اِسلام میں جہادِ اَکبر کی تمام اَقسام پر اِنفرادی سطح پر زور دیا گیا ہے جب کہ جہاد بالقتال (lawful war) صرف ریاستی سطح پر تمام مطلوبہ شرائط کی تکمیل کے بعد ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اِنفرادی یا جماعتی سطح پر حربی کارروائیوں کی قطعی طور پر اِجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جہاد کے نام پر فساد بپا کرنے والے عناصر کو سختی سے کچلا جائے کیونکہ دینِ اِسلام کو بدنام کرنے والے کسی رِعایت کے مستحق نہیں ہیں۔
اِسلام ہر مسلمان کو متحرک اور فعال زندگی گزارنے کا درس دیتا ہے۔ ایک مسلمان کی زندگی سراپا جہاد ہوتی ہے۔ لفظ جہاد قرآن و حدیث میں وسیع مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں ریاضت و مجاہدہ، جد و جہد اور کوشش کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اِس کی متعدد اقسام ہیں:
اِسلام نے اِنسان کے اَخلاق و کردار کی اِصلاح یعنی نفسِ اَمارہ کے خلاف جد و جہد کو جہادِ اَکبر قرار دیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ مِنَ الْجِهَادِ الْاصْغَرِ إِلَی الْجِهَادِ الْاکْبَرِ.
تمہیں جہادِ اَصغر (جہاد بالقتال) سے جہادِ اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مبارک ہو۔
عرض کیا گیا: جہادِ اَکبر کیا ہے؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مُجَاهَدَهُ الْعَبْدِ هَوَاهُ.
اِنسان کا اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف جہاد کرنا جہادِ اَکبر ہے۔
اِس فرمانِ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے واضح ہو رہا ہے کہ جہاد بالقتال جہادِ اَصغر ہے جبکہ جہاد بالنفس جہادِ اَکبر ہے۔
اِسی طرح معاشرے میں جہالت کے خاتمے اور فروغِ علم کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی جد و جہد جہاد بالعلم کہلاتی ہے۔
اپنے کردار و عمل سے معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں حصہ لینا بھی جہاد ہے۔ سماج میں بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانا اور فلاحِ عامہ کے لیے کوشش کرنا بھی جہاد بالعمل ہے۔ عبادات، ذِکرِ اِلٰہی، خدمتِ والدین اور صلہ رحمی وغیرہ جہاد بالعمل کی ہی مثالیںہیں۔
جہاد کی تمام اقسام کی تکمیل کے لیے مالی معاونت کرنا جہاد بالمال کہلاتا ہے۔ معاشرے سے غربت کے خاتمے، علم کے فروغ، اِصلاحِ نفس اور اِصلاحِ اَحوالِ اُمت کے لیے مال خرچ کرنا جہاد بالمال کے زُمرے میں آتا ہے۔
اِسلامی ریاست اور اُس کے شہریوں کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی خاطر مسلح جد و جہد کرنا جہاد بالسیف ہے۔ قرـآن و حدیث میں جہاد بالسیف یعنی دفاعی جہاد کے لیے کڑی شرائط مقرر کی گئی ہیں۔ اِن شرائط پر عمل درآمد میدانِ جنگ میں بھی واجب ہے۔ اِن شرائط کی رُو سے کسی مسلمان شخص، گروہ یا فرقے کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ اِنفرادی سطح پر جہاد کا آغاز کرے یا لشکر بناکر جہاد کے نام پر فساد شروع کر دے۔ اِسلامی ریاست میں جہاد کا اِعلان اور فریضہ ریاستی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی اِنفرادی سطح پر اِعلانِ جہاد کرتے ہوئے مسلح اِقدام کرے گا تو وہ باغی کہلائے گا اور اسے اس خروج کی سزا دی جائے گی۔
ا لہٰذا ہم اِس قراردادِ اَمن کے ذریعے پُرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اِس شق کو سامنے رکھتے ہوئے فساد فی الارض کی جملہ شکلوں پر قابو پایا جائے اور جہاد کے نام پر ملک و ملّت اور عالمی برادری کو خوف و وحشت میں مبتلا کرنے پر اِنتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کے مکمل خاتمے کے لیے مؤثر کارروائی کی جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved