اسلام میں عمر رسیدہ اور معذور افراد کے حقوق

باب دوم

معذور اَفراد کے حقوق
(Special Persons' rights)

معذور اَفراد انسانی معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو عام افراد کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ معذوروں کو نظر انداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابلِ احترام مقام سے محروم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسلام تکریم انسانیت کا علمبردار دین ہے۔ چونکہ معذور افراد معاشرے میں اپنی شناخت اور وقار کے لیے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں، اس لیے اسلام نے اس بارے میں خصوصی تعلیمات عطا کی ہیں۔ یہاں یہ امر واضح رہے کہ وہ تمام حقوق جو عام اَفرادِ معاشرہ کو میسر ہیں معذور افراد بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہوئے ان حقوق کے مستحق ہیں۔ تاہم عام افراد کو میسر حقوق کے علاوہ اسلام نے معذوروں کو جو حقوق عطا فرمائے ہیں ان کی تفصیل درج ذیل ہے :

1۔ خصوصی توجہ کا حق

اسلام نے زندگی کے معاملات میں ہر فرد کو بلا تمیزِ رنگ و نسل یا سماجی مرتبہ کے مساوی حیثیت عطا کی ہے۔ یہ عام معاشرتی رویہ ہے کہ معذور افراد کو زندگی کے عام معاملات اور میل جول میں نظر انداز کرنے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ قرآن حکیم نے اس روش کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے نفسِ انسانیت کو مستحق عزت و وقار قرار دیا ہے۔ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رؤسائے مشرکین کو تبلیغ فرما رہے تھے کہ اتنے میں نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ دوسروں سے مصروفِ گفتگو ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ نہ ہو سکے تو اس پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں :

عَبَسَ وَتَوَلَّىO أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىO وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىO أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىO

’’ان کے چہرۂ (اقدس) پر ناگواری آئی اور رخِ (انور) موڑ لیاo اس وجہ سے کہ ان کے پاس ایک نابینا آیا (جس نے آپ کی بات کو ٹوکا)o اور آپ کو کیا خبر شاید وہ (آپ کی توجہ سے مزید) پاک ہو جاتاo یا (آپ کی) نصیحت قبول کرتا تو نصیحت اس کو (اور) فائدہ دیتیo‘‘

القرآن، عبس، 80 : 1 - 4

اِن آیات مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمت کو یہ تعلیم دی گئی کہ :

  1. معذور افراد دیگر افرادِ معاشرہ کی نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہیں، دوسرے افراد کو ان پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔
  2. عزت و وقار کے مرتبے کا تعین سماجی یا معاشرتی حیثیت کو دیکھ کر نہ کیا جائے بلکہ اس کے لیے ذاتی کردار، تقویٰ، اصلاح طلبی اور نیکی کے جذبے کو معیار بنایا جائے۔

2۔ قانونِ معاشرت کے نفاذ میں اِستثناء کا حق

اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح معاشرتی زندگی کے لیے بھی قانون اور نظام عطا کیا ہے۔ روز مرہ کے رہن سہن اور رشتہ داروں و دوست احباب کے گھروں میں آنے جانے کے لیے واضح ضابطے عطا کیے گئے ہیں۔ تاہم یہ امر قابل غور ہے کہ قرآن حکیم میں معذوروں کو ان ضوابط سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے :

لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى أَنفُسِكُمْ أَن تَأْكُلُوا مِن بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُم مَّفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَنفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونO

’’اندھے پر کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے اور نہ خود تمہارے لئے (کوئی مضائقہ ہے) کہ تم اپنے گھروں سے (کھانا) کھا لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں (یعنی جن میں ان کے مالکوں کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرف کی اجازت ہے) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (کھانا کھا لینے میں مضائقہ نہیں)، تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سب کے سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ، پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے، اس طرح اللہ اپنی آیتوں کو تمہارے لئے واضح فرماتا ہے تاکہ تم (احکامِ شریعت اور آدابِ زندگی کو) سمجھ سکوo‘‘

القرآن، النور، 24 : 61

3۔ جہاد اور دِفاعی ذِمّہ داریوں سے اِستثناء کا حق

قرآن حکیم نے اسلامی ریاست کے فروغ اور غلبہ دین حق کی جدوجہد کے لیے جہاد میں حصہ لینے کو ایمان و استقامت کی جانچ کے معیار کے طور پر بیان کیا اور اس بنیادی ذمہ داری سے راہِ فرار اختیار کرنے کو عذاب الیم کا سبب قرار دیا۔ تاہم معذور اَفراد کو اس کلیدی اور بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا :

لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَن يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًاO

’’(جہاد سے رہ جانے میں) نہ اندھے پر کوئی گناہ ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی گناہ ہے اور نہ (ہی) بیمار پر کوئی گناہ ہے، اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے گا وہ اسے بہشتوں میں داخل فرما دے گا جن کے نیچے نہریں رواں ہوں گی، اور جو شخص (اطاعت سے) منہ پھیرے گا وہ اسے درد ناک عذاب میں مبتلا کردے گاo‘‘

القرآن، الفتح، 48 : 17

گویا قانونِ اسلام نے معذوروں کے ناقابل برداشت ذمہ داریوں سے مستثنیٰ قرار دیے جانے کو ان کا بنیادی حق قرار دیا۔ اسلام کی تعلیمات سے یہ امر واضح ہے کہ :

  1. اسلام معذور اَفراد کو معاشرے کا قابلِ احترام اور باوقار حصہ بنانے کی تلقین کرتا ہے۔
  2. اسلام اس اَمر کی تعلیم دیتا ہے کہ معذور اَفراد کو خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں یہ احساس قطعاً نہ ہونے دیا جائے کہ انہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں نظر انداز کیا جارہا ہے۔
  3. معاشرتی اور قومی زندگی میں ان پر کسی بھی ایسی ذمہ داری کا بوجھ نہ ڈالا جائے جو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہو۔
  4. اسلام کے عطا کردہ جملہ حقوق کی عطائیگی میں معذوروں کوترجیحی مقام دیا جائے تاکہ معاشرے میں ان کے اِستحصال یا محرومی کی ہر راہ مسدود ہوجائے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved