Huzur (PBUH) se Haywanat, Jamadat awr Nabatat ki Mahabbat

باب 4 :حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمادات کی محبت کا بیان

مَحَبَّةُ الْجَمَادَاتِ لِلنَّبِيِّ ﷺ

{حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ جمادات کی محبت کا بیان}

1. مَحَبَّةُ الْجِبَالِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پہاڑوں کی محبت کا بیان}

2. مَحَبَّةُ الْأَحْجَارِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پتھروں کی محبت کا بیان}

مَحَبَّةُ الْجِبَالِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پہاڑوں کی محبت کا بیان}

61 /1. عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ رضی الله عنه قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه واله وسلم مِنْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ حَتَّی إِذَا أَشْرَفْنَا عَلَی الْمَدِيْنَةِ قَالَ: هَذِهِ طَابَةُ وَهَذَا أُحُدٌ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

61: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المغازي، باب نزول النبي صلی الله عليه واله وسلم الحجر، 4 /1610، الرقم: 4160، وفي کتاب: الزکاة، باب: خرص التمر، 2 /539، الرقم: 1411، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: في معجزات النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 4 /1785، الرقم: 1392، وفي کتاب: الحج، باب: أحد جبل يحبنا ونحبه، 2 /1011، الرقم: 1392، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 /423، الرقم: 37006، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /424، الرقم: 23652، وابن حبان في الصحيح، 10 /355، والبيھقي في السنن الکبری، 6 /372، الرقم: 12889، وأبو نعيم في دلائل النبوة: 171، الرقم: 212.

’’حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم غزوہ تبوک سے واپسی کے دوران حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ جب ہم مدینہ منورہ کے نزدیک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ طابہ (یعنی مدینہ منورہ) ہے اور یہ اُحد پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

62 /2. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ. فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ. فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدَانِ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ يَعْلَی.

62: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 /1348، الرقم: 3483، وأبو يعلی في المسند، 13 /509، 510، الرقم: 7518، وابن حبان في الصحيح، 14 /415، الرقم: 6492، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /621، الرقم: 1440 وأبو حاتم في الثقات، 2 /242.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کوہِ اُحد پر چڑھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان تھے۔ پہاڑ کو وجد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں کے ساتھ ٹھوکر مارتے ہوئے فرمایا: اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام بخاری، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔

63 /3. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ عَلَی حِرَاءٍ هُوَ وَأَبُوْبَکْرِ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم : اهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

63: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل طلحة والزبير، 4 /1880، الرقم: 2417، والترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الرقم: 3696.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرماتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی تھے۔ اتنے میں پہاڑ نے حرکت کی تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں ہے۔‘‘

اسے امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

64 /4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ عَلَی جَبَلِ حِرَاءٍ فَتَحَرَّکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اسْکُنْ حِرَاءُ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

64: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: فضائل الصحابة، باب: من فضائل طلحة والزبير، 4 /1880، الرقم: 2417، وأبو داود عن سعيد بن زيد في السنن، کتاب: السنة، باب: في الخلفاء، 4 /211، الرقم: 4648، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /351، الرقم: 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /419، الرقم: 9420، والنسائي في السنن الکبری، 5 /55، الرقم: 8190.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم حرا پہاڑ پر تھے، وہ ہلنے لگا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے حرا ٹھہرجا! تجھ پر صرف نبی ہے، یا صدیق ہے، یا شہید ہے۔ اس پہاڑ پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم تھے اور حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر اور حضرت سعد بن ابی وقاص تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

65 /5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی حِرَاءٍ فَتَزَلْزَلَ الْجَبَلُ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم اثْبُتْ حِرَاءُ مَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ وَعَلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَعَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَسَعِيْدُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.

65: أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 /333، الرقم: 2445، والطبراني في المعجم الکبير، 11 /159، الرقم: 11671، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /622، الرقم: 1446، والطبري في الرياض النضرة، 1 /222.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جبلِ حراء پر تھے کہ وہ کانپنے لگا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اے حراء ٹھہرجا، تجھ پر سوائے نبی، صدیق یا شہید کے کوئی نہیں۔ اور اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ، ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل تھے۔‘‘

اس حدیث کو امام ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔

66 /6. عَنْ عَبْدِ اﷲ بْنِ سَالِمِ الْمَازِنِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ قَالَ: لَمَّا قَدِمَ فُلَانٌ إِلَی الْکُوْفَةِ أَقَامَ فُـلَانٌ خَطِيْبًا فَأَخَذَ بِيَدِي سَعِيْدُ بْنُ زَيْدٍ فَقَالَ: أَلَا تَرَی إِلَی هَذَا الظَّالِمِ فَأَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ إِنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَلَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ إِيْثَمْ قَالَ ابْنُ إِدْرِيْسَ: وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ آثَمُ قُلْتُ: وَمَنْ التِّسْعَةُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَهُوَ عَلَی حِرَاءٍ: اثْبُتْ حِرَاءُ إِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قُلْتُ: وَمَنْ التِّسْعَةُ؟ قَالَ: رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَعَلِيٌّ وَطَلْحَةُ وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قُلْتُ وَمَنِ الْعَاشِرُ؟ فَتَلَکَّأَ هُنَيَةً ثُمَّ قَالَ: أَنَا.

رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ.

66: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في الخلفاء، 4 /211، الرقم: 4648، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /351، الرقم: 31948، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /188، الرقم: 1638، والبزار في المسند، 4 /91، الرقم: 2163، والنسائي في السنن الکبری، 5 /55، الرقم: 8190، وابن حبان في الصحيح، 15 /457، الرقم: 6996، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 /273، الرقم: 890.

’’عبد اللہ بن ظالم مازنی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے سنا۔ عبد اللہ کا بیان ہے کہ جب فلاں کوفے میں آیا اور اُس نے فلاں کو خطبہ دینے کے لیے کھڑا کیا تو حضرت سعید بن زید نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تم اس ظالم کو نہیں دیکھتے۔ نو (9) حضرات کے متعلق تو میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر دسویں کے متعلق بھی گواہی دوں تو گنہگار نہیں ہوں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ وہ نو حضرات کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ حراء کے اوپر تھے: اے حراء ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ نو حضرات کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابو بکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبد الرحمن بن عوف ہیں۔ میں عرض گزار ہوا کہ دسواں کون ہے؟ وہ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ میں ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام ابوداؤد، ابن ابی شیبہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

67 /7. عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ قَالَ: لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ ثُمَّ قَالَ: أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَاءَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : اثْبُتْ حِرَاءُ، فَلَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قَالُوْا: نَعَمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والنَّسَائِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيسَی: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

67: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان، 5 /625، الرقم: 3699، والنسائي في السنن، کتاب: الأحباس، باب: وقف المساجد، 6 /236، الرقم: 3609، وابن حبان، 15 /348، الرقم: 6916، والدارقطني في السنن، 4 /198، 199، الرقم: 8، 11، والبيهقي في السنن الکبری، 6 /167، الرقم: 11714، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 482، الرقم: 358، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /540، الرقم: 2198.

’’حضرت ابو عبد الرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کیا گیا تو آپ مکان کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ جب حراء پہاڑ حرکت کرنے لگا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: حراء ٹھہر جا تجھ پر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی نہیں۔ حاضرین نے کہا: ہاں۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

68 /8. عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حَزْنٍ الْقُشَيْرِيِّ قَالَ: شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ فَقَالَ....أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم کَانَ عَلَی ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَمَعَهُ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ وَأَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّی تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ: فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ: اسْکُنْ ثَبِيْرُ، فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيْدَانِ قَالُوْا: اللّٰهُمَّ نَعَمْ. قَالَ: اﷲُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِي وَرَبِّ الْکَعْبَةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَلَاثًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

قال القاضي أبو بکر بن العربي رحمه اﷲ تعالی في العارضة: إنما اضطربت الصخرة ورجف الجبل استعظاماً لما کان عليه من الشرف، وبمن کان عليه من الأشراف.(1)

قال ابن المنير - فيما نقله القسطلاني - رحمهما اﷲ تعالی، في الإرشاد: الحکمة في ذلک أنه لما ارتجف أراد النبي صلی الله عليه واله وسلم أنيبين أن هذه الرجفة ليست من جنس رجفة الجبل بقوم موسی عليه السلام لَمَّا حرَّفوا الکَلِمَ، فتلک رجفة الغضب، وهذه هزة الطرب، ولهذا نص علی مقام النبوة والصِّدِّيقية والشهادة، التي توجب سرور ما اتصلت به، فأقر الجبل بذلک، فاستقر.(2)

68: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في مناقب عثمان بن عفان رضی الله عنه، 5 /627، الرقم: 3703، والنسائي في السنن، کتاب: الأحباس، باب: وقف المساجد، 6 /235، الرقم: 3608، وفي السنن الکبري، 4 /97، الرقم: 6435، والدارقطني في السنن، 4 /196، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 /446، 447، الرقم: 321، 322، وابن أبي عاصم في السنة، 2 /594، الرقم:1305.

(1) عارضة الأحوذي، 13 /151-154.

(2) إرشاد الساري، 6 /97، ولامع الدراري، 6 /97.

’’حضرت ثمامہ بن حزم قشیری بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دولت کدہ کے پاس آیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ گھر کے اوپر سے لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرما رہے تھے۔۔۔۔۔میں تمہیں اللہ تعالیٰ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ثبیرِ مکہ پر تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابو بکر، عمر اور میں بھی تھا۔ پہاڑ متحرک ہوا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرنے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پائوں کی ٹھوکر مار کر فرمایا ٹھہر ثبیر! ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اُوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔ محاصرین نے کہا ہاں (ٹھیک ہے)۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اکبر! ان لوگوں نے میرے حق میں گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں شہید ہوں، تین مرتبہ فرمایا۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ اور امام ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔

’’قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اﷲ تعالی ’’عارضہ‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ بے شک چٹان تھرتھرانے لگی اور پہاڑ لرزاں ہوگئے، اُس شرف کو بڑا جانتے ہوئے جو اشرافِ عرب کاان پر جلوہ افروز ہونے سے انہیں ملا۔‘‘

’’ابن منیر نے - امام قسطلانی رحمہما اﷲ تعالی نے جو کچھ نقل کیا ہے - کے بارے میں ’’الارشاد‘‘ میں بیان کیا ہے کہ اس چیز میں جو حکمت پنہاں ہے وہ یہ ہے کہ جب وہ پہاڑ لرزاں ہوا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چاہا کہ وہ یہ بیان فرما دیں کہ یہ وہ لرزہ اور تھرتھراہٹ نہیں ہے جو قوم موسیٰ پر پہاڑ کی ہوئی تھی جب انہوں نے حکمات میں تحریف کے جرم کا ارتکاب کیا، پس وہ تھرتھراہٹ غضب کی تھی، اور یہ خوشی اور قرب کی تھی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مقام نبوت، صدیقیت اور شہادت کو بیان فرما دیا، جو موجب سرور و فرحت ہیں، پس پہاڑ نے بھی اس چیز کا اقرار کیا اور پھر استقرار پکڑ لیا۔‘‘

مَحَبَّةُ الْأَحْجَارِ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه واله وسلم

{ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ پتھروں کی محبت کا بیان}

69 /9. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه واله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ. فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطَ فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ. قَالَ: فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم وَقَالَ: هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِيْنَ. فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ: مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ: إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا وَلَا يَسْجُدَاِن إِلَّا لِنَبِيٍّ الحديث.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَزَّارُ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

69: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: ما جاء في بدء نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم ، 5 /590، الرقم: 3620، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 /317، الرقم: 31733، و 7 /327، الرقم: 36541، والبزار في المسند، 8 /97، الرقم: 3096، والحاکم في المستدرک، 2 /672، الرقم: 4229، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 /45، الرقم: 19.

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں: حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کی طرف روانہ ہوئے. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ راستے میں جب وہ راہب کے پاس پہنچے تو حضرت ابو طالب اپنی سواری سے نیچے اتر آئے۔ باقی لوگوں نے بھی اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف نکلا حالانکہ اس سے پہلے وہ اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آیا کرتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر کہا: یہ تمام جہانوں کا سردار اور رب العالمین کا رسول ہے! وہ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث کرے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا: تمہیں کس نے بتایا؟ اس نے کہا: جب تم لوگ عقبہ سے چلے تو تمام درخت اور پتھر ان کو سجدہ کر رہے تھے اور وہ صرف نبی کو ہی سجدہ کرتے ہیں‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم، ابن ابی شیبہ اور بزار نے روایت کیا ہے۔

70 /10. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ؛ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْأنَ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطِّيَالِسِيُّ وَأَبُويَعْلَی وَالطَّبَرَانِيُّ.

وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی: هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

70: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه واله وسلم وما قد خصه اﷲ، 5 /592، الرقم: 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /105، الرقم: 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 /459، الرقم: 7469، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /231، الرقم: 1961، والطيالسي في المسند، 1 /106، الرقم: 781، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 /153.

’’حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، احمد، طیالسی، ابو یعلی اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابوعیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔

71 /11. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم بِمَکَّةَ. فَخَرَجَ فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ شَجَرٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا قَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ والْحَاکِمُ وَاللَّفْظُ لَهُ. وَقَالَ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

71: أخرجه الترمذي في السنن، کتاب: المناقب، باب: 6، 5 /593، الرقم: 3626، والحاکم في المستدرک، 2 /677، الرقم: 4238.

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سامنے آتا تو وہ کہتا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُولَ اﷲِ یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ الفاظ حاکم کے ہیں اور امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔

72 /12. عَنْ عِبَادٍ قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا رضی الله عنه يَقُوْلُ: لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَدْخُلُ مَعَهُ يَعْنِي النَّبِيَّ صلی الله عليه واله وسلم الْوَادِيَّ. فَـلَا يَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلَا شَجَرٍ إِلَّا قَالَ: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَأَنَا أَسْمَعُهُ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

72: أخرجه البيهقي في دلائل النبوة، 2 /154، وابن کثير في شمائل الرسول: 259، 260، وفي البداية والنهاية، 3: 16.

’’حضرت عباد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا:میں نے دیکھا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ فلاں فلاں وادی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جس بھی پتھر یا درخت کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتا: اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ ’یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو‘ اور میں یہ تمام سن رہا تھا۔‘‘

اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

73 /13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ الْيَمَنِ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ، صلی الله عليه واله وسلم فَقَالُوْا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّا قَدْ خَبَأْنَا لَکَ خَبِيْئًا. فَقَالَ: سُبْحَانَ اﷲِ؛ إِنَّمَا يُفْعَلُ هَذَا بِالْکَاهِنِ؛ وَالْکَاهِنُ وَالْمُتَکَهِنُ وَالْکَهَانَةُ فِي النَّارِ. فَقَالَ لَهُ أَحَدُهُمْ: فَمَنْ يَشْهَدُ لَکَ أَنَّکَ رَسُوْلُ اﷲِ؟ قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَی حَفْنَةِ حَصْبَاءَ فَأَخَذَهَا فَقَالَ: هَذَا يَشْهَدُ أَنِّي رَسُوْلُ اﷲِ. قَالَ: فَسَبَّحْنَ فِي يَدِهِ وَقُلْنَ: نَشْهَدُ أَنَّکَ رَسُوْلُ اﷲِ.

رَوَاهُ الْحَکِيْمُ التِّرْمِذِيُّ.

73: أخرجه الحکيم الترمذي في نوادر الأصول 2 /216، 217، والعيني في عمدة القاري، 11: 78

’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے: یمن سے ایک وفد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے ابو القاسم، ہم نے آزمائش کے طور پر آپ سے ایک چیز چھپا رکھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: سبحان اﷲ، ایسا تو کاہنوں سے کیا جاتاہے۔ اور کاہن (اٹکل سے آئندہ کی باتیں بتانے والا) اور متکہن (اپنے آپ کو کاہن ظاہر کرنے والا) اور کہانت جہنم میں ہوں گے۔ اُن میں سے کسی نے کہا: اس بات کی کون گواہی دیتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تھوڑی سی کنکریوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور انہیں مٹھی میں لے کر فرمایا: یہ گواہی دیں گی کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ کنکریوں نے تسبیح پڑھی اور پکار اٹھیں کہ ہم گواہی دیتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بلا شبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے رسول ہیں۔‘‘

اس حدیث کو امام حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے۔

74 /14. عَنْ عَبَّاسٍ قَالَ: شَهِدْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ حُنَيْنٍ فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُوْ سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَلَمْ نُفَارِقْهُ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم عَلَی بَغْلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ فَلَمَّا الْتَقَی الْمُسْلِمُوْنَ وَالْکُفَّارُ وَلَّی الْمُسْلِمُوْنَ مُدْبِرِيْنَ فَطَفِقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَرْکُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْکُفَّارِ .... أَخَذَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم حَصَيَاتٍ فَرَمَی بِهِنَّ وُجُوْهَ الْکُفَّارِ ثُمَّ قَالَ: انْهَزَمُوْا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَی هَيْئَتِهِ فِيْمَا أَرَی قَالَ: فَوَاﷲِ، مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَی حَدَّهُمْ کَلِيْلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَحْمَدُ.

74: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الجهاد والسير، باب: في غزوة حنين، 3 /1398، الرقم: 1775، وعبد الرزاق في المصنف، 5 /380، 381، الرقم: 9741، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /207، الرقم: 1775، وفي فضائل الصحابة، 2 /927، الرقم: 1775، والنسائي في السنن الکبری، 5 /194، الرقم: 8647، وابن حبان في الصحيح، 15 /523، 524، الرقم: 7049، والحميدي في المسند، 1 /218، الرقم: 459، وأبو عوانة في المسند، 4 /276، الرقم: 6748، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2 /155، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 /273، الرقم: 356، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 12 /116، والمزي في تهذيب الکمال، 24 /135، وابن حجر العسقلاني في فتح الباري، 8 /31.

’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ حنین میں، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا، میں اور حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، اور آپ سے بالکل الگ نہیں ہوئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس سفید رنگ کی خچر پر سوار تھے جو آپ کو فروہ بن نفاثہ جذامی نے ہدیہ کی تھی، جب مسلمانوں اور کفار کا مقابلہ ہوا تو مسلمان پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم اپنے خچر کو کفار کی جانب دوڑا رہے تھے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے چند کنکریاں اُٹھائیں اور کفار کے چہروں کی طرف پھینکیں اور فرمایا: رب محمد کی قسم! یہ ہار گئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دیکھ رہا تھا لڑائی اسی تیزی کے ساتھ جاری تھی، میں اسی طرح دیکھ رہا تھا کہ اچانک آپ نے کنکریاں پھینکیں بخدا میں نے دیکھا کہ ان کا زور ٹوٹ گیا اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگنے لگے۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، عبدالرزاق اور احمد نے روایت کیا ہے۔

75 /15. عَنْ جَابِرٍ قَالَ: دَخَلْنَا مَعَ النَّبَيِّ صلی الله عليه واله وسلم مَکَّةَ فِي الْبَيْتِ وَحَوْلَ الْبَيْتِ ثَـلَاثُمِائَةٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا تُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ. قَالَ: فَأَمَرَ بِهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم فَکَبَّتْ کُلُّهَا لِوَجْهِهَا ثُمَّ قَالَ: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17: 81].

75: أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 7 /403، الرقم: 36905، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /60.

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی معیت میں مکہ مکرمہ میں بیت اللہ میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ میں اس وقت تین سو ساٹھ بت تھے، جن کی اللہ کے مقابلہ میں عبادت کی جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں حکم دیا تو وہ سارے کے ساے منہ کے بل گر پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہے}۔‘‘

اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

76 /16. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: دَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم يَوْمَ الْفَتْحِ وَعَلَی الْکَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةِ صَنَمٍ وَسِتُّوْنَ صَنَمًا، قَدْ شَدَّ لَهُمْ إِبْلِيْسُ أَقْدَامَهُمْ بِالرَّصَاصِ، فَجَاءَ وَمَعَهُ قَضِيْبُهُ، فَجَعَلَ يَهْوِي بِهِ إِلَی کُلِّ صَنَمٍ مِنْهَا، فَيَخِرُّ لِوَجْهِهِ وَيَقُوْلُ: {جَآءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًاo} [الإسراء، 17: 81] حَتَّی أَمَّرَ بِهِ عَلَيْهَا کُلِّهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

76: أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 /279، الرقم: 10656، وفي المعجم الصغير، 2 /272، الرقم: 1152، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 /212، والتميمي في دلائل النبوة، 1 /196، الرقم: 263، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 /176، وقال: رواه الطبراني ورجاله ثقات، وأيضاً، 7 /51، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 10 /314، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 /60.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم فتح مکہ والے دن کعبہ میں داخل ہوئے، اور (اس وقت) اس میں تین سو ساٹھ بت پڑے ہوئے تھے، شیطان نے جن کے پاؤں آہنی زنجیروں سے جکڑ رکھے تھے، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ادھر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دست اقدس میں اپنا عصا مبارک بھی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس عصا کے ساتھ ان بتوں میں سے ہر بت کی طرف آئے تو ہر بت اوندھے منہ گرتا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس وقت یہ آیہ کریمہ پڑھ رہے تھے: {حق آگیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل نے زائل و نابود ہی ہو جانا ہےo} یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے اس عصا کے ذریعے سارے بت گرا دیے۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved