الجہاد الاکبر

جہاد اور اس کی اقسام

اَلْبَابُ الثَّانِي: اَلْجِهَادُ وَأَقْسَامُهُ

{جہاد اور اُس کی اَقسام}

  1. قَالَ الإِمَامُ ابْنُ حَزْمٍ (م456ه) فِي الْفَصْلِ فِي الْمِلَلِ وَالنِّحَلِ، بِأَنَّ لِلْجِهَادِ ثَلاثَةَ أَقْسَامٍ:

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: … إِنَّ الْجِهَادَ يَنْقَسِمُ أَقْسَامًا ثَـلَاثَةً: أَحَدُهَا: الدُّعَا إِلَی اللہِ عزوجل بِالِّلسَانِ؛ وَالثَّانِي: الْجِهَادُ عِنْدَ الْحَرْبِ بِالرَّأْيِ وَالتَّدْبِيْرِ؛ وَالثَّالِثُ: الْجِهَادُ بِالْيَدِ فِي الطَّعْنِ وَالضَّرْبِ.

ابن حزم في الفصل في الملل والنحل، 4/107، وابن تيمية في منهاج السنة النبوية، 8/87.

امام ابن حزم (م456ھ) اَلْفَصْل فِي الْمِلَل وَالنِّحَل میں جہاد کی تین اقسام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ابو محمد نے فرمایا ہے: بے شک جہاد تین اَقسام میں منقسم ہے: پہلی قسم یہ ہے کہ زبان سے دعوت اِلی اللہ دی جائے؛ دوسری قسم یہ ہے کہ جنگ مسلط ہونے کی صورت میں حکمت اور تدبر کے ساتھ لڑنا (تاکہ کم سے کم جانی نقصان ہو)؛ اور تیسری قسم یہ ہے کہ (حملہ آور کے جواب میں اپنا دفاع کرتے ہوئے) ہاتھ سے چوب یا چوٹ لگا کر جہاد کرنا۔

  1. قَالَ الإِمَامُ السَّمْعَانِيُّ (م489ه) فِي تَفْسِيْرِ الآيَةِ رقم 78 مِنْ سُوْرَةِ الْحَجِّ - {وَجَاهِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِهَادِهِ} - بِأَنَّ لِلْجِهَادِ ثَلاَثَةَ أَقْسَامٍ:

إِعْلَمْ أَنَّ الْجِهَادَ يَکُوْنُ بِالنَّفْسِ وَبِالْقَلْبِ وَبِالْمَالِ. فَأَمَّا الْجِهَادُ بِالنَّفْسِ فَهُوَ فِعْلُ الطَّاعَاتِ وَاخْتِيَارُ الأَشَقِّ مِنَ الأُمُوْرِ. وَأَمَّا الْجِهَادُ بِالْقَلْبِ فَهُوَ دَفْعُ الْخَوَاطِرِ الرَّدِيَةِ. وَأَمَّا الْجِهَادُ بِالْمَالِ فَهُوَ الْبَذْلُ (وَالْإِيْثَارُ).

السمعاني في تفسير القرآن، 3/457.

امام سمعانی (م489ھ) سورۃ الحج کی آیت نمبر 78 - {وَجَاهِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِهَادِهِ} ’اور (خاتمہِ ظلم، قیامِ اَمن اور تکریمِ اِنسانیت کے لیے) اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کے جہاد کا حق ہے‘ - کے ذیل میں جہاد کی تین اَقسام یوں بیان کرتے ہیں:

جہاد، جان و دل اور مال کے ساتھ ہوتا ہے۔ رہا جہاد بالنفس تو اُس سے مراد ہے: طاعات کو بجا لانا اور اُمور میں سے مشکل ترین کو چننا۔ رہا جہاد بالقلب تو اس سے مراد ہے: (لوگوں کو نقصان پہنچانے پر اُکسانے والے) فاسد و مضر خیالات کو قلب و ذہن سے نکال پھینکا جائے؛ اور رہ گیا جہاد بالمال تو اُس سے مراد ہے: دوسرے لوگوں (کی تالیفِ قلب کے لیے اُن) پر خرچ کیا جائے اور ایثار و قربانی کا مظاہرہ کیا جائے۔

  1. قَالَ الْعَلَّامَةُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ (م579ه) فِي تَفْسِيْرِ الآيَةِ رقم 41 مِنْ سُوْرَةِ التَّوْبَةِ - {وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ}:

قَالَ الْقَاضِي أَبُو يَعْلٰی: أَوْجَبَ الْجِهَادَ بِالْمَالِ وَالنَّفْسِ جَمِيْعًا، فَمَنْ کَانَ لَهُ مَالٌ وَهُوَ مَرِيْضٌ أَوْ مُقْعَدٌ أَوْ ضَعِيْفٌ لَا يَصْلُحُ لِلْقِتَالِ، فَعَلَيْهِ الْجِهَادُ بِمَالِهِ بِأَنْ يُعْطِيَهُ غَيْرَهُ، فَيَغْزُوْ بِهِ کَمَا يَلْزَمُهُ الْجِهَادُ بِنَفْسِهِ، إِذَا کَانَ قَوِيًّا. وَإِنْ کَانَ لَهُ مَالٌ وَقُوَّةٌ فَعَلَيْهِ الْجِهَادُ بِالنَّفْسِ وَالْمَالِ. وَمَنْ کَانَ مُعْدَمًا عَاجِزًا فَعَلَيْهِ الْجِهَادُ بِالنُّصْحِ ِﷲِ وَرَسُوْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم لِقَوْلِهِ: {وَلاَ عَلَی الَّذِيْنَ لاَ يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا ِﷲِ وَرَسُوْلِهِ}، [التوبة، 9 / 91].

ابن الجوزي في زاد المسير، 3/443.

علامہ ابن الجوزی (م579ھ) سورۃ التوبۃ کی آیت نمبر 41 - {وَّجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ} ’اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو‘ - کے ذیل میں لکھتے ہیں:

قاضی ابو یعلی فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کو تمام مسلمانوں پر لازمی قرار دیا ہے۔ لہٰذا جس کے پاس مال ہو اور وہ بیمار، لاچار یا کمزور ہو اور (حملہ ہونے کی صورت میں دفاعی) قتال کی صلاحیت سے عاری ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مال سے جہاد کرے بایں طور کہ وہ کسی اور کو (جو ملک و ملت کے دفاع کی خاطر لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے) اپنا مال دے اور وہ اس کے ذریعے قتال کرے۔ جیسا کہ اس پر جہاد بالنفس بھی لازم ہے جب وہ طاقت ور ہو۔ اگر اس کے پاس مال اور طاقت دونوں ہوں تو اس پر جہاد بالنفس اور جہاد بالمال دونوں ہی لازم ہیں۔ لیکن جو شخص مفلس اور عاجز ہو تو اس پر اللہ اور اس کے رسولصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے (لوگوں کی فلاح و بہبود اور) خیر خواہی کا جہاد لازم ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: {وَلاَ عَلَی الَّذِيْنَ لاَ يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا ِﷲِ وَرَسُوْلِهِ} ’اور نہ (ہی) ایسے لوگوں پر ہے جو اس قدر (وسعت بھی) نہیں پاتے جسے خرچ کریں جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے خالص و مخلص ہو چکے ہوں‘۔

  1. قَالَ الإِمَامُ فَخْرُ الدِّيْنِ الرَّازِيُّ (م606ه) فِي تَفْسِيْرِ الآيَةِ رقم 95 مِنْ سُوْرَةِ النِّسَاءِ - {وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَی الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًاo} - بِأَنَّ لِلْجِهَادِ أَقْسَامًا مُخْتَلِفَةً:

وَلَا يُمْکِنُ أَنْ يَکُوْنَ الْمُرَادُ مِنْ هٰذَا الْمُجَاهِدِ هُوَ: الْمُجَاهِدُ بِالْمَالِ وَالنَّفْسِ فَقَطْ، وَإِلَّا حَصَلَ التَّکْرَارُ. فَوَجَبَ أَنْ يَکُوْنَ الْمُرَادُ مِنْهُ مَنْ کَانَ مُجَاهِدًا عَلَی الإِْطْلَاقِ فِي کُلِّ الأُمُوْرِ أَعْنِي فِي عَمَلِ الظَّاهِرِ، وَهُوَ الْجِهَادُ بِالنَّفْسِ وَالْمَالِ وَالْقَلْبِ؛ وَهُوَ أَشْرَفُ أَنْوَاعِ الْمُجَاهَدَةِ.

الرازي في التفسير الکبير، 11/9.

امام فخر الدین رازی (م606ھ) سورۃ النساء کی آیت نمبر 95 - {وَفَضَّلَ اللہُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَی الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًاo} ’اور اللہ نے جہاد کرنے والوں کو (بہر طور) بیٹھ رہنے والوں پر زبردست اجر (و ثواب) کی فضیلت دی ہے۔‘ - کے ذیل میں جہاد کی مختلف اَقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اور ممکن نہیں کہ اس مجاہد سے مراد صرف مجاہد بالنفس اور مجاہد بالمال ہی ہو، وگرنہ تکرار ہوگا؛ بلکہ ضروری ہے کہ اس سے مراد تمام اُمور میں مطلقاً جہاد کرنے والا مراد ہو، یعنی ظاہری عمل میں بھی جہاد ہو جو کہ جہاد بالنفس، جہاد بالمال اور جہاد بالقلب ہیں۔ (اور دوسروں کی خیر خواہی کے لیے اپنے دلوں سے جہاد کرنا) جہاد کی تمام انواع سے زیادہ قابلِ قدر ہے۔

  1. قَالَ الْعَلاَّمَةُ ابْنُ تَيْمِيَةَ (م728ه) مُبَيِّنًا الْأَقْسَامَ السِّتَّةَ لِلْجِهَادِ:

اَلْجِهَادُ إِمَّا أَنْ يَکُونَ بِالْقَلْبِ کَالْعَزْمِ عَلَيْهِ، أَوْ بِالدَّعْوَةِ إِلَی الْإِسْلاَمِ وَشَرَائِعِهِ، أَوْ بِإِقَامَةِ الْحُجَّةِ عَلَی الْمُبْطِلِ، أَوْ بِبَيَانِ الْحَقِّ وَإِزَالَةِ الشُّبْهَةِ، أَوْ بِالرَّأْيِ وَالتَّدْبِيرِ فِيمَا فِيهِ نَفْعُ الْمُسْلِمِينَ، أَوْ بِالْقِتَالِ بِنَفْسِهِ. فَيَجِبُ الْجِهَادُ بِغَايَةِ مَا يُمْکِنُهُ.

أحمد بن غنيم النفراوي (م 1126ه) في الفواکه الدواني، 2/879.

اس تعریف کو علامہ ابن تیمیہ کی نسبت سے مشہور حنبلی فقیہ منصور بن یونس بن صلاح الدین البہوتی نے ’کشاف القناع عن متن الإقناع (3/36؛ طبع قاهره، 1968ء)‘ میں نقل کیا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی تعریف ’مجموعة فتاوی ابن تيمية (5/38؛ بيروت، دار الفکر، 1980ء)‘ میں بھی موجود ہے۔

علامہ ابن تیمیہ (م728ھ) جہاد کی چھ صورتیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(جہاد کرنے کی مختلف صورتیں ہیں:) جہاد یا تو دل کے ذریعے کیا جاتا ہے جیسے جہاد کا عزم؛ یا اسلام اور اس کے احکامات کی طرف دعوت کے ذریعے یا غلط کاروں پر حجت قائم کر کے؛ یا حق کی وضاحت اور شبہات کے ازالے کے ذریعے؛ یا مسلمانوں کے لیے نفع کے کام کی فکر اور تدبیر کے ذریعے؛ یا نفسِ قتال ہی کے ذریعے۔ پس جو ذریعہ بھی ممکن ہو اس کے ذریعے جہاد واجب ہے۔

  1. قَالَ الإِمَامُ ابْنُ الْحَاجِّ الْمَالِکِيُّ (م737ه) بِأَنَّ لِلْجِهَادِ قِسْمَيْنِ أَسَاسِيَيْنِ: اَلْجِهَادُ الأَکْبَرُ وَالْجِهَادُ الأَصْغَرُ:

إِنَّ الْجِهَادَ يَنْقَسِمُ إِلٰی قِسْمَيْنِ: جِهَادٌ أَصْغَرُ وَجِهَادٌ أَکْبَرُ. فَالْجِهَادُ الْأَکْبَرُ هُوَ جِهَادُ النُّفُوْسِ لِقَوْلِهِ عَلِيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ: هَبَطْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْأَکْبَرِ. … وَالْجِهَادُ الْأَصْغَرُ، وَهُوَ جِهَادُ أَهْلِ الْکُفْرِ وَالْعِنَادِ.

ابن الحاج في المدخل، 3/2.

امام ابن الحاج المالکی (م737ھ) جہاد کی دو بنیادی قسمیں - جہادِ اَکبر اور جہادِ اَصغر - بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جہاد کی دو قسمیں ہیں: جہادِ اَصغر اور جہادِ اَکبر۔ جہادِ اَکبر سے مراد جہاد بالنفوس (یعنی قلب و روح اور اخلاق و کردار کی تطہیر و بالیدگی) ہے۔ اس کی بنیاد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ’تم جہادِ اَصغر سے جہادِ اَکبر کی طرف آئے ہو۔‘ ... اور جہادِ اَصغر سے مراد اَہلِ کفر و عناد کے ساتھ (اپنے دفاع کی خاطر کیا جانے والا) جہاد ہے۔

  1. قَالَ الإِمَامُ ابْنُ الْحَاجِّ الْمَالِکِيُّ (م737ه) فِي مَقَامٍ آخَرَ بِأَنَّ هُنَاکَ الأَقْسَامَ الأَرْبَعَةَ الأُخْرٰی لِلْجِهَادِ:

اَلْجِهَادُ يَنْقَسِمُ عَلٰی أَرْبَعَةِ أَقْسَامٍ: جِهَادٌ بِالْقَلْبِ، وَجِهَادٌ بِاللِّسَانِ، وَجِهَادٌ بِالْيَدِ، وَجِهَادٌ بِالسَّيْفِ.

فَالْجِهَادُ بِالْقَلْبِ: جِهَادُ الشَّيْطَانِ، وَجِهَادُ النَّفْسِ عَنِ الشَّهَوَاتِ وَالْمُحَرَّمَاتِ. قَالَ اللہُ تَعَالٰی: {وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰی}(1). وَجِهَادُ اللِّسَانِ: الأَمْرُ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ، وَمِنْ ذٰلِکَ مَا أَمَرَ اللہُ عزوجل النَّبِيَّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ بِهِ مِنْ جِهَادِ الْمُنَافِقِيْنَ لِأَنَّهُ عزوجل قَالَ: {يٰـاَيُهَا النَّبِيُ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰـفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْط وَمَاْوٰهُمْ جَهَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ}(2). فَجَاهَدَ الْکُفَّارَ بِالسَّيْفِ وَجَاهَدَ الْمُنَافِقِيْنَ بِاللِّسَانِ، لِأَنَّ اللہَ عزوجل نَهَاهُ أَنْ يَعْمَلَ بِعِلْمِهِ فِيْهِمْ فَيُقِيْمُ الْحُدُوْدَ عَلَيْهِمْ.

  1. النازعات، 41-40 / 79.
  2. التوبة، 9/73.

وَجِهَادُ الْيَدِ: زَجْرُ ذَوِي الْأَمْرِ أَهْلَ الْمَنَاکِرِ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْبَاطِلِ وَالْمَعَاصِي وَالْمُحَرَّمَاتِ وَعَنْ تَعْطِيْلِ الْفَرَائِضِ وَالْوَاجِبَاتِ بِالأَدَبِ وَالضَّرْبِ عَلٰی مَا يُؤَدِّي إِلَيْهِ الاِجْتِهَادُ فِي ذٰلِکَ. وَمِنْ ذٰلِکَ إِقَامَتُهُمُ الْحُدُوْدَ عَلَی الْقَذَفَةِ الزُّنَاةِ وَشَرَبَةِ الْخَمْرِ.

ثُمَّ أَوَّلُ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ فِي مُجَاهَدَتِهِ الزُّهْدُ فِي الدُّنْيَا لِأَنَّ مَحَبَّتَهَا وَالْعَمَلَ عَلٰی تَحْصِيْلِهَا مَعَ وُجُوْدِ شَغَفِ الْقَلْبِ بِهَا، يُعْمِي عَنْ أُمُوْرِ الآخِرَةِ، وَيَطْمِسُ الْقَلْبَ، وَيُکْثِرُ فِيْهِ الْوَسَاوِسَ وَالنَّزَغَاتِ.

ابن الحاج في المدخل، 27-26 / 3.

امام ابن الحاج المالکی (م737ھ) ایک دوسرے مقام پر جہاد کی چار اَقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جہاد چار قسموں میں منقسم ہے: جہاد بالقلب (طہارتِ قلب اور تزکیہ نفس)، جہاد باللسان (دعوت و تبلیغ)، جہاد بالید (خدمتِ خلق) اور جہاد بالسیف (یعنی جہاد بالقتال)۔

جہاد بالقلب سے مراد شیطان اور نفس دونوں کے ساتھ جہاد ہے، بایں صورت کہ نفس کو بری خواہشات اور محرمات سے روکا جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: {وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰیo} ’اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھاo تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگاo‘۔

جہاد باللسان سے مراد ہے: نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ اسی قسم سے وہ جہاد بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منافقین کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {يٰـاَيُهَا النَّبِيُ جَاهِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنٰـفِقِيْنَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ط وَمَاْوٰهُمْ جَهَنَّمُط وَبِئْسَ الْمَصِيْرُo} ’اے نبی (معظم!) آپ (اِسلام دشمنی پر کار فرما) کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور (اَمن دشمنی، فساد انگیزی اور جارحیت کے اِرتکاب  کی وجہ سے) ان پر سختی کریں، اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور وہ برا ٹھکانا ہےo‘۔

سو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کفار کے ساتھ (ان کی معاندانہ کارروائیوں کے نتیجے میں قیامِ اَمن کی خاطر) تلوار کے ساتھ اور منافقوں (کی سازشوں اور دین دشمن کارروائیوں کے خلاف ان) کے ساتھ زبان سے جہاد کیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع فرمایا تھا کہ آپ ان کے بارے میں اپنے علم پر عمل نہ کریں اور ان پر حدود نہ لگائیں۔

اور جہاد بالید (یعنی ہاتھ کے ساتھ جہاد) سے مراد ہے: حکمرانوں کا برے لوگوں کو ان کی برائیوں، باطل اُمور، معصیات اور محرمات پر ترہیب اور سرزنش کرنا اور انہیں ان کے فرائض و واجبات سے تادیباً یا عقاباً سبک دوش کرنا؛ جیسا کہ اجتہاد اس بارے میں راہنمائی کرتا ہے۔ ان حکمرانوں کا تہمت لگانے والوں، بدکاروں اور شرابیوں (جیسے مجرموں اور حدود اللہ کی پامالی کرنے والوں) پر حدود لگانا بھی اِسی قبیل سے ہے۔

پھر سب سے پہلی چیز جس کی مجاہد کو اپنے جہاد میں احتیاج ہوتی ہے وہ اس کا (اِس فانی) دنیا سے بے رغبتی اختیار کرنا ہے؛ کیونکہ دنیا کی محبت اور اسے حاصل کرنے کی کوشش اور اس کے ساتھ ساتھ دل میں اس کی چاہت انسان کو اس کے اُخروی اُمور سے نابینا کر دیتی ہے، نورِ قلب کو گل کر دیتی ہے اور اس میں وساوِس اور شرانگیزیوں کا اِضافہ کرتی ہے۔

  1. قَالَ الإِمَامُ الذَّهَبِيُّ (م748ه) بِأَنَّ ابْنَ حَزْمٍ قَسَّمَ الْجِهَادَ إِلٰی ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ:

وَقَالَ ابْنُ حَزْمٍ: وَالْجِهَادُ ثَلاثَةُ أَقْسَامٍ: أَعْلَاهَا: الدُّعَا إِلَی اللہِ بِاللِّسَانِ؛ وَثَانِيْهَا: الْجِهَادُ عِنْدَ الْبَأْسِ بِالرَّأْيِ وَالتَّدْبِيْرِ؛ وَالثَّالِثُ: الْجِهَادُ بِالْيَدِ.

الذهبي في المنتقی من منهاج الاعتدال، 1/512.

امام ذہبی (م748ھ) ابن حزم کے حوالے سے جہاد کی تین اَقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ابن حزم نے کہا ہے: جہاد کی تین اقسام ہیں: ان سب سے اعلی قسم زبان کے ساتھ دعوت اِلی الحق دینا ہے؛ دوسری قسم ہے: (باغی اور مسلح گروہوں کے خلاف) لڑائی کے وقت رائے اور تدبیر اختیار کرنا (تاکہ کم سے کم نقصان ہو)؛ تیسری قسم ہے: (معاندانہ کارروائیوں میں ملوث مسلح گروہوں اور برسرپیکار لوگوں کے خلاف) ہاتھ کے ساتھ جہاد کرنا۔

  1. قَالَ الْعَلَّامَةُ ابْنُ الْقَيِّمِ (م751ه) فِي زَادِ الْمَعَادِ فِي صَدَدِ أَقْسَامِ الْجِهَادِ:

وَکَانُوْا مَعَهُ بِأَرْوَاحِهِمْ وَبِدَارِ الْهِجْرَةِ بِأَشْبَاحِهِمْ. وَهٰذَا مِنَ الْجِهَادِ بِالْقَلْبِ، وَهُوَ أَحَدُ مَرَاتِبِهِ الأَرْبَعِ: وَهِيَ الْقَلْبُ وَاللِّسَانُ وَالْمَالُ وَالْبَدَنُ. وَفِي الْحَدِيْثِ: جَاهِدُوا الْمُشْرِکِيْنَ بِأَلْسِنَتِکُمْ وَقُلُوْبِکُمْ وَأَمْوَالِکُمْ.

ابن القيم في زاد المعاد، 3/571.

علامہ ابن القیم (م751ھ) ’زاد المعاد‘ میں جہاد کی تقسیم کے حوالے سے لکھتے ہیں:

اور وہ اپنی اَرواح کے ساتھ (یعنی دل و جان سے) آپ کے ہمراہ تھے اور دارِ ہجرت میں اپنے سایوں کے ساتھ (یعنی پُر عزم تھے)۔ یہ جہاد بالقلب میں سے ہے جو کہ جہاد کے چار مراتب میں سے ایک ہے۔ وہ چار مراتب یہ ہیں: قلب (سے جہاد)؛ زبان (سے جہاد)؛ مال (سے جہاد) اور بدن (کے ساتھ جہاد)۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی ہے: مشرکوں سے (دعوت اِلی الحق دینے کے لیے) اپنی زبانوں، (ان کی خیر خواہی کے لیے) اپنے دلوں اور (ان کی تالیفِ قلب کے لیے) اپنے اَموال کے ساتھ جہاد کرو۔

  1. قَالَ ابْنُ حَجَرِ الْعَسْقَلَانِيُّ (م852ه) فِي صَدَدِ لَفْظِ الْجِهَادِ:

وَالْجِهَادُ بِکَسْرِ الْجِيْمِ، أَصْلُهُ لُغَةً الْمَشَقَّةُ، يُقَالُ: جَهَدْتُ جِهَادًا بَلَغْتُ الْمَشَقَّةَ، وَيُطْلَقُ أَيضًا عَلٰی مُجَاهَدَةِ النَّفْسِ وَالشَّيْطَانِ وَالْفُسَّاقِ. فَأَمَّا مُجَاهَدَةُ النَّفْسِ فَعَلٰی تَعَلُّمِ أُمُورِ الدِّينِ، ثُمَّ عَلَی الْعَمَلِ بِهَا، ثُمَّ عَلٰی تَعْلِيْمِهَا. وَأَمَّا مُجَاهَدَةُ الشَّيْطَانِ فَعَلٰی دَفْعِ مَا يَأْتِي بِهِ مِنَ الشُّبُهَاتِ، وَمَا يُزَيِّنُهُ مِنَ الشَّهَوَاتِ. وَأَمَّا مُجَاهَدَةُ الْکُفَّارِ فَتَقَعُ بِالْيَدِ وَالْمَالِ وَاللِّسَانِ وَالْقَلْبِ. وَأَمَّا مُجَاهَدَةُ الْفُسَّاقِ فَبِالْيَدِ ثُمَّ اللِّسَانِ ثُمَّ الْقَلْبِ.

العسقلاني في فتح الباري، 6/3.

حافظ ابن حجر عسقلانی (م852ھ) لفظ ’جہاد‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں:

لفظ ’جہاد‘ جیم کی کسرہ کے ساتھ ہے اور لغوی اعتبار سے اِس کا حقیقی معنی ’مشقت‘ ہے۔ کہا جاتا ہے: جَهَدْتُ جِهَادًا (میں نے بڑی مشقت اٹھائی)۔ اس کا اِطلاق نفس، شیطان اور نافرمانوں سے جہاد کرنے پر بھی ہوتا ہے۔ نفس سے جہاد اُمورِ دینیہ کا سیکھنا اور پھر ان پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اور پھر اُن اُمور کی (دوسروں کو بھی) تعلیم دینا ہے اور شیطان سے جہاد اُس کی طرف سے پیدا ہونے والے شبہات اور اس کی سجائی ہوئی شہوات سے دوری اختیار کرنا ہے۔ کفار سے جہاد ہاتھ، مال، زبان اور دل سے ہوتا ہے۔ جب کہ نافرمانوں سے جہاد ہاتھ سے، پھر زبان سے اور پھر دل سے ہوتا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved