیں۔ یہاں ہم اِس سلسلے میں تین اہم مِثالیں دینا ضروری سمجھتے ہیں :

i۔ اَندھی مچھلی

مچھلی کی ایک ایسی قسم جو بصارت کی صلاحیّت سے محروم ہے اور سمندر کی تہہ میں رہتی ہے۔ اُس مختصر سے ماحول میں اُس کے ساتھ ریڈار کے نظام کی حامل اور برقی صلاحیّت کی مدد سے دیکھنے والی مچھلیوں کی (چند) اَقسام بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر اِرتقاء پسندوں کی تحقیق درُست ہوتی تو اَندھی مچھلی باقی دونوں اَقسام کی(مچھلیوں کی) غارت گری سے مفقود ہو چکی ہوتی، لیکن (ہم اِس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ) مچھلی کی یہ تینوں اَقسام لاکھوں سالوں سے ایک ساتھ پُرامن طور پر زِندگی بسر کر رہی ہیں۔

ii۔ اَندھا سانپ

یہ دَرحقیقت چھپکلی کی ایک قسم ہے جس کے ہاتھ پاؤں نہیں ہوتے اِس لئے اِس مخلوق کے لئے زِندگی اِنتہائی دُشوار ہوتی ہے، لیکن اِس کے باوُجود وہ لاکھوں سال سے (کرۂ ارض پر) موجود ہے۔ وہ (اِس مرورِ اَیام سے) معدُوم ہوا اور نہ اِرتقائی عمل سے گزر کر (حقیقی) چھپکلی ہی بن سکا۔ اِرتقاء کے بنیادی اُصولوں سے متعلق قصے کہانیاں کہاں گئیں۔ ۔ ۔ ؟

iii۔ آسٹریلوی خارپُشت

آسٹریلیا میں ایک خاص قسم کا خار پُشت پایا جاتا ہے جو اپنے بچے کو کنگرو کی طرح اپنے پیٹ سے مُعلّق تھیلی میں اُٹھائے پھرتا ہے۔ وہ (ہزارہا سال کے اِرتقائی عمل کے تحت) اپنے جسم میں ایسا تبدّل کیوں نہیں لاتا جس کی بدولت اِس (تکلیف دِہ) جھلی سے اُس کی جان چھوٹ جائے اور وہ بھی دُوسرے (عام) خارپُشتوں کی طرح آرام و سکون سے رہ سکے؟ اِس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ اﷲ ربّ العزّت نے (اُس کے لئے) ایسا ہی چاہا ہے۔ وہ خارپُشت اپنی زِندگی سے مطمئن ہے اور اُسی طرح تابع فرمان رہے گا۔ مفروضۂ اِرتقاء کا (کوئی) حامی اِس راز سے کبھی آگاہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اَندھی منطق کے گرداب میں اُلجھا ہوا ہے۔

فطری چھانٹی (یعنی بقائے اَصلح) کے عجوبہ کی کوئی حیثیت نہیں، لاتعداد مخلوقات کی نمائش کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ہی مختلف اَنواعِ حیات کو تخلیق کیا ہے۔

8۔ اَصناف کا تنوّع

اگر مفروضۂ اِرتقاء کے حامیوں کا دعویٰ درُست ہوتا تو ہر مخلوق میں اَیسا اِرتقاء عمل میں آتا کہ وہ اَمیبا (Amoeba) سے شروع ہو کر زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک ہی قسم کی اَصناف بناتی چلی جاتی۔ اور یوں اُس امیبا سے ایک ہی قسم کے کیڑے، ایک ہی قسم کی مچھلی، ایک ہی قسم کے پتنگے اور ایک ہی قسم کے پرندے نکلتے یا زیادہ سے زیادہ ہر ایک کی چند ایک اَقسام ہو جاتیں۔ (حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ) صرف پتنگوں کی 3لاکھ سے زیادہ اقسام ہیں۔ پھر یہ کس قسم کا اِرتقاء ہے۔ ۔ ۔ ؟

مزید برآں جانوروں کی تمام اَنواع میں ہر قسم کی قابلِ تصوّر اَقسام پائی جاتی ہیں۔ جیومیٹری اور حیاتیات کی تقریباً تمام ممکنہ صورتوں میں مخلوقات کی اَنواع و اَقسام موجود ہیں۔ رنگوں کے 10,000سے زائد نمونے تو صرف تتلیوں کے پروں میں پائے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہر نوع اپنی چھوٹی اور بڑی جسامتیں رکھتی ہے۔ جیسا کہ :

چھپکلی............اور............مگرمچھ

بلی.............اور.............شیر

امریکی چوہا........اور.............خنزیر

اگر اِرتقاء کا کوئی وُجود ہوتا تو ہر نوع ایک ہی سمت میں پروان چڑھتی جبکہ اﷲ ربُّ العزّت نے (اپنی) مخلوقات کی بے شمار اَنواع و اَقسام سے گویا ایک عظیم الشان نمائش کا اِہتمام کر رکھا ہے۔

9۔ سائنسی علوم کی عدم قبولیت

مختلف سائنسی علوم کے نکتۂ نظر سے اِرتقاء کا عمل حالیہ سالوں میں (مکمل طور پر) ناممکن قرار پا گیا ہے۔

i۔ طبیعیات

علمِ طبیعیات میں کسی قسم کا کوئی اِرتقاء نہیں ہو سکتا۔ پُراَمن اِرتقاء کے طور پر بھاری عناصر ہائیڈروجن سے پیدا نہیں ہوئے۔ اِسی لئے اگر آپ ہائیڈروجن کے 2 یا 4 اَیٹموں کو ملا کر ہیلئم (Helium) بنانا چاہیں گے تو اُس کے نتیجے میں آپ کو ’تھرمونیوکلیئربم‘ (Thermonuclear Bomb) ہی حاصل ہو گا (جس کے سبب) تمام ماحول ’کھمبی‘ (Mushroom) کی شکل کے دُھویں کے بادلوں سے اَٹ جائے گا۔

ii۔ ریاضی

ریاضیاتی اِعتبار سے بھی اِرتقاء بالکل ناممکن ہے۔ اَمیبا سے کیڑا بننے تک اِرتقاء کے لئے جینی کوڈ میں 39x1020 تبدیلیاں مطلوب ہیں، جو فی سیکنڈ ایک تبدیلی کی شرح سے 100کھرب سال گویا موجودہ کائنات کی عمر سے 500گنا زیادہ وقت میں مکمل ہوسکتی ہیں۔ ایک بوزنہ (Ape) سے اِنسان بننے کے اِرتقائی عمل کے لئے 3x10520 تبدیلیوں کی ضرورت ہے، یہ تبدیلیاں اِتنی کثیر تعداد پر مشتمل ہیں کہ اگر ہم اِس کائنات کی ایک چوتھائی مرکّبات کی قوّت کو زیرِ اِستعمال لائیں تو بھی اُسے پانے میں قاصر رہیں گے۔ مزید موازنے کے لئے اِتنا جان لینا ہی کافی ہے کہ کائنات کا قطر ایک اِلیکٹران کے قطر سے 10124گناسے زیادہ بڑا نہیں ہے۔ اِن سب (حقائق) سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اِرتقاء (کا یہ تصوّر) ریاضیاتی ناممکنات میں سے ہے۔

iii۔ حیاتیات

حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کسی صورت ممکن نہیں۔ آج کے اِس ترقی یافتہ دَور میں بھی سائنسی ذرائع کی معاونت سے کوئی شخص اِس قابل نہیں ہو سکا کہ ایک ’سسٹرن‘ (Cistron)۔ ۔ ۔ جو ایک مخصوص پروٹین کے کوڈ کے لئے DNA (Deoxyribonucleic Acid)کی لمبائی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ میں تبدیلی لا سکے۔ کسی مخلوق میں کامیاب جینیاتی تبدیلی کی مِثال نہیں ملتی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ جینز (Genes)۔ ۔ ۔ جو نامیاتی تعمیر کے فارمولا کی حامل ہوتی ہیں۔ ۔ ۔ ایک اِنتہائی مخصوص نظام کی حفاظت میں ہوتی ہیں۔ اگر اَیسا نہ ہوتا تو دُنیا راتوں رات اُوٹ پٹانگ قسم کی مخلوقات سے بھر جاتی۔ چنانچہ حیاتیاتی طور پر بھی اِرتقاء کا عمل ناممکن ٹھہرا۔ جیسا کہ ’نِلسن ہیریبرٹ‘ (Nilson Heribert) نے کہا ہے کہ اَنواعِ حیات کچھ اَیسی ہیں کہ وہ خود بخود بدل سکتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

’پروفیسر میکس ویسٹن ہوفر‘ (Prof. Max Westenhofer) نے اپنے مطالعہ (کی روشنی) میں یہ ثابت کیا ہے کہ مچھلی، پرندے، رینگنے والے جانور اور ممالیہ جانور سب ہمیشہ سے ایک ساتھ موجود رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’پروفیسر ویزمین‘ (Prof. Weismann) کے ہاں ’جاوا کے آدمی‘ (Java Man) کا تصوّر سائنس کا تمسخر اُڑانے کے مُترادف ہے۔ اِسی طرح ’پروفیسر گِش‘ (Prof. Gish) نے سائنسی معاشرے کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا کہ قدیم اِنسان کا ڈھانچہ جسے ’نبراسکا کا آدمی‘ (Nebraska Man) کہتے ہیں، مکمل طور پر ایک مصنوعی چیز ہے، اور پورے ڈھانچے کی بنیاد محض ایک دانت پر ہے۔

ہمیں یہ بات ہمیشہ مدِّنظر رکھنی چاہیئے کہ مفروضۂ اِرتقاء ایک سوچا سمجھا ڈھونگ ہے، جو اَیسے پراگندہ خیالات کو جنم دیتا ہے جس سے معاشرے تباہ حال ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ اِس سلسلے میں (مزید حقائق سے آگہی میں) دِلچسپی رکھتے ہیں وہ مزید مطالعہ کے لئے درج ذیل ذرائع سے اِستفادہ کر سکتے ہیں :

  1. Jeremy Rifkin, Algeny, Middlesex : Penguin,1984.
  2. Paul S. Moorhead and Mirtin M. Kaplan, eds. Mathematical Challenges to the Neo-Darwinian Interpretations of Evolution, Philadelphia : Wistar Institute Press, 1967.
  3. Norman Macbeth, Darwin Retried : An Appeal to Reason, Boston : Gambit, 1971.
  4. Duane T. Gish, Evolution : The Fossils Say No!, San Diego : Creation Life Publishers, 1978.
  5. John Moore, On Chromosomes, Mutations and Philogeny, Philadelphia, 1971.
  6. Walter J. Bock, Book Review of Evolution, Orderly Law, Science, (146) 1969.
  7. Harold Francis Blum, Time's Arrow and Evolution, Princeton University Press, 1968.
  8. Nilson N. Heribert, Synthetische Artbildung, University of Lund, Sweden.
  9. Pierre-Paul Grasse, Evolution of Living Organisms, New York : Academix Press, 1977.
  10. David Raup. Conflicts Between Darwin and Paleontology, Field Museum of Natural History Bulletin. January 1979.

اگرچہ دُنیا کے مشہور و معروف عیسائی اور یہودی سائنسدان مفروضۂ اِرتقاء کو برحق نہیں جانتے مگر (اِس کے باوُجود) وہ اِس گندے کھیل میں خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ دُنیا میں کوئی جانور بھی اِرتقائی عمل کی پیداوار نہیں، یہ محض ایک تصوّراتی اور فلسفیانہ مفروضہ ہے۔ دُوسرے لفظوں میں (یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ) سائنس کے نام پر اِنسان کی اَصل سے متعلق جو دعوے کئے جاتے ہیں سب کے سب جھوٹے ہیں۔ اِنسان کی اَصل کے متعلق ہنوز کوئی سائنسی ثبوت میسر نہیں آ سکا۔ تب پھر اِنسان کی اَصل کیا ہے؟ ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید کی رَوشنی میں دیں گے۔ اِرشادِ ربانی ہے :

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِيْمٍO

(التين، 95 : 4)

بیشک ہم نے اِنسان کو بہترین (اِعتدال اور توازُن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہےo

اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اِنسان ایک الگ مخلوق کے طور پر معرضِ وُجود میں آیا ہے اور یہ کسی دُوسری مخلوق سے اِرتقاء کے نتیجے میں ظاہر نہیں ہوا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved