بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل دنیا میں تصوراتِ تہذیب اور آدابِ معاشرت مکمل طور پر مسخ ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ کفر و الحاد اور ظلم و جہالت کی تاریکی نے عالم انسانیت کو چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ عرب کی حالت دنیا کے دوسرے خطوں سے زیادہ دگرگوں تھی۔ جاہلیت اور نفس پرستی کی وجہ سے ان کی اخلاقی حالت نہایت ناگفتہ بہ تھی۔ شراب نوشی، عورتوں کا عریاں رقص، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینا، لاتعداد بیویاں رکھنا اور والد کے مرنے کے بعد دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ اپنی ماؤں کو بھی آپس میں بانٹ لینا اور بیویاں بنا کر رکھنا یا فروخت کر دینا عام تھا۔ بعض قبیلوں کا پیشہ ہی چوری، لوٹ مار اور قتل و غارت گری تھا۔ (1) جو عورت بیوہ ہو جاتی اسے ایک سال کی عدت گزارنا پڑتی اور اسے نہایت منحوس سمجھا جاتا ایک سال تک اسے غسل اور منہ ہاتھ دھونے کے لئے پانی تک نہ دیا جاتا اور نہ پہننے کے لئے لباس ہی فراہم کیا جاتا۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
حسن إبراهيم حسن، تاريخ الإسلام، 1: 65، 66
کانت امرأة إذا توفی زوجها دخلت حفشا ولبست شر ثيابها ولم تمس الطيب حتی تمر بها سنة.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الطلاق، باب تحد المتوفی عنها زوجها، 5: 2042، رقم: 5024
2. مسلم، الصحيح، کتاب الطلاق، باب وجوب الإحداد، 2: 1124، رقم: 1489
3. نسائی، السنن، کتاب الطلاق، باب ما جاء فی عدة المتوفی، 6: 201، رقم: 3533
4. أبو داود، السنن، کتاب الطلاق، باب إحداد المتوفی، 1: 700، رقم: 2299
‘‘جب کسی عورت کا خاوند مر جاتا تو وہ ایک کوٹھڑی میں داخل ہو جاتی، خراب کپڑے پہن لیتی اور خوشبو کو ہاتھ تک نہ لگاتی یہاں تک کہ سال گزر جاتا۔’’
بے حیائی اس حد تک عام ہو چکی تھی کہ حج کے موقع پر ہزاروں لوگ جمع ہوتے لیکن قریش کے سوا سب مرد اور عورتیں برہنہ حالت میں طواف کرتے۔ حشرات الارض یعنی چھپکلی، بچھو، چھچھوندر، چوہے اور سانپ تک کھا جاتے، یتیموں کامال کھانا اور غریبوں کو ستانا عام تھا۔ معاشی زندگی میں سود کا نظام رائج تھا۔ عورتوں اور بچوں تک کو گروی رکھ دیا جاتا۔ لوگ بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔
دفن البنت وهی حي.
نووی، شرح صحيح مسلم، 10: 17
قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7: 91
‘‘لوگ بچیوں کو زندہ درگور کر دیتے۔’’
ان تمام نقائص و عیوب کے باوجود اہل عرب میں کچھ ایسی خصوصیات بھی تھیں جو آج کے مہذب اور ترقی یافتہ دور میں بھی ہمیں نظر نہیں آتیں مثلا ایفائے عہد حجاز کا عرب نہ کسی کا محکوم تھا اور نہ ہوس ملک گیری رکھتا تھا۔ شروع سے لے کے اس وقت تک کسی غیر نے ان پر حکومت نہیں کی تھی۔ اہل عرب کی مہمان نوازی اپنے اور بیگانوں سب کے لئے عام تھی۔ (1) لیکن ان سب خوبیوں کو ان کی بدکرداری، ظلم وعیاشی نے اپنے ناپاک دامن میں چھپا رکھا تھا کیونکہ بے شمار برائیوں میں چند خوبیاں دب کر رہ جاتی ہیں۔ مزید یہ کہ ان کے نزدیک اچھائی اور برائی میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وہ ہر کام عادتاً کرتے تھے۔ یہی کیفیت ان کی مذہبی دنیا میں بھی تھی۔ مذہبی ذوق کی تسکین کے لئے انہوں نے بت تراش رکھے تھے مگر پرستش کے باوجود وہ اپنے معبودوں کے تابع نہیں تھے۔ (2) جو من میں آتا کر ڈالتے تھے۔ نسلی تفاخر اپنی آخری حدوں کو چھو رہا تھا وہ ہر غیر عرب کو عجم (گونگا) کہا کرتے تھے۔ (3)
(1) حسن ابراهيم حسن، تاريخ الاسلام، 1: 65، 66
(2) حسن إبراهيم حسن، تاريخ الإسلام، 1: 65، 66
(3) حسن إبراهيم حسن، تاريخ الإسلام، 1: 65، 66
الغرض اس وقت پورا عرب ظلم و جہالت اور اندھیر نگری کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ جس وقت اسلام دنیا میں آیا، مشرق و مغرب دونوں جہانوں پر جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ آج ان ممالک میں بسنے والی قومیں اپنے اپنے ثقافتی ماضی کی عظمت کے بارے میں جو کچھ بھی کہیں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ظہور اسلام سے بہت پہلے ان اقوام کی علمی و ثقافتی سرگرمیاں ختم ہو چکی تھیں اور وہ جمود و اضمحلال کی زندگی بسر کر رہی تھیں۔
انسانیت، آمریت اور شہنشاہیت کے ظلم کا شکار تھی۔ شرفِ انسانی کی ہر قدر پامال ہو چکی تھی۔ جزیرہ نمائے عرب ہی نہیں پوری دنیا ظلم و جبر کا منظر پیش کر رہی تھی۔ انسانی حقوق کا ہر تصورحکمرانوں کی انا کی گرد میں گم ہو چکا تھا۔ قبل اَز بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روم اور ایران اپنے وقت کی عالمی طاقت (super powers) کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے وقت کی یہ سپر پاورز تہذیبِ نسلِ انسانی کے ارتقاء کی بجائے چھوٹے اور کمزور ممالک پر غلامی کی سیاہ رات مسلط کر کے ایک غیرفطری احساسِ برتری کے لا علاج مرض میں مبتلا تھیں۔ طبقاتی کشمکش تمام تر قباحتوں کے ساتھ ابن آدم کا مقدر بنی ہوئی تھی۔ سماجی برائیوں کا چنگل ذہنِ انسانی تک محیط ہو چکا تھا۔
تاریخ کا سفر جاری رہا اور سیاسی، سماجی، روحانی اور اقتصادی زنجیروں کی گرفت سے بچنے کی ہر سعی ناکام ہونے لگی۔ ایرانیوں اور رومیوں کے حکمران طبقے پرُآسائش زندگی گزار رہے تھے۔ حکمرانوں کے گرد خوشامدیوں کا ٹولہ جمع ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں اہلِ ہنر بھی ان حکمرانوں کی دہلیز پر کھنچے چلے آ رہے تھے۔ یہ اہلِ کمال بھی اپنا کمال ان حکمرانوں کی پر آسائش زندگیوں کو مزید پر آسائش بنانے کے لئے استعمال کرتے۔ شاہی خزانے سے انعام پاتے اور حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے عشرت کدے سجاتے، عوام کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا۔ حکمران اور محکوم طبقوں کے درمیان نفرت کی ایک وسیع خلیج حائل تھی، ظلم کا بازار گرم تھا اور سلطانی جمہور کے کہیں بھی آثار نظر نہ آتے تھے۔
عیسائی دنیا بھی عجیب فکری اور نظری تضادات کا شکار تھی۔ آسمانی ہدایت تحریفات کی زد میں تھی۔ چوتھی صدی عیسوی میں نصرانی حضرت عیسيٰ علیہ السلام کی تعلیمات سے بہت دور ہو چکے تھے۔ یونانی خرافات سے لے کر رومی بت پرستی تک ہر برائی کو عیسائی دنیا نے اپنے گلے سے لگا رکھا تھا۔ عیسائی مذہب چند بے جان عقائد اور بے کیف مراسم تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔
روم کی مشرقی ریاست میں اجتماعی بد نظمی اپنی انتہاء کو پہنچ چکی تھی۔ مجبور اور مقہور عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا اور بڑے پیمانے پر فسادات شروع ہو چکے تھے۔ اخلاق و کردار کی باتیں قصہ پارینہ بن چکی تھیں۔ ہر چیز پر شیطنت غالب تھی۔
غلامی کے ادارے کو اُمرا نے اپنی ضرورت بنا لیا تھا۔ رومیوں کے اعليٰ طبقات نے زمینوں پر قبضہ جما کر غلاموں کی کثیر تعداد کو کھیتی باڑی پر لگا رکھا تھا۔ ان غلاموں کی اولاد بھی خون پسینہ ایک کر کے زمین کا رزق بنتی رہتی۔ رومی غلاموں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرتے۔ پہلی صدی عیسوی میں رومیوں کی فتوحات کا سلسلہ ختم ہوا تو غلاموں کی آبادی میں بھی کمی واقع ہونے لگی جس کے نتیجہ میں محنت کش افراد کی نفری بھی کم ہوگئی بہت سے جاگیردار جزوی طور پر اپنی زمینیں مزارعوں میں تقسیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ رومی معاشرہ وحشت، درندگی اور بربریت کی علامت بن چکا تھا۔ حاکم اور محکوم کے دو طبقے وجود میں آ چکے تھے۔ ایک طبقہ امراء کا تھا جس کا مقصد عوام پر حکومت کرنا تھا اور دوسرا عوام کا محکوم طبقہ تھا جو نسل در نسل حکمران طبقے کی خدمت بجا لا رہا تھا۔
یورپ میں ابھی تک تہذیب وتمدن اور علم و اخلاق کی صبح نمودار نہیں ہوئی تھی۔ یہ قومیں جہالت و ناخواندگی اور جنگ و جدل میں ڈوبی ہوئی تھیں اور ظلم و جہالت کی تاریکی میں ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں۔ مگر بار بار مصائب و حوادث میں گرنے کے باوجود بھی یہ عقل کے ناخن نہیں لے رہی تھیں دوسری طرف یہ قومیں مہذب اور متمدن معاشرہ سے بالکل الگ تھلگ گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھیں اور ترقی یافتہ تمام قومیں ان سے تقریباً ناآشنا تھیں۔ مشرق و مغرب کے ممالک میں جو انقلاب انگیز واقعات سے تغیرات پیش آ رہے تھے ان سے ان قوموں کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ نہ دینی حوالے سے ان کے پاس کوئی طریق تھا اور نہ سیاسی دنیا میں ان کا کوئی مقام رابرٹ بریفالٹ (Robert Briffault) لکھتا ہے:
‘‘پانچویں صدی سے لے کر دسویں صدی تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ اور یہ تاریکی تدریجاً زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جا رہی تھی اس دور کی وحشت و بربریت زمانہ قدیم کی وحشت و بربریت سے کئی درجہ زیادہ بڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ اس تمدن کے نشانات مٹ رہے تھے اور اس پر زوال کی مہر لگ چکی تھی۔ وہ ممالک جہاں یہ تمدن برگ و بار لایا اور گزشتہ زمانہ میں اپنی انتہائی ترقی کو پہنچ گیا تھا جیسے اٹلی، فرانس وغیرہ میں تباہی، طوائف الملوکی اور ویرانی کا دور دورہ تھا۔’’(1)
(1) Robert Briffault, The Making of Humanity, p. 164.
براعظم ایشیا، یورپ اور افریقہ میں بسنے والے یہودی دنیا کی دیگر تمام اقوام سے اس لحاظ سے ممتاز تھے کہ ان کے پاس آسمانی دین کا بہت زیادہ علم تھا لیکن یہ یہودی دیگر وجوہات کی بنا پر مذہب و سیاست اور تہذیب وتمدن میں وہ مقام نہیں رکھتے تھے کہ دوسروں پر زیادہ اثر انداز ہو سکیں۔ دولت کی ہوس، غرور، تکبر، ہوس پرستی، نسبی تکبر اور قومی غرور کی وجہ سے ان کے اندر مخصوص ذہنیت پیدا ہو گئی تھی۔ جو انہیں عوامی سطح پر آنے سے روکتی تھی۔ راہِ حق سے لوگوں کو منع کرنا ان کی فطرتِ ثانیہ تھی قرآن نے ان کی اخلاقی پستی، مسخ شدہ ذہنیت اور اجتماعی فساد کی بڑی احسن انداز میں نقشہ کشی کی ہے۔
یہودیوں اور عیسائیوں کی باہمی رقابت چھٹی صدی عیسوی کے آخر میں اپنی آخری حدوں کو چھو رہی تھی۔ ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے، خون بہانے اور مفتوح اقوام کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جاتا تھا۔ اس سفاکی، جبر و تشدد اور وحشت و بربریت کے اس ماحول میںجس کا مظاہرہ یہ دونوں مذاہب وقتاً فوقتاً کرتے رہتے تھے ان سے کیا توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ اپنے دورِ حکومت میں انسانیت کے پاسبان ہوں گے اور حق و انصاف اور عدل و مساوات کی اقدار کی پاسداری کریں گے۔
اِسلام کی آمد سے قبل دنیا میں بے شمار تہذیبیں عروج و زوال سے دو چار ہوئیں، لیکن آج چند ایک کے سوا سب اپنا تشخص کھو چکی ہیں۔ ذیل میں بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل کی چند تہذبیوں کا مختصراً ذکر کیا جاتا ہے۔
جنوبی عراق میں شمال کی طرف سے ایک نئی قوم کے لوگ آ کر آباد ہوئے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ دھات کے استعمال کی ترقی یافتہ صنعت اور کمہار کے چاک کی ایجاد لے کر آئے تھے۔ 3000 قبل مسیح سے کچھ عرصہ قبل جنوبی عراق پر اس اجنبی قوم کا قبضہ ہو گیا جو ایک متمدن قوم تھی اور یوں سمیری تہذیب وجود میں آئی۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.27.
اہلِ مصر بھی شاندار تہذیبی روایات کے حامل تھے۔ سمیری تہذیب، مصری تہذیب سے قدیم تھی۔ اہلِ مصر ایک ترقی یافتہ قوم تھے۔ ان کا کلچر سمیری کلچر سے مختلف تھا اور انفرادیت کا حامل تھا۔ مصری قوم میں لیبیا، مغربی ایشیا، سامی، سوڈانی اور توبیائی لوگ بھی شامل تھے اور یوں ایک مخلوط تہذیب وجود میں آئی جو ثقافتی اعتبار سے بھی توانا روایات کی حامل تھی۔ حکمران فرعون کہلاتے اور ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے۔ عوام سے بیگار لی جاتی اور ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جاتا۔ عوام حکمرانوں کے لئے عالی شان عمارتیں تعمیر کرنے اور ان کی ہوسِ ملک گیری کے لئے اپنی جانیں تک قربان کر دیتے۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.68.
حِتِّی آریائی نسل سے تعلق رکھنے والے مختلف قبائل کو کہتے تھے۔ یہ لوگ 3000 قبل مسیح کے وسط تک اپنے اصل وطن بحیرہ کیسپین میں آباد تھے۔ بوجوہ یہ قبائل شام سے ہوتے ہوئے اناطولیہ جا پہنچے۔ وہاں انہوں نے مقامی لوگوں سے ابتدائی اصول و ضوابط سیکھے اور پھر شاہراہ ترقی پر گامزن ہو کر 1600 قبل مسیح انہوں نے ایشیائے کوچک میں ایک منظم اور طاقتور حکومت قائم کی۔ حتی تہذیب سمیری اور مصری تہذیب کے بعد وجود میں آئی اس لئے ان دو بڑی تہذیبوں سے اس نے بھرپور استفادہ کیا۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.29.
فونیقی در اصل سامی النسل لوگ تھے۔ ان کے آباؤ اجداد 2800 قبل مسیح کے قریب خلیج فارس کے علاقے سے ساحل شام کے علاقے میں منتقل ہوئے۔ یہاں انہوں نے شہر آباد کئے جو مختلف دستکاریوں کے مراکز تھے۔ تجارت ان کا واحد ذریعہ معاش تھا۔ یہی تجارت ان کی منفرد تہذیب کی بنیاد بنی۔ انہوں نے لسانی اعتبار سے بھی کمال ترقی کی۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زبان کی تمام آوازوں کو 22 حروف تہجی میں لکھنے کا آغاز کیا۔ ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسپین کے ساحلوں تک رسائی حاصل کی اور رفتہ رفتہ وہاں اپنی نو آبادیاں قائم کر لیں۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.92.
یونان 1600 قبل مسیح ایک نیم وحشی ملک تھا۔ 2000 قبل مسیح آریا نسل کے جو لوگ یونان میں آئے تھے وہ تہذیب سے اتنے ہی نابلد تھے جتنے مقامی لوگ۔ آٹھویں صدی کے وسط سے یونانی قوم میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور ترقی کے آثار نظر آنے لگے۔ سابقہ چار صدیوں کے دور کے یونانی لوگ مشترکہ تہذیب و تمدن کی بعض مخصوص اور منفرد خصوصیات قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ شہری ریاست اگرچہ یونان سے قبل سمیری تہذیب میں معرض وجود میں آ چکی تھی لیکن جتنا انہماک اور شوق یونانیوں نے ظاہر کیا اور شہری ریاستوں کے تصور کو اپنی تہذیب کا حصہ بنا لیا اتنا جوش و خروش خود سمیری تہذیب میں بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ یونانی تہذیب و تمدن کے دو بنیادی رجحان فلسفہ اور سائنس تھے جو بعد میں یورپی اقوام کی مادی ترقی کا باعث بنے۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.52.
تہذیب و تمدن کے ابتدائی مراکز میں سے جنوب مغربی ایران کا علاقہ خاص اہمیت کا حامل تھا۔ خلیج فارس سے ملا ہوا یہ علاقہ قدیم زمانے میں ‘‘علام‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ آثارِ قدیمہ کی دریافتوں سے یہ چیز ثابت ہوچکی ہے کہ سمیری تہذیب کے ابتدائی زمانے سے علام کے مرکزی شہر سوسا میں ایک ترقی یافتہ تمدن موجود تھا۔ ظہورِ اسلام کے وقت ایران ایک طاقتور ملک گردانا جاتا تھا۔ عسکری حوالے سے بھی اور تہذیبی حوالے سے بھی اس لئے ایران کو اس عہد کی سپر پاور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
عرب کے مشرق میں ایران ہمیشہ سے اس بات کا مدعی تھا کہ فلسفہ و حکمت نے وہاں نشو و نما پائی اور بعد میں یونان پہنچے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ازمنہ قدیمہ میں حکمائے یونان ‘‘مغانِ پارس‘‘ ہی سے ریاضت و مجاہدہ کے آداب سیکھنے جاتے تھے۔ مگر ظہورِ اسلام سے کچھ پہلے جہالت کی جو آندھی دنیا میں چل رہی تھی، ایران بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ فارس کا قدیمی علمی وحکمی سرمایہ سکندر لوٹ کر لے گیا تھا۔ ساسانی عہد میں اس نقصان کی تلافی کی کوشش کی گئی مگر وہ علمی اعتبار سے اتنی غیر اہم تھی کہ تاریخ نے اس کی تفصیل یاد رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ ایران کی سیاسی فتوحات اور ملکی عظمت کی جزئیات تک محفوظ ہیں۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.15, 112.
اسلام سے پہلے ایران کی اخلاقی بنیادیں زمانہ دراز سے متزلزل ہو چکی تھیں۔ فکری اور نظری زوال و انحطاط ایرانیوں کی سوچوں پر غالب تھا۔ بہرام نے، جو چھٹی صدی عیسوی میں ایران کا حکمران تھا، اپنی بہن سے ازدواجی تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ چناں چہ ابن جریر طبری رقم طراز ہیں:
وکانت لبهرام أخت يقال لها کردية من أتم النساء وأکملهن وکان تزوجها.
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 1: 465
‘‘شاہ بہرام کی کردیہ نامی ایک بہن تھی جو تمام عورتوں سے بڑھ کر نہایت خوبصورت اور کامل ترین تھی۔ اس نے اس کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کر رکھے تھے۔’’
علامہ شہرستانی لکھتے ہیں:
وکان مزدک ينهی النّاس عن المخالفة والمباغضة والقتال ولما کان أکثر ذلک إنّما يقع بسب النساء والأموال، أحل النساء وأباح الأموال.
شهرستانی، الملل والنحل، 1: 248
‘‘مزدک لوگوں کو آپس کے اختلافات غصہ اور جھگڑوں سے منع کرتا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ سب کچھ عورتوں اور مال و زَر کی وجہ سے ہو رہا ہے تو اس نے عورتوں اور مال و زر کو تمام لوگوں کے لئے حلال قرار دے دیا۔’’
ابن جریر طبری ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
حتّی کانوا يدخلون علی الرجل في داره فيغلبونه علی منزله ونسائه وأمواله لا يستطيع لامتناع منهم.
طبری، تاريخ الامم والملوک1: 419
‘‘یہاں تک کہ وہ کسی بھی آدمی کے گھر میں گھس جاتے تھے اور مال و زن پر قبضہ کر لیتے اور صاحبِ مکان ان کے خلاف کچھ بھی نہ کر سکتا۔’’
عیاش اور بد مست لوگوں نے مزدک کی تحریک کو ابھارا۔ اس تحریک کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل تھی۔
ہندوستان بھی عالمی منظر نامے میں ثقافتی اور تہذیبی سطح پر زوال کا شکار تھا۔ ہندوستان میں ہندومت نے بدھ مت کو اپنے اندر ضم کر لیا اور اپنی جنم بھومی سے بدھ مت کا نام و نشان مٹ گیا۔ بدھ مت پر ہندو مت اس حدتک غالب آ چکا تھا کہ بدھ کے ملک کی صورتحال بھی چنداں قابل رشک نہ تھی۔ مغل، ترک اور جاپانی مشرق اور وسط ایشیاء میں آباد تھے۔ یہ اقوام اپنے عبوری دور میں سے گزر رہی تھیں۔ ان کے پاس نہ کوئی سیاسی نظام تھا اور نہ کوئی علمی روایت۔ یہ لوگ بت پرستی کی طرف مائل تھے۔ ہندوستان اس وقت اگرچہ ایک سیاسی وحدت نہیں تھا بلکہ ان گنت سیاسی اکائیوں میں منقسم تھا۔ تاہم ہندو مت اپنا ایک ثقافتی پس منظر رکھتا تھا۔ اسی ثقافتی توانائی کی بدولت اس نے بدھ مت اور جین مت کو اپنے اندر ضم کر لیا۔ ہندوستان ذات پات کی حد بندیوں میں جکڑا ہوا تھا۔ غیر انسانی بنیادوں پر انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کر دیا گیا۔ برہمن کی حاکمیت قائم کرنے کے لئے ہر ناجائز فعل کو جائز قرار دے دیا گیا تھا اور برہمنی سامراج کی گرفت سماج پر اتنی مضبوط تھی کہ برہمنوں کی مرضی کے بغیر حکمران بھی کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے تھے۔ جنسی خواہشات اور شہوانی جذبات کو ابھارنے والے عناصر جس قدر ہندوستان کے قدیم تہذیب و تمدن میں تھے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائے جاتے تھے۔ منوشاستر کے مطابق کتے، بلی، مینڈک، کوے، الو اور شودر کو مارنے کا کفارہ قرار دیا گیا۔ برہمنی سامراج میں عورت انتہائی کسمپرسی کے دن بسرکر رہی تھی۔ مرنے والے شوہر کے ساتھ اسے بھی جل مرنا ہوتا یا ساری عمر بیوگی کی زندگی بسر کرتی اور اسے سماج کے طعنوں کا ہدف بننا پڑتا۔ سر زمین ہند غیرانسانی روایات کی آماجگاہ بن چکی تھی۔ جہالت اور توہم پرستی نے ذہن انسانی کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.389, 425.
ہندوستان کا علمی و ثقافتی ماضی کتنا ہی تابناک کیوں نہ رہا ہو، مگر ظہورِ اسلام کے زمانے میں جب بدھ مت کے مقابلے میں ‘‘برہمنیت‘‘ کو عروج ہوا تو موخر الذکر کے تعصب و تنگ نظری نے اپنے حریفوں کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ان کی علمی سرگرمیوں کو بھی مٹا ڈالا۔ چنانچہ اگر ان کے علمی و حکمی کارنامے کچھ محفوظ ہیں تو صرف غیر ملکی مثلاً چینی، تبتی یا عرب مصنفین کے یہاں ملتے ہیں۔ شروع میں ان کی طب اور ہیئت کی طرف مسلمانوں نے توجہ کی مگر جلد ہی انہیں اس کی محدودیت کا اندازہ ہو گیا۔ چنانچہ البیرونی نے - جو ہندوؤں کے قدیم علوم کو زندہ رکھنے کے لیے مشہور ہے - ایک مستقل کتاب بہ عنوان إن رأی العرب فی مرا تب العدد أصوب من رأی الند فيها (اس باب میں کہ مراتب اعداد کے بارے میں ہندوؤں کے مقابلے میں عربوں کی رائے زیادہ صحیح ہے)‘ لکھی اور یہ ثابت کیا کہ علم الحساب - جو ہندوؤں کا عظیم کارنامہ ہے - میں بھی عرب فائق ہیں۔
رومی سلطنت اپنے زمانے کی دوسری سپر پاور تھی۔ یہ اپنے وقت میں دنیا کی سب سے بڑی حکومت تھی جو بحیرہ روم کے چاروں طرف تین براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ رومی ایک جاندار اور شاندار تہذیب کے وارث تھے۔ صنعت و حرفت میں بھی رومی اپنی مثال آپ تھے اور صحیح معنوں میں ایک سپر پاور تھے۔ رومی تہذیب یونانی کلچر سے متاثر تھی۔ رومیوں نے مقامی تہذیبوں کے ملاپ سے ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی مگر اخلاقی اور قومی سطح پر رومی تہذیب بتدریج زوال کا شکار تھی۔ گو جزیرہ نمائے عرب کو رومی کسی خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکی دور کے بعد جب ریاست مدینہ کی داغ بیل پڑی اور اسے داخلی اور خارجی استحکام کے بعدجب اس کا سامنا رومی تہذیب سے ہوا تو انجام کار اسلام کو اس پر غلبہ نصیب ہوا۔
Arnold J, Toynbee, A Study of History, Abridgement by D.C. Somervell, 1947, p.118.
ظہور اسلام کے وقت باز نطینی تہذیب ارتقائے نسلِ انسانی کے مختلف نشیب و فراز طے کرنے کے بعد شعوری اور لاشعوری سطح پر اپنے زمینی حوالوں کو مضبوط بنا رہی تھی۔ عسکری، تجارتی اور علمی رابطوں اور واسطوں کو مستحکم بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اسلام جن عظیم ثقافتی اقدار کا امین تھا اس کی کوئی نظیر اس تہذیب میں نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ باز نطینی تہذیب بھی مسلم ثقافت کی فکری توانائی کا مقابلہ نہ کر سکی اگرچہ یورپ کے مقابلے میں ہر لحاظ سے یہ ایک زندہ تہذیب تھی۔ مگر یورپ اس وقت جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبا ہوا تھا البتہ باز نطینی ادب اور فنون لطیفہ کے اثرات مغرب نے بہت کم قبول کئے۔ کیونکہ وہ لاشعوری طور پر مسلم تہذیب و تمدن سے متاثر تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ افلاطون اور ارسطو تک مغرب کی رسائی ان تراجم کے ذریعے ہوئی تھی جو عربی زبان میں ترجمہ کر کے مسلم اسپین کی درسگاہوں میں لائے گئے تھے اور یہ تراجم براہ راست نصرانی دانشوروں کے زیر مطالعہ رہے۔ آئندہ صدیوں میں جو جغرافیائی اور تاریخی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کی بنیاد عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رکھ دی گئی تھی اور دعوتِ حق کا کام علمی سطح پر منظم کرنے کے لئے عملی اقدامات حضور نبی اکرمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارکہ ہی میں کر لئے گئے تھے جو آگے چل کر بہتر نتائج کی صورت میں برآمد ہوئے۔
Dimitri Gutas, Greek Thought-Arabic Culture, The Graeco-Arabic translation movement in Baghdad and early Abbasid society, Routledge, London, 1999, p.185-188.
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved