شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے پیش کردہ قرارداد امن

دہشت گردوں کے خلاف حکومت کی مدد عوام پر لازم ہے

آرٹیکل نمبر 24

ہم اِس قراردادِ اَمن کی تمام شقوں کے فوری نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان پر سختی سے کاربند رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اَمن و محبت کے اِس عالم گیر مشن کا حصہ بننے کا اِعلان کرتے ہیں۔

دہشت گردوں کے خلاف حکومت کی مدد عوام پر لازم ہے

جان و مال کی حفاظت حکومتِ وقت کا فرض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ حکومت کی دہشت گردوں کی کارروائیوں کی مکمل تائید کریں۔ فتاویٰ تاتارخانیۃ میں علامہ عالم بن العلاء الاندریتی الدہلوی (م786ھ) نے یہ فتویٰ دیاہے:

اس بات کا جاننا ازحد ضروری ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ دہشت گرد اور باغی عناصر جو مسلم ریاست کے خلاف خروج یعنی مسلح جد و جہد کرتے ہیں اور عدالتی احکامات کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہ عسکری طور پر تیاری کر لیں اورمسلح کارروائی کے لیے جمع ہو جائیں تو حکومت کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ان دہشت گرد باغیوں کے خلاف جنگ و قتال کرے اور اس ملک کے ہر اُس شہری پر حکومت کی اِعانت و حمایت لازم ہو جاتی ہے جو کسی حوالے سے بھی جنگ کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہے۔

اندريتي، الفتاوی التاتارخانية، 4: 172

دہشت گردی کا مسئلہ ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ لہٰذا پوری قوم اس کے خلاف یکجا ہو کر جد و جہد کرے گی تب ہی کامیابی میسر آئے گی۔ اس سلسلہ میں ہر شخص کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہرممکن جد و جہد کرنا ہوگی۔

اِنفرادی سطح پر ہماری ذمہ داریاں

  1. حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحکامات کی روشنی میں ایک حقیقی مسلمان کی علامات کا عملی نمونہ یعنی اَمن و سلامتی کا پیکر بنیں۔
  2. اپنی ذات، گھر، خاندان اور کاروبار ہر جگہ تحمل اور برداشت کا رویہ اپنائیں۔
  3. اَفرادِ معاشرہ کا تعلق جس بھی قوم، برادری، رنگ و نسل یا مذہب سے ہو، اس کا احترام کریں۔
  4. ہرقسم کی لڑائی، فتنہ و فساد اور ظلم سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔

ملکی و قومی سطح پر ہماری ذمہ داریاں

  1. ایسا مبلغ، مسجد یا مدرسہ جہاں سے تنگ نظری اور اِنتہا پسندی کا درس دیا جارہا ہو، لوگوں کو کافرو مشرک بنانے کے فتوے دیے جا رہے ہو ں؛ خود کو، اپنی اولاد و خاندان اور دوست اَحباب کو ان سے دور رکھیں۔
  2. ایسی مسجد، مدرسہ یا مبلغ کی مالی خدمت نہ کریںجو بالواسطہ یا براہِ راست دہشت گردی یا دہشت گردوں کی حمایت کر رہے ہوں۔
  3. کفر و شرک کے فتاویٰ پر مشتمل کسی قسم کے لٹریچر کی اشاعت میں کسی طرح کی مدد فراہم نہ کریں۔
  4. اپنے گرد و نواح پر نظررکھیں۔ مکان کرایہ پر دیتے ہوئے کرایہ دار کے مکمل کوائف اور شخصی ضمانت ضرور لیں۔
  5. وہ تنظیمیں اور جماعتیں جنہیں حکومت نے کالعدم قرار دیا ہے ان کی کسی تقریب یا جلسے جلوس میں شریک نہ ہوں۔
  6. کالعدم تنظیمیں کسی بھی دوسرے نام پر کسی بھی مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور ہنگامی خدمت کے نام پر چندہ مانگیں تو انہیں ہر گز نہ دیا جائے۔
  7. Peace Education Programme کا عملی حصہ بنیں اور معاشرے میں اَمن کے فروغ کے داعی بنیں۔
  8. ایسی تمام تنظیموں کی نقل و حرکت اور ملک دشمن سرگرمیوں سے آگاہی پر فوراً حکومت کے اِنتظامی اداروں کو آگاہ کریں اور براهِ راست ان سے الجھنے یا مقابلہ کرنے سے گریز کریں۔
  9. حکومت کی طرف سے فراہم کردہ ٹیلی فون نمبرز پر مشکوک سرگرمیوں کی فوراً اطلاع کریں۔

دہشت گردی کا عذاب گزشتہ تیس سالوں سے ہم پر مسلط ہے۔ دہشت گردوں کی طرف سے برپا کی گئی جنگ سے وطنِ عزیز میں ستر ہزار سے زائد افراد قربان ہو چکے ہیں۔ پورا ملک حالتِ جنگ سے دوچار ہے۔ ملک کے بیشتر وسائل قوم کو سکیورٹی فراہم کرنے پر خرچ ہو رہے ہیں۔ دہشت گرد آئے روز تخریبی کارروائیاں کر کے حکومت اور مسلح افواج کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔ اگر ہم بحیثیتِ قوم اپنے دشمن کا ہر سطح پر مقابلہ نہیں کریں گے تو مزید بد ترین حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد احادیث مقدسہ میں فرمایا تھا کہ اگر بحیثیت قوم مسلمانوں نے برائی کے خاتمے کی جد و جہد ترک کر دی جائے توان پر عذاب مسلط کر دیے جائیں گے۔

امام اَحمد بن حنبل، ترمذی اور ابن ماجہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے لیکن تمہاری پکار کو ردّ کر دیا جائے گا۔

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 5: 391، رقم: 23375
  2. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 4: 468، رقم: 2169
  3. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2: 1327، رقم: 4004

امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.

تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کردے گا۔ پھر تمہارے اچھے لوگ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔

  1. طبراني، المعجم الأوسط، 2:99، رقم: 1379
  2. ابن أبي شيبة، المصنف، 7:460، رقم: 37221

درج بالا اَحادیث سے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جو انفرادی زندگی کی آزمائشوں کا کفارہ بھی ہے اور دنیا میں عذابِ الٰہی کے راستے میں ڈھال بھی۔ اِس کو ترک کرنے سے قوم دنیوی عذاب کا شکار ہو جاتی ہے، دعاؤں کی قبولیت رک جاتی ہے اور ظالم و جابر، فاسق و فاجر، بدکردار اور خائن حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔

اگر ہم آج اپنے حالات کا جائزہ لیں تو یہ علامات ہمیں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، زمینی اور آسمانی آفات و بلیات کی کثرت ہے؛ بداَمنی، قتل و غارت گری، کرپشن، اَقربا پروری، چوری، مہنگائی، بے روزگاری اور پریشاں حالی، الغرض کون کون سے عذاب ہیں جنہوں نے ہمیں گھیر نہیں رکھا۔

  • آئیں! ہم اس موقع پر عہد کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق نہی عن المنکر (دہشت گردی کے خلاف جنگ) کریں گے تاکہ پاک سرزمین کو اِنتہا پسندوں اور دہشت گردوں سے پاک کر کے اَمن و سلامتی کا گہوارہ بنایا جا سکے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved