30 /1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه، قَالَتِ النِّسَاءُ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : غَلَبَنَا عَلَيْکَ الرِّجَالُ، فَاجْعَلْ لَنَا يَوْمًا مِنْ نَفْسِکَ، فَوَعَدَهُنَّ يَوْمًا لَقِيَهُنَّ فِيْهِ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ … الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب العلم، باب هل يجعل للنساء يوم علی حدة في العلم،1 /50، الرقم: 101، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل من يموت له ولد فيحتسبه، 4 /2028، الرقم: 2633، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /34، الرقم: 11314، والنسائي في السنن الکبری، 3 /451، الرقم: 5896، وابن حبان في الصحيح، 7 /206، الرقم: 2944، وأبو يعلی في المسند، 2 /461، الرقم: 1279، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /131، الرقم: 9743، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /55، الرقم: 3053.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابیات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: (یا رسول اللہ!) آپ کی جانب (سے فیض پانے میں) مرد ہم سے آگے نکل گئے لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اُس دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن سے ملاقات فرماتے، اُنہیںنصیحت فرماتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بتلاتے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
31 /2. عَنِ ابْنِِِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَنَهَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب قتل النساء في الحرب، 3 /1098، الرقم: 2852، ومسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب، 3 /1364، الرقم: 1744، والترمذي في السنن،کتاب السير، باب ما جاء في النهي عن قتل النساء والصبيان، 4 /136، الرقم: 1569، وابن ماجه في السنن،کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2 /947، الرقم: 2841، والنسائي في السنن الکبری، 5 /185، الرقم: 8618، والدارمي في السنن، 2 /293، الرقم: 2462، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /22، الرقم: 4739، وابن حبان في الصحيح، 1 /344، الرقم: 135.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی غزوہ میں ایک مقتول عورت پائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی (سختی سے) ممانعت فرما دی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
32 /3. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم حَادٍ، يُقَالُ لَه: أَنْجَشَةُ، وَکَانَ حَسَنَ الصَّوْتِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : رُوَيْدَکَ يَا أَنْجَشَةُ، لَا تَکْسِرِ الْقَوَارِيْرَ، يَعْنِي ضَعَفَةَ النِّسَاءِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب المعاريض مندوحة عن الکذب، 5 /2294، الرقم: 5857، ومسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب رحمة النبي صلی الله عليه وآله وسلم للنساء، 4 /1811.1812، الرقم: (73) 2323، والنسائي في السنن الکبری، 6 /134.135، الرقم: 10359.10363، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /227، الرقم: 13401، وابن حبان في الصحيح، 13 /119، الرقم: 5801، والطبراني في المعجم الکبير، 25 /121، الرقم: 294، وأبو يعلی في المسند، 5 /191، الرقم: 2809، وأيضًا، 7 /116، 121، الرقم: 4064، 4075، والروياني في المسند، 2 /381، الرقم: 1357، وعبد بن حميد في المسند،1 /398، الرقم: 1342، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /227، الرقم: 20820. 20822، وابن سعد في الطبقات الکبری، 8 /430.431، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 /214، 4 /320، 8 /20، وقال: رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دربارِ اقدس میں انجشہ نامی ایک خوش الحان حدی خواں تھا (جب اُس کی حدی خوانی سے اُونٹ تیز رفتاری سے دوڑنے لگے تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے فرمایا: اے انجشہ! نرمی کرو کہیں شیشوں کو نہ توڑ دینا، یعنی نازک سی عورتوں کو تکلیف نہ دو (اونٹوں کی رفتار کم کر لو)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
33 /4. عَنْ الْأَسْوَدِ رضی الله عنه قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رضي الله عنها مَا کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَصْنَعُ فِي بَيْتِه؟ قَالَتْ: کَانَ يَکُوْنُ فِي مِهْنَةِ أَهْلِه، تَعْنِي خِدْمَةَ أَهْلِه، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ خَرَجَ إِلَی الصَّلَاةِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأذان، باب من کان في حاجة أهله فأقيمت الصلاة فخرج،1 /239، الرقم: 644، وأيضًا فيکتاب النفقات، باب خدمة الرجل في أهله، 5 /2052، الرقم: 5048، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب کيف يکون الرجل في أهله، 5 /2245، الرقم: 5692، والترمذي في السنن،کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب: (45) منه، 4 /654، الرقم: 2489، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /49، الرقم: 24272، والطيالسي في المسند،1 /198، الرقم: 1383، وابن راهويه في المسند، 3 /879، الرقم: 1550، والبيهقي في السنن الکبری، 2 /215، الرقم: 2989.
’’حضرت اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کاشانہ اقدس میں کیا کیا کام کرتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والوں کے کاموں میں مشغول رہتے اور جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
34 /5. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم عِنْدَ بَعْضِ نِسَائِه، فَأَرْسَلَتْ إِحْدَی أُمَّهَاتِ الْمُوْمِنِيْنَ بِصَحْفَةٍ فِيْهَا طَعَامٌ، فَضَرَبَتِ الَّتِي النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي بَيْتِهَا يَدَ الْخَادِمِ فَسَقَطَتِ الصَّحْفَةُ، فَانْفَلَقَتْ، فَجَمَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِلَقَ الصَّحْفَةِ، ثُمَّ جَعَلَ يَجْمَعُ فِيْهَا الطَّعَامَ الَّذِي کَانَ فِي الصَّحْفَةِ، وَيَقُوْلُ: غَارَتْ أُمُّکُمْ، ثُمَّ حَبَسَ الْخَادِمَ حَتّٰی أُتِيَ بِصَحْفَةٍ مِنْ عِنْدِ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا، فَدَفَعَ الصَّحْفَةَ الصَّحِيْحَةَ إِلَی الَّتِي کُسِرَتْ صَحْفَتُهَا وَأَمْسَکَ الْمَکْسُوْرَةَ فِي بَيْتِ الَّتِي کَسَرَتْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالدَّارِمِيُّ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب النکاح، باب الغيرة، 5 /2003، الرقم: 4927، وأبو داود في السنن، کتاب البيوع، باب فيمن أفسد شيئا يغرم مثله، 3 /297، الرقم: 3567، والنسائي في السنن،کتاب عشرة النساء، باب الغيرة، 7 /70، الرقم: 3955، وأيضًا في السنن الکبری، 5 /285، الرقم: 8903، وابن ماجه في السنن،کتاب الأحکام، باب الحکم فيمن کسر شيئا، 2 /782، الرقم: 2334، والدارمي في السنن، 2 /343، الرقم: 2598، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /105، الرقم: 12046، وأبو يعلی في المسند، 6 /455، الرقم: 3849.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے پاس تھے کہ دیگر اُمہات المؤمنین میں سے کسی ایک نے رکابی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس زوجہ مطہرہ کے گھر تشریف فرما تھے اُنہوں نے (غیرت کی وجہ سے) خادم کے ہاتھ پر کچھ مارا جس سے رکابی گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکابی کے ٹکڑے جمع کیے اور پھر اُس میں کھانے کو جمع فرمانے لگے جو اُس رکابی میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خادم سے) فرمایا: تمہاری ماں نے غیرت کھائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس خادم کو روک لیا، یہاں تک کہ جس زوجہ مطہرہ کے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اُن سے آپ نے صحیح سالم رکابی منگوا کر واپس بھجوا دی اور ٹوٹی ہوئی اُن کے گھر میں رکھ دی جنہوں نے وہ توڑی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی، ابو داود، ابن ماجہ اور دارمی نے روایت کیا ہے۔
35 /6. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کُنْتُ أَلْعَبُ بِالْبَنَاتِ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَکَانَ لِي صَوَاحِبُ يَلْعَبْنَ مَعِي، فَکَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ يَتَقَمَّعْنَ مِنْهُ فَيُسَرِّبُهُنَّ إِلَيَّ فَيَلْعَبْنَ مَعِي. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب الانبساط إلی الناس، 5 /2270، الرقم: 5779، ومسلم في الصحيح،کتاب فضائل الصحابة، باب في فضل عائشة رضی الله عنها، 4 /1890، الرقم: 2440، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في اللعب بالبنات، 4 /283، الرقم: 4931، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 /637، الرقم: 1982، والنسائي في السنن الکبری، 5 /305، الرقم: 8946، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /234، الرقم: 26010، وابن حبان في الصحيح، 13 /173، الرقم: 5863.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لڑکیوں کے ساتھ کھیلتی رہتی اور میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلا کرتی تھیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لاتے تو وہ اند رچھپ جاتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ دوبارہ کھیلنے لگ جاتیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
36 /7. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: وَاللهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْمُ عَلٰی بَابِ حُجْرَتِي، وَالْحَبَشَةُ يَلْعَبُوْنَ بِحِرَابِهِمْ فِي مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، يَسْتُرُنِي بِرِدَائِه، لِکَي أَنْظُرَ إِلٰی لَعِبِهِمْ، ثُمَّ يَقُوْمُ مِنْ أَجْلِي حَتّٰی أَکُوْنَ أَنَا الَّتِي أَنْصَرِفُ، فَاقْدِرُوْا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْحَدِيْثَةِ السِّنِّ، حَرِيْصَةً عَلَی اللَّهْوِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب النکاح، باب حسن المعاشرة مع الأهل، 5 /1988، الرقم: 4894، وأيضًا في باب نظر المرأة إلی الحبش ونحوهم من غير ريبة، 5 /2006، الرقم: 4938، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب الرخصة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 /609، الرقم: 892، والنسائي في السنن،کتاب صلاة العيدين، باب اللعب في المسجد يوم العيد ونظر النساء إلی ذلک، 3 /195، الرقم: 1595، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /84، الرقم: 24585، وابن راهويه في المسند، 2 /273، الرقم: 781.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قسم! میں وہ منظر آج بھی دیکھ رہی ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے کمرے کے دروازے پر کھڑے تھے اور حبشی اپنے ہتھیاروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں جنگی مشقیں کر رہے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی چادر میں چھپائے ہوئے تھے تاکہ میں اُن کی مشقیں دیکھتی رہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری وجہ سے قیام فرما رہے یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا اور میں خود وہاں سے چلی گئی، اب تم خود اندازہ کر لو کہ ایک کمسن اور کھیل کی شائق لڑکی کتنی دیر کھیل کو دیکھتی ہے(یعنی آپ کافی دیر کھڑی رہیں)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
37 /8. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِيَ الْأَنْصَارِ، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ: أَمَزَامِيْرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ وَذَالِکَ فِي يَومِ عِيْدٍ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا أَبَا بَکْرٍ، إِنَّ لِکُلِّ قَوْمٍ عِيْدًا وَهٰذَا عِيْدُنَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية لمسلم: وَفِيْهِ جَارِيَتَانِ تَلْعَبَانِ بِدُفٍّ.
وفي رواية لمسلم: وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مُسَجًّی بِثَوْبِه، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُوْ بَکْرٍ فَکَشَفَ رَسُوْلُ اللهِ عَنْهُ وَقَالَ: دَعْهُمَا يَا أَبَا بَکْرٍ فَإِنَّهَا أَيَامُ عِيْدٍ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب العيدين، باب سنة العيدين لأهل الإسلام،1 /324، الرقم: 909، وأيضًا فيکتاب المناقب، باب مقدم النبي صلی الله عليه وآله وسلم وأصحابه المدينة، 3 /1430، الرقم: 3716، ومسلم في الصحيح، کتاب صلاة العيدين، باب الرفعة في اللعب الذي لا معصية فيه في أيام العيد، 2 /607، 608، الرقم: 892، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب الغناء والدف،1 /612، الرقم: 1898، وابن حبان في الصحيح، 13 /180، 187، الرقم: 5871، 5877، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /224، الرقم: 20801، وأيضًا في شعب الإيمان، 4 /281، الرقم: 5110.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ (میرے گھر) تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں، جنگ بُعاث میں انصار کی بہادری کے گیت گا رہی تھیں۔ فرماتی ہیں کہ یہ (پیشہ ور) گانے والی نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجا؟ یہ عید کے دن کی بات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابو بکر! (رہنے دو) ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
’’اور امام مسلم کی روایت میں ہے کہ اس گھر میں دو باندیاں تھیں، جو دف بجا (کر گا) رہی تھیں۔‘‘
امام مسلم کی ایک اور روایت میں ہے: ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کپڑا اُوڑھے آرام فرما تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اُنہیں ڈانٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چہرہ انور سے کپڑا ہٹا کر فرمایا: ابو بکر! انہیں رہنے دو یہ ایام عید ہیں۔‘‘
38 /9. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: إِنْ کَانَتِ الْأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَتَنْطَلِقُ بِه حَيْثُ شَائَتْ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب الکبر، 5 /2255، الرقم: 5724، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /98، الرقم: 11960، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 7 /202، والنووي في رياض الصالحين /171، الرقم: 171.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے اگر کوئی لونڈی (اپنے کسی کام کے سلسلے میں) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہیں لے جانا چاہتی تو لے جاتی تھی۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
39 /10. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، أَنَّ امْرَأَةً کَانَ فِي عَقْلِهَا شَيئٌ، فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ لِي إِلَيْکَ حَاجَةً، فَقَالَ: يَا أُمَّ فُـلَانٍ، انْظُرِي أَيَّ السِّکَکِ شِئْتِ، حَتّٰی أَقْضِيَ لَکِ حَاجَتَکِ، فَخَلَا مَعَهَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ حَتّٰی فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
10: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الفضائل، باب قرب النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الناس وتبرکهم به، 4 /1812، الرقم: 2326، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الجلوس في الطرقات، 4 /257، الرقم: 4818، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /119، الرقم: 12218.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ خرابی تھی، وہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُم فلاں! جس گلی میں چاہو انتظار کرو، میں تمارا مسئلہ حل کروں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ میں اُس سے بات کی اور اُس کی حاجت پوری کر دی۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
40 /11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعُوْدُنِي وَأَنَا بِمَکَّةَ وَهُوَ يَکْرَهُ أَنْ يَمُوْتَ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرَ مِنْهَا، قَالَ: يَرْحَمُ اللهُ ابْنَ عَفْرَأءَ، قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أُوْصِي بِمَالِي کُلِّه؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَالشَّطْرُ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: الثُّلُثُ؟ قَالَ: فَالثُّلُثُ وَالثُّلُثُ کَثِيْرٌ، إِنَّکَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَکَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَکَفَّفُوْنَ النَّاسَ فِي أَيْدِيْهِمْ، وَإِنَّکَ مَهْمَا أَنْفَقْتَ مِنْ نَفَقَةٍ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ، حَتَّی اللُّقْمَةُ الَّتِي تَرْفَعُهَا إِلٰی فِي امْرَأَتِکَ، وَعَسَی اللهُ أَنْ يَرْفَعَکَ فَيَنْتَفِعَ بِکَ نَاسٌ، وَيُضَرَّ بِکَ أخَرُوْنَ، وَلَمْ يَکُنْ لَه يَوْمَئِذٍ إِلَّا ابْنَةٌ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الوصايا، باب أن يترک ورثته أغنياء خير من أن يتکفَّفوا الناس، 3 /1006، الرقم: 2591، 2593، وأيضًا فيکتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : اللهم أمض لأصحابي هجرتهم، 3 /1431، الرقم: 3721، ونحوه الرقم: 4147، 5039، 5335، 5344، 6012، 6352، ومسلم في الصحيح،کتاب الوصية، باب الوصية بالثلث، 3 /1250، الرقم: 1628، ومالک في الموطأ،کتاب الوصية، باب الوصية في الثلث لا تتعدي، 2 /763، الرقم: 1456، وعبد الرزاق في المصنف، 9 /64، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 /33، الرقم: 1147، وأبو يعلی في المسند، 2 /145، الرقم: 834، والبيهقي في السنن الکبری، 6 /268، الرقم: 12345.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے، اور اُس وقت میں مکہ مکرمہ میں تھا، (راوی بیان کرتے ہیں) حضرت سعد رضی اللہ عنہ اُس جگہ مرنا ناپسند فرماتے تھے جہاں سے اُنہوں ہجرت کی تھی. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ابن عفراء پر رحم فرمائے۔ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں) میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! کیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: نصف کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ میں نے عرض کیا: تہائی مال کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال سے درست ہے، لیکن تہائی مال بھی بہت زیادہ ہے۔ اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار چھوڑ کر جاؤ تو یہ اُنہیں غریب چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور جو کچھ تم راہِ خدا میں خرچ کرو وہ صدقہ ہے، یہاں تک کہ جو لقمہ اُٹھا کر تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو، وہ بھی صدقہ ہے۔ عنقریب اللہ تعالیٰ تمہیں اعلیٰ منصب عطا فرمائے گا، بہت سارے لوگ تم سے نفع اُٹھائیں گے جبکہ بعض لوگ نقصان بھی اُٹھائیں گے۔ (بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا حضرت سعد رضی اللہ عنہ فوج کے سپہ سالار بنے اور بہت سارے لوگ ان کی فتوحات سے مالِ غنیمت سے مستفید ہوئے، کئی مشرف بہ اسلام ہوئے جبکہ کفار آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے اور وہ نقصان اُٹھانے والوں میں سے تھے)۔ اُن دنوں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی صرف ایک ہی صاحبزادی تھی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
41 /12. وفي رواية: عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَه: إِنَّکَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ إِلَّا أُجِرْتَ عَلَيْهَا، حَتّٰی مَا تَجْعَلُ فِي فَمِ امْرَأَتِکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
12: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الإيمان، باب ما جاء أن الأعمال بالنية والحِسبة، ولکل امرء ما نوی، 1 /30، الرقم: 56، وأيضاً في کتاب الجنائز، باب رِثَاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم سعد بن خولة، 1 /435، الرقم: 1233، ومسلم في الصحيح،کتاب الوصية، باب الوصية بالثلث، 3 /1250، الرقم: 1628، والنسائي في السنن الکبری، 5 /383، الرقم: 9206، والطبراني في المعجم الکبير، 7 /292، الرقم: 7171، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /41، الرقم: 3000.
’’ایک اور روایت میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم جو کچھ خرچ کرتے ہو کہ جس سے تمہارا مقصود رضائے الٰہی ہو تو تمہیں اس پر اجر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ تم اپنی بیوی کے منہ میں جو لقمہ ڈالتے ہو (اس پر بھی تمہیں اجر دیا جاتا ہے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
42 /13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِي؟ قَالَ: أُمُّکَ، قَال: ثُمَّ مَنْ؟ قَال: ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أُمُّکَ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: ثُمَّ أَبُوْکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب من أحق الناس بحسن الصحبة، 5 /2227، الرقم: 5626، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والاداب، باب بر الوالدين وأنهما أحق به، 4 /1974، الرقم: 2548، وابن ماجه في السنن،کتاب الأدب، باب بر الوالدين، 2 /1207، الرقم: 6094، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /5، الرقم: 20060، وابن حبان في الصحيح، 2 /175، الرقم: 433، والطبراني في المعجم الکبير، 19 /405، الرقم: 961، وأبو يعلی في المسند، 10 /482، الرقم: 6094، وابن راهويه في المسند،1 /216، الرقم: 172، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /179، الرقم: 7552.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں سے میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہاری والدہ۔ اس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہاری والدہ ہے۔ اُس نے عرض کیا: پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہارا والد ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
43 /14. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَارِسِيًّا، کَانَ طَيِّبَ الْمَرَقِ، فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ: وَهٰذِه لِعَائِشَةَ؟ فَقَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَهٰذِه؟ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَهٰذِه، قَالَ: نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتّٰی أَتَيَا مَنْزِلَه. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
14: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الأشربة، باب ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام، 3 /1609، الرقم: 2037، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /123، الرقم: 12265.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، سو ایک دن اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سالن بنایا، پھر دعوت دینے کے لئے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اور یہ دعوت عائشہ کے لئے بھی ہے؟ تو اُس نے عرض کیا: نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (میں بھی نہیں آ سکتا) اس شخص نے دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ بھی (یعنی عائشہ بھی) تو اس آدمی نے عرض کیا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر انکار فرما دیا۔ اُس شخص نے تیسری بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (عائشہ) بھی، اُس نے تیسری بار کہا: ہاں، یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اُٹھے اور اُس شخص کے گھر تشریف لے گئے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
44 /15. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِه، فَأَيَتُهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا مَعَه، وَکَانَ يَقْسِمُ لِکُلِّ امْرَأَةٍ مِنْهُنَّ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا، غَيْرَ أَنَّ سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ رضي الله عنها وَهَبَتْ يَوْمَهَا وَلَيْلَتَهَا لِعَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم تَبْتَغِي بِذَالِکَ رِضَا رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الهبة وفضلها، باب هبة المرأة لغير زوجها وعتقها، 2 /916، الرقم: 2453، وأيضًا فيکتاب الشهادات، باب في المشکلات، 2 /955، الرقم: 2542، وأبو داود في السنن، کتاب النکاح، باب في القسم بين النساء 2 /243، الرقم: 2138، وابن ماجه في السنن،کتاب الأحکام، باب القضاء بالقرعة، 2 /786، الرقم: 2347، والنسائي في السنن الکبری، 5 /292، الرقم: 8923، والدارمي في السنن، 2 /194، الرقم: 2208، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /117، الرقم: 24903.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سفر کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ سو جس کا قرعہ نکلتا اُسے اپنے ساتھ لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے درمیان ہر ایک کے لئے ایک رات اور دن کی باری مقرر فرمائی ہوئی تھی، ماسوائے حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کے کہ اُنہوں نے اپنی باری اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی ہوئی تھی اور اِس سے اُن کا مقصود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضامندی تھی۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابو داود، ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
45 /16. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا کُنْتِ عَلَيَّ غَضْبٰی. قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْرِفُ ذَالِکَ؟ فَقَالَ: أَمَّا إِذَا کُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً فَإِنَّکِ تَقُوْلِيْنَ: لَا، وَرَبِّ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَإِذَا کُنْتِ غَضْبٰی قُلْتِ: لَا، وَرَبِّ إِبْرَاهِيْمَ، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ، وَاللهِ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَکَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب النکاح، باب غيرة النساء ووجدهن، 5 /2004، الرقم: 4930، ومسلم في الصحيح،کتاب فضائل الصحابة، باب فضل عائشة رضی اللہ عنها، 4 /1890، الرقم: 2439، وابن حبان في الصحيح، 16 /49، الرقم: 7112، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /61، الرقم: 24363، والنسائي في السنن الکبری، 5 /365، الرقم: 9156، وأبو يعلی في المسند، 8 /298، 299، الرقم: 4893، 4894، والطبراني في المعجم الکبير، 23 /46، الرقم: 122.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا: (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا: (اے عائشہ!) میں بخوبی جان لیتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب خفا ہوتی ہو۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) یہ بات آپ کس طرح معلوم کر لیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: ربّ محمد کی قسم! اور جب تم خفا ہوتی ہو تو یوں کہتی ہو: ربِ ابراہیم کی قسم! حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اُس وقت میں صرف آپ کا نام ہی تو چھوڑتی ہوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
46 /17. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : خَيْرُکُمْ خَيْرُکُمْ لِأَهْلِه، وَأَنَا خَيْرُکُمْ لِأَهْلِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
17: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب المناقب، باب فضل أزواج النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 /709، الرقم: 3895، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النسائ، 1 /636، الرقم: 1977، وابن حبان في الصحيح، 9 /484، الرقم: 4177، والبزار في المسند، 3 /240، الرقم: 1028، والديلمي في مسند الفردوس، 2 /170، الرقم: 2853، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /318، الرقم: 1312.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابن ماجہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
47 /18. عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا حَقُّ زَوْجَةِ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوْهَا إِذَا اکْتَسَيْتَ أَوِ اکْتَسَبْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
18: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب النکاح، باب في حق المرأة علی زوجها، 2 /244، الرقم: 2142، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب حق المرأة علی الزوج، 1 /593، الرقم: 1850، والنسائي في السنن الکبری، 5 /373، 6 /323، الرقم: 9171، 11104، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /447، الرقم: 20027، وعبد الرزاق في المصنف، 7 /148، الرقم: 12583، وابن حبان في الصحيح، 9 /482، الرقم: 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 19 /427، الرقم: 1038، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /305، الرقم: 14556، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3 /32، الرقم: 2968، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 /272.
’’حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کسی شخص پر اُس کی بیوی کا کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم خود کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب تم پہنو یا کماؤ تو اُسے بھی پہناؤ، اُس کے منہ پر نہ مارو، اُس سے برے لفظ نہ کہو اور اُسے خود سے الگ نہ کرو مگر گھر کے اندر ہی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
48 /19. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ فَيَعْدِلُ، وَيَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ هٰذَا قَسْمِي فِيْمَا أَمْلِکُ، فَـلَا تَلُمْنِي فِيْمَا تَمْلِکُ وَلَا أَمْلِکُ. قَالَ أَبُوْ دَاوُدَ: يَعْنِي الْقَلْبَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
19: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب النکاح، باب في القسم بين النساء، 2 /242، الرقم: 2134، والدارمي في السنن،کتاب النکاح، باب في القسمة بين النساء، 2 /193، الرقم: 2207، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /144، الرقم: 25154، وابن حبان في الصحيح، 10 /5، الرقم: 4205، وابن أبي شيبة في المصنف، 4 /37، الرقم: 17541، والحاکم في المستدرک، 2 /204، الرقم: 2761، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /298، الرقم: 14521.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اُمہات المؤمنین میں) انصاف سے باریاں تقسیم کرتے اور دعا فرماتے: یا اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس کا مجھے اختیار ہے اور مجھے اُس پر ملامت نہ کرنا جو تیرے اختیار میں ہے اور میں اُس پر اختیار نہیں رکھتا۔ (امام ابو داود نے فرمایا: یعنی دل پر)۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، دارمی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
49 /20. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّهَا کَانَتْ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، قَالَتْ: فَسَابَقْتُهُ فَسَبَقْتُهُ عَلٰی رِجْلَيَّ، فَلَمَّا حَمَلْتُ اللَّحْمَ سَابَقْتُهُ، فَسَبَقَنِي، فَقَالَ: هٰذِه بِتِلْکَ السَّبْقَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
20: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الجهاد، باب في السبق علی الرجل، 3 /29، الرقم: 2578، وابن ماجه في السنن،کتاب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، 1 /531، الرقم: 1979، والنسائي في السنن الکبری، 5 /304، الرقم: 8943، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /39، الرقم: 24164، وابن حبان في الصحيح، 10 /545، الرقم: 4691، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /531، الرقم: 33588، والطبراني في المعجم الکبير، 23 /47، الرقم: 125، والبيهقي في السنن الکبری،10 /18، الرقم: 19544.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت بیان کرتی ہیں کہ وہ ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھیں۔ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آگے نکل گئی۔ کچھ عرصہ بعد جب میرا وزن بڑھ گیا تو میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دوڑ لگائی، اس دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ پر سبقت لے گئے اور فرمایا: (عائشہ!) یہ اُس جیت کا بدلہ ہو گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
50 /21. عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيْرٍ رضي الله عنهما قَالَ: اسْتَأْذَنَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَمِعَ صَوْتَ عَائِشَةَ عَالِيًا، فَلَمَّا دَخَلَ تَنَاوَلَهَا لِيَلْطِمَهَا، وَقَالَ: أَلَا أَرَاکِ تَرْفَعِيْنَ صَوْتَکِ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَحْجِزُه، وَخَرَجَ أَبُوْ بَکْرٍ مُغْضَبًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ خَرَجَ أَبُوْ بَکْرٍ: کَيْفَ رَأَيْتِنِي أَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ، قَالَ: فَمَکَثَ أَبُوْ بَکْرٍ أَيَامًا، ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَجَدَهُمَا قَدِ اصْطَلَحَا، فَقَالَ لَهُمَا: أَدْخِـلَانِي فِي سِلْمِکُمَا کَمَا أَدْخَلْتُمَانِي فِي حَرْبِکُمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : قَدْ فَعَلْنَا، قَدْ فَعَلْنَا.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
21: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب ما جاء في المزاح، 4 /300، الرقم: 4999، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /271، 272، الرقم: 18418، والنسائي في السنن الکبری، 5 /139، 356، الرقم: 8495، 9155، والبزار في المسند، 8 /223، الرقم: 3275، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /126.
’’حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی۔ اور جب اندر داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلند آواز سے بات کرتے سنا اُنہوں نے حضرت عائشہ کو تھپڑ مارنے کے لئے بڑھے اور کہا: کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آواز بلند کر رہی ہو، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں روک دیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ غصے کی حالت میں باہر چلے گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جانے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (حضرت عائشہ سے مزاحاً) فرمایا: دیکھا میں نے تمہیں اِس آدمی سے کیسے بچا لیا؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کچھ دنوں کے بعد دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی اور دونوں کو باہم شیر و شکر پایا تو عرض کیا: مجھے اپنی صلح میں بھی شامل کیجئے۔ جیسے اپنی لڑائی میں شامل کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہم نے شامل کیا، ہم نے شامل کیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
51 /22. عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رِبَاحٍ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ وَجَابِرَ بْنَ عُمَيْرٍ الأَنْصَارِيَيْنِ رضي الله عنهما يَرْمِيَانِ، قَالَ: فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ صَاحِبُهُ: أَکَسَلْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلآخَرِ: أَمَا سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: کُلُّ شَيئٍ لَيْسَ مِنْ ذِکْرِ اللهِ فَهُوَ لَعِبٌ، لَا يَکُوْنُ أَرْبَعَةٌ: مُـلَاعَبَةُ الرَّجُلِ امْرَأَتَه، وَتَأْدِيْبُ الرَّجُلِ فَرَسَه، وَمَشْيُ الرَّجُلِ بَيْنَ الْغَرَضَيْنِ، وَتَعَلُّمُ الرَّجُلِ السَّبَاحَةَ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. وَقَالَ الْمُنْذِرِيُّ: إِسْنَادُه جَيِّدٌ: وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ خَـلَا عَبْدِ الْوَهَابِ بْنِ بَخْتٍ وَهُوَ ثِقَةٌ.
22: أخرجه النسائي في السنن الکبری، أبواب الملاعبة، باب ملاعبة الرجل زوجته، 5 /302، 303، الرقم: 8939، 8940، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /118، 119، الرقم: 8147، والبيهقي في السنن الکبری، 10 /15، الرقم: 19525، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 /269، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /180، الرقم: 2014، والسيوطي في الدر المنثور، 4 /86.
’’حضرت عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ اور جابر بن عمیر انصاری رضی اللہ عنہما کو تیر اندازی کرتے دیکھا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر اُن میں سے ایک بیٹھ گیا تو اسے اس کے دوست نے کہا: کیا تھک گئے ہو؟ اُس نے کہا: ہاں، پھر اُن میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: کیا تم نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے نہیں سنا: ہر وہ چیز جو اللہتعالیٰ کا ذکر نہیں ہے وہ فضول ہے، سوائے چار چیزوں کے: آدمی کا اپنی بیوی کے ساتھ لاڈ پیار کرنا، (جنگ کی خاطر) انسان کا اپنے گھوڑے کو سدھانا، دو اُمور کی سر انجام دہی کے لئے انسان کا چلنا اور انسان کا تیراکی سیکھنا۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام منذری نے فرمایا: اس کی سند جید ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔سو ائے عبد الوہاب بن بخت کے اور وہ بھی ثقہ ہے۔
52 /23. عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ عَلٰی عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَقَالَتْ لِعُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ قَدْ آنَ لَکَ أَنْ تَزُوْرَنَا، فَقَالَ: أَقُوْلُ يَا أُمَّه کَمَا قَالَ الأَوَّلُ: زُرْ غِبًّا، تَزْدَدْ حُبًّا، قَالَ: فَقَالَتْ: دَعَوْنَا مِنْ رَطَانَتِکُمْ هٰذِه، قَالَ ابْنُ عُمَيْرٍ: أَخْبَرِيْنَا بِأَعْجَبِ شَيئٍ رَأَيْتِهِ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ: فَسَکَتَتْ، ثُمَّ قَالَتْ: لَمَّا کَانَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي. قَالَ: يَا عَائِشَةُ، ذَرِيْنِي أَتَعَبَّدُ اللَّيْلَةَ لِرَبِّي. قُلْتُ: وَاللهِ، إِنِّي أُحِبُّ قُرْبَکَ، وَأُحِبُّ مَا يَسُرُّکَ. قَالَتْ: فَقَامَ فَتَطَهَرَ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي. قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِي حَتّٰی بَلَّ حِجْرَه، قَالَتْ: وَکَانَ جَالِسًا فَلَمْ يَزَلْ يَبْکِي حَتّٰی بَلَّ لِحْيَتَه. قَالَتْ: ثُمَّ بَکَی حَتّٰی بَلَّ الْأَرْضَ، فَجَاءَ بِـلَالٌ يُؤْذِنُه بِالصَّلَاةِ، فَلَمَّا رَأه يَبْکِي. قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، تَبْکِي، وَقَدْ غَفَرَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ: أَفَـلَا أَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا؟ لَقَدْ نَزَلَتْ عَلَيَّ اللَّيْلَةَ آيَةٌ وَيْلٌ لِمَنْ قَرَأَهَا وَلَمْ يَتَفَکَّرْ فِيْهَا: {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ} [البقرة، 2: 164] الايَةَ، کُلَّهَا. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ.
23: أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب التوبة، ذکر البيان بأن المرء عليه إذا تخلی لزوم البکاء، 2 /386، الرقم: 620، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /243، الرقم: 2255، والهيثمي في موارد الظمأن، 1 /139، الرقم: 523، وأبو الشيخ في أخلاق النبي صلی الله عليه وآله وسلم / 153-154.
’’حضرت عطا بن اَبی رباح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبید بن عمیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے عبید بن عمیر سے فرمایا: اب وقت ملا ہے ہماری ملاقات کے لئے؟ اُنہوں نے عرض کیا: اے میری اماں جان! میں وہی کہتا ہوں جو پہلے لوگوں نے کہا تھا کہ کبھی کبھار ملا کرو، اِس سے محبت بڑھتی ہے۔ اِس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم نے تمہاری اِس عجمی زبان کی بدولت ہی تمہیں دعوت دی، حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ نے اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں جو سب سے حیران کن بات دیکھی اُس کے بارے میں مجھے بتائیے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ کچھ دیر خاموش رہیں پھر فرمایا: جن راتوں میں (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام) میرے پاس تھا ان میں سے ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عائشہ! مجھے الگ چھوڑ دو کہ میں آج رات اپنے رب کی عبادت کروں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) خدا کی قسم! میں آپ کے قرب کو پسند کرتی ہوں اور اس چیز کو بھی پسند کرتی ہوں جو آپ کو پسند ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھے اور وضو کیا اور پھر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی۔ پھر فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما رہے اور روتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک (آنسوؤں سے) تر ہو گئی۔ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلسل روتے رہے یہاں تک کہ زمین بھی تر ہو گئی پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں نماز فجر کی اطلاع دینے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں حالانکہ (آپ کے توسل سے تو) آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں (اپنے رب کا) شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: آج رات مجھ پر ایک آیت نازل ہوئی ہے۔ اس کے لئے بربادی ہے جس نے اسے پڑھا اور اس میں غور و فکر نہ کیا۔ (وہ آیت یہ ہے:) {إِنَّ فِيخَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ} ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخر تک مکمل آیت بیان کی۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وفي رواية عنها: قَالَتْ: أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَقُوْمُ مِنَ اللَّيْلِ حَتّٰی تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هٰذَا يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ: أَفَـلَا أُحِبُّ أَنْ أَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.(1)
(1) أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب تفسير القرآن، باب قوله: ليغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تأخر، 4 /1830، الرقم: 4557، وأيضًا عن المغيرة رضی الله عنه فيکتاب الرقاق، باب الصبر عن محارم اللہ، 5 /2375، ومسلم في الصحيح،کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب إکثار الأعمال والاجتهاد في العبادة، 4 /2172، الرقم: 2820، والترمذي عن المغيرة رضی الله عنه في السنن،کتاب الصلاة، باب ما جاء في الاجتهاد في الصلاة، 2 /268، الرقم: 412، وقال: حديث المغيرة بن شعبة حديث حسن صحيح.
’’ایک روایت میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے وقت اس درجہ قیام فرما ہوتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں قدم مبارک پھٹ جاتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب کہ آپ کے سبب اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف فرما دیئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا مجھے یہ پسند نہیں کہ میں (اللہ تعالیٰ کا) شکر گزار بندہ بنوں؟‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved