الجہاد الاکبر

جہاد بالنفس

اَلْبَابُ الثَّالِثُ: اَلْجِهَادُ بِالنَّفْسِ

اَلْقُرْآن

  1. وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِط اِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِيْنَo

(العنکبوت، 29 /6)

جو شخص (راہِ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo

  1. وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo

(العنکبوت، 29 /69)

اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیں اپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اللہ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo

اَلْحَدِيث

(1) مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ الأَمَّارَةَ فَهُوَ الْمُجَاهِدُ الْحَقِيْقِيُّ

{نفسِ اَمارہ کے خلاف جہاد کرنے والا حقیقی مجاہد ہے}

5-1 /1. عَنْ فُضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضی الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ.

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ حِبَّانَ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

1: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /20، الرقم /23996، والترمذي في السنن، کتاب فضائل الجهاد، باب ما جاء في فضل من مات مرابطًا، 4 /165، الرقم /1621، والبزار في المسند، 2 /156، الرقم /3753، والحاکم في المستدرک، 2 /156، الرقم /2637، وابن حبان في الصحيح، 10 /484، الرقم /4624، والطبراني في المعجم الکبير، 18 /256، الرقم /641، وأبو عوانة في المسند، 4 /496، الرقم /7463، والبيهقي في الزهد الکبير /163، الرقم /369.

حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بڑا) مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف جہاد کرتا ہے۔

اس حدیث کو امام احمد نے، ترمذی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

  1. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه، قَالَ: أَوَّلُ مَا تُنْکِرُوْنَ مِنْ جِهَادِکُمْ أَنْفُسَکُمْ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُِّ فِي جَامِعِ الْعُلُوْمِ وَالْحِکَمِ.

  1. ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم /196.

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: (اگلے زمانوں میں) سب سے پہلے تم جس چیز کا اِنکار کرو گے وہ جہاد بالنفس ہوگا۔

اسے ابن رجب الحنبلی نے ’جامع العلوم والحکم‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. قَالَ الإِمَامُ ابْنُ بَطَّالٍ فِي شَرْحِ صَحِيْحِ الْبُخَارِيِّ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه : أَوَّلُ مَا تَفْقِدُوْنَ مِنْ دِيْنِکُمْ جِهَادُ أَنْفُسِکُمْ.
  1. ابن بطال في شرح صحيح البخاري، کتاب الرقاق، باب من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 10 /210-211.

امام ابن بطال ’شرح صحیح البخاری‘ میں لکھتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:سب سے پہلے تمہارے دین (پرعمل کرنے) میں جو چیز مفقود (یعنی ترک) ہو جائے گی وہ تمہارا اپنے نفوس کے خلاف جہاد ہے۔

  1. عَنْ حَنَّانَ بْنِ خَارِجَةَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا عَبْدَ اللہِ بْنَ عُمَرَ، مَا تَقُوْلُ فِي الْهِجْرَةِ وَالْجِهَادِ؟ قَالَ: ابْدَأْ بِنَفْسِکَ، فَاغْزُهَا؛ وَابْدَأْ بِنَفْسِکَ، فَجَاهِدْهَا.

رَوَاهُ الطَّيَالِسِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ فِي جَامِعِ الْعُلُوْمِ وَالْحِکَمِ وَالْمِزِّيُّ فِي التَّهْذِيْبِ وَالْعَسْقَلَانِيُّ فِي الْمَطَالِبِ.

  1. أخرجه الطيالسي في المسند /300، الرقم /2277، والبيهقي في الزهد الکبير، 162-163، الرقم /368، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم /196، وأيضا في شرح حديث لبيک /128، والمزي في تهذيب الکمال، 7 /426، وابن حجر العسقلاني في المطالب العالية، 9 /238، الرقم /1928.

حنان بن خارجہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے عبد اللہ بن عمر! آپ کا ہجرت اور جہاد کے بارے میں کیا موقف ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اسے اپنے نفس سے شروع کر اور اس سے جنگ کر؛ پھر اپنے نفس سے شروع کر اور اس سے جہاد کر۔

اسے امام طیالسی اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور ابن رجب الحنبلی نے ’جامع العلوم والحکم‘ میں، مزی نے ’تہذیب الکمال‘ میں جب کہ عسقلانی نے ’المطالب العالیہ‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. قَالَ الإِمَامُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: إِنَّمَا عَدُوُّکَ نَفْسُکَ الَّتِي بَيْنَ جَنْبَيْکَ. فَقَاتِلْ هَوَاکَ أَشَدَّّ مِمَّا تُقَاتِلُ عَدُوَّکَ.

ذَکَرَهُ الإِمَامُ ابْنُ بَطَّالٍ فِي شَرْحِ صَحِيْحِ الْبُخَارِيِّ.

  1. ابن بطال في شرح صحيح البخاري، کتاب الرقاق، باب من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 10 /210.

امام سفیان ثوری کہتے ہیں: بے شک تمہارا دشمن وہی نفس ہے جو تمہارے پہلووں کے درمیان ہے۔ تم اپنے دشمن کے ساتھ جنگ سے بھی بڑھ کر اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ جنگ کرو۔

اسے امام ابن بطال نے ’شرح صحیح البخاری‘ میں بیان کیا ہے۔

(2) اَلْجِهَادُ بِالنَّفْسِ هُوَ الْجِهَادُ الْأَکْبَرُ

{جہاد بالنفس، جہادِ اَکبر ہے}

2 /6. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه، قَالَ: قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَوْمٌ غُزَاةٌ، فَقَالَ: قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَکْبَرِ. قِيْلَ: وَمَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرُ؟ قَالَ: مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي الزُّهْدِ وَالْخَطِيْبُ الْبَغْدَادِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

6: أخرجه البيهقي في الزهد الکبير /165، الرقم /373، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 13 /523، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 6 /438، وذکره ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم /196، والمزي في تهذيب الکمال، 2 /144، والسيوطي في شرح سنن ابن ماجة، 1 /282، الرقم /3934.

حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔ عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔

اسے امام بیہقی نے ’الزہد الکبیر‘ میں اور خطیب بغدادی و ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

10-3 /7. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْغَزَالِيِّ فِي الإِحْيَاءِ: قَالَ نَبِيُنَا صلی الله عليه وآله وسلم لِقَوْمٍ قَدِمُوْا مِنَ الْجِهَادِ: مَرْحَبًا بِکُمْ! قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَکْبَرِ. قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللہِ، وَمَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرُ؟ قَالَ: جِهَادُ النَّفْسِ.

7: الغزالي في إحياء علوم الدين، 3 /66.

امام غزالی کی ’الاحیاء‘ میں بیان کردہ روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ سے واپس آنے والی قوم سے فرمایا: تمہیں خوش آمدید کہ تم جہادِ اَصغر سے جہادِ اَکبر کی طرف لوٹے ہو۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! جہادِ اَکبر کیا ہے؟ فرمایا: نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد۔

(8) قَالَ إِبْرَاهِيْمُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ لِقَوْمٍ جَاءُوْا مِنَ الْغَزْوِ: قَدْ جِئْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ، فَمَا فَعَلْتُمْ فِي الْجِهَادِ الأَکْبَرِ؟ قَالُوْا: وَمَا الْجِهَادُ الأَکْبَرُ؟ قَالَ: جِهَادُ الْقَلْبِ.

ذَکَرَهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ فِي جَامِعِ الْعُلُوْمِ وَالْحِکَمِ.

8: ابن رجب الحنبلي في جامع العلوم والحکم /196.

ابراہیم بن ابی علقمہ نے جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے کہا: تم لوگ جہادِ اَصغر سے واپس لوٹے ہو، اب (دیکھنا یہ ہے کہ تم نے) جہادِ اَکبر میں کیا کیا؟ انہوں نے کہا: یہ جہادِ اَکبر کیا ہے؟ ابراہیم بن ابی علقمہ نے جواب دیا: قلبی جہاد (جو نفسانی خواہشات کے خلاف کیا جاتا ہے)۔

اسے ابن رجب الحنبلی نے ’جامع العلوم والحکم‘ میں بیان کیا ہے۔

(9) قَالَ الإِمَامُ ابْنُ الْمُقَفَّعِ: أَعْظَمُ الْجِهَادُ جِهَادُ الْمَرْئِ نَفْسَهُ.

ذَکَرَهُ الإِمَامُ الرَّاغِبُ الأَصْفَهَانِيُّ فِي الْمُحَاضَرَاتِ.

9: أبو القاسم الاصفهاني في محاضرات الادباء ومحاورات الشعراء والبلغاء، 1 /613.

امام ابن مقفع کہتے ہیں: سب سے بڑا جہاد اِنسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد ہے۔

اسے امام راغب الاصفہانی نے ’محاضرات الادباء‘ میں بیان کیا ہے۔

(10) قَالَ الإِمَامُ ابْنُ بَطَّالٍ فِي شَرْحِ صَحِيْحِ الْبُخَارِيِّ: جِهَادُ الْمَرْءِ نَفْسَهُ هُوَ الْجِهَادُ الأَکْمَلُ.

ذَکَرَهُ الْعَيْنِيُّ فِي الْعُمْدَةِ وَابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَلَانِيُّ فِي الْفَتْحِ.

10: ابن بطال في شرح صحيح البخاری، کتاب الرقاق، باب من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 10 /210، والعيني في عمدة القاري شرح صحيح البخاري، کتاب الرقاق، باب من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 23 /87، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري شرح صحيح البخاري، کتاب الرقاق، باب من جاهد نفسه في طاعة اللہ، 11 /338.

امام ابن بطال ’شرح صحیح البخاری‘ میں کہتے ہیں: انسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد ہی کامل ترین جہاد ہے۔

اسے امام بدر الدین العینی نے ’عمدۃ القاری‘ میں اور حافظ ابن حجر العسقلانی نے ’فتح الباری‘ میں بیان کیا ہے۔

11 / 4. عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنهما، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا تَعُدُّونَ الصُّرَعَةَ فِيکُمْ؟ قَالَ: قُلْنَا: الَّذِي لَا يَصْرَعُهُ الرِّجَالُ. قَالَ: لَيْسَ بِذٰلِکَ، وَلٰـکِنَّهُ الَّذِي يَمْلِکُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.

11: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، 5 /2267، الرقم /5763، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل من يملک نفسه عند الغضب، 4 /2014، الرقم /2609، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /382، الرقم /3626، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب من کظم غيضا، 4 /248، الرقم /4779، وابن حبان في الصحيح، 7 /214، الرقم /2950، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 /216، الرقم /25378، وأبو يعلی في المسند، 9 /96، الرقم /5162، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /68، الرقم /6937، وأيضا 10 /235، الرقم /20874.

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پہلوان کسے سمجھتے ہو؟ راوی بیان کرتے ہیں: ہم نے عرض کیا: جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (یہ سن کر) فرمایا: پہلوان وہ شخص نہیں ہے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھ سکے (یعنی اپنے غیض و غضب کو ضبط کرکے نفس کو پچھاڑ دے)۔

یہ حدیث متفق علیہ ہے جب کہ الفاظ مسلم کے ہیں۔

12 / 5. وَفِي رِوَايَةٍ لِلْبُخَارِيِّ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِکُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْرٰی وَمَالِکٌ.

12: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الحذر من الغضب، 5 /2267، الرقم /5763، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /236، 268، 517، الرقم /7218، 7628، 10713، والنسائي في السنن الکبری، 6 /105، الرقم /10226، 10228، ومالک في الموطأ، کتاب حسن الخلق، باب ما جاء في الغضب، 2 /906، الرقم /1613، وعبد الرزاق في المصنف، 11 /188، الرقم / 20287، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /241، الرقم /20915، والطبراني في مسند الشاميين، 3 /25، الرقم /1730، وأيضا 4 /184، الرقم /3066.

اور امام بخاری کی بیان کردہ روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پہلوان وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے، پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھ سکے۔

اسے امام بخاری، احمد، نسائی نے ’السنن الکبریٰ‘ میں اور مالک نے روایت کیا ہے۔

13 / 6. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: أَنْ تُجَاهِدَ نَفْسَکَ وَهَوَاکَ فِي ذَاتِ اللہِ ل.

رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْقَزْوِيْنِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.

13: أخرجه أبونعيم الأصبهاني في حلية الأولياء وطبقات الاصفياء، 2 /249، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 3 /133، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 48 /429، والسيوطي في جمع الجوامع المعروف بـ: الجامع الکبير، 1 /745، الرقم /137 /3807، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 4 /185، الرقم /11265، وصححه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 3 /483، الرقم /1496.

حضرت ابو ذر غفاری صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: کون سا جہاد سب سے بہتر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کہ تواپنے نفس اور خواہشات کے خلاف اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے۔

اسے امام ابو نعیم، قزوینی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

15-14 / 7. وَفِي رِوَايَةٍ عَنْهُ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفْضَلُ الْجِهَادِ أَنْ يُجَاهِدَ الرَّجُلَ نَفْسَهُ فِي اللہِ وَهَوَاهُ.

رَوَاهُ ابْنُ النَّجَّارِ کَمَا قَالَ السُّيُوْطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ وَالْمُنَاوِيُّ.

14: أخرجه ابن النجار کما قال السيوطي في جامع الأحاديث، 2 /13-14، الرقم /3501، والمناوي في فيض القدير، 2 /31، وصححه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 3 /483، الرقم /1496.

اور حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد یہ ہے کہ انسان راہِ خدا میں اپنے نفس اور اس کی شہوات کے خلاف ریاضت و مجاہدہ کرے۔

اسے ابن نجار نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام سیوطی، ہندی اور مناوی نے کہا ہے۔

  1. قَالَ الْمُلَّا عَلِيُّ الْقَارِيُّ الْحَنَفِيُّ فِي شَرْحِ هٰذَا الْحَدِيْثِ:

وَهُوَ الْجِهَادُ الأَکْبَرُ، الَّذِي يَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ الْجِهَادُ الأَصْغَرُ، وَمِنْهُ کَلِمَةُ الْحَقِّ عِنْدَ ظَالِمٍ لِلْخَلْقِ.

  1. الملا علي القاري في شرح مسند أبي حنيفة، باب أفضل الجهاد /371.

ملا علی قاری حنفی اِس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:

اور (ہواے نفسانی کے خلاف) یہ (مجاہدہ) ہی جہادِ اَکبر ہے جس پر جہادِ اَصغر (جہاد بالسیف) کے نتائج و ثمرات کا اِنحصار ہے۔ مخلوق پر ظلم ڈھانے والے حکمران کے سامنے کلمہِ حق کہنا بھی اِسی جہاد میں سے ہے۔

16-23 /8. عَنِ ابْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَفْضَلُ الْجِهَادِ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي ذَاتِ اللہِ عزوجل.

رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ وَالْمَرْوَزِيُّ وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهِنْدِيُّ وَذَکَرَهُ الْمُنَاوِيُّ.

  1. أخرجه الحکيم الترمذي في نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلی الله عليه وآله وسلم، 2 /234، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 2 /596، الرقم /634، والطبراني کما قال الهندي في کنز العمال، 15 /363، الرقم /43427، وذکره المناوي في فيض القدير، 2 /49، وأيضا في التيسير بشرح الجامع الصغير، 1 /188.

حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بہترین جہاد اُس شخص کا ہے جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف مجاہدہ کیا۔

اسے حکیم ترمذی اور مروزی نے اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے جیسا کہ ہندی نے کہا ہے۔ جب کہ امام مناوی نے بھی بیان کیا ہے۔

  1. قَالَ الْحَسَنُ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مُخَالَفَةُ الْهَوٰی.

ذَکَرَهُ الْبَغَوِيُّ فِي الْمَعَالِمِ وَأَبُو الْمُظَفَّرِ السَّمْعَانِيُّ فِي التَّفْسِيْرِ.

  1. البغوي في معالم التنزيل، 3 /475، والسمعاني في تفسير القرآن، 4 /194.

امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرنا اَفضل ترین جہاد ہے۔

اسے امام بغوی نے ’معالم التنزیل‘ میں اور ابو مظفر سمعانی نے ’تفسیر القرآن‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَدَائِنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ لِلْحَسَنِ: يَا أَبا سَعِيْدٍ، أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: جِهَادُکَ هَوَاکَ.

ذَکَرَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي الذَّمِّ.

  1. ابن الجوزي في ذم الهوٰی /48، الرقم /50.

ابو الحسن المدائنی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے ابو سعید! کون سا جہاد بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔

اسے علامہ ابن الجوزی نے ’ذم الہویٰ‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. عَنِ ابْنِ الْمُبَارَکِ، قَالَ: قِيْلَ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ: أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: جِهَادُ الْهَوٰی.

ذَکَرَهُ الدَّيْنَوَرِيُّ فِي الْمُجَالَسَةِ.

  1. الدينوري في مجالسة وجواهر العلوم /335، الرقم /1963.

امام ابن المبارک بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: کون سا جہاد بہترین ہے؟ آپ نے جواب دیا: نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔

اسے امام ابو بکر دینوری مالکی نے ’مجالسۃ وجواہر العلوم‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَاصِمٍ الأَنْطَاکِيُّ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مُجَاهَدَتُکَ نَفْسَکَ.

رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ فِي الْحِلْيَةِ وَابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي صِفَةِ الصَّفْوَةِ.

  1. أبو نعيم في حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 9 /283، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 4 /278.

امام احمد بن عاصم الانطاکی کا قول ہے: بہترین جہاد تمہاری نفسانی خواہشات کے خلاف تمہارا مجاہدہ ہے۔

اِسے امام ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں اور ابن الجوزی نے صفۃ الصفوۃ میں بیان کیا ہے۔

  1. قَالَ بَعْضُهُمْ: أَفْضَلُ الْجِهَادِ مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ أَنْ تُجَاهِدَ نَفْسَکَ عَنِ الْحَرَامِ عَمَّا نَهَی اللہُ عزوجل وَعَنْ هَوَاکَ.

رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي التَّارِيْخِ.

  1. ابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 48 /429.

بعض اَئمہ کا قول ہے: بہترین جہاد نفس کا مجاہدہ ہے کہ تو نفس کو حرام سے محفوظ رکھے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور اپنی خواہشات سے باز رکھے۔

اسے امام ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں بیان کیا ہے۔

  1. أَقَرَّ الْعَلاَّمَةُ ابْنُ الْقَيِّمِ بِأَنَّ الْجِهَادَ ضِدَّ النَّفْسِ أَصْلٌ لِلْجِهَادِ ضِدَّ الْعَدُوِّ:

لِمَا کَانَ جِهَادُ أَعْدَاءِ اللہِ فِي الْخَارِجِ فَرْعًا عَلَی جِهَادِ الْعَبْدِ نَفْسَهُ فِي ذَاتِ اللہِ، کَمَا قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللہِ، وَالْمُهَاجِرُ مَا هَجَرَ مَا نَهَی اللہُ عَنْهُ، کَانَ جِهَادُ النَّفْسِ مُقَدَّمًا عَلَی جِهَادِ الْعَدُوِّ فِي الْخَارِجِ وَأَصْلاً لَهُ.

  1. ابن القيم في زاد المعاد، 3 /6.

علامہ ابن القیم (691-751ھ) نفس کے خلاف جہاد کو دشمن کے خلاف جہاد کی اصل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

خارج میں دشمن کے خلاف جہاد، بندے کا اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں اپنے نفس کے خلاف جہاد ہی کی ایک شاخ ہے، جیساکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’مجاہد وہ ہے جو اِطاعتِ خداوندی میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو اللہ کی منع کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے۔‘ لہٰذا نفس سے جہاد خارج میں دشمن سے جہاد پر مقدم ہے اور یہی اس کی اصل ہے۔

  1. قَالَ مَحْمُودٌ الآلُوْسِيُّ الْبَغْدَادِيُّ فِي صَدَدِ الْجِهَادِ بِالنَّفْسِ:

مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ وَهِيَ أَکْبَرُ مِنْ مُجَاهَدَةِ الْعَدُوِّ الظَّاهِرَةِ کَمَا يُشْعِرُ بِهِ مَا أَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَدِمَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم قَوْمٌ غُزَاةٌ، فَقَالَ: قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَکْبَرِ. قِيْلَ: وَمَا الْجِهَادُ الْأَکْبَرُ؟ قَالَ: مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ.

  1. الآلوسي في روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثاني، 17 /209

علامہ محمود آلوسی البغدادی (م1270ھ) جہاد بالنفس کے حوالے سے فرماتے ہیں:

جہاد بالنفس دشمن سے ظاہری جہاد کرنے سے بڑا جہاد ہے، جس طرح کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے جسے امام بیہقی اور دیگر محدثین نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا: ’ایک گروہ جہاد کی کسی مہم سے واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے اِرشاد فرمایا: تمہارا جہادِ اَصغر سے جہادِ اَکبر کی طرف لوٹنا باعثِ خیر و برکت ہو۔ عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بندے کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved