53 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَبَّلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ رضي الله عنهما وَعِنْدَهُ الاَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيْمِيُّ جَالِسًا، فَقَالَ الْأَقْرَعُ: إِنَّ لِي عَشَرَةً مِنَ الْوَلَدِ مَا قَبَّلْتُ مِنْهُمْ أَحَدًا فَنَظَرَ إِلَيْهِ رَسُوْلُ الله صلی الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ قَالَ: مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرْحَمُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5651، وأيضًا في الأدب المفرد / 46، الرقم: 91، 99، ومسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2318، وابن حبان في الصحيح،2 / 202، الرقم: 457، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 241، الرقم: 7287، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 100، الرقم: 13354، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 142، الرقم: 3419.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میں نے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
54 / 2. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَدِمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: أَتُقَبِّلُوْنَ صِبْيَانَکُمْ؟ فَقَالُوْا: نَعَمْ، فَقَالُوْا: لٰـکِنَّا، وَاللهِ، مَا نُقَبِّلُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَأَمْلِکُ إِنْ کَانَ اللهُ نَزَعَ مِنْکُمُ الرَّحْمَةَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2235، الرقم: 5652، وأيضًا في الأدب المفرد / 48، الرقم: 98، ومسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2317، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب بر الوالد والإحسان إلی البنات، 2 / 1209، الرقم: 3665، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 56، الرقم: 24336، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 466، الرقم: 11013.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ دیہاتی لوگ آئے، اور اُنہوں نے پوچھا: (یا رسول اللہ!) کیا آپ اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اُنہوں نے کہا: بخدا ہم تو اپنے بچوں کو بوسہ نہیں دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل سے رحمت نکال لی ہے تو میں اُس کا مالک تو نہیں ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
55 / 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا کَانَ أَرْحَمَ بِالْعِيَالِ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ: کَانَ إِبْرَاهِيْمُ مُسْتَرْضِعًا لَه فِي عَوَالِي الْمَدِيْنَةِ، فَکَانَ يَنْطَلِقُ وَنَحْنُ مَعَه، فَيَدْخُلُ الْبَيْتَ وَإِنَّه لَيُدَّخَنُ وَکَانَ ظِئْرُه قَيْنًا، فَيَأْخُذُه، فَيُقَبِّلُه، ثُمَّ يَرْجِعُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
وفي رواية أبي يعلی: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم أَرْحَمَ بِالصِّبْيَانِ.
وَإِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : إنا بک لمحزونون، 1 / 439، الرقم: 1241، ومسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمته الصبيان والعيال وتواضعه وفضل ذلک، 4 / 1808، الرقم: 2316، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 112، الرقم: 12123، وأبو يعلی في المسند، 7 / 205، 206، الرقم: 4195، 4197، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 465، الرقم: 11011، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 136، 137.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنی اولاد پر شفیق نہیں دیکھا، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے) حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ مدینہ کی بالائی بستی میں بغرضِ رضاعت قیام پذیر تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف لے جاتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کے اندر تشریف لے جاتے درآں حالیکہ وہاں دھواں ہوتا کیونکہ اُس دایہ کا خاوند لوہار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں گود میں اُٹھاتے، بوسہ دیتے اور پھر لوٹ آتے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
اور ابو یعلی کی روایت میں ہے: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ بچوں پر شفقت فرمانے والے تھے۔‘‘ اِس کی اسناد صحیح ہے۔
56 / 4. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيْعِ فَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا وَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب إذا حمل جارية صغيرة علی عنقه في الصلاة، 1 / 193، الرقم: 494، ومسلم في الصحيح،کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب جواز حمل الصبيان في الصلاة، 1 / 385، الرقم: 543، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب العمل في الصلاة، 1 / 241، الرقم: 917، والنسائي في السنن،کتاب الصلاة، باب حمل الصبايا في الصلاة ووضعهن في الصلاة، 3 / 10، الرقم: 1204، ومالک في الموطأ،1 / 170، الرقم: 410، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 383، الرقم: 783.784.
’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (امامت کراتے ہوئے) حالتِ نماز میں حضرت اُمامہ بنتِ زینب بنتِ رسول اللہ اور ابو العاص بن ربیع کی بیٹی یعنی اپنی نواسی کو اُٹھائے ہوئے تھے، سو جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرماتے تو اُسے اُٹھا لیتے اور جب سجدہ فرماتے تو اُسے نیچے اُتار دیتے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
57 / 5. عَنِ الْبَرَاءِ رضي الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما عَلٰی عَاتِقِه يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُ فَأَحِبَّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما، 3 / 1370، الرقم: 3539، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل الحسن والحسين رضي الله عنهما، 4 / 1883، الرقم: 2422، والترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين رضي الله عنهما، 5 / 661، الرقم: 3783، وابن حبان في الصحيح، 15 / 416، الرقم: 6962، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 380، الرقم: 32192، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 31، الرقم: 2582، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 768، الرقم: 1353.
’’حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھے پر اُٹھایا ہوا تھا اور فرما رہے تھے: اے اللہ! میں اِس سے محبت رکھتا ہوں، تو بھی اِس سے محبت فرما۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
58 / 6. عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ رضي الله عنها أَنَّهَا أَتَتْ بِابْنٍ لَهَا صَغِيْرٍ لَمْ يَأْکُلِ الطَّعَامَ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَجْلَسَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حَجْرِه فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِه فَدَعَا بِمَاءٍ فَنَضَحَه وَلَمْ يَغْسِلْه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الطهارة، باب حکم بول الصبيان، 1 / 90، الرقم: 221، ومسلم في الصحيح،کتاب الطهارة، باب حکم بول الطفل الرضيع وکيفية غسله، 1 / 237، الرقم: 286، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب بول الصبي يصيب الثوب،1 / 102، الرقم: 374، والنسائي في السنن،کتاب الطهارة، باب بول الصبي الذي لم يأکل الطعام، 1 / 157، الرقم: 302، ومالک في الموطأ،کتاب الطهارة، باب ما جاء في بول الصبي،1 / 64، الرقم: 141، والطبراني في المعجم الکبير، 25 / 178، الرقم: 437، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 92.
’’حضرت اُم قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ اپنے ایک چھوٹے بچے کو لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوا کر اُس پر چھڑک دیا اور اُسے نہ دھویا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
59 / 7. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُؤْتَی بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُوْ لَهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ فَبَالَ عَلٰی ثَوْبِه فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَاه وَلَمْ يَغْسِلْهُ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبيان بالبرکة ومسح رؤسهم، 5 / 2338، الرقم: 5994، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب حکم بول الطفل الرضيع وکيفية غسله، 1 / 237، الرقم: 286، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 212، الرقم: 25812، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 1 / 93، وابن راهويه في المسند، 2 / 116، الرقم: 587، والحميدي في المسند، 1 / 88، الرقم: 164.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (نو مولود) بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں برکت کی دعا دیتے چنانچہ ایک بچہ لایا گیا تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں پر پیشاب کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی منگوا کر اُس پر بہا دیا اور اُسے نہ دھویا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
60 / 8. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَشْرَ سِنِيْنَ فَمَا قَالَ لِي أُفٍّ وَلَا لِمَ صَنَعْتَ؟ وَلَا أَ لَا صَنَعْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب حسن الخلق والسخاء وما يکره ما البخل، 5 / 2245، الرقم: 5691، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کان رسول اللہ صلی الله عليه وآله وسلم أحسن الناس خلقًا، 4 / 1804، الرقم: 2309، والترمذي في السنن،کتاب البر والصلة، باب ما جاء في خلق النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 368، الرقم: 2015، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 265، الرقم: 131823، وابن حبان في الصحيح، 7 / 152، الرقم: 2893، وأبو يعلی في المسند، 6 / 104، الرقم: 3367، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 28، الرقم: 9032، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 402، الرقم: 1361، 1363.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا، اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
61 / 9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلَاةِ وَأَنَا أُرِيْدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّه مِنْ بُکَائِه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأذان، باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبي، 1 / 250، الرقم: 677، ومسلم في الصحيح،کتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، 1 / 343، الرقم: 470، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 109، الرقم: 12086، وابن حبان في الصحيح، 5 / 510، الرقم: 2139، وأبو يعلی في المسند، 5 / 441، الرقم: 3144، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 393، الرقم: 3848، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 / 477، الرقم: 11054.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نماز شروع کرتا ہوں تو چاہتا ہوں کہ اِسے لمبی کروں۔ پھر کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، یہ جانتے ہوئے کہ اِس کے رونے کی وجہ سے اِس کی ماں کو تکلیف ہو گی (کیونکہ اس وقت خواتین بھی مسجد میں نماز ادا کرنے آتی تھیں)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
62 / 10. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَتْ: جَائَتْنِي امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ تَسْأَلُنِي فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي غَيْرَ تَمْرَةٍ وَاحِدَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَحَدَّثْتُه فَقَالَ: مَنْ يَلِي مِنْ هٰذِهِ الْبَنَاتِ شَيْئًا فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ کُنَّ لَه سِتْرًا مِنَ النَّارِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته، 5 / 2234، الرقم: 5649، وأيضًا فيکتاب الزکاة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرة والقليل من الصدقة، 2 / 514، الرقم: 1352، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4 / 2027، الرقم: 2629، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في النفقة علی البنات والأخوات، 4 / 319، الرقم: 1915، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 87، الرقم: 24616، وابن حبان في الصحيح، 7 / 201، الرقم: 2939، وعبد الرزاق في المصنف،10 / 457، الرقم: 19693، وابن راهويه في المسند، 3 / 976، الرقم: 1695، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 429، الرقم: 1473.
’’امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لے کر (کھانے کے لئے) کچھ مانگنے آئی۔ اُس وقت میرے پاس ایک کھجور کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔ میں نے وہی کھجور اُسے دے دی۔ اُس نے وہ کھجور اپنی دونوں بیٹیوں میں بانٹ دی (خود اُس میں سے کچھ نہ کھایا)۔ پھر وہ عورت چلی گئی۔ اِس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو اِن بیٹیوں کے ذریعے آزمایا جائے اور پھر وہ اِن پر احسان کرے تو وہ اُس کے لیے جہنم کی آگ سے آڑ بن جاتی ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
63 / 11. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: کُنْتُ غُـلَامًا فِي حَجْرِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ يَدِي تَطِيْشُ فِي الصَّحْفَةِ، فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا غُـلَامُ، سَمِّ اللهَ وَکُلْ بِيَمِيْنِکَ وَکُلْ مِمَّا يَلِيْکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِي بَعْدُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأطعمة، باب التسمية علی الطعام والأکل باليمين، 5 / 2056، الرقم: 5061.5063، ومسلم في الصحيح،کتاب الأشربة، باب آداب الطعام والشراب وأحکامهما، 3 / 1599، الرقم: 2022، وابن ماجه في السنن،کتاب الأطعمة، باب الأکل باليمين، 2 / 1087، الرقم: 3267، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 175، الرقم: 6759، وأيضًا في عمل اليوم والليلة، 1 / 259، الرقم: 274، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 26، والبيهقي في السنن الکبری، 7 / 277، الرقم: 4389.
’’حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ میں لڑکپن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِکفالت تھا (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانا کھاتے وقت) میرا ہاتھ پیالے میں ہر طرف چلتا رہتا تھا۔ (ایک مرتبہ جب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھا تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: برخودار! بسم اللہ پڑھو، دائیں ہاتھ سے کھائو اور اپنے سامنے سے کھایا کرو۔ اس کے بعد میں اسی طریقہ سے کھاتا ہوں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
64 / 12. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضي الله عنه قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَعَنْ يَمِيْنِه غُـلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِه، فَقَالَ: يَا غُـلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ قَالَ: مَا کُنْتُ لِأُوْثِرَ بِفَضْلِي مِنْکَ أَحَدًا يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَاه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَقَالَ النَّوَوِيُّ: وَهٰذَا الْغُـلَامُ هُوَ ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما.
12: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المساقاة الشرب، باب في الشرب، 2 / 829، الرقم: 2224، وأيضًا في باب من رأي أن صاحب الحوض والقرية أحق بمائة، 2 / 834، الرقم: 2237، وأيضًا فيکتاب المظالم والغصب، باب إذا أذن له أو أحله ولم يبين کم هو، 2 / 865، الرقم: 2319، وأيضًا فيکتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب الهبة المقبوضة وغير المقبوضة والمقسومة وغير المقسومة، 2 / 920، الرقم: 2464، وأيضًا فيکتاب الأشربة، باب هل يستأذن الرجل من عن يمينه في الشرب ليعطي الأکبر، 5 / 2130، الرقم: 5297، ومسلم في الصحيح،کتاب الأشربة، باب استحباب إدارة الماء واللبن ونحوهما عن يمين المبتديئ، 3 / 1604، الرقم: 2030، ومالک في الموطأ،کتاب صفة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب السنة في الشرب ومناولته عن اليمين، 2 / 926، الرقم: 1656، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، 338، الرقم: 22875، 22918، وابن حبان في الصحيح، 12 / 151، الرقم: 5335، والربيع في المسند،1 / 149، الرقم: 375، والنووي في رياض الصالحين / 162.
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس میں سے کچھ نوش فرمایا اور (وہ پیالہ صحابہ کرام میں تقسیم فرمانے لگے تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا جو اُس وقت موجود لوگوں میں سب سے چھوٹا تھا اور عمر رسیدہ حضرات بائیں طرف تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے! کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ (تبرک) عمر رسیدہ لوگوں کو پہلے دے دوں؟ وہ لڑکا عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بچی ہوئی (متبرک) چیز میں کسی دوسرے کو اپنے اوپر ترجیح نہیں دے سکتا۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پیالہ اُسی بچے کو پہلے عنایت فرمایا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام نووی نے فرمایا: وہ نوجوان حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔
65 / 13. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَکَانَ لِي أَخٌ يُقَالُ لَه: أَبُوْ عُمَيْرٍ، قَالَ: أَحْسِبُه فَطِيْمًا، وَکَانَ إِذَا جَاءَ قَالَ: يَا أَبَا عُمَيْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟ نُغَرٌ کَانَ يَلْعَبُ بِه، فَرُبَّمَا حَضَرَ الصَّلَاةَ وَهُوَ فِي بَيْتِنَا فَيَأْمُرُ بِالْبِسَاطِ الَّذِي تَحْتَه فَيُکْنَسُ وَيُنْضَحُ ثُمَّ يَقُوْمُ وَنَقُوْمُ خَلْفَه فَيُصَلِّي بِنَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب الکنية للصبي وقبل أن يولد للرجل، 5 / 2291، الرقم: 5850، ومسلم في الصحيح،کتاب الآداب، باب استحباب تحنيک المولود عند ولادته وحمله إلی صالح يحنکه، 3 / 1692، الرقم: 2150، والترمذي في السنن،کتاب الصلاة، باب ما جاء في الصلاة علی البسط، 2 / 154، الرقم: 333، وأبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب ما جاء في الرجل يتکنی وليس له ولد، 4 / 293، الرقم: 4969، وابن ماجه في السنن،کتاب الأدب، باب المزاح، 2 / 1226، الرقم: 3720، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 119، 171، الرقم: 12220، 12776، وابن حبان في الصحيح، 6 / 82، الرقم: 2308.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ اچھے اخلاق والے تھے اور میرا ایک بھائی تھا جسے ابو عمیر کہا جاتا تھا اور میرے خیال میں اُس کا دودھ چھڑایا جا چکا تھا۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس آپ تشریف لاتے تو فرماتے: اے ابو عمیر! نغیر کا کیا بنایا؟ نغر(ایک پرندہ تھا جس) کے ساتھ وہ کھیلا کرتا تھا (بعد ازاں وہ فوت ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس بچے کی دل جوئی کے لیے یہ فرماتے)۔ کبھی نماز کا وقت ہو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما ہوتے تو جس فرش پر آپ تشریف فرما ہوتے اُسے جھاڑنے اور صاف کرنے کا حکم فرماتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیام فرما ہوتے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
66 / 14. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ رضي الله عنهما إِلٰی جَنْبِه وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَی النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ أُخْرٰی وَيَقُوْلُ: إِنَّ ابْنِي هٰذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ يُصْلِحَ بِه بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيْمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلح، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم للحسن بن علي ابني هذا سيد، 2 / 962، الرقم: 2557، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب مخاطبة الإمام رعيته وهو علی المنبر، 3 / 107، الرقم: 1410، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 37، الرقم: 20408، وأيضًا في فضائل الصحابة، 2 / 785، الرقم: 1400، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13 / 232.
’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر دیکھا اس حال میں کہ حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی لوگوں کی جانب توجہ فرماتے اور کبھی اُنہیں دیکھتے اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اِس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی دو بہت بڑی جماعتوں میں صلح کروا دے گا۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
67 / 15. عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ رضي الله عنهما کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَأْخُذُنِي فَيُقْعِدُنِي عَلٰی فَخِذِه وَيُقْعِدُ الْحَسَنَ عَلٰی فَخِذِهِ الْأُخْرَی، ثُمَّ يَضُمُّهُمَا، ثُمَّ يَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ ارْحَمْهُمَا فَإِنِّي أَرْحَمُهُمَا.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
وفي رواية للنسائي: اَللّٰهُمَّ أَحِبَّهُمَا فَإِنِّي أُحِبُّهُمَا.
15: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب وضع الصبي علی الفخذ، 5 / 2236، الرقم: 5657، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 53، الرقم: 8184، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 205، الرقم: 21835، وابن حبان في الصحيح، 15 / 415، الرقم: 6961، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 8 / 53، وابن سعد في الطقبات الکبری، 4 / 62.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اُٹھا لیتے اور اپنی ایک ران پر بٹھا لیا کرتے اور امام حسن رضی اللہ عنہ کو اپنی دوسری ران پر بٹھاتے، پھر دونوں کو اپنے ساتھ چمٹا لیتے اور دعا فرماتے: اے اللہ! اِن دونوں پر رحم فرما۔ کیونکہ میں بھی اِن پر رحم کرتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
امام نسائی کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! اِن دونوں سے محبت فرما کیونکہ میں بھی اِن سے محبت کرتا ہوں۔‘‘
68 / 16. عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنِّي لَأَقُوْمُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيْدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيْهَا، فَأَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي کَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلٰی أُمِّه. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأذان، باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبي، 1 / 250، الرقم: 675، وأيضًا في باب خروج النساء إلی المساجد بالليل والغلس، 1 / 296، الرقم: 830، وأبو داود في السنن، کتاب الصلاة، باب تخفيف الصلاة للأمر يحدث، 1 / 209، الرقم: 789، والنسائي في السنن،کتاب الإمامة، باب ما علی الإمام من التخفيف، 2 / 95، الرقم: 825، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 290، الرقم: 899، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 305، الرقم: 22655، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 / 407، الرقم: 3678، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 118، الرقم: 5063.
’’حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نماز پڑھانے کھڑا ہوتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ اُسے طول دوں لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، یہ نا پسند کرتے ہوئے کہ (اس کے رونے سے) اُس کی ماں کے لیے تکلیف کا باعث بنوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
69 / 17. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَسْمَعُ بُکَاءَ الصَّبِيِّ مَعَ أُمِّه وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَقْرَأُ بِالسُّوْرَةِ الْخَفِيْفَةِ أَوْ بِالسُّوْرَةِ الْقَصِيْرَةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
17: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، 1 / 342، الرقم: 470، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 156، الرقم: 12609، وأبو يعلی في المسند، 6 / 109، الرقم: 3376، وأبو عوانة في المسند، 1 / 422، الرقم: 1563، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 393، الرقم: 3847.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز میں کسی ایسے بچہ کے رونے کی آواز سنتے جو اپنی ماں کے ساتھ ہوتا تو چھوٹی سورت پڑھ کر نماز میں تخفیف کر دیتے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
70 / 18. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتّٰی تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَه.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
18: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الإحسان إلی البنات، 4 / 2027، الرقم: 2631، والترمذي في السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في النفقة علی البنات والأخوات، 4 / 319، الرقم: 1914، والبخاري في الأدب المفرد / 308، الرقم: 894، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 222، الرقم: 25439، والحاکم في المستدرک، 4 / 196، الرقم: 7350، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 176، الرقم: 557، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 404، الرقم: 8674.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں، وہ شخص قیامت کے دن آئے گا تو وہ (شخص) اور میں اس طرح ہوں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔
71 / 19. عَنْ أَبِي بُرَيْدَةَ رضي الله عنه يَقُوْلُ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عليهما السلام، عَلَيْهِمَا قَمِيْصَانِ أَحْمََرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثِرَانِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَهُمَا وَوَضَعَهُمَا بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ اللهُ: {إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ} [التغابن، 64: 15] فَنَظَرْتُ إِلٰی هٰذَيْنِ الصَّبِيَيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثِرَانِ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتّٰی قَطَعْتُ حَدِيْثِي وَرَفَعْتُهُمَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
19: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب مناقب الحسن والحسين عليهما السلام، 5 / 658، الرقم: 3774، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب الإمام يقطع الخطبة لأمر يحدث، 1 / 290، الرقم: 1109، والنسائي في السنن،کتاب صلاة العيدين، باب نزول الإمام عن المنبر قبل فراغه من الخطبة، 3 / 192، الرقم: 1585، وابن ماجه في السنن، کتاب اللباس، باب لبس الأحمر للرجال، 2 / 1190، الرقم: 3600، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 345، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 355، الرقم: 1456، وابن حبان في الصحيح، 13 / 403، الرقم: 6039، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 379، الرقم: 32189، والحاکم في المستدرک، 1 / 424، الرقم: 1059، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 218، الرقم: 5610.
’’حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں حسنین کریمین علیہما السلام (جوکہ معصوم بچے تھے) تشریف لائے، اُنہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ (کم عمر ہونے کی وجہ سے) لڑکھڑا کر چل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (انہیں دیکھ کر کہ کہیں شہزادے گر نہ پڑیں) منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں (شہزادوں) کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کا فرمان کتنا سچ ہے: ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہی ہیں۔‘‘ میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی گفتگو (درمیان میں) چھوڑ کر اُنہیں اُٹھا لیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
72 / 20. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ کَبِيْرِنَا.
وفي رواية: وَيَعْرِفْ حَقَّ کَبِيْرِنَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ.
20: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، 4 / 322، الرقم: 1920، وأبو داود في السنن،کتاب السنة، باب في الرحمة، 4 / 286، الرقم: 4943، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 207، الرقم: 6935، والبخاري في الأدب المفرد / 130، الرقم: 355، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 214، الرقم: 25359، والحاکم في المستدرک، 4 / 197، الرقم: 7353، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 308، الرقم: 8154.
’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ بواسطہ والد اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے ہمارے اور بڑوں کی عزت وتکریم نہ کرے۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے:’’ وہ ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود، احمد اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
73 / 21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيْرَنَا وَيُوَقِّرْ کَبِيْرَنَا وَيَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌَ.
21: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب البر والصلة، باب ما جاء في رحمة الصبيان، 4 / 322، الرقم: 1921، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 257، الرقم: 2329، وابن حبان في الصحيح، 2 / 203، الرقم: 458، والبزار في المسند، 7 / 158، الرقم: 2718، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 107، الرقم: 4812، وأيضًا في المعجم الکبير، 11 / 449، الرقم: 12276.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے۔ نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، احمد، ابن حبان اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
74 / 22. عَنْ أَبِي أَيُوْبَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا فَرَّقَ اللهُ بَيْنَه وَبَيْنَ أَحِبَّتِه يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالدَّارَ قُطْنِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
22: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب البيوع، باب ما جاء في کراهية أن يفرّق بين الأخوين أو بين الوالدة وولدها في البيع، 3 / 580، الرقم: 1283، والدارمي في السنن، 2 / 299، الرقم: 2479، والدار قطني في السنن، 3 / 67، الرقم: 256.
’’حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے ماں اور بیٹے کو ایک دوسرے سے جدا کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے اور اُس کے پیاروں کو جدا کر دے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، دارمی اور دار قطنی نے روایت کیا ہے، امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
75 / 23. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَامِرٍ رضي الله عنه أَنَّه قَالَ: أَتَانَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي بَيْتِنَا وَأَنَا صَبِيٌّ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَخْرُجُ لِأَلْعَبَ، فَقَالَتْ أُمِّي: يَا عَبْدَ اللهِ، تَعَالَ أُعْطِکَ، فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيَهُ؟ قَالَتْ: أُعْطِيْهِ تَمْرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا إِنَّکِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِي کُتِبَتْ عَلَيْکِ کَذْبَةٌ.رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَاللَّفْظُ لَه.
23: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب في التشديد في الکذب، 4 / 298، الرقم: 4991، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 447، الرقم: 15740، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 236، الرقم: 25609، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 198، الرقم: 20629، وأيضًا في شعب الإيمان، 4 / 210، الرقم: 4822، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 483، الرقم: 466، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 / 370، الرقم: 4467.
’’حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے غریب خانے میں جلوہ افروز ہوئے اور میں اُس وقت بچہ تھا۔ میں باہر کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری والدہ محترمہ نے مجھے کہا: اے عبد اللہ! ادھر آؤ تاکہ تمہیں کچھ دوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری والدہ سے فرمایا: تم اِسے کیا دینا چاہتی ہو! اُنہوں نے عرض کیا: میں اِسے کھجور دوں گی۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اِسے کچھ نہ دیتیں تو تمہارا ایک جھوٹ لکھ لیا جاتا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ابی شیبہ اور احمد نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
76 / 24. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يُصََلِّي فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عليهما السلام عَلٰی ظَهْرِه، فَإِذَا أَرَادُوْا أَنْ يَمْنَعُوْهُمَا أَشَارَ إِلَيْهِمْ أَنْ دَعُوْهُمَا، فَلَمَّا صَلّٰی وَضَعَهُمَا فِي حَجْرِه.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُوْ يَعْلٰی. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُ أَبِي يَعْلٰی ثِقَاتٌ.
24: أخرجه النسائي في السنن الکبری،کتاب المناقب، فضائل الحسن والحسين، 5 / 50، الرقم: 8170، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 48، الرقم: 887، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 378، الرقم: 32174، والبزار في المسند، 5 / 226، الرقم: 1834، وابن حبان في الصحيح، 15 / 426، الرقم: 6970، وأبو يعلی في المسند، 8 / 434، الرقم: 5017، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم: 2644، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 552، الرقم: 2233، وأيضًا في مجمع الزوائد، 9 / 179.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے، جب سجدہ میں تشریف لے گئے تو حسنین کریمین (امام حسن اور امام حسین) علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے، جب لوگوں نے اُنہیں روکنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارے سے منع فرما دیا کہ انہیں چھوڑ دو (یعنی سوار ہونے دو)، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، ابن خزیمہ، ابن ابی شیبہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام ابو یعلی کے رجال ثقہ ہیں۔
77 / 25. عَنْ يَعْلَی بْنِ مُرَّةَ رضي الله عنه قَالَ: أَنَّهُمْ خَرَجُوْا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی طَعَامٍ دُعُوْا لَه، فَإِذَا حُسَيْنٌ رضي الله عنه يَلْعَبُ فِي السِّکَّةِ، قَالَ: فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَامَ الْقَوْمِ وَبَسَطَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ الْغُـلَامُ يَفِرُّ هَاهُنَا وَهَاهُنَا وَيُضَاحِکُهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی أَخَذَه فَجَعَلَ إِحْدَی يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقْنِه وَالْأُخْرَی فِي فَأْسِ رَأْسِه فَقَبَّلَه وَقَالَ: حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ، أَحَبَّ اللهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
25: أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب فضل الحسن والحسين ابني علي بن أبي طالبث، 1 / 51، الرقم: 144، والبخاري في الأدب المفرد / 133، الرقم: 364، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 172، الرقم: 17597، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 380، الرقم: 32196، وابن حبان في الصحيح، 15 / 427، 428، الرقم: 6971، والحاکم في المستدرک، 3 / 194، الرقم: 4820، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 33، الرقم: 2589، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 554، الرقم: 2240.
’’حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھانے کی دعوت پر گئے تو گلی میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے آگے بڑھ گئے اور اپنے ہاتھ آگے کی طرف پھیلا دیئے، صاحبزادے اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں ہنساتے رہے حتیٰ کہ اُنہیں پکڑ لیا، اپنا ایک ہاتھ اُن کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا اُن کے سر کے اوپر کر لیا پھر اُنہیں چوم کر فرمایا حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت فرمائے جس نے حسین سے محبت کی، حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ماجہ، احمد، ابن حبان اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
78 / 26. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَزُوْرُ الأَنْصَارَ فَيُسَلِّمُ عَلٰی صِبْيَانِهِمْ، وَيَمْسَحُ بِرَؤُوْسِهُمْ وَيَدْعُوْ لَهُمْ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَغَوِيُّ.
26: أخرجه النسائي في السنن الکبری،کتاب المناقب، أبناء الأنصار، 5 / 92، الرقم: 8349، وابن حبان في الصحيح، 2 / 205، 206، الرقم: 459، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 6 / 291، والبغوي في شرح السنة، 12 / 224، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 425، الرقم: 1603.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے پاس تشریف لے جاتے، اُن کے بچوں کو سلام کرتے، اُن کے سر پر دستِ شفقت پھیرتے اور اُن کے لئے دعا فرماتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، ابن حبان، ابو نعیم اور بغوی نے روایت کیا ہے۔
79 / 27. عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ:کُنَّا فِي غَزَاةٍ فَأَصَبْنَا ظَفَرًا وَقَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ حَتّٰی بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذُّرِّيَةَ فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذَّرِيَةَ أَلَا لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّيَةً أَلَا لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً قِيْلَ: لِمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَيْسَ هُمْ أَوْلَادُ الْمُشْرِکِيْنَ؟ قَالَ: أَوَلَيْسَ خِيَارُکُمْ أَوْلَادَ الْمُشْرِکِيْنَ.
وفي رواية زاد: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّمَا هُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالَ: خِيَارُکُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، أَلَا، لَا تُقْتَلُ الذُّرِّيَةُ، کُلُّ نَسَمَةٍ تُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، حَتّٰی يُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا، فَأَبَوَاهَا يُهَوِّدَانِهَا وَيُنَصِّرَانِهَا. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِأَسَانِيْدَ، وَبَعْضُ أَسَانِيْدِ أَحْمَدَ رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
27: أخرجه النسائي في السنن الکبری،کتاب السير، باب النهي عن قتل ذراري المشرکين، 5 / 184، الرقم: 8616، والدارمي في السنن، 2 / 294، الرقم: 2463، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، الرقم: 15626.15627، وأيضًا، 4 / 24، الرقم: 16342، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 484، الرقم: 33131، وابن حبان في الصحيح، 1 / 341، الرقم: 132، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 375، الرقم: 1160، والحاکم في المستدرک، 2 / 133.134، الرقم: 2566.2567، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 284، الرقم: 829، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 77، الرقم: 17868، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 8 / 263.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (لڑائی جاری رہی یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں کو (خوب) قتل کیا حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے (بعض) بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔ خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیوں؟ کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے جو سب سے بہتر ہیں یہ بھی مشرکوں کے بچے نہیں؟
ایک روایت میں یہ اضافہ فرمایا: ’’ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ مشرکین کے بچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ بھی تو مشرکین کے بچے ہیں (یعنی اُن کے والدین مشرک تھے)۔ خبردار! بچوں کو جنگ کے دوران قتل نہ کیا جائے ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اُس کی زبان اُس کی فطرت کا اظہار نہ کردے، پھر اُس کے والدین اُسے یہودی یا نصرانی بناتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، دارمی، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔جبکہ امام ہیثمی نے فرمایا: اسے امام احمد نے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان کی بعض اسانید کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
80 / 28. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ فَجَاءَ ابْنٌ لَه فَقَبَّلَه وَأَجْلَسَه عَلٰی فَخِذِه ثُمَّ جَائَتْ بِنْتٌ لَه فَأَجْلَسَهَا إِلٰی جَنْبِه قَالَ: فَهَـلَّا عَدَلْتَ بَيْنَهُمَا.
رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَتَمَّامٌ الرَّازِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
28: أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 89، وتمام الرازي في الفوائد، 2 / 237، الرقم: 1616، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 410، الرقم: 8700، وأيضًا، 7 / 468، الرقم: 11022، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 13 / 396، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 156.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک شخص حاضر تھا کہ اُس شخص کا بیٹا اُس کے پاس آیا، اُس شخص نے اُسے چوما اور اُسے اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر اُس کی بیٹی آئی تو اُس نے اُسے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اِن دونوں کے درمیان عدل نہیں کرتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام طحاوی، تمّام رازی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال ثقہ ہیں۔
81 / 29. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّ بِبَعْضِ الْمَدِيْنَةِ، فَإِذَا هُوَ بِجَوَارٍ يَضْرِبْنَ بِدُفِّهِنَّ وَيَتَغَنَّيْنَ وَيَقُلْنَ:
نَحْنُ جَوَارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ
يَا حَبَّذَا مُحَمَّدٌ مِنْ جَارٍ
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَعْلَمُ اللهُ إِنِّي لَأُحِبُّکُنَّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَبُوْ يَعْلٰی.
وفي رواية أبي يعلی: فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ بَارِکْ فِيْهِنَّ.
29: أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب الغناء والدف، 1 / 612، الرقم: 1899، وأبو يعلی في المسند، 6 / 134، الرقم: 3409، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 120، والمقدسي في أحاديث الشعر، 1 / 75، الرقم: 26، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 42، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 190، الرقم: 229، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 261.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرے تو چند لڑکیاں دف بجا رہی تھیں اور گا کر کہہ رہی تھیں:
’’ہم بنو نجار کی بچیاں کتنی خوش نصیب ہیں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جیسی ہستی) ہماری پڑوسی ہے۔‘‘
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کی نعت سن کر) فرمایا: (میرا ) اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بھی تم سے بے حد محبت رکھتا ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
اور ابو یعلی کی روایت میں ہے: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اِنہیں برکت عطا فرما۔‘‘
82 / 30. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُصَلِّي فَإِذَا سَجَدَ وَثَبَ الْحَسَنُ عَلٰی ظَهْرِه وَعَلٰی عُنُقِه، فَيَرْفَعُ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم رَفْعًا رَفِيْقًا لِئَـلَّا يُصْرَعَ، قَالَ: فَعَلَ ذَالِکَ غَيْرَ مَرَّةٍ، فَلَمَّا قَضٰی صَلَاتَه قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، رَأَيْنَاکَ صَنَعْتَ بالْحَسَنِ شَيْئًا مَا رَأَيْنَاکَ صَنَعْتَه؟ قَالَ: إِنَّه رَيْحَانَتِي مِنَ الدُّنْيَا وَإِنَّ ابْنِي هٰذَا سَيِّدٌ، وَعَسَی اللهُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی أَنْ يُصْلِحَ بِه بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ غَيْرَ مُبَارَکِ بْنِ فُضَالَةَ وَقَدْ وُثِّقَ.
30: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 51، 49، 44، الرقم: 20535، 20517، 20466، وابن حبان في الصحيح، 15 / 418419، الرقم: 6964، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 34، الرقم: 2591، والبزار في المسند، 9 / 111، الرقم: 3657، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 175.
’’حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھا رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ فرماتے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پُشت مبارک اور گردن پر سوار ہو جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِس خدشہ سے کہ کہیں وہ گر نہ جائیں آہستہ سے سجدے سے سر اُٹھاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عمل متعدد مرتبہ دہرایا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرامث نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے آپ کا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ اندازِ محبت اِس سے قبل نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دنیا میں میرا پھول ہے۔ میرا یہ بیٹا سردار ہو گا اور اللہ تبارک و تعالیٰ میرے اِس بیٹے کی بدولت مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد، بزار اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: امام احمد کی سند کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں سوائے مبارک بن فضالہ کے اور وہ بھی ثقہ ہیں۔
83 / 31. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: خَدَمْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَشْرَ سِنِيْنَ فَمَا أَمَرَنِي بِأَمْرٍ فَتَوَانَيْتُ عَنْهُ أَوْ ضَيَعْتُه فَـلَامَنِي، فَإِنْ لَامَنِي أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِه إِلَّا قَالَ: دَعُوْهُ فَلَوْ قُدِّرَ أَوْ قَالَ: لَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ کَانَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
31: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 231، الرقم: 13442، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 157، الرقم: 355، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 50 / 65.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مجھے کسی کام کرنے کا حکم دیتے اور میں وہ نہ کر سکتا یا کوئی کام خراب کر بیٹھتا تو کبھی مجھے ملامت نہ فرماتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ خانہ میں سے کوئی مجھے ملامت کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: اِسے چھوڑ دو اسی طرح مقدر میں ہوگا، یا فرماتے: اگر وہ کام (ہمارے) نصیب میں ہوتا تو ضرور ہو جاتا۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔
84 / 32. عَنْ أَبِي لَيْلٰی رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَعَلٰی صَدْرِه أَوْ بَطْنِهِ الْحَسَنُ أَوِ الْحُسَيْنُ، قَالَ: فَرَأَيْتُ بَوْلَه أَسَارِيْعَ، فَقُمْنَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: دَعُوْا ابْنِي لَا تُفْزِعُوْهُ حَتّٰی يَقْضِيَ بَوْلَه، ثُمَّ أَتْبَعَهُ الْمَاءَ، ثُمَّ قَامَ فَدَخَلَ بَيْتَ تَمْرِ الصَّدَقَةِ وَدَخَلَ مَعَهُ الْغُـلَامُ، فَأَخَذَ تَمْرَةً فَجَعَلَهَا فِي فِيْهِ، فَاسْتَخْرَجَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
32: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 348، الرقم: 19082، والطبراني في المعجم الکبير، 7 / 77، الرقم: 6423، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 284.
’’حضرت ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک یا بطن مبارک پر (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیٹے) حضرت حسن رضی اللہ عنہ یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ بیٹھے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ صاحبزادے کا پیشاب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کپڑوں پر پھیل گیا ہے، ہم جلدی سے بچے کی طرف (اسے اُٹھانے کے لئے) لپکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے بیٹے کو چھوڑ دو اور خوفزدہ نہ کرو یہاں تک کہ مکمل طور پر فارغ ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر پانی بہا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور صدقہ والی کھجوروں کے کمرے میں تشریف لے گئے اور بچہ بھی آپ کے ساتھ وہاں داخل ہو گیا، اور ایک کھجور پکڑ کر منہ میں ڈال لی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجور اُس کے منہ سے نکال لی اور فرمایا: بے شک صدقہ ہمارے (اہل بیت کے) لئے حلال نہیں ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال ثقہ ہیں۔۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved