30 / 1. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ نَبِيٍّ بَعَثَهُ اللہُ فِي أُمَّةٍ قَبْلِي إِلاَّ کَانَ لَهُ مِنْ أُمَّتِهِ حَوَارِيّوْنَ وَأَصْحَابٌ. يَأْخُذُوْنَ بِسُنَّتِهِ وَيَقْتَدُوْنَ بِأَمْرِهِ. ثُمَّ إِنَّهَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِهِمْ خُلُوْفٌ يَقُوْلُوْنَ مَا لَا يَفْعَلُوْنَ وَيَفْعَلُوْنَ مَا لَا يُؤْمَرُوْنَ. فَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِيَدِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِلِسَانِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَمَنْ جَاهَدَهُمْ بِقَلْبِهِ فَهُوَ مُؤْمِنٌ. وَلَيْسَ وَرَاءَ ذٰلِکَ مِنَ الإِْيْمَانِ حَبَّةُ خَرْدَلٍ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان، 1 /69، الرقم /50، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /458، الرقم /4379، وابن حبان في الصحيح، 14 /71، الرقم /6193، وأبو عوانة في المسند، 1 /36، والطبراني في المعجم الکبير، 10 /13، الرقم /9784، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /90، الرقم /19965، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 /86، الرقم /7560.
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے جس اُمت میں جو بھی نبی بھیجا اس نبی کے لیے اس کی اُمت میں سے کچھ مددگار اور رفقاء ہوتے تھے جو اپنے نبی کے طریق پر کار بند ہوتے اور اس کے اُمراء کی اقتدا کرتے تھے۔ پھر ان صحابہ کے بعد کچھ ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے فعل کے خلاف قول اور قول کے خلاف فعل کیا (یعنی دوسروں پر ظلم و ستم کیا)۔ لہٰذا جس شخص نے اپنے ہاتھ کے ساتھ (ظلم کے خلاف) ان سے جہاد کیا وہ بھی مومن ہے، جس نے اپنی زبان سے اُن کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے اور جس نے اپنے دل سے ان کے ظلم کے خلاف جہاد کیا وہ بھی مومن ہے۔ اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان کا کوئی درجہ نہیں ہے۔
اسے امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
31 / 2. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ أَوْ أَمِيرٍ جَائِرٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَة.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /315، الرقم /18850، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 /123، الرقم /4344، والترمذي في السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر، 4 /471، الرقم /2174، والنسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209، وابن ماجة في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1329، الرقم /4011.
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ یا ظالم حکمران کے سامنے انصاف کی بات کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔
اسے امام احمد بن حنبل، ابو داود، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
32 / 3. وَفِي رِوَايَةِ طَارِقٍ رضی الله عنه: قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ الْجَعْدِ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /314، الرقم /18848، النسائي في السنن، کتاب البيعة، باب فضل من تکلم بالحق عند إمام جائر، 7 /161، الرقم /4209، وأيضا في السنن الکبری، 4 /435، الرقم /7834، وابن الجعد في المسند /480، الرقم /3326.
اور حضرت طارق (بن شہاب) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا: کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔
اسے امام احمد، نسائی اور ابن الجعد نے روایت کیا ہے۔
33 / 4. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه، قَالَ: عَرَضَ لِرَسُولِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولٰی، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللہِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ فَسَکَتَ عَنْهُ، فَلَمَّا رَأَی الْجَمْرَةَ الثَّانِيَةَ سَأَلَهُ، فَسَکَتَ عَنْهُ. فَلَمَّا رَمَی جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ لِيَرْکَبَ. قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ قَالَ: أَنَا، يَا رَسُولَ اللہِ. قَالَ: کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ ذِي سُلْطَانٍ جَائِرٍ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالرُّوْيَانِي وَالْقُضَاعِيُّ.
أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1330، الرقم /4012، والروياني في المسند، 2 /271، الرقم /1179، والقضاعي في مسند الشهاب، 2 /248، الرقم /1288.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جمرہِ اُولیٰ کے قریب کھڑے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ جب اُس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دوسرے جمرہ کے پاس دیکھا تو دوبارہ وہی سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر خاموش رہے۔ جب تیسرے جمرہ کے قریب پہنچے اور اس کی رمی فرما چکے تو اپنی سواری کی رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے دریافت فرمایا: سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا (اَفضل ترین جہاد) ہے۔
اسے امام ابن ماجہ، رویانی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔
34 / 5. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه: أَنَّ رَجُلًا قَالَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ: يَا رَسُولُ اللہِ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ کَلِمَةُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ في الْمُعْجَمَيْنِ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 /282، الرقم /8081، وأيضا في المعجم الأوسط، 7 /52، الرقم /6824.
اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ جمرات کے نزدیک ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا جہاد افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق کہنا اَفضل ترین جہاد ہے۔
اسے امام طبرانی نے ’المعجم الکبیر‘ اور ’المعجم الاوسط‘ میں روایت کیا ہے۔
36-35 / 6. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ أَصْبَحَ لَا يَهُمُّ بِظُلْمِ أَحَدٍ.
رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ عَنْ عَائِشَةَ رضی الله عنها، وَذَکَرَهُ السُّيُوطِيُّ.
أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 /357، الرقم /1438، والخطيب البغدادي في المتفق والمفترق، 3 /1653، الرقم /1139، وذکره السيوطي في جامع الأحاديث، 2 /14، الرقم /3504.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے اِس حال میں صبح کی کہ وہ کسی پر ناروا ظلم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔
اسے امام دیلمی نے اور خطیب بغدادی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اور امام سیوطی نے بیان کیا ہے۔
قَالَ الْحَکَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ وَالْهِجْرَةِ کَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ.
ذَکَرَهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ فِي التَّمْهِيْدِ.
36: ابن عبد البر في التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، 8 /390.
حکم بن عتیبہ کا قول ہے: بہترین جہاد اور ہجرت ظالم حکمران کے سامنے اِنصاف کی بات کہنا ہے۔
اسے امام ابن عبد البر نے ’التمہید‘ میں بیان کیا ہے۔
38-37 / 7. عَنْ جَرِيْرٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلٰی أَنْ يّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَـلَا يَغَيِّرُوْا إِلاَّ أَصَابَهُمُ اللہُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَمُوْتُوا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ مَاجَة وَابْنُ حِبَّانَ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /364، الرقم /19250، وأبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 /122، الرقم /4339، وابن ماجه في السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 /1329، الرقم /4009، وابن حبان في الصحيح، 1 /536، الرقم /300، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /332، الرقم /2382.
حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
اس حدیث کو امام احمد، ابوداؤد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ، ابنِ ماجہ اور ابنِ حبان نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه: أَفْضَلُ الْجِهَادِ الأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ.
ذَکَرَهُ الثَّعْلَبِيُّ فِي الْکَشْفِ وَالرَّازِيُّ فِي التَّفْسِيْرِ وَأَبُو سَعُودٍ فِي إِرْشَادِ الْعَقْلِ السَّلِيْمِ وَالنَّسَفِيُّ فِي الْمَدَارِکِ وَالزَّمَخْشَرِيُّ فِي الْکَشَّافِ وَالرِّفَاعِيُّ فِي الْبُرْهَانِ الْمُؤَيِّدِ.
38: الثعلبي في الکشف والبيان عن تفسير القرآن، 3 /123، والرازي في التفسير الکبير، 8 /147، وأبو سعود في إرشاد العقل السليم إلی مزايا القرآن الکريم، 2 /68، والنسفي في مدارک التنزيل وحقائق التأويل، 1 /171، والزمخشري في الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 1 /425، والرفاعي في البرهان المؤيد، 1 /103.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: بہترین جہاد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا ہے۔
اسے امام ثعلبی نے ’الکشف والبیان‘ میں، رازی نے ’التفسیر الکبیر‘ میں، ابو سعود نے ’ارشاد العقل السلیم‘ میں، نسفی نے ’مدارک التنزیل‘ میں، زمخشری نے ’الکشاف‘ میں اور رفاعی نے ’البرہان المؤید‘ میں بیان کیا ہے۔
39 / 8. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنهما، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أُبَايِعُکَ عَلَی الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ أَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللہِ. قَالَ: فَهَلْ مِنْ وَالِدَيْکَ أَحَدٌ حَيٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ، بَلْ کِلَاهُمَا حَيٌّ. قَالَ: فَتَبْتَغِي الْأَجْرَ مِنَ اللہِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَارْجِعْ إِلٰی وَالِدَيْکَ فَأَحْسِنْ صُحْبَتَهُمَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَفِي رِوَايَةٍ لَهُمَا: جَاءَ رَجُلٌ فَاسْتَأْذَنَهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: أَحَيٌّ وَالِدَاکَ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَفِيْهِمَا فَجَاهِدْ.
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب لا يجاهد إلا بإذن الأبوين، 5 /2227، الرقم /5627، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب بر الوالدين وأنهما أحق به، 4 /1975، الرقم /2549.
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں اجر و ثواب کے لئے آپ سے جہاد اور ہجرت کی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، بلکہ دونوں زندہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تو (واقعی) اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے والدین کے پاس جا اور حسنِ خدمت کے ساتھ اُن دونوں کی صحبت اختیار کر۔
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور بخاری و مسلم ہی کی روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر جہاد پر جانے کی اجازت چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو اُن کی خدمت میں (رہ کر ہی) جہاد کر۔
40 / 9. عَنْ جَاهِمَةَ رضی الله عنهما، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَسْتَشِيْرُهُ فِي الْجِهَادِ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم: أَلَکَ وَالِدَانِ؟ قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: إِلْزَمْهُمَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ أَرْجُلِهِمَا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُهُ ثِقَاتٌ.
40: أخرجه النسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب الرخصة في التخلف لمن له والدة، 6 /11، الرقم /3104، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /289، الرقم /2202، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 3 /216، الرقم /3750، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 /138. وَ قَالَ: وَرِجَالُهُ الثِّقَاتُ.
حضرت جاہمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں جہاد کے لیے رہنمائی لینے کی خاطر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں (زندہ ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُن ہی کے ساتھ رہو کہ جنت اُن کے پاؤں تلے ہے۔
اِسے امام نسائی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے کہا ہے: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
41 / 10. عَنْ أُمِّ أَنَسٍ رضی الله عنهما، قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ: جَعَلَکَ اللہُ فِي الرَّفِيْقِ الأَعْلٰی مِنَ الْجَنَّةِ وَأَنَا مَعَکَ. وَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، عَلِّمْنِي عَمَلاً صَالِحًا أَعْمَلُهُ. فَقَالَ: أَقِيْمِي الصَّلَاةَ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْجِهَادِ، وَاهْجُرِي الْمَعَاصِيَ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْهِجْرَةِ، وَاذْکُرِي اللہَ کَثِيْرًا، فَإِنَّهُ أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللہِ أَنْ تَلْقِيْنَهُ بِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ أَبِي الدُّنْيَا وَذَکَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
41: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 /149-150، الرقم /359، وابن أبي الدنيا في الورع /58، الرقم /48، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 /257، الرقم /2311، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 /75، وابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، 3 /61، الرقم /223.
حضرت اُمّ انس رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں: میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: (میری تمنا ہے کہ جب) اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں رفیقِ اعلیٰ کے مقام پر فائز فرمائے تو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی نیک عمل بتائیں جو میں کروں تاکہ جنت میں آپ کے ہمراہ رہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نماز قائم کرو کہ یہ بہترین جہاد ہے، اور گناہوں کو ترک کر دو کہ یہ سب سے بہترین ہجرت ہے، اور اللہ کا ذکر کثرت سے کیا کرو کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں آپ جتنے بھی اعمالِ صالحہ پیش کرتی ہیں ان میں سے ذکر اُسے سب سے زیادہ پسند ہے۔
اس حدیث کو امام طبرانی اور ابن ابی الدنیا نے روایت کیا اور منذری و ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
44-11 /42. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهَا أَيْضًا: أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، أَوْصِنِي. قَالَ: اهْجُرِي الْمَعَاصِيَ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْهِجْرَةِ، وَحَافِظِي عَلَی الْفَرَائِضِ فَإِنَّهَا أَفْضَلُ الْجِهَادِ، وَأَکْثِرِي مِنْ ذِکْرِ اللہِ فَإِنَّکِ لَا تَأْتِي اللہَ بِشَيْئٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ کَثْرَةِ ذِکْرِهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ شَاهِيْنٍ وَذَکَرَهُ الْهَيْثَمِيُّ.
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 /129، الرقم /313، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 /21، الرقم /6735، وابن شاهين في الترغيب في فضائل الأعمال وثواب ذلک، 1 /194، الرقم /163، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 2 /257، الرقم /2311 والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 /217-218، وأيضًا، 10 /75.
حضرت انس رضی اللہ عنہما کی والدہ سے منقول ایک اور روایت میں ہے: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ ! مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: گناہوں (کی وادی) سے ہجرت کر کیونکہ یہ بہترین ہجرت ہے، فرائض کی حفاظت کر کیونکہ یہ بہترین جہاد ہے اور اللہ کا ذکر کثرت سے کر کیونکہ آپ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کوئی ایسا عمل پیش نہیں کرسکتیں جو اسے اپنے ذکر کی کثرت سے زیادہ محبوب ہو۔
اِسے امام طبرانی اور ابن شاہین نے روایت کیا ہے اور ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
رُوِيَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما فِي تَفْسِيْرِ الآيَةِ: {وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا} [العنکبوت، 29 /69]: وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِي طَاعَتِنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَ ثَوَابِنَا.
ذَکَرَهُ الْبَغَوِيُّ فِي الْمَعَالِمِ.
البغوي في معالم التنزيل، 3 /475.
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما سے اِس آیت مبارکہ - {وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا} ’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘ - کی تفسیر میں مروی ہے: اس سے مراد ہے کہ جو ہماری اِطاعت میں جہاد اور مجاہدہ کرتے ہیں، ہم اُنہیں اَجر و ثواب کی راہیں دکھا دیتے ہیں۔
اسے امام بغوی نے ’معالم التنزیل‘ میں بیان کیا ہے۔
قَالَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ: أَفْضَلُ الْجِهَادُ الْمُوَاظَبَةُ عَلَی الصَّلَوَاتِ.
ذَکَرَهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي التَّارِيْخِ.
ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 48 /429.
امام فضیل بن عیاض بیان کرتے ہیں: بہترین جہاد ادائیگيِ نماز پر مداومت اختیار کرنا ہے۔
اسے ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق‘ میں بیان کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved