دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے فوری طور پر ’ضربِ عِلم‘ کا اِعلان کیا جائے اور ڈاکٹر طاہر القادری کا تیار کردہ ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب (Islamic Curriculum on Peace and Counter-Terrorism)‘ تعلیمی اداروں اور مدارس میں متعارف کرایا جائے۔
گزشتہ دو عشروں سے جاری دہشت گردی، قتل و غارت گری، جنگ و جدال، فتنہ و فساد اور خود کش دھماکوں جیسے اِنسان دشمن، سفاکانہ اور بہیمانہ اِقدامات نے پوری دنیا کو شدید کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ یہ ایک عالمی رُجحان (phenomenon) ہے جسے کئی عناصر اپنے خفیہ اور مذموم مقاصد کے لیے sponsor کر رہے ہیں۔ یہ عفریت کسی خاص طبقہ، خطہ یا ملک کے بجائے پوری دنیا کے اَمن کو تباہ کر رہا ہے۔ مختلف مسلم ممالک کے علاوہ انگلینڈ، کینیڈا، امریکہ اور کئی مغربی ممالک میں مقیم نوجوان، جنہیں اِسلام کے بارے میں فکری واضحیت (conceptual clarity) حاصل نہیں ہے، وہ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کو جہاد سمجھ کر اس کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
دوسرا تکلیف دہ مسئلہ دہشت گرد گروہوں کا اپنے مکروہ مقاصد اور مذموم عزائم کو اِسلام کے تصورِ جہاد سے جوڑنا ہے۔ وہ اِسی اِنتہا پسندانہ اور دہشت گردانہ سوچ کے ساتھ شریعتِ اِسلامیہ کے نفاذکی بات اور اِعلاے کلمۃ اللہ کا نعرہ بلند کرتے ہیں، خلافتِ اِسلامیہ کی بحالی اپنا مطمع نظر گردانتے ہیں اور اِسلامی اِصطلاحات و فقہی تصورات کے ذریعے اپنے عمل کی بنیاد ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ قرآنی آیات، اَحادیثِ نبویہ اور فقہی عبارات کو سیاق و سباق سے کاٹ کر اِسلامی مصادر اور حقیقی تعلیمات سے ناآشنا سادہ لوح مسلمانوں بالخصوص نوجوانوں کو نہ صرف متاثر بلکہ گمراہ کرتے ہیں۔
اِسلام کے نام پر کارروائیاں کرنے والے دہشت گردوں کی اِنسانیت دشمن کارروائیوں سے دنیا کا کوئی خطہ محفوظ نہیں رہا۔ عالمی سطح پر عراق، شام، یمن، افغانستان، سوڈان اور صومالیہ وغیرہ میں اِحترامِ اِنسانیت اور تکریمِ آدمیت کو مسلسل پامال کیا جا رہا ہے، زندہ لوگوں کو آتشیں اسلحہ سے بھونا جا رہا ہے اور عام شہریوں کی گردن زنی کی فلمیں نشر کرکے لوگوں میں دہشت پھیلائی جا رہی ہے۔ مملکتِ خداداد پاکستان بھی اِس ناسور سے محفوظ نہیں ہے، اگر ایک طرف اِنسانوں کے کٹے ہوئے سروں کے فٹ بال بنا کر ان سے کھیلا گیا تو دوسری طرف پشاور میں معصوم بچوں کے اِجتماعی قتل کی ہولناک داستان رقم کی گئی۔ یہ کسی ایک ملک یا خطے کا نہیں بلکہ ایک عالم گیر المیہ ہے۔ امریکہ میں 9/11 ہو یا برطانیہ میں 7/7، ممبئی میں تاج محل ہوٹل کا واقعہ ہو یا فرانس میں چارلی ہیبڈو حملے، کینیا کی یونی ورسٹی میں طلبا کا قتل عام ہو یا عراق، شام، لیبیا اور یمن میں دہشت گرد تنظیموں کی سفاکی، افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری جنگ ہو یا پاکستان کے بازاروں، مساجد، امام بارگاہوں، فوجی مقامات و تنصیبات اور اسکولوں پر حملے، دنیا بھر میں ان تمام کارروائیوں میں ملوث جملہ تحریکوں اور تنظیموں میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ اپنی کارروائیاں جہاد سمجھ کر سر انجام دیتے ہیں۔
وہ اِسلامی تصورات و نظریات کی خود ساختہ تشریح و تعبیر میں اِن کا جواز گردانتے ہیں۔ یہاں تک کہ اب تو عراق اور شام میں دہشت گردی کو منظم صورت دے کر اسے ’اِسلامک اسٹیٹ (Islamic State)‘، دولۃ الخلافۃ الإسلامیۃ، داعش، ISIS اور الدولۃ الإسلامیۃ في العراق والشام جیسے عنوانات بھی دیے جارہے ہیں۔ اس دہشت گرد گروہ کے سربراہ کو ’خلیفہ‘ یا ’امیر المومنین‘ کا لقب دیا گیا ہے اور اس دہشت گردی سے وفاداری کا نام ’بیعت‘ رکھ دیا گیا ہے۔ اب کوئی بھی شخص دنیا کے کسی خطے میں گھر بیٹھے اس دہشت گردی سے وفاداری (بیعت) کا عزم کر کے (معاذ اللہ، استغفر اللہ) دنیا بھر میں جہاں چاہے قتل و غارت گری اور خودکش بم باری کا آغاز کرکے نہتے اِنسانوں کو (خواہ مسلم ہوں یا غیر مسلم) قتل کرسکتا ہے اور ان کے نزدیک اُس کا یہ عمل ’جہاد‘ کہلائے گا۔ ان کے نزدیک ساری دنیا ’دار الکفر‘ اور ’دار الحرب‘ میں بدل چکی ہے۔ اُن کے لیے دار الاسلام صرف وہی خطہ ہے جہاں ISIS یا کسی دوسرے نام سے دہشت گرد گروہوں کا قبضہ اور تصرف ہے۔ اِس گمراہ کن اور ہلاکت انگیز ذہنیت نے پوری اِنسانیت کوبالعموم اور اُمتِ مسلمہ کو بالخصوص عجیب اذیت ناک صورت حال سے دوچار کردیا ہے۔
اِس تناظر میں عالمی حالات اِس اَمر کے متقاضی ہیں کہ اِسلامی تعلیمات اور آفاقی صداقتوں کی روشنی میں دہشت گردی کی فکر اور اِنتہا پسندانہ نظریات کے خلاف بین الاقوامی سطح پر ہر طبقہ کو ذہنی و فکری طور پر تیار کیا جائے۔ معاشرے سے اِنتہا پسندی کے خاتمے کے لیے عملی اِقدامات کیے جائیں تاکہ دہشت گردوںکے فکری و نظریاتی سرچشموں کا بھی ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوجائے۔ مزید برآں اِنتہا پسندانہ اَفکار و نظریات کے خلاف مدلّل مواد ہر طبقۂ زندگی کو اُس کی ضروریات کے مطابق فراہم کردیا جائے تاکہ معاشرے سے اس تنگ نظری و اِنتہا پسندی کا بھی خاتمہ ہوسکے جس سے دہشت گردی کو فکری و نظریاتی غذا حاصل ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے گزشتہ چونتیس سال سے اِنتہا پسندی، تنگ نظری، فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خلاف علمی و فکری میدانوںمیں بھرپور جد و جہد کی ہے۔ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ناقابلِ تردید دلائل و براہین پر مشتمل آپ کا تاریخی فتویٰ 2010ء سے کتابی شکل میں موجود ہے۔ یہ مبسوط فتویٰ اُردو، انگریزی، ہندی اور کئی یورپی زبانوں میں شائع ہوچکا ہے (جب کہ عربی کے علاوہ ڈینش، فرانسیسی، جرمن اور اسپینش زبانوں میں زیر اِشاعت ہے)۔ اِنتہا پسندانہ تصورات و نظریات کے خلاف اور اِسلام کی محبت و رحمت، اَمن و رواداری اور عدمِ تشدد کی تعلیمات پر مبنی حضرت شیخ الاسلام کی درجنوں کتب منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
اب ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ اِس بیش قدر علمی ذخیرہ کو سامنے رکھتے ہوئے ایک قدم مزید آگے بڑھایا جائے اور مختلف شعبہ ہاے زندگی کے افراد کو مختلف دورانیے کے کورسز کرائے جائیں۔ یہ کورسز معاشرے کے ہر فرد کو عملی طور پر اتنا پختہ کر دیںکہ وہ کسی بھی سطح پر اِنتہا پسندانہ نظریات و تصورات سے نہ صرف خود محفوظ رہیں بلکہ اپنے اپنے حلقات میں اِسلام کے اَمن و محبت اور برداشت پر مبنی اَفکار و کردار کو بھی عام کر سکیں۔
چنانچہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی ہدایات اور رہنمائی میں ’فروغِ اَمن اور اِنسدادِ دہشت گردی کا اِسلامی نصاب‘ مرتب کردیا گیا ہے جو نہایت جامع ہے۔ پانچ مختلف طبقات کے لیے تیار کردہ نصاب کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1۔ ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے
یہ نصاب ریاستی سکیورٹی اِداروں کے افسروں اور جوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے حوالے سے نہ صرف اُن کی علمی و فکری اور نظریاتی و اِعتقادی تربیت کی جائے بلکہ اُنہیں عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہونے کا کامل یقین بھی دیا جائے۔
2۔ اساتذہ، وکلاء اور دیگر دانشور طبقات کے لیے
یہ نصاب اَساتذہ کرام، پروفیسرز، ججز صاحبان، وکلاء، میڈیا پرسنز اور دیگر جملہ دانش ور طبقات کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ دہشت گردوں کے فکری سرپرستوں کے غلط دلائل کا ردّ کرتے ہوئے نوجوان نسل اور قوم کے ہر فرد کو اَمن پسندی کی تعلیم دے سکیں۔
3۔ ائمہ و خطباء اور علماء کرام کے لیے
یہ نصاب اَئمہ، خطباء اور علماء کرام کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔ اِس کا مقصد اِنتہا پسندی و دہشت گردی کے حوالے سے انہیں قرآن و حدیث اور دیگر مستند و معتبر کتب سے مواد فراہم کرنا ہے تاکہ اَئمہ و خطباء اور علماء کرام درس و تدریس اور خطابات و مواعظ کے لیے مصادرِ اِسلامی سے ضروری رہنمائی حاصل کرسکیں۔
4۔ طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے
یہ نصاب کالجز، یونی ورسٹیز اور دیگر تعلیمی اِداروں کے طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کے لیے ترتیب دیا گیا ہے تاکہ وہ اِنتہا پسندانہ فکر سے متاثر ہونے کی بجائے اِسلام کے تصورِ اَمن و اِعتدال سے رُوشناس ہو کر معاشرے کے ذمہ دار اور کارآمد اَفراد بن سکیں۔
5۔ سول سوسائٹی کے جملہ طبقات کے لیے
یہ نصاب سول سوسائٹی کے تمام طبقات کے لیے مرتب کیا گیا ہے چاہے اُن کا تعلق کسی بھی شعبہ ہاے زندگی سے ہو۔ یہ عوام النا س میں محبتِ اِنسانیت، عدمِ تشدد اور معاشرے میں اِسلام کے تصورِ اَمن و سلامتی کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ بقیہ چار کتب کے برعکس یہ ایک مکمل درسی کتاب ہے جس میں نصاب کی تمام تفصیلات مع مشتملات شامل کردی گئی ہیں۔
ا اِس قراردادِ اَمن کے ذریعے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس نصابِ اَمن کو تمام تعلیمی اداروں، مدارس اور عوام الناس تک پہنچایا جائے تاکہ معاشرے سے اِنتہا پسندی اور دہشت گردی کے حقیقی خاتمے کی جد و جہد جلد کام یابی سے ہم کنار ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved