اِنتہا پسندانہ نظریات و اَفکار رکھنے والی تنظیموں اور جماعتوں پر مکمل پابندی لگائی جائے اور اُنہیں نام بدل کر بھی کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اِنتہا پسندی کو فروغ دینے والے لیڈرز اور شخصیات کو ban کیا جائے اور اُنہیں کسی بھی طرح کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اِس سلسلے میں خصوصی قانون سازی کی جائے اور خلاف ورزی پر دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں۔
پاکستان میں دہشت گردی اور اِنتہا پسندی کی جڑیں مضبوط اور گہری ہیں جس میں سیاسی، مذہبی اور قومی ادارے برابر کے شریک ہیں۔ 80ء کی دہائی میں اِنتہا پسند مذہبی و سیاسی گروہوں کی سر پرستی کی گئی جس کی وجہ سے آج اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کا عفریت پوری قوم کو ڈس رہا ہے اور ہمارے معاشرے کی اَمن و یگانگت پر مشتمل بنیادیں کھوکھلی ہو رہی ہیں۔
پاکستان میں فرقہ وارانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں میںملوث 43 دہشت گرد اورمتحارب گروپس کو ban کر دیا گیا لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ انہی (banned outfits) کے حامی اور معاون حکومتی ایوانوں میں بھی موجود ہیں، جو کبھی نہیں چاہتے کہ ان کی پسندیدہ مذہبی یا سیاسی تنظیم (outfits) پر پابندی عائد ہو۔ اسی لیے وفاقی اور صوبائی کابینہ کے اندر یہ اختلاف کھل کر سامنے آیا کہ فلاں کو ban کیا جائے اور فلاں گروہ دہشت گرد نہیں ہے اس سے پابندی اٹھائی جائے۔ ایوانِ اِقتدار میں اس معاملے پر ایک دوسرے پر تھپڑوں کی آواز بھی میڈیا کے ذریعے سنائی دی۔
مذکورہ بالا تمام صورتِ حال کے بعد اَعلیٰ قومی اداروں کی مداخلت کے باعث حکومتِ وقت کالعدم تنظیموں، متحارب اور دہشت گرد گروہوں کی لسٹ کو برقرار رکھنے پر مجبور ہوئی ہے۔ یقینا یہ امر تسلی بخش ہے کہ قومی ادارے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے میدانِ عمل میں اُتر چکے ہیں۔
یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ بعض اِنتہا پسند اور دہشت گرد گروہ اپنا نام تبدیل کر کے پاکستان میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں بعض گروہ ویلفیئر کے نام پر اور بعض گروہ جہادِ کشمیر و فلسطین کے نام پر اور بعض زلزلہ زدگان و سیلاب زدگان کی امداد کے نام پر کروڑوں اربوں روپے جمع کر رہے ہیں۔ یہ عناصر بعد ازاں اِسی رقم کو اپنے عقائد، اِنتہا پسندانہ نظریات اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved