محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اہم ترین عنصر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی اور نعت خوانی ہے۔ اہلِ اسلام محافلِ نعت منعقد کرکے اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اپنی بے پناہ محبت اور جذباتی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ نعتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی نیا عمل نہیں بلکہ قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ ذیل میں اِس ضمن میں چند حوالہ جات نقل کیے جاتے ہیں:
ﷲ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر اپنے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ جمیل پیرایۂ نعت میں کیا ہے۔ خالقِ کائنات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب بھی روئے خطاب ہوا تونام لینے کی بجائے کبھی یٰـاَیُّـهَا الْمُـزَّمِّلُ کہا اور کبھی یٰـاَیُّـهَا الْمُدَّثِّرُ اور کبھی یٰسین کے لقب سے پکارا۔ اِسی طرح کلامِ مجید میں کہیں وَالضُّحٰی کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رُخِ اَنور کی قسم کھائی اور کہیں وَاللَّیـْل کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبِ تاریک کی مانند سیاہ زلفوں کی قسم کھائی۔ ہمہ قرآن دَر شانِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مصداق پورا قرآن حکیم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح اور نعت ہی تو ہے۔ اِس کے پیرایۂ اِظہار میں نعت ہی کا رنگ صاف جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ بہ طور حوالہ چند آیات درج ذیل ہیں:
اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَo وَوَضَعْنَا عَنْکَ وِزْرَکَo الَّذِیْٓ اَنْقَضَ ظَهْرَکَo وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَo
لإنشراح، 94: 1۔4
’’کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (اَنوارِ علم و حکمت اور معرفت کے لیے) کشادہ نہیں فرما دیا۔ اور ہم نے آپ کا (غمِ اُمت کا وہ) بار آپ سے اتار دیا۔ جو آپ کی پشتِ (مبارک) پر گراں ہو رہا تھا۔ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘
اِنَّ ﷲ وَمَلٰئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo
الأحزاب، 33: 56
’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ ﷲط وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا ﷲ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوْا ﷲ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 64
’’اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اِس لیے کہ ﷲ کے حکم سے اُس کی اِطاعت کی جائے، اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتے اور ﷲ سے معافی مانگتے اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھی اُن کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اِس وسیلہ اور شفاعت کی بناء پر) ضرور ﷲ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔‘‘
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ ﷲج وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاo
النساء، 4: 80
’’جس نے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا حکم مانا بے شک اُس نے ﷲ (ہی) کا حکم مانا، اور جس نے رُوگردانی کی تو ہم نے آپ کو اُن پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْهٰهُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰـئِثَ وَیَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰـلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْهِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَعَزَّرُوْهُ وَنَصَرُوْهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَهٗ اُوْلٰـئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الأعراف، 7: 157
’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو اُمی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر مِن جانبِ ﷲ لوگوں کو اَخبارِ غیب اور معاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اَوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور اِنجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو اُنہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لیے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ان پر پلید چیزوں کو حرام کرتے ہیں اور اُن سے اُن کے بارِ گراں اور طوقِ (قیود) جو اُن پر (نافرمانیوں کے باعث مسلط) تھے ساقط فرماتے (اور اُنہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔ پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسول) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اُس نورِ (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ ہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
قُلْ یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ ﷲ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَانِ الَّذِی لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ.
الأعراف، 7: 158
’’آپ فرما دیں: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اُس اللہ کا رسول (بن کر آیا) ہوں جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔‘‘
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ ﷲَ رَمٰی.
الانفال، 8: 17
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) ﷲ نے مارے تھے۔‘‘
لَقَدْ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌo
التوبہ، 9: 128
’’بے شک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ (اے لوگو!) وہ تمہارے لیے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لیے نہایت (ہی) شفیق، بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔‘‘
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَo
الحجر، 15: 72
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمر مبارک کی قسم! بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘
طٰهٰo مَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰیo
طٰهٰ، 20: 1، 2
’’طٰہٰ (اے محبوبِ مکرّم!) ہم نے آپ پر قرآن (اِس لیے) نازل نہیں فرمایا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔‘‘
وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰـلَمِیْنَo
الأنبیاء، 21: 107
’’اور (اے رسولِ محتشم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر۔‘‘
لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَکُمْ کَدُعَآءِ بَعْضِکُمْ بَعْضًاط قَدْ یَعْلَمُ ﷲ الَّذِیْنَ یَتَسَلَّلُوْنَ مِنْکُمْ لِوَاذًاج فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo
النور، 24: 63
’’(اے مسلمانو!) تم رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے بلانے کو آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی مثل قرار نہ دو (جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانا تمہارے باہمی بلاوے کی مثل نہیں تو خود رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی تمہاری مثل کیسے ہو سکتی ہے)، بے شک اللہ ایسے لوگوں کو (خوب) جانتا ہے جو تم میں سے ایک دوسرے کی آڑ میں (دربارِ رِسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس وہ لوگ ڈریں جو رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے اَمرِ (ادب) کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ (دنیا میں ہی) انہیں کوئی آفت آپہنچے گی یا (آخرت میں) ان پر دردناک عذاب آن پڑے گا۔‘‘
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰـتُهُمْ.
الأحزاب، 33: 6
’’یہ نبیٔ (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) مومنوں کے ساتھ ان کی جانوں سے زیادہ قریب اور حق دار ہیں اور آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اَزواجِ (مطہرات) ان کی مائیں ہیں۔‘‘
یٰٓـاَیُّہَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo وَّدَاعِیًا اِلَی ﷲ بِاِذْنِهٖ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًاo
الأحزاب، 33: 45، 46
’’اے نبیٔ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوش خبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اُس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘
اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًاo لِّتُؤمِنُوْا بِﷲ وَرَسُولِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُط وَتُسَبِّحُوْهُ بُکْرَةً وَّاَصِیْلاًo
الفتح، 48: 8، 9
’’بے شک ہم نے آپ کو (روزِ قیامت گواہی دینے کے لیے اَعمال و اَحوالِ اُمت کا) مشاہدہ فرمانے والا اور خوش خبری سنانے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ (اے لوگو!) تم ﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) ﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔‘‘
یٰسٓo وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِo اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَo
یٰسین، 36: 1-3
’’یاسین (حقیقی معنی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)۔ حکمت سے معمور قرآن کی قَسم۔ بے شک آپ ضرور رسولوں میں سے ہیں۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ ﷲط یَدُ ﷲ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْج فَمَنْ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنْکُثُ عَلٰی نَفْسِهِج وَمَنْ اَوْفٰی بِمَا عٰهَدَ عَلَیْهُ ﷲ فَسَیُؤْتِیْهِ اَجْرًا عَظِیْمًاo
الفتح، 48: 10
’’اے (حبیب !) بے شک جو لو گ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اللہ کا ہاتھ ہے، پھر جس شخص نے بیعت کو توڑا تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی جان پر ہوگا اور جس نے (اس) بات کو پورا کیا جس (کے پورا کرنے) پر اُس نے اللہ سے عہد کیا تھا تو وہ عن قریب اسے بہت بڑا اَجر عطا فرمائے گا۔‘‘
یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَھرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo
الحجرات، 49: 2
’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبیٔ مکرّم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ ﷲ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ ﷲ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰیط لَهُمْ مَّغْفِرَة وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌo
الحجرات، 49: 3
’’بے شک جو لوگ رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (اَدب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو ﷲ نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے، ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اَجرِ عظیم ہے۔‘‘
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْـلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَی الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهُ مِنْ اٰیٰـتِـنَاط اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo
بنی اسرائیل، 17: 1
’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اَقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘
وَالنَّجْمِ اِذَا هَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰیo وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰیo اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰیo عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰیo ذُوْمِرَّةٍط فَاسْتَوٰیo وَهُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰیo ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰیo فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰیo فَاَوْحٰٓی اِلٰی عَبْدِهٖ مَآ اَوْحٰیo مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰیo اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰی مَا یَرٰیo وَلَقَدْ رَاٰهُ نَزْلَةً اُخْرٰیo عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهٰیo عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَاْوٰیo اِذْ یَغْشَی السِّدْرَة مَا یَغْشٰیo مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰیo لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّهِ الْکُبْرٰیo
النجم، 53 : 1-18
’’قَسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جب وہ (چشمِ زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اُترے۔ تمہیں (اپنی) صحبت سے نوازنے والے (یعنی تمہیں اپنے فیضِ صحبت سے صحابی بنانے والے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نہ (کبھی) راہ بھولے اور نہ (کبھی) راہ سے بھٹکے۔ اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ اُن کا اِرشاد سَراسَر وحی ہوتی ہے جو اُنہیں کی جاتی ہے۔ ان کو بڑی قوتوں و الے (رب) نے (براهِ راست) علمِ (کامل) سے نوازا۔ جو حسنِ مُطلَق ہے، پھر اُس (جلوۂ حُسن) نے (اپنے) ظہور کا ارادہ فرمایا۔ اور وہ (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شبِ معراج عالمِ مکاں کے) سب سے اونچے کنارے پر تھے (یعنی عالَمِ خلق کی انتہاء پر تھے)۔ پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیا۔ پھر (جلوۂ حق اور حبیبِ مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (اِنتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)۔ پس (اُس خاص مقامِ قُرب و وصال پر) اُس (ﷲ) نے اپنے عبدِ (محبوب) کی طرف وحی فرمائی جو (بھی) وحی فرمائی۔ (اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا۔ کیا تم ان سے اِس پر جھگڑتے ہو کہ جو انہوں نے دیکھا۔ اور بے شک انہوں نے تو اُس (جلوۂ حق) کو دوسری مرتبہ (پھر) دیکھا (اور تم ایک بار دیکھنے پر ہی جھگڑ رہے ہو)۔ سِدرة المنتہیٰ کے قریب۔ اسی کے پاس جنت المأویٰ ہے۔ جب نورِ حق کی تجلیّات سِدرَة (المنتہیٰ) کو (بھی) ڈھانپ رہی تھیں جو کہ (اس پر) سایہ فگن تھیں۔ اور اُن کی آنکھ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی (جس کو تکنا تھا اسی پر جمی رہی)۔ بے شک انہوں نے (معراج کی شب) اپنے رب کی بڑی نشانیاں دیکھیں۔‘‘
وَاِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْمٍo
القلم، 68: 4
’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزیّن اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متصف ہیں)۔‘‘
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَاَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَo
البلد، 90: 1-3
’’میں اس شہر (مکہ) کی قسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔ (اے حبیبِ مکرم! آپ کے) والد (آدم یا اِبراہیم علیہما السلام) کی قسم اور (اُن کی) قسم جن کی ولادت ہوئی۔‘‘
وَالضُّحٰیo وَالَّیْلِ اِذَا سَجٰیo مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَمَا قَلٰیo وَلَــلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰیo اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیo وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَهَدٰیo وَوَجَدَکَ عَآئِـلًا فَاَغْنٰیo فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَـلَا تَقْهَرْo وَاَمَّا السَّآئِلَ فَـلَا تَنْهَرْo وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّکَ فَحَدِّثْo
الضحی، 93: 1-11
’’(اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے چاشت (کی طرح آپ کے چہرۂ اَنور) کی (جس کی تابانی نے تاریک روحوں کو روشن کردیا)۔ اور (اے حبیبِ مکرم!) قسم ہے سیاہ رات کی (طرح آپ کی زلفِ عنبریں کی) جب وہ (آپ کے رخِ زیبا یا شانوں پر)چھا جائے۔ آپ کے رب نے (جب سے آپ کو منتخب فرمایا ہے) آپ کو نہیں چھوڑا او رنہ ہی (جب سے آپ کو محبوب بنایا ہے) ناراض ہوا ہے۔ اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت ) ہے۔ اور آپ کا رب عن قریب آپ کو (اتنا کچھ) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔ (اے حبیب!) کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا پھر اس نے (آپ کو معزز و مکرم) ٹھکانا دیا۔ اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچا دیا۔ اور اس نے آپ کو (وصالِ حق کا) حاجت مند پایا تو اس نے (اپنی دید کی لذت سے نواز کر ہمیشہ کے لیے ہر طلب سے) بے نیاز کر دیا۔ سو آپ بھی کسی یتیم پر سختی نہ فرمائیں۔ اور (اپنے دَر کے) کسی منگتے کو نہ جھڑکیں۔ اور اپنے رب کی نعمتوں کا (خوب) تذکرہ کریں۔‘‘
اِنَّـآ اَعْطَیْنٰـکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُo
الکوثر، 108: 1-3
’’بے شک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہا کثرت بخشی ہے۔ پس آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیۂ تشکر ہے)۔ بے شک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشاں ہوگا۔‘‘
قرآن حکیم کی مذکورہ بالا آیات سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضیلت اور رِفعت و عظمت کا پہلو اُجاگر ہو رہا ہے جب کہ نعت کا موضوع بھی یہی قرار پاتاہے۔ اگر کوئی اِعتراض کرے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھنا اور سننا (معاذ ﷲ) ناجائز ہے تو یہ مندرجہ بالا آیات میں بیان کیے گئے مضمون کے اِنکار کے مترادف ہوگا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود محفلِ نعت منعقد فرماتے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو فرماتے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھے ہوئے قصائد پڑھ کر سنائیں۔ ان کے علاوہ بعض دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کا شرف حاصل ہوا۔ اِس ضمن میں وارِد چند روایات درج ذیل ہیں:
1۔ ام المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہیں:
کان رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم یضع لحسان منبراً فی المسجد یقوم علیه قائماً یفاخر عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم أو قالت: ینافح عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد نبوی میں منبر رکھواتے، وہ اس پر کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق (کفار و مشرکین کے مقابلہ میں) فخریہ شعر پڑھتے یا فرمایا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے۔‘‘
حدیث شریف میں وارِد لفظ ’’کَانَ‘‘ اس امر کی خبر دیتا ہے کہ یہ واقعہ بار بار ہوا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں منبر پر بلاتے اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نعت پڑھتے اور کفار کی ہجو میں لکھا ہوا کلام سناتے۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شوکت اور علو مرتبت کا پتہ چلتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی ﷲ عنہا آگے بیان کرتی ہیں کہ حضرت حسان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہوکر فرماتے:
إن ﷲ تعالی یؤیّد حسان بروح القدس ما یفاخر أو ینافح عن رسول ﷲ.
’’بے شک اللہ تعالیٰ روح القدس کے ذریعے حسان کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ ﷲ کے رسول کے متعلق فخریہ اَشعار بیان کرتا ہے یا (اَشعار کی صورت میں) ان کا دفاع کرتا ہے۔‘‘
2۔ اُم المؤ منین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا روایت کرتی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا:
إن روح القدس لا یزال یؤیّدک ما نافحت عن ﷲ ورسوله... هجاهم حسان فشفی واشتفی.
’’بے شک روح القدس (جبرئیل امین) تمہاری مدد میں رہتے ہیں جب تک تم اللہ اور اُس کے رسول کا دفاع کرتے ہو۔۔۔ حسان نے کافروں کی ہجو کی، (مسلمانوں کو) تشفی دی اور خود بھی تشفی پائی۔‘‘
اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ اَشعار پڑھے:
هجوت محمداً فأجبت عنه
وعند ﷲ فی ذاک الجزاء
هجوت محمداً برًّا تقیا
رسول ﷲ شِیْمَتُه الوفاء
فإن أبي ووالده وعرضي
لِعِرْض محمد منکم وِقَاءُ
(تو نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو میں اس کا جواب دیتا ہوں اور اِس (جواب) پر اللہ کے پاس جزا ہے۔ تو نے اس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے جو کہ نیک، پرہیزگار، اللہ کے رسول ہیں، وفا جن کی خصلت ہے۔ پس بے شک میرے والد، اور ان کے والد (یعنی میرے دادا) اور میری عزت و آبرو تمہارے مقابلے میں عزت و ناموسِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کا ذریعہ ہے۔)
3۔ واقعۂ اِفک میں حضرت حسان رضی اللہ عنہ بھی منافقین کے پراپیگنڈے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہو گئے لیکن حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنھا نے ثناء خوانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سمجھ کر انہیں معاف کر دیا اور فرمایا: حسان تو وہ ہے کہ جس نے بارگاهِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میںیہ نعت پڑھی ہے:
فإن أبي ووالدہ وعرضي
لِعِرْض محمدٍ منکم وِقَاءُ
’’پس بے شک میرے والد، اوران کے والد (یعنی میرے دادا) اور میری عزت وآبرو (اے کفار !) تمہارے مقابلے میں عزت و ناموسِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دفاع کا ذریعہ ہیں۔‘‘
4۔ حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
یا حسان! أجب عن رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم، اللّهم أیّده بروح القدس.
’’اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے دفاع کرتے ہوئے (کفار کو) جواب دو، اے اللہ! اِس کی روح الامین کے ذریعے مدد فرما۔‘‘
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
5۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
اهجهم (أو قال:) هاجهم و جبریل معک.
’’(اے حسان! جو لوگ میرے گستاخ اور بے ادب ہیں تم نعت میں) اُن کی ہجو اور گستاخانہ کلمات کا جواب دو۔ (اِس کام میں) جبرائیل بھی تمہارے مددگار ہیں۔‘‘
ﷲ ہی بہتر جانتا ہے کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کتنی دیر اپنا حمدیہ اور نعتیہ کلام بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سناتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو راحت پہنچاتے رہے۔
حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے بارگاہِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا:
یا رسول ﷲ! إنی قد مدحت ﷲ بمدحة ومدحتک بأخری.
’’یا رسول ﷲ! بے شک میں نے ایک قصیدہ میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی ہے اور دوسرے قصیدہ میں آپ کی نعت بیان کی ہے۔‘‘
اِس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هات وابدأ بمدحة ﷲ.
’’آؤ اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے اِبتداء کرو۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اقدس سے یہ مفہوم اخذ ہورہاہے کہآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسود بن سریع صکو حمد اور نعت میں سے بتقاضائے حفظ مراتب حمدِ الٰہی سے ابتداء کا حکم دیا اور اس کے بعد نعت کے اشعار بھی سنے ہوں گے۔
1۔ حضرت ہیثم بن ابی سنان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وعظ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ تمہارا بھائی عبد اللہ بن رواحہ بالکل لغویات نہیں کہتا۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے درج ذیل اَشعار بیان کیے:
وفینا رسول ﷲ یتلو کتابه
إذا انشقّ معروف من الفجر ساطع
أرانا الهدی بعد العمی فقلوبنا
بہ موقنات أن ما قال واقع
یبیت یجافی جنبه عن فراشه
إذا استثقلت بالمشرکین المضاجع
اور ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں جو کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں، جب کہ فجر طلوع ہوتی ہے۔ انہوں نے ہمیں ہدایت کا راستہ دکھایا اس کے بعد کہ ہم جہالت کی تاریکی میں تھے، چنانچہ ہمارے دل یقین کرتے ہیں کہ جو کچھ آپ نے کہا وہ ہوکر رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حال میں رات گزارتے ہیں کہ بستر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلو جدا ہوتا ہے، جب کہ مشرکین کے بستر ان کی وجہ سے بوجھل ہوتے ہیں یعنی ان کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرۂ قضاء کے موقع پر مکہ مکرمہ داخل ہوئے تو عبد ﷲ بن رواحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے آگے چلتے ہوئے بلند آواز سے کہہ رہے تھے:
خلُّوا بنی الکفار عن سبیله
الیوم نضربکم علی تنزیله
ضربًا یزیل الهام عن مقیله
ویذهل الخلیل عن خلیله
(اے اولادِ کفار! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ چھوڑ دو، آج ہم تمہیں حکمِ قرآن کی مار ماریں گے۔ ایسی مار جو کھوپڑی کو اپنی جگہ سے دور کردے گی، اور دوست کو دوست سے جدا کردے گی۔‘‘
اِس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا:
یا ابن رواحة! بین یدی رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم وفی حرم ﷲ تقول الشّعر؟
’’اے ابن رواحہ! تم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اور ﷲ کے حرم میں شعر کہہ رہے ہو؟‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال سنا تو اُن سے فرمایا:
خل عنه یا عمر! فلهی أسرع فیهم من نضح النبل.
’’اے عمر! اِسے کہنے دو، یہ اَشعار ان کفار (کے دلوں) پر تیر برسانے سے بھی زیادہ تیز ہیں۔‘‘
حضرت سلمہ بن اَکوع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک رات ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف جا رہے تھے۔ قافلہ میں سے کسی شخص نے میرے بھائی عامر بن اَکوع سے کہا کہ آج آپ ہمیں اپنا کوئی کلام سنائیں۔ وہ اونٹ سے اُترے اور یہ شعر پڑھنے لگے:
اللّهم! لو لا أنت ما اهتدینا
ولا تصدّقنا ولا صلّینا
فاغفر فداء لک ما اتّقینا
وثبّت الأقدام إن لاقینا
’’اے ہمارے پروردگار! اگر تو (اپنا محبوب ہمارے درمیان بھیج کر) ہمارے شاملِ حال نہ ہوتا تو ہم ہرگز ہدایت پاسکتے نہ ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ نماز قائم کرسکتے۔ میں تجھ پر فدا! تو ہماری خطائیں معاف فرما جب تک ہم تقوی اِختیار کیے ہوئے ہیں اور جب دشمن سے ہمارا سامنا ہو تو ہمیں ثابت قدمی عطا فرما۔‘‘
یہ سن کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من هذا السائق؟
’’یہ اونٹنی چلانے والا (اور میری نعت کہنے والا) کون ہے؟‘‘
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول ﷲ! یہ عامر بن اَکوع ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہوکر دعا دیتے ہوئے فرمایا:
یرحمه ﷲ.
’’اللہ تعالیٰ اُس پر رحمت نازل فرمائے۔‘‘
یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نعت سن کر اپنے ثناء خواں کے حق میں دعا کرتے اور انہیں اپنی توجہات اور فیوضات سے مالا مال کرتے۔
حضرت خریم بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غزوۂ تبوک سے واپسی پر حاضر ہو کر اسلام قبول کیا تو میں نے عباس بن عبد المطلب کو یہ کہتے ہوئے سنا: یا رسول اللہ! میں آپ کی مدح کرنا چاہتا ہوں۔ اُن کے اِظہارِ خواہش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قل، لا یفضض ﷲ فاک.
’’کہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی آپ کے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
پھر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ اَقدس میں درج ذیل نعتیہ اَشعار کہے:
من قبلها طبت فی الظلال وفی
مستودع حیث یخصف الورق
جب حضرت آدم علیہ السلام (اور حضرت حوا علیہا السلام) اپنے اپنے جسموں کو (جنت میں) پتوں سے ڈھانپ رہے تھے۔ اُس وقت سے بھی بہت پہلے آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم جنت کے سایوں اور اپنی والدہ ماجدہ کے رحم میں بھی پاکیزہ تھے۔
ثم هبطت البلاد لا بشر
أنت ولا مضغة ولا علق
اُن کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کے بعد) آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم بھی اُن کے ہمراہ زمین پر تشریف لے آئے جب کہ آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم نہ تو قبل ازیں بشری صورت میں تھے اور نہ ہی دانتوں سے چبائے ہوئے لوتھڑے اور علق کی حالت میں۔
بل نطفة ترکب السفین وقد
ألجم نسرا وأهله الغرق
بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مبارک پشت میں ایک تولیدی قطرہ کی حالت میں کشتی میں سوار تھے جب (دریا کے) غرق نے نسر (بت) اور اس کی پرستش کرنے والوں کو لگام دی تھی (یعنی طوفان کے باعث منکرینِ نوح غرق ہوگئے تھے)۔
تنقل من صالب إلی رحم
إذا مضی عالم بدا طبق
آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم مقدس اَصلاب سے پاکیزہ اَرحام کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ جب ایک دور گزرتا تو دوسرا شروع ہوجاتا۔
حتی احتوی بیتک المهیمن من
خندف علیاء تحتھا النطق
یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم کا مبارک شرف جو آپ کے فضل پر گواہ ہے قبیلہ خندف (قریش) کے نسب کے اَعلیٰ مقام پر فائز ہوا (جب کہ دوسرے تمام لوگ آپ کے اِس مقام سے نیچے ہیں)۔
وأنت لما ولدت أشرقت الأ
رض وضاء ت بنورک الأفق
اور جب آپ (سیدہ آمنہ رضی ﷲ عنہا کی گود میں) بزم آرائے جہاں ہوئے تو آپ کی تشریف آوری کے باعث زمین پُر نور ہوگئی اور فضائیں جگمگا اٹھیں۔
فنحن فی ذلک الضیاء وفی
النور وسبل الرشاد نخترق
ہم آپ صلی ﷲ علیک وآلک وسلم کی ضیاء پاشی اور نورانیت کے صدقے ہی تو راہِ ہدایت پر گام زَن ہیں۔
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں: کعب بن زہیر بن ابو سلمیٰ بھاگ کر مدینہ منورہ آئے تو قبیلہ جہینہ کے ایک شناسا شخص کے پاس رات ٹھہرے، نمازِ فجر کے وقت وہ انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئے تو انہوں نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ کسی نے انہیں بتایا کہ وہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ پس تو ان کے پاس جا کر اَمان طلب کر۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیا۔ پھر عرض کیا: یا رسول ﷲ! بے شک کعب بن زہیر تائب اور مسلمان ہو کر آپ سے امان طلب کرنے آیا ہے، اگر میں اسے آپ کے حاضر خدمت کروں تو کیا آپ اس کی معافی قبول فرمائیں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو اس نے عرض کیا کہ میں ہی کعب بن زہیر ہوں۔ یہ سنتے ہی ایک انصاری شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے حکم دیجیے کہ میں اس دشمنِ خدا کی گردن اتار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، بے شک وہ اپنی (گزشتہ) حالت سے تائب ہو کر اور چھٹکارا پا کر آیا ہے۔ پھر انہوں نے قصیدہ بانت سعاد پڑھا:
بانت سعاد فقلبي الیوم متبول
متیم أثرها لم یفد مکبول
معشوقہ کی جدائی میں میرا دل بیمار ہے، ذلیل و غلام بنا ہوا اس کے ساتھ ساتھ ہے جو فدیہ دے کر چھوٹ نہ سکا۔
اس قصیدہ میں انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا:
أنبئت أن رسول ﷲ أوعدنی
والعفو عند رسول ﷲ مأمول
مجھے خبر دی گئی کہ بے شک رسول اللہ نے میرے لیے وعید فرمائی ہے، حالاں کہ رسول اللہ سے عفو و درگزر کی امید کی جاتی ہے۔
پھر انہوں نے یہ شعر بھی پڑھا:
إن الرسول لنور یستضاء به
وصارم من سیوف ﷲ مسلول
بے شک یہ رسول نور ہیں جن سے روشنی اَخذ کی جاتی ہے، اور اللہ کی شمشیروں میں سے برہنہ شمشیر ہیں۔
ابن قانع بغدادی (م 351ھ) روایت کرتے ہیں کہ کعب نے یہ شعر پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر عنایت فرمائی:
فکساه النبي صلی الله علیه وآله وسلم بردة له، فاشتراها معاویة من ولده بمال، فهي البردة التي تلبسها الخلفاء فی الأعیاد.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چادر مبارک عطا فرمائی جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی اولاد سے مال کے بدلہ خرید لیا، یہی وہ چادر تھی جسے خلفاء عیدوں کے موقع پر پہنتے تھے۔‘‘
اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ نعت سن کر نعت خواں کو نذرانہ کے طور پر کچھ دینا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر دو سو (200) اَشعار پر مشتمل طویل قصیدہ پڑھا۔ جب انہوں نے درج ذیل اَشعار پڑھے:
ولا خیر فی حلم إذا لم یکن له
بوادر تحمي صفوه أن یکدرا
ولا خیر فی جهل إذا لم یکن له
حلیم إذا ما أورد الأمر أصدرا
اس حلم میں کوئی خیر نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ غصہ کی گرمی نہ ہو جو اس کے صاف ہونے کو گدلا ہونے سے بچائے، اور اس جہالت میں کوئی خیر نہیں جب تک کہ اس کے ساتھ کوئی حلم والا نہ ہو جو کوئی معاملہ (بد) پیش آنے پر (اس سے) روکے۔
تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے دعا دیتے ہوئے فرمایا:
لا یفضض ﷲ فاک.
’’اللہ تعالیٰ تمہارے منہ کی مہر نہ توڑے (یعنی تمہارے دانت سلامت رہیں)۔‘‘
راوی بیان کرتے ہیں:
وکان من أحسن الناس ثغراً، وکان إذا سقطت له سن نبتت.
’’ان کے دانت سب لوگوں سے اچھے تھے اور جب اُن کا کوئی دانت گرتا تو اس کی جگہ دوسرا نکل آتا۔‘‘
اس حدیث شریف میں حضرت نابغہ جعدی رضی اللہ عنہ نے کنایہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت بیان کی ہے۔ پہلے مصرعہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ’’حلم اور جلالت‘‘ کو ملانے کا مطلب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا حلم ہیں۔ اور وہ ڈھال بن کر پیکرِ حلم و وقار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفادار رہیں گے، جب کہ دوسرے مصرع میں ’’جہالت کو حلم والے کے ساتھ‘‘ ملا کر اپنی تواضع اور اِنکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ملایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی اسے ہر قسم کی آفات اور مصائب و آلام سے بچا سکتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے کنایتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی کی ہے جس سے خوش ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دعا دی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو اِنصارِ مدینہ کی بچیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے موقع پر دف بجا کرایک قصیدہ گایا جس کے درج ذیل اَشعار شہرتِ دوام پا گئے ہیں:
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْودَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَا دَعَا ِﷲِ دَاعٍ
أَیُّہَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْأَمْرِ الْمُطَاعِ
ہم پروداع کی چوٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا، جب تک لوگ اللہ کو پکارتے رہیں گے ہم پر اس کا شکر واجب ہے۔ اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی! آپ ایسے اَمر کے ساتھ تشریف لائے ہیں جس کی اِطاعت کی جائے گی۔
صاحبِ ’’قصیدہ بردہ‘‘ امام شرف الدین بوصیری (608-696ھ) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ اپنے زمانے کے متبحر عالمِ دین، شاعر اور شہرۂ آفاق ادیب تھے۔ اللہ رب العزت نے آپ کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کی بناء پر اُمراء و سلاطینِ وقت آپ کی بہت قدر کرتے تھے۔ ایک روز جارہے تھے کہ سرِ راہ ایک نیک بندۂ خدا سے آپ کی ملاقات ہوگئی، انہوں نے آپ سے پوچھا: بوصیری! کیا تمہیں کبھی خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی ہے؟ آپ نے اس کا جواب نفی میں دیا لیکن اس بات نے ان کی کایا پلٹ دی اور دل میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق و محبت کا جذبہ اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ ہر وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خیال میں مستغرق رہنے لگے۔ اِسی دوران میں آپ نے چند نعتیہ اَشعار بھی کہے۔
پھر اچانک ان پر فالج کا حملہ ہوا جس سے ان کا آدھا جسم بیکار ہوگیا، وہ عرصہ دراز تک اس عارضہ میں مبتلا رہے اور کوئی علاج کارگر نہ ہوا۔ اس مصیبت و پریشانی کے عالم میں امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کے دل میں خیال گزرا کہ اس سے پہلے تو دنیاوی حاکموں اور بادشاہوں کی قصیدہ گوئی کرتا رہا ہوں کیوں نہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں ایک قصیدہ لکھ کر اپنی اس مرضِ لادوا کے لیے شفاء طلب کروں؟ چنانچہ اس بیماری کی حالت میں قصیدہ لکھا۔ رات کو سوئے تو مقدر بیدار ہوگیا اور خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے شرف یاب ہوئے۔ عالم خواب میں پورا قصیدہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پڑھ کر سنایا۔ امام بوصیری کے اس کلام سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس درجہ خوش ہوئے کہ اپنی چادر مبارک ان پر ڈالی اور اپنا دستِ شفاء پھیرا جس سے دیرینہ بیماری کے اثرات جاتے رہے اور وہ فوراً تندرست ہوگئے۔ اگلی صبح جب آپ اپنے گھر سے نکلے تو سب سے پہلے جس شخص سے آپ کی ملاقات ہوئی وہ اس زمانے کے مشہور بزرگ حضرت شیخ ابو الرجاء تھے۔ انہوں نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کو روکا اور درخواست کی کہ وہ قصیدہ جو انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح میں لکھا ہے اُنہیں بھی سنائیں۔ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا کہ کون سا قصیدہ؟ انہوں نے کہا: وہی قصیدہ جس کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے:
أمن تذکر جیران بذی سلم
مزجت دمعا جری من مقلة بدم
کیا تو نے ذی سلم کے پڑوسیوں کو یاد کرنے کی وجہ سے گوشۂ چشم سے بہنے والے آنسو کو خون سے ملا دیا ہے؟
آپ کو تعجب ہوا اورپوچھا کہ اس کا تذکرہ تو میں نے ابھی تک کسی سے نہیں کیا، پھر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا کی قسم جب آپ یہ قصیدہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوشی کا اظہار فرما رہے تھے تو میں بھی اسی مجلس میں ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔ اس کے بعد یہ واقعہ مشہور ہوگیا اورا س قصیدہ کو وہ شہرتِ دوام ملی کہ آج تک اس کا تذکرہ زبان زدِ خاص و عام ہے اور اس سے حصولِ برکات کا سلسلہ جاری ہے۔
قصیدہ بردہ کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ سے خوش ہو کر اپنی چادر مبارک ان کے بیمار جسم پر ڈالی اور اپنا دست شفاء پھیرا جس کی برکت سے وہ فوراً شفاء یاب ہوگئے۔ لہٰذا اس چادرِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے اس قصیدہ کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ مشہور ہوا۔
خربوتی، عصیدة الشهدة شرح قصیدة البردة: 3-5
بہت سے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت گوئی اور نعت خوانی کا شرف حاصل ہوا۔ اِمام التابعین محمد ابن سیرین (م 110ھ) عہدِ نبوی کے نعت گو شعراء میں سے چند کا ذکر یوں کرتے ہیں:
کان شعراء النبی صلی الله علیه وآله وسلم : حسان بن ثابت، وکعب بن مالک، وعبد ﷲ بن رواحة، فکان کعب بن مالک یخوّفھم الحرب، وکان حسان یقبل علی الأنساب، وکان عبد ﷲ بن رواحة یعیّرهم بالکفر.
ابن أثیر، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، 4: 461
’’حضرت حسان بن ثابت، کعب بن مالک اور عبد ﷲ بن رواحہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا شمار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شعراء میں ہوتا تھا۔ پس حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ دشمنانِ رسول کو جنگ سے ڈراتے، اور حضرت حسان رضی اللہ عنہ اُن کے نسب پر طعن زنی کرتے، اور حضرت عبد ﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انہیں کفر کا (طعنہ دے کر) شرم دلاتے تھے۔‘‘
علامہ ابن جوزی (510-597ھ) نے بھی شاعر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے چند کا ذِکر کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں:
وقد أنشده جماعة، منھم العباس وعبد ﷲ بن رواحة، وحسّان، وضمار، وأسد بن زنیم، وعائشة، فی خَلْق کثیر قد ذکرتهم فی کتاب الأشعار.
ابن جوزی، الوفا بأحوال المصطفی صلی الله علیه وآله وسلم: 463
’’بہت سے لوگوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (نعتیہ) اَشعار سنائے، جن میں حضرت عباس، حضرت عبد ﷲ بن رواحہ، حضرت حسان، حضرت ضمار، حضرت اَسد بن زنیم، سیدہ عائشہ صدیقہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بہت سے دیگر صحابہ شامل ہیں جو شاعری کے دیوان میں مذکور ہیں۔‘‘
ذیل میں ثناء خوانِ مصطفی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اَسمائے گرامی درج کیے جاتے ہیں:
1۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ (م 32ھ)
2۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ (م 3ھ)
3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب (م 10 نبوی)
4۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (م 13ھ)
أبو زید قرشی، جمهرة أشعار العرب: 10
5۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ (م 23ھ)
أبو زید قرشی، جمهرة أشعار العرب: 10
6۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ (م 35ھ)
أبو زید قرشی، جمهرة أشعار العرب: 10
7۔ حضرت علی کرم ﷲ وجہہ (م 40ھ)
أبو زید قرشی، جمهرة أشعار العرب: 10
8۔ اُم المؤمنین سیدۃ عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا (م 58ھ)
ابن جوزی، الوفا بأحوال المصطفی صلی الله علیه وآله وسلم: 463
9۔ سیدہ کائنات فاطمۃ الزہراء سلام ﷲ علیہا (م 11ھ)
10۔ سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی ﷲ عنھما (م 20ھ)
حافظ شمس الدین بن ناصر دمشقی، مورد الصادی فی مولد الهادی
11۔ شیما بنت حلیمہ سعدیہ رضی ﷲ عنھا
عسقلانی، الإصابة فی تمییز الصحابة، 7: 165، 166، رقم: 11378
12۔ حضرت ابو سفیان بن الحارث (ابن عم النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )
13۔ حضرت عبد ﷲ بن رَوَاحہ رضی اللہ عنہ (م 8ھ)
14۔ حضرت کعب بن مالک الانصاری رضی اللہ عنہ (م 51ھ)
ابن أبی عاصم، الآحاد والمثانی: 663، رقم: 1171
15۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ (م 40ھ)
16۔ حضرت زہیر بن صُرد الجثمی رضی اللہ عنہ
17۔ حضرت عباس بن مرداس السلمی رضی اللہ عنہ
18۔ حضرت کعب بن زہیر رضی اللہ عنہ (صاحبِ قصیدہ بانت سعاد)
19۔ حضرت عبد ﷲ بن الزَبَعْریٰ رضی اللہ عنہ
20۔ حضرت ابو عزہ الجُمَحی رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السیرة النبویة: 555
21۔ حضرت قتیلہ بنت الحارث القرشیہ رضی اللہ عنہا
ابن هشام، السیرة النبویة: 635، 636
22۔ حضرت مَالک بن نمط الہمدانی رضی اللہ عنہ
23۔ حضرت انس بن زنیم رضی اللہ عنہ (اناس بن زنیم)
24۔ حضرت اَصیَد بن سلمه السلمیص رضی اللہ عنہ
25۔ رئیسِ ہوازن حضرت مالک بن عوف النصری رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السیرة النبویة: 1002، 1003
26۔ حضرت قَیس بن بحر الاشجعی رضی اللہ عنہ
27۔ حضرت عمرو بن سُبَیع الرہاوی رضی اللہ عنہ
ابن أثیر، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، 4: 214، 215، رقم: 3932
28۔ حضرت نابغه الجعدی رضی اللہ عنہ (م 70ہ)
29۔ حضرت مازن بن الغضوبہ الطائی رضی اللہ عنہ
30۔ حضرت الاعشی المازِنی رضی اللہ عنہ
31۔ حضرت فَضَالہ اللَّیثی رضی اللہ عنہ
32۔ حضرت عمرو بن سالم الخزاعی رضی اللہ عنہ
33۔ حضرت اَسید بن ابی اُناس الکنانی رضی اللہ عنہ
ابن أثیر، أسد الغابة فی معرفة الصحابة، 1: 236، رقم: 161
34۔ حضرت عمرو بن مُرّه الجهنی رضی اللہ عنہ
ابن کثیر، البدایة والنهایة، 2: 288، 289، 327
35۔ حضرت قیس بن بحر الاشجعی رضی اللہ عنہ
ابن هشام، السیرة النبویة: 761
36۔ حضرت عبد ﷲ بن حارث بن قیس رضی اللہ عنہ
37۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ
حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء، 1: 104
38۔ حضرت ابو احمد بن جحش رضی اللہ عنہ
39۔ حضرت سراقه بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ
40۔ حضرت اَسود بن سریع رضی اللہ عنہ
41۔ حضرت عامر بن اَکوع رضی اللہ عنہ
42۔ حضرت اُم معبد عاتکہ بن خالد الخزاعی رضی ﷲ عنہا
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1: 230، 231
43۔ دخترانِ مدینۃ
44۔ حبشی وفد
45۔ حضرت عمرو جنّی (جنّ صحابی)
یہ تمام ہستیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح سرائی نہ صرف شعر گوئی کی صورت میں کرتی تھیں بلکہ مجلس کی صورت میں نعت خوانی بھی کرتی تھیں۔ آج دنیا میں جہاں بھی محافلِ نعت منعقد ہوتی ہیں وہاں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دیگر نعت خواں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کلام بھی بہ طور تبرک پڑھا جاتا ہے۔
خلاصۂ بحث یہ ہے کہ ممدوحِ خالقِ کائنات رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدح خوانی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعت پڑھنا، سننا اور محافلِ نعت منعقد کرنا قرآن و سنت کے عین مطابق جائز اور مطلوب اَمر ہے۔ شعراء صحابہ کی کثیر تعداد سے واضح ہے کہ نعت گوئی اور نعت خوانی ان کے معمولات میں شامل تھی۔ اسی طرح ہم جب محفلِ میلاد منعقد کرتے ہیں تو اِنہی جلیل القدر صحابہ و اَکابرینِ اُمت کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عمل قرونِ اُولیٰ سے لے کر آج تک جاری ہے جو ایک سچے اور کامل مومن کی نشانی ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved