آئیے اَب اِس وسیع و عریض کائنات کی ساخت، تخلیق، اِرتقاء و عمل اور پھیلاؤ کے بارے میں ذرا سوچیں۔ زمین، سورج، سِتارے اور سیارے کائنات میں محض چھوٹے چھوٹے نقطوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا سورج ایک ایسی کہکشاں کا سِتارہ ہے جو ایک کھرب سِتاروں پر مشتمل ہے اور اُس جیسی اربوں کہکشائیں مزید بھی پائی جاتی ہیں۔ اَب تک کی جستجو سے معلوم کردہ دُوسری کہکشاؤں کے بعید ترین اَجسام ہم سے تقریباً16ارب نوری سال کی مسافت پر واقع ہیں۔ اُن کی شعاع ریزی (Radiation) نہ صرف زمین بلکہ شاید ہماری کہکشاں کی تخلیق سے بھی پہلے اپنا سفر شروع کر چکی تھی۔٭
(سورج کے بعد) ہم سے قریب ترین سِتارہ ’پروگزیما سنچری‘ (Proxima Centauri) تقریباً 4نوری سال کی مسافت پر واقع ہے۔ (یعنی اُس کی رَوشنی ہم تک پہنچنے میں 4سال سے زیادہ عرصہ صرف کرتی ہے)۔ ہمارا سورج ہم سے 8نوری منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔ (یعنی اس کی رَوشنی ہم تک 8منٹ میں پہنچتی ہے)۔ اکثر سِتارے جو ننگی آنکھ سے دِکھائی دینے کے قابل ہیں، کئی سو نوری سال کی دُوری پر واقع ہیں۔٭
کائنات کی وُسعت پذیری کے بارے میں ہماری تحقیقات 1924ء سے زیادہ قدیم نہیں، جب ایک ماہرِ فلکیات ایڈوِن ہبل (Edwin Hubble) نے یہ اِنکشاف کیا کہ ہماری کہکشاں اِکلوتی نہیں ہے۔ کائنات میں دُوسری بہت سی کہکشائیں بھی اپنے مابین وسیع و عریض علاقے خالی چھوڑے ہوئے موجود ہیں، جو ایک دُوسرے کی مخالف سمت میں یوں مُتحرک ہیں کہ آپس میں فاصلہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اُن کی رفتار میں بھی اِضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسا دِکھائی دیتا ہے کہ کہکشاؤں کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ پوری کائنات بھی پھیلتی چلی گئی ہے اور کہکشاؤں کے مابین پایا جانے والا فاصلہ بھی مسلسل بڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر ہبل نے کائنات کی وُسعت پذیری کا یہ راز رَوشنی کے ’سرخ ہٹاؤ‘ (Red Shift) کے کہکشاؤں کے ساتھ موازنے کے ذریعے دریافت کیا۔ اُس نے مسلسل بڑھنے والے فاصلوں کی درُستگی کو ’قانونِ ہبل‘ (Hubble's Law)
اور پھیلاؤ کی حقیقی شرح کے ذریعے ثابت کیا، جسے ہبل کے غیر متغیر اُصول (Hubble's Constant) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ دریافت بیسویں صدی کے عظیم شعوری اِنقلابات میں سے ایک ہے۔ اَب ہم اِس قابل ہیں کہ ’ڈاپلر اثر‘ (Doppler Effect) کے ذریعے کائنات اور کہکشاؤں کے پھیلاؤ کی موجودہ شرح کو متعین کر سکیں۔ اَب ہم سب اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ کائنات ہر ایک ارب سال میں 5سے 10 فیصد کی شرح کے ساتھ پھیل رہی ہے۔٭
یہ بات اِنتہائی قابلِ توجہ ہے کہ سائنس نے جو دریافتیں موجودہ صدی، بالخصوص اُس کی چند آخری دہائیوں میں حاصل کی ہیں، قرآنِ مجید اُنہیں آج سے 1400سال پہلے بیان کر چکا ہے۔ قرآنِ مجید نے کائنات کی وُسعت پذیری کا اُصول سورۂ فاطر میں کچھ اِس طرح سے بیان کیا ہے :
اَلْحَمْدُِﷲِ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِط . . . يَزِيْدُ فِی الْخَلْقِ مَا يَشَآءُط إِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO
(فاطر، 35 : 1)
تمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جو آسمانوں اور زمین کو (بلا نمونے کے اِبتدائً) بنانے والا ہے ۔ ۔ ۔ وہ اپنی تخلیق میں جو چاہتا ہے بڑھاتا جاتا ہے۔ بے شک اﷲ ہر شے پر قادِر ہےo
اِسی سائنسی حقیقت کو قرآنِ حکیم نے سورۃُ الذّاریات میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ یوں ذِکر کیا ہے :
وَ السَّمَآءَ بَنَيْنَاهَا بِأَيْدٍ وَّ إِنَّا لَمُوْسِعُوْنَO
(الذّاريات، 51 : 47)
اور ہم نے آسمان (کائنات کے سماوِی طبقات) کو طاقت (توانائی) سے بنایا ہے اور بلاشبہ ہم کائنات کو پھیلاتے چلے جا رہے ہیںo
اِس آیتِ کریمہ نے دوٹوک واضح کر دیا کہ کائنات، جسے اﷲ ربّ العزّت نے طاقت اور توانائی کے ساتھ تخلیق کیا ہے، وسیع تر انداز میں ہر سمت پھیلتی اور بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ’’لَمُوسِعُون‘‘ کا لفظ خود وُسعت پذیری کے معنی پر بیّن اور واضح ہے۔ قرآنِ مجید وُسعت پذیری کے عمل کو تخلیقِ(کائنات) کا تسلسل قرار دیتا ہے۔ سورۃُ النّحل میں اِرشاد فرمایا گیا :
وَ يَخْلُقُ مَا لاَ تَعْلَمُوْنَO
(النّحل، 16 : 8)
اور وہ پیدا فرماتا جا رہا ہے جسے تم نہیں جانتےo
حقیقت کے مُتلاشیوں کے لئے یہ بات باعثِ حیرت ہے کہ آج سے 14صدیاں قبل، جب کائنات کے مجرّد اور غیرمتحرک ہونے کا نظریہ تمام دُنیا میں تسلیم کیا جاتا تھا، علمِ فلکی طبیعیات (Astrophysics) اور علمِ کونیات (Cosmology) کے اِس جدید نظریہ سے قرآنِ مجید نے کس طرح اِنسانیت کو آگاہ کیا! جبکہ کائنات کے جمود کا نظریہ اِس قدر مستحکم تھا کہ وہ بیسویں صدی کے اَوائل تک دُنیا بھر میں (ناقابلِ تردِید حقیقت کے طور پر) تسلیم کیا جاتا رہا ہے۔ ’نیوٹن‘ کا قانونِ تجاذُب حقیقت تک رسائی حاصل نہ کر سکا۔ حتی کہ ’آئن سٹائن‘ نے بھی 1915ء میں جب اپنا ’عمومی نظریۂ اِضافیت‘ پیش کیا تو اُس وقت تک اُسے ’نظریۂ جمودِ کائنات‘ پر اِتنا (پختہ) یقین تھا کہ اُس نے اُس (نظریئے) کی مساوات میں مشہورِ عالم ’کونیاتی مستقل‘ (Cosmological Constant)کو مُتعارف کراتے ہوئے اپنے نظریئے میں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔٭
دَرحقیقت رُوسی ماہرِ طبیعیات اور ریاضی دان ’الیگزینڈر فرائیڈ مین‘ (Alexander Friedmann) وہ شخص تھا جس نے 1922ء میں پہلی بار کائنات کی وُسعت پذیری کا مفروضہ پیش کیا، جسے بعد میں 1929ء میں ’ایڈوِن ہبل‘ نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا اور بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرینِ طبیعیات ’آرنوپنزیاس‘ (Arno Penzias) اور ’رابرٹ وِلسن‘ (Robert Wilson) نے اسے ثابت کیا۔ یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع ’بیل فون لیبارٹریز‘ میں کام کرتے تھے، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ یہ بلا شک و شبہ قرآنِ مجید کا ایک سائنسی معجزہ ہے۔
تخلیقِ کائنات کے قرآنی اُصولوں میں سے ایک (بنیادی) اُصول یہ ہے کہ (شروع میں) کائنات کا تمام بنیادی مواد ایک اِکائی کی صورت میں تھا، جسے پارہ پارہ کرتے ہوئے مختلف حصوں میں جدا کر دیا گیا۔ اِس عمل سے (کائنات کا) پھیلاؤ شروع ہوا جو مسلسل جاری و ساری ہے۔ قرآنِ مجید اِس حقیقت کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :
أَ وَ لَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا أَنَّ
اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا
السَّمٰوٰتِ وَ اْلأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاھُمَاط۔
(الانبياء، 21 : 30)
کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے، پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
اِس آیتِ کریمہ میں دو اَلفاظ ’’رَتْق‘‘ اور ’’فَتْق‘‘ خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ ’رَتْق‘ کے معنی کسی شے کو ہم جنس مواد پیدا کرنے کے لئے ملانے اور باندھنے کے ہیں۔ ’فَتْق‘ متضاد ہے ’رَتْق‘ کا، جس کا معنی توڑنے، جدا کرنے اور الگ الگ کرنے کا عمل ہے۔ قرآنِ مجید نے تخلیقِ کائنات کی یہ حقیقت 14صدیاں پیشتر بیان کر دی تھی اور لوگوں کو یہ دعوتِ (فکر) دی تھی کہ وہ اِس بارے میں سوچیں۔ صدیوں کی تحقیق کے بعد جدید علمِ کونیات (Cosmology)، علمِ فلکیات (Astronomy) اور علمِ فلکی طبیعیات (Astrophysics) نے بالکل وُہی نظریہ منظرِ عام پر پیش کیا ہے کہ کائنات کی تخلیق ایک ’صفر درجہ جسامت کی اِکائیت‘ سے ہوئی۔ ’عظیم دھماکے کا نظریہ‘ (Big Bang Theory) اسی کی معقول تشریح و توضیح ہے۔
ہمیں یہ بات یاد رکھنا ہو گی کہ سائنس کی تمام تاریخ حقیقت تک رسائی کی ایسی مرحلہ وار جستجو (پر مشتمل) ہے، جس میں حوادثِ عالم خود بخود اِنجام نہیں پاتے بلکہ ایک ایسے حقیقی اَمر کی عکاسی کرتے ہیں جو یکے بعد دیگرے امرِ ربّانی سے تخلیق پاتا اور متحُرّک رہتا ہے۔
کائنات سے متعلق (نظریات پر مشتمل) بہت سے معیارات پائے جاتے ہیں، جو اُس کے آغاز کی مختلف اِبتدائی حالتوں کی وضاحت کرتے ہیں، مگر (اِس کے باوُجود) اُن میں سے تمام ’لامحدُود کثافت‘ (Infinite Density) اور ’صفر درجہ جسامت کی اِکائی‘ (Zero Volume Singularity) کی اِبتدائی حالت کی طرف ضرور رہنمائی کرتے ہیں، جیسے :
یا
اِس باب میں سائنسی جدوجہد کا مختصر ذِکر قارئین کو اِسلامی اِعتقادات کی حقّانیت کو سمجھنے میں آسانی پیدا کرے گا۔
چار ایسی بنیادی طاقتیں جو مختلف اَجرامِ فلکی کے اپنے اپنے کرّوں میں موجود ہوتی ہیں، بھی (ساتھ ہی) معرضِ وُجود میں آ گئیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں :
سائنسدانوں کے بقول اَب تک اِس کائنات کو تخلیق ہوئے کم و بیش 15 ارب سال گزر چکے ہیں۔ اُس اِبتدائی کمیّتی اِکائی سے پہلے کیا تھا (جس سے یہ کائنات ایک دھماکے کی صورت میں تخلیق ہوئی ہے؟) سائنس اِس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اِس مُعمّے کا حل قرآنِ مجید کے اِس بیان پر اِیمان لانے سے ہی ممکن ہے :
إِذَا قَضٰی أَمْراً فَإِنَّمَا يقُوْلُ لَه کُنْ فَیَکُوْنُO
(مريم، 19 : 35)
جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو اُسے صرف یہی حکم دیتا ہے کہ ’’ہوجا‘‘ پس وہ ہو جاتا ہےo
قرآنی اِصطلاح ’’رَتْق‘‘ کی سائنسی تفسیر ہمیں اِس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ بے پناہ توانائی نے کائنات کو اُس وقت (اِبتدائی) کمیتی اِکائی کی صورت میں باندھ رکھا تھا۔ وہ ایک ناقابلِ تصوّر حد تک کثیف اور گرم مقام تھا جسے ’اِکائیت‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اُس وقت کائنات کی کثافت اور خلائی وقت کا اِنحناء (Curvature) لامحدُود تھے۔ کائنات کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ اُس کی جسامت صفر تھی۔ اِکائیت کی اُس حالت اور صفر درجہ جسامت (Zero Volume) کی طرف قرآنِ مجید یوں اِشارہ کرتا ہے :
أَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً.
(الانبياء، 21 : 30)
جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اِکائی کی صورت میں جڑے ہوئے تھے۔
اس مرحلے کے بعد پھوٹنے اور پھیلنے کا عمل شروع ہوا، جسے کلامِ مجید نے اِن اَلفاظ میں ذِکر کیا ہے :
فَفَتَقْنَاهُمَا.
(الانبياء، 21 : 30)
پس ہم نے اُنہیں پھاڑ کر جدا کر دیا۔
(عظیم دھماکے سے) پھٹنے کے عمل کے آغاز کے ساتھ ہی ایک سیکنڈ کے سوویں حصے میں وہ ’اِکائیت‘ پھیل کر اِبتدائی آگ کا گولا (Primordial Fireball) بن گئی اور دھماکے کے فوری بعد اُس کا درجۂ حرارت ایک کھرب سے ایک کھرب 80 ارب سینٹی گریڈ تک جا پہنچا۔ عظیم دھماکے سے ایک منٹ بعد (ہی کائنات کا درجۂ حرارت) گِر کر 10 ارب سے 18 ارب سینٹی گریڈ کے درمیان آن پہنچا۔ یہ سورج کے مرکز کے (موجودہ) درجۂ حرارت سے تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ حرارت تھی۔ اُس وقت کائنات زیادہ تر فوٹان، اِلیکٹران، نیوٹریناس اور اُس کے مخالف ذرّات کے ساتھ ساتھ کسی حد تک پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل تھی۔
کائنات کے اُس اوّلین مرحلے کی تصویر کشی سب سے پہلے ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نامی سائنسدان نے 1948ء میں تصنیف کردہ اپنی مشہور تحریر میں پیش کی۔ اُس نے کہا کہ ’عظیم دھماکے‘ (Big Bang) کے معاً بعد کائنات اِتنی شدید گرم تھی کہ ہر طرف ’نیوکلیائی حرارتی تعاملات‘ (Thermonuclear Radiations) شروع ہو سکیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اِبتدائی کائنات زیادہ توانائی کے حامل خُورد موجی (Short۔Wave) فوٹانز سے معمور تھی۔ اُس نے ایک قابلِ قدر پیشینگوئی کی کہ کائنات کی اِبتدائی بے حد گرم حالتوں میں فوٹانز کی صورت میں پائی جانے والی شعاع ریزی (Radiation) کو اَب بھی جاری ہونا چاہیئے، لیکن اپنے کم درجۂ حرارت کے ساتھ، جو مطلق صفر (273o سینٹی گریڈ) سے محض چند درجے زیادہ ہو٭۔ اسی شعاع ریزی کو (بعد اَزاں) 1965ء میں ’پنزیاس‘ اور ’وِلسن‘ نے دریافت کیا۔ جوں جوں کائنات میں وُسعت کا عمل جاری ہے اُس کا درجۂ حرارت گِرتا چلا جا رہا ہے۔ فی الحال کائنات کا (اَوسط) درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ تک کم ہو چکا ہے، جو مطلق صفر (273.16o سینٹی گریڈ) سے محض 3 درجہ اُوپر ہے۔
٭ مطلق صفر یعنی ۔273.16o وہ درجۂ حرارت ہے جہاں مالیکیولز کی ہر طرح کی حرکت منجمد ہو کر رہ جاتی ہے۔ مترجم
’جارج لویٹر‘ (George Lawaitre) نے 1931ء میں اِس بات کی طرف اِشارہ کیا کہ اگر تمام کہکشاؤں کے باہر کی سمت پھیلاؤ کا تعاقب کیا جائے (اور اُس میں چھپے حقائق پر غور و فکر کیا جائے) تو یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ وہ سب دوبارہ اُسی نقطے پر آن ملیں(جہاں سے سفر کا آغاز ہوا تھا) ۔ مادّے کا یہ بڑا قطرہ جو اِبتدائی ایٹم (Primeval Atom) یا ’ کائناتی انڈے‘ (Cosmic Egg) کے نام سے جانا جاتا ہے، ضرور بالضرور وُہی کچھ ہو گا جو ماضی بعید میں طبیعی کائنات کے طور پر پایا جاتا تھا۔ ’لویٹر‘ نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ مادّے کا وہ بڑا قطرہ کسی وجہ سے پھٹ گیا اور ایک بم کی طرح باہر کی طرف اُڑ نکلا۔ یہی کائنات کی تخلیق قرار پائی۔ ’لویٹر‘ کا یہ خیال بعد اَزاں عظیم دھماکے کے نظریئے کی صورت میں متعارف ہوا۔ یہاں ایک چیز میں اِختلاف ہے کہ (صفر درجہ جسامت کی اِکائیت پر مُشتمل) وہ مادّہ کس طرح تقسیم ہوا، مادّے نے کس طرح بیرونی اَطراف میں سفر شروع کیا اور علیحدگی، اِنشقاق اور دھماکہ کس طرح شروع ہوا؟ ہم اِن تفصیلات میں جانے سے اِحتراز کریں گے۔
اصل حقیقت ہر صورت وُہی ہے کہ آج نظر آنے والی کہکشائیں اُس اِکائی مادّے سے اِنشقاق شدہ اور علیحدہ شدہ ہیں، جس کا قرآنِ حکیم میں یوں ذِکر آتا ہے :
کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاهُمَاط
(الانبياء، 21 : 30)
(سب) ایک اِکائی (Singularity) کی شکل میں جُڑے ہوئے تھے پس ہم نے اُنہیں پھاڑ دیا۔
تخلیقِ کائنات کے زُمرے میں قرآنِ مجید ایک قدم اور آگے بڑھاتا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کائنات میں ’صفر جسامت کی اِکائیت‘ سے اِنشقاق اور وُسعت پذیری کا آغاز کس طرح ہوا؟ مندرجہ ذیل دو آیاتِ مبارکہ اِس موضوع پر بڑی معنی خیز ہیں :
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِO مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَO
(الفلق، 113 : 1، 2)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںo ہر اُس چیز کے شر (اور نقصان) سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےo
اَب ہمیں اِن دو اَلفاظ ’’فَلَق‘‘ اور’’خَلَق‘‘پر بطورِ خاص توجہ دینا ہو گی۔ لفظِ ’خَلَق‘ اپنے مفہوم کا مکمل آئینہ دار ہے اور واضح طور پر عملِ تخلیق کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ یہ بات بھی خاصی موزوں ہے کہ لفظِ ’فَلَق‘ عملِ تخلیق کے ساتھ ایک قریبی تعلق رکھتا ہے۔ آیئے اب ہم پہلی آیتِ کریمہ میں وارِد ہونے والے لفظ ’فَلَق‘ کے معانی اور اہمیت کو سمجھیں۔
’ڈاکٹر ہلوک نور باقی‘ نے علمِ اِشتقاق (علمُ الصّرف / گرامر کی ایک شاخ) کی رُو سے لفظِ ’’فَلَق‘‘ کے بہت سے معانی بیان کئے ہیں۔ تاہم اِس لفظ کا بنیادی معنی کسی چیز کا اچانک پھٹنا اور شدید دھماکہ کرنا ہے۔ یہ ’’فَلَقٌ‘‘ سے مشتقّ ہے۔ ایک اور تعریف کے مطابق اِس میں پھٹی ہوئی شے کا تصوّر بھی پایا جاتا ہے اور یہ وہ تصوّر ہے جو مذکورہ مظہر کو عیاں کرتا ہے۔ ’’فَلَق‘‘ ایک شدید دھماکے کا نتیجہ ہے، جو اپنے اندر اِنتہائی غیرمعمولی رفتار کا تصوّر بھی رکھتا ہے۔ مِثال کے طور پر ’’تَفَلُّق‘‘ کا معنی حد درجہ رفتار کے ساتھ بھاگنا ہے۔ قرآنِ مجید صفاتِ باری تعالیٰ کے ذِکر میں فرماتا ہے :
فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی.
(الانعام، 6 : 95)
دانے اورگُھٹلی کو پھاڑ نکالنے والا۔
صرفی پس منظر کی اِس مختصر وضاحت کے بعدآئیے اب ہم ’’فَلَق‘‘ کے لُغوی معانی پر غور کرتے ہیں۔ اہمیت کے پیشِ نظر اِس کے معانی کو یوں ترتیب دِیا جا سکتا ہے :
اِس (آیتِ مبارکہ) کی تفسیرو توضیح میں بہت سے مفسّرین نے عام معانی کو ترجیح دی ہے۔ دِیگر مفسّرین نے تمثیلی معانی (صبحِ صادِق اور طلوعِ شمس وغیرہ) بھی اَخذ کئے ہیں۔ بعض مفسّرین نے اِس سے مُراد جہنّم میں واقع شدید دھماکوں کا علاقہ بھی بیان کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لفظِ ’’فَلَق‘‘ ایسے نتیجے یا اَشیاء کا معنی دیتا ہے جو اچانک اور شدید دھماکے سے وُقوع پذیر ہوں۔ اِس لفظ کے دُوسرے مفاہیم ثانوی حیثیت رکھتے ہیں جو تمثیلی اَنداز میں بیان کئے گئے ہیں۔ اِس انداز کو اپنانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج سے 14 صدیاں قبل علمِ طبیعیات اور علمِ فلکی طبیعیات کے بارے میں ہماری واقفیت ناکافی تھی۔
آئیے اَب ہم تخلیقِ (کائنات) سے متعلق اپنے طبیعیاتی اور فلکیاتی علم کا جائزہ لیتے ہیں۔ سائنس کی رُو سے کائنات کا آغاز کس بڑے واقعہ سے ہوا؟ ہم عظیم دھماکے کے نظریئے کا خلاصہ بیان کریں گے جو ایک بہت بڑے اِبتدائی دھماکے کے نتیجے میں کائنات کے معرضِ وُجود میں آنے سے متعلق ہے۔
1950ء کے عشرے میں ’آئن سٹائن‘ کے پھیلتی ہوئی کائنات کے تصوّر سے متاثر ہو کر ’ریلف الفر‘ (Ralph Alpher)، ’ہینس بیتھے‘(Hans Bethe) اور ’جارج گیمو‘ (George Gamow) نے پہلی بار عظیم دھماکے کے نظرئیے کو غور و خوض کے لئے پیش کیا۔ یہ نظریہ سالہا سال گرما گرم بحثوں کا مرکز بنا رہا۔ حالیہ برسوں میں دو دریافتوں نے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ثابت ہونے میں مدد دی۔
پہلی ایڈوِن ہبل کی’ کائناتی سرخ ہٹاؤ‘ (Cosmic Red Shift) کی دریافت تھی، جو دُور ہٹتی ہوئی کہکشاں کے طِیف (Spectra) سے حاصل ہوئی۔ تاہم سب سے حتمی اور دوٹوک فیصلہ کن دریافت 1965ء میں ہونے والی 3درجہ کیلون کی مائیکرو وَیو پس منظر کی شعاع ریزی تھی، جو اِبتدائی دھماکے کے باقی ماندہ (اَثرات) کی صورت میں پوری کائنات میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ ہمعصر فلکی طبیعیات میں تمام مظاہر پر بھرپور بحث و مباحثہ کے لئے عظیم دھماکے کے نظریئے کو ابھی بہت سی اچھی شرائط اور بنیادوں پر پورا اُستوار ہونا تھا۔
طبیعیات کی ایک اور (اہم) دریافت جس نے سائنسدانوں کو ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (کی صداقت) تک پہنچنے میں مدد دی وہ ’آزاد خلا کی تباہی‘ کی دریافت ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ خلا ایک ایسی جگہ ہے جہاں کچھ بھی پایا نہیں جاتا، مگر اب یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ خلاء مادّے کی کسی نہ کسی شکل سے بھرپور ہے۔
فلکی طبیعیات کا یہ مُشاہدہ ’ہیسنبرگ‘ (Heisenberg) کے ’غیریقینی حالت کے قانون‘ (Uncertainty Principle) کا نتیجہ ہے۔ اِتنے واقعات کی غیریقینی حالت کی کیفیات کے سبب جب اِلیکٹران میں سے اُس کی تمام کی تمام توانائی ختم ہو گئی تو وہ بے قاعدگی کے ساتھ بکھرتی ہی چلی گئی اور یوں اُس کا اِطلاق خلاء کے مقام پر ہونے لگا۔ اگر اُن صفر مقام کے حامل تغیّرات (Zero۔Point Fluctuations) کا پیچھا کیا جائے تو وہ توانائی کی دیو قامت مِقدار کی غمازی کرتے ملیں گے، جسے ممکن ہے کہ کائنات کے دُوسرے مقامات سے اُدھار لی گئی توانائی سمجھا جائے۔ نتیجۃً اُس مُستعار توانائی کے ذریعے (بعض اَوقات) کوئی ذرّہ پیدا بھی ہو سکتا ہے اور بعد اَزاں فوری طور پر تباہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ تصوّر جو عام شعور کی وضاحت کرتا ہے پہلی بار اِسے 1948ء میں ڈچ ماہرِ طبیعیات ’ہینڈرک کیسیمر‘ (Hendrick Casimir) نے پیش کیا۔ اُن ذرّات کی موجودگی کا اِنکشاف بھی اُسی سال (1948ء ہی میں) ایک امریکی ماہرِ طبیعیات ’وِلس لیمب‘ (Willis Lamb) نے کیا۔
حال ہی میں طبیعیات کے پروفیسر ’پال ڈیویز‘ (Paul Davies) نے دلیرانہ انداز میں یہ اِعلان کیا ہے کہ نئے مادّے کا عدم سے وُجود میں آنا اﷲ ربّ العزّت کی قدرتِ کاملہ کا ایک اہم ثبوت ہے۔ یہ جدید تصوّرات ’عظیم دھماکے کے نظریئے‘ (Big Bang Theory) اور اﷲ تعالیٰ کی غیبی قدرت کے بارے میں ہمارے فہم و اِدراک میں اِضافہ کرتے ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھتے ہیں کہ محیّر العقول دھماکہ کائنات کا ایک سبب تھا اور اُسی کے مطابق کائنات کی طبیعی ساخت اور سِتاروں اور کہکشاؤں کا وُجود عمل میں آیا۔ جدید ترین اَعداد و شمار کے مطابق اُس دیوقامت دھماکے کا پہلا مرحلہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے (One Billionth Second) میں مکمل ہو گیا تھا، جب کہکشاؤں اور سِتاروں کو جنم دینے والا مادّہ آپس میں جڑا ہوا تھا۔ اَوّلیں جدائی ایک سیکنڈ کے ہزّارویں حصے (One Thou۔ sandth Second) میں وُقوع پذیر ہوئی تھی۔
آیئے اب ہم علمِ فلکی طبیعیات اور علمِ کونیات کی معلومات کی رَوشنی میں آیتِ مبارکہ کا از سرِ نو مطالعہ کرتے ہیں :
قُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِO مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَO
(الفلق، 113 : 1، 2)
آپ عرض کیجئے کہ میں (ایک) دھماکے سے اِنتہائی تیزی کے ساتھ (کائنات کو) وُجود میں لانے والے ربّ کی پناہ مانگتا ہوںo ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا فرمائی ہےo
(عدم سے حاصل ہونے والے) وُجود اور (پہلے سے موجود مواد سے پیدا ہونے والی) مخلوق کے ذِکر میں قرآنِ مجید ’’فَلَق‘‘ کی اِصطلاح اِستعمال کر رہا ہے، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اُن کا وُجود میں آنا ایک اِبتدائی دھماکے کا مرہونِ منّت ہے۔ اِس آیتِ مبارکہ کا سب سے اہم رُخ یہ ہے کہ اِس میں صفتِ ربوبیّت کے بیان میں ’’رَبُّ الْفَلَقِ‘‘ کا لفظ اِستعمال کیا گیا ہے۔ بہت سے مفسّرین نے کہا ہے کہ یہ آیت (اﷲ تعالیٰ کی) صفتِ ربوبیّت کی شان بہترین انداز میں بیان کرتی ہے۔ ایک سیکنڈ کے دس اربویں حصے (10 Billionth Second) میں دس سنکھ (10,00,00,00,00,00,00,00,000) سِتارے مُزیّن اَبعاد کے ایک دھماکے (کے نتیجے) میں ہجوم کی صورت میں پیدا ہوئے۔ یہ سب اﷲ ربّ العزّت کی ربوبیّت کی طاقت سے ہی ممکن ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے مادّی کائنات کی تشکیل کا اِرادہ فرمایا اور ’’کُنْ فَیَکُوْنَ‘‘ کے حکم کے ساتھ ایک دھماکہ پیدا کیا۔ ’’فَلَق‘‘ جو اُسی دھماکے کا نتیجہ ہے، اُس وقت ربوبیّتِ باری تعالیٰ کی طاقت سے ایک محیّرالعقول کمپیوٹری حکم کے ذریعے منظم ہو گیا تھا۔ آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’رَبّ‘‘ اور لفظِ ’’فَلَق‘‘ کو ذِکر کرنے کی یہی وجہ ہے کہ تمام مخلوقات کو اِنشقاق اور دھماکے کے نتیجے میں پیدا کیا گیا۔ تاہم اِس سے پہلے کہ کوئی چیز ظہور پذیر ہونے کے لئے ضروری خصوصیات کی حامل ہو سکے اُسے ربوبیّت کی صفات ہی کا فیض حاصل کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ طبیعی کائنات اور حیاتیاتی کمپیوٹری نظام کے قابل ہو سکے۔ یہ دَرحقیقت ایک حاوِی بصیرت (کا کمال) ہے۔ (گویا اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا : )
میری قدرتِ کاملہ میں ہر اُس مخلوق چیز کے شر سے پناہ حاصل کرو کہ جس کی تشکیل میری صفتِ ربوبیت کے فیضان سے ایک دھماکے کے نتیجے میں وُقوع پذیر ہوئی۔ میں تمہارا رب اور اِن کہکشاؤں کا حکمران ہوں جنہیں میں نے ایک عظیم دھماکے کے ساتھ خلا کی لامُتناہی وُسعتوں میں بکھیر رکھا ہے۔ ایسا دھماکہ جو ایک اِکائی سے شروع ہوا اور اُس کے ذریعے بہت سی ایسی طاقتیں، قوتیں، شعاع ریزیاں اور ردِّعمل معرضِ وُجود میں آئے، جو زِندگی کے لئے مہلک ہو سکتے ہیں۔ پس اُن برائیوں سے (میری) پناہ حاصل کرو، کیونکہ جو کوئی میری پناہ لیتا ہے وہ ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
عظیم ماہرِ طبیعیات ’سٹیفن ہاکنگ‘٭ (Stephen Hawking) کے مطابق عظیم دھماکے سے فقط چند گھنٹے بعد ہیلئم اور دُوسرے عناصر کی افزائش تھم گئی اور اُس کے بعد اگلے کئی لاکھ سال تک کائنات کسی قابلِ ذِکر حادثے کے بغیر مسلسل پھیلتی ہی چلی گئی۔ پھر جب ایک بار (کائنات کا اَوسط) درجۂ حرارت چند ہزار درجے تک گِر گیا تو اِلیکٹران اور مرکزے (Nuclei) کے پاس اِتنی توانائی برقرار نہ رہ سکی کہ وہ اپنے درمیان موجود برقی مقناطیسی کشش پر غالب آ سکتے، اِس لئے اُنھیں مجبوراً باہم مل کر ایٹم تشکیل دینا پڑے۔
(خیال کیا جاتا ہے کہ)مجموعی طور پر پوری کائنات پھیلنے اور ٹھنڈا ہونے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے، تاہم وہ علاقے جو نسبتاً زیادہ کثیف ہیں وہاں وُسعت پذیری کا عمل زیادہ کششِ ثقل کی وجہ سے آہستہ ہو گیا ہے۔ آخرکار یہ چیز کائنات کے پھیلاؤ کو کچھ علاقوں میں روکنے کا باعث بنے گی اور دوبارہ اندر کی طرف ہونے والے اِنہدام کے دَوران اُن مخصوص حلقوں (جہاں سے اِنہدام شروع ہو گا) سے باہر موجود مادّے کی کششِ ثقل شاید اُنھیں آہستہ سے گھمانا شروع کر دے۔ جوں جوں مُنہدم ہونے والے حلقے چھوٹے ہوتے چلے جائیں گے، اُن کے گھومنے میں تیزی آتی چلی جائے گی۔ بالآخر جب کوئی حلقہ بہت چھوٹا رہ جائے گا تو وہ اِس قدر تیزی سے گھومے گا کہ کششِ ثقل کا توازُن برقرار نہیں رکھ پائے گا۔ اِسی انداز میں گھومتی ہوئی چکردار کہکشائیں (Spiral Galaxies) پیدا ہوئی تھیں۔ دِیگر کہکشائیں جن میں محوری گردِش کا یہ عمل ظاہر نہیں ہوا وہ بیضوی شکل اِختیار کرتی چلی گئیں، اُنہی کو بیضوی کہکشائیں (Elliptical Galaxies) کہا جاتا ہے۔
کہکشاؤں میں سِتاروں کے آخری کناروں کی طرف کچھ بھاری مُرکّبات پیدا ہونے لگ جاتے ہیں، جو گیس سے بھر جاتے ہیں اور نئے سِتاروں کی پیدائش کے لئے خام مواد مہیا کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved