رسول مکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تاریخِ اِنسانی کے سب سے بڑے پیامبرِ اَمن ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اَمن کو ترجیح دی اور اسے ہی فروغ دیا اور حتی الامکان جنگ سے اِحتراز برتا کیونکہ جنگ کبھی مسائل کا حل نہیں رہی۔ ہم دنیا کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کے تمام سفاکانہ اِقدامات کے خاتمے اور پیغمبرِ اَمن صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیماتِ اَمن کو عام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
رسولِ رحمت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بطور پیغمبرِ اَمن
اﷲ رب العزت نے قران مجید میں ارشاد فرمای
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِيْنَo
اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کرo
الانبياء، 21: 107
اے حبیبِ مکرم! اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر صرف اس شان کے ساتھ، اس مرتبے کے ساتھ اور اس صفت اور وصف کے ساتھ کہ آپ تمام عالموں کے لیے، تمام کائنات کے لیے سراپا رحمت ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ مشرکین کے خلاف بددعا کیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنِّي لَمْ ابْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً۔()
() 1۔ مسلم، الصحیح، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النھي عن لعن الدواب وغیرھا، 4: 2006، رقم: 2599
2۔ بخاري، الادب المفرد: 119، رقم: 321
مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ اور تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ اِنسانیت سے محبت کی جائے۔ یہ محبتِ رسول aکی ہی ایک شاخ ہے یعنی زندگی عدمِ تشدد کے طرزِ عمل پرگزارنے کا نام تعلیماتِ اِسلام ہے۔ جو شخص اِنسانیت، بے گناہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں، مریضوں اور جوانوں کا قتل کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اِسلام کی خدمت کر رہا ہے، در حقیقت وہ اِسلام کی نہیںبلکہ کفر کی معاونت اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین سے بغاوت کر رہا ہے۔ وہ دینِ اِسلام کا دشمن ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عمر k بیان کرتے ہیں:
وُجِدَتِ امْرَاةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اﷲِ a، فَنَہٰی رَسُوْلُ اﷲِ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ۔()
() بخاري، الصحیح،کتاب الجھاد والسیر، باب قتل النساء في الحرب، 3:1098، رقم: 2852
رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی غزوہ میں ایک عورت مقتولہ پائی گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی (سختی سے) ممانعت فرما دی۔
آقا e کو اطلاع دی گئی کہ جنگ کے دوران بعض غیر مسلم عورتیں اور بچے بھی مار دیے گئے ہیں۔ وہ عورتیں اور بچے یقینا ان کے لشکر کا حصہ ہوں گے اور ان کو طبی اور دیگر امداد فراہم کر رہے ہوں گے مگر جب آقا e کو بتایا گیا کہ عورتوں اور بچوں کو بھی مار دیا گیا ہے تو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے قتل سے منع فرمایا۔
لوگوں کو جہاد کا غلط تصور سمجھا دیا گیا ہے کہ بچوں اور عورتوں کا قتل عام جہاد اور اِسلام کی خدمت ہے۔ نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے وفائی اور اِسلام سے غداری و بغاوت کے مترادف ہے۔
ا لہٰذا اِس قراردادِ اَمن کے ذریعے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پُراَمن کردار پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ اِسلام کا روشن چہرہ پوری دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آئے اور اِسلام اور بانیِ اِسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لگنے والے دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کا خاتمہ کیا جاسکے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved