24 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هٰذَا لَمْ يَأْتِهِ إِلَّا لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ فَهُوَ بِمَنْزِلَهِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيْلِ اللہِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ مَاجَة وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَالْبَيْهَقِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 /418، الرقم /9409، وابن ماجة في السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 /82، الرقم /227، وابن أبي شيبة في المصنف عن أبي الدرداء رضی الله عنه مثله، 7 /115، الرقم /34616، وأبو يعلی في المسند، 11 /359، الرقم /6472، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /263، الرقم /1698، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1 /59، الرقم /146، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 /31، الرقم /83.
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو میری اس مسجد میں صرف خیر کے لیے علم سیکھنے یا اسے سکھانے کے لیے آیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد کے مقام و مرتبہ پر ہے۔
اسے امام احمد نے، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں اور ابن ابی شیبہ، ابو یعلی اور بیہقی نے روایت کیا۔
25 / 2. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صلی الله عليه وآله وسلم: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِنَّ تَعَلُّمَهُ ِﷲِ خَشْيَةٌ، وَطَلَبَهُ عِبَادَةٌ، وَمُذَاکَرَتَهُ تَسْبِيْحٌ، وَالْبَحْثَ عَنْهُ جِهَادٌ، وَتَعْلِيْمَهُ لِمَنْ لَا يَعْلَمُهُ صَدَقَةٌ، وَبَذْلَهُ لِأَهْلِهِ قُرْبَةٌ، لِأَنَّهُ مَعَالِمُ الْحَلَالِ وَالْحَرَامِ.
رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالرَّبِيْعُ وَذَکَرَهُ الْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه ابن عبد البر في جامع بيان العلم وفضله، 1 /115، الرقم /202، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /41، الرقم /2237، والربيع في المسند، 1 /30، الرقم /22، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1 /52، الرقم /107، والحاجي خليفة في کشف الظنون، 1 /18، والقنوجي في أبجد العلوم، 1 /92، وابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم /235.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علم حاصل کرو، کیونکہ اس کا سیکھنا اللہ کا خوف پیدا کرتا ہے، اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اس کا مذاکرہ تسبیح ہے، اس کی جستجو میں لگے رہنا جہاد ہے، بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر مال خرچ کرنا (اللہ کے) قرب کا باعث ہے، کیونکہ علم حلال و حرام (میں امتیاز) کے لیے نشانِ راہ ہے۔
اسے امام ابن عبد البر، دیلمی اور ربیع نے روایت کیا ہے اور منذری نے بیان کیا ہے۔
29-26 / 3. عَنْ قُرَيْشٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: کَانَ فِدَائُ أَهْلِ بَدْرٍ أَرْبَعِيْنَ أَوْقِيَةً أَرْبَعِيْنَ أَوْقِيَةً. فَمَنْ لَمْ يکُنْ عِنْدَهُ عَلَّمَ عَشَرَةً مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْکِتَابَةَ؛ فَکَانَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِمَّنْ عَلَّمَ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ.
ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /22.
حضرت قریش، عامر سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اَہل بدر کا فدیہ چالیس چالیس اَوقیہ ہے۔ لیکن جو فدیہ ادا نہیں کر سکتا تھا اُس نے دس مسلمانوں کو لکھنا سکھا دیا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ انہی قیدیوں میں سے تھے جنہوں نے (بطور فدیہ) لکھنا سکھایا۔
اسے امام ابن سعد نے ’الطبقات الکبریٰ‘ میں روایت کیا ہے۔
اسلام میں جہاد بالعلم کی اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزوہ بدر میں قید ہونے والے ستر(70) جنگی قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کئی options تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان کیا کہ جو فدیہ ادا نہیں کر سکتا وہ دس مسلمانوں کو لکھنا سکھا دے تو یہی اس کا فدیہ (ransom money) تصور ہوگا۔
قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ بَنٰی مَسْجِدًا، يُعَلِّمُ فِيْهِ الْقُرْآنَ وَالْفِقْهَ وَالسُّنَّةَ.
ذَکَرَهُ الْقُرْطُبِيُّ فِي التَّفْسِيْرِ وَابْنُ أَبِي يَعْلٰی فِي الطَّبَقَاتِ.
27: القرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 8 /296، وابن أبي يعلی في طبقات الحنابلة، 2 /225.
حضرت (عبد اللہ) بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے مسجد تعمیر کی تاکہ اس میں قرآن مجید اور فقہ و سنت کی تعلیم دی جائے (یعنی علم صحیح کو فروغ دیا جائے)۔
اسے امام قرطبی نے تفسیر ’الجامع لاحکام القرآن‘ میں اور ابن ابی یعلی نے ’طبقات الحنابلہ‘ میں بیان کیا ہے۔
قَالَ الْفُضَيْلُ بْنُ عِيَاضٍ فِي تَفْسِيْرِ الآيَهِ: {وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا} [العنکبوت، 29 /69]: وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِي طَلَبِ الْعِلْمِ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَ الْعَمَلِ بِهِ.
ذَکَرَهُ الْبَغَوِيُّ فِي الْمَعَالِمِ.
البغوي في معالم التنزيل، 3 /475.
امام فضیل بن عیاض اِس آیت مبارکہ - {وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا} ’اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں‘ - کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد ہے کہ جو حصولِ علم میں مجاہدہ کرتے ہیں، ہم اُنہیں اس پر عمل کی راہیں دکھا دیتے ہیں۔
اسے امام بغوی نے ’معالم التنزیل‘ میں بیان کیا ہے۔
سُئِلَ الإِمَامُ سُفْيَانُ الثَّورِيُّ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: اَلْجِهَادُ أَمْ تَعْلِيْمُ الْقُرْآنِ؟ فَرَجَّحَ تَعْلِيْمَ الْقُرْآنِ فِي الثَّوَابِ وَالْفَضْلِ عَلَی الْجِهَادِ فِي سَبِيْلِ اللہِ.
ذَکَرَهُ مُحَمَّدٌ أَحْمَدُ إِسْمَاعِيْلُ الْمُقَدَّمُ فِي التَّفْسِيْرِ.
محمد أحمد إسماعيل المقدم في تفسير القران الکريم، 1 /2.
امام سفیان ثوری سے ایک بار سوال کیا گیا: دونوں میں سے افضل کیا ہے: جہاد یا قرآن مجید کی تعلیم دینا۔ تو امام سفیان ثوری نے ثواب اور فضیلت کے اِعتبار سے تعلیمِ قرآن کو جہاد فی سبیل اللہ پر ترجیح دی۔
اسے محمد احمد اِسماعیل المقدم نے ’تفسیر القرآن الکریم‘ میں بیان کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved