حضور نبی اکرم ﷺ کی عظمت اور اختیارات

حضور ﷺ کی تمام اَنبیاء و مرسلین علیھم السلام پر فضیلت کا بیان

بَابٌ فِي تَفْضِيْلِهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی سَائِرِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ

{حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام پر فضیلت کا بیان}

109 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي دَعْوَةٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ وَکَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً وَقَالَ : أَنَا سَيِّدُ الْقَوْمِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُوْنَ بِمَ يَجْمَعُ اﷲُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ فَيُبْصِرُهُمُ النَّاظِرُ وَيُسْمِعُهُمُ الدَّاعِي وَتَدْنُوْ مِنْهُمُ الشَّمْسُ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ : أَلاَ تَرَوْنَ إِلَی مَا أَنْتُمْ فِيْهِ إِلَی مَا بَلَغَکُمْ أَلاَ تَنْظُرُوْنَ إِلَی مَنْ يَشْفَعُ لَکُمْ إِلَی رَبِّکُمْ؟ فَيَقُوْلُ بَعْضُ النَّاسِ : أَبُوْکُمْ آدَمُ فَيَأتُوْنَهُ فَيَقُوْلُوْنَ : يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَکَ اﷲُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيْکَ مِنْ رُوْحِهِ وَأَمَرَ الْمَلاَئِکَةَ فَسَجَدُوْا لَکَ وَأَسْکَنَکَ الْجَنَّةَ أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ أَلاَ تَرَی مَا نَحْنُ فِيْهِ وَمَا بَلَغَنَا؟ فَيَقُوْلُ : رَبِّي غَضِبَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَنَهَانِي عَنِ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُهُ نَفْسِي نَفْسِي اِذْهَبُوْا إِلَی غَيْرِي اِذْهَبُوْا إِلَی نُوْحٍ فَيَأتُوْنَ نُوْحًا فَيَقُوْلُوْنَ : يَا نُوْحُ، أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَی أَهْلِ الْأَرْضِ وَسَمَّاکَ اﷲُ عَبْدًا شَکُوْرًا أَمَا تَرَی إِلَی مَا نَحْنُ فِيْهِ أَلاَ تَرَی إِلَی مَا بَلَغَنَا أَلاَ تَشْفَعُ لَنَا إِلَی رَبِّکَ؟ فَيَقُوْلُ : رَبِّي غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَا يَغْضَبُ بَعْدَهُ مِثْلَهُ نَفْسِي نَفْسِي ائْتُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَيَأتُوْنِي فَأَسْجُدُ تَحْتَ الْعَرْشِ فَيُقَالُ : يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأسَکَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَسَلْ تُعْطَهْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

109 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ تعالی : إنا أرسلنا نوحا إلی قومه، 3 / 1215، الرقم : 3162، وفي کتاب : التفسير، باب : ذرية من حملنا مع نوح إنه کان عبدا شکورا، 4 / 1745، الرقم : 4435، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : أدنی أهل الجنة منزلة فيها، 1 / 184، الرقم : 194، والترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 622، الرقم : 2434، وقال : هذا حديث حسن صحيح، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 435، الرقم : 9621، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 307، الرقم : 31674، وابن منده في الإيمان، 2 / 847، الرقم : 879، وأبو عوانة في المسند، 1 / 147، الرقم : 437، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 379، الرقم : 811، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 239، الرقم : 5510.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دعوت میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بکری کی دستی کا گوشت پیش کیا گیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہت مرغوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے کاٹ کاٹ کر تناول فرمانے لگے اور فرمایا : میں قیامت کے روز تمام انسانوں کا سردار ہوں۔ تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو ایک چٹیل میدان میں جمع کیوں فرمائے گا تاکہ دیکھنے والا سب کو دیکھ سکے اور پکارنے والا اپنی آواز (بیک وقت سب کو) سنا سکے اور سورج ان کے بالکل نزدیک آ جائے گا۔ اس وقت بعض لوگ کہیں گے : کیا تم دیکھتے نہیں کہ کس حال میں ہو، کس مصیبت میں پھنس گئے ہو؟ ایسے شخص کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو تمہارے رب کے حضور تمہاری شفاعت کرے؟ بعض لوگ کہیں گے : تم سب کے باپ تو حضرت آدم علیہ السلام ہیں۔ پس وہ ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے سیدنا آدم! آپ ابو البشر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دستِ قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا اور انہوں نے آپ کو سجدہ کیا اور آپ کو جنت میں سکونت بخشی، کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں؟ ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ وہ فرمائیں گے : میرے رب نے آج ایسا غضب فرمایا ہے کہ نہ ایسا غضب پہلے فرمایا، نہ آئندہ فرمائے گا۔ مجھے اس نے ایک درخت (کا میوہ کھانے) سے منع فرمایا تھا تو مجھ سے اس کے حکم میں لغزش ہوئی لہٰذا مجھے اپنی جان کی فکر ہے، تم کسی دوسرے کے پاس جائو۔ تم حضرت نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ۔ لوگ حضرت نوح علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کریں گے : اے سیدنا نوح! آپ اہلِ زمین کے سب سے پہلے رسول ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ’’عبدًا شکورًا‘‘ (یعنی شکر گزار بندہ) رکھا۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ کیا آپ دیکھتے نہیں ہم کس حال کو پہنچ گئے ہیں؟ کیا آپ اپنے رب کے حضور ہماری شفاعت فرمائیں گے؟ وہ فرمائیں گے : میرے رب نے آج غضب کا وہ اظہار فرمایا ہے کہ نہ پہلے ایسا اظہار فرمایا تھا اور نہ آئندہ ایسا اظہار فرمائے گا۔ مجھے خود اپنی فکر ہے، مجھے اپنی جان کی پڑی ہے۔ (باقی حدیث مختصر کر کے فرمایا : ) سو تم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔ لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں عرش کے نیچے سجدہ کروں گا اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) فرمایا جائے گا : یا محمد! اپنا سر اٹھائیں اور شفاعت کریں آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، مانگیں آپ کو عطا کیا جائے گا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔

110 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

110 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : خَاتَم النبيين صلی الله عليه وآله وسلم ، 3 / 1300، الرقم : 3341.3342، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : ذکر کونه صلی الله عليه وآله وسلم خاتم النبيين، 4 / 1791، الرقم : 2286، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 436، الرقم : 11422، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 398، الرقم : 9156، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 315، الرقم : 6405.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت بند ہو گیا ہے)۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

111 / 3. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الشَّمْسَ تَدْنُوْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّی يَبْلُغَ الْعَرَقُ نِصْفَ الْأُذُنِ، فَبَيْنَاهُمْ کَذَلِکَ اسْتَغَاثُوْا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوْسَی، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

111 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : مَنْ سأل الناس تَکَثُّرًا، 2 / 536، الرقم : 1405، وابن منده فی کتاب الإيمان، 2 / 854، الرقم : 884، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 8 / 30، الرقم : 8725، والبيهقی فی شعب الإيمان، 3 / 269، الرقم : 3509، والديلمی فی مسند الفردوس، 2 / 377، الرقم : 3677، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 10 / 371، ووثّقه.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز سورج لوگوں کے بہت قریب آ جائے گا یہاں تک کہ پسینہ نصف کانوں تک پہنچ جائے گا، لوگ اس حالت میں (پہلے) حضرت آدم علیہ السلام سے مدد مانگنے جائیں گے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے، پھر بالآخر (ہر ایک کے انکار پر) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مدد مانگیں گے۔‘‘

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

112 / 4. عَنْ آدَمَ بْنِ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ يَصِيْرُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ جُثًا، کُلُّ أُمَّةٍ تَتْبَعُ نَبِيَهَا يَقُوْلُوْنَ : يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، يَا فُلاَنُ اشْفَعْ، حَتَّی تَنْتَهِيَ الشَّفَاعَةُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَلِکَ يَوْمَ يَبْعَثُهُ اﷲُ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ. رَوَاهُ الْبُخَارِِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

112 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : عسی أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 381، الرقم : 295، وابن منده فی الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927.

’’حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘

اسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

113 / 5. عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ رضی الله عنه يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ اصْطَفَی کِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيْلَ، وَاصْطَفَی قُرَيْشًا مِنْ کِنَانَةَ، وَاصْطَفَی مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

113 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : فضل نسب النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 / 1782، الرقم : 2276، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : باب : ما جاء فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 583، الرقم : 3605، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 107، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 135، الرقم : 6242، وابن أبي شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31731، والبيهقی فی السنن الکبری، 6 / 365، الرقم : 12852، 3542، وفی شعب الإيمان، 2 / 139، الرقم : 1391، والطبرانی فی المعجم الکبير، 22 / 66، الرقم : 161، وأبو يعلی فی المسند، 13 / 469، الرقم : 7485، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 751، الرقم : 1400.

’’حضرت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اولادِ اسماعیل علیہ السلام سے بنی کنانہ کو اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرفِ انتخاب بخشا اور پسندیدہ قرار دیا۔‘‘

اسے امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

114 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

114 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : تفضيل نبينا صلی الله عليه وآله وسلم علی جميع الخلائق، 4 / 1782، الرقم : 2278، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في التخيير بين الأنبياء عليهم الصلاة والسلام، 4 / 218، الرقم : 4673، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 540، الرقم : 10985، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 257، الرقم : 35849، وابن حبان عن عبد اﷲص في الصحيح، 14 / 398، الرقم : 6478، وأبو يعلی عن عبد اﷲ بن سلامص في المسند، 13 / 480، الرقم : 7493، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 369، الرقم : 792، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 788، الرقم : 1453، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 4، وفي شعب الإيمان، 2 / 179، الرقم : 1486.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں گا، اور سب سے پہلا شخص میں ہوں گا جس کی قبر شق ہو گی، اور سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہوں گا اور سب سے پہلا شخص بھی میں ہی ہوں گا جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔‘‘

اسے امام مسلم، ابوداود، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

115 / 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي الْحِجْرِ، وَقُرَيْشٌ تَسْأَلُنِي عَنْ مَسْرَايَ، فَسَأَلَتْنِي عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لَمْ أُثْبِتْهَا، فَکُرِبْتُ کُرْبَةً مَا کُرِبْتُ مِثْلَهُ قََطُّ، قَالَ : فَرَفَعَهُ اﷲُ لِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ. مَا يَسْأَلُوْنِي عَنْ شَيئٍ إِلَّا أَنْبَأْتُهُمْ بِهِ. وَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي جَمَاعَةٍ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَإِذَا مُوْسَی عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، فَإِذَا رَجُلٌ ضَرْبٌ جَعْدٌ کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْءَ ةَ. وَإِِذَا عِيْسَی ابْنُ مَرْيَمَ عليهما السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَقْرَبُ النَّاسِ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُوْدٍ الثَّقَفِيُّ. وَإِذَا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَائِمٌ يُصَلِّي، أَشْبَهُ النَّاسِ بِهِ صَاحِبُکُمْ (يَعْنِي نَفْسَهُ) فَحَانَتِ الصَّلَاةُ فَأَمَمْتُهُمْ فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنَ الصَّلَاةِ، قَالَ قَائِلٌ : يَا مُحَمَّدُ، هَذَا مَالِکٌ صَاحِبُ النَّارِ فَسَلِّمْ عَلَيْهِ. فَالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَبَدَأَنِي بِالسَّـلَامِ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ.

115 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : الإيمان، باب : ذکر المسيح ابن مريم والمسيح الدجال، 1 / 156، الرقم : 172، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 455، الرقم : 11480، وأبو عوانة فی المسند، 1 / 116 الرقم : 350، وأبو نعيم فی المسند المستخرج، 1 / 239، الرقم : 433، والعسقلانی فی فتح الباری، 6 / 487.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خود کو حطیم کعبہ میں پایا اور قریش مجھ سے سفرِ معراج کے بارے میں سوالات کر رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے بیت المقدس کی کچھ چیزیں پوچھیں جنہیں میں نے (یاد داشت میں) محفوظ نہیں رکھا تھا جس کی وجہ سے میں اتنا پریشان ہوا کہ اس سے پہلے اتنا کبھی پریشان نہیں ہوا تھا، تب اﷲ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ مجھ سے بیت المقدس کے متعلق جو بھی چیز پوچھتے میں (دیکھ دیکھ کر) انہیں بتا دیتا اور میں نے خود کو گروہ انبیائے کرام علیہم السلام میں پایا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے، اور وہ قبیلہ شنوء ہ کے لوگوں کی طرح گھنگریالے بالوں والے تھے اور پھر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور عروہ بن مسعود ثقفی ان سے بہت مشابہ ہیں، اور پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کھڑے مصروفِ صلاۃ تھے اور تمہارے آقا (یعنی خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ان کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہ ہیں پھر نماز کا وقت آیا، اور میں نے ان سب انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کرائی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو مجھے ایک کہنے والے نے کہا : یہ مالک ہیں جو جہنم کے داروغہ ہیں، انہیں سلام کیجئے۔ پس میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے (مجھ سے) پہلے مجھے سلام کیا۔ ‘‘

اسے امام مسلم اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

116 / 8. عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا کَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ کُنْتُ إِمَامَ النَّبِيِّيْنَ، وَخَطِيْبَهُمْ، وَصَاحِبَ شَفَاعَتِهِمْ غَيْرَ فَخْرٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.

116 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 586، الرقم : 3613، وابن ماجه فی السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1443، الرقم : 4314، وأحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 137،138، الرقم : 021283 2129، والحاکم فی المستدرک، 1 / 143، الرقم : 240، 6969، وعبد بن حميد فی المسند، 1 / 90، الرقم : 171، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 3 / 385، الرقم : 1179، والمزي فی تهذيب الکمال، 3 / 118.

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے دن میں انبیاء کرام علیہم السلام کا امام، خطیب اور شفیع ہوں گا اور اس پر (مجھے) فخر نہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

117 / 9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲُ عنهما قَالَ : جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَنْتَظِرُوْنَهُ قَالَ فَخَرَجَ، حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْهُمْ سَمِعَهُمْ يَتَذَاکَرُوْنَ فَسَمِعَ حَدِيْثَهُمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : عَجَبًا إِنَّ اﷲَ عزوجل اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِهِ خَلِيْـلًا، اتَّخَذَ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْـلًا، وَقَالَ آخَرُ : مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَـلَامِ مُوْسَی : کَلَّمَهُ تَکْلِيْمًا، وَقَالَ آخَرُ : فَعِيْسَی کَلِمَةُ اﷲِ وَرُوْحُهُ، وَقَالَ آخَرُ : آدَمُ اصْطَفَاهُ اﷲُ، فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَلَّمَ وَقَالَ : قَدْ سَمِعْتُ کَـلَامَکُمْ وَعَجَبَکُمْ أَنَّ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلُ اﷲِ وَهُوَ کَذَلِکَ وَمُوْسَی نَجِيُّ اﷲِ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَعِيْسَی رُوْحُ اﷲِ وَکَلِمَتُهُ وَهُوَ کَذَلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اﷲُ وَهُوَ کَذَلِکَ، أَ لَا وَأَنَا حَبِيْبُ اﷲِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا حَامِلُ لِوَاءِ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّةِ فَيَفْتَحُ اﷲُ لِي فَيُدْخِلُنِيْهَا وَمَعِيَ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ عَلَی اﷲِ وَلَا فَخْرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ.

117 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 587، الرقم : 3616، والدارمی فی السنن، باب : (8)، ما أُعْطِيَ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم مِن الفضلِ، 1 / 39، 42، الرقم : 47، 54.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے جب ان کے قریب پہنچے تو انہیں کچھ گفتگو کرتے ہوئے سنا۔ اُن میں سے بعض نے کہا : کیا خوب! اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا : یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے سے زیادہ بڑی بات تو نہیں۔ ایک نے کہا : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اﷲ اور روح اللہ ہیں۔ کسی نے کہا : اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے سلام کیا اور فرمایا : میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سنا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں۔ بیشک وہ ایسے ہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں۔ بیشک وہ اسی طرح ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں۔ واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے چن لیا۔ وہ بھی یقینا ایسے ہی (شرف والے) ہیں۔ سن لو! میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا بھی میں ہی ہوں اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ سب سے پہلے جنت کا کنڈا کھٹکھٹانے والا بھی میں ہی ہوں۔ اللہ تعالیٰ میرے لئے اسے کھولے گا اور مجھے اس میں داخل فرمائے گا۔ میرے ساتھ فقیر و غریب مومن ہوں گے اور مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔ میں اولین و آخرین میں اللہ تعالیٰ کے حضور سب سے زیادہ عزت والا ہوں لیکن مجھے اس بات پر کوئی فخر نہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

118 / 10. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَوَّلُهُمْ خُرُوْجًا وَأَنَا قَائِدُهُمْ إِذَا وَفَدُوْا، وَأَنَا خَطِيْبُهُمْ إِذَا أَنْصَتُوْا، وَأَنَا مُشَفِّعُهُمْ إِذَا حُبِسُوْا، وَأَنَا مُبَشِّرُهُمْ إِذَا أَيِسُوْا. اَلْکَرَامَةُ، وَالْمَفَاتِيْحُ يَوْمَئِذٍ بِيَدِي وَأَنَا أَکْرَمُ وَلَدِ آدَمَ عَلَی رَبِّي، يَطُوْفُ عَلَيَّ أَلْفُ خَادِمٍ کَأَنَّهُمْ بَيْضٌ مَکْنُوْنٌ، أَوْ لُؤْلُؤٌ مَنْثُوْرٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

118 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 585، الرقم : 3610، والدارمی فی السنن، (8) باب : ما أعطی النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 39، الرقم : 48، والديلمی فی مسند الفردوس، 1 / 47، الرقم : 117، والخلال فی السنة، 1 / 208، الرقم : 235، والقزوينی فی التدوين فی أخبار قزوين، 1 / 235.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے میں (اپنی قبر انور) سے نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں جب وہ روک دیئے جائیں گے، اور میں ہی انہیں خوشخبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرّم ہوں میرے اردگرد اس روز ہزار خادم پھریں گے گویا کہ وہ پوشیدہ حسن ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘

اسے امام ترمذی اور دارمی نے روایت کیا، الفاظ دارمی کے ہیں۔

119 / 11. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُکُمْ وَلِيُهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

119 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب! چنانچہ وہ حضرت ابوطالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابوطالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

120 / 12. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ : أَبِ مُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ : فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اﷲِ مِنْهُ. قَالَ : فَارْفَضَّ عَرَقًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ يَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

120 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ومن سورة بنی إسرائيل، 5 / 301، الرقم : 3131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 164، الرقم : 12694، وابن حبان فی الصحيح، 1 / 234، وأبو يعلی فی المسند، 5 / 459، الرقم : 3184، وعبد بن حميد فی المسند، 1 / 357، الرقم : 1185، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 7 / 23، الرقم : 2404، والخطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 3 / 435، الرقم : 1574، والعسقلانی فی فتح الباري، 7 / 206.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے کہا : کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سُن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابو یعلی، ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا، نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

121 / 13. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَومَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَبِيَدِي لِوَاءُ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرَ، وَمَا مِنْ نَبِيٍّ يَوْمَئِذٍ آدَمَ فَمَنْ سِوَاهُ إِلَّا تَحْتَ لِوَائِي، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ وَلَا فَخْرَ، قَالَ : فَيَفْزَعُ النَّاسُ ثَـلَاثَ فَزَعَاتٍ فَيَأتُوْنَ آدَمَ … فذکر الحديث إلی أن قَالَ : فَيَأتُوْنَنِي فَأَنْطَلِقُ مَعَهُمْ، قَالَ ابْنُ جُدْعَانَ : قَالَ أَنَسٌ رضی الله عنه : فَکَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فَآخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا فَيُقَالُ : مَنْ هَذَا؟ فَيُقَالُ : مُحَمَّدٌ فَيَفْتَحُوْنَ لِي وَيُرَحِّبُوْنَ بِي فَيَقُوْلُوْنَ : مَرْحَبًا فَأَخِرُّ سَاجِدًا فَيُلْهِمُنِيَ اﷲُ مِنَ الثَّنَاءِ وَالْحَمْدِ فَيُقَالُ لِي : ارْفَعْ رَأسَکَ وَسَلْ تُعْطَ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ وَقُلْ يُسْمَعْ لِقَولِکَ وَهُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُوْدُ الَّذِي قَالَ اﷲُ : {عَسَی أَنْ يَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُوْدًا} الإسراء، 17 : 79. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

122 / 14. وروی ابن ماجه عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ، وَلِوَاءُ الْحَمْدِ بِيَدِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ.

122 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ومن سورة بني إسرائيل، 5 / 308، الرقم : 3148، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1440، الرقم : 4308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 2، الرقم : 11000، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 788، الرقم : 1455، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 238، الرقم : 5509.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں روزِ قیامت (تمام) اولادِ آدم کا قائد ہوں گا اور مجھے (اس پر) فخر نہیں، حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء کرام اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور میں وہ پہلا شخص ہوں گا جس سے زمین شق ہو گی اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگ تین بار خوفزدہ ہوں گے پھر وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کی درخواست کریں گے۔ پھر مکمل حدیث بیان کی یہاں تک کہ فرمایا : پھر لوگ میرے پاس آئیں گے (اور) میں ان کے ساتھ (ان کی شفاعت کے لئے) چلوں گا۔ ابن جدعان (راوی) کہتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : گویا کہ میں اب بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت کے دروازے کی زنجیر کھٹکھٹاؤں گا، پوچھا جائے گا : کون؟ جواب دیا جائے گا : حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ چنانچہ وہ میرے لیے دروازہ کھولیں گے اور مرحبا کہیں گے۔ میں (بارگاہِ الٰہی میں) سجدہ ریز ہو جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی حمد و ثناء کا کچھ حصہ الہام فرمائے گا۔ مجھے کہا جائے گا : سر اٹھائیے، مانگیں عطا کیا جائے گا۔ شفاعت کیجئے، قبول کی جائے گی، اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی۔ (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :) یہی وہ مقام محمود ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’یقینا آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا نیز فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

اور امام ابن ماجہ نے بھی ان سے ہی روایت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں، قیامت کے روز سب سے پہلے میری زمین شق ہو گی اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں، سب سے پہلے میں شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول ہو گی اس پر بھی فخر نہیں اور حمدِ باری تعالیٰ کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہی ہاتھ میں ہو گا اور مجھے اس پر بھی فخر نہیں۔‘‘

123 / 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ فَأُکْسَی حُلَّةً مِنْ حُلَلِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أَقُوْمُ عَنْ يَمِيْنِ الْعَرْشِ لَيْسَ أَحَدٌ مِنَ الْخَلَائِقِ يَقُوْمُ ذَلِکَ الْمَقَامَ غَيْرِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

123 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 585، الرقم : 3611، والمبارکفوری في تحفة الأحوذی، 7 / 92، والمناوي في فيض القدير، 3 / 41.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلا شخص میں ہوں جس کی زمین (یعنی قبر) شق ہو گی، پھر مجھے ہی جنت کے جوڑوں میں سے ایک جوڑا پہنایا جائے گا، پھر میں عرش کی دائیں جانب کھڑا ہوں گا، اس مقام پر مخلوقات میں سے میرے سوا کوئی نہیں کھڑا ہو گا۔‘‘

اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

124 / 16. عَنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ أَبِي وَدَاعَةَ رضی الله عنه قَالَ : جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَکَأَنَّهُ سَمِعَ شَيْئًا‘ فَقَامَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ : مَنْ أَنَا؟ قَالُوْا : أَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَيْکَ السَّلَامُ قَالَ : أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِنَّ اﷲَ خَلَقَ الْخَلْقَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ فِرْقَتَيْنِ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ فِرْقَةً‘ ثُمَّ جَعَلَهُمْ قَبَائِلَ فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ قَبِيْلَةً، ثُمَّ جَعَلَهُمْ بُيُوْتًا فَجَعَلَنِي فِي خَيْرِهِمْ بَيْتًا وَخَيْرِهِمْ نَسَبًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ، وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

124 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : (99)، 5 / 543، الرقم : 3532، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : فی فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 584، الرقم : 3607.3608، وأحمد بن حنبل فی المسند 1 / 210، الرقم : 1788، والبيهقی في دلائل النبوة، 1 / 149، والديلمی فی مسند الفردوس، 1 / 41، الرقم : 95، والحسينی في البيان والتعريف، 1 / 178، الرقم : 466، والهندی فی کنز العمال، 11 / 415، الرقم : 31950.

’’حضرت مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ اس وقت (کافروں سے کچھ ناشائستہ کلمات) سنکر (غصہ کی حالت میں تھے‘ پس واقعہ پر مطلع ہو کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا : میں کون ہوں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : آپ پر سلامتی ہو آپ رسولِ خدا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہوں۔ خدا نے مخلوق کو پیدا کیا تومجھے بہترین خلق (یعنی انسانوں) میں پیدا کیا‘ پھر مخلوق کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا (یعنی عرب و عجم)‘ تو مجھے بہترین طبقہ (یعنی عرب) میں داخل کیا۔ پھر ان کے مختلف قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلہ (یعنی قریش) میں داخل فرمایا‘ پھر ان کے گھرانے بنائے تو مجھے بہترین گھرانہ (یعنی بنو ہاشم) میں داخل کیا اور بہترین نسب والا بنایا، (اس لئے میں ذاتی شرف اور حسب و نسب کے لحاظ سے تمام مخلوق سے افضل ہوں)۔‘‘

اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

125 / 17. عَنْ جَابِرٍص أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

125 : أخرجه الدارمي فی السنن، باب : (8) ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم : 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوی في فيض القدير، 3 / 43.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں رسولوں کا قائد ہوں اور یہ (کہ مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اس پر) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘

اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

126 / 18. عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : نَحْنُ الْآخِرُوْنَ، وَنَحْنُ السَّابِقُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ : إِبْرَاهِيْمُ خَلِيْلُ اﷲِ، وَمُوْسَی صَفِيُّ اﷲِ، وَأَنَا حَبِيْبُ اﷲِ، وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ اﷲَ عزوجل وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي، وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَـلَاثٍ : لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ، وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلَی ضَلاََلةٍ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ.

126 : أخرجه الدارمی فی السنن باب : (8) ما أعطِيَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل،1 / 42، الرقم : 54، والمبارکفوری فی تحفة الأحوذی، 6 / 323.

’’حضرت عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہم آخر میں آنے والے اور قیامت کے دن سب سے سبقت لے جانے والے ہیں۔ میں بغیر کسی فخر کے یہ بات کہتا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور میں حبیب اللہ ہوں۔ قیامت کے دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری امت کے متعلق وعدہ کر رکھا ہے اور تین باتوں سے اسے (امت کو) بچایا ہے۔ ایسا قحط ان پر نہیں آئے گا جو پوری امت کا احاطہ کر لے اور کوئی دشمن اسے جڑ سے نہیں اکھاڑ سکے گا اور (اللہ تعالیٰ) انہیں گمراہی پر جمع نہیں فرمائے گا۔‘‘

اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

127 / 19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : سَيِّدُ الْأَنْبِيَاءِ خَمْسَةٌ، وَمُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم سَيِّدُ الْخَمْسَةِ : نُوْحٌ، وَإِبْرَاهِيْمُ، وَمُوْسَی، وَعِيْسَی صلوات اﷲ وسلامه عليهم. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالدَّيْلَمِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ نَحْوَهُ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ وَإِنْ کَانَ مَوْقُوْفًا عَلَی أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه.

127 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 595، الرقم : 4007، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 177، الرقم : 2884، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 62 / 272.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انبیاء کرام کے سردار پانچ انبیاء کرام علیہم السلام ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پانچوں کے بھی سردار ہیں (اور وہ سردار انبیاءِ کرام یہ ہیں : ) حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم اور دیلمی نے روایت کیا اور ابن عساکر نے اسی سے ملتی جلتی حدیث روایت کی ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اگرچہ یہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔

128 / 20. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : خِيَارُ وَلِدِ آدَمَ خَمْسَةٌ : نُوْحٌ وَإِبْرَاهِيْمُ وَعِيْسَی وَمُوْسَی وَمُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَخَيْرُهُمْ مُحَمَّدٌ صَلَّی اﷲُ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِيْنَ وَسَلَّمَ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ، کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَالْخَلَالُ.

وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

128 : أخرجه البزار في المسند (کشف الأستار)، 8 / 255، برقم : 2368، والخلال في السنة، 1 / 264، الرقم : 324، إسناده حسن، والمناوي في فيض القدير، 3 / 464، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 470، والسيوطي في الدر المنثور، 6 / 570، والآلوسي في روح المعاني، 21 / 154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 255.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : تمام اولادِ آدم میں سے بہتر (یہ) پانچ ہستیاں ہیں : حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان سب میں سے افضل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں جیسا کہ امام ہیثمی اور خلال نے فرمایا ہے اور اس کی اسناد حسن ہیں۔

129 / 21. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} البقرة، 2 : 129، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْنُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.

129 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثقه ابن حبان.

’’حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اوربرگزیدہ) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم علیہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والاہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعیم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔

130 / 22. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ جِبْرِيْلَ عليه السلام قَالَ : قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.

130 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الأوسط، 6 / 237، الرقم : 6285، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 / 752، الرقم : 1402، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 217.

’’ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا : میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘

اسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

131 / 23. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَﷲُ أَکْبَرُ اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.

رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.

131 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم علیہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) آپ نے وحشت محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، أشهد أن لا إله إلا اﷲ دو مرتبہ کہا، أشهد أنّ محمدا رسول اﷲ دو مرتبہ کہا تو حضرت آدم علیہ السلام نے دریافت کیا : محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا : آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔‘‘

اس حدیث کو امام ابونعیم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔

132 / 24. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أَذْنَبَ آدَمُ عليه السلام الذَّنْبَ الَّذِي أَذْنَبَهُ رَفَعَ رَأسَهُ إِلَی الْعَرْشِ فَقَالَ : أَسَأَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَّا غَفَرْتَ لِي فَأَوْحَی اﷲُ إِلَيْهِ : وَمَا مُحَمَّدٌ؟ وَمَنْ مُحَمَّدٌ؟ فَقَالَ : تَبَارَکَ اسْمُکَ، لَمَّا خَلَقْتَنِي رَفَعْتُ رَأسِي إِلَی عَرْشِکَ فَرَأَيْتُ فِيْهِ مَکْتُوْبًا : لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَعْظَمَ عِنْدَکَ قَدْرًا مِمَّنْ جَعَلْتَ اسْمَهُ مَعَ اسْمِکَ، فَأَوْحَی اﷲُ عزوجل إِلَيْهِ : يَا آدَمُ، إِنَّهُ آخِرُ النَّبِيِّيْنَ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَإِنَّ أُمَّتَهُ آخِرُ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَتِکَ، وَلَوْلَاهُ يَا آدَمُ مَا خَلَقْتُکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

132 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 182، الرقم : 992، وفي المعجم الأوسط، 6 / 313، الرقم : 6502، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، والسيوطي في جامع الأحاديث، 11 / 94.

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (یا اﷲ!) اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو میں (تیرے محبوب) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں (کہ تو مجھے معاف فرما دے) تو اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ محمد مصطفی کون ہیں؟ پس حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا : (اے مولا!) تیرا نام پاک ہے جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا وہاں میں نے ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ لکھا ہوا دیکھا لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے پس اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : ’’اے آدم! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل کی آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

133 / 25. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : اتَّخَذَ اﷲُ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْـلًا وَمُوْسَی نَجِيًا وَاتَّخَذَنِي حَبِيْبًا، ثُمَّ قَالَ : وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي لَأُوْثِرَنَّ حَبِيْبِي عَلَی خَلِيْلِي وَنَجِيْبِي.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَالسَّيُوْطِيُّ وَالْهِنْدِيُّ.

133 : أخرجه البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 185، الرقم : 1494، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 422، الرقم : 1716، والسيوطي في الفتح الکبير، 1 / 29، وفي جامع الأحاديث، 1 / 29، الرقم : 169، والهندي في کنز العمال، 1 / 2278، الرقم : 31893، والمناوي في فيض القدير، 1 / 109.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو (اپنا) خلیل بنایا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے ساتھ کلام و سرگوشی کرنے والا بنایا اور مجھے اپنا حبیب بنایا اور پھر (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا : قسم ہے مجھے اپنے عزت و جلال کی! میں ضرور اپنے حبیب کو اپنے خلیل و کلیم پر ترجیح و فوقیت دوں گا۔‘‘

اسے امام بیہقی، دیلمی، سیوطی اور ہندی نے روایت کیا ہے۔

134 / 26. عَنْ أَبِي أَيُوْبَ الْأَنْصَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : نَبِيُنَا خَيْرُ الْأَنْبِيَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِأَسَانِيْدَ، وَأَحَدُهَا حَسَنٌ.

134 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 75، الرقم : 94، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 253، 9 / 166.

’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جملہ انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں۔‘‘

اسے امام طبرانی نے دو اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے ایک حسن ہے۔

135 / 27. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَأَلْتُ رَبِّي مَسْأَلَةً، فَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَسْأَلْهُ، قُلْتُ : يَا رَبِّ، قَدْ کَانَتْ قَبْلِي رُسُلٌ، مِنْهُمْ مَنْ سُخِّرَتْ لَهُمُ الرِّيَاحُ، وَمِنْهُمْ مَنْ کَانَ يُحْيِی الْمَوْتَی، قَالََ : أَلَمْ أَجِدْکَ يَتِيْمًا فَآوَيْتُکَ؟ أَلَمْ أَجِدْکَ ضَالًّا فَهَدَيْتُکَ؟ أَلَمْ أَجِدْکَ عَائِـلًا فَأَغْنَيْتُکَ؟ أَلَمْ أَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ وَوَضَعْتُ عَنْکَ وِزْرَکَ؟ قَالَ : قُلْتُ : بَلَی يَا رَبِّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْمَقْدَسِيُّ.

135 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 455، الرقم : 12289، و في المعجم الأوسط، 4 / 75، الرقم : 3651، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 10 / 287، الرقم : 303، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 254، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 20 / 102، و ابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 526، والسيوطي في جامع الأحاديث، 4 / 462، الرقم : 12808.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے اپنے رب سے سوال کیا پھر میں نے خواہش کی کہ کاش میں نے یہ سوال نہ کیا ہوتا۔ میں نے عرض کیا : الٰہی! بیشک مجھ سے پہلے پیغمبر گزرے جن کے لئے ہوا کو مسخر کیا گیا۔ ان میں سے بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے مُردے زندہ کئے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (اے حبیب!) کیا میں نے آپ کو یکتا نہیں پایا تو اپنے پاس ٹھکانہ دیا کیا میں نے آپ کو اپنی محبت میں وارفتہ و بے خود نہیں پایا تو آپ کی (اپنی ذات کی طرف) رہنمائی کی، کیا میں نے آپ کو (وصالِ حق کا) طالب نہیں پایا تو آپ کو (اپنی لذتِ دیدار سے نوازا کر ہمیشہ کے لئے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ کیا میں نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لئے) کشادہ نہیں فرما دیا اور میں نے آپ کا (غمِ امت کا) بار آپ سے اتار نہیں دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے عرض کیا : ہاں! مالک (تو نے یہ تمام شرف مجھے عطا کئے ہیں)۔‘‘

اسے امام طبرانی اور مقدسی نے روایت کیا ہے۔

136 / 28. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ اﷲَ فَضَّلَ مُحَمَّدًا عَلَی الْأَنْبِيَاءِ وَعَلَی أَهْلِ السَّمَاءِ، فَقَالُوْا : يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، بِمَ فَضَّلَهُ عَلَی أَهْلِ السَّمَاءِ قَالَ : إِنَّ اﷲَ قَالَ لِأَهْلِ السَّمَاءِ : {وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلٰهٌ مِّنْ دُوْنِهِ فذٰلِکَ نَجْزِيْهِ جَهَنَّمَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِيْنَo} الأنبياء، 21 : 29، وَقَالَ اﷲُ عزوجل لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم : {إِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِيْنَا لِّيَغْفِرَ لَکَ اﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ} الفتح، 48 : 1.2، قَالُوْا : فَمَا فَضْلُهُ عَلَی الْأَنْبِيَاءِ؟ قَالَ : قَالَ اﷲُ عزوجل : {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهِ} إبراهيم، 14 : 4، وَقَالَ اﷲُ عزوجل لِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم : {وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا کَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا} سبأ، 34 : 28، فَأَرْسَلَهُ اﷲُ إِلَی الْجِنِّ وَالإِنْسِ.

رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

136 : أخرجه الدارمي في السنن، 1 / 38، الرقم : 46، والحاکم في المستدرک، 2 / 381، الرقم : 3335، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 329، الرقم : 11610، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 173، الرقم : 151، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 3 / 263، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 539.540، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 254.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جملہ انبیاء کرام اور تمام اہل آسمان پر فضیلت بخشی ہے۔ تو لوگوں نے عرض کیا : اے ابن عباس! اﷲ تعالیٰ نے انہیں اہل آسمان پر کیسے فضیلت دی؟ انہوں نے فرمایا : بیشک اﷲ تعالیٰ نے اہل آسمان کے لئے فرمایا : ’’اور ان میں سے کون ہے جو کہہ دے کہ میں اس (اﷲ) کے سوا معبود ہوں سو ہم اسی کو دوزخ کی سزا دیں گے، اسی طرح ہم ظالموں کو سزا دیا کرتے ہیں۔‘‘ اور اﷲ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا : ’’(اے حبیب مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے تاکہ آپ کی خاطر اﷲ تعالیٰ کی امت (کے ان تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انبیاء کرام پر کیا فضیلت ہے؟ انہوں نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ۔‘‘ اور اﷲ تعالیٰ نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فرمایا : ’’اور (اے حبیب مکرم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔‘‘ سو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو تمام جنات و انسانوں کے لئے رسول بنایا۔‘‘

اس حدیث کو امام دارمی، حاکم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے، اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

137 / 33. وَقَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ هَارُوْنُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشَمِيُّ : مَنْ رَدَّ فَضْلَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَهُوَ عِنْدِي زِنْدِيْقٌ لَا يُسْتَتَابُ وَيُقْتَلُ لِأَنَّ اﷲَ عزوجل قَدْ فَضَّلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْأَنْبِيَاءِ عليهم السلام وَقَدْ رُوِيَ عَنِ اﷲِ عزوجل قَالَ : لَا أُذْکَرُ إِلَّا ذُکِرْتَ مَعِي، وَيَرْوِي فِي قَوْلِهِ : {لَعَمْرُکَ}، الحجر، 15 : 72، قَالَ : يَا مُحَمَّدُ، لَوْلَاکَ مَا خَلَقْتُ آدَمَ.

رَوَاهُ ابْنُ يَزِيْدَ الْخَـلَالُ (234.311ه) وَ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

137 : أخرجه ابن الخلال في السنة، 1 / 273، الرقم : 273.

’’حضرت ابو عباس ہارون بن العباس الہاشمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کا انکار کیا میرے نزدیک وہ زندیق ہے اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی اور اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ بے شک اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا فرمائی اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ’’(اے محبوب!) میرا ذکر کبھی آپ کے ذکر کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اور اس فرمانِ الٰہی : (اے حبیب مکرم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قسم!‘‘ کی تفسیر میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد مصطفی! اگر آپ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں آدم علیہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔‘‘

اسے امام یزید بن خلال (234۔ 311ھ) نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved