ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

نصرت رسول میں کیفیات صحابہ کا بیان

فَصْلٌ فِي کَيْفِيَّاتِ الصَّحَابَةِ رضی الله عنهم فِي نُصْرَتِهِ ﷺ

{نصرتِ رسول ﷺ میں کیفیات صحابہ کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ ط وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآءُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيْمًاo

(النساء، 4 : 64)

’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول ( ﷺ ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتےo‘‘

2۔ اَلَّذِيْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنْجِيْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْھِمْ ط فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَهٓٗ لا اُولٰٓئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo

(الأعراف، 7 : 157)

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( ﷺ ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) - جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے - ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول ﷺ ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے، وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیںo‘‘

3۔ ھُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْھُدٰی وَ دِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ لا وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُوْنَo

(التّوبۃ، 9 : 33)

’’وہی (اللہ) ہے جس نے اپنے رسول ( ﷺ ) کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس (رسول ﷺ ) کو ہر دین (والے) پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین کو برا لگےo‘‘

4۔ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَيْنِ اِذْهُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللهَ مَعَنَا ج فَاَنْزَلَ اللهُ سَکِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ کَلِمَةَ الَّذِيْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَةُ اللهِ هِیَ الْعُلْیَا ط وَاللهُ عَزِيْزٌ حَکِيْمٌo

(التوبۃ، 9 : 40)

’’اگر تم ان کی (یعنی رسول اللہ ﷺ کی غلبہ اسلام کی جدوجہد میں) مدد نہ کرو گے (تو کیا ہوا) سو بے شک اللہ نے ان کو (اس وقت بھی) مدد سے نوازا تھا جب کافروں نے انہیں (وطنِ مکہ سے) نکال دیا تھا درآنحالیکہ وہ دو (ہجرت کرنے والوں) میں سے دوسرے تھے جب کہ دونوں (رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر صدیق ص) غارِ (ثور) میں تھے جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیق ص) سے فرما رہے تھے غمزدہ نہ ہو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے پس اللہ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرما دی اور انہیں (فرشتوں کے) ایسے لشکروں کے ذریعہ قوت بخشی جنہیں تم نہ دیکھ سکے اور اس نے کافروں کی بات کو پست و فروتر کر دیا، اور اللہ کا فرمان تو (ہمیشہ) بلند و بالا ہی ہے، اور اللہ غالب، حکمت والا ہےo‘‘

5۔ اِنَّآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًاo لِّتؤْمِنُوْا بِاللهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ ط وَ تُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّ اَصِيْلًاo اِنَّ الَّذِيْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ ط یَدُ اللهِ فَوْقَ اَيْدِيْھِمْ ج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهٖ ج وَ مَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰـھَدَ عَلَيْهُ اللهَ فَسَیُؤْتِيْهِ اَجْرًا عَظِيْمًاo

(الفتح، 48 : 8-10)

’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اعمال و احوالِ امت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوشخبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہےo تاکہ (اے لوگو!) تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اللہ کی صبح و شام تسبیح کروo

(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے۔ پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہو گا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عنقریب اسے بہت بڑا اجر عطا فرمائے گاo‘‘

6۔ هُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰی وَدِيْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَی الدِّيْنِ کُلِّهٖ ط وَکَفٰی بِاللهِ شَهِيْدًاo مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ اَشِدَّآء عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ۔

(الفتح، 48 : 28۔29)

’’وہی ہے جس نے اپنے رسول ( ﷺ ) کو ہدایت اور دینِ حق عطا فرما کر بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غالب کر دے، اور (رسول ﷺ کی صداقت و حقانیت پر) اللہ ہی گواہ کافی ہےo محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت (اور زور آور) ہیں (لیکن) آپس میں رحم دل۔‘‘

7۔ اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِيْنًاo لِّیَغْفِرَ لَکَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْکَ وَ یَھْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيْمًاo وَّ یَنْصُرَکَ اللهُ نَصْرًا عَزِيْزًاo

(الفتح، 48 : 1-3)

’’(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرمادیا۔ (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّوجہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)o تاکہ آپ کی خاطر اللہ آپ کی امّت (کے اُن تمام افراد) کی اگلی پچھلی خطائیں معاف فرما دے (جنہوں نے آپ کے حکم پر جہاد کئے اور قربانیاں دیں) اور (یوں اسلام کی فتح اور امّت کی بخشش کی صورت میں) آپ پر اپنی نعمت (ظاہراً و باطناً) پوری فرما دے اور آپ (کے واسطہ سے آپ کی امّت) کو سیدھے راستہ پر ثابت قدم رکھےo اور اللہ آپ کو نہایت باعزت مدد و نصرت سے نوازےo‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنِ الْبَرَاء رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ ﷺ لِحَسَّانَ : اهْجُھُمْ أَوْ ھَاجِھِمْ وَجِبْرِيْلُ مَعَکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

وفي روایۃ للبخاري : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَوْمَ قُرَيْظَةَ لِحَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه : اھْجُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَإِنَّ جِبْرِيْلَ مَعَکَ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : بدء الخلق، باب : ذکر الملائکۃ، 3 / 1176، الرقم : 3041، وفي کتاب : المغازي، باب : مرجع النبي ﷺ من الأحزاب ومخرجه إلی بني قریظۃ، 4 / 1512، الرقم : 3897، وفي کتاب : الأدب، باب : هجاء المشرکین، 5 / 2279، الرقم : 5801، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ ث، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2486، والنسائي في السنن الکبری، 3 / 493، الرقم : 6024، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 302، والبیهقي في السنن الکبری، 10 / 237، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 298، والطبراني في المعجم الصغیر، 1 / 90، الرقم : 119، وفي المعجم الأوسط، 2 / 49، الرقم : 1209، 3 / 268، الرقم : 3108، وفي المعجم الکبیر، 4 / 41، الرقم : 3588۔ 3589، وابن تیمیۃ في الصارم المسلول، 1 / 214۔

’’حضرت براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا : مشرکین کی ہجو کرو (یعنی ان کی مذمت میں اشعار پڑھو) اور حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی (اس کام میں) تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

’’اور بخاری کی ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے قریظہ کے روز حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ’’ مشرکین کی ہجو (یعنی مذمت) کرو یقینا جبرائیل علیہ السلام بھی (میری ناموس کے دفاع میں) تمہارے ساتھ شریک ہیں۔‘‘

2۔ عَنْ ھِشَامٍ رضی الله عنه عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : ذَھَبْتُ أَسُبُّ حَسَّانَ عِنْدَ عَائِشَةَ رضي الله عنها، فَقَالَتْ : لَا تَسُبَّهُ، فَإِنَّهُ کَانَ یُنَافِحُ عَنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب، حدیث الإفک، 4 / 1523، الرقم : 3914، وفي کتاب : الأدب، باب : ھجاء المشرکین، 5 / 2278، الرقم : 5798، ومسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1933، الرقم : 2487، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 299، الرقم : 863، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم : 6063، وقال : هذا حدیث صحیح، والطبراني في المعجم الکبیر، 23 / 107، الرقم : 149۔

’’حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما) سے راویت کیا کہ انہوں نے فرمایا : میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے لگا (کیونکہ وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں میں شامل تھے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : انہیں برا بھلا نہ کہو وہ (اپنی شاعری کے ذریعے) رسول اللہ ﷺ کا کفار کے مقابلہ میں دفاع کیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

3۔ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي اللهُ عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ یَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ ﷺ بِعَيْنَيْهِ قَالَ : فَوَاللهِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُم ابْتَدَرُوْا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ کَادُوْا یَقْتَتِلُوْنَ عَلَی وُضُوْئِهِ، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا یُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَهُ۔ فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَی أَصْحَابِهِ فَقَالَ : أَي قَوْمِ، وَاللهِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلَی قَيْصَرَ وَکِسْرَی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللهِ، إِنْ رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ یُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا یُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ ﷺ مُحَمَّدًا۔ … الحدیث۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔

3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجھاد والمصالحۃ مع أھل الحرب وکتابۃ الشروط، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحیح، 11 / 216، الرقم : 4872، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 9، الرقم : 13، والبیھقی في السنن الکبری، 9 / 220۔

’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ ﷺ اپنا لعاب دہن پھینکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب آپ ﷺ کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی ہے۔ جب آپ ﷺ وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ ﷺ کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جب آپ ﷺ گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے ہیں اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ ﷺ کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اللہ رب العزت کی قسم! میں (عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد ﷺ کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘

اسے امام بخاری، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔

4۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه في روایۃ طویلۃ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ شَاوَرَ، حِيْنَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْیَانَ۔ وَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ رضی الله عنه فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهِ، لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيْضَھَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاھَا۔ وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَکْبَادَھَا إلَی بَرْکِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا۔ قَالَ : فَنَدَبَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ النَّاسَ۔ فَانْطَلَقُوْا حَتَّی نَزَلُوْا بَدْرًا۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ھَذَا مَصْرَعُ فُـلَانٍ قَالَ : وَیَضَعُ یَدَهُ عَلَی الْأَرْضِ، ھَاهُنَا ھَاھُنَا۔ قَالَ : فَمَا مَاطَ أَحَدُھُمْ عَنْ مَوْضِعِ یَدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ۔

4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الجھاد والسیر، باب : غزوۃ بدر، 3 / 1403، الرقم : 1779، ونحوه في کتاب : الجنۃ وصفۃ نعیمھا وأھلھا، باب : عرض مقعد المیت من الجنۃ أو النار علیه وإثبات عذاب القبر والتعوذ منه، 4 / 2202، الرقم : 2873، وأبو داود في السنن، کتاب : الجھاد، باب : في الأسیر ینال منه ویضرب ویقرن، 3 / 58، الرقم : 2681، والنسائي في السنن، کتاب : الجنائز، باب : أرواح المؤمنین، 4 / 108، الرقم : 2074، وفي السنن الکبری، 1 / 665، الرقم؛ 2201، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 219، الرقم : 13320، وابن حبان في الصحیح، 11 / 24، الرقم : 4722، والبزار في المسند، 1 / 340، الرقم : 222، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 362، الرقم : 36708۔

’’حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کو ابوسفیان کے (قافلہ کی شام سے) آنے کی خبر پہنچی تو آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا۔ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر آپ ہمیں سمندر میں گھوڑے ڈالنے کا حکم دیں تو ہم سمندر میں گھوڑے ڈال دیں گے۔ اگر آپ ہمیں برک غمادپہاڑ سے گھوڑوں کے سینے ٹکرانے کا حکم دیں تو ہم ایسا بھی کریں گے۔ تب حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو بلایا۔ لوگ (آپ ﷺ کی معیت میں) چلے یہاں تک کہ وادی بدر میں اُترے۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہ فلاں کافر کے گرنے کی جگہ ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ زمین پر اس جگہ اور کبھی اس جگہ دستِ اقدس رکھتے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (دوسرے دن) کوئی کافر حضور نبی اکرم ﷺ کی بتائی ہوئی جگہ سے ذرا برابر بھی ادھر ادھر نہیں مرا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنھا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اھْجُوْا قُرَيْشًا فَإِنَّهُ أَشَدُّ عَلَيْھَا مِنْ رَشْقٍ بِالنَّبْلِ، فَأَرْسَلَ إِلَی ابْنِ رَوَاحَةَ فَقَالَ : اھْجُھُمْ فَھَجَاھُمْ، فَلَمْ یُرْضِ، فَأَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَی حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ حَسَّانُ رضی الله عنه : قَدْ آنَ لَکُمْ أَنْ تُرْسِلُوْا إِلَی ھَذَا الْأَسَدِ الضَّارِبِ بِذَنْبِهِ، ثُمَّ أَدْلَعَ لِسَانَهُ، فَجَعَلَ یُحَرِّکُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَأَفْرِیَنَّھُمْ بِلِسَانِي فَرْيَ الْأَدِيْمِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : لَا تَعْجَلْ، فَإِنَّ أَبَا بَکْرٍ أَعْلَمُ قُرَيْشٍ بِأَنْسَابِھَا، وَإِنَّ لِي فِيْھِمْ نَسَبًا حَتَّی یُلَخِّصَ لَکَ نَسَبِي، فَأَتَاهُ حَسَّانُ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، قَدْ لَخَّصَ لِي نَسَبَکَ۔ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، لَأَسُلَّنَّکَ مِنْھُمْ کَمَا تُسَلُّ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِيْنِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالطَّبَرِيُّ۔

5 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : فضائل الصحابۃ، باب : فضائل حسان بن ثابت رضی الله عنه، 4 / 1935، الرقم : 2490، والطبراني في المعجم الکبیر، 4 / 38، الرقم : 3582، والبیھقي في السنن الکبری، 10 / 238، الرقم : 20895، والطبري في تهذیب الآثار، 2 / 629، الرقم : 929، والمقدسي في أحادیث الشعر، 1 / 64، الرقم : 21، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 12 / 393۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : قریش کی ہجو کرو، کیونکہ ان (گستاخوں ) پر ہجو تیروں کی بوچھاڑ سے زیادہ شاق گزرتی ہے پھر آپ ﷺ نے حضرت ابن رواحہ کی طرف پیغام بھیجا کہ کفار قریش کی ہجو کرو، انہوں نے کفار قریش کی ہجو کی، وہ آپ کو پسند نہیں آئی، پھر آپ نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا، پھر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی طرف پیغام بھیجا جب حضرت حسان آپ ﷺ کی خدمت میں آئے تو انہوں نے عرض کیا : اب وقت آگیا ہے آپ نے اس شیر کی طرف پیغام بھیجا ہے جو اپنی دم سے مارتا ہے، پھر اپنی زبان نکال کر اس کو ہلانے لگے۔ پھر عرض کیا : اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے! میں اپنی زبان سے انہیں اس طرح چیر پھاڑ کر رکھ دوں گا جس طرح چمڑے کو پھاڑتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جلدی نہ کرو، یقینا ابو بکر قریش کے نسب کو سب سے زیادہ جاننے والے ہیں اور ان میں میرا نسب بھی ہے (تم ان کے پاس جاؤ) تاکہ ابو بکر میرا نسب ان سے الگ کردیں۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے پھر واپس لوٹے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! ابو بکر نے میرے لئے آپ کا نسب الگ کر دیاہے اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے میں (ان کی ہجو کرتے ہوئے) آپ کو ان میں سے اس طرح نکال لوں گا جس طرح گندھے ہوئے آٹے سے بال نکال لیا جاتا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، طبرانی اور طبری نے روایت کیا ہے۔

6۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : اَللَّهُمَّ، أَعِزَّ الإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ۔ قَالَ : وَکَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔ وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ۔

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : في مناقب عمر، 5 / 617، الرقم : 3681، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 95، الرقم : 5696، وابن حبان في الصحیح، 15 / 305، الرقم : 6881،والحاکم في المستدرک، 3 / 574، الرقم : 6129، والبزار في المسند، 6 / 57، الرقم : 2119، وعبد بن حمید في المسند، 1 / 245، الرقم : 759۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دعا فرمائی : اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن الخطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اللہ تعالیٰ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

7۔ عَنْ جَبَلَةَ بْنِ حَارِثَةَ رضی الله عنه أَخِي زَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ : قَدِمْتُ عَلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، ابْعَثْ مَعِي أَخِي زَيْدًا قَالَ : هُوَ ذَا، قَالَ : فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَکَ لَمْ أَمْنَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، وَاللهِ، لَا أَخْتَارُ عَلَيْکَ أَحَدًا أَبَدًا، قَالَ : فَرَأَيْتُ رَأْيَ أَخِي أَفْضَلَ مِنْ رَأْیِي۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ۔ وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ۔

7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب زید بن حارثۃ رضی الله عنه، 5 / 676، الرقم : 3815، والحاکم في المستدرک، 3 / 237، الرقم : 4948، وقال : صحیح الإسناد، والطبراني في المعجم الکبیر، 2 / 386، الرقم : 2192، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 132، الرقم : 1384، والبخاري في التاریخ الکبیر، 2 / 217، الرقم : 2251، وابن حبان في الثقات، 3 / 57، الرقم : 186، وابن قانع في معجم الصحابۃ، 1 / 161، والشیباني في الأحاد والمثاني، 5 / 63، الرقم : 2600، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 87، وفي الإصابۃ، 1 / 456، الرقم : 1078، والذهبي في سیر أعلام النبلاء، 1 / 224۔

’’حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ، بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ساتھ میرے بھائی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو (گھر) بھیج دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ (تمہارا بھائی) یہ ہے۔ اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں منع نہیں کروں گا، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے (فورًا) عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔ حضرت جبلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنی رائے سے زیادہ اپنے بھائی کی رائے بہتر پائی۔‘‘

اسے امام ترمذی، حاکم، طبرانی، بیہقی اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

8۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : أَصَابَ نَبِيَّ اللهِ ﷺ خَصَاصَةٌ فَبَلَغَ ذَلِکَ عَلِیًّا، فَخَرَجَ یَلْتَمِسُ عَمَـلًا یُصِيْبُ فِيْهِ شَيْئًا لِیُقِيْتَ بِهِ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ، فَأَتَی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْیَھُوْدِ، فَاسْتَسْقَی لَهُ سَبْعَةَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، فَخَيَّرَهُ الْیَھُوْدِيُّ مِنْ تَمْرِهِ سَبْعَ عَشَرَةَ عَجْوَةً، فَجَائَ بِھَا إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه۔

ورواه البیهقي أیضًا إِلاَّ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مِنْ أَيْنَ هَذَا یَا أَبَا الْحَسَنِ؟ قَالَ : بَلَغَنِي مَا بِکَ مِنَ الْخَصَاصَةِ یَا نَبِيَّ اللهِ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ عَمَـلًا لِأُصِيْبَ لَکَ طَعَامًا۔ قَالَ : فَحَمَلَکَ عَلَی هَذَا حُبُّ اللهِ وَرَسُوْلِهِ؟ قَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه : نَعَمْ، یَا نَبِيَّ اللهِ، فَقَالَ نَبِيٌّ ﷺ : وَاللهِ، مَا مِنْ عَبْدٍ یُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ إِلَّا الْفَقْرُ أَسْرَعُ إِلَيْهِ مِنْ جَرْیَةِ السَّيْلِ عَلَی وَجْھِهِ، مَنْ أَحَبَّ اللهَ وَرَسُوْلَهُ فَلْیُعِدَّ تِجْفَافًا وَإِنَّمَا یَعْنِي الصَّبْرَ۔

8 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الأحکام، باب : الرجل یستسقي کل دلو بتمرۃ ویشترط جلدۃ، 2 / 818، الرقم : 2446، والبیھقي في السنن الکبری، 6 / 119، الرقم : 11429، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 6 / 385، والزیلعي في نصب الرایۃ، 4 / 132۔

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ فاقہ سے تھے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو وہ مزدوری کرنے کے لئے نکلے تاکہ اس سے کچھ (معاوضہ) حاصل کر کے حضور نبی اکرم ﷺ کی تکلیف کا مداوا کر سکیں چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لئے (بطورِ معاوضہ) سترہ ڈول پانی کھینچا اور ہر ڈول کے بدلے اس نے ایک عمدہ کھجور دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ سترہ عجوہ کھجوریں لے کر بارگاهِ رسالت ﷺ میں حاضر ہو گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا۔

’’اور امام بیہقی نے مزید بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا : اے ابو الحسن! یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے معلوم ہوا کہ آپ کئی دن کے فاقہ سے ہیں تو میں مزدوری کی تلاش میں نکل پڑا تاکہ آپ کی خدمت میں کچھ کھانے کو پیش کیا جا سکے تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تجھے اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی محبت نے اس کام پر ابھارا تھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : جی ہاں، یا نبی اللہ، تو آپ ﷺ نے فرمایا : خدا کی قسم! کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو اور فقر و فاقہ اس کے چہرے کی طرف سیلاب کی سی تیزی سے نہ بڑھیں لهٰذا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہے تو اسے (ان آزمائشوں پر) صبر کے لئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘

9۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَقَدْ ضَرَبُوْا رَسُوْلَ اللهِ ﷺ حَتَّی غَشِيَ عَلَيْهِ فَقَامَ أَبُوْبَکْرٍ رضی الله عنه فَجَعَلَ یُنَادِي یَقُوْلُ : وَيْلَکُمْ أَ تَقْتُلُوْنَ رَجُـلًا أَنْ یَقُوْلَ رَبِّيَ اللهُ؟ قَالُوْا : مَنْ ھَذَا؟ قَالُوْا : ھَذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ الْمَجْنُوْنُ۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ۔

9 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 70، الرقم : 4424، والمقدسي في الأحادیث المختارۃ، 6 / 221، والهیثمي في مجمع الزوائد، 6 / 17۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کفار و مشرکین نے حضور نبی اکرم ﷺ کو اس قدر جسمانی اذیت پہنچائی کہ آپ ﷺ پر غشی طاری ہو گئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ (آئے اور) کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے : تم تباہ و برباد ہو جائو، کیا تم ایک (معزز) شخص کو صرف اِس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ فرماتے ہیں کہ میرا رب اللہ عزوجل ہے؟ اُن ظالموں نے کہا : یہ کون ہے؟ (کفارو مشرکین میں سے کچھ) لوگوں نے کہا : یہ ابو قحافہ کا بیٹا ہے جو (عشقِ رسول ﷺ میں) مجنوں بن چکا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔

10۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : لَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ ﷺ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی أَصْبَحَ یَتَحَدَّثُ النَّاسُ بِذَلِکَ، فَارْتَدَّ نَاسٌ مِمَّنْ کَانَ وَآمَنُوْا بِهِ وَصَدَّقُوْهُ، وَسَعَوْا بِذَلِکَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ رضی الله عنه فَقَالُوْا : ھَلْ لَکَ إِلَی صَاحِبِکَ یَزْعَمُ أَنَّهُ أُسْرِيَ بِهِ اللَّيْلَةَ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ قَالَ : أَوَ قَالَ ذَلِکَ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، قَالَ : لَئِنْ کَانَ قَالَ ذَلِکَ لَقَدْ صَدَقَ۔ قَالُوْا : أَوَ تُصَدِّقُ أَنَّهُ ذَھَبَ اللَّيْلَةَ إِلَی بَيْتِ الْمَقْدِسِ وَجَائَ قَبْلَ أَنْ یُصْبِحَ؟ قَالَ : نَعَمْ، إِنِّي لَأُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِکَ۔ أُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ أَبْعَدُ مِنْ ذَلِکَ أُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَائِ فِي غَدْوَةٍ أَوْ رَوْحَةٍ۔ فَلِذَلِکَ سُمِّيَ أَبُوْ بَکْرٍ ’’الصِّدِّيْقَ‘‘۔ رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

10 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 65 الرقم : 4407، وعبد الرزاق في المصنف، 5 / 328، وأبو یعلی في المعجم، 10 / 45، الرقم : 9، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 307، الرقم : 8271۔

’’اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ کو مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ ﷺ نے صبح لوگوں کو اس کے بارے بیان فرمایا توکچھ ایسے لوگ بھی اس کے منکر ہو گئے جو آپ ﷺ پر ایمان لا چکے تھے اور آپ ﷺ کی تصدیق کر چکے تھے۔ وہ دوڑتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے : کیا آپ اپنے آقا ﷺ کی تصدیق کرتے ہیں جو یہ گمان کرتے ہیں کہ انہیں آج رات بیت المقدس تک سیر کرائی گئی؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیا آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں! تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایاہے۔ انہوں نے کہا : کیا آپ اُن کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس تک گئے بھی اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے ہیں؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہاں! میں تو آپ ﷺ کی تصدیق اُس خبر کے بارے میں بھی کرتا ہوں جو اس سے بہت زیادہ بعید ازقیاس ہے، میں تو صبح و شام آپ ﷺ کی آسمانی خبروں کی بھی تصدیق کرتا ہوں۔ پس اس تصدیق کی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ’’الصدیق‘‘ کے لقب سے موسوم ہوئے۔‘‘

اس حدیث کو امام حاکم، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

11۔ عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنْ یَحْمِي أَعْرَاضَ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالَ کَعْبٌ : أَنَا، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ : أَنَا، قَالَ : إِنَّکَ لَتُحْسِنُ الشِّعْرَ۔ قَالَ حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ رضی الله عنه : أَنَا۔ إِذْ قَالَ : أُھْجُھُمْ، فَإِنَّهُ سَیُعِيْنُکَ عَلَيْھِمْ رُوْحُ الْقُدُسِ۔

رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ۔

11 : أخرجه الطحاوي في شرح معاني الآثار، 4 / 297، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 416، والسیوطي في الدر المنثور، 6 / 590۔

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : مومنوں کی عزتوں کی حفاظت کون کرے گا؟ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں۔ اور حضرت ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے بھی عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (حفاظت کروں گا)۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بے شک تو عمدہ شعر کہنے والا ہے۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اللہ!) میں (بھی حفاظت کروں گا)۔ تو حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں فرمایا : تم مشرکین کی ہجو کرو اور اس کام میں روح القدس (حضرت جبرائیل) علیہ السلام تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اس حدیث کو امام طحاوی نے بیان کیا ہے۔

12۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه، قَالَ : لَمَّا کَانَ لَيْلَةَ الْغَارِ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، دَعْنِي أَدْخُلْ قَبْلَکَ فَإِنْ کَانَ حَيَّةٌ اَوْ شَيْئٌ کَانَتْ لِي قَبْلَکَ قَالَ ﷺ : ادْخُلْ فَدَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ، فَجَعَلَ یَلْتَمِسُ بِیَدِهِ، کُلَّمَا رَأَی جُحْرًا قَالَ : بِثَوْبِهِ فَشَقَّهُ ثُمَّ أَلْقَمَهُ الْجُحْرَ حَتَّی فَعَلَ ذَلِکَ بِثَوْبِهِ أَجْمَعَ۔ قَالَ : فَبَقِيَ جُحْرٌ فَوَضَعَ عَقِبَهُ عَلَيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ ۔ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ ﷺ : فَأَيْنَ ثَوْبُکَ یَا أَبَا بَکْرٍ؟ فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي صَنَعَ، فَرَفَعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ یَدَيْهِ وَقَالَ : اَللَّهُمَّ، اجْعَلْ أَبَا بَکْرٍ مَعِيَ فِي دَرَجَتِي یَوْمَ الْقِیَامَةِ۔ فَأَوْحَی اللهُ عزوجل إِلَيْهِ أَنَّ اللهَ تَعَالَی قَدِ اسْتَجَابَ لَکَ۔ رَوَاهُ أَبُو نُعَيْمٍ۔

12 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 33، وابن الجوزی في صفوۃ الصفوۃ، 1 / 240، ومحب الدین الطبري في الریاض النضرۃ، 1 / 451۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : جب غار کی رات تھی تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ( ﷺ )! مجھے اجازت عنایت فرمائیے کہ میں آپ ﷺ سے پہلے غار میں داخل ہوں تاکہ اگر کوئی سانپ یا کوئی اور چیز ہو تو وہ آپ ﷺ کی بجائے مُجھے تکلیف پہنچائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : داخل ہو جاؤ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے اور اپنے ہاتھ سے ساری جگہ کی تلاشی لینے لگے۔ جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے لباس کو پھاڑ کر سوراخ کو بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ اپنے تمام لباس کے ساتھ یہی کچھ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بھی ایک سوراخ بچ گیاتو انہوں نے اپنی ایڑی کو اُس سوراخ پر رکھ دیا اور پھر رسول اللہ ﷺ کو اندر تشریف لانے کی گزارش کی۔ جب صبح ہوئی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے ابو بکر ! تمھارا لباس کہاں ہے؟ تو انہوں نے جو کچھ کیا تھا اُس کے بارے بتا دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دُعا کی : اے میرے اللہ! ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی طرف وحی فرمائی کہ اُس نے آپ ﷺ کی دُعا کو قبول فرما لیا ہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

13۔ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه، قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِلَی الْمَدِيْنَةِ فِی الْھِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَهُ حَتَّی أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وَلِذَا کَانَ یُسَمَّی الأَمِيْنُ۔ فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَّبْتُ یَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ حَتَّی قَدِمْتُ بَنِي عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَرَسُوْلُ اللهِ ﷺ مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَی کُلْثُوْمِ بْنِ الْھِدْمِ، وَھُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ ۔

رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی۔

13 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 22، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 42 / 69۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم ﷺ کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا،میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم ﷺ کے پیچھے چلایہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا توحضور نبی اکرم ﷺ وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ھدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم ﷺ کا قیام تھا۔‘‘ اس حدیث کو ابن سعد نے الطبقات الکبری میں بیان کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ عَنْ عُرْوَةَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَتْ عَائِشَةُ رضي الله عنها تَکْرَهُ أَنْ یُّسَبَّ عِنْدَھَا حَسَّانُ وَتَقُوْلُ : فَإِنَّهُ قَالَ :

فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي

لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْکُمْ وِقَاء

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : المغازي، باب : حدیث الإفک، 4 / 1518، الرقم : 3910، ومسلم في الصحیح، کتاب : التوبۃ، باب : في حدیث الإفک وقبول توبۃ القاذف، 4 / 2137، الرقم : 2770، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 296، الرقم : 8931، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 197، وأبو یعلی في المسند، 8 / 341، الرقم : 4933، والحاکم في المستدرک، 3 / 555، الرقم : 6060۔

’’حضرت عروہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو (سخت) ناپسند فرماتی تھیں کہ ان کے سامنے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جائے۔ فرماتی تھیں (انہیں برا بھلا مت کہو) انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کی شان میں) یہ نعت پڑھی ہے :

’’بلاشبہ میرا باپ، میرے اجداد اور میری عزت (ہمارا سب کچھ)، محمد مصطفی ﷺ کی عزت و ناموس کے دفاع کے لئے تمہارے خلاف ڈھال ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ قال أبو سفیان ابن حرب : أنشدک بالله یا زید، أتحبّ أنّ محمداً الآن عندنا مکانک تضرب عنقه وإنّک في أهلک؟ فقال زید : والله، ما أحبّ أنّ محمداً الآن في مکانه الّذي هو فیه تصیبه شوکۃ وأنّي جالس في أهلي۔ فقال أبو سفیان : ما رأیتُ من النّاس أحداً یحبّ أحداً کحبّ أصحاب محمد محمداً ﷺ ۔

2 : أخرجه البیهقي في دلائل النبوۃ، 3 / 362، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 56، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 649۔

’’ابو سفیان بن حرب نے (صحابیٔ رسول حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ سے) کہا : اے زید! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت محمد ﷺ تیری جگہ ہوں اور ان کی (معاذ اللہ) گردن ماری جائے اور تو واپس اپنے اہل و عیال میں چلا جائے؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواباً کہا : خدا کی قسم! میں تو یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ حضور نبی اکرم ﷺ اس وقت جہاں بھی رونق افروز ہیں وہاں آپ ﷺ کے پائے اقدس میں کانٹا بھی چبھے اور میں اپنے اہل و عیال کے پاس ہوں۔ اس وقت ابو سفیان نے کہا کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا کہ وہ کسی کو اس قدر محبوب رکھتا ہو جس قدر کہ محمد ﷺ کے اصحاب رضی اللہ عنہم ان کو محبوب رکھتے ہیں۔‘‘

3۔ قال صهیب : لم یشهد رسول الله مشهداً قط إلا کنت حاضره، ولم یبایع بیعۃ قط إلا کنت حاضره، ولم یسر سریۃ قط إلا کنت حاضرها، ولا غزا غزاۃ قط أول الزمان وآخره إلا کنت فیها عن یمینه أو شماله، وما خافوا أمامهم إلا وکنت أمامهم، ولا ما ورائهم، إلا کنت ورائهم، وما جعلت رسول الله ﷺ بیني وبین العدو قط حتّی توفي رسول الله ﷺ ۔

3 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 8 / 37، الرقم : 7309، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 151، وابن حجر العسقلاني في الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، 3 / 451، والهیثمي في مجمع الزوائد، 9 / 306۔

’’حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ کی زندگی میں کوئی بھی بیعت ہوتی تو میں اس میں ضرور شریک ہوتا تھا۔ آپ ﷺ کی وفات تک تمام غزوات اور سرایا غرض ہر موقعہ پر آپ ﷺ کے ساتھ ہوتا تھا۔ میں آپ ﷺ کے دائیں یا بائیں منڈلاتا رہتا۔ اگر آپ ﷺ کے سامنے مجھے خوف محسوس ہوتا تو میں سامنے چلا جاتا اور اگر پیچھے سے دشمنوں کا ڈر ہوتا تو پیچھے پہنچ جاتا تھا۔ میں نے کبھی بھی آپ ﷺ کو آپ ﷺ کے وصال مبارک تک اپنے اور دشمنوں کے بیچ میں نہیں چھوڑا۔‘‘

4۔ قال الأستاذ أبو علي الدّقاق : المریدُ متحمِّل، والمراد محمول۔ وسمعته یقول : کان موسی ں، مریداً، فقال : {رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ} [طه، 20 : 25]، وکان نبینا ﷺ، مراداً، فقال الله تعالی : {اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِيْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ} [الم نشرح، 94 : 1۔4] وکذلک قال موسی علیه السلام : {رَبِّ اَرِنِيْٓ اَنْظُرْ اِلَيْکَ ط قَالَ لَنْ تَرٰنِيْ} [الأعراف، 7 : 143] وقال لنبینا ﷺ : {اَلَمْ تَرَ اِلٰی رَبِّکَ کَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ} [الفرقان، 25 : 45]

4 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 204۔

’’حضرت ابو علی دقاق ؒبیان کرتے ہیں : مرید وہ ہے جو طریقِ ریاضت میں مشقتیں جھیلے اور مراد وہ ہے جس سے یہ مشقتیں اٹھا دی گئی ہوں۔ (راوی کہتا ہے کہ)انہوں نے مزید فرمایا : حضرت موسیٰں مرید(یعنی دیدارِ اِلٰہی کے مشتاق) تھے جبھی تو انہوں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حضور عرض کیا {اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کشادہ فرمادے}، اور ہمارے نبی ﷺ چونکہ مراد تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا : {کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (انوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیاo اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اتار دیاo جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھاo اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا}‘‘ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا : { اے رب! مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کرلوں، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکتا }اور ہمارے نبی ﷺ کو فرمایا : {کیا آپ نے اپنے رب (کی قدرت) کی طرف نگاہ نہیں ڈالی کہ وہ کس طرح (دوپہر تک) سایہ دراز کرتا ہے}۔‘‘

5۔ حکی الإمام أبو القاسم القشیري أن عمرو بن اللیث أحد ملوک خراسان ومشاهیر الثوار المعروف بالصفار مات، رُئي في النوم، فقیل له : ما فعل الله بک؟ فقال : غفر لي، فقیل : بماذا؟ قال : صعدت ذروۃ جبل یوماً فأشرفت علی جنودي، فأعجبتني کثرتهم، فتمنیت أني حضرت رسول الله ﷺ فأعنته ونصرته فشکر الله لي ذلک و غفر لي۔

5 : أخرجه القاضي عیاض في الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ ﷺ : 511۔

’’امام ابو القاسم قشیری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن لیث خراسان کا ایک بادشاہ تھا جو مشہور حاکم تھا۔ اسے صفار کہتے تھے، وہ فوت ہو گیا۔ خواب میں اُسے دیکھا گیا اور اس سے کہا گیا کہ تیرے ساتھ خدا نے کیا کیا۔ اس نے کہا کہ اس نے مجھے بخش دیا۔ پوچھا گیا کہ کس سبب سے؟ کہا کہ میں ایک دن پہاڑ کی چوٹی پر چڑھا اور اوپر سے اپنے لشکر کو جھانکا تو ان کی کثرت سے میں خوش ہوا۔ اس وقت میں نے تمنا کی اگر میں حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تو آپ ﷺ کی نصرت و اعانت کے لیے یہ سارا لشکر پیش کر دیتا۔ یہ بات اللہ عزوجل کو پسند آئی اور مجھے بخش دیا۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved