85 / 1. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: اطَّلَعْتُ فِي الْجَنَّةِ فَرَأَيْتُ أَکْثَرَ أَهْلِهَا الْفُقَرَاءَ …الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، 5 / 2369، الرقم: 6084، وأيضًا في باب صفة الجنة والنار، 5 / 2397، الرقم: 6180، ومسلم في الصحيح،کتاب الذکر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب أکثر أهل الجنة الفقراء وأکثر أهل النار النساء، 4 / 2096، الرقم: 2737، والترمذي في السنن،کتاب صفة جهنم، باب ما جاء أن أکثر أهل النار النساء، 4 / 715، الرقم: 2602، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 398، الرقم: 9259، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 429، 437، 443، الرقم: 19865، 19941، 19996، وابن حبان في الصحيح، 16 / 493، الرقم: 7455، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 305، الرقم: 20610، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 131، الرقم: 275.
’’حضرت عمران بن حُصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے جنت کا مشاہدہ کیا تو میں نے اُس میں اکثریت فقراء کی دیکھی الحدیث۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
86 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِذَا أَمَّ أَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ، فَإِنَّ فِيْهِمُ الصَّغِيْرَ وَالْکَبِيْرَ وَالضَّعِيْفَ وَالْمَرِيْضَ فَإِذَا صَلّٰی وَحْدَه فَلْيُصَلِّ کَيْفَ شَاءَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأذان، باب إذا صلی لنفسه فليطوّل ما شاء، 1 / 248، الرقم: 671، ومسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، 1 / 341، الرقم: 467، والترمذي في السن،کتاب الصلاة، باب ما جاء إذا أم أحدکم الناس فليخفف، 1 / 461، الرقم: 236، والنسائي في السنن،کتاب الإمامة، باب ما علی الإمام من التخفيف، 2 / 94، الرقم: 823، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب في تخفيف الصلاة، 1 / 211، الرقم: 794، ومالک في الموطأ،کتاب صلاة الجماعة، باب العمل في صلاة الجماعة، 1 / 134، الرقم: 301، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 486، الرقم: 10311، وابن حبان في الصحيح، 5 / 56، الرقم: 1760، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 117، الرقم: 5058.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کروائے تو نماز میں تخفیف کرے کیونکہ اُن میں بچے، بوڑھے، کمزور اور بیمار بھی ہو سکتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
87 / 3. عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ الْخُزَاعِيِّ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ کُلُّ ضَعِيْفٍ مُتَضَعَّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللهِ لَأَبَرَّهُ، أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَهْلِ النَّارِ کُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب تفسير القرآن، باب عتل بعد ذلک زنيم، 4 / 1870، الرقم: 4634، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب الکبر، 5 / 2255، الرقم: 5723، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب قول اللہ تعالٰی: وأقسموا باللہ جهد أيمانهم، 6 / 2452، الرقم: 6281، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، 4 / 2190، الرقم: 2853، والترمذي في السنن، کتاب صفة جهنم، باب: (13)، 4 / 717، الرقم: 2605، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب من لا يؤبه له، 2 / 1378، الرقم: 4116، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 497، الرقم: 11615، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 306، الرقم: 18750.
’’حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کیا میں تمہیں اہلِ جنت کی پہچان نہ بتاؤں؟ ہر کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا شخص، (مگر اس کا اللہتعالیٰ کے ہاں یہ مقام ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو اللہ اسے ضرور سچا کر دیتا ہے۔ کیا میں تمہیں دوزخیوں کی پہچان نہ بتادوں؟ ہر سخت مزاج، جھگڑالو اور مغرور شخص۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
88 / 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: تَحَاجَّتِ النَّارُ وَالْجَنَّةُ، فَقَالَتِ النَّارُ: أُوْثِرْتُ بِالْمُتَکَبِّرِيْنَ وَالْمُتَجَبِّرِيْنَ وَقَالَتِ الْجَنَّةُ: فَمَا لِي لَا يَدْخُلُنِي إِلَّا ضُعَفَاءُ النَّاسِ وَسَقَطُهُمْ وَعَجَزُهُمْ، فَقَالَ اللهُ لِلْجَنَّةِ: أَنْتِ رَحْمَتِي أَرْحَمُ بِکِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَقَالَ لِلنَّارِ: أَنْتِ عَذَابِي أُعَذِّبُ بِکِ مَنْ أَشَاءُ مِنْ عِبَادِي، وَلِکُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْکُمْ مِلْؤُهَا … الحديث.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب التفسير، باب قوله: هل من مزيد، 4 / 1836، الرقم: 4569، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنة وصفة نعيمها وأهلها، باب النار يدخلها الجبارون والجنة يدخلها الضعفاء، 4 / 2186، الرقم: 2846، والترمذي في السنن، کتاب صفة الجنة، باب ما جاء في احتجاج الجنة والنار، 4 / 694، الرقم: 2561، وعبد الرزاق في المصنف، 11 / 422، الرقم: 20893، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 450، الرقم: 9815، وأبو يعلی في المسند، 11 / 179، 180، الرقم: 6290، وأبو عوانة في المسند، 1 / 160، الرقم: 464.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضو رنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایک مرتبہ) دوزخ اور جنت میں مباحثہ ہوا، دوزخ نے کہا: مجھے جباروں اور متکبروں کی وجہ سے فضیلت دی گئی ہے، جنت نے کہا: مجھے کیا ہوا ہے کہ مجھ میں تو صرف ضعیف، لاچار اور عاجز لوگ ہی داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تم میری رحمت ہو، میں اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے رحمت کروں گا اور دوزخ سے فرمایا: تم میرا عذاب ہو، میں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا تمہارے ذریعہ سے عذاب دوں گا اور تم میں سے ہر ایک کے لیے بھرنا لازم ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
89 / 5. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ، فَقَالُوْا: يَا نَبِيَّ اللهِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: يَعْمَلُ بِيَدِه فَيَنْفَعُ نَفْسَه وَيَتَصَدَّقُ، قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: يُعِيْنُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوْفَ، قَالُوْا: فَإِنْ لَمْ يَجِدْ؟ قَالَ: فَلْيَعْمَلْ بِالْمَعْرُوْفِ وَلْيُمْسِکْ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهَا لَه صَدَقَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الزکاة، باب علی کل مسلم صدقة، 2 / 524، الرقم: 1376، ومسلم في الصحيح،کتاب الزکاة، باب بيان أن اسم الصدقة يقع کل نوع من المعروف، 6 / 699، الرقم: 1008، والنسائي في السنن،کتاب الزکاة، باب صدقة العبد، 5 / 64، الرقم: 2538، والدارمي في السنن، 2 / 399، الرقم: 2747، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 395، الرقم: 19549، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 336، الرقم: 26649، والبزار في المسند، 8 / 102، الرقم: 3100، والطيالسي في المسند، 1 / 67، الرقم: 495.
’’حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر مسلمان پر صدقہ دینا لازم ہے۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا نبی اللہ! جس میں طاقت نہ ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ ہاتھ سے کام کرے خود بھی نفع حاصل کرے اور صدقہ بھی دے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر مظلوم حاجت مند کی مدد کرے۔ انہوں نے عرض کیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی کے کام کرے اور برے کاموں سے رُکا رہے، اُس کے لیے یہی صدقہ ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
90 / 6. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا فَفَقَدَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ فَقَالُوْا: مَاتَ قَالَ: أَفَـلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي قَالَ: فَکَأَنَّهُمْ صَغَّرُوْا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَه فَقَالَ: دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِه فَدَلُّوْهُ، فَصَلّٰی عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْئَةٌ ظُلْمَةً عَلٰی أَهْلِهَا وَإِنَّ اللهَ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب کنس المسجد، 1 / 175.176، الرقم: 446، 448، وأيضًا فيکتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، 1 / 448، الرقم: 2172، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2 / 659، الرقم: 956، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 3 / 211، الرقم: 3203، وابن ماجه في السنن،کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 / 489، الرقم: 1527.1529، والنسائي في السنن الکبری، 1 / 651، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 388، الرقم: 9025، وأبويعلی في المسند، 11 / 314، الرقم: 6429، وابن حبان في الصحيح، 7 / 355، الرقم: 3086، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 46.47، الرقم: 6802.6806.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پھر (کچھ دن) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے موجود نہ پایا، تو اُس کے متعلق دریافت فرمایا: صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے بتایاکیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اُس کی قبر کے بارے میں بتاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا: یہ قبریں ان قبر والوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی تاریک قبور میں) روشنی فرما دے گا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
91 / 7. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ رضي الله عنه أَنَّه قَالَ: اشْتَکَتِ امْرَأَةٌ بِالْعَوْالِي مِسْکِيْنَةٌ، فَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْأَلُهُمْ عَنْهَا، وَقَالَ: إِنْ مَاتَتْ فَـلَا تَدْفِنُوْهَا حَتّٰی أُصَلِّيَ عَلَيْهَا، فَتُوُفِّيَتْ فَجَاؤا بِهَا إِلَی الْمَدِيْنَةِ بَعْدَ الْعَتَمَةِ، فَوَجَدُوْا رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ نَامَ فَکَرِهُوْا أَنْ يُوْقِظُوْهُ فَصَلَّوْا عَلَيْهَا وَدَفَنُوْهَا بِبَقِيْعِ الْغَرْقَدِ فَلَمَّا أَصْبَحَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم جَاؤا فَسَأَلَهُمْ عَنْهَا، فَقَالُوْا: قَدْ دُفِنَتْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَقَدْ جِئْنَاکَ فَوَجَدْنَاکَ نَائِمًا فَکَرِهْنَا أَنْ نُوْقِظَکَ، قَالَ: فَانْطَلِقُوْا، فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَشَوْا مَعَه، حَتّٰی أَرَوْهُ قَبْرَهَا، فَقَامَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَصَفُّوْا وَرَائَه فَصَلّٰی عَلَيْهَا وَکَبَّرَ أَرْبَعًا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَمَالِکٌ وَالشَّافِعِيُّ.
7: أخرجه النسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی الجنازة بالليل، 4 / 69، الرقم: 1969، وأيضًا في باب الإذن بالجنازة، 4 / 40، الرقم: 1907، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 623، الرقم: 2034، ومالک في الموطأ، کتاب الجنائز، باب التکبير علی الجنائز، 1 / 227، الرقم: 533، والشافعي في المسند، 1 / 358، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 476، الرقم: 11223، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 35، الرقم: 6727، والروياني في المسند، 2 / 294، الرقم: 1238.
’’حضرت ابو امامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اطرافِ مدینہ کے گاؤں میں سے ایک عورت بیمار ہوئی جو مفلس اور نادار تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے اُس کا حال دریافت فرماتے رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ فوت ہو جائے تو میرے نماز جنازہ پڑھائے بغیر اُسے دفن نہ کرنا۔ وہ فوت ہو گئی تو لوگ عشاء کے بعد اُسے مدینہ منورہ لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محوِ استراحت پایا۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اُس کی نماز جنازہ پڑھ کر اُسے جنت البقیع میں دفن کر دیا۔ صبح جب صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس عورت کا حال دریافت فرمایا۔ اُنہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اُسے تو دفن کر دیا گیا ہے۔ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے لیکن آپ استراحت فرما تھے۔ ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ (قبرستان) تشریف لے گئے۔ حتیٰ کہ اُنہوں نے اُس غریب عورت کی قبر کی نشاندہی کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف بنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی اور چار تکبیریں ارشاد فرمائیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، مالک اور شافعی نے روایت کیا ہے۔
92 / 8. عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: رَأَی سَعْدٌ رضي الله عنه أَنَّ لَه فَضْلًا عَلٰی مَنْ دُوْنَه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَلْ تُنْصَرُوْنَ وَتُرْزَقُوْنَ إِلَّا بِضُعَفَائِکُمْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
وفي رواية للنسائي: فَقَالَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّمَا يَنْصُرُ اللهُ هٰذِهِ الْأُمَّةَ بِضَعِيْفِهَا بِدَعْوَتِهِمْ وَصَلَاتِهِمْ وَإِخْـلَاصِهِمْ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجهاد، باب من استعان بالضعفاء والصالحين في الحرب، 3 / 1061، الرقم: 2739، والنسائي في السنن، کتاب الجهاد، باب الاستنصار بالضعيف، 6 / 45، الرقم: 3178، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 30، الرقم: 4387، والشاشي في المسند، 1 / 132، الرقم: 70، والدورقي في مسند سعد / 105، الرقم: 51، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 345، الرقم: 6181، 6 / 331، الرقم: 12684، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 71، الرقم: 4842.
’’حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ اُنہیں اُن لوگوں پر فضیلت ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یاد رکھو تمہارے کمزور اور ضعیف لوگوں کے وسیلہ سے ہی تمہیں نصرت عطا کی جاتی ہے اور اُن کے وسیلہ سے ہی تمہیں رزق دیا جاتا ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
امام نسائی کی روایت میں ہے: ’’(حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے اِس گمان پر) حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ اِس اُمت کی مدد اِس کے ناتواں اور کمزور افراد کی دعاوں، نمازوں اور اخلاص کی بدولت کرتا ہے۔‘‘
93 / 9. عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه قَالَ سَمِعْتُ النَّبيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: ابْغُوْنِي فِي ضُعَفَائِکُمْ، فَإِنَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَتُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَائِکُمْ.
رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
9: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الجهاد، باب ما جاء في الاستفتاح بصعاليک المسلمين، 4 / 206، الرقم: 1702، وأبو داود في السنن،کتاب الجهاد، باب في الانتصار برزل الخيل والضعفة، 3 / 32، الرقم: 2594، والنسائي في السنن،کتاب الجهاد، باب الاستنصار بالضعيف، 6 / 45، الرقم: 3179، وأيضًا في السنن الکبری، 3 / 30، الرقم: 4388، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 198، الرقم: 21779، وابن حبان في الصحيح، 11 / 85، الرقم: 4767، والحاکم في المستدرک، 2 / 116، 157، الرقم: 2509، 2641.
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو بے شک تمہیں اپنے کمزور لوگوں کی وجہ سے ہی رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے جبکہ امام حاکم نے بھی اِسے صحیح الاسناد کہا ہے۔
94 / 10. عَنْ ثَوْبَانَ رضي الله عنه، مَوْلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: کُنْتُ قَائِمًا عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَاءَ حَبْرٌ مِنْ أَحْبَارِ الْيَهُوْدِ…فَقَالَ: أَيْنَ يَکُوْنُ النَّاسُ {يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ} [إبراهيم، 14: 48] فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : هُمْ فِي الظُّلْمَةِ دُوْنَ الْجَسْرِ، قَالَ: فَمَنْ أَوَّلُ النَّاسِ إِجَازَةً؟ قَالَ: فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِيْنَ…الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ.
10: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الحيض، باب صفة مني الرجل والمرأة، 1 / 252، الرقم: 315، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 116، الرقم: 232، وابن حبان في الصحيح، 16 / 440، 441، الرقم: 7422، والحاکم في المستدرک، 3 / 548، الرقم: 6039، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 149، الرقم: 467، وأيضًا في المعجم الکبير، 2 / 93، الرقم: 1414، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 169، الرقم: 769.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑا تھا کہ علماء یہود میں سے ایک عالم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ’’جس دن (یہ) زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور جملہ آسمان بھی بدل دیے جائیں گے۔‘‘ اُس وقت لوگ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اندھیرے میں پل صراط کے قریب ہوں گے۔ اُس نے عرض کیا: سب سے پہلے پل صراط سے گزرنے کی اجازت کن لوگوں کو ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فقراء و مہاجرین کو۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
95 / 11. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه أَنَّه قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَه جَالِسٍ: مَا رَأْيُکَ فِي هٰذَا؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِ النَّاسِ هٰذَا وَاللهِ حَرِيٌّ إِنْ خَطَبَ أَنْ يُنْکَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ يُشَفَّعَ، قَالَ: فَسَکَتَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ آخَرُ فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا رَأْيُکَ فِي هٰذَا؟ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هٰذَا رَجُلٌ مِنْ فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ هٰذَا حَرِيٌّ، إِنْ خَطَبَ أَنْ لَا يُنْکَحَ، وَإِنْ شَفَعَ أَنْ لَا يُشَفَّعَ، وَإِنْ قَالَ أَنْ لَا يُسْمَعَ لِقَوْلِه، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : هٰذَا خَيْرٌ مِنْ مِلْئِ الْأَرْضِ مِثْلَ هٰذَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، 5 / 2369، الرقم: 6082، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب فضل الفقراء، 2 / 1379، الرقم: 4120، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 169، الرقم: 5883، والروياني في المسند، 2 / 188، 189، الرقم: 1016، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 330، الرقم: 10481.
’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب سے ایک آدمی گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا: اِس کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے عرض کیا: یہ تو نیک آدمیوں میں سے ہے اور خدا کی قسم! اِس قابل ہے کہ نکاح کا پیغام بھیجے تو قبول کیا جائے اور سفارش کرے تو منظور ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے، پھر ایک دوسرا آدمی گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پاس بیٹھے شخص سے پوچھا: اِس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو مفلس مسلمانوں میں سے ہے۔ اگر کہیں نکاح کا پیغام بھیجے تو کوئی قبول نہ کرے اور سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ کی جائے اور اگر بات کرے تو کوئی اس کی بات نہ سنے۔ اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (ایک مفلس شخص) اس (امیر شخص جیسوں) سے بھری دنیا سے بھی بہتر ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
96 / 12. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُسْلِمِيْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ أَغْنِيَائِهِمْ بِنِصْفِ يَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
12: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الزهد، باب ما جاء أن فقراء المهاجرين يدخلون الجنة قبل أغنيائهم، 4 / 578، الرقم: 2354، وابن ماجه في السنن، کتاب الزهد، باب منزلة الفقرائ، 2 / 1380، الرقم: 4122، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 412، الرقم: 11348، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 343، الرقم: 8502، وابن حبان في الصحيح، 2 / 451، الرقم: 676، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 86، الرقم: 34392.
’’حضرت ابو ہريرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: غریب مسلمان، دولت مندوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ عرصہ پانچ سو سال (پر مشتمل) ہے۔‘‘
اِسے امام ترمذی، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
97 / 13. عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضي الله عنه، قَالَ: أَوْصَانِي (وفي رواية: أَمَرَنِي) خَلِيْلِي صلی الله عليه وآله وسلم بِخِصَالٍ مِنَ الْخَيْرِ، أَوْصَانِي بِأَنْ لَا أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ فَوْقِي وَأَنْ أَنْظُرَ إِلٰی مَنْ هُوَ دُوْنِي وَأَوْصَانِي بِحُبِّ الْمَسَاکِيْنِ وَالدُّنُوِّ مِنْهُمْ وَأَوْصَانِي أَنْ أَصِلَ رَحِمِي وَإِنْ أَدْبَرَتْ، وَأَوْصَانِي أَنْ لَا أَخَافُ فِي اللهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ، وَأَوْصَانِي أَنْ أَقُوْلَ الْحَقَّ وَإِنْ کَانَ مُرًّا، وَأَوْصَانِي أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ فَإِنَّهَا کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ الْجَنَّةِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
13: أخرجه ابن حبان في الصحيح،کتاب البر والإحسان، باب صلة الرحم وقطعها، ذکر وصية المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم بصلة الرحم وإن قطعت، 2 / 194، الرقم: 449، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 159، الرقم: 21453، والبزار في المسند، 9 / 383، الرقم: 3966، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 48، الرقم: 758، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 91، الرقم: 19973، وأيضًا في شعب الإيمان، 3 / 240، الرقم: 3429، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 228، 229، الرقم: 3802، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 500، الرقم: 2041.
’’حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے خلیل (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے مجھے اچھی خصلتوں کی وصیت فرمائی (ایک روایت میں ہے: مجھے حکم فرمایا:) میں (دنیاوی حوالہ سے) اپنے سے اوپر والے کی طرف نہ دیکھوں بلکہ اپنے سے نیچے والے کی طرف دیکھوں، مجھے مساکین سے محبت رکھنے اور ان کے قریب رہنے کی وصیت فرمائی۔ اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں صلہ رحمی کروں اگرچہ وہ (رشتہ دار) مجھ سے منہ پھیر لیں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں اللہتعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈروں، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں حق بات کہوں خواہ وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو، اور مجھے وصیت فرمائی کہ میں ’’لا حول ولا قوة إلا بالله‘‘ کے ذکر کی کثرت کروں کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن حبان، احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
98 / 14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا الْفُقَرَاءَ وَجَالِسُوْهُمْ…الحديث.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ. وَقَالَ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
14: أخرجه الحاکم في المستدرک، 4 / 368، الرقم: 7947، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 / 67، الرقم: 4827.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فقراء سے محبت کرو اور اُن کی مجلس اختیار کرو۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور فرمایا: اس کی سند صحیح ہے۔
99 / 15. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَ: جَاءَ ثَـلَاثَةُ نَفَرٍ إِلٰی عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضي الله عنهما وَأَنَا عِنْدَه فَقَالُوْا: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّا وَاللهِ مَا نَقْدِرُ عَلٰی شَيئٍ لَا نَفَقَةٍ وَلَا دَابَّةٍ وَلَا مَتَاعٍ، فَقَالَ لَهُمْ: مَا شِئْتُمْ، إِنْ شِئْتُمْ رَجَعْتُمْ إِلَيْنَا فَأَعْطَيْنَاکُمْ مَا يَسَّرَ اللهُ لَکُمْ، وَإِنْ شِئْتُمْ ذَکَرْنَا أَمْرَکُمْ لِلسُّلْطَانِ، وَإِنْ شِئْتُمْ صَبَرْتُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: إِنَّ فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِيْنَ يَسْبِقُوْنَ الْأَغْنِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَی الْجَنَّةِ بِأَرْبَعِيْنَ خَرِيْفًا قَالُوْا: فَإِنَّا نَصْبِرُ لَا نَسْأَلُ شَيْئًا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
15: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الزهد والرقائق، 4 / 2285، الرقم: 2979، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 300-301، 336، الرقم: 10379، 10381، 10493.
’’حضرت ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما کے پاس تھا، اُن کے پاس تین شخص حاضر ہوئے، اُنہوں نے عرض کیا: اے ابو محمد! بخدا ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہے، خرچ، سواری، نہ سامان، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے اُن سے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو؟ اگر تم پسند کرو تو ہمارے پاس آ جاؤ، ہم تمہیں وہ سب دیں گے جو اللہ تمہارے لئے میسر کرے گا اور اگر تم چاہو تو ہم تمہارا معاملہ سلطان سے کہیں اور اگر تم چاہو تو صبر کر لو، کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فقراء مہاجرین قیامت کے دن جنت میں امیروں سے چالیس سال پہلے جائیں گے۔ اِس پر اُنہوں نے کہا: ہم صبر کریں گے اور کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے۔‘‘
اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
100 / 16. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّه کَانَ يَقُوْلُ: بِئْسَ الطَّعَامُ طَعَامُ الْوَلِيْمَةِ يُدْعَی إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ وَيُتْرَکُ الْمَسَاکِيْنُ، فَمَنْ لَمْ يَأْتِ الدَّعْوَةَ فَقَدْ عَصَی اللهَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وفي رواية للبخاري: وَيُتْرَکَ الْفُقَرَاءُ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب النکاح، باب من ترک الدعوة فقد عصی اللہ ورسوله صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 1985، الرقم: 4882، ومسلم في الصحيح، کتاب النکاح، باب الأمر بإجابة الداعي إلی دعوة، 2 / 1054، الرقم: 1432، وأبو داود في السنن،کتاب الأطعمة، باب ما جاء في إجابة الدعوة، 3 / 341، الرقم: 3742، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب إجابة الداعي، 1 / 616، الرقم: 1913، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 141، الرقم: 6613، والدارمي في السنن، 2 / 143، الرقم: 2066، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 405، الرقم: 9250، وابن حبان في الصحيح، 12 / 116، الرقم: 5304.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اُس دعوت ولیمہ کا کھانا بہت برا ہے جس میں امیروں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے اور جو شخص (کسی کے بلانے پر بلا کسی عذر کے اس کی) دعوت میں نہیں گیا تو اُس نے اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
امام بخاری کی ایک روایت میں ہے: ’’(وہ دعوتِ ولیمہ جس میں امیروں کو بلایا جائے) اور فقراء کو چھوڑ دیا جائے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved