دہشت گردی کی جڑیں اِنتہا پسندی، فرقہ واریت اور تکفیریت میں چھپی ہوئی ہیں۔ مسلمانوں کے باہم کفر کے فتووں کے اِجرا پر قانوناً پابندی عائد کی جائے اور اس کے لیے کڑی سزا مقرر کی جائے۔
یہ حقیقت مسلّمہ ہے کہ دہشت گردی ایک دن، مہینے یا سال کی پیداوار نہیں ہے۔ یہ کسی ایک عمل کا ردِ عمل نہیں ہے اور نہ ہی کسی فرد کو فوراً خود کش بمبار بنایا جا سکتا ہے۔ سو چند ہزار دہشت گردوں کو موت کے گھاٹ اتار دینے سے ملک سے دہشت گردی کا صفایا نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں دہشت گردی کے اَسباب کا جائزہ لینا ہوگا۔ دہشت گردی کے سیاسی، معاشی، معاشرتی، علاقائی، حکومتی اور بین الاقوامی درجنوں اسباب ہیں۔ دہشت گردی کا مرکزی سبب ملک بھر میں پھیلی ہوئی مذہبی منافرت ہے۔ کسی بھی مسلک یا طبقے کے اَفراد جب علمی، فکری یا ذہنی اختلاف کی بنیاد پر دوسروں سے نفرت کرنے لگیں تو معاشرے میں فرقہ واریت اور تنگ نظری پیدا ہو جاتی ہے۔
معاشرہ جب اس تنگ نظری کو قبول کر لیتا ہے، خصوصاً مذہبی طبقہ مخالفین سے نفرت کو اپنے نصاب کا حصہ بنا لیتاہے تو سال ہا سال اسی نصاب کو پڑھنے سے تنگ نظری، اِنتہا پسندی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اِس طرح علمی و فکری اور ذہنی و مسلکی اختلافات ذاتی اِختلاف میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اِس اِنتہا پسندی کی آگ پر کفر کے فتوے پٹرول کا کام دیتے ہیں اور پھر دہشت گردی جنم لیتی ہے۔ اس ملک میں مخصوص مدارس اور مذہبی طبقات نے اپنے مخالفین کے خلاف کفر کے فتووں کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ علماء کے کفر کے فتووں سے بھرے خطابات سی ڈیز اور انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں۔
جب کسی سادہ لوح نوجوان کو سالہا سال تک اِس طرح کا نصاب پڑھایا جائے جس کی وجہ سے وہ مخالف عقیدہ رکھنے والے مسلمان کو فکری و شعوری طور پر کافر سمجھنے لگے اور ایسے کافر کے قتل پر اُسے اَجر و ثواب کی بشارت بھی سنائی گئی ہو تو ایسے دہشت گرد کو ملک میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے کسی بیرونی ایجنسی کی مدد بھی یقینا درکا رنہیںہوگی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved