Mamulat-e-Milad

باب 2 :بیانِ سیرت و فضائلِ رسول ﷺ

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں منعقد ہونے والے اِجتماعات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و فضائل کا ذکر ہوتا ہے۔ محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تذکارِ رسالت درج ذیل پانچ جہتوں میں ہوتا ہے:

1۔ اَحکامِ شریعت کا بیان

محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اِسلامی اَحکام مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور دیگر اَحکامِ شریعت کے بیان کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُن ارشادات وتعلیمات کا ذکر کیا جاتا ہے جو اِسلامی شریعت کی بنیاد ہیں اور جن پر اَرکانِ اِیمان و اِسلام کی عمارت قائم ہے۔ فقہی اور فروعی مسائل کو موضوع بنانے کے بجائے اِس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ فرض عبادات کی ادائیگی درجۂ قبولیت تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟ اﷲ تعالیٰ کی رضا کا حصول کیسے ممکن ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِتباع اور محبت کس طرح ہم پر فوز و فلاح کے دروازے وَا کرتی ہے اور ہم ایمان کے تقاضوں کو کس طرح بطریقِ اَحسن پورا کر سکتے ہیں؟ اِس طرح کی دیگر اَبحاث محفلِ میلاد میں بیان کی جاتی ہیں تاکہ اُسوئہ کامل کی روشنی میں عبادات کی روح کو اپنے اندر سمو کر اپنے اعمال اور شخصیت کی عمارت کو اَحکامِ شریعت کی بنیادوں پر استوار کرنے کے عہد کی تجدید کی جا سکے۔

2۔ تذکارِ خصائلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اپنایا جانے والا دوسرا طریقہ ’’تذکارِ خصائلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت، سیرت اور ُخلقِ عظیم کا پرتَو جھلکتا دکھائی رہتا ہے۔ اس تذکار کا مقصد یہ ہوتاہے کہ ہم اس کے ذریعے اپنی زندگی کو اِنفرادی اور اِجتماعی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور متعین کردہ اَقدار سے سنواریں اور اپنے شب و روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق بسر کریں۔ یہ دوسرا موضوع ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیغمبرانہ زندگی کے حوالے سے علمائے کرام محافلِ میلاد میں زیربحث لاتے ہیں۔ اگرچہ محافلِ میلاد کا اَوّلین مقصد آمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں جشنِ مسرت منانا ہے لیکن ان تقریباتِ سعیدہ میں قرآنی تعلیمات اور سیرتِ مبارکہ کے تعلیمی، تربیتی، اَخلاقی اور روحانی پہلوئوں کا ذکر بھی علمائے کرام اپنی تقاریر و خطابات میں خصوصی طور پر کرتے ہیں۔

3۔ تذکارِ شمائلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

تذکارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل بھی بیان کیے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن وجمال اور خوبصورتی و رعنائی کا حسین تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کا ذکرِ جمیل قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہ کی ر وشنی میں نہایت ہی خوبصورت اور دلکش اندازمیں کیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وَالضُّحیٰ چہرے، وَاللَّیْل زلفوں، مَا زَاغَ الْبَصَر کا دل آویز بیان سماعتوں میں رَس گھولنے لگتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سر تا قدم حسنِ مجسم تھے اور یہ فیصلہ کرنا محال تھا کہ صوری حسن جسدِ اَطہر کے کس کس مقام پر کمالِ حسن کی کن کن بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ صحابہ کرام ث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سراپائے حسن کو دیکھ کر مست و بے خود ہو کر رہ جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسنِ سراپا کے بیان میں اپنے عجز اور کم مائیگی کا اِعتراف کرتے۔ حق تو یہ ہے کہ ذاتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ سرمدی اِظہار و بیان سے ماوراء تھا اور اہلِ عرب زبان و بیان کی فصاحت و بلاغت کے اپنے تمام تر دعووں کے باوجود بھی اُسے کما حقہٗ بیان کرنے سے عاجز تھے۔

ماہِ میلاد میں نورِ مجسم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسی حسنِ بے مثال کا تذکرہ ہوتا ہے، کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک زلف و رخسار کا ذکر کرتا ہے تو کوئی چشمانِ مقدسہ کی تاثیرِ کرم کی مدح سناتا ہے، کوئی گوش مبارک کی دلکشی اور ان کی بے مثل سماعت پر سلام بھیجتا ہے تو کوئی گل قدس کی پتیوں جیسے نازک ہونٹوں پر درود پڑھتا ہے۔ کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس سے صادر ہونے والے معجزات کا ذکر چھیڑتا ہے تو کوئی حسن و جمال سے معمور دہنِ اقدس اور اس سے نکلے ہوئے لعاب مبارک کی برکات کے نغمات الاپتا ہے۔ اس تذکار شمائل سے وجود میں کیفیاتِ وجد کا نزول ہونے لگتا ہے اور بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضوری کی خیرات ملنے لگتی ہے۔ یہی وہ کیفیات ہیں جو ان محافل کا حاصل ہیں اور جن سے قلب و روح میں تجلیّاتِ ایمان کا ورود ہونے لگتا ہے۔ یہ وہ توشۂ آخرت ہے جو سفرِ حشر میں مومن کے بہت کام آئے گا۔

4۔ تذکارِ خصائص و فضائلِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

محفلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص و فضائل اور اَوصاف و کمالات ہی ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیگر انبیاء کرام علیھم السلام اور تمام انسانوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جامع کمالاتِ انبیاء ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس میں تمام اَنبیاء و رُسل کے محامد و محاسن اور معجزات و کمالات بہ درجۂ اَتم جمع فرما دیے گئے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اہلِ جہان پر شرف و فضیلت عطا فرمائی اور تمام اَوّلین و آخرین کا سید اور سردار بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے قربِ خاص سے نوازا اور شبِ معراج عرش پر بلا کر اپنا دیدار عطا فرمایا۔ اُس نے قرآن حکیم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنی اطاعت، (1) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا کو اپنی رضا، (2) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کو اپنی بیعت، (3) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو اپنا فعل، (4) نطقِ رسول کو اپنی وحی، (5) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی، (6) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کو اپنی مخالفت (7) اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کو اپنی عطا قرار دیا۔(8) اِس پر مستزاد حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے دُنیوی، برزخی اور اُخروی خصائص و فضائل سے نوازا جو بے مثال ہونے کے علاوہ حدِ شمار سے بھی باہر ہیں۔

  1. النساء، 4: 80
  2. التوبة، 9: 62
  3. الفتح، 48: 10
  4. الأنفال، 8: 17
  5. النجم، 53: 3، 4
  6. النساء، 4: 14
  7. التوبة، 9: 63
  8. التوبة، 9: 59، 74

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک تقریبات میں حسنِ صورت و سیرتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکرے تو ہوتے ہی ہیں، اِس کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کثیر الجہت شانوں کا بیان اہلِ ایمان کے دلوں میں عشق و محبت کی وہ شمعیں فروزاں کر دیتا ہے جن کی ضوء شبستان زندگی کو منور کر دیتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائص پر مشتمل چند احادیث ذیل میں درج کی جاتی ہیں:

1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أنا أوّلهم خروجاً، وأنا قائدهم إذا وفدوا وأنا خطیبهم إذا أنصتوا، وأنا مشفعهم إذا حبسوا، وأنا مبشّرهم إذا أیسوا۔ الکرامة والمفاتیح یومئذ بیدی، وأنا أکرم ولد آدم علی ربی، یطوف عليّ ألف خادم کأنهم بیض مکنون أو لؤلؤ منثور.

’’(روزِ قیامت) سب سے پہلے میں (اپنی قبرِ اَنور سے) نکلوں گا اور جب لوگ وفد بن کر جائیں گے تو میں ہی ان کا قائد ہوں گا۔ اور جب وہ خاموش ہوں گے تو میں ہی ان کا خطیب ہوں گا۔ میں ہی ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا جب وہ روک دیے جائیں گے، اور میںہی انہیں خوش خبری دینے والا ہوں جب وہ مایوس ہو جائیں گے۔ بزرگی اور جنت کی چابیاں اُس روز میرے ہاتھ میں ہوں گی۔ میں اپنے رب کے ہاں اَولادِ آدم میں سب سے زیادہ مکرم ہوں میرے اِرد گرد اُس روز ہزار خادم پھریں گے گویا وہ (گرد و غبار سے محفوظ) سفید (خوبصورت) انڈے (یعنی پوشیدہ حسن) ہیں یا بکھرے ہوئے موتی ہیں۔‘‘

  1. دارمی، السنن 1: 39، رقم: 48
  2. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة بنی إسرائیل، 5: 308، رقم: 3148
  3. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبی صلی الله علیه وآله وسلم، 5: 585، رقم: 3610
  4. أبو یعلی، المعجم: 147، رقم: 160
  5. قزوینی، التدوین فی أخبار قزوین، 1: 234، 235
  6. دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1: 47، رقم: 117
  7. بغوی، شرح السنة، 13: 203، رقم: 3624
  8. ابن أبی حاتم رازی، تفسیر القرآن العظیم، 10: 3212، رقم: 18189
  9. بیهقی، دلائل النبوة ومعرفة أحوال صاحب الشریعة، 5: 484
  10. أبو نعیم، دلائل النبوة، 1: 64، 65، رقم: 24
  11. بغوی، معالم التنزیل، 3: 131
  12. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 8: 376

اِس حدیثِ مبارکہ میں روزِ قیامت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہونے والے مراتب و درجات کا ذکر ہے اور یہ بھی موضوعاتِ میلاد میں سے ہیں۔

2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أنا سیّد ولد آدم یوم القیامة ولا فخر، وبیدي لواء الحمد ولا فخر، وما من نبيّ یومئذ آدم فمن سواہ إلا تحت لوائي، وأنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض ولا فخر.

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبی صلی الله علیه وآله وسلم، 5: 587، رقم: 3615
  2. مسلم، الصحیح، کتاب الفضائل، باب تفضیل نبیّنا علی جمیع الخلائق، 4: 1782، رقم: 2278
  3. ابن حبان، الصحیح، 14: 398، رقم: 6478
  4. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 281
  5. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 2
  6. أبو یعلی، المسند، 13: 480، رقم: 7493
  7. مقدسی، الأحادیث المختارة، 9: 455، رقم: 428

’’روزِ قیامت میں تمام اَولادِ آدم کا سردار ہوں گا اور مجھے اِس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز لوائِ حمد (حمدِ اِلٰہی کا جھنڈا) میرے ہاتھ میں ہوگا اور مجھے اس پر کوئی فخر نہیں۔ اور اُس روز آدم سمیت تمام نبی میرے جھنڈے تلے ہوں گے، اور میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا اور اس (اَوّلیت) پر مجھے فخر نہیں۔‘‘

3۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

أنا أوّل من تنشقّ عنه الأرض، فأُکسَی الحُلة من حُلل الجنة، ثم أقوم عن یمین العرش لیس أحد من الخلائق یقوم ذالک المقام غیری.

’’(روزِ قیامت) میں سب سے پہلا شخص ہوں گا جس کے (باہر نکلنے کے) لیے زمین کا سینہ کھولا جائے گا، مجھے جنت کی پوشاکوں میں سے ایک پوشاک پہنائی جائے گی، پھر میں عرشِ الٰہی کے دائیں جانب اُس مقام پر کھڑا ہوں گا جہاں میرے علاوہ مخلوقات میں سے کوئی ایک (فرد) بھی کھڑا نہیں ہوگا۔‘‘

  1. ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبی صلی الله علیه وآله وسلم، 5: 585، رقم: 3611
  2. ابن کثیر، البدایة والنهایة، 10: 263

ہم اِن اَحادیث کو بہ طور حوالہ اس لیے لا رہے ہیں تاکہ یہ اَمر واضح ہو جائے کہ ان میں کسی قسم کے اَحکامِ شریعت یا حلال و حرام اور تبلیغ و دعوت یا سیرت وغیرہ کے کوئی پہلو بیان ہوئے ہیں نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلقِ عظیم کا کوئی ذکر ہوا ہے بلکہ ان میں تواتر کے ساتھ جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائص اور اَولادِ آدم ں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام و مرتبہ، بے مثال عظمت و رِفعت اور روحانی مدارج کا ذکر ہے۔ کتبِ اَحادیث میں فضائل و مناقب کے ذیل میں صرف یہی خاص مضمون بیان ہوئے ہیں اور اَصلاً یہ میلاد شریف کے مضامین ہیں۔

5۔ ذکرِ وِلادت اور روحانی آثار و علائم کا تذکرہ

محفلِ میلاد کا پانچواں پہلو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے تذکار اور بہ وقتِ ولادت رونما ہونے والی روحانی علامات و آثار کے بیان پر مشتمل ہے۔ محافلِ میلاد میں ہم خصوصیت کے ساتھ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اور ان خارق العادت روحانی آثار و علائم کا تذکرہ کرتے ہیں جو ان ساعتوں یا عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ظہور پذیر ہوئے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد شباب اور عمر مبارک کے چالیس سال کو پہنچنے پر پیغمبرانہ منصب پر فائز ہونے کے واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ تذکارِ میلاد میں ان فوق العادۃ روحانی واقعات اور آثار و علامات کے حوالے سے گفتگو ہوتی ہے۔ ان محیر العقول واقعات کو بیان کیا جاتاہے جو ظہورِ قدسی کے وقت شہر مکہ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں پیش آئے، جن کا تعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ ولادتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان بشارتوں اور پیشین گوئیوں کا ذکر کیا جاتاہے جو حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری سے متعلق سابقہ الہامی کتب میں مذکور ہیں۔ سیدنا آدم ں سے لے کر سیدنا عیسیٰ ں تک نسل در نسل اور گروہ در گروہ تمام انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے تذکرے کرتے رہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی صورت میں انجام پذیر ہوا۔ یہ سب بشارتیں جو کتبِ سابقہ اور صحائفِ آسمانی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میںمرقوم تھیں، میلاد کا موضوع بنتی ہیں۔ اِسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسب و نسب اور حضرت آدم ں سے آگے جن پاک پشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور منتقل ہوتا ہوا پہلوئے سیدہ آمنہ رضی اﷲ عنہا میں دُرِّ یتیم کی صورت میں ظاہر ہوا اور وہ نوعِ اِنسانی کے لیے اﷲ کے فضل اور نعمت کے طور پر جلوہ گر ہوا، میلاد کا نفسِ مضمون ہیں جن کا ذکر مولد یا میلاد کے موضوع میں ڈھل جاتا ہے۔

الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے اَحوال اور رشکِ زمانہ سیدہ آمنہ اور سیدہ حلیمہ سعدیہ رضی اﷲ عنھما کی آغوشِ عاطفت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد طفلی کے حالات و واقعات کا تذکرہ ان پاکیزہ محافل و مجالس میں قلب و روح کے تار ہلا دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات و کمالات بیان کیے جاتے ہیں تو وجد و مستی کے ایسے مظاہر دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے، انہیں بیان کرنے کی سکت کسی قلم اور زبان میں نہیں۔

میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کو جلا بخشنے کا ایک انتہائی مؤثر و مجرب ذریعہ ہے۔ اس سے وہ قوت پیدا ہوتی ہے جسے علامہ اِقبال قوتِ عشق کا نام دیتے ہیں اور جس کی بدولت اسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیاء پاشیوں سے شبستانِ دہرمیں اُجالا کیا جا سکتا ہے۔ یہی جشنِ میلاد منانے کا مدعا و مقصود ہے ۔بقول اقبال:

قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اِسمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اُجالا کر دے

اِقبال، کلیات (اُردو)، بانگِ درا: 207

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved