ہم اِس قراردادِ اَمن کی تمام شقوں کے فوری نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان پر سختی سے کاربند رہنے کا عہد کرتے ہیں اور اَمن و محبت کے اِس عالم گیر مشن کا حصہ بننے کا اِعلان کرتے ہیں۔
جان و مال کی حفاظت حکومتِ وقت کا فرض ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ حکومت کی دہشت گردوں کی کارروائیوں کی مکمل تائید کریں۔ فتاویٰ تاتارخانیۃ میں علامہ عالم بن العلاء الاندریتی الدہلوی (م786ھ) نے یہ فتویٰ دیاہے:
اس بات کا جاننا ازحد ضروری ہے کہ مسلمانوں میں سے وہ دہشت گرد اور باغی عناصر جو مسلم ریاست کے خلاف خروج یعنی مسلح جد و جہد کرتے ہیں اور عدالتی احکامات کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، ان کے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہ عسکری طور پر تیاری کر لیں اورمسلح کارروائی کے لیے جمع ہو جائیں تو حکومت کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ان دہشت گرد باغیوں کے خلاف جنگ و قتال کرے اور اس ملک کے ہر اُس شہری پر حکومت کی اِعانت و حمایت لازم ہو جاتی ہے جو کسی حوالے سے بھی جنگ کی صلاحیت و استطاعت رکھتا ہے۔
اندريتي، الفتاوی التاتارخانية، 4: 172
دہشت گردی کا مسئلہ ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ لہٰذا پوری قوم اس کے خلاف یکجا ہو کر جد و جہد کرے گی تب ہی کامیابی میسر آئے گی۔ اس سلسلہ میں ہر شخص کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہرممکن جد و جہد کرنا ہوگی۔
دہشت گردی کا عذاب گزشتہ تیس سالوں سے ہم پر مسلط ہے۔ دہشت گردوں کی طرف سے برپا کی گئی جنگ سے وطنِ عزیز میں ستر ہزار سے زائد افراد قربان ہو چکے ہیں۔ پورا ملک حالتِ جنگ سے دوچار ہے۔ ملک کے بیشتر وسائل قوم کو سکیورٹی فراہم کرنے پر خرچ ہو رہے ہیں۔ دہشت گرد آئے روز تخریبی کارروائیاں کر کے حکومت اور مسلح افواج کو کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔ اگر ہم بحیثیتِ قوم اپنے دشمن کا ہر سطح پر مقابلہ نہیں کریں گے تو مزید بد ترین حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد احادیث مقدسہ میں فرمایا تھا کہ اگر بحیثیت قوم مسلمانوں نے برائی کے خاتمے کی جد و جہد ترک کر دی جائے توان پر عذاب مسلط کر دیے جائیں گے۔
امام اَحمد بن حنبل، ترمذی اور ابن ماجہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے لیکن تمہاری پکار کو ردّ کر دیا جائے گا۔
امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کردے گا۔ پھر تمہارے اچھے لوگ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔
درج بالا اَحادیث سے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جو انفرادی زندگی کی آزمائشوں کا کفارہ بھی ہے اور دنیا میں عذابِ الٰہی کے راستے میں ڈھال بھی۔ اِس کو ترک کرنے سے قوم دنیوی عذاب کا شکار ہو جاتی ہے، دعاؤں کی قبولیت رک جاتی ہے اور ظالم و جابر، فاسق و فاجر، بدکردار اور خائن حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
اگر ہم آج اپنے حالات کا جائزہ لیں تو یہ علامات ہمیں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ غور طلب بات ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، زمینی اور آسمانی آفات و بلیات کی کثرت ہے؛ بداَمنی، قتل و غارت گری، کرپشن، اَقربا پروری، چوری، مہنگائی، بے روزگاری اور پریشاں حالی، الغرض کون کون سے عذاب ہیں جنہوں نے ہمیں گھیر نہیں رکھا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved