مذہبی مدارس کے نظام اور نصاب میں اِصلاحات کو یقینی بنایا جائے اور ان مدارس کے نصاب کے لیے متفقہ قومی مانیٹرنگ سیل (National Monitoring Cell) تشکیل دیا جائے جو تمام مدارس کے نصابات میں سے اِنتہا پسندانہ اَفکار کی نشان دہی کرنے اور اسے نکالنے کا ذمہ دار ہو۔ تمام مدارس اِس سیل سے اپنا نصاب review کروانے کے ذمہ دار ہوں اور منظور شدہ نصاب کے علاوہ کسی بھی دوسرے نصاب کے پڑھانے پر پابندی عائد ہو۔
عالم اِسلام میں پاکستان مدارسِ دینیہ کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتا ہے کیونکہ یہ مدارس دین کے فروغ اور احیاء کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
اﷲ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآئِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْْا اِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُوْنَ.
تو ان میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلہ) کی ایک جماعت کیوں نہ نکلے کہ وہ لوگ دین میں تفقُّہ (یعنی خوب فہم و بصیرت) حاصل کریں اور وہ اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ ان کی طرف پلٹ کر آئیں تاکہ وہ (گناہوں اور نافرمانی کی زندگی سے) بچیں۔
التوبة، 9: 122
حدیث نبوی میں ہے:
مَن يُرِدِ اﷲُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ.
اﷲ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔
حصولِ علم کی تگ و دو ایک مقدس فریضہ ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ایسے اداروں کا قیام ناگزیر ہے جو دین کی بہترین تعلیم دے کر ایسے لوگوں کو تیار کریں جو معاشرے کو بہترین تربیت فراہم کر سکیں۔ مگر بدقسمتی سے بعض دینی اداروں اور مدارس میں طلباء کو دیگر مسالک کے خلاف نفرت، عدمِ رواداری اور اِنتہا پسندی پر مبنی تعلیم دی جاتی ہے۔ اَلمیہ یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو غیر مسلم اور گمراہ سمجھتے ہوئے معصوم ذہنوں میں نفرتوں کی آب یاری کرتے ہیں۔ نتیجتاً یہ لوگ تنگ نظری اور فکری مغالطوں کا شکار ہو کر اپنے علاوہ سب کو کافر، مشرک اور دائرہ اِسلام سے خارج تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ تنگ نظری جب مستقل فکر و عمل میں ڈھل جاتی ہے تو بعض اِنتہا پسند اتنے متشدد ہو جاتے ہیں کہ وہ مخالفین کا خون بہانا نہ صرف جائز بلکہ واجب سمجھتے ہیں۔ یہیں سے شدت پسندی اور دہشت گردی پنپنے لگتی ہے۔ یوں ایک جرم کو ’دینی فریضہ (جہاد)‘ سمجھ کر اختیار کر لیا جاتا ہے۔ اگر ان اداروں میں زیرتعلیم بعض طلباء کے قبائلی علاقوں میں واقع دہشت گردوں کے تربیتی کیمپوں میں جا کر تربیت لینے کی اطلاعات درست ہیں تو عسکریت پسندوں کے ساتھ ان کے شامل ہونے کے امکانات کو کیسے ردّ کیا جا سکتا ہے؟ گویا تنگ نظری اور اِنتہا پسندی ہی دہشت گردی کا اصل سبب ہے۔ (اس پر ہم آرٹیکل نمبر 8 کے تحت تفصیلی بحث کرچکے ہیں۔)
جیسے حق کو دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی صلاحیت اس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک قلب کی سیاہی دور نہ ہو اور قلب کی سیاہی اس وقت تک دور نہیں ہو سکتی جب تک برائی کا اِرتکاب نہ رُکے۔ اِسی طرح دہشت گردی کا خاتمہ محض بر سرِ پیکار جنگجوؤں (دہشت گردوں) کے قتل اور گرفتاریوں سے نہیں ہوگا۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب دہشت گرد باغی گروہوں میں تازہ اَفرادی قوت کی آمد اور داخلے کے تمام راستے کلیتاً مسدود کر دیے جائیں گے۔ جس طرح تالاب کو خشک کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندر موجود پانی کو نکالنے کے ساتھ ساتھ تالاب میں مزید پانی کی آمد کے تمام راستے بھی بند کر دیے جائیں ورنہ تالاب کبھی خشک نہیں ہوگا؛ اسی طرح دہشت گردی کیمکمل خاتمے کے لیے باغی گروہوں میں اَفرادی قوت کی تازہ کمک روکنا ہوگی اور اس کے لیے تنگ نظری اور اِنتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے۔
اَمن، برداشت، بین المسالک ہم آہنگی و بین المذاہب رواداری پر مشتمل نصاب نافذ کیا جائے۔ مدارس میں عسکری تربیت پر یکسر پابندی عائد کی جائے اور ایسی تعلیم و تربیت جاری رکھنے والے مدارس کو فوری طور پر بند کر دیا جائے۔ فتوی بازی اور تکفیریت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔
ہمارا مطالبہ ہے کہ ان تمام اُمور کی نگرانی اور NAP کی تنفیذ کاجائزہ لینے کے لیے National Monitoring Cell بنایا جائے جو مندرجہ بالا اِقدامات کو یقینی بنائے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved