حکومتی سطح پر ایک ایسا فورم تشکیل دیا جائے جو دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو آنے والی بیرونی فنڈنگ کا بغور جائزہ لے۔ ان دینی مدارس، تنظیمات اور جماعتوں کو بیرونی ممالک سے مسلکی، جماعتی، تنظیمی یا اداراتی بنیادوں پر براہِ راست فنڈنگ پر پابندی عائد کی جائے۔ مغربی ممالک سے وظائف (scholarships) کی مد میں آنے والی اِمداد کی طرز پر اِسلامی ممالک سے آنے والی اِمداد کے لیے بھی قومی سطح پر ایک pool تشکیل دیا جائے جہاں سے مساوی طور پر فنڈز تقسیم ہوں۔
دنیا بھر میں تعلیمی مقاصد کے لیے خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں تعلیم اولین ترجیح شمار کی جاتی ہے۔ ریاستِ پاکستان عوام کے تعلیمی مسائل کے حل میں سنجیدہ نہیں ہے۔ سالانہ بجٹ میں تعلیم کے لیے بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے۔ جہاں تک تعلق دینی تعلیم کا ہے، پاکستان میں اس کا سارا نظام خود کفالت پر انحصار کرتا ہے۔ بعض مخصوص مدارس کو بھیک اور خیرات میں چندہ دیا جاتا ہے جو انتظامیہ کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔ اس کے عوض سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں کثیر تعداد میں مدارس کو بیرونی ممالک سے امداد ملتی ہے۔ وفاقی حکومت کے ایک سینیٹر نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے خود اعتراف کیا کہ خیبر پختوخواہ، بلوچستان اور سندھ میں 23 مدارس بیرونی امداد لیتے ہیں۔ یہ مدارس مخصوص مکتبہ فکر ومسلک کے حامل ہیں جو اپنے ہم مسلک ممالک سے اِس لیے اِمداد لیتے ہیں تاکہ اُن ممالک کے مسلک اور مکتبہ فکر کو اپنے ملک میں promote کرسکیں۔
موجودہ حالات میں جبکہ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے، بتائے گئے حکومتی اَعداد و شمار پر اِعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے پیش کردہ اَعداد و شمار میں پنجاب کا ذکر نہ کرنا سراسر ِاغماضِ حقیقت ہے۔ سیاسی و مذہبی قیادت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ ملک و قوم کو تقسیم کرنے کے لیے، صوبائی، لسانی، علاقائی تعصبات کو اُبھارا جاتا رہا ہے تاکہ divide and rule کا انگریزی doctorine اپنی ہی قوم پر استعمال کیا جا سکے۔
ا ہم اس قراردادِ اَمن کے ذریعے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ حکومت وقت دینی مدارس کی کفالت خود اپنے ذمے لے اور ان مدارس میں پڑھنے والے لاکھوں طلباء کو معاشرہ کے کارآمد اَفراد بنانے کے لیے ریاست اپنا کردار ادا کرے، جبکہ منفی مقاصد کے لیے آنے والی بیرونی فنڈنگ کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved