شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی طرف سے پیش کردہ قرارداد امن

آرٹیکل نمبر 14

آرٹیکل نمبر 14

فرقہ واریت، اِنتہا پسندی، تکفیریت اور دہشت گردی کے فروغ کا سبب بننے والے لٹریچر کی اِشاعت اور تقسیم پر کلیتاً پابندی عائد کی جائے۔

اِس حقیقت سے اِنکار ممکن نہیں کہ اِنتہا پسندی، فرقہ واریت اور تکفیریت معاشرے کے لیے زہرِ قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس معاشرے میں اِنتہا پسندی اپنے عروج پر ہو، فرقہ واریت کا فروغ عام ہو اور تکفیریت کا زہر اَذہان میں گھولا جا رہا ہو تو اس معاشرے کو دہشت گردی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ایک مسلک کے رہنما دوسرے مسلک کے رہنماؤں کو سر عام کافر، مشرک اور مرتد قرار دیتے ہوں تو ان حالات میں اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کا راستہ کبھی نہیں روکا جا سکتا۔

اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:

وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا اﷲَ عَدْوًم ا بِغَيْرِ عِلْمٍ.

اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اﷲ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اﷲ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔

الانعام، 6: 108

ربِ ذو الجلال نے قرآن مجید میں کفار کے جھوٹے خداؤں کو بُرا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے چہ جائیکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کفر کے فتوے لگائے اور اسے بُرا بھلا کہے۔ اَس اَمر کی یقینا پورے زور و شور سے نفی کرنا ہوگی؛ جیسا کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِاخِيْهِ: يَا کَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ احَدَهُمَا.

جس کسی نے اپنے(مسلمان)بھائی کو (اے کافر) کہ کر بلایا تو ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف کفر لوٹ آئے گا۔

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب من اکفر اخاه بغير تاويل فهو کما قال، 5: 2263، رقم: 5752
  2. مسلم، الصحيحِ، کتاب الإيمان، باب بيان حال إيمان من قال لاخيه المسلم کافر، 1: 79، رقم: 60

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ میں آقا e نے دوسرے مسلمان کو فقط کافر کہ کر بلانے پر وعید کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ آتاہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ فتویٰ ساز فیکٹریاں جہاں سے فتاویٰ کفر کا اِجراء ہوتا ہے، کلام و کتاب میں کفریہ فتووں کی بوچھاڑ ہوتی ہے ان کے لیے وعید کا عالم کیا ہوگا؟

اِسلام اَمن و سلامتی اور رواداری کا مذہب ہے جو کہ غیر مسلم اَہلِ کتاب کو یہ پیغام دیتا ہے:

قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍم بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ.

آپ فرما دیں: اے اَہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔

آل عمران، 3: 64

مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں اِسلام اور دیگر مذاہب کو مشترکہ معاملات پر اکٹھا ہونے پر زور دیا جا رہا ہے تو ایک خدا کو ماننے والے، ایک کلمہ پڑھنے والے، ایک نبی و رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماننے والے ایک جھنڈے کے نیچے کیوں جمع نہیں ہو سکتے؟ لا محالہ اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اسی میں ہے کہ تمام اَہلِ اِیمان اور اَہلِ اِسلام باہمی تعصبات و تنازعات کو بھلاتے ہوئے یک جان ہو کر اُمتِ مسلمہ کی بھلائی اور بہتری کے لیے کام کریں۔ اگر قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور تمام برائیوں کی جڑ اور بنیاد یعنی تکفیریت پر مکمل پابندی لگا دی جائے تو یقیناً یہ اِقدام نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اُمتِ مسلمہ میں اِنتہا پسندی کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

ا اس قراردادِ اَمن کے ذریعے ہم درد مندارنہ اپیل کرتے ہیں کہ پاکستان میں اگر دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو ان فتویٰ ساز فیکٹریوں کو بند کرنا ہوگا۔ اِنتہا پسندی، تکفیریت، بدعقیدگی، تنگ نظری پر مشتمل تمام لٹریچر کی ترسیل روکنا ہوگی اور وہ تمام مذہبی رہنما جو تکفیریت کا زہر پھیلا رہے ہیں ان کی زباں بندی کرنا ہوگی۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved