الجہاد الاکبر

جہاد کا معنیٰ و مفہوم

اَلْبَابُ الْأَوَّلُ: اَلْجِهَادُ وَمَعْنَاهُ

اِسلام کی آفاقی اور ہمہ جہت تعلیمات کا دائرہِ کار اِنسانی زندگی کے اِنفرادی اور اِجتماعی، ہر شعبہِ حیات کو محیط ہے۔ اِن تعلیمات کا مقصود ایک متحرک، مربوط، معتدل اور پُراَمن اِنسانی معاشرے کا قیام ہے۔ اِسلام نے اِجتماعی اور ریاستی سطح پر قیامِ اَمن (establishment of peace)، نفاذِ عدل (enforcement of justice)، حقوقِ اِنسانی کی بحالی (restoration of human rights) اور ظلم و عدوان کے خاتمہ (elimination of violence and aggression) کے لیے جہاد کا تصور عطا کیا ہے۔ جہاد دراَصل اِنفرادی زندگی سے لے کر قومی، ملی اور بین الاقوامی زندگی کی اِصلاح کے لیے عملِ پیہم اور جہدِ مسلسل کا نام ہے۔

بدقسمتی سے دنیا کے مختلف حصوں میں اِسلام اور جہاد کے نام پر ہونے والی اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی وجہ سے عالمِ اِسلام اور عالم مغرب میں آج کل تصورِ جہاد کو غلط انداز میں سمجھا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ جہاد کاتصور ذہن میں آتے ہی خون ریزی اور جنگ و جدال کا تاثر اُبھرتا ہے۔ بدقسمتی سے فی زمانہ جہاد کے نظریے کو نظریہ اَمن اور نظریہ عدمِ تشدد کا متضاد سمجھا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا میں اب لفظِ جہاد کو قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے متبادل کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

آج کل عالم اِسلام یا غیر اِسلامی دنیا میں سے جو بھی جہاد کا نام سنتا ہے اس کے سامنے ایک ایسا تصور اُبھرتا ہے جس میں نفاذِ اِسلام اور قیامِ خلافت کے نام پر مسلمان غیر مسلموں کو قتل کرتے ہوئے، فتنہ و فساد پھیلاتے ہوئے، خون خرابہ کرتے ہوئے اور اِنسانی معاشروں کو مختلف طبقات میں تقسیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت میں جہاد ایک ایسی پُراَمن، تعمیری، سماجی، اَخلاقی اور روحانی جد و جہد (peaceful, constructive, social, moral and spiritual struggle) کا نام ہے جو حق و صداقت اور اِنسانیت کی فلاح کے لیے انجام دی جاتی ہے۔ بنیادی طور پر اِس جد و جہد کا جنگی معرکہ آرائی اور مسلح ٹکراؤ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ جد و جہد اُصولی بنیادوں پر صرف ایسے ماحول کا تقاضا کرتی ہے جس میں ہر شخص کا ضمیر، زبان اور قلم اپنا پیغام دلوں تک پہنچانے میں آزاد ہو۔ معاشرے میں اَمن اَمان کا دور دورہ ہو۔ اِنسانی حقوق مکمل طور پر محفوظ ہوں۔ ظلم و اِستحصال اور جبر و اِستبداد کی کوئی گنجائش نہ ہو اور دنیا کے تمام ممالک پُراَمن بقاے باہمی کے رشتے میں منسلک ہوں۔ لیکن جب اَمن دشمن طاقتیں علم و عقل کی رہنمائی سے محروم ہو کر مقابلہ پر آجائیں اور اِجتماعی اَمن و سکون اور نظم و نسق کے خلاف تباہ کن سازشیں اور علی الاعلان جنگی تدابیرکرنے لگیں تو ایسے وقت میں جہاد کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اَمن و سلامتی اور اِنسانیت کے دشمنوں کے خلاف مسلح جد و جہد کی جائے تاکہ اَمن و آشتی کے ماحول کو بحال (restoration of peaceful environment) اور خیر و فلاح پر مبنی معاشرہ قائم کیا جا سکے۔

1۔ جہاد کا لغوی معنی

لفظِ جہاد، جھد سے ماخوذ ہے۔ لفظ جہد جیم پر زبر کے ساتھ جَهْدٌ اور پیش کے ساتھ جُهْدٌ دونوں طرح مستعمل ہے۔ یہ ایک کثیر المعانی لفظ ہے جس کے لغوی معنی سخت محنت و مشقت (diligent labour & hard work)، طاقت و اِستطاعت، کوشش اور جد و جہد کے ہیں۔ ذیل میں ہم چند مشہور اَئمہِ لغت کی کتب سے جہاد کا مفہوم بیان کرتے ہیں:

1۔ امام ابن فارس (م395ھ) لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جَهْدٌ الْجَيْمُ وَالْهَاءُ وَالدَّالُ أَصْلُهُ الْمَشَقَّةُ، ثُمَّ يُحْمَلُ عَلَيْهِ مَا يُقَارِبُهُ.

  1. ابن فارس، معجم مقاييس اللغة : 210

لفظِ جہد (جیم، ھاء اور دال) کے معنی اَصلاً محنت و مشقت کے ہیں، پھر اس کا اطلاق اس کے قریب المعنی الفاظ پر بھی کیا جاتاہے۔

2۔ امام ابو منصور محمد بن احمد الازھری (م370ھ) معروف لغوی امام اللیث کے حوالے سے لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہیں:

وَقَالَ اللَّيْثُ: اَلْجَهْدُ: مَا جَهَدَ الْإِنْسَانَ مِنْ مَرَضٍ أَوْ أَمْرٍ شَاقٍّ فَهُوَ مَجْهُوْدٌ. قَالَ: وَالْجُهْدُ لُغَةً بِهٰذِهِ الْمَعْنٰی، قَالَ: وَالْجُهْدُ: شَيئٌ قَلِيْلٌ يَعِيْشُ بِهِ الْمُقِلُّ عَلٰی جَهْدِ الْعَيْشِ. قَالَ اللہُ جَلَّ وَعَزَّ: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ}(1) عَلٰی هٰذَا الْمَعْنٰی.(2)

  1. التوبة، 9 : 79

  2. أزهری، تهذيب اللغة، 6 : 37

امام لیث کہتے ہیں: جَهْدٌ (جیم کی فتح کے ساتھ) سے مراد وہ شے ہے جو انسان کو تھکا دے، خواہ وہ کوئی بیماری ہو یا کوئی دوسرا مشقت آمیز کام۔ انہوں نے کہا: لغوی طور پر جُهْدٌ کا بھی یہی معنی ہے۔ جُهْدٌ کا ایک معنی قلیل شے ہے جس پر کوئی مفلس شخص بڑی مشکل کے ساتھ گزارا کرتاہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے‘۔

3۔ امام راغب اصفہانی (م502ھ) لفظ جہد کے معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

جَهَدَ، الْجَهْدُ، والْجُهْدُ: الطَّاقَةُ وَالْمَشَقَّةُ. وَقِيْلَ: الْجَهْدُ بِالْفَتْحِ الْمَشَقَّةُ، وَالْجُهْدُ: الْوَاسِعُ وَقِيْلَ: الْجُهْدُ لِلإِْنْسَانِ: وَقَالَ تَعَالٰی: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُم(1). وَقَالَ تَعَالٰی: {وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ}(2) أَيْ حَلَفُوْا وَاجْتَهَدُوْا فِي الْحَلْفِ أَنْ يَأْتُوْا بِهِ عَلٰی أَبْلَغِ مَا فِي وُسْعِهِمْ. وَالْاِجْتِهَادُ: أَخْذُ النَّفْسِ بِبَذْلِ الطَّاقَةِ وَتَحَمُّلِ الْمَشَقَّةِ. يُقَالُ: جَهَدْتُ رَأْيِي. وَأَجْهَدْتُهُ: أَتْعَبْتُهُ بِالْفِکْرِ. وَالْجِهَادُ وَالْمُجَاهَدَةُ: اسْتِفْرَاغُ الْوَسْعِ فِي مُدَافَعَةِ الْعَدُوِّ. وَالْجِهَادُ ثَـلَاثَةُ أَضْرُبٍ: مُجَاهَدَةُ الْعَدُوِّ الظَّاهِرِ؛ وَمُجَاهَدَةُ الشَّيْطَانِ؛ وَمُجَاَهَدَةُ النَّفْسِ. وَتَدْخُلُ ثَـلَاثَتُهَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی: {وَجَاهِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِهَادِهِ}(3)، {وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ}(4)، {اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ}(5). وَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم: ’جَاهِدُوْا أَهْوَاءَ کُمْ کَمَا تُجَاهِدُوْنَ أَعْدَاءَکُمْ‘. وَالْمُجَاهَدَةُ تَکُوْنُ بِالْيَدِ وَاللِّسَانِ، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم: ’جَاهِدُوْا الْکُفَّارَ بِأَيْدِيْکُمْ وَأَلْسِنَتِکُمْ‘.(6)

  1. التوبة، 9 : 79
  2. الانعام، 6 : 109
  3. الحج،22 : 78
  4. التوبة: 9 : 41
  5. الأنفال، 8 : 72
  6. راغب أصفهانی، المفردات في غريب القرآن: 101
جَهَدَ، اَلْجَهْدُ اور اَلْجُهْدُ کے معنی طاقت و اِستطاعت اور محنت و مشقت کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جیم پر زبر کے ساتھ الجَہد مشقت کے معنی میں ہے اور الجُہد کا معنی کسی چیز کا وسیع ہونا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ الجُھد کا استعمال اِنسانوں کے لیے خاص ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے‘‘ اور فرمایا: {وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ} ’’وہ بڑے تاکیدی حلف کے ساتھ اللہ کی قسم کھاتے ہیں‘‘ یعنی وہ حتی الوسع تاکید کے ساتھ قسم کھاتے ہیں کہ وہ اس قسم کو پورا کریں گے۔ اسی طرح اِجتہاد کا معنی ہے: نفس کو ہمت و طاقت کے صرف کرنے اور مشقت کو برداشت کرنے کا پابند بنانا۔ کہا جاتا ہے: جَهَدْتُ رَأْيِي وَأَجْهَدْتُهُ یعنی ’میں نے اپنی رائے خوب سوچ بچار اور غور و فکر کے بعد قائم کی ہے‘۔ جہاد اور مجاہدہ کا معنی ہے: دشمن سے مدافعت کرتے ہوئے اپنی قوت و طاقت اور صلاحیت کو استعمال کرنا۔ جہاد کی تین اقسام ہیں: ظاہری دشمن کے خلاف جہاد، شیطان کے خلاف جہاد اور نفس کے خلاف جہاد۔ یہ تینوں اَقسام ان اِرشاداتِ ربانی میں شامل ہیں: {وَجَاهِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِهَادِهِ} ’اور اللہ (کی محبت و طاعت) میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کا حق ہے‘، {وَجَاهِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ} ’اور اپنے مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کرو‘، {اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَهَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ} ’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے (اللہ کے لیے) وطن چھوڑ دیے اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: اپنی خواہشات کے خلاف جہاد کرو جس طرح تم اپنے دشمن کے خلاف جہاد کرتے ہو۔ یہ جہاد ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اور زبان سے بھی، جیسا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: کفار سے ہاتھ اور زبان دونوں سے جہاد کرو۔

4۔ علامہ اِبن منظور افریقی (630-711ھ) امامِ لغت فراء کے حوالے سے لفظِ جہد کا معنی بیان کرتے ہیں:

قَالَ الْفَرَّاءُ: اَلْـجُهْدُ فِي هَذِهِ الآيَةِ الطَّاقَةُ؛ تَقُوْلُ: هٰذَا جُهْدِي أَيْ طَاقَتِـي؛ وَقُرِيئَ {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ}(1) وَجَهْدَهُمْ، بِالضَّمِّ وَالْفَتْـحِ؛ الْـجُهْدُ، بِالضَّمِّ: الطّاقَةُ وَالْـجَهْدُ، بِالْفَتْـحِ: مِنْ قَوْلِکَ: إِجْهَدْ جَهْدَکَ فـِي هٰذَا الأَمْرِ أَيْ أُبْلُغْ غَايَتَکَ.(2)

  1. التوبة،9 : 79
  2. ابن منظور، لسان العرب،3 : 134

فراء کہتے ہیں: اِس آیت میں جہد سے مراد طاقت و اِستطاعت (strength & capacity) ہے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں: هٰذَا جُهْدِي ’یہ میری طاقت و استطاعت ہے‘۔ آیت {وَالَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ} ’جو اپنی محنت و مشقت کے سوا (کچھ زیادہ مقدور) نہیں پاتے‘ لفظِ جہد جیم پر پیش اور زبر دونوں حرکات کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ پیش کے ساتھ جُهْد کا معنی ’طاقت و استطاعت‘ ہے اور زبر کے ساتھ اس کا معنی ’غایت درجہ کوشش کرنا‘ ہے؛ جیسا کہ آپ کہتے ہیں: إِجْهَدْ جَهْدَکَ فـِي هٰذَا الأَمْر ِ یعنی ’اس معاملہ کو اپنی انتہائی کوشش و محنت سے انجام تک پہنچاؤ‘۔

2۔ جہاد کا شرعی مفہوم

شرعی اِصطلاح میں جہاد کا معنی اپنی تمام تر جسمانی، ذہنی، مالی اور جانی صلاحیتوں کو اللہ کی رضا کی خاطر نیکی اور بھلائی کے کام میں وقف کر دینا ہے۔ گویا بندے کا اپنی تمام تر ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اَعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں صرف کرنے کو جہاد کہا جاتا ہے۔ اگرچہ جہاد کا مذکورہ مفہوم اس کی لغوی بحث میں قدرے تفصیل سے درج کیا جا چکا ہے مگر تصور کی وضاحت کے لیے اِس حوالے سے چند اَئمہ کی مزید تصریحات ملاحظہ ہوں۔

1۔ امام جرجانی (740-816ھ) کے نزدیک جہاد کی تعریف درج ذیل ہے:

هُوَ الدُّعَاءُ إِلَی الدِّيْنِ الْحَقِّ.

جرجانی، کتاب التعريفات: 112

’’جہاد دینِ حق کی طرف دعوت دینے سے عبارت ہے۔‘‘

2۔ سید محمود آلوسی البغدادی (م1270ھ) تفسیر ’روح المعانی‘ میں لفظِ جہاد کے حوالے سے بیان کرتے ہیں:

إِنَّ الْجِهَادَ بَذْلُ الْجُهْدِ فِي دَفْعِ مَا لَا يُرْضٰی.

آلوسی، روح المعانی فی تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی، 10: 137

کسی ناپسندیدہ اور ضرر رساں شے کو دور کرنے کے لیے کوشش کرنے کا نام جہاد ہے۔

شرعی مفہوم کی مزید تفصیل اَلْبَابُ الثَّانِي میں اَئمہ کے اَقوال و آثار میں ملاحظہ فرمائیں۔

3۔ شیخ علی احمد الجرجاوی اپنی کتاب ’حکمۃ التشریع وفلسفتہ (2:330)‘ میں جہاد کے مفہوم اور مقصود کو واضح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

اَلْجِهَادُ فِي الإِْسْلَامِ هُوَ قِتَالُ مَنْ يَسْعَونَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا لِتَقْوِيْضِ دَعَائِمِ الأَمْنِ وَإِقْلَاقِ رَاحَةِ النَّاسِ وَهُمْ اٰمِنُونَ فِي دِيَارِهِمْ أَوِ الَّذِيْنَ يُثِیرُوْنَ الْفِتَنَ مِنْ مَکَامِنِهَا إِمَّا بِإِِلْحَادٍ فِي الدِّيْنِ وَخُرُوْجٍ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَشَقِّ عَصَا الطَّاعَةِ أَوِ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ إِطْفَاءَ نُوْرِ اللہِ وَيَنْاؤَوْنَ الْمُسْلِمِيْنَ الْعَدَاءَ وَيُخْرِجُوْنَهُمْ مِنْ دِيَارِهِمْ ويَنْقُضُونَ الْعُهُوْدَ ويَخْفِرُوْنَ بِالذِّمَمِ. فَالْجِهَادُ إِذَنْ هُوَ لِدَفْعِ الْأَذَی وَالْمَکْرُوهِ وَرَفْعِ الْمَظَالِمِ وَالذَّوْدِ عَنِ الْمَحَارِمِ.

’’اِسلام میں جہاد کا مفہوم ان لوگوں کی سرکوبی کرنا ہے جو بناء اَمن کو تباہ و برباد کرنے، اِنسانوں کے آرام و سکون کو ختم کرنے اور اللہ کی زمین میں فساد انگیزی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خصوصاً اُس وقت جب لوگ اپنے گھروں میں انتہائی پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہوں (یعنی Civilians اور Non-Combatants ہوں)۔ یا ان لوگوں کے خلاف جد و جہد کرنا جو پوشیدہ جگہوں اور خفیہ طریقوں سے (اَمنِ عالم کو تباہ کرنے کے لیے) فتنہ و فساد کی آگ بھڑکاتے ہیں، خواہ (یہ کاوش) کسی کو دین سے منحرف کرنے کی صورت میں ہو یا جماعت سے باغی کرنے اور اطاعت کی زندگی سے رُوگردانی کرنے کے لیے ہو یا ان لوگوں کے خلاف ہو جو اللہ کے نور کو (ظلم و جبر سے) بجھانا چاہتے ہوں اور مسلمانوں کو جنہیں وہ اپنا دشمن قرار دیتے ہیں (اپنے وطن سے نکال کر) دور بھگانا چاہتے ہوں اور انہیں اپنے ہی گھروں سے بے گھر کرتے ہوں، عہد شکنی کرتے ہوں اور باہمی اَمن و سلامتی کے معاہدات کی پاس داری نہ کرتے ہوں۔ غرضیکہ جہاد اِنسانیت کے لیے اَذیت و تکلیف دہ ماحول اور ناپسندیدہ، ظالمانہ اور جابرانہ نظام کو ختم کرنے اور محارم کی حفاظت کرنے کا نام ہے۔‘‘

مذکورہ تفصیلات کی روشنی میں لفظ جہاد کا مفہوم یہ ہوگا کہ کسی بھی نیکی اور بھلائی کے کام کے لیے جد و جہد میں اگر اِنتہائی طاقت اور محنت صرف کی جائے اور حصولِ مقصد کے لیے ہر قسم کی تکلیف اور مشقت برداشت کی جائے، تو اس کوشش کو جہاد کہیں گے۔ جہاد کا مقصد نہ تو مالِ غنیمت سمیٹنا ہے اور نہ ہی اس کا مقصد ملک و سلطنت کی توسیع ہے۔ توسیع پسندانہ عزائم اور ہوسِ ملک گیری (hegemony and expansionism) کا کوئی تعلق اِسلام کے فلسفہ جہاد سے نہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا جہاد سے کوئی دور کا واسطہ ہے۔

اِسلامی ریاست پُراَمن شہریوں کے جان، مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہے۔ فتنہ و فساد، سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خاتمہ، سرکشی و بغاوت کی سرکوبی، ظلم و بربریت، درندگی، ناانصافی، ناحق اِنسانی خونریزی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کے خلاف راست اقدام کرنا اِنسانی حقوق کے چارٹر (Charter of Human Rights)کے مطابق نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ اللہ کی زمین ہر قسم کے فتنہ و فساد سے پاک ہو، اَمن بحال ہو اور قیامِ عدل (establishment of justice) کے لیے راہ ہموار ہو جائے۔ معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے لیے جہاد یعنی قیامِ اَمن اور اقامتِ حق کے لیے جہدِ مسلسل اور عمل پیہم بجا لانا ہر مومن پر فرض ہے۔ جہاد محض جنگ یا دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کا نام نہیں بلکہ اِسلام نے تصورِ جہاد کو بڑی وسعت اور جامعیت عطا کی ہے۔ اِنفرادی سطح سے لے کر اِجتماعی سطح تک اور قومی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اَمن و سلامتی، ترویج و اِقامتِ حق اور رضاء اِلٰہی کے حصول کے لیے مومن کا اپنی تمام تر جانی، مالی، جسمانی، لسانی اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں صرف کر دینا جہاد کہلاتا ہے۔

عربی لغت کے مطابق سرزمینِ عرب میں قبل اَز اِسلام دورِ جاہلیت میں جنگ کے لیے جو تراکیب، محاورے، علامتیں، اِستعارے اور اِصطلاحات استعمال ہوتی تھیں، ان سب سے بلاشبہ وحشیانہ طرزِ عمل اور دہشت گردی کا تاثر اُبھرتاتھا۔ عسکری لٹریچر کی اِصلاح کے لیے اِسلام نے ان تمام الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اِصلاحِ اَحوال کی جد و جہد کی طرح دفاعی جنگ کو بھی ’جہاد‘ کا عنوان دیا۔ یعنی اِسلامی نکتہِ نظر سے لفظِ جہاد کا اِطلاق اَعلیٰ و اَرفع مقاصد کے حصول، قیامِ اَمن، فتنہ و فساد کے خاتمہ اور ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کو مٹانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروے کار لانے پر ہوتا ہے۔ حقیقی مسلمان وہ ہے جو ساری زندگی جھوٹ، منافقت، دجل و فریب اور جہالت کے خاتمہ کے لیے اِبلیسی قوتوں سے مصروفِ جہاد رہتا ہے۔ لفظِ جہاد کے حقیقی معنی سے لوٹ مار، غیظ و غضب اور قتل و غارت گری کی بُو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ مقاصد کے حصول کی کاوشوں پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی صلح جو اور اَمن پسند قوم کی عظیم جد و جہد کے لیے لفظِ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہو سکتا۔ جہاد اپنے وسیع تر معانی میں وقتی یا ہنگامی عمل نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پر محیط تصورِ حیات ہے۔ وہ لمحہ جو اِحترامِ آدمیت اور خدمتِ انسانیت کے جذبہ سے خالی ہے، اِسلام کے لیے قابل قبول نہیں اور نہ ہی جہاد کے نام سے موسوم ہو سکتا ہے۔

3۔ لفظِ جہاد کا ترجمہ ’جنگ‘ یا ’holy war‘ کرنا درست نہیں

قرآن و حدیث کی روشنی میں لفظِ جہاد کے معنی ومفہوم اور اس کے اِطلاقات (applications) کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظِ جہاد کا ترجمہ محض جنگ و جدال اور war یا holy war کرنا درست نہیں ہے۔ لفظِ جہاد کا اطلاق مسیحی اور بعض مسلمان محققین نے کفار کے ساتھ خصومت، لڑائی یا جنگ و جدل پر کیا ہے۔ حالانکہ لڑائی، قتال، خصومت یا جنگ کے یہ معنی نہ تو قدیم عربی زبان میں پائے جاتے ہیں اور نہ علماءِ لغت کے نزدیک درست ہیں اور نہ ہی قرآن میں کبھی اس مفہوم پر اس کا اطلاق ہوا ہے۔ کیونکہ عربی لغت میں جنگ و جدال کے لیے حرب(1) اور قتال(2) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  1. البقرة، 2 : 279
    المائدة، 5 : 64
    الأنفال، 8 : 57
    محمد، 47 : 4
  1. البقرة، 2 : 217
    النساء، 4 : 77
    التوبة، 9 : 5

4۔ لفظِ جہاد کا غلط اِنطباق اور انگریزی لغات

جہاد کے اس غلط مفہوم کو عام کرنے میں انگریزی لغات کا بہت دخل ہے۔ لفظِ جہاد کے لغوی معنی میں، اس کے اصطلاحی مفہوم میں اور قرآن و حدیث میں کہیں بھی اس لفظ کے اندر war یا holy war کا معنی نہیں پایا جاتا۔ تاریخی حقائق البتہ اِس اَمر پر شاہد ہیں کہ خود یورپ کے بادشاہوں نے عوام کے مذہبی جذبات کو اشتعال دینے اور چرچ کو جنگ میں شریک کرنے کے لیے holy war کی اِصطلاح اِستعمال کرنا شروع کی اور بعد کے لٹریچر میں یہی معنی بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے جہاد کے ترجمہ کے طور پر مروج ہوگیا۔ اِس اِصطلاح کو اِختراع کرنے کا مقصد مسیحی مذہبی طبقات کے جذبات کو اُبھار کر انہیں القدس (یروشلم) کی جنگ میں شریک کرنا تھا۔ اس طرح جہاں ایک طرف غیر مسلم مفکرین اور ذرائع ابلاغ نے جہاد کا ترجمہ holy war کرکے اِسلامی تصورِ جہاد کو بری طرح مجروح کیا، وہاں دوسری طرف بعض دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں نے بھی لفظِ جہاد کو اپنی دہشت گردی اور قتل و غارت گری کا عنوان بنا کر اِسلام کو دنیا بھر میں بد نام کرنے اور اِسلامی تعلیمات کے پُراَمن چہرے کو مسخ کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ۔

مسیحی مذہب کی رُو سے ظلم و جور کے خلاف قوت و طاقت کا اِستعمال ناجائز تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی صدیوں تک اکثر مسیحی علماء دفاعِ شخصی کے حق (right of self defence) کا بھی اِنکار کرتے رہے۔ اس سلسلے میں بالعموم حضرت عیسٰی  علیہ السلام  کے مشہور پہاڑی وعظ کے اِس اِقتباس کا حوالہ دیا جاتا ہے:

But I say unto you, That ye resist not evil: but whosoever shall smite thee on thy right cheek, turn to him the other also.

Matthew 5:39

میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے۔

چوتھی صدی عیسوی میں جب رومی بادشاہ قسطنطین (Constantine) نے عیسائیت قبول کی اور مسیحیت کو رومی سلطنت کے سرکاری مذہب کی حیثیت حاصل ہوگئی تو پھر جنگ کے جواز کے لیے ایک نئے نظریے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ جنگ کے جواز کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اتنی بڑی سلطنت کے نظم و نسق اور اَمن اَمان کو طاقت کے اِستعمال کے بغیر قائم رکھا جا سکے۔ اس نظریے کے تحت قرار دیا گیا کہ جو جنگ مذہبی بنیادوں پر بت پرستوں اور نئے فرقوں کے خلاف لڑی جائے وہ منصفانہ جنگ ہوگی۔ جنگ کی اس نوعیت کو قرونِ وُسطیٰ میں ’مقدس جنگ (holy war)‘ کا نام دیا گیا۔

اکثر مغربی مصنفین اور ہندو ناقدین نے جہاد کو بھی ’مقدس جنگ (holy war)‘ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے درج ذیل کتب ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:

  1. John Laffin, Holy War: Islam Fights (London, Graffton Books, 1988).

  2. Suhas Majumdar, JIHAD: The Islamic Doctrine of Permanent War (New Delhi: The Voice of India, 1994).

  3. Karen Armstrong, Holy War: The Crusades and Their Impact on Today’s World (New York: Anchor Books, 2001).

  4. Reuven Firestone, Jihad: The Origin of Holy War in Islam (New York: Oxford University Press, 1999).

علمی دیانت، اِنصاف اور تحقیق کا تقاضا ہے کہ یہ غلط معانی لغت کی کتابوں سے نکال دیے جائیں ۔ یہ اِسلام کی ایک اَہم اِصطلاح اور دینی تصور کے خلاف گھناؤنی سازش ہے جس سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی جَھد جُھد یا جہاد میں Holy war کا کوئی تصور یا خیال موجود نہیں۔ جہاد ایک سعی ہے، ایک کوشش، محنت اور مشقت ہے جو کسی بھی نیک مقصد کے لیے کی جاتی ہے۔ مقصد روحانی بھی ہو سکتا ہے، معاشرتی بھی، ثقافتی یا سیاسی بھی۔ یہ خیرات بھی ہو سکتی ہے، فروغِ تعلیم کی جد و جہد بھی اور یہ کوئی بھی نیک مقصد ہو سکتا ہے جس کے لیے محنت اور مشقت کو جہاد کہا جائے گا۔ اِسلام میں لڑنے یا جنگ کرنے کے لیے قِتَال کی اِصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کا معنی ہے ’لڑنا‘ جب کہ لفظِ جہاد کے معنی میں لڑنا شامل ہی نہیں ہے۔

5۔ دہشت گردوں کی طرف سے لفظِ جہاد کا غلط اِطلاق

اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے قرآن و حدیث کے بعض اَلفاظ اور اِصطلاحات کو غلط طور پر اپنا رکھا ہے۔ وہ قرآن کریم کی چند آیات اور بعض اَحادیث مبارکہ کو ان کے شانِ نزول اور واقعاتی اور تاریخی سیاق و سباق سے کاٹ کر اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ تشریح و تعبیر کا جامہ پہنا دیتے ہیں۔ یہ لوگ جہالت اور خود غرضی کے پیشِ نظر جہاد، شہادت، خلافت، دار الحرب اور دار الاسلام جیسی اِصطلاحات کو بے محل اِستعمال کرکے عام مسلمانوں اور خصوصاً نوجوانوں (Muslim youth) کو گمراہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ قرآن و حدیث میں ہے۔ حالانکہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی طرف سے یہ اِسلام پر بہت بڑا اِلزام ہے۔ اُن کے اِس خطرناک نظریے کا قرآن، حدیث اور اِسلام کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کئی مذہبی سیاسی جماعتوں کا یہ مزاج بن چکا ہے کہ وہ اپنے خاص سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اِسلام، دین، جہاد، شہادت، یا اِسلامی نظام، نظامِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور نظامِ شریعت جیسی اِصطلاحات بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے مذہبی جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کے پاس عوام کو متاثر کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ پروگرام نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ قرآن، حدیث، اِسلام اور شریعت جیسی اِصطلاحات اِستعمال کرکے عوام کے جذبات کو مشتعل کرتے ہیں اور اپنے خود ساختہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم اِسی اِلتباس و اِبہام کو دور کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی آیاتِ جہاد کے تحت جہاد کے صحیح معنی و مفہوم کو واضح کرنے کی کوشش کریں گے۔

6۔ مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی آیاتِ جہاد کا درست مفہوم

جہاد کے اِس جامع اور وسیع مفہوم کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں جہاد کا حکم سب سے پہلے شہرِ مکہ میں اُس وقت نازل ہوا جب کہ ابھی جہاد بالسیف کی اجازت بھی نہیں ملی تھی۔ صحابہ کرام پر جبر و تشدد کے پہاڑ ڈھائے جاتے مگر انہیں اپنے ذاتی دفاع کے لیے بھی ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اُنہیں اُس وقت تک صبر کرنے کی تلقین کی گئی جب تک اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے ہجرت کی صورت میں نجات کی سبیل پیدا نہ فرما دی۔ دفاعی جنگ کی ممانعت کے لیے بھی مکہ معظمہ میں ستّر (70) آیات نازل ہوئیں۔ اس کے باوجود جہاد کے متعلق پانچ آیات مکہ مکرمہ میں نازل ہوئیں۔

امام رازی (م604ھ) سورۃ الحج کی آیت نمبر 39 - {اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا} - کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:

وَهِيَ أَوَّلُ آيَةٍ أُذِنَ فِيهَا بِالْقِتَالِ بَعْدَ مَا نُهِيَ عَنْهُ فِي نَيِّفٍ وَسَبْعِيْنَ آيَةً.

رازی، التفسير الکبير، 23 : 35

اَمرِ قتال کے اِمتناع میں ستّر (70) سے زائد آیات کے نزول کے بعد یہ پہلی آیت تھی جس میں قتال کی اِجازت دی گئی۔

وہ لوگ جنہیں اِس بارے میں فکری واضحیت نہیں اور وہ ذہنی اُلجھن کا شکارہیں - مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مغربی دنیا کے رہنے والے ہوں یا مشرقی ممالک کے - ان سب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اگر جہاد کا معنی قتال اور مسلح تصادم (armed conflict) ہی ہوتا تو مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات کی کیا توجیہ ہوگی جن میں صراحتاً ’جہاد‘ کا حکم دیا گیا ہے؟ یہ آیات ہجرت سے پہلے مکی دور میں نازل ہوئیں جب اپنے دفاع میں بھی ہتھیار اٹھانے کی سختی سے ممانعت تھی اور کسی لڑائی یا مزاحمت کی اِجازت بھی نہ تھی اور نہ اُس دور میں مسلمانوں نے عملاً کوئی جنگ لڑی۔ اگر جہاد کا معنی لڑنا ہی ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یقیناً ہتھیار اٹھاتے اور اپنی حفاظت اور دفاع میں کفار و مشرکینِ مکہ کے خلاف جنگ کرتے۔ لیکن ان میں سے کسی کو اس کی اجازت نہ تھی جب کہ جہاد کے لیے پانچ آیات بھی نازل ہو چکی تھیں۔

اس کا درست جواب یہ ہے کہ قرآن کی رُو سے جہاد کے لیے مسلح تصادم اور کشمکش کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ اگر ہر حکمِ جہاد کے لیے مسلح تصادم ناگزیر ہوتا تو مکہ میں لفظ جہاد پر مشتمل پانچ آیات کے نزول کے بعد ذاتی دفاع کے لیے مسلح جنگ کی اِجازت مل چکی ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ہوا تھا۔ اِس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ لفظ جہاد کے مسلح لڑائی کے علاوہ کئی اور معانی و مفاہیم بھی ہیں جو کہ مکہ میں نازل ہونے والی درج ذیل آیات سے مستنبط ہوتے ہیں:

1. فَـلَا تُطِعِ الْکٰفِرِيْنَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا کَبِيْرًاo

الفرقان، 25 : 52

پس (اے مردِ مومن!) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس (قرآن کی دعوت اور دلائل) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد کر (یعنی علمی طور پر انہیں توحید پر قائل کر)o

اِس آیت میں بڑے جہاد سے مراد علم و فکر اور فروغِ شعور کی جد و جہد (Jihad for promotion of knowledge and awareness) ہے۔

2. وَمَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِط اِنَّ اللہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰـلَمِيْنَo

العنکبوت، 29 : 6

جو شخص (راہِ حق میں) جد و جہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے) لیے تگ و دو کرتا ہے، بے شک اللہ تمام جہانوں (کی طاعتوں، کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہےo

یہاں پر جہاد سے مراد اَخلاقی اور روحانی ترقی (Moral and spiritul uplift) کے لیے جد و جہد ہے۔

3. وَاِنْ جَاهَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا.

العنکبوت، 29 : 8

اور اگر وہ تجھ پر (یہ) کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں تو ان کی اِطاعت مت کر۔

سورۃ العنکبوت کی اس آیت میں جہاد سے مراد کسی بھی قسم کی علمی، فکری، نظریاتی یا اعتقادی کوشش (intellectual or idealogical effort) ہے۔

4. وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَاط وَاِنَّ اللہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَo

العنکبوت، 29 : 69

اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (یعنی مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں، اور بے شک اللہ صاحبانِ اِحسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہےo

مکہ میں نازل ہونے والی اِس آیت مبارکہ میں اپنی زندگی میں اَخلاقی، روحانی اور اِنسانی اَقدار کو زندہ کرنے اور اُنہیں مزید ترقی و اِستحکام دینے کی جد و جہد کو جہاد کا نام دیا گیا ہے۔

5. وَاِنْ جَاهَدٰکَ عَلٰی اَنْ تُشْرِکَ بِيْ مَا لَيْسَ لَکَ بِهِ عِلْمٌلا فَـلَا تُطِعْهُمَا.

لقمان، 31 : 15

اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کی کوشش کریں (یعنی تیرا ذہن بدلنے کی کاوش کریں) کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک ٹھہرائے جس (کی حقیقت) کا تجھے کچھ علم نہیں ہے تو اُن کی اِطاعت نہ کرنا۔

اِس آیت مقدسہ میں بھی علمی، ذہنی، فکری اور اِعتقادی سطح پر کی جانے والی کوشش کو ’جہاد‘ کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔

مذکورہ بالا پانچوں آیات - جن میں واضح طور پر جہاد کا ذکر یا حکم آیا ہے - ہجرت سے قبل مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں، جبکہ دفاعی قتال کا حکم ہجرتِ مدینہ کے بعد نازل ہوا تھا۔ مکی دور میں اس کی اجازت ہی نہیں تھی۔ مکہ معظمہ میں حکمِ جہاد کے باوجود صحابہ رضی اللہ عنہم کو اپنے دفاع میں بھی اسلحہ اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اگر جہاد کا معنی مسلح جنگ یا آہنی اسلحہ کے ساتھ قتال ہی ہوتا تو مذکورہ آیات کے نزول کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاد بالسیف کا حکم فرما دیتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ میں ہی جہاد بالسیف شروع کردیتے۔ حالانکہ اِس اَمر پر سب کا اتفاق ہے کہ جہاد بالقتال کی اِجازت ہجرت کے بعد مدینہ میں ملی۔ کیوں؟ اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا معنی قتال، جنگ یا لڑائی ہے ہی نہیں۔ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں کہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے قرآن و حدیث کے بعض الفاظ اور اِصطلاحات کو غلط معنی دے رکھا ہے۔ وہ قتل و غارت گری، دہشت گردی اور عسکریت پسندی کو ناجائز طور پر جہاد کا نام دیتے ہیں۔

7۔ جہاد بالقتال کی اِجازت کس سن ہجری میں ملی؟

جہاد بالقتال کی اِجازت کس سن ہجری میں ملی، اِس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ مفسرین کا ایک طبقہ کہتا ہے کہ دفاعی جہاد کی اِجازت قرآنی حکم {اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا}(1) کے تحت ہجرت کے فوری بعد مل گئی(2) جب کہ دوسرے طبقے کے نزدیک دفاعی جہاد کی اجازت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال سے صرف تین سال قبل صلح حدیبیہ سے واپسی پر اُس وقت ملی جب مشرکین مکہ نے معاہدہِ حدیبیہ کو توڑا (3)۔

  1. الحج، 22 : 39

  1. طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 17 : 173
    بغوی، معالم التنزيل، 3 : 289
    زمخشری، الکشاف عن حقائق غوامض التنزيل، 3 : 161
  1. واحدی، الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 1 : 154
    ابن الجوزی، زاد المسير فی علم التفسير، 1 : 197
    رازی التفسير الکبير، 5 : 109

یہ اِس لیے تھا کہ مسلمان عددی اَقلیت اور کمزوری کے باعث مکہ میں لڑائی کے ذریعے اپنا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، اِس لیے مکی دور کی حکمتِ عملی مدنی دور کی نسبت مختلف تھی۔ جب ریاستِ مکہ نے مدینہ پر جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدر، اُحد اور خندق کی صورت میں تین جنگیں مسلمانوں پر مسلط کیں تو ریاستِ مدینہ کو مجبوراً اپنے دفاع میں لڑنا پڑا۔ جبکہ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کی اجازت بھی چھ (6) ہجری میں اُس وقت ملی جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ کرنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ اس صلح سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری اَقوام کے ساتھ بحالیِ اَمن کے لیے ہمیشہ سیاسی و سفارتی ذرائع (political & diplomatic means) اور معاہداتِ اَمن (peace treaties) کو ترجیح دی۔ جب کہ دفاعی جنگ کو ہمیشہ آخری اِقدام کے طور پر مؤخر رکھا۔

مکی دور میں جن پانچ آیات میں جہاد کی تلقین کی گئی ہے، اگر آپ ان کے شانِ نزول، تاریخی پس منظر اور سیاق و سباق (text, context & historical background) پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاد کا معنی محض یہ نہیں ہے کہ تلوار یا بندوق لے کر جنگ شروع کر دی جائے بلکہ جہاد کے کئی دیگر تقاضے بھی ہیں۔ ان تمام آیات میں جہاد کا معنی علم و شعور کی ترویج، روحانی و اَخلاقی اِرتقائ، فکری و فلاحی جد و جہد اور سماجی سطح پر اِنفاق و خیرات ہے۔ ہاں البتہ جب جارحیت کی جنگ آپ پر مسلط کر دی جائے تب آپ کو اِجازت ہے کہ آپ اپنی حفاظت اور دفاع کی جنگ لڑیں۔ دفاعی جنگ وہ لڑائی ہے جس کی UN اور بین الاقوامی قانون بھی اجازت دیتا ہے اور اس کی اجازت دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک کو حاصل ہے۔

8۔ عصرِ حاضر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی حکمتِ عملی سے رہنمائی

جس طرح پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ مکہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تمام تر جبر و تشدد، وحشت و بربریت اور ظلم و زیادتی کے باوجود اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مسلمانانِ مکہ اِس پوزیشن میں نہیں تھے کہ مسلح تصادم (Armed Conflict) کے ذریعے اپنا دفاع کر سکتے۔ اگر وہ اپنے دفاع میں مسلح تصادم کا راستہ اِختیار کرتے تو چند لوگوں کو کفارِ مکہ کے لیے شہادت سے ہم کنار کرنا کیا مشکل تھا۔ اس صورت میں اِسلام کی وہ عالم گیر دعوت جسے لے کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اور جسے پوری دنیا میں پھیلنا تھا اس کے اِمکانات خاصی حد تک معدوم ہو جاتے۔ اس لیے کمزور مسلمانوں کو تاکید کے ساتھ طاقت ور دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھانے سے روک دیا گیا۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مکی دور کی حکمتِ عملی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی اِسلامی ریاست اپنے کسی دشمن کا بھرپور عسکری مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ لڑائی چھیڑ کر اپنا نقصان نہ کرے۔ وہ مکی دور کی حکمت اور مصالح سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن کے مقابلہ میں اپنے آپ کو سیاسی، سماجی، اِقتصادی اور دفاعی اِعتبار سے مضبوط کرے۔ مکہ میں اگرچہ پانچ آیاتِ جہاد نازل ہو چکی تھیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان آیات کا اطلاق حرب و قتال اور جہاد بالسیف پر نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کی اَفرادی قوت اور اِجتماعی صلاحیت کو مسلح تصادم میں جھونکنے کی بجائے انہیں اور مضبوط کیا اور ایک عظیم مقصد کے لیے محفوظ کیا۔ اِس نبوی حکمتِ عملی کا فائدہ یہ ہوا کہ ریاستِ مدینہ کے قیام کے بعد اَہلِ مکہ کی جارحیت سے بچنے کے لیے جب مسلمانوں کا ریاستِ مکہ کے ساتھ معرکہِ بدر میں پہلا ٹکراؤ ہوا تو مکہ میں محفوظ کی گئی اَفرادی صلاحیتوں کا مسلمانوں نے بھرپور اِستعمال کیا اور شاندار فتح حاصل کی۔

9۔ قرآن میں لفظِ جہاد کا اِستعمال اور اس کے معنی کا تعین

اگر ہم جہد اور جہاد کے تناظر میں قرآنی آیات پر فکر و تدبر کریں تو پتہ چلے گا کہ پندرہ (15) مشتقات (مثلاً: جَاهَدَ، جَاهَدَا، جَاهَدُوْا، جَاهِدْ، جَاهِدُوْا، يُجَاهِدُوْنَ اور المُجَاهِدُوْن وغیرہ) کی صورت میں یہ لفظ اٹھارہ (18) سورتوں اور چھتیس (36) آیات میں کل اِکتالیس (41) مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ ان 36 آیات میں سے 31 آیات کے متن میں یا سیاق و سباق میں کہیں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ لڑنے یا جنگ کرنے، حتی کہ دفاعی یا جائز جنگ (defensive warfare or lawful war) اور قتال کا معنی بھی نہیں پایا جاتا۔ ایک دو آیات کی بات نہیں ہو رہی بلکہ 31 آیات میں جہاد کا حکم پائے جانے کے باوجود اس کے متن یا سیاق و سباق میں کہیں بھی جنگ یا قتال کا نہ ذکر ہے نہ معنی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہر حکمِ جہاد جنگ یا قتال سے عبارت نہیں بلکہ اِن چھتیس (36) آیات میں سے صرف چار (4) آیات(1) کے سیاق و سباق میںجنگ کا معنی پایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ وہ بھی آیاتِ جہاد کے متن میں نہیں بلکہ ان کے سیاق و سباق میں جنگ کا ذکر ہے۔

10۔ جہاد اور قتال کو اکٹھا ذکر نہ کرنے میں قرآنی حکمت

قرآن میں جہاد سے متعلق نازل ہونے والی چھتیس (36) آیات میں سے کوئی ایک آیت بھی ایسی نہیں جس کے متن میں جہاد اور قتال کا ذکر اکٹھا آیا ہو۔ یعنی ایک ہی آیت میں جہاد اور قتال کا بیان ساتھ ساتھ موجود ہو۔ ایسا کسی ایک آیت میں بھی نہیں ہوا۔ یہ اَمر اِتفاقی نہیں ہے، یہ کلامِ اِلٰہی ہے اور یہی اُلوہی اسکیم ہے۔ آپ اُلوہی اسکیم اور اُلوہی حکمت و مصلحت پر غور کریں کہ پورے قرآن حکیم میں ایک آیت میں بھی جہاد کا حکم اور قتال کا حکم اکٹھا نہیں کیا گیا۔ اِسی طرح قرآن مجید کی ساٹھ (60) آیات میں قتال کی بحث آئی ہے مگر ان ساٹھ (60) آیات میں سے ایک آیت میں بھی قتال کے ساتھ جہاد کا ذکر کسی اِسم، فعل یا اَمر کی صورت میں نہیں کیا گیا۔ قرآن نے ہمیشہ ان دونوں اِصطلاحات کا ذکر الگ الگ کیا ہے۔ اِس لیے کہ قتال جہاد کی پانچ اَقسام میں سے ایک قسم ہے اور وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ ملزوم ہے۔

جہاد اور قتال کا معنی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم نہیں ہے۔ دونوں تصورات کو الگ الگ ذکر کیا گیا ہے۔ جب قتال کا لفظ کسی بھی ایسی قرآنی آیت کے متن میں ایک بار بھی اِستعمال نہیں ہوا جس میں جہاد کا لفظ آیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاد کا معنی صرف ’حق و اِنصاف پر مبنی جنگ‘ (just & lawful war) بھی نہیں ہو سکتا، کیوں کہ قرآنی آیات کے معنی کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاد کے لفظی معنی کا جنگ (war) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ آپ قرآن حکیم کو اَلْحَمْد سے وَالنَّاس تک پڑھ لیں، آپ کو ایک آیت بھی ایسی نہیں ملے گی جس میں جہاد یا قتال کو جارحیت (aggression) کے معنی میں لیا گیا ہو۔ یہ ہمیشہ اپنے دفاع، معاہدہِ اَمن کی خلاف ورزی کرنے والوں کی تادیب، لوگوں کو ظلم و جبر سے بچانے اور بعض خاص ناگزیر حالات کے لیے اِستعمال ہوتا ہے۔

اب ان لوگوں کے پاس اس کا کیا جواب ہے جو جہاد کے نام نہادعلم بردار کہلاتے ہیں اور انہوں نے اِنسانیت کے خلاف ایک خطرناک جنگ شروع کر رکھی ہے۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کا بارِ گراں اور پوری اُمتِ مسلمہ کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آن پڑی ہے اور انہوں نے خود ہی بغیر ریاست کی اِجازت کے جہاد کا اعلان کر دیا ہے۔ در حقیقت قتل و غارت گری اور خون خرابے پر مبنی اِن کے ایسے سب اَعمال اور حرکات اِسلام میں کلیتاً حرام ہیں، جن میں بے گناہ اِنسانوں کا خون بہایا جاتا ہے؛ جو نہ تو آپ کے خلاف کسی جنگ میں مصروف ہیں، نہ آپ پر کسی ظلم و تعدّی کے مرتکب ہیں اور نہ کسی ملک اور حکومت کے ظالمانہ یا جارحانہ رویے کے ذمہ دار ہیں۔ نہ انہوں نے آپ کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اور نہ انہوں نے آپ کو کسی مقابلہ کے لیے للکارا ہے۔ وہ مکمل طور پر غیر جارح اور پُراَمن ہیں۔ وہ اپنی نجی، سماجی، معاشی یا تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف تھے اور آپ نے انہیں بھون ڈالا۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر آپ اُن چار (4) آیات کے سیاق و سباق کو دیکھیں جو قتال کے مفہوم پر مشتمل ہیں تو یہ حقیقت آپ پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ یہ آیات بھی یا تو دشمن کی جارحیت کے خلاف دفاع (self defense) سے متعلق ہیں یا کسی معاہدہِ اَمن کے توڑے جانے سے متعلق۔ ان میں کہیں بھی کسی پر بلاوجہ جارحیت اور اِقدام کی اِجازت نہیں دی گئی۔ بلکہ اِن چاروں آیات میں بھی دفاعی جنگ یا حقوقِ اِنسانی اور قیامِ اَمن کے لیے جائز جنگ (Lawful war for establishment of peace & human rights) کا معنی پایا جاتا ہے۔

اِس تجزیے سے یہ بات بڑی آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ جب چھتیس (36) آیاتِ جہاد میں سے صرف چار آیات کا اپنے سیاق و سباق کے تناظر میں قتال سے تعلق (contextual link) ہے اور باقی بتیس (32) آیات کا سیاق و سباق میں بھی قتال سے کوئی تعلق نہیں، تو پھر لفظِ جہاد کو ہمیشہ اور ہر جگہ قتال کے معنی میں کیوں لیا جاتا ہے؟ یہ جہاد کا بالکل غلط تصور ہے جو قرآن اور اِسلام کی واضح منشا کے سراسر خلاف ہے۔

چوتھی اَہم بات اِس حوالے سے یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سورۃ التوبۃ مدینہ طیبہ میں نازل ہونے والی اُن آخری سورتوں میں سے ہے جو اَہلِ مکہ کی طرف سے معاہدہِ اَمن (Treaty of peace) توڑنے کے بعد نازل ہوئی۔ اِس معاہدہ شکنی کے بعد بَرَآءَةٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِهِ (1) فرما کر باقاعدہ تنسیخِ معاہدہ (Cancellation of treaty) کا اِعلان کر دیا گیا تھا۔ اِس طرح ریاستِ مکہ اور ریاستِ مدینہ دونوں پھر سے حالتِ جنگ (state of war) کی طرف لوٹ آئیں۔ لہٰذا سورۃ التوبۃ کی یہ آیات - جن میں آیۃ السیف بھی شامل ہے - حقیقت میں مشرکینِ مکہ کی طرف سے عہد شکنی کے بعد اِختتامِ معاہدہ کا اِعلان و اِظہار تھا۔

  1. التوبة، 9 : 1

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِعلانِ نبوت کے بعد تیرہ (13) سال مکہ میں گزارے۔ مسلمان مکہ میں بہت کمزور اَقلیت تھے۔ مکہ کے اِس پورے دور میں مسلمانوں کو ظلم و ستم، جبر و تشدد، وحشت و بربریت اور دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس تمام تر نااِنصافی اور جارحیت کے باوجود مسلمانوں کو اپنی حفاظت اور دفاع کے لیے بھی ہتھیار اُٹھانے کی اجازت نہیں تھی۔ پیغمبرِ اِسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیروکاروں کو مزاحمت کی بجائے صبر و تحمل کا حکم تھا۔ ہجرت کے بعد بدر، اُحد اور خندق جیسے غزوات بھی محض دفاعی تھے۔ کیوں یہ تمام جنگیں شہر مدینہ کی حدود میں یا اس کے جوار میں لڑی گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے محض دفاعی پوزیشن پر ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اِن تمام جنگوں میں جب دشمن مسلما نوں پر حملہ آور ہوتا تو مسلمان مدینہ کے بارڈرز یا شہر مدینہ کے اندر محصور ہو کر دفاع کرتے۔ یا شہر مدینہ سے باہر نکل کر اپنی طرف ہونے والی جارحانہ پیش قدمی کو روکنے کے لیے لڑے۔ ان میں سے ایک جنگ بھی شہر مکہ کے بارڈرز پر نہیں لڑی گئی۔

عہدِ نبوی کے قبائلی اور جنگی کلچر میں جب ہر قبیلہ ہمہ وقت جنگ کرنے کے لیے تیار رہتا تھا، ہجرتِ مدینہ کے بعد تا دمِ وصال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو مجموعی طور پر تقریباً ساٹھ (60) تا اَسّی (80) چھوٹی بڑی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، مگر دِل چسپ بات یہ ہے کہ ان تمام جنگوں میں سے ایک جنگ بھی جارحیت کی صورت میں نہیں ہوئی۔ یہ تمام کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں۔ آپصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ایک دو جنگیں ممکنہ جارحیت کو روکنے کے لیے (preemptive defensive wars) لڑیں؛ ایک اُس وقت جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو باوثوق ذرائع سے پختہ یقین ہوگیا کہ خیبر کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہونے والے ہیں اور دوسری آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری سال جب آپ کو اطلاع دی گئی کہ شامی اَفواج مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے جمع ہو رہی ہیں۔ ان دو مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش بندی کے طور پر مدافعانہ حکمتِ عملی اِختیار کی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات طیبہ میں ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اپنائی اور کبھی کسی پر حملے میں پہل نہیں کی۔

یہاں پر نہایت غور طلب اور دل چسپ بات یہ ہے کہ مکہ کے اس دور میں، جب مسلمانوں کو ابھی اپنے دفاع اور حفاظت کے لیے مسلح جد و جہد کی اجازت نہیں تھی، جس زمانے میں ہر روز کسی نہ کسی صحابی کو مکہ کے گلی کوچوں اور چوک چوراہوں میں یا تو کوئلوں پہ لٹایا جا رہا تھا یا پھر کوڑوں سے پیٹا جا رہا تھا، ان کرب ناک حالات میں حکمِ جہاد پر مشتمل پانچ آیاتِ جہاد (1) نازل ہوئیں مگر ان میں سے کسی ایک میں بھی مدافعانہ جنگ تک کی اجازت نہ تھی۔

  1. الفرقان، 25 : 52
    العنکبوت، 29 : 6
    العنکبوت، 29 : 8
    العنکبوت، 29 : 69
    لقمان، 31 : 15

یہ تمام آیات اسی باب میں چند صفحات پیچھے ذکر کی جا چکی ہیں۔

11۔ جہاد اور قتال میں فرق

لفظِ جہاد اور قتال کو ایک دوسرے کی جگہ اِستعمال کرنے والوں اور ان دونوں الفاظ کو ایک دوسرے کا متبادل سمجھنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن حکیم میں سورۃ الفاتحۃ سے سورۃ الناس تک کسی ایک آیت میں بھی جہاد اور قتال کے دونوں الفاظ یا دونوں حکم ایک جگہ اکٹھے بیان نہ کرنے کی حکمت ہی دونوں کے درمیان فرق کو قائم رکھنا ہے تاکہ لوگ دونوں اِصطلاحات یا تصورات میں خلط ملط نہ کر بیٹھیں۔ اور دونوں (جہاد اور قتال) کو ایک دوسرے کا ہم معنی یا متبادل نہ سمجھ بیٹھیں۔ لفظ قتال جنگ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جب کہ لفظ جہاد کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ قرآن حکیم میں جنگ، خواہ دفاع کے لیے کیوں نہ ہو لفظ جہاد کا ناگزیر اور لازمی معنی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے یہ اِصطلاح اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے hijack کر رکھی ہے۔ وہ اپنی مجرمانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے اور بنی نوع انسان کو ہلاک کرنے کے لیے اِس اِصطلاح کا غلط اِستعمال و اِطلاق (wrong application) کرتے ہیں۔ مزید برآں اِسلامی تعلیمات کے مطابق قتال کا مطلب بھی ظالمانہ اور جارحانہ لڑائی نہیں بلکہ حق اور اِنصاف پر مبنی جائز (lawful) جنگ ہے جو UN کی دی ہوئی Definition کے عین مطابق ہے اور جسے عالمی قانون (International law) بھی جائز قرار دیتا ہے۔ بلکہ یہ جنگ ظلم وستم اور جبر و اِستبداد کے خاتمے اور اَمن اَمان کی بحالی کے لیے لڑی جاتی ہے۔

12۔ جہاد اور حرب میں فرق

عربی زبان مین لفظ ’حرب‘ کے بیسیوں مترادفات ہیں لیکن یہ لفظ مقاصدِ جنگ کو زیادہ بہتر طریقے سے واضح کرتاہے۔ عربوں کی لڑائیاںعام طور پر دو مقاصد کے لیے ہوتی تھیں: ایک لوٹ مار کے لیے اور دوسرے نسلی تفاخر، غیرت و حمیت اور اِنتقامی کارروائیوں کے لیے۔ لفظِ حرب ان دونوں مقاصد کے لیے بپا کی جانے والی لڑائیوں کے محرکات اور مقاصد کا ایک بلیغ استعارہ ہے اور اپنا مفہوم پوری طرح واضح اور روشن کرتا ہے۔

خود عربی زبان میں جنگ کے لیے ’حرب‘  کا لفظ استعمال کیا گیا۔ تصورِ حرب،بھی تصور جہاد سے اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت مختلف ہے، اسی لیے جہاد پر حرب کا اطلاق نہیں کیا گیا۔ جنگ یعنی حرب فتنوں کی پرورش کرتی ہے جبکہ جہاد فتنہ و فساد کو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جہاد کے مقاصد دنیا کی جارحانہ یا توسیع پسندانہ جنگوں سے قطعی مختلف ہیں۔ قرآن مجید میں لفظ ’حرب‘ چھ مقامات پر استعمال کیا گیا ہے۔ ایک کے سوا کہیں بھی اس سے جہاد کا مفہوم مترشح نہیں ہوتا۔ ذیل میں ہم لفظ حرب کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے قرآن کی مختلف آیات کا مطالعہ کرتے ہیں:

1۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يٰـايُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِهِ.

البقرة، 2 : 278-279

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدقِ دل سے) ایمان رکھتے ہوo پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اعلانِ جنگ پر خبردار ہو جاؤ۔

یہ اَمر قابل ذکر ہے کہ آیت مذکورہ میں مسلمانوں سے خطاب کیا گیا ہے اور جہاد مسلمانوں کے خلاف نہیں کیا جاتا۔ یہاں پر اصل میں سود کی سنگینی کو ظاہر کرنے کے لیے لفظِ حرب استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ عملی طور پر بھی کبھی اس بنا پر جہاد نہیں کیا گیا۔ لہٰذا یہاں لغوی معنی مراد ہیں اصطلاحی نہیں۔

2۔ ایک اور مقام پر عہد فراموش کفار کے حوالے سے لفظ حرب استعمال کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:

فَاِمَّا تَثْقَفَنَّهُمْ فِی الْحَرْبِ فَشَرِّدْ بِهِمْ مَّنْ خَلْفَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَذَّکَّرُوْنَo

الانفال، 8 : 57

سو اگر آپ انہیں (میدانِ) جنگ میں پا لیں تو ان کے عبرت ناک قتل کے ذریعے ان کے پچھلوں کو (بھی) بھگا دیں تاکہ انہیں نصیحت حاصل ہوo

قبائلِ یہود بار بار عہد شکنی کے مرتکب ہوتے تھے۔ یہ آیت انہی کے متعلق نازل ہوئی۔ یہودیوں نے ذاتی بغض و عناد کے باعث لڑائیوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا تھا اور قبائلِ عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے میں مصروف تھے۔ قرآن مجید میں اس منفی کارروائی کا ذکر حرب سے کیا گیا ہے۔

3۔ ارشاد خداوندی ہے:

کُلَّمَا اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللہُ وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًاط وَاللہُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَo

المائدة، 5 : 64

جب بھی یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور یہ (روئے) زمین میں فساد انگیزی کرتے رہتے ہیں، اور اللہ فساد کرنے والوں کو پسند نہیں کرتاo

اس آیت کریمہ کا روئے سخن یہود و نصاریٰ کی طرف ہے۔ یہاں بھی حرب سے مراد ہرگز جہاد نہیں بلکہ منفی مقاصد پر مبنی جنگ و قتال ہے۔ مفہومِ آیت روز روشن کی طرح واضح ہے۔

4۔ سورۃ التوبۃ میں ارشاد باری ہے:

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّکُفْرًا وَّتَفْرِيْقًام بَيْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَاِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللہَ وَرَسُوْلَهُ مِنْ قَبْلُ.

التوبة، 9 : 107

اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے۔

یہاں بھی لفظ ’حرب‘ کلیتاً منفی جنگی کارروائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔

عربی لغت کے مطابق عرب میں جنگ کے لیے جو تراکیب، محاورے، علامتیں اور اِستعارے استعمال ہوئے ہیں، ان تمام سے وحشیانہ پن اور دہشت گردی کا تاثر ابھرتاہے۔ اس لیے عسکری لٹریچر کی اصلاح کے لیے اِسلام نے ان تمام جارحانہ الفاظ اور محاوروں کو ترک کرکے اِصلاحِ اَحوال کی مثبت جد و جہد کو ’جہاد‘  کا نام دیا۔ اِس کا اِطلاق اَعلیٰ اور اَرفع مقاصد، قیامِ اَمن، فتنہ و فساد کے خاتمہ اور ظلم و جبر کو مٹانے کے لیے جامع جد و جہد پر ہوتا ہے۔ لفظ جہاد سے لوٹ مار، غیظ و غضب اور قتل و غارت گری کی بُو تک نہیں آتی بلکہ اس کا معنی پاکیزہ، اَعلیٰ اور پُراَمن اِنسانی مقاصد پر دلالت کرتاہے۔ ایک مہذب، شائستہ اور بلند عزائم رکھنے والی اَمن پسند قوم کی اِنقلابی جد و جہد اور مسلسل کاوشوں کے مفہوم کی توضیح و تفہیم کے لیے لفظ جہاد سے بہتر کوئی دوسرا لفظ نہیں ہے۔ جہاد اپنے وسیع تر معنوں میں وقتی یا ہنگامی سعی و کاوش نہیں بلکہ مہد سے لے کر لحد تک مردِ مومن کی پوری زندگی پرمحیط ہے۔

13۔ جہاد اور بغاوت میں فرق

اپنی تمام ظاہری و باطنی صلاحیتوں اور اِستعداد کو اَعلی اور پُراَمن مقاصد کے پیشِ نظر اللہ کی راہ میں صرف کرنے کے لیے جو کوشش کی جائے، اسے جہاد کہتے ہیں۔ اگر جہاد کی شرعی شرائط پوری نہ ہوں تو وہ عمل جہاد نہیں بلکہ غدر، بغاوت دہشت گردی اور فساد ہے جس کی اِسلامی تعلیمات میں قطعاً اجازت نہیں ہے۔ جن لوگوں کو مسلح دہشت گردوں کی ملک دشمن کارروائیوں کے پس پردہ ’جہاد‘ کا شائبہ ہوتا ہے، اُنہیں اِطمینانِ قلب ہو جانا چاہیے کہ کلمہ گو اور معصوم شہریوں کی جانیں لینا کوئی جہاد نہیں ہے بلکہ یہ جہاد جیسے اعلیٰ دینی تصور کو بدنام کرنے کی بد ترین اور گھناؤنی کوشش ہے۔ تاریخِ اِسلام میں جس طرح بغاوت کو ایک جرم قرار دیا گیا ہے اسی طرح آج کے مسلح باغیوں کو ملک و قوم کا دشمن سمجھنا ہی دین داری ہے۔

آیات و اَحادیث اور تصریحاتِ اَئمہ دین کی روشنی میں بغاوت کی حرمت و ممانعت واضح ہے۔ اِس سلسلے میں احادیث کے علاوہ صحابہ کرام، تابعین، اَتباع التابعین بالخصوص امامِ اَعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر جلیل القدر ائمہ دین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاویٰ کی روشنی میں یہ اَمر واضح ہے کہ مسلم ریاست کے خلاف بغاوت کی قطعی ممانعت پر اِجماعِ اُمت ہے اور کسی مذہب و مسلک میں بھی اِس پر اختلاف نہیں ہے۔ ایسے مسلح خروج اور بغاوت کو جو نظمِ ریاست کے خلاف ہو اور ہیئتِ اِجتماعی کے باقاعدہ اِذن و اِجازت کے بغیر ہو وہ خانہ جنگی، دہشت گردی اور فتنہ و فساد ہوتا ہے؛ اسے کسی لحاظ سے بھی جہاد کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

اَہلِ لغت نے بغاوت کی کئی تعریفات بیان کی ہیں، وہ سب ایک ہی معنوی اَصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ یہ تعریفات ملاحظہ کرنے کے بعد آپ کے سامنے جہاد اور بغاوت کا فرق خودبخود واضح ہو جائے گا۔

1۔ فقہاے اَحناف میں امام ابن ہمام (م861ھ) نے ’فتح القدیر‘ میں بغاوت کی سب سے جامع تعریف کی ہے اور باغیوں کی مختلف اَقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

وَالْبَاغِي فِي عُرْفِ الْفُقَهَاءِ الْخَارِجُ عَنْ طَاعَةِ إِمَامِ الْحَقِّ. وَالْخَارِجُوْنَ عَنْ طَاعَتِهِ أَرْبَعَةُ أَصْنَافٍ: أَحَدُهَا: الْخَارِجُوْنَ بِلاَ تَأَوِيْلٍ بِمَنَعَةٍ وَبـِلَا مَنَعَة،ٍ يَأْخَذُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ وَيَقْتُلُوْنَهُمْ وَيُخِيْفُوْنَ الطَّرِيْقَ، وَهُمْ قُطَّاعُ الطَّرِيْقِ. وَالثَّانِي: قَوْمٌ کَذَلِکَ إِلاَّ أَنَّهُمْ لاَ مَنَعَةَ لَهُمْ لَکِنْ لَهُمْ تَأْوِيْلٌ. فَحُکْمُهُمْ حُکْمُ قُطَّاعِ الطَّرِيْقِ. إِنْ قَتَلُوْا قُتِلُوْا وَصُلِّبُوْا. وَإِنْ أَخَذُوْا مَالَ الْمُسْلِمِيْنَ قُطِعَتْ أَيْدِيْهُمْ وَأَرْجُلُهُمْ عَلٰی مَا عُرِفَ. وَالثَّالِثُ: قَوْمٌ لَهُمْ مَنَعَةٌ وَحَمِيَةٌ خَرَجُوْا عَلَيْهِ بِتَأْوِيْلٍ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلٰی بَاطِلٍ کُفْرٍ أَوْ مَعْصِيَةٍ. يُوْجِبُ قِتَالَهُ بِتَأْوِيْلِهِمْ. وَهٰؤلاَءِ يُسَمَّوْنَ بِالْخَوَارِجِ يَسْتَحِلُّوْنَ دِمَاءَ الْمُسْلِمِيْنِ وَأَمْوَالَهُمْ وَيَسْبُوْنَ نِسَاءَ هُمْ وَيُکَفِّرُوْنَ أَصْحَابَ رَسُوْلِ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم. وَحُکْمُهُمْ عِنْدَ جُمْهُوْرِ الْفُقَهَاءِ وَجُمْهُوْرِ أَهْلِ الْحَدِيْثِ حُکْمُ الْبُغَاةِ. … وَالرَّابِعُ: قَوْمٌ مُسْلِمُوْنَ خَرَجُوْا عَلٰی إِمَامٍ وَلَمْ يَسْتَبِيْحُوْا مَا اسْتَبَاحَهُ الْخَوَارِجُ، مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ وَسَبْيِ ذَرَارِيْهِمْ وَهُمُ الْبُغَاةُ.

ابن همام، فتح القدير، 5 : 334

فقہاء کے ہاں عرفِ عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جد و جہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔ حکومت وقت کے نظم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں:

پہلی قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو طاقت کے بل بوتے یا طاقت کے بغیر بلاتاویل حکومت کی اتھارٹی اور نظم سے خروج کرنے والے ہیں اور لوگوں کا مال لوٹتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور مسافروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، یہ لوگ راہ زن ہیں۔

دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس غلبہ پانے والی طاقت و قوت تو نہ ہو لیکن مسلح بغاوت کی غلط تاویل ہو، پس ان کا حکم بھی راہ زنوں کی طرح ہے۔ اگر یہ قتل کریں تو بدلہ میں انہیں قتل کیا جائے اور پھانسی چڑھایا جائے اور اگر مسلمانوں کا مال لوٹیں تو ان پر شرعی حد جاری کی جائے۔

تیسری قسم کے باغی وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت و قوت اور جمعیت بھی ہو اور وہ کسی من مانی تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کا یہ خیال ہو کہ حکومت باطل ہے اور کفر و معصیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کی اِس تاویل کے باوجود حکومت کا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر خوارج کا اطلاق ہوتا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور ان کے اَموال کو حلال قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کی عورتوں کو قیدی بناتے اور اَصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرتے تھے۔ ان کا حکم بھی جمہور فقہاء اور اَئمہ حدیث کے ہاں خوارج اور باغیوں کی طرح ہی ہے۔

چوتھی قسم اُن لوگوں کی ہے جنہوں نے حکومت ِوقت کے خلاف مسلح بغاوت تو کی لیکن ان چیزوں کو مباح نہ جانا جنہیں خوارج نے مباح قرار دیا تھا جیسے مسلمان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قیدی بنانا وغیرہ۔ درحقیقت یہی لوگ باغی ہیں۔

2۔ علامہ زین الدین بن نجیم حنفی (م970ھ) ’البحر الرائق‘ میں باغی دہشت گردوں کی تعریف یوں کرتے ہیں:

وَأَمَّا الْبُغَاةُ فَقَوْمٌ مُسْلِمُوْنَ خَرَجُوْا عَلَی الإِْمَامِ الْعَدْلِ، وَلَمْ يَسْتَبِيْحُوْا مَا اسْتَبَاحَهُ الْخَوَارِجُ مِنْ دِمَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ وَسَبْيِ ذَرَارِيْهِمْ.

ابن نجيم، البحر الرائق، 5 : 151

جہاں تک باغیوں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو قانونی طریقے سے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف مسلح ہو کر مقابلے میں نکل آتے ہیں۔ بے شک جس چیز کو خوارج نے حلال قرار دیا ہے یہ اس کو حلال قرار نہ دیتے ہوں مثلاً مسلمان کا خون بہانا اور ان کی اولادوں کو قید کر کے لونڈی یا غلام بنانا۔ سو یہی لوگ باغی (دہشت گرد) کہلاتے ہیں۔

3۔ علامہ ابن عابدین شامی (م1252ھ)نے ’رد المحتار‘ میں بغاوت کی تعریف اس طرح کی ہے:

أَهْلُ الْبَغْيِ: کُلُّ فِئَةٍ لَهُمْ مَنَعَةٌ. يَتَغَلَّبُوْنَ وَيَجْتَمِعُوْنَ وَيُقَاتِلُوْنَ أَهْلَ الْعَدْلِ بِتَأْوِيْلٍ. يَقُوْلُوْنَ: ’الْحَقُّ مَعَنَا.‘ وَيَدَّعُوْنَ الْوِلَايَةَ.

ابن عابدين شامی، رد المحتار، 4 : 262
دسوقي، الحاشية، 4: 261
عينی، البناية شرح الهداية، 5 : 888

باغیوں سے مراد ہر وہ گروہ ہے جس کے پاس مضبوط ٹھکانے اور طاقت ہو اور وہ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو منظم کرکے مسلم ریاستوں کے خلاف (خود ساختہ) تاویل کی بناء پر قتال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں۔ اور پھر وِلایت یعنی حکومت سازی کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اِسلام کسی بھی پُراَمن اِجتماعیت کے خلاف مسلح خروج و بغاوت اور تفرقہ و اِنتشار کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اَمن و سلامتی اور صلح و آشتی کی تلقین کرتا ہے۔ اِسلامی تعلیمات کے مطابق مسلمان وہی شخص ہے جس کے ہاتھوں مسلم و غیر مسلم سب بے گناہ انسانوں کے جان و مال محفوظ رہیں۔ اِنسانی جان کا تقدس اور تحفظ شریعتِ اِسلامی میں بنیادی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی اِنسان کی ناحق جان لینا اور اُسے قتل کرنا فعلِ حرام ہے بلکہ بعض صورتوں میں یہ عمل موجبِ کفر بن جاتا ہے۔ آج کل دہشت گرد ریاستی نظم کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے جس بے دردی سے خودکش حملوں اور بم دھماکوں سے گھروں، بازاروں، عوامی اور حکومتی دفاتر اور مساجد میں بے گناہ مسلمانوں اور پُراَمن غیر مسلموں کی جانیں لے رہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ صریحاً کفر و فساد ہے۔ بغاوت و دہشت گردی فی نفسہِ کافرانہ فعل ہے اور جب اِس میں خود کشی کا حرام عنصر بھی شامل ہو جائے تو اس کی سنگینی میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔

خلاصہ کلام

اِس باب میں ہم نے جہاد کے معنی و مفہوم اور اس کے جامع تصور کے ساتھ ساتھ اس کے غلط اِطلاقات (applications) کا ردّ کیا ہے۔ آئندہ اَبواب میں جہاد کی دو بنیادی اَقسام - جہادِ اَکبر اور جہادِ اَصغر - میں سے پہلی قسم یعنی جہادِ اَکبر پر تفصیل سے بحث کی جائے گی جب کہ جہادِ اَصغر یا جہاد بالسیف (defensive war against aggression) پر شرح و بسط کے ساتھ اِس موضوع پر ہماری الگ ضخیم کتاب میں مکمل تفصیلات درج ہیں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved