سیدنا صدیق اَکبر رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب

حصہ چہارم

فصل : 30

اوّل من جمع القرآن

(صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . پہلے جامع القرآن)

134. عن عبيد بن السّبّاق : أنّ زيد بن ثابت رضي الله عنه قال : أرسل إليّ أبو بکر، مقتل أهل اليمامة، فإذا عمر بن الخطّاب عنده قال أبوبکر رضي الله عنه : إنّ عمر أتاني، فقال : إنّ القتل قد استحرّ يوم اليمامة بقرّآء القراٰن، و إنّي أخشٰي أن يّستحرّالقتل با لقرّاء با لمواطن فيذهب کثير من القراٰن وإنّي أرٰي أن تامر بجمع القراٰن. قلت لعمر : ’’کيف تفعل شيئا لّم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم؟‘‘ قال عمر : ’’هٰذا و اﷲ خير‘‘ فلم يزل عمر يرا جعني حتّي شرح اﷲ صدري لذٰلک، ورأيت في ذٰلک الّذي رأي عمر. قال زيد : قال أبوبکر : ’’إنّک رجل شابّ عاقل لا نتّهمک، وقد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فتتبّع القراٰن فاجمعه.‘‘ فواﷲ لو کلّفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل عليّ ممّا أمرني به من جمع القراٰن. قلت : کيف تفعلون شيئا لم يفعله رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : ’’هو واﷲ خير‘‘. فلم يزل أبوبکر يراجعني حتّي شرح اﷲ صدري للّذي شرح له صدر أبي بکر وعمر رضي اﷲ عنهما، فتتبّعت القراٰن أجمعه من العسب و اللّخاف وصدور الرّجال، حتّي وجدتّ اٰخر سورة التّوبة مع أبي خزيمة الانصاريّ، لم أجدها مع أحد غيره : ’’لقد جآء کم رسول من انفسکم عزيز عليه ما عنتّم. حتّي خاتمة براءة‘‘. فکانت الصّحف عند أبي بکر حتّي توفّاه اﷲ، ثمّ عند عمر حياته، ثمّ عند حفصة بنت عمر رضي اﷲ عنهما.

’’حضرت عبید بن السباق سے مروی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا جب کہ یمامہ والوں (اہل یمامہ) سے لڑائی ہو رہی تھی اور اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی اُن کے پاس تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگِ یمامہ میں کتنے ہی قرآن مجید کے قراء شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ قاریوں کے مختلف مقامات پر شہید ہو جانے کے باعث قرآن مجید کا اکثر حصہ جاتا رہے گا لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ قرآن کریم کے جمع کرنے کا حکم فرمائیں۔ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں وہ کام کس طرح کروں جو خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اﷲ رب العزت کی قسم! یہ پھر بھی خیر ہے۔‘‘ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ برابر اس بارے مجھ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اس بارے میں میرا سینہ کھول دیا۔ اور اس معاملے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے تھی ( میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق ہو گیا)۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا کہ تم نوجوان اور صاحبِ عقل و دانش ہو اور تمہاری قرآن فہمی پر بھی کسی کو کلام نہیں اور تم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وحی الٰہی بھی لکھا کرتے تھے۔ پس سعی بلیغ کے ساتھ قرآن مجید کو جمع کر دو۔ پس اﷲ رب العزت کی قسم! اگر وہ مجھے پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تو وہ میرے لئے جمع قرآن کے اِس حکم سے زیادہ ثقیل (بھاری) نہ ہوتا۔ میں نے عرض کی : ’’آپ وہ کام کیوں کرتے ہیں جو خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا؟‘‘۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’یہ کام، اﷲ رب العزت کی قسم! بہت بہتر ہے‘‘۔ پس حضرت ابوبکر صدیق برابر مجھ سے بحث فرماتے رہے یہاں تک کہ اﷲ رب العزت نے میرا سینہ اُس کام کے لئے کھول دیا جس کے لئے اُس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ پس میں نے قرآن مجید کو کھجور کے پتوں، پتھر کے ٹکڑوں اور لوگوں کے سینوں سے تلاش کر کے جمع کیا یہاں تک کہ سورۃ توبہ کا آخری حصہ میں نے حضرت ابو خزیمہ الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پایا جو ان کے سوا کسی اور کے ہاں سے نہیں پایا تھا۔ یعنی ’’لقد جآء کم رسول سے لے کر سورۃ البراءۃ کے اختتام تک۔ (یقیناً تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ عظمتوں والے رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت گراں گزرتا ہے) پس یہ صحیفے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہو گیا پھر یہ حضرت عمر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام تک رہے۔ پھر یہ قرآن مجید کے نسخے حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اﷲ عنہا کے پاس رہے۔

1. بخاري، الصحيح، 4 : 1907، کتاب فضائل القرآن، رقم : 4701
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 283، کتاب تفسير القرآن، رقم : 3103
3. احمد، المسند، 1 : 13، رقم : 86
4. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 7، رقم : 7995
5. ابو يعلي، المسند، 1 : 66، رقم : 64
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 146، رقم : 4901
7. ابن حبان، الصحيح، 10 : 364، رقم : 4507

135. عن علي قال ان اعظم أجرا في المصاحف ابوبکر الصديق کان أول من جمع القرآن بين اللوحين.

’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا : قرآن کے حوالے سے سب سے زیادہ اجر پانے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں کہ انہوں نے سب سے پہلے قرآن کو دو جلدوں میں جمع کیا۔‘‘

1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 354، رقم : 513
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 148، رقم : 30229
3. خثيمه، من حديث خثيمه، 1 : 135
4. ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 193
5. ابن منده، شروط لأئمة، 1 : 26

136. عن صعصعة قال اول من جمع القرآن ابوبکر.

’’صعصعہ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے قرآن جمع کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔

ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 259، رقم : 35866

137. عن الليث بن سعد قال اول من جمع القرآن ابوبکر و کتبه زيد بن ثابت.

’’لیث بن سعد سے روایت ہے کہ قرآن کو سب سے پہلے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کیا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اسکی کتابت کی۔‘‘

شمس الحق، عون المعبود، 10 : 20

فصل : 31

إنه يبعث يوم القيامة والنبي صلي الله عليه وآله وسلم اٰخذ بيده

(روزِ قیامت اٹھتے وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہو گا)

138. عن ابن عمر رضي الله عنه : أنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم خرج ذات يوم ودخل المسجد وأبوبکر و عمر، أحدهما عن يمينه والاٰخر عن شماله وهو اٰخذ بأ يديهما، وقال : ’’هکذا نبعث يوم القيا مة‘‘.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے مسجد میں داخل ہوئے اس دوران حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے، ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب تھے اور دوسرے بائیں جانب اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’ہم قیامت کے روز اسی طرح اٹھا ئے جائیں گے۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 612، ابواب المناقب، رقم : 3669
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه، رقم : 99
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 4 : 312، رقم : 7746
4. ابن حبان، طبقات المحدثين بأصبهان، 4 : 239، رقم : 640
5. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 616، رقم : 1418
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 202، رقم : 221
7. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 331
8. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 4 : 365، رقم : 2228

139. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : دخل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وإحدٰي يديه علٰي أبي بکر والأُخرٰي علٰي عُمر فقال : ’’هکذا نُبعثُ يوم القيامة‘‘.

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک دستِ مبارک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر تھا اور دوسرا حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اِس طرح ہم قیامت کے روز اُٹھائے جائیں گے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 71، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4428

140. عن ابن عمر رضي اﷲ عنهما قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أوّل من تنشقّ عنه الأرض أنا، ثمّ أبو بکر، ثمّ عمر، ثمّ اٰتي أهل البقيع، فتنشقّ عنهم فأبعث بينهم.‘‘

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’سب سے پہلے جس سے زمین پھٹے گی وہ میں ہوں پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ سے، پھر عمر رضی اللہ عنہ سے، پھر میں اہل بقیع کے پاس آؤں گا تو اُ ن سے زمین شق (پھٹے) ہو گی پھر میں اُن سب کے درمیان اُٹھایا جاؤں گا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 72، رقم : 4429
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 351، رقم : 507

فصل : 32

بشره النبي صلي الله عليه وآله وسلم بالجنة في الدنيا

(حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت عطا فرما دی)

141. عن سعيدبن المسيّب قال : أخبرني أبو موسٰي الاشعريّ : أنّه توضّأ في بيته ثمّ خرج، فقلت : لألزمنّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ولأکوننّ معه يومي هٰذا، قال : فجاء المسجد، فسأل عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، فقالوا : خرج ووجّه ههنا، فخرجت علٰي إثره، أسأل عنه، حتّي دخل بئر أريس، فجلست عندالباب، وبابها من جريد، حتّي قضٰي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حاجته فتوضّأ، فقمت إليه، فإذا هو جالس علٰي بئر اريس وتوسّط قفّها، وکشف عن ساقيه و دلّاهما في البئر، فسلّمت عليه، ثمّ انصرفت فجلست عندالباب، فقلت : لأ کوننّ بوّاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اليوم، فجاء أبوبکر فدفع الباب، فقلت : من هٰذا؟ فقال : أبوبکر، فقلت : علٰي رسلک، ثمّ ذهبت، فقلت : يا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، هٰذا أبوبکر يستاذن؟ فقال : ’’إئذن له وبشّره بالجنّة‘‘ فاقبلت حتّي قلت لأبي بکر : أدخل، ورسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يبشّرک بالجنّة، فدخل أبوبکر فجلس عن يمين رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم معه في القفّ، ودلّي رجليه في البئر کما صنع النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم، وکشف عن ساقيه.

’’حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ابو موسيٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی کہ وہ اپنے گھر سے وضو کرکے باہر نکلے اور دل میں کہنے لگے کہ آج میں ضرور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہوں گا۔ آپ مسجد میں آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے دریافت کیا۔ لوگوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ پس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے آپ کے بارے پوچھتا ہوا باہر نکلا یہا ں تک کہ پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بئرِ اریس میں داخل ہوئے۔ پس میں اس کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا جو کھجور کی شاخوں کا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضائے حاجت سے فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرما لیا تو اٹھ کر حاضرِ خدمت ہو گیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بئرِ اریس پر بیٹھ گئے منڈیر کے درمیان پنڈلیاں مبارک کھول لیں اور انہیں کنویں میں لٹکا لیا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سلام عرض کیا اور واپس آ کر دروازے پر بیٹھ گیا۔ اپنے دل میں سوچا کہ آج میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربان بنوں گا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے پوچھا، کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔ ’’ابوبکر!‘‘ میں نے کہا، ٹھہریں۔ پھر میں بارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جا کر عرض گزار ہوا ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، حاضرِ خدمت ہونے کی اجازت چاہتے ہیں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’انہیں اجازت دے دو اور انہیں جنت کی خوشخبری سناؤ۔‘‘ میں نے آگے بڑھ کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کی کہ اندر آ جائیے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو جنت کی بشارت دیتے ہیں۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائیں جانب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھ گئے اور اپنی ٹانگیں کنویں میں لٹکا لیں اور پنڈلیاں کھول دیں جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1344، کتاب المناقب، رقم : 3471
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1350، رقم : 3490
3. بخاري، الصحيح، 3 : 1351، رقم : 3492
4. بخاري، الصحيح، 5 : 2295، رقم : 5862
5. بخاري، الصحيح، 6 : 2599، رقم : 6684
6. بخاري، الصحيح، 6 : 2651، رقم : 6834
7. مسلم، الصحيح، 4 : 1868، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2403
8. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 631، کتاب المناقب، رقم : 3710
9. احمد، المسند، 4 : 407
10. نسائي، السنن الکبري، 5 : 42، رقم : 8131
11. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 319، رقم : 2095
12. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 278

142. عن عبداﷲ إبن مسعود رضي الله عنه قال : کنّا عندالنّبيّ فقال النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يطلع عليکم رجل من أهل الجنّة‘‘ فأطلع أبوبکر فسلّم ثمّ جلس.

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اہلِ جنت میں سے ایک شخص تم پر نمودار ہو گا۔‘‘ اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نمودار ہوئے، آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔

1. حاکم، المستدرک، 3 : 76، رقم : 4443
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 622، رقم : 3694
3. طبراني، المعجم الکبير : 10، 167، رقم : 10343
4. احمدبن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 104
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 117
6. محب طبري، رياض النضرة، 1 : 329

143. عن جابر بن عبداﷲ رضي اﷲ عنهما قال مشيت مع النبي صلي الله عليه وآله وسلم إلي امرأة فذبحت لنا شاة فقال رسول الله صلي الله عليه وآله وسلم ليدخلن رجل من أهل الجنة فدخل أبو بکر رضي الله عنه

’’حضرت جابر بن عبداللہ رضي اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک صحابیہ رضی اﷲ عنھا کے گھر گئے، اس نے ہمارے لیے بکری ذبح کی (وہاں) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ابھی یہاں) اہل جنت میں سے ایک شخص داخل ہو گا، پس تھوڑی دیر بعد حضرت ابو بکر داخل ہوئے۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 146، رقم : 4661
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 331، رقم : 14590
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 387، رقم : 15201
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 351، رقم : 31952
5. طيالسي، المسند، 1 : 234، رقم : 1674
6. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 41، رقم : 7897
7. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 209، رقم : 233
8. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 624، رقم : 1453

144. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من أصبح منکم اليوم صائما؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن تبع منکم اليوم جنازة؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن أطعم منکم اليوم مسکينا؟‘‘ قال أبوبکر : أنا قال : ’’فمن عاد منکم اليوم مريضا؟‘‘ قال أبوبکر : أنا فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ’’ما اجتمعن في إمرء إلّا دخل الجّنة‘‘

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میں پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی عیادت (تیمار داری) کی؟‘‘ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، میں نے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جس میں یہ باتیں جمع ہوں وہ ضرور جنت میں جائے گا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، 2 : 713، کتاب الزکوٰة، رقم 1028
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1857
3. نسائي، السنن الکبري، 5 : 36، رقم : 8107
4. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 189، رقم : 7619
5. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 537، رقم : 9199
6. ابونعيم، المسند، المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3 : 102، رقم : 2299
7. نسائي، فضائل الصحابة، 1 : 4، رقم : 6
8. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 477
9. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 92

فصل : 33

إنه أوّل من يدخل الجنّة من الأمّة المحمّدية علي صاحبها الصلٰو ة والسلام

(امت محمدی علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام میں سب سے پہلے جنت میں جانے والے)

145. عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’اتاني جبريل فأخذ بيدي فأراني باب الجنّة الّذي تدخل منه أمّتي‘‘ فقال أبوبکر : ’’يا رسول اﷲ وددت أني کنت معک حتّٰي أنظر اليه‘‘ فقال : رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أما إنّک يا أبابکر أوّل من يّدخل الجنة من أمّتي‘‘

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’جبرئیل نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت (جنت میں) داخل ہو گی۔‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اﷲ! مجھے پسند ہے کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی جنت کا وہ دروازہ دیکھتا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’یقیناً تم تو میری امت کے پہلے شخص ہو جو جنت میں اس دروازہ سے داخل ہو گا۔‘‘

1. ابوداؤد، السنن، 4 : 213، رقم : 4652
2. حاکم، المستدرک، 3 : 77، رقم : 4444
3. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 93، رقم : 2594
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 392، رقم : 593
5. نووي تهذيب الأسماء، 2 : 478
6. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 434
7. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 12 : 91

آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا۔

146. عن الزّهريّ قال : أخبرني حميد بن عبدالرّحمٰن بن عوف : أنّ أبا هريرة قال : سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’من أنفق زوجين من شيء من الأشياء في سبيل اﷲ، دعي من أبواب. يعني : ألجنّة. يا عبداﷲ هذا خير، فمن کان من أهل الصّلاة دعي من باب الصّلاة، ومن کان من أهل الجهاد دعي من باب الجهاد، ومن کان من أهل الصّدقة دعي من باب الصّدقة، و من کان من أهل الصّيام دعي من باب الصّيام، وباب الرّيّان.‘‘ فقال أبوبکر : ما علٰي هذا الّذي يدعٰي من تلک الأبواب من ضرورة، وقال : هل يدعٰي منها کلّها أحديا رسول اﷲ؟ قال : ’’نعم، وأرجو أن تکون منهم يا أبابکر.‘‘

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سُنا ’’جو اﷲ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے گا تو اُسے جنت کے دروازوں سے بلایا جائے گا۔ اے اﷲ کے بندے! یہ خیر ہے۔ پس جو اہل الصلوٰۃ (نمازیوں) میں سے ہو گا اُس کو بابُ الصلوٰۃ سے بُلایا جائے گا اور جو اہل جہاد میں سے ہو گا اُسے بابُ الجہاد سے بلایا جائے گا اور جو اہل صدقہ (خیرات والوں) میں سے ہو گا اُسے باب الصدقہ سے بلایا جائے گا اور جو اہل صِیام (روزہ داروں) میں سے ہو گا اُسے بابُ الصیام اور بابُ الريّان سے بلایا جائے گا۔‘‘ پس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی جو اِن سارے دروازوں سے بلایا جائے اُسے تو خدشہ ہی کیا۔ پھر عرض گزار ہوئے، ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’ہاں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! مجھے امید ہے کہ تم اُن لوگوں میں سے ہو‘‘ (جنہیں تمام دروازوں میں سے بلایا جائے گا)۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1340، کتاب المناقب، رقم : 3466
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 268، رقم : 7621
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 449، رقم : 9799
4. ابن حبان، الصحيح، 8 : 206، رقم : 3418
5. ابن حبان، الصحيح، 8 : 207، رقم : 3419
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 353، رقم : 31965
7. نسائي، السنن الکبري، 2 : 6، رقم : 2219
8. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 36، رقم : 8108
9. نسائي، فضائل الصحابه، 1 : 4، رقم : 7
10. ابونعيم، المسند المستخرج علي صحيح الامام مسلم، 3 : 101، رقم : 2294
11. بيهقي، السنن الکبري، 9 : 171، رقم : 163
12. بيهقي، شعب الايمان، 3 : 255، رقم : 3468
13. ازدي، الجامع لمعمر بن راشد، 11 : 107، رقم :
14. ابن ابي عاصم، السنة، 2 : 578، رقم : 1237
15. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 476

وضاحت :

جنت میں سب سے پہلے داخلہ کے حوالے سے بعض ذہنوں میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ ایسی احادیث جس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہیں اسی طرح اہلِ بیت اطہار کے بارے میں بھی مروی ہیں جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أخبرني رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ان اوّل من يدخل الجنة أنا و فاطمه والحسن و الحسين.

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں میں، فاطمہ، حسن اور حسین ہوں گے۔

1. حاکم، المستدرک، 3 : 164، رقم : 4723
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 14 : 173

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان احادیث اور روایات میں تطبیق کیسے ممکن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے ہمراہ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کا داخلہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے داخلے کے حکم میں ہوگا۔ بقیہ اُمت میں سب سے پہلے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جنت میں داخل ہوں گے۔ اہلِ بیتِ نبوت کا اُمت کے ساتھ مقابلہ نہیں کیا جاتا۔ ہم ایک مثال کے ذریعے اسے یوں واضح کرتے ہیں کہ ایک شیخ کے ساتھ اس کی اولاد بھی ہو اور مریدین و متبعین بھی تو کیا وہاں یہ سوال پیدا ہو گا کہ شیخ کی اولاد اور مریدین میں سے پہلے کون داخل ہو گا؟ ہرگز نہیں۔ شیخ کی اولاد کا داخلہ شیخ کے ساتھ اور شیخ کے حکم میں ہی شمار ہو گا۔ اور داخلہ میں اولیت اور بعدیت کا سوال بعد میں پیدا ہو گا۔

اس امر کی وضاحت یوں بھی ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ چلتے، مجلس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھتے۔ جہاد بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ بشانہ کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جانیں نثار کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لاکھوں دعائیں لیتے۔ جبکہ حسنین کریمین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر سواری کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود مبارک میں لیٹتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ اقدس پر کھیلتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک کو چوستے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بے حساب پیار لیتے۔ اگر کوئی یہاں مقابلہ کرنا چاہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلنے میں پہلے کون تھا پیچھے کون تھا، بیٹھنے میں پہلے کون تھا پیچھے کون تھا تو یہ مقابلہ درست نہیں ہو گا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار اور ادب شعار اُمتی کبھی بھی اہلِ بیتِ نبوت اور اصحاب بارگہِ نبوت میں مقابلہ اور موازنہ نہیں کرتے۔ اسلئے کہ گھر والوں اور صحبت والوں میں موازنہ نہیں ہوا کرتا، اولاد و احفاد اور غلامان و اصحاب میں بھی موازنہ نہیں ہوا کرتا، حتی کہ خود جگر و جان اور جانثاران میں بھی موازنہ نہیں ہوا کرتا کیونکہ کچھ جان نثار کرنے والے ہیں اور کچھ خود جگر و جان کہلانے والے ہیں۔

فصل : 34

إن الصّديق سيدکهول أهل الجنة

(آپ رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں)

147. عن انس، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لأبي بکر وّ عمر : ’’هذان سيّدا کهول أهل الجنّة من الأوّلين والاٰخرين إلّا النّبيّين والمرسلين‘‘.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا۔ ’’یہ دونوں انبیاء و مرسلین کے علاوہ اولین و آخرین میں سے تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 610، رقم : 3664
2. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 68، رقم : 6873
3. طبراني، المعجم الصغير، 2 : 173، رقم : 976
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 6 : 244، رقم : 2260
5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 148، رقم : 129
6. ذهبي، سير أعلام النبلا، 7 : 133
7. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 307
8. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478

148. عن عليّ رضي الله عنه عن النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أبوبکر وّعمر سيّدا کهول أهل الجنّة من الأوّلين والاٰخرين إلّا النّبيّين والمرسلين، لا تخبرهما يا عليّ ماداما حيّين.

’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ انبیاء و مرسلین کے علاوہ اولین و آخرین میں تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی رضی اللہ عنہ! جب تک وہ دونوں زندہ ہیں انہیں یہ خبر نہ دینا۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، 1 : 36، مقدمه، رقم : 95
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 611، رقم : 3665
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 611، رقم : 3666
4. احمد، المسند، 1 : 80، رقم : 602
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 350، رقم : 31941
6. ابويعلي، المسند، 1 : 405، رقم : 533
7. بزار، المسند، 3 : 69 رقم : 833
8. بزار، المسند، 3 : 67، رقم : 831
9. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 91، رقم : 1348
10. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 437، رقم : 1781
11. مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 167، رقم : 545
12. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 123، رقم : 93
13. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 617، رقم : 1419
14. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 15 : 343
15. عسقلاني، تهذيب التهذيب، 12 : 393
16. مزي، تهذيب الکمال، 13 : 386
17. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 324
18. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 15

149. عن عون ابن أبي جحيفة عن أبيه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’أبوبکر وّ عمر سيّدا کهول أهل الجنّة من الأوّلين والاٰخرين إلّا النّبيّين والمرسلين‘‘.

’’حضرت عون رضی اللہ عنہ بن ابو جحیفہ اپنے والد ابو جحیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ انبیاء اور مرسلین کے علاوہ اولین و آخرین کے تمام عمر رسیدہ جنتیوں کے سردار ہیں۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، 1 : 38، مقدمه، رقم : 100
2. ابن حبان، الصحيح، 15 : 330، رقم : 6904
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 104، رقم : 257
4. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 272، رقم : 4174
5. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 538، رقم : 2192
6. کناني، مصباح الزجاجه، 1 : 16، رقم : 36

150. عن أبي سعيد الخدري قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لأبي بکر و عمر هذان سيدا کهول اهل الجنة من الأولين والآخرين.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے لیے فرمایا : ’’یہ دونوں عمر رسیدہ اہل جنت کے سردار ہیں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 359، رقم : 4431
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 53

فصل : 35

إن الصديق يري في الجنة کالنّجم الطّالع في أفق السّماءِ

(آپ رضی اللہ عنہ. . . آسمانِ جنت کا درخشاں ستارا ہیں)

151. عن أبي سعيد رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إنّ أهل الدّرجات العلي ليراهم من تحتهم کما ترون النّجم الطّالع في أفق السّماء، وإنّ أبابکر وعمر منهم وأنعما‘‘.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اعلیٰ اور بلند درجات والوں کو نچلے درجات والے ایسے دیکھیں گے جیسے تم آسمان کے افق پر طلوع ہونے والے ستارے کو دیکھتے ہو اور بیشک ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ اُن (بلند درجات والوں) میں سے ہیں اور نہایت اچھے ہیں‘‘۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 607، ابواب المناقب، رقم : 3658
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 37، مقدمه، رقم : 96
3. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 93، رقم : 11900
4. ابويعلي، المسند، 2 : 400، رقم : 1178
5. ابويعلي، المسند، 2 : 473، رقم : 1299
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 31925
7. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 370، رقم : 3427
8. حميدي، المسند، 2 : 333، رقم : 755
9. عبد بن حميد، المسند، 1 : 280، رقم : 887
10. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 168، رقم : 162
11. مزي، تهذيب الکمال، 15 : 128، رقم : 3344
12. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 329، رقم : 19
13. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 220، رقم : 353
14. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 343، رقم : 570
15. خلال، السنه، 2 : 306، رقم : 376
16. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 616، رقم : 1416

152. عن جابر بن سمره قال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول إن أهل الدرجات العلي يراهم من هو أسفل منهم کما يري الکوکب الدري في أفق السماء و أبوبکر و عمر منهم و أنعما.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ فرماتے سنا کہ جنت میں اعلیٰ درجات پر فائز لوگوں کو کم درجات والے لوگ اس طرح دیکھیں گے جیسے وہ آسمان کے افق پر چمکتے ستاروں کو دیکھتے ہیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ (ان اعلیٰ درجات والوں) میں شامل ہیں اور کیا ہی خوش نصیب ہیں۔‘‘

1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 254، رقم : 2065
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 54

فصل : 36

يتجلي اﷲ لأبي بکر في الآخرة خاصة

(آخرت میں اﷲ تعالیٰ آپ رضی اللہ عنہ کو اپنا دیدار خاص عطا فرمائے گا)

153. عن جابر ابن عبداﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنّا عندالنّبيّ إذ جائه وفد عبدالقيس فتکلّم بعضهم بکلام لغافي الکلام فالتفت النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم إلٰي أبي بکر و قال : ’’يا أبابکر سمعت ما قالوا؟‘‘ قال : نعم يا رسول اﷲ وفهمته قال : ’’فأجبهم‘‘ قال : فأجابهم أبوبکر رضي الله عنه بجواب وأجاد الجواب فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’يا أبابکر أعطاک اﷲ الرّضوان الأکبر‘‘ فقال له بعض القوم ’’وما الرّضوان الأکبر يا رسول اﷲ؟‘‘ قال : ’’يتجلّي اﷲُ لعباده في الآخرة عامة وّ يتجلّي لأبي بکر خاصّة‘‘.

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے کہ عبدالقیس کا وفد آیا، اس میں سے ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نامناسب گفتگو کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ’’اے ابوبکر! آپ نے سنا جو کچھ انہوں نے کہا ہے؟‘‘ آپ نے عرض کی : ہاں! یا رسول اﷲ! میں نے سن کر سمجھ لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’پھر انہیں اس کا جواب دو‘‘۔ راوی کہتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں نہایت عمدہ جواب دیا پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اﷲ رب العزت نے تمہیں رضوانِ اکبر عطا فرمائی ہے۔‘‘ لوگوں میں سے کسی نے بارگاہِ نبوت میں عرض کی۔ ’’یا رسول اﷲ! رضوانِ اکبر کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اﷲ رب العزت آخرت میں اپنے بندوں کی عمومی تجلی فرمائے گا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی تجلی فرمائے گا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 83، رقم : 4463
2. ابونعيم، حلية الاولياء، 5 : 12
3. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 76
4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 19
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق، 30 : 161

154. عن الزبير بن العوام قال لما خرج رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم من الغار اتاه ابوبکر بناقته فقال ارکبها يا رسول اﷲ فلما رکبها التفت الي ابي بکر فقال يا أبابکر أعطاک اﷲ قال يا رسول اﷲ وما قال يتجلي اﷲ يوم القيامة لعباده عامة و يتجلي لک خاصة.

’’حضرت زید بن عوام رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار (ثور) سے باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی اونٹنی لائے اور عرض کیا : یارسول اللہ! اس پر سوار ہو جائیں۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوار ہو گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے ابوبکر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ روز قیامت اپنے بندوں کے لئے عام تجلی فرمائے گا اور تمہارے لئے خاص۔‘‘

1. ابن حبان، طبقات المحدثين بأصبهان، 3 : 11، رقم : 240
2. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 76

3۔ ابن حجر نے ’(لسان المیزان، 1 : 282، رقم : 838)، میں حضرت ابوہریرۃ سے روایت کیا ہے۔
4۔ ذہبی نے بھی ’(میزان الاعتدال فی نقدر الرجال، 1 : 278)، میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
5۔ ابن عساکر نے ’(تاریخ دمشق الکبیر، 30 : 163)، میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

فصل : 37

صبره و تثبته عند وفاة النبي صلي الله عليه وآله وسلم

(وصالِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صبر و استقامت)

155. عن عائشة رضي اﷲ عنها، زوج النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم : انّ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مات و أبوبکر با لسّنح. قال اسماعيل : يعني با لعالية. فقام عمر يقول : و اﷲ ما مات رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم. قالت : وقال عمر : و اﷲ ما کان يقع في نفسي إلّا ذاک، وليبعثنّه اﷲ، فليقطعنّ أيدي رجال وأرجلهم. فجآء أبوبکر فکشف عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فقبّله قال : بأبي أنت وأمّي. طبت حيّا وّميتا، والّذي نفسي بيده لا يذيقک اﷲ الموتتين أبدا ثمّ خرج فقال : أيّها الحالف علٰي رسلک، فلمّا تکلّم أبوبکر جلس عمر، فحمد اﷲ أبوبکر وأثنٰي عليه، وقال : ألا من کان يعبد محمّدا صلي الله عليه وآله وسلم فإنّ محمّدا قد مات، ومن کا ن يعبد اﷲ فإنّ اﷲ حيّ لا يموت.

’’ام المؤمنین سيّدہ عائشہ صدِّیقہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرہ رضی اﷲ عنھا سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل راوی کا قول ہے کہ وہ مقام مدینہ طیبہ کا بالائی حصہ ہے۔ پس حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اﷲ کی قسم! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ سيّدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ کی قسم! میرے دل میں یہی بات سمائی ہوئی تھی کہ اﷲ رب العزت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرور تندرست فرما دے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور کافروں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے‘‘۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر سے کپڑا ہٹایا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجودِ مسعود کو بوسہ دیا اور عرض کی : ’’میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ حیات و ممات دونوں میں پاکیزہ رہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہِ قدرت میں میری جان ہے۔ اﷲ رب العزت آپ کو موت کا ذائقہ دوبارہ کبھی نہیں چکھائے گا ‘‘۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور ارشاد فرمایا۔ ’’اے قسم کھانے والے! صبر سے کام لے‘‘۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کلام فرمایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثنا کے بعد فرمایا : ’’سُن لو! جو شخص حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو یقیناً وہ وفات پا چکے ہیں اور جو شخص اﷲ رب العزت کی عبادت کرتا تھا تو اﷲ رب العزت زندہ ہے اس پر موت طاری نہیں ہو گی۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1341، کتاب المناقب، رقم : 3467
2. ابن ماجه، السنن، 1 : 520، رقم : 1627
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 142
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 269
5. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 346
6. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 38

156. قال أبو سلمة فأخبرني بن عباس رضي الله عنهما ان ابا بکر رضي الله عنه خرج و عمر رضي الله عنه يکلم الناس فقال اجلس فأبي فقال اجلس فأبي فتشهد ابو بکر رضي الله عنه فمال إليه الناس و ترکوا عمر فقال أما بعد فمن کان منکم يعبد محمدا صلي الله عليه وآله وسلم فإن محمدا صلي الله عليه وآله وسلم قد مات و من کان يعبد اﷲ فإن اﷲ حي لا يموت. قال اﷲ تعالي : (وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلاَّ رَسُوْلٌ) إلي (الشَّاکِرِيْن) و اﷲ لکان الناس لم يکونوا يعلمون أن اﷲ أنزلها حتي تلاها أبوبکر رضي الله عنه فتلقاها منه الناس فما يسمع بشر إلا يتلوها.

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے (حضرت عمر رضی اللہ عنہ) سے کہا آپ بیٹھ جائیے مگر انہوں نے انکار کیا آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں بارِ دگر بیٹھنے کو کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوگئے اور انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گفتگو کی کہ جو شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرستش کرتا تھا تو وہ سن لے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں اور جو اللہ عزوجل کی عبادت کرتا تو وہ سن لے کہ اللہ عزوجل زندہ ہے وہ کبھی نہیں مرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ( اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تو) رسول ہی ہیں (نہ کہ خدا)، آپ سے پہلے بھی کئی پیغمبر (مصائب اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اس دنیا سے) گزر چکے ہیں، پھر اگر وہ وفات فرما جائیں یا شہید کردیئے جائیں تو کیا تم اپنے (پچھلے مذہب کی طرف) الٹے پاؤں پھر جاؤ گے (یعنی ان کی وفات یا شہادت کو معاذ اللہ دینِ اسلام کے حق نہ ہونے پر یا ان کے سچے رسول نہ ہونے پر محمول کروگے)، اور جو کوئی اپنے الٹے پاؤں پھرے گا تو وہ اللہ کا ہرگز کچھ نہیں بگاڑے گا، اور اللہ عنقریب (مصائب پر ثابت قدم رہ کر) شکر کرنے والوں کو جزا عطا فرمائے گا۔)

(راوی کہتا ہے) اللہ رب العزت کی قسم! یوں لگا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت سے پہلے لوگ جانتے ہی نہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ہے۔ (اب آپ رضی اللہ عنہ کی تلاوت کے بعد) لوگوں نے اسے سن کر یاد کرلیا۔ پس اب ہر شخص کو اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے سنا جاتا تھا۔‘‘

بخاري، الصحيح، 1 : 419، رقم : 1185

فصل : 38

صاحب النبي صلي الله عليه وآله وسلم في الغار والمزار

(صدیق اکبر رضی اللہ عنہ. . . حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غار و مزار کے ساتھی ہیں)

157. عن ابن عمر، أنّ رسول صلي الله عليه وآله وسلم قال لأبي بکر : انت صاحبي علي الحوض، وصاحبي في الغار.

حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے ارشاد فرمایا : ’’آپ حوضِ (کوثر) پر میرے ساتھی ہیں اور غار (ثور) میں بھی میرے ساتھی ہیں۔‘‘

1. ترمذي، الجامع، 5 : 613، رقم : 3670
2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 478
3. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 72

158. عن ابن أبي مليکة، عن ابن عبّاس رضي اﷲ عنهما قال : إنّي لواقف في قوم فدعوا اﷲ لعمر بن الخطّاب وقد وضع علٰي سريره، إذا رجل مّن خلفي قد وضع مرفقه علٰي منکبي يقول : رحمک اﷲ، إن کنت لارجو أن يجعلک اﷲ مع صاحبيک، لأنّي کثيرا ممّا کنت أسمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ’’کنت وأبوبکر و عمر، وفعلت و أبوبکر و عمر، وانطلقت وأبوبکر وعمر‘‘ فان کنت لأرجو أن يجعلک اﷲ معهما، فالتفتّ فإذا هو عليّ بن أبي طالب رضي اﷲ عنه. (158)

’’ابن ابی ملیکہ رضی اللہ عنہ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : میں لوگوں کے ہمراہ کھڑا تھا جنہوں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے لئے اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کی۔ اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ (کی میت) کو چارپائی پر رکھا جا چکا تھا، اچانک ایک شخص میرے پیچھے سے آیا اور اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی اور فرمایا : ’’اﷲ آپ پر رحم فرمائے، میں امید کرتا تھا کہ اﷲ رب العزت آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا کیونکہ میں اکثر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنتا تھا کہ آپ فرماتے تھے : ’’میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ تھے، اور میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے (فلاں کام) کیا، میں، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ (فلاں جگہ) گئے۔‘‘ مجھے امیدِ واثق ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا۔ پس میں اپنے پیچھے اُس شخص کی طرف متوجہ ہوا تو ( کیا دیکھتا ہوں) وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے۔

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1345، رقم : 3474
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1348، رقم : 3482
3. مسلم، الصحيح، 4 : 1858، کتاب فضائل الصحابة، رقم : 2389
4. ابن ماجه، السنن، 1 : 37، مقدمه، رقم : 98
5. احمد، المسند، 1 : 112، رقم 898
6. حاکم، المستدرک، 3، 71، رقم : 4427
7. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 39، رقم : 8115
8. نسائي، فضائل الصحابة، 1 : 7، رقم : 14
9. خلال، السنه، 1 : 292، رقم : 358
10. بزار، المسند، 2 : 102، رقم : 453
11. احمد، فضائل الصحابه، 1 : 257، رقم : 327
12. بيهقي، الاعتقاد، 9 : 184
13. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 9 : 184
14. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 328
15. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 334

159. عن سعيد ابن المسيّب قال : ’’کان أبوبکرالصّدّيق من النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم مکان الوزير فکان يشاوره في جميع أموره وکان ثانيه في الإسلام وکان ثانيه في الغار وکان ثانيه في العريش يوم بدر وکان ثانيه في القبر ولم يکن رّسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقدّم عليه أحدا‘‘

’’حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں وزیر کی حیثیت رکھتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے تمام اُمور میں اُن سے مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لانے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی (دوسرے) تھے، غارِ (ثور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، غزوہء بدر میں عریش (وہ چھپر جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بنا یا گیا تھا) میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی تھے، قبر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ثانی ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُن (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ) پر کسی کو بھی مقدّم نہیں سمجھتے تھے۔‘‘

حاکم، المستدرک، 3 : 66، رقم : 4408

160. عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدني عند رأسه و قال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده قال فغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت يا رسول اﷲ هذا أبوبکر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح و سمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.

’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لاکر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی۔ حبیب کو اسکے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘

1. حلبی، السيرة الحلبيه، 3 : 493
2. سيوطی،الخصائص الکبريٰ، 2 : 492
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 436

فصل : 39

حبه واقتداءه و شکره واجب علي الأمة

(صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت و اطاعت اور شکر اُمت پر واجب ہے)

161. عن سهل بن سعد قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حب أبي بکر و شکره واجب علي امتي.

’’حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت اور اُن کا شکر ادا کرنا میری امت پر واجب ہے۔‘‘

1. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 142، رقم : 2724
2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 451

162. عن الشعبي قال حب أبي بکر و عمر و معرفة فضلهما من السنة.

’’شعبی سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہا کی محبت اور ان کے فضائل کی معرفت سنت ہے۔‘‘

1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 349، رقم : 31937
2. ذهبي، سير أعلام النبلا، 4 : 310
3. عبدالله بن احمد، السنة، 2 : 580، رقم : 1368
4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 972

163. عن حذيفة، قال : کنّا جلوسا عند النّبيّ صلي الله عليه وآله وسلم فقال : ’’إنّي لا أدري ما بقائي فيکم، فاقتدوا بالّذين من بعدي‘‘ وأشار إلٰي أبي بکر و عمر

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیشک میں (اپنے آپ) نہیں جانتا کہ کتنی مدت تمہارے درمیان رہوں گا۔ پس تم میرے بعد اِن لوگوں کی پیروی کرنا‘‘۔ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔

1. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 610، ابواب المناقب، رقم : 3663
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 668، ابواب المناقب، رقم : 3799
3. ابن ماجه، السنن، 1 : 37، رقم : 97
4. احمد، المسند، 5 : 385، رقم : 23324
5. ابن حبان، الصحيح، 15 : 328
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 433، رقم : 37049
7. ابن ابي عاصم، السنه، 2 : 545، رقم : 1148
8. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 186
9. بخاري، الکني، 1 : 50
10. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 264
11. خلال، السنة، 1 : 275، رقم : 336

164. عن حذيفة، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إقتدوا بالّذين من بعدي أبي بکر وعمر‘‘.

’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم میرے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کی پیروی اور اقتداء کرنا۔‘‘

1. ابن حبان، الثقات، 7 : 573
2. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 153
3. طبراني، المعجم الاوسط، 4 : 140، رقم : 3816
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 295
5. عبدالله بن احمد، السنة، 2 : 579، رقم : 1366
6. ابونعيم، حلية الاولياء، 9 : 109
7. ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 334
8. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 340
9. قزويني، التدوين في اخبار قروين، 2 : 393
10. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 223
11. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 478

فصل : 40

حبه و مودته لأهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم

آپ رضی اللہ عنہ کی محبت و مودتِ اہل بیت رضی اﷲ عنہم

165. عن ابن عمر قال : قال ابوبکر رضي الله عنه ارقبوا محمداً صلي الله عليه وآله وسلم في اهل بيته.

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اہل بیت میں تلاش کرو‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1380، رقم : 3541
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1361، رقم : 3509
3. ابن ابي شيبة، المصنف، 6 : 374، رقم : 32140
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2 : 574
5. نووي، تهذيب الأسماء، 1 : 163
6. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 4 : 114

166. والذي نفسي بيده لقرابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أحب الي ان أصل من قرابتي.

’’خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرابت داری مجھے اپنے اقرباء سے زیادہ عزیز ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1360، رقم : 3508
2. بخاري، الصحيح، 4 : 1549، رقم : 3998
3. مسلم، الصحيح، 3 : 380، رقم : 1759
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 574، رقم : 6607
5. بيهقي، السنن الکبري، 6 : 300، رقم : 12513
6. احمد، المسند، 1 : 9 : رقم : 55

167. عن عقبه بن الحارث قال صلي أبوبکر رضي الله عنه العصر ثم خرج يمشي فرأي الحسن يلعب فحمله علي عاتقه و قال بأبي شبيه بالنبي لاشبيه بعلي و علي يضحک.

’’عقبہ بن الحارث سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عصر کی نماز پڑھی پھر مسجد سے نکل کر ٹہلنے لگے آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر ان کو اپنے کاندھے پر اٹھا لیا اور کہا میرے باپ قربان، یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشابہ ہیں علی رضی اللہ عنہ کے نہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنسنے لگے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1302، رقم : 3349
2. بخاري، الصحيح، 3 : 1370، رقم : 3640
3. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 184، رقم : 4784
4. ابو يعلي، المسند، 1 : 41، رقم : 37
5. ابو يعلي، المسند، 1 : 42، رقم : 39
6. بزار، المسند، 1 : 122، رقم : 53
7. نسائي، السنن الکبري، 5 : 48، رقم : 8161
8. نسائي، فضائل الصحابة، 1؛ 19، رقم : 57
9. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 20، رقم : 2527
10. شيباني، الآحاد و المثاني، 1 : 299، رقم : 409
11. عسقلاني، الإصابة، 2 : 70
12. ابن جوزي، صفة الصفوة 1 : 759
13. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 139

168. اخذت ابابکر الخاصرة فجعل علي (کرم اﷲ وجهه) يسخن يده بالنار فيکمد بهاخاصرة ابي بکر رضي الله عنه.

’’حضرت ابوبکر کی کوکھ میں درد اٹھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا ہاتھ آگ سے گرم کرکے اس پر پھیرتے رہے اور اس کو سینکتے رہے۔‘‘

1. احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 145، رقم : 124
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30؛ 338
3. سيوطي، لباب النقول، 1 : 132
4. سيوطي، الدر المنثور، 5 : 85
5. شوکاني، فتح القدير، 3 : 136
6. محب طبري، الرياض النضرة

169. ان ابا بکر الصديق کان اذا انزل به امر يريد فيه مشاورة اهل الراي و اهل الفقه و دعا رجالا من المهاجرين والانصار دعا عمر و عثمان و عليا و عبدالرحمن بن عوف و معاذ بن جبل و ابي بن کعب و زيد بن ثابت و کل هولاء يفتي في خلافة ابي بکر.

’’جو کوئی معاملہ پیش آتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق اہل الرائے و فقہائے صحابہ سے مشورہ لیتے تھے۔ اور مہاجرین و انصار میں سے چند ممتاز لوگ یعنی عمر، عثمان، علی، عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنھم کو بلاتے تھے۔ یہ سب لوگ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں فتویٰ دیتے تھے۔‘‘

ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 350

170. کان ابوبکر يکثر النظر الي وجه علي رضي الله عنه فساله عائشة رضي اﷲ عنها فقال سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم النظر الي وجه علي عبادة.

’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑی کثرت کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھتے رہتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے۔‘‘

1. هيتمي، الصواعق المحرقه : 177

2. ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (15 : 542)، میں مختصر روایت کیا ہے۔

فصل : 41

ماروي عن علي المرتضيٰ رضي الله عنه في مناقب أبي بکر رضي الله عنه

فضائلِ ابی بکر رضی اللہ عنہ. . . بروایاتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ

171. عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’إن تولوا أبا بکر تجدوه زاهدا في الدنيا راغبا في الاخرة وإن تولوا عمر تجدوه قويا أمينا لا تأخذه في اﷲ تعالي لومة لائم وإن تولوا عليا تجدوه هاديا مهديا يسلک بکم الطريق‘‘.

’’حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اگر تم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو والی بناؤ گے تو تم اُنہیں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والا اور آخرت میں رغبت رکھنے والا پاؤ گے اور اگر عمر رضی اللہ عنہ کو والی بناؤ گے تو انہیں ایسا قوی اور امین پاؤ گے جسے اﷲ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اپنی گرفت میں نہیں لے سکتی اور اگر تم علی رضی اللہ عنہ کو والی بناؤ گے تو انہیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا پاؤ گے جو تمہیں سیدھے راستے پر چلائے گا۔‘‘

1. حاکم، ا لمستدر ک، 3 : 73، کتاب معرفة الصحابه، رقم : 4434
2. احمد، المسند، 1 : 108، رقم : 859
3. بزار، المسند، 3 : 33، رقم : 783
4. مقدسي، الأحاديث المختارة، 2 : 86، رقم : 463
5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 231، رقم : 284
6. عبدالله بن احمد، السنة، 2 : 541، رقم : 1257
7. عسقلاني، الإصابة، 4 : 569
8. ابن مفلح، المقصد الأرشد، 2 : 313، رقم : 828

172. وعن الحسن، قال : قال علي عليه السلام : لما قبض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم نظرنا في أمرنا فوجدنا النبي صلي الله عليه وآله وسلم قد قدم أبا بکر في الصلاة فرضينا لدنيانا من رضي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لديننا، فقدمنا أبابکر.

حضرت امام حسن بن علی علیہما السلام سے روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو ہم نے اپنے معاملات میں غور و فکر کیا۔ پس ہم نے پایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نماز میں آگے فرمایا (امام بنایا)۔ چناچہ ہم اپنی دنیا کے معاملات کی ذمہ داری کے لئے اُس ہستی پر راضی ہو گئے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے دین کے معاملات میں راضی ہوئے تھے۔ ’’پھر ہم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کواپنے سے مقدَّم کر دیا (خلیفہ تسلیم کر لیا)۔‘‘

1. ابن جوزي، صفة الصفوه، 1 : 257
2. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 183
3. ابن عبدالبر، التمهيد، 22 : 129
4. خلال، السنه، 1 : 274، رقم : 333
5. ابن عبد البر، الاستيعاب، 3 : 971
6. نووي، تهذيب الأسماء، 2 : 480
7. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 177، رقم : 390

173. عن علي رضي الله عنه انه قال لجمع من الصحابة اخبروني عن اشجع الناس قالوا انت قال اشجع الناس ابو بکر لما کان يوم بدر جعلنا لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عريشا فقلنا من مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم اي من يکون معه لئلا يهوي اليه احد من المشرکين فواﷲ ما دنا منا أحد إلا ابوبکر شاهرا بالسيف علي رأس رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم لا يهوي اليه احد الا اهوي اليه.

حضر ت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے دریافت کیا کہ لوگوں میں سب سے بہادر کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے بہادر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ غزوۂ بدر کے دن جب ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ایک عریش (چھپر) تیار کیا تو ہم نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا تاکہ کوئی مشرک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ بڑھ سکے۔ بخدا ہم میں سے کوئی آگے نہ بڑھا سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تلوار سونت کر اس مستعدی سے کھڑے ہوئے کہ جونہی کوئی دشمن ادھر کا رخ کرتا آپ رضی اللہ عنہ اس پر جھپٹ پڑتے۔

1. حلبي، السيرة الحليه، 2 : 166
2. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 32

174. عن النّزال بن سبرة قال. . . فقلنا حدّثنا عن أبي بکر فقال : ’’ذاک إمرء سمّاه اﷲ صدّيقا علٰي لسان جبريل و محمّد صلي اﷲ عليهما.‘‘

’’حضرت نزال بن سبرہ سے روایت ہے کہ ہم نے (حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ) سے عرض کی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ بیان فرمائیں تو انہوں رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ابو بکر رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کا لقب اﷲ رب العزت نے حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے ’’الصِدِّیق‘‘ رکھا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک، 3 : 65، رقم : 4406
2. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 479
3. محب طبري، الرياض النضرة، 1 : 406
4. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 161

175. عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبابکر الوفاة أقعدني عند رأسه و قال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالکف الذي غسلت به رسول اﷲ و حنطوني و اذهبوا بي إلي البيت الذي فيه رسول اﷲ فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلي مقابر المسلمين حتي يحکم اﷲ بين عباده قال فغسل و کفن و کنت أول من يأذن إلي الباب فقلت يا رسول اﷲ هذا أبوبکر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح و سمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلي حبيبه فإن الحبيب إلي الحبيب مشتاق.

’’حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے مجھے اپنے سرہانے بٹھایا اور فرمایا اے علی! جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اس ہاتھ سے غسل دینا جس سے تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا تھا اور مجھے خوشبو لگانا اور مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کے پاس لیجانا، اگر تم دیکھو کہ دروازہ کھول دیا گیا ہے تو مجھے وہاں دفن کر دینا ورنہ واپس لاکر عامۃ المسلمین کے قبرستان میں دفن کر دینا تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کو غسل اور کفن دیا گیا اور میں نے سب سے پہلے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر اجازت طلب کی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! ابوبکر آپ سے داخلہ کی اجازت مانگ رہے ہیں پھر میں نے دیکھا کہ روضہ اقدس کا دروازہ کھول دیا گیا اور آواز آئی : حبیب کو اس کے حبیب کے ہاں داخل کر دو بے شک حبیب ملاقاتِ حبیب کے لئے مشتاق ہے۔‘‘

1. حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 493
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 436
3. سيوطي، الخصائ رضي الله عنه الکبريٰ، 2 : 492

176. عن محمد ابن الحنفية قال : قلت لأ بي : أي الناس خير بعد رُسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قال : أبوبکر، قلت : ثم من؟ قال : ثم عمر و خشيت أن يقول عثمان، قلت : ثم أنت؟ قال : ما أنا إلا رجل من المسلمين.

’’حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : میں نے اپنے والد (حضرت علی رضی اللہ عنہ) سے دریافت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : ابوبکر رضی اللہ عنہ پھر میں نے کہا : ان کے بعد؟ انہوں نے فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ۔ تو میں نے اس خوف سے کہ اب وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے خود ہی کہہ دیا کہ پھر آپ ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’نہیں میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام مسلمان ہوں۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، 3 : 1342، کتاب المناقب، رقم : 3468
2. ابو داؤد السنن 4 : 206کتاب السنة، رقم : 4629
3. طبراني. المعجم الاوسط، رقم حديث : 810، 1 : 247
4. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 321، رقم : 445
5. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 371، رقم : 553
6. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 480، رقم : 993
7. ابن الجوزي، صفة الصفوة، 1 : 250
8. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 569، رقم : 1332
9. عبدالله بن احمد، السنه، 2 : 578، رقم : 1363
10. محب طبري، الرياض النضره، 1 : 321
11. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 328
12. نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 4477
13. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 361

177. عن علي انه قال خير هذه الامة بعد نبيها أبوبکر رضي اﷲ عنه.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اس امت میں سے بہتر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 110، رقم : 879
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 125، رقم : 1031
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 167، رقم : 1052
4. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 351، رقم : 31950
5. طبراني، المعجم الأوسط، 1 : 298، رقم : 992
6. طبراني، المعجم الأوسط، 4 : 84، رقم : 3673

7. عبداللہ بن احمد نے السنہ (2 : 581، رقم : 1370)، میں روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہے۔

178. عن عبداﷲ بن سلمة قال : سمعت عليا يقول : ’’خير الناس بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أبوبکر وخير الناس بعد أبي بکر، عمر‘‘.

’’عبد اﷲ بن سلمۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا : کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے رسُول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعدسب سے افضل عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘

1. ابن ماجه، السنن، 1 : 39، مقدمه، رقم : 106
2. ابونعيم، حلية الاولياء، 7 : 199، 200
3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 5 : 213، رقم : 3686
4. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 376، رقم؛ 4476

5۔ عبداللہ بن محمد نے، (طبقات المحدثین باصبھان، 2 : 287، رقم : 176)‘ میں وہب السوائی سے روایت کیا ہے۔

6. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 325
7. عسقلاني، الاستيعاب، 3 : 1149

179. قال علي و الزبير رضي اﷲ عنهما انا نري ابا بکر احق الناس بها بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم انه لصاحب الغار و ثاني اثنين و انا لنعلم بشرفه و کبره و لقد امره رسول اﷲ بالصلٰوة بالناس و هو حيي.

’’بلاشبہ حضرت ابوبکر خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غار کے ساتھی ہیں۔ آپ ثانی اثنین ہیں اور ہم آپ کے شرف کو اور آپ کے خیر ہونے کو جانتے ہیں۔ بے شک آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیات طیبہ میں نماز کی امامت کا حکم دیا تھا۔‘‘

1. حاکم، المستدرک علي الصحيحين، 3 : 70، رقم : 4422
2. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 152
3. بيهقي، الإعتقاد، 1 : 351
4. طبري، الرياض النضرة، 2 : 216، رقم : 418
5. ابن کثير، البدايه والنهايه، 6 : 306
6. ابن ابي الحديد، شرح نهج البلاغه، 1 : 45

180. عن أسيد بن صفوان صاحب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال لما توفي أبوبکر الصديق رضي الله عنه فسجوه بثوب ارتجت المدينة بالبکاء ودهش القوم کيوم قبض رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وجاء علي بن أبي طالب رضي الله عنه باکيا مسترجعا وهو يقول اليوم انقطعت خلافة النبي حتي وقف علي باب البيت الذي فيه أبوبکر فقال رحمک اﷲ أبابکر کنت أول القوم إسلاما وأخلصهم إيمانا وأشدهم يقينا وأخوفهم ﷲ وأعظمهم غناء وأحوطهم علي رسوله صلي الله عليه وآله وسلم وأحدبهم علي الإسلام وأيمنهم علي أصحابه أحسنهم البغوي وأفضلهم مناقبا وأکثرهم سوابقا أرفعهم درجة وأقربهم من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وأشبههم به هديا و خلقا وسمتا وفضلا أشرفهم منزلة وأکرمهم عليه وأوثقهم عنه فجزاک اﷲ عن الإسلام و عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم والمسلمين خيرا صدقت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حين کذبه الناس فسماک اﷲ في کتابه صديقا الذي جاء بالصدق محمد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و صدق به أبوبکر واسيته حين بخلوا وقمت معه حين عنه قعدوا صحبته في الشدة أکرم الصحبة ثاني اثنين وصاحبه والمنزل عليه السکينة رفيقه في الهجرة و مواطن الکره خلفته في أمته بأحسن الخلافة حين ارتد الناس و قمت بدين اﷲ قياما لم يقمه خليفة نبي قط قويت حين ضعف أصحابک و برزت حين استکانوا ونهضت حين وهنوا ولزمت منهاج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إذ هموا ولم تصدع برغم المنافقين و ضغن الفاسقين و غيظ الکافرين وکره الحاسدين و قمت بالأمر حين فشلوا و نطقت حين تتعتعوا و مضيت بنور اﷲ إذ و قفوا و اتبعوک فهدوا کنت أخفضهم صوتا و أعلاهم فوقا أقلهم کلاما و أصوبهم منطقا و أطولهم صمتا و أبلغهم قولا کنت أکبرهم رأيا و أشجعهم قلبا و أشدهم يقينا وأحسنهم عملا و أعرفهم بالأمور کنت و اﷲ للدين يعسوبا أولا حين تفرق الناس عنه و آخرا حين قبلوا کنت للمؤمنين أبا رحيما إذ صاروا عليک عيالا فحملت من الأثقال ما عنه ضعفوا و حفظت ما أضاعوا ورعيت ما أهملوا و شمرت إذ خنعوا و علوت إذ هلعوا و صبرت إذ جزعوا فأدرکت آثار ما طلبوا و نالوا بک ما لم يحتسبوا کنت علي الکافرين عذابا صبا و لهبا و للمسلمين غيثا و خصبا فطرت و اﷲ بغنائها و فزت بحبائها و ذهبت بفضائلها و أحرزت سوابقها لم تعلل حجتک ولم يزغ قلبک ولم تضعف بصيرتک و لم تجبن نفسک ولم تخن کنت کالجبل لا تحرکه العواصف ولا تزيله القواصف کنت کما قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم أمن الناس عليه في صحبتک و ذات يدک و کمال قال ضعيف في بذنک قوي في أمر اﷲ متواضعا في نفسک عظيما عند اﷲ جليلا في الأرض کبيرا عند المؤمنين لم يکن لأحد فيک مهمز ولا لقائل فيک مغمز ولا لأحد فيک مطمع ولا عندک هوادة لأحد الضعيف الذليل عندک قوي عزيز حتي تأخذ له بحقه و القوي العزيز عندک ضعيف حتي تأخذ منه الحق القريب و البعيد عندک في ذلک سواء شأنک الحق و الصدق الرفق و قولک حکم و حتم و أمرک حلم و حزم و رأيک علم و عزم فأبلغت و قد نهج السبيل و سهل العسير و أطفئت النيران و اعتدل بک الدين و قوي الإيمان و ظهر أمر اﷲ ولو کره الکافرون و ثبت الإسلام و المؤمنون فسبقت واﷲ سبقا بعيدا و أتعبت من بعدک إتعابا شديدا و فزت بالخير فوزا مبينا فجللت عن البکاء و عظمت رزيتک في السماء و هدت مصيبتک الأنام فإنا ﷲ و إنا إليه راجعون رضينا عن اﷲ قضائه و سلمنا له أمره فواﷲ لن يصاب المسلمون بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بمثلک أبدا کنت للدين عزا و کهفا وللمؤمنين حصنا و فئة و أنسا و علي المنافقين غلظة و غيظا فألحقک اﷲ بنبيک عليه السلام ولا حرمنا اﷲ أجرک ولا اضلنا بعدک و إنا ﷲ و إنا إليه راجعون و سکت الناس حتي انقضي کلامه و بکوا کيوم مات النبي صلي الله عليه وآله وسلم و قالوا صدقت ياختن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.

’’حضرت اُسید بن صفوان سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور ان کے اوپر چادر ڈال دی گئی تو لوگوں کی آہ و بکا سے پورا مدینہ لرز اٹھا، لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے دن کی طرح پریشان تھے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ روتے اور ’’انا ﷲ و انا الیہ راجعون‘‘ پڑھتے ہوئے آئے اور فرمانے لگے آج خلافتِ نبوی منقطع ہوگئی پھر آپ اس مکان کے دروازے پر جس کے اندر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جسد پاک رکھا گیا تھا کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے :

’’اے ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے آپ سب سے پہلے اسلام لانے والے اور ایمان میں سب سے زیادہ اخلاص والے اور اللہ پر سب سے زیادہ یقین رکھنے والے اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والے اور تمام لوگوں سے زیادہ غنا و سخاوت والے اور سب سے زیادہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس رہنے واے اور سب سے زیادہ اسلام پر مہربانی فرمانے والے تھے۔ آپ اصحاب رسول کیلئے سب سے زیادہ باعث برکت، سب سے بڑھ کر حسنِ طلب والے، مناقب و فضائل میں سب سے بڑھ کر، پیش قدمیوں میں سب سے برتر، درجہ میں سب سے اونچے، سب سے زیادہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قربت والے اور ہدایت، حسن خلق، زبان پر کنٹرول اور فضل میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سب سے زیادہ مشابہ تھے۔ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک تمام صحابہ سے بڑھ کر شرف و منزلت والے اور سب سے زیادہ مکرم و معتمد تھے۔ اللہ رب العزت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق اس وقت کی جب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی کتاب میں صدیق کے نام سے نوازا اور فرمایا : الذی جاء بالصدق و صدق بہ ( وہ ذات جو حق لے کر آئی یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ جس نے تصدیق کی یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ) آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غمخواری کی جبکہ لوگوں نے بخل کیا، آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کھڑے رہے جب لوگوں نے ساتھ چھوڑ دیا، آپ نے سختیوں میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صحبت و رفاقت کا بہترین حق ادا کیا، آپ ثانی اثنین (دو میں سے دوسرے) اور صاحبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے اور آپ پر سکینہ نازل کی گئی۔ آپ ہجرت اور ہر مشکل مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیق اور ساتھی تھے۔ آپ امت مصطفوی کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بہترین خلیفہ ثابت ہوئے ورنہ لوگ مرتد ہوگئے تھے، آپ نے اللہ کے دین کو اس طرح قائم کیا جیسا کسی نبی کا خلیفہ کبھی نہ کرسکا تھا۔ آپ قوی رہے جب آپ کے ساتھی کمزور پڑگئے، آپ نے مستعدی دکھائی جب وہ سست ہوگئے، آپ استحکام دین کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے جب لوگوں نے کمزوری دکھائی، آپ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہاج (راستے) پر گامزن رہے جب لوگ پست ہمتی دکھانے لگے۔ آپ نے منافقوں کی مخالفت، باغیوں کے بغض و کینہ، کفار کے غیظ وغضب اور حاسدوں کے حسد و ناپسندیدگی کو کوئی اہمیت نہ دی۔ آپ امرِ حق پر ڈٹے رہے جبکہ لوگ ہمت ہارگئے، آپ ثابت قدم رہے جبکہ وہ ڈگمگا اٹھے، آپ ہدایت الٰہی کے نور میں چلتے رہے جبکہ وہ کھڑے ہوگئے آخر انہوں نے آپ کی پیروی کی اور ہدایت پائی۔ آپ کی آواز سب سے پست تھی مگر آپ کا رتبہ سب سے اعلیٰ، آپ کا کلام کم تھا مگر سب سے زیادہ درست و صحیح، آپ سب سے زیادہ خاموش رہنے والے تھے مگر آپ کا قول فصاحت و بلاغت میں سب سے بڑھ کر تھا۔ آپ اعلیٰ رائے، شجاعتِ قلبی، یقین کی مضبوطی، حسن عمل اورمعاملات فہمی میں سب سے بڑھ کر تھے۔ اﷲ رب العزت کی قسم! آپ دین کے اولین سردار تھے جب لوگ دین سے ہٹے اور آپ آخری سردار تھے جب وہ دین کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ مسلمانوں کیلئے رحیم باپ کی مانند تھے یہاں تک کہ وہ آپ کی اولاد کی طرح ہوگئے۔ جن بھاری بوجھوں کو وہ نہ اٹھا سکے آپ نے ان کو اٹھالیا، جو وہ ضائع کرنے والے تھے اس کو آپ نے بچالیا، اور جس کو وہ چھوڑنے والے تھے آپ نے اس کا خیال رکھا۔ آپ نے مستعدی دکھائی جب وہ عاجز آگئے، آپ نے حوصلے بلند رکھے جب وہ پست ہمت ہوئے، آپ ثابت قدم رہے جب وہ گھبرا گئے اور آپ ہی کی وجہ سے انہوں نے وہ کامیابی اور ہدایت پائی جس کا ان کو گمان بھی نہ تھا۔ آپ کافروں کیلئے عذاب کا طوفان اور آگ کا شعلہ تھے اور مومنین کیلئے محبت و رحمت کی موسلا دھار بارش۔ آپ نے اوصاف و کمالات کی فضا میں پرواز کی، ان کا عطیہ پایا اور ان میں بہترین کو چن لیا۔ آپ کی حجت کو کبھی شکست نہ ہوئی، آپ کا دل کبھی زنگ آلود نہ ہوا، آپ کی بصیرت کبھی کمزور نہ پڑی اور نہ ہی کبھی آپ کا نفس بزدل یا خائن ہوا۔ گویا آپ اس پہاڑ کی مانند تھے جس کو آندھیاں کبھی حرکت نہ دے سکیں، اور طوفان کبھی متزلزل نہ کرسکے۔ آپ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رفاقت اور مالی خدمت دونوں کے اعتبار سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مصداق آپ جسمانی اعتبار سے اگرچہ کمزور مگر اللہ کے دین کے معاملے میں قوی و مضبوط تھے۔ آپ نفس کے اعتبار سے متواضع تھے مگر اللہ کے ہاں بلند مرتبہ، زمین پر افضل اور مومنین کے ہاں بڑی قدر و منزلت والے تھے آپ کی نسبت نہ کوئی طنز کرتا تھا اور نہ کوئی حرف گیری کرسکتا تھا آپ میں نہ کسی کو طمع تھی اور نہ ہی آپ (دین کے معاملے میں) کسی کی رعایت کرتے تھے۔ ضعیف اور پست آدمی آپ کے نزدیک اسوقت تک قوی تھا یہاں تک کہ آپ اس کو اس کاحق دلائیں اور قوی و غالب شخص آپ کے نزدیک ضعیف و ذلیل تھا یہاں تک کہ آپ اُس سے دوسروں کاحق چھین لیں۔ دور ونزدیک دونوں قسم کے آدمی آپ کی نگاہ میں یکساں تھے۔ آپ کی شان حق، سچائی اور نرمی تھی، آپ کا حکم قطعی و حتمی تھا، آپ کا معاملہ بردباری اور دور اندیشی تھا، آپ کی رائے علم اور عزم تھا۔ آپ دنیا سے رخصت ہوئے جبکہ راستہ ہموار ہوگیا، مشکل آسان ہوگئی اور آگ بجھ گئی۔ آپ کی وجہ سے دین معتدل حالت میں آیا، ایمان قوی ہوئے، اللہ کا امر غالب آیا اگرچہ کافروں کو اس سے تکلیف ہوئی اور اسلام اور مسلمان ثابت قدم ہوگئے۔ اللہ رب العزت کی قسم! آپ دین پر عمل کے اعتبار سے اتنا آگے نکل گئے کہ اپنے بعد والوں کو تھکا دیا، آپ کامیاب ہوئے اور آہ و بکا سے مبرا ہوئے آپ کی موت کی شدت آسمان پر محسوس کی جارہی ہے اور آپ کی موت کی مصیبت نے تمام نوع انسانی کو رنج و الم میں ڈال دیا ہے ہم سب اللہ کیلئے ہیں اوراس کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ہم اللہ رب العزت کے فیصلے سے راضی ہیں اور ہم نے اپنا معاملہ اسکے سپرد کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی موت سے بڑا صدمہ مسلمانوں پر نازل نہیں ہوا۔ آپ دین کیلئے عزت اور جائے پناہ، مسلمانوں کیلئے قلعہ، گروہ اور دار الامن، اور منافقوں کیلئے سراپا شدت اور غیظ و غضب تھے۔ پس اللہ رب العزت آپ کو اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا دے اور ہمیں آپ کے اجر سے کبھی محروم نہ فرمائے اور ہمیں ہمیشہ حق پر ثابت قدم رکھے۔ اناﷲ و انا الیہ راجعون۔ جب تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کلام فرماتے رہے لوگ خاموشی سے سنتے رہے اور پھر اس طرح بے تحاشہ روئے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے دن روئے تھے اور سب کہنے لگے : اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد، بے شک آپ نے سچ فرمایا۔‘‘

1. مقدسی، الاحاديث المختارة، 2 : 15، رقم : 398
2. مقدسي، الاحاديث المختارة، 2 : 12، رقم : 397
3. بزار، المسند، 3 : 138، رقم : 928
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 47
5. خلال، السنه، 1 : 284
6. حکيم ترمذي، نوادر الاصول في احاديث الرسول، 3 : 142
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 1 : 98
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 30 : 440
9. محب طبري، الرياض النضرة، 2 : 248

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved