ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے بھی یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ نفرت، تشدد، مذہبی عدمِ رواداری اور قومیت پرستی کے خلاف اپنی اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کریں۔
غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ جس انداز میں عہد رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیا گیا اس کی مثال پوری اِنسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مواثیق، معاہدات اور فرامین کے ذریعے اس تحفظ کو آئینی اور قانونی حیثیت عطا فرما دی تھی۔ عہدِ نبوی میں اَہلِ نجران سے ہونے والا معاہدہ مذہبی تحفظ اور آزادی کے ساتھ ساتھ جملہ حقوق کی حفاظت کے تصور کی عملی وضاحت کرتا ہے۔ اِسے امام ابو عبید القاسم بن سلام، امام حمید بن زنجویہ، ابن سعد، بیہقی اور بلاذری سب نے روایت کیا ہے۔ اِس میں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحریری فرمان جاری فرمایا تھا:
وَلِنَجْرَانَ وَحَاشِيَتِهَا ذِمَّهُ اﷲِ وَذِمَّهُ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُوْلِ اﷲِ، عَلٰی دِمَائِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ وَأَرْضِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ وَمِلَّتِهِمْ وَرَهْبَانِيَتِهِمْ وَاسَاقِفَتِهِمْ وَغَائِبِهِمْ وَشَاهِدِهِمْ وَبَعْثِهِمْ وَامْثِلَتِهِمْ. لَا يُغَيَرُ مَا کَانُوْا عَلَيْهِ، وَلَا يُغَيَرُ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِهِمْ وَأَمْثِلَتِهِمْ، لَا يُفْتَنُ أُسْقُفٌ مِنْ أُسْقُفِيَتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيَتِهِ، وَلَا وَاقِفٌ مِنْ وَقَافِيَتِهِ، عَلٰی مَا تَحْتَ أَيْدِيْهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ أَوْ کَثِيْرٍ، وَلَيْسَ عَلَيْهِمْ رَهَقٌ.
اللہ تعالیٰ اور اُس کے نبی رسول محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اَہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اُن کے خون، ان کی جانوں، ان کی زمینوں، ان کے اَموال، ان کے مذہب، ان کے راہبوں اور پادریوں، ان کے موجود اور غیر موجود اَفراد اور قافلوں اور اُن کے استھان (مذہبی ٹھکانے) وغیرہ کے ضامن اور ذِمہ دار ہیں۔ جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ نہ کسی پادری کو، نہ کسی راہب کو، نہ کسی سردار کو اور نہ کسی عبادت گاہ کے خادم کو - جو اُن کے ہاتھوں (یعنی ملکیت) میں ہے، چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ذمہ دار ہیں - (اس سے نہیں ہٹایا جائے گا) اور ان کو کوئی خوف و خطرہ نہ ہوگا۔
امام حمید بن زنجویہ نے بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی عہد صدیقی میں یہی معاہدہ نافذ العمل رہا۔ پھر عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں حالات کی تبدیلی کے پیش نظر کچھ ترامیم کی گئیں مگر غیر مسلموں کے مذکورہ بالا حقوق کی حفاظت و ذمہ داری کا وہی عمل کامل روح کے ساتھ برقرار رہا۔
اِسی طرح حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے موقع پر بھی یہود کے اَموال و اَملاک کے بارے میں اِعلان فرمایا تھا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں موجود تھے۔ لوگ (مجاہدین) جلدی میں یہود کے بندھے ہوئے جانور بھی لے گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے نماز کے لیے اذان دینے کا حکم فرمایا۔ نماز کے بعد آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
الَا! وَإِنّيْ احَرِّمُ عَلَيْکُمْ أَمْوَالَ الْمُعَاهِدِيْنَ بِغَيْرِ حَقِّهَا.
خبردار! میں تم پر غیر مسلم اقلیتوں کے اَموال پر ناحق قبضہ کرنا حرام کرتا ہوں۔
طبرانی، المعجم الکبير، 4: 111، رقم: 3828
دورِ نبوی میں ان معاہدات، دستاویزات اور اعلانات سے اقلیتوں کے حقوق کا درج ذیل خاکہ سامنے آتا ہے:
أبو يوسف، کتاب الخراج: 158
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اقلیتوں کا خیال تھا حالانکہ ایک اَقلیتی فرقہ کے فرد نے ہی آپ کو شہید کیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے فرمایا:
أُوْصِی الْخَلِيْفَةَ مِنْ بَعْدِيْ بِذِمَّةِ اﷲِ وَذِمَّةِ رَسُوْلِهِ: أَنْ يُوْفٰی لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ، وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ، وَأَنْ لَا يُکَلَّفُوْا فَوْقَ طَاقَتِهِمْ.
میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اﷲ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنے والے غیر مسلم شہریوں کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کیے ہوئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے بوقتِ ضرورت لڑا بھی جائے اور اُن پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔
بخاری، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء فی قبر النبی 1: 469، رقم: 1328
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved