Huzur (PBUH) se Haywanat, Jamadat awr Nabatat ki Mahabbat

باب 5 :حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ آسمانی مخلوق کی محبت کا بیان

مَحَبَّةُ الْأَجَرَامِ السَّمَاوِيَةِ لِلنَّبِيِّ ﷺ

{حضور ﷺ کے ساتھ آسمانی مخلوق کی محبت کا بیان}

1. مَحَبَّةُ الْمَـلَائِکَةِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ملائکہ کی محبت کا بیان}

2. مَحَبَّةُ الْقَمَرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ چاند کی محبت کا بیان}

3. مَحَبَّةُ الشَّمْسِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سورج کی محبت کا بیان}

4. مَحَبَّةُ الْبُرَاقِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ براق کی محبت کا بیان}

5. مَحَبَّةُ السَّحَابِ وَالْمَطَرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بادل اور بارش کی محبت کا بیان}

مَحَبَّةُ الْمَـلَائِکَةِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ملائکہ کی محبت کا بیان}

77 /1. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ أُحُدٍ، وَمَعَهُ رَجُـلَانِ يُقَاتِـلَانِ عَنْهُ، عَلَيْهِمَا ثِيَابٌ بِيْضٌ، کَأَشَدِّ الْقِتَالِ، مَا رَأَيْتُهُمَا قَبْلُ وَلَا بَعْدُ يَعْنِي جِبْرِيْلَ وَمِيْکَائِيْلَ عليهما السلام. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

77: أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب: المغازی، باب: إِذَ هَمَّتَ طَائِفَتَانَ مِنْکُمْ أَنْ تَفْشَلاَ وَاﷲُ وَلِيُهُمَا وَعَلَی اﷲِ فَلْيَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ، ]آل عمران، 3: 122[، 4 /1489، الرقم: 3828، وفی کتاب: اللباس، باب: الثياب البيض، 5 /2192، الرقم: 5488، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: فی قتال جبريل وميکائيل عن النبی صلی الله عليه واله وسلم يوم أحد، 4 /1802، الرقم: 2306، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 /171، الرقم: 1468، والشاشی فی المسند، 1 /185، الرقم: 133، والأصبهاني فی دلائل النبوة، 1 /51، الرقم: 34، والخطيب التبريزی فی مشکاة المصابيح، 2 /382، الرقم: 7575، والذهبي فی سير أعلام النبلاء، 1 /107.

’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جنگ اُحد کے روز میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس دو ایسے حضرات کو دیکھا جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی جانب سے لڑ رہے تھے۔ انہوں نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے اور بڑی بہادری سے برسرپیکار تھے۔ میں نے انہیں اس سے پہلے دیکھا تھا نہ بعد میں، یعنی وہ جبرائیل و میکائیل علیہما السلام تھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

78 /2. عَنْ رِفاَعَةَ بْنِ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه وَکَانَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ قَالَ: جَاءَ جِبْرِيْلُ إِلَي النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم وَقَالَ: مَا تَعُدُّوْنَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيْکُمْ؟ قَالَ: مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِيْنَ. أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَ: وَکَذَلِکَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَـلَائِکَةِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَلَفْظُهُمَا.

78: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازی، باب: شهود الملائکة بدرا، 4 /1487، الرقم: 3771، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب: فضل أهل بدر، 1 /56، الرقم: 160، وأحمد بن حنبل في المسند، 3:465، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 /364، الرقم: 36725.36729، 36731، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 /451، الرقم: 6226، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2 /291، والکناني في مصباح الزجاجة، 1 /24، الرقم: 58.

’’حضرت رفاعہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ جو کہ اہلِ بدر صحابہ میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ (یا رسول اﷲ!) آپ غزوئہ بدر میں شرکت کرنے والے (صحابہ) کو کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں انہیں مسلمانوں میں سب سے افضل شمار کرتا ہوں یا ایسا ہی کوئی دوسرا کلمہ استعمال فرمایا۔ حضرت جبرائیل نے عرض کیا: غزوئہ بدر میں شمولیت کرنے والے فرشتے بھی دوسرے فرشتوں میں اسی طرح ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابن ماجہ کے ہیں۔

79 /3. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَنْ جِبْرِيْلَ قَالَ: قَلَّبْتُ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا فَلَمْ أَجِدْ رَجُلًا أَفْضَلَ مِنْ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه واله وسلم ، وَلَمْ أَرَ بَيْتًا أَفْضَلَ مِنْ بَيْتِ بَنِي هَاشِمٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاللاَّلْکَائِيُّ.

79: أخرجه الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 /237، الرقم: 6285، واللالکائي فی اعتقاد أهل السنة، 4 /752، الرقم: 1402، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 /217.

’’اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حضرت جبریل نے کہا: میں نے تمام زمین کے اطراف و اکناف اور گوشہ گوشہ کو چھان مارا، مگر نہ تو میں نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے بہتر کسی کو پایا اور نہ ہی میں نے بنو ہاشم کے گھر سے بڑھ کر بہتر کوئی گھر دیکھا۔‘‘

اسے امام طبرانی اور لالکائی نے روایت کیا ہے۔

80 /4. عَنْ رَبِيْعَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ:مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصَلِّي عَلَيَّ إِلاَّ صَلَّتْ عَلَيْهِ الْمَـلَائِکَةُ مَا صَلَّی عَلَيَّ فَلْيُقِلَّ الْعَبْدُ مِنْ ذَلِکَ أَوْ لِيُکْثِرْ.

رَوَاهُ ابنُ مَاجَه وَ أَحْمَدُ.

80: أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب الاعتدال في السجود، 1: 294، الرقم: 907، واحمد بن حنبل في المسند،3: 446، وأبو يعلی في المسند، 13: 154، الرقم: 7196، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2: 182، الرقم: 1654.

’’حضرت ربیعہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جوبندہ بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے تو فرشتے اس پر اسی طرح درود (بصورتِ دعا) بھیجتے ہیں جس طرح اس نے مجھ پر درود بھیجا۔ پس اب بندہ کو اختیار ہے کہ وہ مجھ پراس سے کم درود بھیجے یازیادہ۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

81 /5. عَنْ أَبِي طَلْحَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ وَالْبِشْرُ يُرَی فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ: إِنَّهُ جَاءَ نِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ: أَمَا يُرْضِيْکَ يَامُحَمَّدُ، أَنْ لاَ يُصَلِّيْ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْراً، وَلاَ يُسَلِّمُ عَلَيْکَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِکَ إِلاَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا؟

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

قَالَ ابنُ مُبَارک في الزُّهد عَنْ کَعْبٍ قَالَ: مَا مِنْ فَجْرٍ يَطْلُعُ إِلاَّ هَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ يَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيَحُفُّوْنَ بِهِ فَيَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی يُمْسُوْا فَإِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا وَهَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ، يَضْرِبُوْنَ الْقَبْرَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيَحُفُّوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لَهُ، وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ حَتَّی يُصْبِحُوْا، وَکَذَلِکَ حَتَّی تَکُوْنَ السَّاعَةُ، فَإِذَا کَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفَ مَلَکٍ.(1)

أَخْرَجَهُ القُرْطُبِيُّ فِي التَّذْکِرَةِ عَنْ کَعْبٍ قَالَ: مَا مِنْ فَجْرٍ يَطْلُعُ إِلاَّ نَزَلَ سَبْعُوْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ حَتَّی يَحُفُّوْا بِالْقَبْرِ، يَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم حَتَّی إِذَا أَمْسَوْا عَرَجُوْا، وَهَبَطَ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ يَحُفُّوْنَ بِالْقَبْرِ وَيَضْرِبُوْنَ بِأَجْنِحَتِهِمْ وَيُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم سَبْعُوْنَ أَلْفًا بِاللَّيْلِ وَسَبْعُوْنَ أَلْفًا بِالنَّهَارِ. وَحَتَّی إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِيْ سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلاَئِکَةِ يُوَقِّرُوْنَهُ صلی الله عليه واله وسلم . رَوَاهُ الْقُرْطَبِيُّ وَ الدَّارِمِيُّ.(2)

قَالَ الإِمَامُ السَّيُوْطِيُّ فِي الْخَصَائص أنّ مَهْدَهُ کَانَ يَتَحَرَّکَ بِتَحْرِيْکِ الْمَلَائِکَةِ.(3)

81: أخرجه النسائی فی السنن الکبری، 1 /384، الرقم: 1218.

(1) أخرجه ابن مبارک في الزهد : 558، الرقم: 1600، والسيوطی في الخصائص الکبریٰ، 2:217، والصالحي في سبل الهدیٰ و الرشاد، 12: 452، 453.

(2) أخرجه القرطبی في التذکره فی اُمور اَحوال الموتیٰ و اُمور الاخرة: 213، 214، وأخرجه الدارمی في السنن مختصرًا،1:57، الرقم: 94.

(3) الخصائص الکبری، 1:53 وکذا فی المواهب والزرقانی.

’’حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ایک دن تشریف لائے اورآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چہرہ انور پر خوشی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس جبرائیل آئے اور کہا: اے محمد! کیا آپ اس بات پر خوش نہیں ہوں گے کہ آپ کی امت میں سے جو کوئی بھی آپ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ درود (بصورت دعا) بھیجتا ہوں اورجو آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجتا ہے میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجتا ہوں؟‘‘

اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

’’امام عبد اﷲ ابن مبارک ’’کتاب الزہد‘‘ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار ملائکہ (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکاً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کی اُمت) کے لئے مغفرت طلب کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں یہاں تک کہ اُنہیں (اِسی حالت میں) شام ہو جاتی ہے اور جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار ملائکہ اُتر آتے ہیں، جو اپنے پَر (تبرکاً آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی) قبرِ انور سے مس کرتے اور اُسے ڈھانپ لیتے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے بلندئ درجات کی دُعا کرتے ہیں، اور میرا خیال ہے کہ راوی نے یہ کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ (اِسی حالت میں) صبح کرتے ہیں اور اِسی طرح قیامت تک (ملائکہ کی جماعتوں کا یہ سلسلہ) جاری رہے گا، پھر جب قیامت کا دن آئے گا تو حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم ستر ہزار ملائکہ کے جَلو میں (قبرِ انور سے) باہر تشریف لائیں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن مبارک نے روایت کیا ہے۔

’’امام قرطبی تذکرۃ میں حضرت کعب سے روایت کرتے ہیں کہ ہر روز صبح سویرے ستر ہزار فرشتے (آسمان سے زمین پر) اُترتے ہیں، یہاں تک کہ قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں، وہ اپنے پَر (تبرکًااُس سے) مَس کرتے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پردرود بھیجتے ہیں، یہاں تک کہ جب شام ہوتی ہے تو وہ (آسمان کی طرف) لوٹ جاتے ہیں اور پھر (اُسی طرح دوسرے) ستر ہزار فرشتے قبرِ انور کو (اپنے پروں سے) ڈھانپ لیتے ہیں اور اپنے پَر (تبرکًا) اُس سے مس کرتے ہیں، اور ستر ہزار فرشتے رات کو اور ستر ہزار فرشتے دن کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، اور یہاں تک کہ جب (روزِ محشر) آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (کی قبرِ انور) کی زمین شق ہو جائے گی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (ایسے) ستر ہزار فرشتوں کے جُھرمٹ میں (وہاں سے) جلوہ افروز ہوں گے جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی (عظمت و) توقیر کے ڈنکے بجا رہے ہوں گے۔‘‘

اس حدیث کو امام قرطبی اور دارمی نے روایت کیا ہے۔

’’امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا جھولا ملائکہ کے ہلانے سے ہمیشہ ہلتا رہتا تھا۔‘‘

مَحَبَّةُ الْقَمَرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ چاند کی محبت کا بیان}

82 /6. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فِلْقَتَيْنِ. فَسَتَرَ الْجَبَلُ فِلْقَةً وَکَانَتْ فِلْقَةٌ فَوْقَ الْجَبَلِ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اللَّهُمَّ اشْهَدْ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

وفي رواية: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ مَرَّتَيْنِ.

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

82: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: المناقب، باب: سؤال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه واله وسلم آية، فأراهم انشقاق القمر، 3 /1330، الرقم: 3437.3439، وفی کتاب: التفسير /القمر، باب: وَانْشَقَّ الْقَمَرُ: وَإِنْ يَرَوْا آيَة يُعْرِضُوْا، ]1،2[، 4 /1843، الرقم: 4583.4587، ومسلم فی الصحيح، کتاب: صفات المنافقين وأحکامهم، باب: انشقاق القمر، 4 /2158.2159، الرقم: 2800.2801، والترمذی فی السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: من سورة القمر، 5 /398، الرقم: 3285.3289، والنسائی فی السنن الکبری، 6 /476، الرقم: 1552.1553، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 /377، الرقم: 3583، 3924،4360، وابن حبان فی الصحيح، 4 /420، الرقم: 6495، والحاکم فی المستدرک، 2 /513، الرقم: 3758.3761، وَ قَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. والبزار فی المسند، 5 /202، الرقم: 1801.1802، وأبويعلی فی المسند، 5 /306، الرقم: 2929، والطبرانی فی المعجم الکبير، 2 /132، الرقم: 1559.1561، والطيالسی فی المسند، 1 /37، الرقم: 280، والشاشی فی المسند، 1 /402، الرقم: 404.

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا واقعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عہد مبارک میں پیش آیا، ایک ٹکڑا پہاڑ میں چھپ گیا اور ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر تھا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ تعالیٰ توگواہ رہنا۔‘‘

’’اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں دو مرتبہ چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھائے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے اور یہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔

83 /7. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ وَنَحْنُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَصَارَ فِرْقَتَيْنِ فَقَالَ لَنَا: اشْهَدُوْا اشْهَدُوْا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

83: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: التفسير، باب: وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، 4 /1843، الرقم: 4584، وفي کتاب: المناقب، باب: سوال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه واله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 /1330، الرقم: 3437، ومسلم في الصحيح، کتاب: صفة القيامة والجنة والنار، باب: انشقاق القمر، 4 /2158، الرقم: 2800، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن، باب: ومن سورة القمر، 5 /398، الرقم: 3285، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /37، الرقم: 3583.

’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حکم پر) چاند شق کیا گیا اس وقت ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے پس چاند کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے فرمایا: گواہ رہنا، گواہ رہنا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

84 /8. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ أَنَّ أَهْلَ مَکَّةَ سَأَلُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم أَنْ يُرِيَهُمْ أيَةً فَأَرَاهُمْ انْشِقَاقَ الْقَمَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

84: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: سوال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه واله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 /1330، الرقم: 3437، وفي کتاب: التفسير، باب: وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، 4 /1844، الرقم: 4586، ومسلم في الصحيح، کتاب: صفة القيامة والجنة والنار، باب: انشقاق القمر، 4 /2159، الرقم: 2802، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن، باب: ومن سورة القمر، 5 /397، الرقم: 3286.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہل مکہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے معجزہ دکھانے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں چاند کے دو ٹکڑے کر کے دکھا دئے تھے۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

85 /9. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم حَتَّی صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَی هَذَا الْجَبَلِ وَعَلَی هَذَا الْجَبَلِ فَقَالُوْا: سَحَرَنَا مُحَمَّدٌ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَئِنْ کَانَ سَحَرَنَا فَمَا يَسْتَطِيْعُ أَنْ يَسْحَرَ النَّاسَ کُلَّهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

85: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن، باب: ومن سورة القمر، 5 /398، الرقم: 3289، والبخاري في الصحيح، کتاب: التفسير، باب: وانشق القمر وإن يروا آية يعرضوا، 4 /1843، الرقم: 4584، وفي کتاب: المناقب، باب: سوال المشرکين أن يريهم النبي صلی الله عليه واله وسلم آية فأراهم انشقاق القمر، 3 /1330، الرقم: 3437، ومسلم في الصحيح، کتاب: صفة القيامة والجنة والنار، باب: انشقاق القمر، 4 /2158، الرقم: 2800.

’’حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوت میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوا ایک ٹکڑا پہاڑ کی اس طرف اور ایک اس جانب ہوگیا کفار نے کہا (حضرت) محمد ( صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) نے ہم پر جادو کیا ہے۔ بعض کہنے لگے اگر ہم پر جادو کیا تو وہ سب لوگوں پر جادو نہیں کر سکتے۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے، مذکورہ الفاظ ترمذی کی ہیں۔

86 /10. عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اﷲ، دَعَانِي، إِلی الدَّخُوْلِ فِي دِيْنِکَ أَمَارَةٌ لِنُبُوَّتِکَ رَأَيْتُکَ فِي الْمَهْدِ تُنَاغِي الْقَمَرَ وَتُشِيْرُ بِاصْبَعِکَ فَحَيْثُ أَشَرْتَ إلَيْهِ مَالَ قَالَ: إِنِّی کُنْتُ أُحَدِّثُهُ وَيُحَدِّثُنِي وَ يُلْهِيْنِي عَنِ الْبُکَاءِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ وَالسَّيُوْطِيُّ.

86: أخرجه ابن عساکر في تاريخ مدينة ودمشق،4: 360، والسيوطی في الخصائص الکبری، 1:53.

’’حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کی نبوت پر دلالت کرنے والی ایک خاص نشانی نے مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی ترغیب دی۔ میں نے دیکھا کہ آپ ایام طفولیت میں گہوارے کے اندر چاند کے ساتھ کھیلا کرتے تھے اور انگلی مبارک کے ساتھ جس طرف اشارہ فرمایا کرتے تھے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میں اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اور وہ میرے ساتھ باتیں کرتا تھا اور مجھے رونے نہیں دیتا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن عساکر اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

مَحَبَّةُ الشَّمْسِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سورج کی محبت کا بیان}

87 /11. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ رَضِي اﷲُ عَنْهَا قَالَتْ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يُوْحَی إِلَيْهِ وَرَأْسُهُ فِي حِجْرِ عَلِيٍّ رضی الله عنه فَلَمْ يُصَلِّ الْعَصْرَ حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اللَّهُمَّ إِنَّ عَلِيًّا فِي طَاعَتِکَ وَطَاعَةِ رَسُوْلِکَ فَارْدُدْ عَلَيْهِ الشَّمْسَ قَالَتْ أَسْمَاءُ رضي اﷲ عنها: فَرَأَيْتُهَا غَرَبَتْ وَرَأَيْتُهَا طَلَعَتْ بَعْدَ مَا غَرَبَتْ.

رَوَاهُ الطَّحَاوِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.

87: أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 24 /147، الرقم: 390، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 /297، والذهبی فی ميزان الاعتدال، 5 /205، وابن کثير فی البداية والنهاية، 6 /83، والقاضی عياض فی الشفاء، 1 /400، والسيوطی فی الخصائص الکبری، 2 /137، والحلبی فی السيرة الحلبية، 2 /103، والقرطبی فی الجامع لأحکام القرآن، 15 /197.

رواه الطبرانی بأسانيد، ورجال أحدهما رجال الصحيح غير إبراهيم بن حسن، وهو ثقة، وثّقه ابن حبان، ورواه الطحاوی في مشکل الآثار (2 /9، 4 /388. 389) وللحديث طرق أخری عن أسماء، وعن أبي هريرة، وعليّ ابن أبي طالب، وأبي سعيد الخدريث.

وقد جمع طرقه أبو الحسن الفضلي، وعبيد اﷲ بن عبد اﷲ الحسکا المتوفی سنة (470) في (مسألة في تصحيح حديث ردّ الشمس)، والسيوطي في (کشف اللبس عن حديث الشمس). وقال السيوطي: فی الخصائص الکبری (2 /137): أخرجه ابن منده، وابن شاهين، والطبرانی بأسانيد بعضها علی شرط الصحيح. وقال الشيباني في حدائق الأنوار (1 /193): أخرجه الطحاوي في مشکل الحديث والآثار. بإِسنادين صحيحين.

وقال الإمام النووي فی شرحه علی مسلم (12 /52): ذکر القاضی رضی الله عنه: أن نبينا صلی الله عليه واله وسلم حبست له الشمس مرّتين … ذکر ذلک الطحاوي وقال: رواته ثقات.

’’حضرت اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سر اقدس حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا کی: اے اﷲ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھا اس پر سورج واپس لوٹا دے۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں: میں نے اسے غروب ہوتے ہوئے بھی دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ وہ غروب ہونے کے بعد دوبارہ طلوع ہوا۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

مَحَبَّةُ الْبُرَاقِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ براق کی محبت کا بیان}

88 /12. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم قَالَ: أُتِيْتُ بِالْبُرَاقِ وَهُوَ دَابَّةٌ أَبْيَضُ طَوِيلٌ فَوْقَ الْحِمَارِ وَدُونَ الْبَغْلِ يَضَعُ حَافِرَهُ عِنْدَ مُنْتَهَی طَرْفِهِ قَالَ: فَرَکِبْتُهُ حَتَّی أَتَيْتُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ قَالَ فَرَبَطْتُهُ بِالْحَلْقَةِ الَّتِي يَرْبِطُ بِهِ الْأَنْبِيَاءُ قَالَ: ثُمَّ دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَصَلَّيْتُ فِيهِ رَکْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَائَنِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام بِإِنَاءٍ مِنْ خَمْرٍ وَإِنَاءٍ مِنْ لَبَنٍ فَاخْتَرْتُ اللَّبَنَ فَقَالَ جِبْرِيلُ صلی الله عليه واله وسلم اخْتَرْتَ الْفِطْرَةَ ثُمَّ عَرَجَ بِنَا إِلَی السَّمَاءِ فَاسْتَفْتَحَ جِبْرِيلُ فَقِيلَ مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ جِبْرِيلُ: قِيلَ وَمَنْ مَعَکَ قَالَ مُحَمَّدٌ قِيلَ وَقَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ قَالَ: قَدْ بُعِثَ إِلَيْهِ فَفُتِحَ لَنَا … رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

88: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الْإِيمَانِ، باب: الْإِسْرَاء بِرَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی السَّمَاوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ، 1 /145، الرقم: 162.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس براق لایا گیا، وہ ایک لمبے قد اور سفید رنگ کا چوپایہ تھا۔ گدھے سے بڑا اور خچر سے کم تھا۔ اس کا قدم نظر کی انتہاء پر پڑتا تھا۔ میں اس پر سوار ہو کر بیت المقدس تک پہنچا اور جس جگہ انبیاء علیہم السلام اپنی سواریوں کو باندھتے تھے وہاں میں نے اس کو باندھ دیا۔ پھر میں مسجد میں داخل ہوا اور اس میں دو رکعات پڑھ کر باہر آیا۔ جبرئیل میرے پاس ایک برتن میں شراب اور دوسرے میں دودھ لے کر آئے، میں نے دودھ لے لیا، جبرئیل نے کہا کہ آپ نے فطرت کو اختیار کیا، پھر مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور جبرائیل نے آسمان کا دروازہ کھٹکھٹایا، پوچھا تم کون ہو؟ کہا جبرئیل، پوچھا تمہارے ساتھ کون ہے؟ کہا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ پوچھا کیا انہیں بلایا گیا ہے، کہاں ہاں انہیں بلایا گیا ہے۔ حضور نے فرمایا پھر ہمارے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

89 /13. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم أُتِيَ بِالْبُرَاقِ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ مُلْجَمًا مُسْرَجًا، فَاسْتَصْعَبَ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ جِبْرِيْلُ: أَبِمُحَمَّدٍ تَفْعَلُ هَذَا؟ قَالَ: فَمَا رَکِبَکَ أَحَدٌ أَکْرَمُ عَلَی اﷲِ مِنْهُ. قَالَ: فَارْفَضَّ عَرَقًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْيَعْلَی وَابْنُ حِبَّانَ وَأَحْمَدُ.

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

89: أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلی الله عليه واله وسلم ، باب: ومن سورة بنی اسرائيل، 5 /301، الرقم: 3131، وأحمد بن حنبل فی المسند، 3 /164، الرقم: 12694، وابن حبان فی الصحيح، 1 /234، وأبو يعلی فی المسند، 5 /459، الرقم: 3184، وعبد بن حميد فی المسند، 1 /357، الرقم: 1185، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 7 /23، الرقم: 2404، والخطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 3 /435، الرقم: 1574، والعسقلانی فی فتح الباري، 7 /206.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں شب معراج براق لایا گیا جس پر زین کسی ہوئی تھی اور لگام ڈالی ہوئی تھی۔ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی سواری بننے کی خوشی میں) اس براق کے رقص کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اس پر سوار ہونا مشکل ہو گیا تو حضرت جبرئیل نے اسے کہا: کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ اس طرح کر رہا ہے؟ حالانکہ آج تک تجھ پر کوئی ایسا شخص سوار نہیں ہوا جو اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جیسا معزز و محترم ہو۔ یہ سن کر وہ براق شرم سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔‘‘

مَحَبَّةُ السَّحَابِ وَالْمَطَرِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ بادل اور بارش کی محبت کا بیان}

90 /14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: أَصَابَتِ النَّاسَ سَنَةٌ عَلَی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم فَبَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَخْطُبُ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ قَامَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَ الْمَالُ وَجَاعَ الْعِيَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ وَمَا نَرَی فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا وَضَعَهَا حَتَّی ثَارَ السَّحَابُ أَمْثَالَ الْجِبَالِ ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ عَنْ مِنْبَرِهِ حَتَّی رَأَيْتُ الْمَطَرَ يَتَحَادَرُ عَلَی لِحْيَتِهِ صلی الله عليه واله وسلم فَمُطِرْنَا يَوْمَنَا ذَلِکَ وَمِنْ الْغَدِ وَبَعْدَ الْغَدِ وَالَّذِي يَلِيْهِ حَتَّی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی وَقَامَ ذَلِکَ الْأَعْرَابِيُّ أَوْ قَالَ: غَيْرُهُ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَ الْبِنَاءُ وَغَرِقَ الْمَالُ فَادْعُ اﷲَ لَنَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ فَقَالَ: اَللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَمَا يُشِيْرُ بِيَدِهِ إِلَی نَاحِيَةٍ مِنَ السَّحَابِ إِلَّا انْفَرَجَتْ وَصَارَتِ الْمَدِيْنَةُ مِثْلَ الْجَوْبَةِ وَسَالَ الْوَادِي قَنَاةُ شَهْرًا وَلَمْ يَجِيئْ أَحَدٌ مِنْ نَاحِيَةٍ إِلَّا حَدَّثَ بِالْجَوْدِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

90: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الجمعة، باب: الاستسقاء في الخطبة يوم الجمعة، 1 /315، الرقم: 891، وفي باب: من تمطر في المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 /349، الرقم: 986، ومسلم في الصحيح، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب، الدعاء في الاستسقاء، 2 / 614، الرقم: 897، والنسائي في السنن، کتاب: الاستسقاء، باب: رفع الإمام يديه عند مسألة إمساک المطر، 3 / 166، الرقم: 1528، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 75، الرقم: 256، والطبراني في الدعاء، 1 /297، الرقم: 957.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو گئے۔ ایک مرتبہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے تو ایک اعرابی کھڑا ہو کر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مال ہلاک ہو گیا اور بچے بھوکے مر گئے، اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے۔ ہم نے اس وقت آسمان میں بادل کا کوئی ٹکڑا تک نہیں دیکھا تھا، پھر قسم اس کی ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ کیا اٹھائے کہ پہاڑوں جیسے بادل آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم منبر سے اترے بھی نہیں کہ میں نے بارش کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ریش مبارک سے ٹپکتے دیکھے۔ اس روز بارش برسی، اگلے روز بھی، اس سے اگلے روز بھی یہاں تک کہ اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پس وہی اعرابی کھڑا ہوا یا کوئی دوسرا شخص اور عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! مکانات گر گئے اور مال ڈوب گیا۔ اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے دعا کیجئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور کہا: اے اللہ! ہمارے اردگرد برسا، ہم پر نہیں۔ پس جس طرف دست مبارک سے اشارہ کرتے ادھر کے بادل چھٹ جاتے یہاں تک کہ مدینہ منورہ ایک دائرہ سا بن گیا۔ قناہ نامی نالہ مہینہ بھر بہتا رہا اور جو بھی آتا وہ اس بارش کا حال بیان کرتا۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

91 /15. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : أَصَابَ أَهْلَ الْمَدِيْنَةِ قَحْطٌ عَلَی عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَبَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ جُمُعَةٍ إِذْ قَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هَلَکَتِ الْکُرَاعُ هَلَکَتِ الشَّاءُ فَادْعُ اﷲَ يَسْقِيْنَا فَمَدَّ يَدَيْهِ وَدَعَا قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ السَّمَاءَ لَمِثْلُ الزُّجَاجَةِ فَهَاجَتْ رِيحٌ أَنْشَأَتْ سَحَابًا ثُمَّ اجْتَمَعَ ثُمَّ أَرْسَلَتِ السَّمَاءُ عَزَالِيَهَا فَخَرَجْنَا نَخُوْضُ الْمَاءَ حَتَّی أَتَيْنَا مَنَازِلَنَا فَلَمْ نَزَلْ نُمْطَرُ إِلَی الْجُمُعَةِ الْأُخْرَی فَقَامَ إِلَيْهِ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، تَهَدَّمَتِ الْبُيُوْتُ فَادْعُ اﷲَ يَحْبِسْهُ فَتَبَسَّمَ ثُمَّ قَالَ: حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَنَظَرْتُ إِلَی السَّحَابِ تَصَدَّعَ حَوْلَ الْمَدِيْنَةِ کَأَنَّهُ إِکْلِيْلٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَمُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ.

91: أخرجه البخاری في الصحيح،کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1313، الرقم: 3389، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: الدعاء فی الاستسقاء، 2 /614، الرقم: 897، وأبوداود فی السنن، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب: رفع اليدين فی الاستسقاء، 1 /304، الرقم: 1174، والبخاري في الأدب المفرد، 1 /214، الرقم: 612، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /95، الرقم: 2601، وفي الدعاء، 1 /596. 597، الرقم: 2179، وابن عبد البر في الاستذکار، 2 /434، والحسيني في البيان والتعريف، 2 /26، الرقم: 957.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک دفعہ اہل مدینہ (شدید) قحط سے دوچار ہوگئے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! گھوڑے ہلاک ہوگئے، بکریاں مرگئیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں پانی مرحمت فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف تھا لیکن ہوا چلنے لگی، بادل گھر کر جمع ہوگئے اور آسمان نے ایسا اپنا منہ کھولا کہ ہم برستی ہوئی بارش میں اپنے گھروں کو گئے اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ پھر (آئندہ جمعہ) وہی شخص یا کوئی دوسرا آدمی کھڑا ہوکر عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! گھر تباہ ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ اب اس (بارش) کو روک لے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم (اس شخص کی بات سن کر) مسکرا پڑے اور (اپنے سرِ اقدس کے اوپر بارش کی طرف انگلی مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے) فرمایا: ’’ہمیں چھوڑ کر ہمارے گردا گرد برسو۔‘‘ تو ہم نے دیکھا کہ اسی وقت بادل مدینہ منورہ کے اوپر سے ہٹ کر یوں چاروں طرف چھٹ گئے گویا وہ تاج ہیں (یعنی تاج کی طرح دائرہ کی شکل میں پھیل گئے)۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔

92 /16. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَجُـلًا جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَخْطُبُ بِالْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ: قَحَطَ الْمَطَرُ، فَاسْتَسْقِ رَبَّکَ. فَنَظَرَ إِلَی السَّمَاءِ وَمَا نَرَی مِنْ سَحَابٍ، فَاسْتَسْقَی، فَنَشَأَ السَّحَابُ بَعْضُهُ إِلَی بَعْضٍ، ثُمَّ مُطِرُوْا حَتَّی سَالَتْ مَثَاعِبُ الْمَدِيْنَةِ، فَمَا زَالَتْ إِلَی الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا تُقْلِعُ، ثُمَّ قَامَ ذَلِکَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم يَخْطُبُ، فَقَالَ: غَرِقْنَا، فَادْعُ رَبَّکَ يَحْبِسْهَا عَنَّا، فَضَحِکَ ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا. مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَـلَاثًا، فَجَعَلَ السَّحَابُ يَتَصَدَّعُ عَنِ الْمَدِيْنَةِ يَمِيْنًا وَشِمَالًا، يُمْطَرُ مَا حَوَالَيْنَا وَلَا يُمْطَرُ مِنْهَا شَيئٌ، يُرِيْهِمُ اﷲُ کَرَامَةَ نَبِيِّهِ صلی الله عليه واله وسلم وَإِجَابَةَ دَعْوَتِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

قَالَ الإِمَامُ السَّيُوْطِيُّ فِي الْخَصَائص عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ قَالَ: کَانَتْ حَلِيْمَةُ لَا تَدَعُهُ يَذْهَبُ مَکَانًا بَعِيْدًا فَغَفَلَتْ عَنْهُ فَخَرَجَ مَعَ أُخْتِهِ الشَّيْمَاءِ فِي الظََّهِيْرَةِ إلَی الْبَهْمِ فَخَرَجَتْ حَلِيْمَةُ تَطْلُبُهُ حَتَّی تَجِدُهُ مَعَ أُخْتِهِ فَقَالَتْ فِي هَذَا الْحَرَّةِ فَقَالَتْ أُخْتُهُ: يَا أُمَّه! مَا وَجَدَ أَخِي حَرًا رَأَيْتُ غُمَامَةً تُظِلُّ عَلَيْهِ إِذَا وَقَفَ وَقَفَتْ، وَإِذَا سَارَ سَارَتْ، حَتَّی انْتَهَی إِلَی هَذَا الْمَوْضِعِ، قَالَتْ: أَحَقَّا يَا بُنَيَة قَالَتْ: أَيْ وَاﷲِ.(1)

92: أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب: الأدب، باب: التبسم والضحک، 5 /2261، الرقم: 5742، وفی کتاب: الدعوات، باب: الدعاء غير مستقبل القبلة، 5 /2335، الرقم: 5982، وفی کتاب: الجمعة، باب: الاستسقاء فی الخطبة يوم الجمعة، 1 /315، الرقم: 891، وفی کتاب: الاستسقاء، باب: الاستسقاء فی المسجد الجامع، 1 /343، الرقم: 967، وفی باب: الاستسقاء فی خطبة مستقبل القبلة، 1 /344، الرقم: 968، وفی باب: إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 /346، الرقم: 974، وفی باب: من تمطر فی المطر حتی يتحادر علی لحيته، 1 /349، الرقم: 986، وفی کتاب: المناقب، باب: علامات النبوة فی الإسلام، 3 /1313، الرقم: 3389، ومسلم فی الصحيح، کتاب: الاستسقاء، باب: الدعاء فی الاستسقاء، 2 /612.614، الرقم: 897، وأبوداود فی السنن، کتاب: صلاة الاستسقاء، باب: رفع اليدين فی الاستسقاء، 1 /304، الرقم: 1174، والنساءی فی السنن، کتاب: الاستسقاء، باب: کيف يرفع، 3 /159.166، الرقم: 1515،1517،1527.1528، وابن ماجه فی السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: ماجاء فی الدعاء فی الاستسقاء، 1 /404، الرقم: 1269، والنسائی فی السنن الکبری، 1 /558، الرقم: 1818.

(1) أخرجه السيوطي في الخصائص الکبری، 1:58.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مدینہ منورہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے اس نے عرض کیا: (یا رسول اﷲ!) بارش نہ ہونے کے باعث قحط پڑ گیا ہے لہٰذا اپنے رب سے بارش مانگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور ہمیں کوئی بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بارش مانگی تو فوراً بادلوں کے ٹکڑے آ کر آپس میں ملنے لگے پھر بارش ہونے لگی یہاں تک کہ مدینہ منورہ کی گلیاں بہہ نکلیں اور بارش متواتر اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی یا کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے: (یا رسول اﷲ!) ہم تو غرق ہونے لگے لہٰذا اپنے رب سے دعا کیجئے کہ اس بارش کو ہم سے روک دے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسکرا پڑے اور دعا کی: اے اﷲ! ہمارے اردگرد برسا اور ہمارے اوپر نہ برسا، ایسا دو یا تین دفعہ فرمایا۔ سو بادل چھٹنے لگے اور مدینہ منورہ کی دائیں بائیں جانب جانے لگے۔ چنانچہ ہمارے اردگرد (کھیتوں اور فصلوں پر) بارش ہونے لگی ہمارے اوپر بند ہو گئی۔ یونہی اﷲ تعالیٰ اپنے نبی کی برکت اور ان کی قبولیتِ دعا دکھاتا ہے۔‘‘

’’امام سیوطی نے الخصائص الکبری میں روایت کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : حلیمہ سعدیہ آپ کا بہت خیال رکھتی تھی ایک روز قدرے غافل ہو گئی تو آپ اپنی رضاعی بہن شیماء کے ساتھ دوپہر کے وقت ریوڑ کی طرف نکل گئے حلیمہ بے قرار ہو گئی اور فوراً تلاش میں نکلی۔ جب بہن کے ساتھ دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی۔ بیٹی کو ناراض ہوئی کہ اتنی سخت دھوپ میں انہیں لے کر کیوں آئی ہو؟ شیماء نے جواب دیا: امی جان! میرے بھائی کو دھوپ نے کچھ نہیں کہا۔ بادل ان پر مسلسل سایہ فگن رہا، جب یہ ٹھہرتے تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب یہ چلتے تو وہ بھی چل پڑتا تھا یہاں تک کہ ہم یہاں پہنچ گئے۔ حلیمہ یہ سن کر خوشگوار حیرت کے عالم میں چیخ پڑی۔ کیا یہ سچ ہے؟ میری بیٹی! شیما نے جواب دیا: ہاں، امی جان یہ بالکل سچ ہے۔‘‘

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved