تخلیق کائنات

سورج اور نظام شمسی

سورج جوہماری زمین کے لئے روشنی اور حرارت کا بنیادی ذریعہ ہے، بہت معمولی درجے کا ایک ستارہ ہے۔ یہ کہکشاں کے مرکز سے 30 ہزار نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ سورج نظامِ شمسی کا مرکز ہے، جس میں 9 بڑے سیاروں، اور اُن کے چاندوں سمیت سیاروں کے مابین واقع چھوٹے اَجسام، ہزاروں سیارچے، دُمدار تارے اور شہابیئے شامل ہیں۔

سورج زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلئم گیسوں پر مشتمل ہے۔ اُس کے مرکز میں ایک بڑا نیوکلیائی ری ایکٹر ہے، جس کا درجۂ حرارت کم از کم ایک کروڑ 40 لاکھ سینٹی گریڈ (2کروڑ 50لاکھ فارن ہائیٹ) ہے۔ سورج نیوکلیائی فیوژن کے ذریعے توانائی پیدا کرتا ہے، (نیوکلیائی فیوژن سے مُراد وہ عمل ہے) جس سے ہائیڈروجن ہیلئم میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ توانائی کا اِخراج بھی کرتی ہے۔

سورج 40 لاکھ ٹن فی سیکنڈ کی شرح سے توانائی کی صورت میں اپنی کمیّت کا اِخراج کر رہا ہے۔ تاہم اُس کی کل کمیّت 210 ٹن ہے، جو زمین کی کمیّت کا 3,30,000 گنا اور نظامِ شمسی کے تمام سیاروں کی کمیّت کا 745 گنا ہے۔ سورج کا قطر 13,92,000 کلومیٹر (8,63,000 میل) ہے، جو زمین کے قطر سے 109 گنا (بڑا) ہے۔ سورج کا حجم زمین سے 13 لاکھ گنا زیادہ ہے۔

سورج کی سطح اور فضا

دُوربین کی مدد سے حاصل شدہ سورج کے عکس پراکثر اَوقات سیاہ دھبے دِکھائی دیتے ہیں، جنہیں ’سورج کے دھبے‘ (Sunspots) کہا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ سیاہ نظر آتے ہیں مگر درحقیقت وہ خاصے روشن ہوتے ہیں۔ اُن کے تارِیک نظر آنے کا سبب (دراصل اُن کے) آس پاس واقع شدید روشن علاقہ ہوتا ہے جس کی نسبت وہ سیاہ دِکھائی دیتے ہیں۔ سورج کے اِن دھبوں کا درجۂ حرارت باقی سطحِ شمس سے 2,000 سینٹی گریڈ (3,600 فارن ہائیٹ) تک کم ہوتا ہے۔ سورج کے اِن قابلِ دِید دھبوں کی تِعداد ہر 11سالہ دَور میں کم و بیش ہوتی رہتی ہے۔ اس 11سالہ دَوری مدّت کے عروج پر دھبوں کے بہت سے گروپ بآسانی دیکھے جا سکتے ہیں، جبکہ اُس کی شدّت میں کمی کے دَوران بعض دفعہ کئی کئی دِنوں تک کوئی دھبّہ نظر نہیں آتا۔٭

سورج کی چمکدار سطح کو کرۂ ضیائی (Photosphere) کہا جاتا ہے۔ کرۂ ضیائی کے گہرے مُشاہدے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سینکڑوں کلومیٹر قطر کے حامل لاکھوں ذرّات پر مُشتمل ہے۔ سورج کی سطح ہر لحظہ اپنی ماہیّت کو تبدیل کرتی رہتی ہے کیونکہ ہر ذرّہ اپنے آپ کو تقریباً 10 منٹ تک ہی قائم رکھ پاتا ہے۔ کرۂ ضیائی سے گیس کے دو فوّارے باہر کی طرف لپکتے رہتے ہیں، جنہیں ’Spicules‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماً 15,000 کلومیٹر (9,000 میل) قطر پر مشتمل ہوتے ہیں، مگر محض چند منٹ ہی برقرار رہتے ہیں۔

سورج کا وہ حصہ جو کرۂ ضیائی (Photosphere) کے اُوپر واقع ہے، لونی کرّہ (Chromosphere) کہلاتا ہے۔ کرۂ ضیائی کے اِنتہائی قریب واقع ہونے کی وجہ سے عام طور پر اُسے ننگی آنکھ سے دیکھنا ناممکن ہے۔ تاہم مکمل سورج گرھن کے دوران جب کرۂ ضیائی (Photosphere) مکمل طور پر چاند (کی ٹکیہ) کی اوٹ میں چھپ جاتا ہے تو لونی کرّے کا مُشاہدہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔٭

لونی کرّہ بعض اَوقات دہکتی ہوئی ہائیڈروجن کی بڑی بڑی لپٹیں باہر کو پھینکتا ہے، جنہیں ’Prominence‘ کہا جاتا ہے۔ وہ سورج کی بیرونی فضا میں سرایت (کرکے ختم) ہو جاتی ہیں۔ اُن کی اَوسط لمبائی 1,00,000 کلومیٹر (60,000 میل) ہوتی ہے۔ وہ متحرّک اور جامد دو اَقسام پر مُشتمل ہیں۔ متحرّک لپٹیں تُندوتیز ہوتی ہیں اور (اِسی لئے) بہت تھوڑا عرصہ زِندہ رہتی ہیں، جبکہ جامد لپٹیں بالکل پُرسکون اَنداز میں ہفتوں برقرار رہتی ہیں۔

فضائے شمسی کی سب سے بیرونی تہہ نور کا ہالہ (Corona) ہے جو شدید گرم مُہین ہائیڈروجن گیس پر مُشتمل ہے۔ شمسی شعلے (Solar Flares) سورج کی فضا میں ایک الگ قسم کا روشن ہیجان ہیں۔ اُن کا تعلق عموماً سورج کے دھبوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ چند منٹ کے اندر اندر بے اِنتہا چمکدار ہو جاتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر مِقناطیسی مظہر ہوتے ہیں اور چارج شدہ ذرّات اور شعاع ریزی (Radiation) کی بڑی مِقدار خارج کرتے ہیں۔

نظامِ شمسی

نظامِ شمسی سورج سمیت بہت سے ایسے اَجسام پر مُشتمل ہے جو اُس کی کششِ ثقل کی وجہ سے اُس کے ساتھ (ایک مربوط نظام کی صورت میں) بندھے ہوئے ہیں، جس میں سیارے، اُن کے چاند، سیارچے، دُمدار تارے، شہابیئے اور سیاروں کے مابین واقع گیس اور گرد و غبار شامل ہیں۔

(نظامِ شمسی کے) سیاروں کی کل تِعداد 9 ہے اور وہ سب کے سب سورج کے گِرد بیضوی مدار میں محوِ گردِش ہیں۔ سورج کی طرف سے فاصلے کی بنیاد پر اُن کی ترتیب کچھ یوں ہے:

i۔ عطارُد۔ ii زُہرہ۔ iii زمین

iv۔ مِرّیخ۔ v مُشتری۔ vi زُحل

vii۔ یورِینس۔ viii نیپچون۔ ix پلوٹو٭

My Very Educated Mother Just Sent Us Nine Pizzas.

اِن میں سے (آخری سیارے) پلوٹو کا مدار سب سے زیادہ مُنحرفُ المرکز (بیضوی) ہے۔ اگرچہ سورج سے اُس کا اَوسط فاصلہ نیپچون کی نسبت زیادہ ہے تاہم اُس کے مدار کا کچھ حصہ نیپچون کی نسبت سورج سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1979ء سے 1999ء تک نیپچون ہی نظامِ شمسی کا بعید ترین سیارہ رہا ہے۔

1992ء میں پلوٹو سے آگے پائے جانے والے ایک جِرمِ فلکی کا شہرہ ہوا۔ 200 کلومیٹر (120 میل) قطر کے حامل اُس جسم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کوئی سیارچہ یا دُمدار تارہ ہو گا۔ اُس کا نام ’1992 کیو بی 1‘ رکھا گیا۔ اُس کا سورج سے فاصلہ تقریباً 8 ارب 80 کروڑ کلومیٹر (5 ارب 40 کروڑ میل) کے لگ بھگ ہے۔٭

نظامِ شمسی کی پیدائش

نظامِ شمسی کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ 14 ارب 60 کروڑ سال پہلے ایک شمسی سحابیئے کے مرکز مائل اِرتکاز سے مادّے میں ہونے والے اِضافے کے نتیجے میں وُجود میں آیا۔ وہ شمسی سحابیہ اِبتدائً گیس اور گرد و غبار کا گھومتا ہوا بادل تھا جس سے بعد اَزاں سورج کی تخلیق عمل میں آئی۔

نظامِ شمسی کی اِبتدائی تشکیل کے وقت کششِ ثقل (ہی) ایک غالب قوّت کے طور پر موجود تھی۔ بعد اَزاں کسی مرحلے میں شمسی سحابیئے میں بہت سے مرکزے نمو پانے لگے جو بڑھتے بڑھتے آخرکار سیاروں کی شکل اِختیار کرتے چلے گئے، جنہیں آج ہم بخوبی جانتے ہیں۔ یہ حقیقت کہ تمام سیارے سورج کے گِرد یکساں سمت میں گردِش کرتے ہیں، یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ یہ (نظامِ شمسی) یقیناً حقیقی شمسی سحابیئے کی محورِی گردِش ہی سے پیدا ہوا ہے٭۔

سیارچے

سیارچے جنھیں بعض اَوقات نجمیئے (Asteroids) بھی کہہ دِیاجاتا ہے، ہزاروں کی تِعداد میں پائے جاتے ہیں۔اُن میں سے بیشتر مریخ اور مُشتری کے درمیان ایک پٹی کی صورت میں سورج کے گِرد گردِش کرتے ہیں۔ سب سے بڑا سیارچہ ’سیرس‘ (Ceres) ہے، جس کا قطر تقریباً 941 کلومیٹر (585میل) ہے۔ پہلے پہل یہ گمان کیا جاتا تھا کہ یہ سیارچے کسی ایسے سیارے کے باقی ماندہ (ٹکڑے) ہیں جو مُشتری کی کشش کے باعث تباہ ہو گیا تھا۔ اَب اکثر ماہرینِ فلکیات کا یہ خیال ہے کہ یہ سیارچے اَیسے بنیادی اَجزاء ہیں جو نظامِ شمسی کی اَوّلین تخلیق کے موقع پر ہی مُشتری کی بے پناہ کششِ ثقل کی وجہ سے (سیارہ بننے سے) رہ گئے تھے۔٭

شہابیئے اور شہابِ ثاقب

سیاروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے لاکھوں ذرّات بھی سورج کے گِرد محوِگردِش ہیں، جنہیں شہابیئے(Meteors) کہا جاتا ہے۔ یہ جسامت میں ریت کے ذرّات جتنے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خلا میں اُن کا مُشاہدہ ممکن نہیں ہوتا۔ جب کوئی شہابیہ زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو وہ رگڑ کھا کر گرم ہوجاتا ہے اور بالآخر تباہ ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہوا میں روشنی (کی لکیر) پیدا ہوتی ہے جس کے سبب ہم شہابِ ثاقب یا ٹوٹتے ہوئے ستارے کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ تقریباً 4کروڑ شہابِ ثاقب روزانہ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں۔٭

بڑے شہابِ ثاقب کے لئے (کسی حد تک) ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو (مکمل طور پر تباہ ہونے سے) بچائے رکھے اور زمین تک صحیح سلامت آن پہنچے۔ انہیں حجرِ شہابی (Meteorites) کہا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جب کوئی (بڑا) شہابیہ زمین پر گِرتا ہے تو وہ (اپنے گِرنے کی جگہ پر) ایک گڑھا بھی پیدا کر دیتا ہے۔ اِس کی بہترین مِثال امریکی ریاست ایریزونا (Arizona) کا گڑھا ہے، جس کا قطر 1,265 میٹر (4,150 فٹ) ہے۔٭

دُمدار تارے

دُمدار تاروں کے بارے میں یہ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ برف اور گرد کے چھوٹے مرکزے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اُنہیں ’برف کے گرد آلود گولے‘ (Dirty Snowballs) بھی کہا جاتا ہے۔ جب کوئی دُمدار تارہ سورج کے قریب پہنچتا ہے تو اُس کا مرکزہ بخارات پر مشتمل روشن بادل (Coma) اور دُم تشکیل دیتا ہے، جو ہمیشہ سورج کی مخالف سمت میں رہتی ہے۔ مرکزہ اگرچہ چند کلومیٹر قطر پر مشتمل ہوتا ہے مگر اُس کے گِرد روشن بادل کا غلاف (Coma)۔ 10لاکھ کلومیٹر سے بھی زیادہ قطر پر محیط ہو سکتا ہے۔

(نظامِ شمسی سے منسلک) دُمدار تاروں کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اُورٹ بادل (Oort Cloud) نامی جگہ پر تشکیل پاتے ہیں، جو سورج سے تقریباً ایک نوری سال کی مسافت پر واقع ہے٭۔ کبھی کبھار اُورٹ بادل سے بے قرار ہو کر نکلنے والے دُمدار تارے سورج کی طرف آ نکلتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سیارے کی کششِ ثقل دُمدار تارے کو کھینچ کر اپنے قریب مگر بہت زیادہ بیضوی مدار میں کر لے جو مقررّہ میعاد کے لئے سورج کے قریب بھی جا سکتا ہے۔

مُتعارف دُمدار تاروں کی سب سے اچھی مثال ہیلے کا دُمدار تارہ (Halley's Comet) ہے، جس کی (سورج کے گِرد ایک) گردِش کا دَورانیہ 76 سال پر محیط ہوتا ہے۔ ہیلے کے دُمدار تارے کا نام برطانوی ماہرِ فلکیات ایڈمنڈ ہیلے (Edmund Halley) کے اِعزاز میں رکھا گیا، جس نے 1758ء میں اُس دُمدار تارے کی سورج کی طرف واپسی کی کامیاب پیشینگوئی کی تھی۔٭

یہ بھی ممکن ہے کہ دیگر دُمدار تارے مکافی مدار(Parabolic Orbit) کے حامل ہوں، جو سورج کی طرف محض ایک آدھ دفعہ ہی آتے ہوں اور پھر ہمیشہ کے لئے نظامِ شمسی سے دُور کھو جاتے ہوں۔ دُمدار تارے (اپنے راستے سے بھٹک کر حادثاتی طور پر) زمین سے ٹکرا بھی سکتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ جون 1908ء میں رُونما ہوا تھا، جب سائبیریا کے کم آباد علاقے ٹنگسکا (Tunguska) میں ایک عظیم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میںایک وسیع و عریض رقبے کے درخت جڑوں سے اُکھڑ گئے۔ ممکن ہے کہ اِس قدر غیرمعمولی تباہی کا باعث عام طور پر (زمین سے) ٹکرا کر گڑھا پیدا کرنے والے شہابیئے کی بجائے کسی چھوٹے دُمدار تارے کا مرکزہ ہو۔٭

وقت کا نظام

زمین کی محورِی گردش اُس کے مدار کے تناسب سے خمدار ہے، جس کی وجہ سے سورج باقی ستاروں کی نسبت یکساں رفتار سے سفر کرتا دِکھائی نہیں دیتا۔ (یہی وجہ ہے کہ معمولاتِ زِندگی میں کسی قدر سہولت کی غرض سے) وقت کی پیمائش کے اکثر نظاموں کی بنیاد ایک ’فرضی سورج‘ پر رکھی گئی ہے، جو ’حقیقی سورج‘ کی اَوسط رفتار کے برابر مستقل رفتار کے ساتھ سفر کرتا ہے٭۔ (دُنیا کے تمام ممالک اپنے معیاری وقت کا تعین فرضی سورج ہی کے حساب سے کرتے ہیں۔)

٭ زمین کا محور کے اُس کے مدار کی نسبت 23.4415o ڈِگری جھکاؤ رکھتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کے روزانہ طلوع و غروب میں ایک آدھ منٹ کا فرق عام طور پر مُشاہدے میں آتا ہے۔ اِسی طرح سردیوں میں دِن چھوٹے اور گرمیوں میں بڑے ہوتے ہیں۔ جو خطے خطِ اِستواء سے جس قدر دُور ہیں وہ اُسی قدر سورج کی اِن حرکات سے زیادہ متاثر بھی ہیں۔ چونکہ زمین ایک کرّہ ہے اور سورج سارا سال خطِ اِستواء کی طرح پوری زمین پر یکساں اَوقات میں طلوع و غروب نہیں ہو سکتا اِس لئے ضروری خیال کیا گیا کہ سورج کی خطِ اِستواء پر پائی جانے والی حرکات کے مماثل اُس کی اَوسط حرکات پر مبنی نظام وضع کیا جائے اور اُس ’فرضی سورج‘ کے لحاظ سے پوری دُنیا کے معیاری اَوقات کا تعیّن کرتے ہوئے وقت کے نظاموں کی بنیاد رکھی جائے۔ چنانچہ ’حقیقی سورج‘ کی اَوسط رفتار کے مماثل مستقل رفتار سے محوِ سفر ایک ’فرضی سورج‘ کو قیاس کیا گیا جو دُنیا بھر میں خطِ اِستواء کی طرح صبح 6 بجے طلوع اور شام 6 بجے غروب ہوتا ہے۔ دوپہر ٹھیک 12 بجے اور نصف شب ٹھیک 12 بجے عمل میں آتی ہے۔ حقیقی اور فرضی سورج کے اَوقات میں تفاوُت سرما کی شدّت میں خط اِستواء سے زیادہ دُور ملکوں میں منٹوں کی بجائے گھنٹوں تک جا پہنچتا ہے جس کے اِزالے کے لئے 40 درجہ عرض بلد سے دُور واقع تقریباً تمام ممالک ’حقیقی سورج‘ کے طلوع کے ساتھ کسی قدر یکسانی پیدا کرنے کے لئے سال بھر میں ایک بار اپنا معیاری وقت آگے اور پیچھے کرتے رہتے ہیں۔ مترجم

دِن وقت کی وہ اِکائی ہے جو زمین اپنے محور کے گِرد ایک چکر لگانے میں صرف کرتی ہے۔ ’فلکی دِن‘ (Sidereal Day) کو ستاروں کی پوزیشن کے حوالے سے شمار کیا جاتا ہے ٭۔ یہ وہ دَورانیہ ہے جو کوئی ستارہ کسی مُشاہدہ کرنے والے کو ایک ہی طول بلد(Meridian) پر اگلے روز دوبارہ نظر آنے میں صرف کرتا ہے ٭٭۔ ایک ’فلکی دِن‘ کی مدّت ایک ’حقیقی سورج‘ کے ’فرضی سورج‘ کے ساتھ تناسب کے لحاظ سے 23گھنٹے، 56منٹ اور 04سیکنڈ ہوتی ہے جبکہ ’فرضی شمسی دِن‘ 24گھنٹے کا ہوتا ہے۔

سال وقت کی وہ اکائی ہے جو زمین سورج کے گِرد اپنے مدار میں ایک چکر پورا کرنے میں صرف کرتی ہے۔ زمین اپنے مدار میں ایک حقیقی چکر 365دِن، 6گھنٹے، 9منٹ اور 10سیکنڈمیں پورا کرتی ہے۔ اسے ’فلکی سال‘ (Sidereal Year) بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ وہ سمت جس میں زمین کا محورِی نقطہ اُس اثر کی وجہ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے، اُسے ’اِستقبالِ اِعتدالین‘ (Precession) کہتے ہیں۔ ’فصلی سال‘ (Tropical Year) اِستقبالِ اِعتدالین کے اَثرات کا اِزالہ کرتا ہے اور وہ 365دِن، 5گھنٹے، 48منٹ اور 45سیکنڈ کا ہوتا ہے٭۔ تقویم (کیلنڈر) بنانے کے لئے بھی ’فصلی سال‘ ہی کو (ایک بنیاد کے طور پر) اِستعمال کیا جاتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved