Mamulat-e-Milad

باب 8 :جلوسِ میلاد

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دن درود و سلام سے مہکی ہوئی فضا میں جلوس نکالنا بھی تقریباتِ میلاد کا ضروری حصہ بن چکا ہے۔ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا یہ عمل بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی سنت ہے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی جلوس نکالے جاتے جن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ شریک ہوتے۔ درج ذیل احادیث سے جلوس کا ثبوت فراہم ہوتاہے:

کتب سیر و اَحادیث میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کا حال اس طرح بیان کیا گیا ہے:

’’اُن دنوں جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کسی روز بھی متوقع تھی مدینہ منورہ کے مرد و زن، بچے اور بوڑھے ہر روز جلوس کی شکل میں دیدہ و دل فرشِ راہ کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِستقبال کے لیے مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر قباء کے مقام پر جمع ہو جاتے۔ جب ایک روز سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کی مسافتیں طے کرتے ہوئے نزولِ اِجلال فرمایا تو اس دن اہلِ مدینہ کی خوشی دیدنی تھی۔ اس دن ہر فرد فرطِ مسرت میں گھر سے باہر نکل آیا اور شہرِ مدینہ کے گلی کوچوں میں ایک جلوس کا سا سماں نظر آنے لگا۔‘‘

حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں:

فصعد الرجال والنساء فوق البیوت، وتفرق الغلمان والخدم فی الطرق، ینادون: یا محمد! یا رسول اﷲ! یا محمد! یا رسول اﷲ!

  1. مسلم، الصحیح، کتاب الزهد والرقائق، باب فی حدیث الهجرة، 4: 2311،رقم: 2009
  2. ابن حبان، الصحیح، 15: 289، رقم: 68970
  3. أبویعلی، المسند، 1: 107، رقم: 116
  4. مروزی، مسند أبی بکر: 129، رقم: 65

’مرد و زن گھروں پر چڑھ گئے اور بچے اور خدام راستوں میں پھیل گئے، سب بہ آواز بلند کہہ رہے تھے: یا محمد! یا رسول اللہ! یا محمد! یا رسول اللہ!‘

اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری دیکھ کر جاں نثاروں پر کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوگیا۔ اِمام رویانی کے مطابق اہالیانِ مدینہ جلوس کی شکل میں یہ نعرہ لگا رہے تھے:

جاء محمد رسول اﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.

رویانی، مسند الصحابة، 1: 138، رقم: 329

’’اﷲ کے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔‘‘

معصوم بچیاں اور اَوس و خزرج کی عفت شعار دوشیزائیں دف بجا کر دل و جان سے محبوب ترین اور عزیز ترین مہمان کو اِن اَشعار سے خوش آمدید کہہ رہی تھیں:

طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْودَاعِ

وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ

أَیُّهَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمَطَاعِ

  1. ابن ابی حاتم رازی، الثقات، 1: 131
  2. ابن عبد البر، التمهید لما فی الموطا من المعانی والأسانید، 14: 82
  3. أبو عبید اندلسی، معجم ما استعجم من أسماء البلاد والمواضع، 4: 1373
  4. محب طبری، الریاض النضرة فی مناقب العشرة، 1: 480
  5. بیهقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة، 2: 507
  6. ابن کثیر، البدایة والنهایة،2: 583
  7. ابن کثیر، البدایة والنهایة، 3: 620
  8. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 7: 261
  9. ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 8: 129
  10. قسطلانی، المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 1: 634
  11. زرقانی، شرح المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 4: 100، 101
  12. أحمد بن زینی دحلان، السیرة النبویة، 1: 323

(ہم پر وداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔)

گزشتہ صفحات میں بیان کردہ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَجزائے تشکیلی سے واضح ہوگیا ہے کہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کے یہی طریقے جائز اور مسلمہ ہیں۔ دنیا بھر میں اِسلامی معاشرے اِنہی طریقوں سے میلادِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے چلے آرہے ہیں۔ ان میں سے ایک عمل بھی ایسا نہیں جس کی اَصل عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دورِ صحابہ میں موجود نہ ہو یا قرآن و سنت سے متصادم ہو۔ جس طرح یہ اَجزاء الگ الگ طور پر جائز بلکہ مسلمہ ہیں اُسی طرح مجموعی طور بھی محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اِن کو شرعی جواز حاصل ہے۔

میلاد کی تقریبات کے سلسلے میں انتظام و انصرام اور ہر وہ کام انجام دینا جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو شرعی طور پر مطلقاً جائز ہے۔ اس طرح محفلِ میلاد روحانی طور پر ایک قابلِ تحسین، قابلِ قبول اور پسندیدہ عمل ہے۔ ایسی مستحسن اور مبارک محافل کے بارے میں جواز ؍ عدمِ جواز کا سوال اٹھانا یقینا حقائق سے لا علمی، ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved