ہدایۃ الامۃ علی منہاج القرآن والسنۃ - الجزء الاول

دنیا سے بے رغبتی کا بیان

فَصْلٌ فِي الزُّھْدِ فِي الدُّنْیَا

{دنیا سے بے رغبتی کا بیان}

اَلْآیَاتُ الْقُرْآنِيَّةُ

1۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآء وَالْبَنِيْنَ وَ الْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَاللهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo

(آل عمران، 3 : 14، 15)

’’لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہےo‘‘

2۔ وَمَا الْحَیٰـوةُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَھْوٌ ط وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ یَتَّقُوْنَ ط اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَo

(الأنعام، 6 : 32)

’’اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتےo‘‘

3۔ اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَالْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ اَمَلًاo

(الکهف، 18 : 46)

’’مال اور اولاد (تو صرف) دنیاوی زندگی کی زینت ہیں اور (حقیقت میں) باقی رہنے والی (تو) نیکیاں (ہیں جو) آپ کے رب کے نزدیک ثواب کے لحاظ سے (بھی) بہتر ہیں اور آرزو کے لحاظ سے (بھی) خوب تر ہیںo‘‘

4۔ وَمَآ اَوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَزِيْنَتُهَا ج وَمَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰی ط اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَo

(القصص،28 : 60)

’’اور جو چیز بھی تمہیں عطا کی گئی ہے سو (وہ) دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی رونق و زینت ہے۔ مگر جو چیز (ابھی) اللہ کے پاس ہے وہ (اس سے) زیادہ بہتر اور دائمی ہے۔ کیا تم (اس حقیقت کو) نہیں سمجھتے؟o‘‘

5۔ وَمَا هٰذِهِ الْحَیٰـوةُ الدُّنْیَآ اِلاَّ لَهْوٌ وَّلَعِبٌ ط وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُ م لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَo

(العنکبوت، 29 : 64)

’’اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ(یہ راز) جانتے ہوتےo‘‘

6۔ اِعْلَمُوْٓا اَنَّمَا الْحَیٰـوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَھْوٌ وَّ زِيْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌ م بَيْنَکُمْ وَ تَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ۔

(الحدید، 57 : 20)

’’جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خودستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے۔‘‘

اَلْأَحَادِيْثُ النَّبَوِيَّةُ

1۔ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ لِعُرْوَةَ : ابْنَ أُخْتِي، إِنْ کُنَّا لَنَنْظُرُ إِلَی الْهِلَالِ ثَـلَاثَةَ أَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ، وَمَا أُوْقِدَتْ فِي أَبْیَاتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ نَارٌ، فَقُلْتُ : مَا کَانَ یُعِيْشُکُمْ؟ قَالَتْ : الْأَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَائُ إِلَّا أَنَّهُ قَدْ کَانَ لِرَسُوْلِ اللهِ ﷺ جِيْرَانٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، کَانَ لَهُمْ مَنَائِحُ، وَکَانُوْا یَمْنَحُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ مِنْ أَبْیَاتِهِمْ فَیَسْقِيْنَاهُ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

1 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : کیف کان عیش النَّبي ﷺ وأصحابه وتخلیهم من الدنیا، 5 / 2372، الرقم : 6094، ومسلم في الصحیح، کتاب : الزھد والرقائق، 4 / 2283، الرقم : 2972، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : معیشۃ آل محمد ﷺ ، 2 / 1388، الرقم : 4145، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 182، الرقم : 25530، وابن حبان في الصحیح، 14 / 258، الرقم : 6348، والبیهقي في السنن الکبری، 6 / 169، الرقم : 11722۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے عروہ بن زُبیر سے فرمایا : اے بھانجے! ہم چاند دیکھتے، یہاں تک کہ دو مہینوں میں تین چاند دیکھ لیتے (تیسرے چاند سے مراد تیسرے مہینے کا چاند ہے جو دو ماہ پورے ہونے کے وقت دیکھتے تھے) لیکن رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آگ جلانے کی نوبت نہ آئی ہوتی۔ میں (عروہ بن زبیر) عرض گزار ہوا کہ پھر آپ کی گزر اوقات کس چیز پر ہوتی تھی؟ فرمایا کہ دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر ۔ ماسوائے اس کے کہ رسول اللہ ﷺ کے چند انصاری ہمسائے تھے جن کے ریوڑ تھے، وہ اپنے گھروں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں دودھ کا ہدیہ پیش کیا کرتے تو آپ ﷺ ہمیں پلا دیا کرتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ : أَخَذَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِمَنْکِبِي فَقَالَ : کُنْ فِي الدُّنْیَا کَأَنَّکَ غَرِيْبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيْلٍ۔ وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَقُوْلُ : إِذَا أَمْسَيْتَ فَـلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَـلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَائَ، وَخُذْ مِنْ صِحَّتِکَ لِمَرَضِکَ وَمِنْ حَیَاتِکَ لِمَوْتِکَ۔ رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

2 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الرقاق، باب : قوْل النّبيّ ﷺ : کن في الدُّنیا کأنّک غریب أو عابر سبیل، 5 / 2358، الرقم : 6053، وابن حبان في الصحیح، 2 / 471، الرقم : 698، والبیهقي في السنن الکبری، 3 / 369، الرقم : 6304، وفي شعب الإیمان، 7 / 262، الرقم : 10245۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا کندھا پکڑا، پھر فرمایا : دنیا میں تم ایسے رہو جیسے ایک اجنبی آدمی یا مسافر رہتا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے کہ جب شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کیا کرو اور جب صبح ہو جائے تو شام کے منتظر نہ رہو، نیز تندرستی میں بیماری کے لیے اور زندگی میں موت کے لیے تیاری کر لو۔‘‘

اسے امام بخاری، ابن حبان اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

3۔ عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه أَنَّهُ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یُوْشِکُ أَنْ یَکُوْنَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ یَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ یَفِرُّ بِدِيْنِهِ مِنَ الْفِتَنِ۔ مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ۔

3 : أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب : الإیمان، باب : من الدین الفرار من الفتن، 1 / 15، الرقم : 19، ومسلم في الصحیح، کتاب : الإمارۃ، باب : فضل الجهاد والرباط، 3 / 1503، الرقم : 1889، والترمذي في السنن، کتاب : فضائل الجهاد، باب : ما جاء في خیر الناس، 4 / 182، الرقم : 1652، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : العزلۃ، 2 / 1317، الرقم : 3980۔

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : عنقریب مسلمان کا بہترین مال اس کی بکریاں ہوں گی جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور چٹیل میدانوں میں اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کی خاطر بھاگتا پھرے گا۔‘‘ یہ متفق علیہ حدیث ہے۔

4۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْکَافِرِ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ۔

4 : أخرجه مسلم في الصحیح، کتاب : الزھد والرقائق، 4 / 2272، الرقم : 2956، والترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء أن الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر، 4 / 562، الرقم : 2324، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزهد، باب : مثل الدنیا، 2 / 1378، الرقم : 4113۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔

5۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ عَنْ اَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : مَنْ تَرَکَ اللِّبَاسَ تَوَاضُعًا ِللهِ وَهُوَ یَقْدِرُ عَلَيْهِ، دَعَاهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلَی رُئُوْسِ الْخَلَائِقِ حَتَّی یُخَيِّرَهُ مِنْ أَيِّ حُلَلِ الْإِيْمَانِ شَاء یَلْبَسُهَا۔

رَوَاهُ التِّرمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

5 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفۃ القیامۃ، باب : 39، 4 / 650، الرقم : 2481، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 439، الرقم : 15669، وأبو یعلی في المسند، 3 / 60، الرقم : 1484، والطبراني في المعجم الکبیر، 20 / 181، الرقم : 387، والحاکم في المستدرک، 1 / 130، الرقم : 206۔

’’حضرت معاذ بن انس جُہنی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس نے اللہ کی خاطر تواضع کے پیش نظر (زرق برق) لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس پر قدرت رکھتا ہے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ ایمان (والوں) کا جو جوڑا چاہے پہن لے۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

6۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : کَمْ مِنْ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ لَا یُؤْبَهُ لَهُ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللهِ لَأَبَرَّهُ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ مَاجَه، وَالطَّبَرَانِيُّ۔ قَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ۔

6 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب البراء بن مالک، 5 / 692، الرقم : 3854، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : من لا یؤبه له، 2 / 1378، الرقم : 4115، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 264، الرقم : 861، والحاکم في المستدرک، 4 / 364، الرقم : 8932۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کتنے ہی بکھرے بالوں والے، غبار آلودہ، پھٹے پرانے کپڑوں والے جنہیں لوگ بنظر حقارت دیکھتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ انہیں اس میں سچا کر دے۔‘‘

اسے امام ترمذی، ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

7۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا أَرَدْتِ اللُّحُوْقَ بِي فَلْیَکْفِکِ مِنَ الدُّنْیَا کَزَادِ الرَّاکِبِ وَإِيَّاکِ وَمُجَالَسَةَ الْأَغْنِیَاءِ وَلَا تَسْتَخْلِقِي ثَوْبًا حَتَّی تُرَقِّعِيْهِ۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ۔

7 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : اللباس، باب : ما جاء في ترقیع الثوب، 4 / 245، الرقم : 1780، وأبو یعلی في المسند، 8 / 80، الرقم : 6410، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 217، الرقم : 5128، والحاکم في المستدرک، 4 / 347، الرقم : 7867۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے فرمایا : اگر تم مجھ سے تعلق کو دائمی رکھنا چاہتی ہو تو تمہارا دنیا سے صرف اتنا تعلق ہونا چاہیے جتنا سوار کا توشہ ہوتا ہے۔ مالداروں کی مجلس سے اجتناب کرو اور پیوند لگائے بغیر کپڑے کو پرانا نہ کرو۔‘‘

اسے امام ترمذی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

8۔ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه قَالَ : ذَکَرَ أَصْحَابُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ یَوْمًا عِنْدَهُ الدُّنْیَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَ لَا تَسْمَعُوْنَ، أَلَا تَسْمَعُوْنَ إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيْمَانِ، إِنَّ الْبَذَاذَةَ مِنَ الْإِيْمَانِ یَعْنِي التَّقَحُّلَ۔ رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه۔

8 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : الترجل، 4 / 75، الرقم : 4161، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب من لا یؤبه له، 2 / 1379، الرقم : 4118، والطبراني في المعجم الکبیر، 1 / 272، الرقم : 789، والحاکم في المستدرک، 1 / 51، الرقم : 18، والرویاني في المسند، 2 / 315، الرقم : 1274۔

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے ایک روز آپ ﷺ کے سامنے دنیا کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : کیا تم سنتے نہیں! کیا تم سنتے نہیں کہ سادہ وضع میں رہنا ایمان کا حصہ ہے، سادہ وضع میں رہنا ایمان کا ایک حصہ ہے۔‘‘ اسے امام ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

9۔ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَنْ کَانَتِ الدُّنْیَا هَمَّهُ فَرَّقَ اللهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ، وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وَلَمْ یَأْتِهِ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا مَا کُتِبَ لَهُ، وَمَنْ کَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ، جَمَعَ اللهُ لَهُ أَمْرَهُ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ، وَأَتَتْهُ الدُّنْیَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالطَّبَرَانِيُّ۔

9 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الھم بالدنیا، 2 / 1375، الرقم : 4105، والطبراني في المعجم الکبیر، 11 / 266، الرقم : 11690، والمنذري في الترغیب والترھیب، 2 / 342، الرقم : 2644۔

’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ہمیشہ دنیا کی فکر میں مبتلا رہے گا اور دین کی پرواہ نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے تمام کام پریشان کر دے گا اور اس کی مفلسی ہمیشہ اس کے سامنے رہے گی اور دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس کی نیت آخرت کی جانب ہو گی تو اللہ تعالیٰ اس کی دلجمعی کے لیے اُس کے تمام کام درست فرما دے گا اور اس کے دل میں دنیا کی بے پروائی ڈال دے گا اور دنیا اس کے پاس خود بخود آئے گی۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

10۔ عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه أَتَی النَّبِيَّ ﷺ رَجُلٌ، فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللهِ، دُلَّنِي عَلَی عَمَلٍ إِذَا عَمِلْتُهُ أَحَبَّنِيَ اللهُ وَأَحَبَّنِيَ النَّاسُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : ازْھَدْ فِي الدُّنْیَا یُحِبَّکَ اللهُ، وَازْھَدْ فِيْمَا فِي أَيْدِي النَّاسِ یُحِبُّوْکَ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَالْبَيْھَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ۔

10 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الزھد في الدنیا، 2 / 1373، الرقم : 4102، والحاکم في المستدرک، 4 / 348، الرقم : 7873، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 193، الرقم : 5972، والبیهقي في شعب الإیمان، 7 / 344، الرقم : 10522، 10523۔

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جسے کرنے سے اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے اور لوگ بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا : دنیا سے بے رغبت ہو جا، اللہ تعالیٰ تجھ سے محبت کرے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے رغبت ہو جا، لوگ بھی تجھ سے محبت کریں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ، حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

11۔ عَنْ أَبِي خَلَّادٍ رضي الله عنه وَکَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِذَا رَأَيْتُمُ الرَّجُلَ قَدْ أُعْطِيَ زُھْدًا فِي الدُّنْیَا وَقِلَّةَ مَنْطِقٍ فَاقْتَرِبُوْا مِنْهُ، فَإِنَّهُ یُلْقِي الْحِکْمَةَ۔ رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَأَبُوْ یَعْلَی۔

11 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : الزھد في الدنیا، 2 / 1373، الرقم : 4101، وأبو یعلی في المسند، 12 / 175، الرقم : 6803، والبیهقي عن أبی هریرۃ رضي الله عنه في شعب الإیمان، 4 / 254، الرقم : 4985، 10534، والشیباني في الآحاد والمثانی، 4 / 499، الرقم : 2448۔

’’حضرت ابو خلاد ص، جو صحابہ کرام میں سے ہیں، روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب تم دیکھو کہ کسی شخص کو دنیا میں زہد اور کم گوئی عطا کر دی گئی ہے تو اس کا قرب حاصل کرو کیونکہ اس کو حکمت عطا کر دی جاتی ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

12۔ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : إِنَّ یَسِيْرَ الرِّیَاءِ شِرْکٌ، وَإِنَّ مَنْ عَادَی ِللهِ وَلِیًّا، فَقَدْ بَارَزَ اللهَ بِالْمُحَارَبَةِ۔ إِنَّ اللهَ یُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِیَاءَ الْأَخْفِیَاءَ، الَّذِيْنَ إِذَا غَابُوْا لَمْ یُفْتَقَدُوْا، وَإِنْ حَضَرُوْا لَمْ یُدْعَوْا وَلَمْ یُعْرَفُوْا۔ قُلُوْبُهُمْ مَصَابِيْحُ الْهُدَی یَخْرُجُوْنَ مِنْ کُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ۔

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ۔

12 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : من ترجی له السلامۃ من الفتن، 2 / 1320، الرقم : 3989، والطبراني في المعجم الصغیر، 2 / 122، الرقم : 892، والحاکم في المستدرک، 1 / 44، الرقم : 4، 4 / 364، الرقم : 7933، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 548، الرقم : 9049۔

’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک معمولی دکھاوا بھی شرک ہے۔ جس نے اولیاء اللہ سے دشمنی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے اعلانِ جنگ کیا۔ بے شک اللہ تعالیٰ ان نیک متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو چھپے رہتے ہیں، اگر وہ غائب ہو جائیں تو انہیں تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ موجود ہوں تو انہیں (کسی بھی مجلس میں یا کام کے لئے) بلایا نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں پہچانا جاتا ہے، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں۔ ایسے لوگ ہر طرح کی آزمائش اور تاریک فتنے سے (بخیر و عافیت) نکل جاتے ہیں۔‘‘

اسے ابن ماجہ اور حاکم نے ذکر کیا ہے۔ حاکم نے اسے حدیثِ صحیح کہا ہے۔

13۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما : أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ : أَعْقَلُ النَّاسِ أَتْرَکُھُمْ لِلدُّنْیَا۔ رَوَاهُ أَبُوْ حَنِيْفَةَ۔

13 : أخرجه الخوارزمي في جامع المسانید للإمام أبي حنیفۃ، 1 / 199۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : لوگوں میں سب سے زیادہ عقل مند وہ ہے جو دنیا (کی محبت) کو سب سے زیادہ چھوڑنے والا ہو۔‘‘

اسے امام خوارزمی نے ’’جامع المسانید‘‘ میں ذکر کیا ہے۔

14۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَدْخُلُ فُقَرَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِیَاءِ بِنِصْفِ یَوْمٍ وَهُوَ خَمْسُ مِائَةِ عَامٍ۔

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظْ لَهُ۔

14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزھد، باب : ما جاء أن فقراء المهاجرین یدخلون الجنۃ قبل أغنیائهم، 4 / 578، الرقم : 2354، وابن ماجه في السنن، کتاب : الزھد، باب : منزلۃ الفقرائ، 2 / 1380، الرقم : 4122، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 7 / 86، الرقم : 34392۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : غریب مسلمان دولت مندوں سے آدھا دن پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور یہ عرصہ پانچ سو سال (پر مشتمل) ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

15۔ عَنْ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ رضي الله عنه یَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ إِذَا صَلَّی بِالنَّاسِ یَخِرُّ رِجَالٌ مِنْ مَقَامِھِمْ فِي الصَّلَاةِ لِمَا بِھِمْ مِنَ الْخَصَاصَةِ وَھُمْ أَصْحَابُ الصُّفَّةِ حَتَّی یَقُوْلُ الْأَعْرَابُ : إِنَّ ھَؤُلَاءِ مَجَانِيْنُ فَإِذَا قَضَی رَسُوْلُ اللهِ ﷺ الصَّلَاةَ انْصَرَفَ إِلَيْھِمْ فَقَالَ : لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا لَکُمْ عِنْدَ اللهِ عزوجل لَأَجْبَبْتُمْ لَوْ أَنَّکُمْ تَزْدَادُوْنَ حَاجَةً وَفَاقَةً۔ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ۔

15 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزهد، باب : ما جاء في معیشۃ أصحاب النبي ﷺ ، 4 / 583، الرقم : 2368، وابن حبان في الصحیح، 2 / 502، الرقم : 724، والطبراني في المعجم الکبیر، 18 / 310، الرقم : 800، وأحمد بن حنبل في الزهد : 63۔

’’حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کی امامت کرواتے تو کچھ صحابہ کرام بھوک کی وجہ سے نماز میں گر پڑتے اور وہ اصحابِ صفہ تھے۔ یہاں تک کہ بدو کہتے : یہ لوگ دیوانے ہیں، پس جب حضور نبی اکرم ﷺ ان کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے : اگر تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کیا مقام و مرتبہ ہے تو یقینا تم پسند کرتے کہ تمہاری حاجت اور فاقہ مزید بڑھ جائے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

16۔ عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْھا السلام نَاوَلَتْ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ کِسْرَةً مِنْ خُبْزِ شَعِيْرٍ فَقَالَ : هَذَا أَوَّلُ طَعَامٍ أَکَلَهُ أَبُوْکِ مُنْذُ ثَـلَاثَةِ أَيَّامٍ۔

رَوَاهُ أَحْمَدُ۔

16 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 213، الرقم : 13246، وفي الزهد : 67، والمنذري في الترغیب والترهیب، 4 / 92، الرقم : 4941۔

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ علیہا السلام نے حضور نبی اکرم ﷺ کو جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا پیش کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے فاطمہ! یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے بابا نے تین دن کے بعد کھایا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔

17۔ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : مَنِ انْقَطَعَ إِلَی اللهِل کَفَاهُ اللهُ کُلَّ مَؤُوْنَةٍ وَرَزَقَهُ مِنْ حَيْثُ لَا یَحْتَسِبُ وَمَنِ انْقَطَعَ إِلَی الدُّنْیَا وَکَلَهُ اللهُ إِلَيْھَا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ۔

17 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 346، الرقم : 3359، وفي المعجم الصغیر، 1 / 201، الرقم : 321، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 28، 120، الرقم : 1076، 1351، والقضاعی في مسند الشھاب، 1 / 298، الرقم : 493۔

’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص (دنیا سے) کٹ کر اللہ عزوجل کی طرف ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کی ہر ضرورت پوری کرتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو اور جو شخص (اللہ تعالیٰ سے) کٹ کر دنیا کی طرف ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اسی (دنیا) کے سپرد کر دیتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

18۔ عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : مَا تَزَيَّنَ الْأَبْرَارُ بِمِثْلِ الزُّھْدِ فِي الدُّنْیَا۔ رَوَاهُ أَبُوْ یَعْلَی بِإِسْنَادِهِ۔

18 : أخرجه أبو یعلی في المسند، 3 / 191، الرقم : 1617، والدیلمي في مسند الفردوس، 4 / 105، الرقم : 6332، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 76، الرقم : 4860، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 286۔

’’حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا : نیک لوگ دنیا سے بے رغبتی کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ خوبصورت نہیں لگتے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

19۔ عَنْ سَعِيْدٍ الْمَقْبَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ : لَوْ عُدِلَتِ الدُّنْیَا عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوْضَةٍ مِنْ خَيْرٍ مَا سَقَی کَافِرًا مِنْهَا شَرْبَةً۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ وَالطَّبَرانِيُّ۔

19 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 7 / 327، الرقم : 10470، والطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 178، الرقم : 5921۔

’’سعید المقبری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ہاں اگر دنیا کی حیثیت مچھر کے پر کے برابر ہی ہوتی تو اس میں سے کسی ایک کافر کو(پانی کا) گھونٹ تک بھی نہ دیتا۔‘‘ اسے امام بیہقی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

20۔ عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَائِذٍ رضي الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : فِي فُقَرَاءِ الْمُسْلِمِيْنَ : یَزَفُّوْنَ کَمَا تَزَفُّ الْحَمَامُ، فَیُقَالُ لَهُمْ : قِفُوْا لِلْحِسَابِ۔ فَیَقُوْلُوْنَ : وَاللهِ، مَا تَرَکْنَا شَيْئًا نُحَاسَبُ بِهِ۔ فَیَقُوْلُ اللهُ عزوجل : صَدَقَ عِبَادِي۔ فَیَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ قَبْلَ النَّاسِ بِسَبْعِيْنَ عَامًا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادٍ حَسَنٍ۔

20 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبیر، 6 / 58، الرقم : 5508، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 458، وأورده المنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 64، الرقم : 4817، الرقم : 8746، والهیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 261۔

’’حضرت سعید بن عائذ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ غریب مسلمان کبوتروں کی طرح تیزی سے (جنت کی طرف) جا رہے ہوں گے۔ (جب) انہیں کہا جائے گا کہ حساب کے لئے رک جاؤ تو وہ کہیں گے : ہم نے کوئی ایسی چیز اٹھا ہی نہیں رکھی کہ جس کا ہمیں حساب دینا ہو۔ اللہ عزوجل فرمائیں گے : میرے بندوں نے سچ کہا ہے۔ وہ (باقی) لوگوں سے جنت میں ستر سال پہلے داخل ہو جائیں گے۔‘‘ اسے امام طبرانی نے حسن سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

21۔ عَنْ عَطَاء بْنِ أَبِي رَبَاحٍ سَمِعَ أَبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه قَالَ : أَیُّهَا النَّاسُ، لَا تَحْمِلَنَّکُمُ الْعُسْرَةُ عَلَی طَلَبِ الرِّزْقِ مِنْ غَيْرِ حِلِّةٍ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَقُوْلُ : اَللَّهُمَّ، تَوَفَّنِي فَقِيْرًا وَلَا تَوَفَّنِي غَنِیًّا وَاحْشُرْنِي فِي زُمْرَةِ الْمَسَاکِيْنِ فَإِنَّ أَشْقَی الْأَشْقِیَاءِ مَنِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ فَقْرُ الدُّنْیَا وَعَذَابُ الْآخِرَةِ۔ رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ۔

21 : أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 4 / 389، الرقم : 5499، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / 67، الرقم : 4826۔

’’عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! تمہیں (معیشت کی) تنگی ناجائز طریقے سے رزق حاصل کرنے پر نہ اکسائے کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اے اللہ! مجھے غریبی کی حالت میں موت دینا، مجھے دولت مندی کی حالت میں موت نہ دینا اور مجھے مسکینوں کے حلقے میں اٹھانا۔ بدبخت ترین ہے وہ شخص جس کے لئے دنیا کی غریبی اور آخرت کا عذاب دونوں جمع ہو گئے۔‘‘ اسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

22۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : یَقُوْلُ اللهُ تَعالَی : یَا دُنْیَا، مُرِّي عَلَی أَوْلِیَائِي، وَلَا تَحْلَوْلِي فَتَفْتَنِيْهِمْ۔ رَوَاهُ الْقُضَاعِيُّ۔

22 : أخرجه القضاعي في مسند الشهاب، 2 / 325، الرقم : 1453، والدیلمي في مسند الفردوس، 5 / 239، الرقم : 8065۔

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالیٰ (دنیا سے) فرماتا ہے : اے دنیا! میرے اولیاء کے لئے کڑوی ہو جا اور ان کے لئے شیریں نہ ہونا کہ تو انہیں آزمائش میں ڈال دے۔‘‘ اسے امام قضاعی نے روایت کیا ہے۔

23۔ عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ : لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ کَشَفَ النَّبِيُّ ﷺ الثُّوْبَ عَنْ وَجْھِهِ وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَبَکَی ثُمَّ بَکَی طَوِيْلًا ثُمَّ رُفِعَ عَلَی السَّرِيْرِ فَقَالَ : طُوْبَاکَ یَا عُثْمَانُ، لَمْ تَلْبَسْکَ الدُّنْیَا وَلَمْ تَلْبَسْھَا۔

رَوَاهُ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ۔

23 : أخرجه ابن عبد البر في التمهید، 21 / 224، وفي الاستذکار، 3 / 120، وابن الجوزي في الوفا بأحوال المصطفی ﷺ : 551۔

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا وصال ہوا تو آپ ﷺ ان کے جنازہ پر تشریف لائے اور ان کے چہرہ سے کپڑا ہٹا کر پیشانی پر بوسہ دیا اور کافی دیر تک روتے رہے پھر ان کو چارپائی پر رکھ کر اٹھایا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اے عثمان! تیرے لئے مبارک ہے کہ دنیا نے تمہیں استعمال نہ کیا اور تم دنیا میں رہ کر اس سے الگ تھلگ رہے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن عبد البر نے روایت کیا ہے۔

اَلْآثَارُ وَالْأَقْوَالُ

1۔ قال عمر رضي الله عنه : نظرت في هذا الأمر فجعلت إذا أردت الدنیا أضر بالآخرۃ، وإذا أردت الآخرۃ أضر بالدنیا، فإذا کان الأمر ھکذا فأضروا بالفانیۃ۔

1 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 50۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے اس بات کو دیکھ لیا اور جانچ لیا کہ جب بھی میں دنیا کا ارادہ کرتا ہوں تو آخرت کا نقصان ہوتا ہے اور جب آخرت کا ارادہ کرتا ہوں تو دنیا ہاتھ سے جاتی ہے پس جب معاملہ یوں الجھ جائے تو تم فانی شے کا نقصان برداشت کر لو۔‘‘

2۔ عن الحسن رَحِمَهُ الله قال : خطب الناس عمر بن الخطاب رضي الله عنه وهو خلیفۃ وعلیه إزار فیه ثنتا عشرۃ رقعۃ۔

2 : أخرجه أحمد بن حنبل في کتاب الزهد : 182، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 53، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 44 / 304، وابن الجوزي في صفۃ الصفوۃ، 1 / 284۔

’’حضرت حسن رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں سے مخاطب ہوئے جبکہ آپ خلیفہ تھے اور آپ نے ایسا تہبند زیب تن کیا ہوا تھا جس میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔‘‘

3۔ قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه : وددت أن أخرج من الدنیا، کما دخلت لا أجر لي، ولا وزر عليّ۔

3 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 31۔

’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں چاہتا ہوں کہ دنیا سے ایسے چلا جاؤں جیسے آیا تھا مجھے کوئی اجر ملے نہ مجھ پر کوئی بوجھ ہو۔‘‘

4۔ قال عمر رضي الله عنه : لا ینخل لي دقیق رأیت رسول الله ﷺ یأکل غیر منخول۔

4 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 181۔

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے لئے آٹا نہ چھانا جائے کیونکہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو بغیر چھانے ہوئے آٹے کی روٹی کھاتے ہوئے دیکھا۔‘‘

5۔ قال الحسن رَحِمَهُ الله : مر عمر رضي الله عنه علی مزبلۃ فاحتبس عندها فکأنه شق علی أصحابه وتأذوا بها فقال لهم : هذه دنیاکم التي تحرصون علیها۔

5 : أخرجه الإمام أحمد بن حنبل في الزهد : 174۔

’’حضرت حسن رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک کوڑے کرکٹ کے ڈھیر کے پاس سے گزرے تو تھوڑی دیر کے لیے وہاں رک گئے گویا یہ چیز آپ کے اصحاب پر بڑی گراں گزری تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں فرمایا : یہ تمہاری دنیا ہے جس کے لئے تم حریص ہوتے ہو۔‘‘

6۔ قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : الدنیا جیفۃ فمن أراد منها شیئاً فلیصبر علی مخالطۃ الکلاب۔

6 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 32۔

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : دنیا مردار ہے(جس پر فقط کتے جھپٹتے ہیں لهٰذا) جو اس میں سے کچھ چاہے اسے کتوں میں مل جانا برداشت کرنا چاہئے۔‘‘

7۔ کان علي بن أبي طالب رضي الله عنه یخاطب الدنیا ویقول : یا دنیا، غري غیري وقد طلقتک ثلاثاً، عمرک قصیر، ومجلسک حقیر، وخطرک کبیر آه آه من قلۃ الزاد، وبعد السفر ووحشۃ الطریق۔

7 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 34۔

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ دنیا کو مخاطب کر کے فرماتے : اے دنیا! میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دے۔ میں نے تجھے تین طلاقیں دے رکھی ہیں۔ تیری عمر تھوڑی، تیری ہم نشینی حقیر اور تیرا خطرہ بہت بڑا ہے۔ افسوس زادِ راہ قلیل اور سفر زیادہ اور راستہ پرخطر ہے۔‘‘

8۔ عن عائشۃ قالت : مات أبو بکر فما ترک دینارا ولا درهما وکان قد أخذ قبل ذلک ماله فألقاه في بیت المال۔

8 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 166۔

’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو کوئی درہم اور دینار وراثت میں نہ چھوڑا، آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنا مال لیا اور اسے بیت المال میں جمع کرا دیا۔‘‘

9۔ قال أبو هریرۃ رضي الله عنه : جلساء الله غدًا أھل الورع والزھد۔

9 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 17۔

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کل قیامت کے روز اہل ورع و زہد اللہ تعالیٰ کے ہم نشیں ہوں گے۔‘‘

10۔ عن أنس رضي الله عنه قال : تقرقر بطن عمر قال : وکان یأکل الزیت عام الرمادۃ وکان قد حرم علیه السمن قال : فنقر بطنه بإصبعه وقال : تقرقر أنه لیس لک عندنا غیره حتی یحیی الناس۔

10 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 173۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بھوک کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پیٹ گڑگڑانے لگا۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ قحط والے سال آپ تیل کھاتے تھے اور اپنے اوپر گھی حرام کر رکھا تھا، آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی انگشت سے اپنے پیٹ کو بجایا اور فرمایا : گڑگڑا، بے شک تمہارے لئے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں یہاں تک لوگ پھر سے جی اٹھیں (یعنی قحط دور ہو جائے)۔‘‘

11۔ قال عبد اللہ بن عمر رضي الله عنهما : یا ابن آدم، صاحب الدنیا ببدنک وفارقہا بقلبک وہمتک۔

11 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 39۔

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اے ابن آدم! اپنے جسم کے ساتھ دنیا میں رہ اور اسے اپنے دل اور فکر سے جدا کر دے۔‘‘

12۔ قال عبد الله ابن مسعود رضي الله عنه : والله الذي لا إله غیره، ما یضر عبدا یصبح علی الإسلام، ویمسي علیه، ما أصابه من الدنیا۔

12 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 159، وابن المبارک في کتاب الزهد : 189، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 1 / 132، والبیهقي في شعب الإیمان، 2 / 94، الرقم : 1257۔

’’حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس ذات الٰہی کی قسم کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ شخص جو اپنی صبح و شام اسلام پر کرتا ہے اسے یہ چیز نقصان نہیں دیتی کہ اسے دنیا سے کیا ملا؟‘‘

13۔ قال عبدُ اللهِ بنُ المُبَارَکِ : إظهارُ الْغِنَی فِي الفَقْرِ أَحْسَنُ مِنَ الْفَقْرِ۔

13 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 275

’’حضرت عبد اللہ بن مبارک رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : فقر کے ہوتے ہوئے مالداری کا اظہار کرنا فقر سے بہتر ہے۔‘‘

14۔ قال سفیان بن سعید الثوري رَحِمَهُ الله : لو أن عبداً عبد الله تعالی بجمیع المأمورات إلا أنه یحب الدنیا إلا نودي علیه یوم القیامۃ علی رؤوس أهل الجمع ألا إن هذا فلان بن فلان قد أحب ما أبغض الله تعالی، فیکاد لحم وجهه یسقط من الخجل۔

14 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 74۔

’’حضرت سفیان ثوری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اگر کوئی شخص تمام احکام کی تعمیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے مگر دنیا سے محبت کرے تو قیامت کے دن عرصہ محشر میں موجود تمام کائنات کے سامنے اعلان کیا جائے گا کہ فلاں بن فلاں نے اس چیز سے محبت کی جو اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں۔ تو قریب ہو گا کہ ندامت کی وجہ سے اس کے چہرے کا گوشت گر پڑے۔‘‘

15۔ قال سفیان الثوري رحمه الله : الزهد في الدنیا هو قصر الأمل لیس بأکل الخشن ولا بلبس الغلیظ والعباء۔

15 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 75۔

’’حضرت سفیان ثوری رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : زہد (دنیا میں بے رغبتی سے مراد) آرزوؤں کو کم کرنا ہے نہ کہ سادہ غذا کھانا اور موٹا لباس پہننا۔‘‘

16۔ قال السري رَحِمَهُ الله : إن الله تعالی سلب الدنیا عن أولیائه وحماها عن أصفیائه، وأخرجها من قلوب وداده، لأنه لم یرضها لهم۔

16 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 115۔

’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں سے دنیا کو سلب کر رکھا ہے اور اصفیاء سے اسے محفوظ کر رکھا ہے اور اپنے دوستوں کے دلوں سے دنیا کو نکال دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو دنیا دینے میں راضی نہیں۔‘‘

17۔ قال السري السقطي رَحِمَهُ الله : لا ترکن إلی الدنیا فینقطع من الله حبلک، ولا تمش في الأرض مرحا فإنها عن قلیل قبرک۔

17 : أخرجه أبو نعیم في حلیۃ الأولیاء، 10 / 121۔

’’حضرت سری سقطی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اے انسان دنیا کی طرف توجہ سے تیرا اللہ سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ اور زمین پر اکڑ کر مت چل کیونکہ آخر یہی تیری کل آرام گاہ بننے والی ہے۔‘‘

18۔ سئل الشبلي عن الزھد، فقال : أن تزھد فیما سوی الله تعالی۔

18 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 117۔

’’حضرت شبلی رَحِمَهُ اللہ سے زہد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ کے سوا ہر چیز سے اِعراض کرنے کا نام زہد ہے۔‘‘

19۔ قال الجنید رَحِمَهُ الله : الزھد خلو القلب عمَّا خلت منه الید۔

19 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 116

’’حضرت جنید بغدادی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جن چیزوں سے تمہارا ہاتھ خالی ہے ان سے دل کے خالی ہونے کا نام زہد ہے۔‘‘

20۔ قال إبراهیم بن أدهم رَحِمَهُ الله : إن الحُرَّ الکریمَ یخرج من الدنیا قبل أن یخرج منها۔

20 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 220

’’حضرت ابراہیم بن ادھم رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : آزاد شریف انسان، دنیا سے نکلنے سے پہلے دنیا سے نکل چکا ہوتا ہے‘‘

21۔ قال الإمام الشافعي رَحِمَهُ الله : الإکثار في الدنیا إعسار والإعسار فیها إیسار۔

21 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 79

’’امام شافعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا کی کثرت حاصل کرنا تنگی میں پڑنا ہے اور اس میں تنگ رہنا آسانی حاصل کرنا ہے۔‘‘

22۔ قال سفیان بن عینیۃ رحمه الله : الزهد في الدنیا هو الصبر وارتقاب الموت۔

22 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 86۔

’’حضرت سفیان بن عیینہ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا میں زہد صبر کرنا اور موت کا انتظار کرنا ہے۔‘‘

23۔ قال الفضیل بن عیاض رَحِمَهُ الله : لا ینبغي لحامل القرآن أن یکون له حاجۃ عند أحد من الأمراء الأغنیائ، إنما ینبغي أن یکون حوائج الخلق إلیه هو۔

23 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 104

’’حضرت فضیل بن عیاض رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : حامل قرآن کو نہیں چاہیے کہ حاکموں اور امیروں میں سے کسی کے پاس اس کی حاجت ہو بلکہ یہ چاہیے کہ مخلوق کی حاجتیں اس کے پاس ہوں۔‘‘

24۔ قال شقیق البلخي رَحِمَهُ الله : الزاهد هو الذي یقیم زهده بفعله، والمتزهد هو الذي یقیم زهده بلسانه۔

24 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 115۔

’’حضرت شقیق بلخی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : زاہد وہ ہے جو کہ اپنے فعل سے اپنا زہد قائم رکھتا ہے جبکہ متزہد (یعنی زہد کا مدعی) وہ ہے جو اپنی زبان سے زہد قائم رکھتا ہے۔‘‘

25۔ سئل شقیق البلخي رَحِمَهُ الله ما علامۃ صدق الزاهد؟ فقال : أن یصیر یفرح بکل شيء فاته من الدنیا، ویغتم لکل شيء حصل له منها۔

25 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 115۔

’’حضرت شقیق بلخی رَحِمَهُ اللہ سے پوچھا گیا کہ زاہد کے سچے ہونے کی علامت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا : دنیا کی ہر اس چیز سے خوش ہونے لگے جو اسے نہیں ملی اور ہر اس چیز سے غمگین ہو جو اسے میسر آئی۔‘‘

26۔ قال محمد بن علیان النسوي رَحِمَهُ الله : الزهد في الدنیا مفتاح الرغبۃ في الآخرۃ۔

26 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 174۔

’’حضرت محمد بن علیان نسوی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا سے بے رغبتی آخرت کی طرف رغبت کی کنجی ہے۔‘‘

27۔ قال الشیخ أحمد الرفاعي رَحِمَهُ الله : إذا صلح القلب صار مهبط الوحي والأسرار، والأنوار، والملائکۃ، وإذا فسد صار مهبط الظلم، والشیاطین، وإذا صلح القلب أخبرک بما ورائک، وأمامک، ونبهک علی أمور لم تکن تعلمها بشيء دونه، وإذا فسد حدثک بباطلات یغیب معها الرشد، وینتفي معها السعد۔

27 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 208

’’شیخ احمد الرفاعی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب دل صحیح ہو جائے تو وحی، اسرار، انوار اور ملائکہ کے نزول کا مقام بن جاتا ہے اور جب خراب ہو جائے ظلم اور شیاطین کی آماجگاہ ہوتا ہے اور جب دل اصلاح پائے تو تجھے تیرے پچھلے اور اگلے امور کی خبر دیتا ہے اور تجھے ایسے امور پر متنبہ کرتا ہے جنہیں تو اس کے علاوہ کسی شے سے معلوم نہیں کر سکتا اور جب فساد میں گرفتار ہو تو تجھے ایسی باطل چیزوں میں ڈالتا ہے جس کے ہوتے ہوئے ہدایت غائب ہو جاتی ہے اور سعادت ختم ہو جاتی ہے۔‘‘

28۔ قال الشیخ أبو الحسن الشاذلي رَحِمَهُ الله : لا تشم رائحۃ الولایۃ، وأنت غیر زاهد في الدنیا وأهلها۔

28 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 302

’’شیخ ابو الحسن شاذلی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : تو ولایت کی مہک نہیں پائے گا جبکہ تو دنیا اور اہل دنیا سے بے رغبت نہیں ہو جاتا۔‘‘

29۔ قال یحي بن معاذ الرازي رَحِمَهُ الله : أهلُ المَعْرِفَۃ وَحْش اللهِ في الأرْض، لا یَأْنَسُون إلی أحدٍ، والزَّاهِدون غُرَباء في الدنیا، والعارفون غُرَباء في الآخرۃ۔

29 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 112

’’حضرت یحییٰ بن معاذ رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اہلِ معرفت دنیا میں اللہ کا خوف ہوتے ہیں وہ کسی کے ساتھ مانوس نہیں ہوتے اور زاہد دنیا میں پردیسی ہوتے ہیں اور عارف آخرت میں پردیسی ہوتے ہیں۔‘‘

30۔ قال محمد بن عمر الورّاق رَحِمَهُ الله : طوبی للفقیرِ فِي الدنیا والآخرۃ۔ فسألوه عنه، فقال : لا یطلب السلطانُ منه في الدنیا الخراج، ولا الجبارُ في الآخرۃ الحساب۔

30 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 279۔

’’حضرت محمد بن عمر وراق رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں فقیر کے لئے خوشخبری ہے۔ لوگوں نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے فرمایا : اس لئے کہ دنیا میں بادشاہ اس سے خراج نہیں لیتا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ اس سے حساب نہیں مانگے گا۔‘‘

31۔ قال أبو عمر بن نجید رَحِمَهُ الله : من قدر علی إسقاط جاهه عند الخلق سهل علیه الإعراض عن الدنیا وأهلیها۔

31 : أخرجه السّلمي في طبقات الصّوفیۃ : 456۔

’’حضرت ابو عمرو بن نجید رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جو شخص مخلوق کے ہاں اپنے جاہ و منصب کو ختم کرنے پر قادر ہوتا ہے اس پر دنیا اور دنیا والوں سے دور رہنا آسان ہو جاتا ہے۔‘‘

32۔ قال ابن الجلاء رَحِمَهُ الله : الزھد هو النظر إلی الدنیا بعین الزوال لتصغر في عینک، فیسهل علیک الإعراض عنها۔

32 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 116۔

’’حضرت ابن جلاء رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : زہد یہ ہے کہ تو دنیا کی طرف دیکھے تو اس طرح دیکھے کہ یہ ایک زوال پذیر چیز ہے تاکہ دنیا تمہاری نگاہ میں حقیر معلوم ہو اور تمہارے لئے اس سے اعراض کرنا آسان ہو جائے۔‘‘

33۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : إن الله تعالی یعطي الزاھد فوق ما یرید، ویعطي الراغب دون ما یرید، ویعطي المستقیم موافقۃ ما یرید۔

33 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 117۔

’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ زاہد کو اس کی خواہش سے زیادہ عطا کرتا ہے اور دنیا میں رغبت رکھنے والے کو اس کی خواہش سے کم دیتا ہے اور قانع شخص کو اسی قدر عطا کرتا ہے جتنا وہ چاہتا ہے۔‘‘

34۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : إن رجلًا أتی إبراهیمَ بن أدهمَ بعشرةِ آلافِ درهمٍ فأبی أن یقبَلها وقال له : ترید أن تَمْحُوَ اسمي من دیوانِ الفقراءِ بعشرةِ آلافِ درهمٍ، لا أفعل۔

34 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 272

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مروی ہے کہ ایک شخص ابراہیم بن ادھم رَحِمَهُ اللہ کے پاس دس ہزار درہم لایا مگر آپ نے قبول کرنے سے انکار کیا اور فرمایا : تو دس ہزار درہم دے کر میرا نام فقراء کی فہرست سے مٹانا چاہتا ہے، میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘

35۔ قال الإمام القشیري رَحِمَهُ الله : الزاھد لا یفرح بموجود في الدنیا، ولا یتأسّف علی مفقود منها۔

35 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 116۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ زاہد شخص دنیا کی کسی چیز کے پانے پر خوش نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے کھو جانے پر افسوس کرتا ہے۔‘‘

36۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : إذا زھد العبد في الدنیا وکّل الله تعالی به ملکاً یغرس الحکمۃ في قلبه۔

36 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 118

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کسی کا قول ہے کہ جب کوئی بندہ دنیا سے اعراض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو اس کے دل میں حکمت کا پودا لگاتا ہے۔‘‘

37۔ عن الإمام القشیري رَحِمَهُ الله قال : قیل : مَنْ أَرَادَ الفَقْرَ لشرفِهِ مَاتَ فقیراً، ومن أرَادَ الفَقْرَ لئلا یشتغلَ عَنِ اللهِ تعالی مَاتَ غنیاً۔

37 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 276۔

’’امام قشیری رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں : مروی ہے کہ جس نے فقر کا ارادہ فقر کے شرف کی وجہ سے کیا وہ فقیر مرا (اور اسے کچھ حاصل نہ ہوا، کیونکہ وہ لوگوں میں فقیر مشہور ہونا چاہتا تھا۔) اور جس نے فقر کو اس لئے اختیار کیا کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور چیز کے ساتھ مشغول نہ ہو تو وہ حالتِ غنا میں فوت ہوا۔‘‘

38۔ قال أبو عبد الله بن خفیف رَحِمَهُ الله : مَا وَجَبَتْ عليّ زکاةُ الفطرِ أربعین سنةً ولي قبولٌ عظیمٌ بین الخاصِ والعامِ۔

38 : أخرجه القشیري في الرسالۃ : 279۔

’’حضرت ابو عبد اللہ بن خفیف رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : چالیس سال تک مجھ پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوا حالانکہ خاص و عام میں میری(جود و سخا کی) بہت مقبولیت ہے۔‘‘

39۔ قال أبو عثمان رَحِمَهُ الله : أخبرني من رأی عمر رضي الله عنه یرمي الجمرۃ وعلیه إزار مرقوع برقعۃ من أدیم۔

39 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 178۔

’’حضرت ابو عثمان رَحِمَهُ اللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے اس شخص نے خبر دی جس نے حضرت عمرص کو رمی جمرات (شیطان کو کنکریاں مارنا) کے وقت دیکھا کہ آپ نے ایک ایسا تہبند زیب تن کیا ہوا تھا جس پر چمڑے کے پیوند تھے۔‘‘

40۔ قال أبو واقد اللیثي رَحِمَهُ الله تابعنا الأعمال فلم نجد شیئا أبلغ في طلب الآخرۃ من زهادۃ في الدنیا۔

40 : أخرجه أحمد بن حنبل في الزهد : 294

’’ابو واقد لیثی رَحِمَهُ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے مسلسل اعمال کی بجا آوری کی لیکن ہم نے طلبِ آخرت میں دنیا میں بے رغبتی سے بڑھ کر کسی چیز کو نہ پایا۔‘‘

41۔ قال محمد بن کعب القرظي رَحِمَهُ الله : إذا أراد الله بعبده خیراً جعل فیه ثلاث خصال، فقهاً في الدین وزهادۃ في الدنیا وتبصرۃ بعیوبه۔

41 : أخرجه الشعراني في الطبقات الکبری : 59۔

’’حضرت محمد بن کعب قرظی رَحِمَهُ اللہ نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو اسے تین خصلتوں کے ساتھ نوازتا ہے : (1) دین کی سمجھ، (2) دنیا میں بے رغبتی اور (3) اپنے عیبوں کی پہچان۔‘‘

42۔ قال حمدون القصار : التواضع أن لا تری لأحد إلی نفسک حاجۃ، لا في الدین ولا في الدنیا۔

42 : أخرجه ابن قیم الجوزیۃ في مدارج السالکین، 2 / 244۔

’’حضرت حمدون قصار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : تواضع یہ ہے کہ تو کسی کے لئے اپنے ہاں دین و دنیا میں سے کسی ایک کی بھی حاجت نہ پائے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved