گزشتہ باب کا اختتام ہم نے فنائیتِ ذات اور کارکنوں کی تربیت کے حوالے سے کیا تھا۔ اس باب کا آغاز بھی کارکنوں میں نظم و ضبط کے حوالے سے ہم قرآنِ مجید کی آیتِ مبارکہ ہی سے کریں گے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کی سولہویں سورت کا نام اَلنَّحْل رکھا ہے۔ عربی زبان میں اَلنَّحْل شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اگر ہم شہد کی مکھی کی زندگی اور اس کی مسلسل جد و جہد کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ خالقِ کائنات نے اِس مخلوق کو اپنی وحدانیت اور قدرت کے کمالات و اوصاف پر ایک دلیل بنایاہے۔
اللہ رب العزت کا شہد کی مکھی کو اتنی اَہمیت دینے اور اس کے عنوان سے قرآن حکیم میں ایک پوری سورت کو مزین کرنے کے پس پردہ حکمت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس مخلوق کو ایک ایسا منہج ودیعت کیا ہے جو انسانی زندگی کے بہت قریب ہے۔ جس طرح انسان پورے عالم میں اللہ کی عجیب ترین مخلوق نظر آتا ہے اُسی طرح عالم حیوانات میں شہد کی مکھی اللہ کی عجیب ترین مخلوق نظر آتی ہے۔ انسان کے بعد شہد کی مکھی وہ واحد مخلوق ہے جسے اللہ رب العزت نے اپنی وحی کا شرف عطا کرتے ہوئے خود مخاطب فرمایا ہے :
وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ۔
النحل، 16 : 68
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا۔
وحی سے مراد الہام بھی لیا جاتا ہے یعنی اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کو اُس کا نظامِ حیات اِلقاء کیا۔ اس سے مراد وہ programmed system اور اُلوہی و اِلہامی نظام ہے جو اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کی فطرت میں رکھ دیا ہے۔
شہد کی مکھی کے نظامِ حیات کا ایک نہج سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِسے اِنسان کی تربیت کے لئے منہج بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وحی کرنے کے لیے جس بشر کو چنا اسے نبی بنایا یعنی ہر انسان پر وحی نہیں نازل فرمائی کی بلکہ صرف اپنے انبیاء و رسل کو اس کا حق دار ٹھہرایا۔ جب آپ عالم حیوانات میں شہد کی مکھی کو دیکھتے ہیں تو اللہ رب العزت نے اس کی پوری نسل کو وحی کی ہے ، جو الہام پہلی مکھی کو اِلقاء کیا گیا تھا، آج بھی تمام مکھیوں کے لیے وہی پیغام ہے۔ آج بھی شہد کی مکھی لاکھوں سال پہلے دیے گئے الوہی حکم پر اُسی طرح سے عمل پیرا ہے۔ اس کے برعکس انسان جسے خدا نے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کہہ کر زمین پر بھیجا؛ کیا وہ بھی اپنے وعدے پر اسی طرح سے کاربند ہے؟
حضرت انسان میں حکم اِلٰہی کی اِطاعت قدرِ مشترک کے طور پر نظر نہیں آتی۔ انسان اپنے نظام اور منہج کو بھول گیا، اسے اپنے خالق کی عطا کردہ ہدایت یاد نہ رہی اور وہ اپنے منہاجِ حیات سے دور ہوتا چلا گیا۔ شہد کی مکھی اپنے پیٹ سے انسانیت کی شفا اور بقا کے لیے جو شہد دیا کرتی تھی آج بھی اسی طرح سے دے رہی ہے، مگر انسان کبھی ہدایت کا پیکر اور کبھی سراپائے سرکشی بن جاتا ہے۔ وہ کبھی امن کے لئے سرگرداں ہوتا ہے تو کبھی فساد انگیزی پر اُتر آتا ہے۔ کبھی انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے نظام دیتا ہے تو کبھی وہ سارے نظام کو خود ہی الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجموعی طور پر حضرت انسان اللہ تبارک و تعالیٰ سے کیے ہوئے اپنے عہد سے منحرف ہی رہا ہے اور اس نے اپنے وعدے کا پاس بھی نہیں کیا ہے ۔اس کے برعکس شہد کی مکھی ہے کہ رب العزت نے جس کام کے لیے چن لیا وہ پوری تن دہی سے اطاعت کی پیکر بنے اسی پر کاربند ہے۔
شہد کی مکھی کے منہجِ حیات کی تفصیل سورۃ النحل کی آیات نمبر 68 اور 69 میں یوں بیان ہوئی ہے :
وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَo ثُمَّ کُلِيْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِيْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُـلًا ط یَخْرُجُ مِنْم بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَآء لِّلنَّاسِ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَo
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں (خیال) ڈال دیا کہ تو بعض پہاڑوں میں اپنے گھر بنا اور بعض درختوں میں اور بعض چھپروں میں (بھی) جنہیں لوگ (چھت کی طرح) اونچا بناتے ہیںo پس تو ہر قسم کے پھلوں سے رس چوسا کر، پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو اُن پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لیے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر، ان کے شکموں سے ایک پینے کی چیز نکلتی ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہےo
اِن آیاتِ مبارکہ سے شہد کی مکھی کی وُسعتِ عمل کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اِس معمولی سی جان کو عالم جمادات و نباتات، عالم انس و جن اور عالم حیوانات میں سے ایک خاص الہام کے لئے منتخب فرمایا۔ دوسری بات اللہ رب العزت نے صیغہ تانیث میں بات کی ہے۔ آیت مبارکہ کے لفظ اِتَّخِذِيْ میں کسی مذکر کو نہیں بلکہ مؤنث کو مخاطب کیا ہے۔ اِس سے یہ بھی پتہ چلا کہ جسے الہام کیا جا رہا ہے وہ مذکر نہیں بلکہ مؤنث ہے کیوں کہ اِس نوع میں مؤنث زیادہ خدمات سرانجام دیتی ہیں۔
شہد کی مکھی کے اندر ایک نظام بلکہ ایک کائنات ہے۔ اس کے گھر کا ڈیزائن مسدس شکل کا ہوتا ہے۔ ایک انجینئر ہی جان سکتا ہے کہ مربع شکل کی مضبوطی اور مسدس شکل کی مضبوطی میں کیافرق ہے؟ مسدس شکل کا یہ فائد ہ ہوتا ہے کہ وہ زیادہ تعداد میں اس میں سما سکتی ہیں۔ اس کی دیواریں مضبوط ہوتی ہیں اور دشمن انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ پھر اس شکل میں جو حسن و خوب صورتی ہوتی ہے وہ رباعی شکل میں نہیں ہوتی۔
جدید سائنسی تحقیق کے مطابق شہد کی مکھی کے چھتے میں ایک وقت میں چار سے آٹھ ہزار کارکن رہتے ہیں۔ ان تمام کارکنان کی سوچ بھی ایک ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی سوچ میں وحدت رکھتے ہوئے کارکنوں میں اتباع اور اطاعت کا ایک جذبہ رکھ دیا ہے۔ وہ سب کی سب اپنی ملکہ کی اِطاعت و اِتباع میں اس کی رعایا بن کر رہتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو جو نظام ودیعت کیا ہے، اس سے سرِ مُو اِنحراف ممکن نہیں۔ مکھی جونہی پیدا ہوتی ہے اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو جاتی ہے۔ اسے اوائل عمری ہی سے جو تعلیم دی جاتی ہے، وہ اس پر مرتے دم تک قائم رہتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جسے پیدائش ہی سے اِطاعت کی تعلیم دی جائے تو اُس مخلوق کا مقام و مرتبہ بھلا کیا ہوگا؟
اِنسان اور شہد کی مکھی میں چند اُمور مختلف ہیں۔ اِنسان کا بچہ پیدائش کے بعدتین، چار سال بعددرست انداز سے بولنا سیکھتا ہے۔ وہ درجہ بہ درجہ احسانات، شعور اور مشاہدے کے ذریعے علم الیقین اور عین الیقین کے مراحل سے گزرتا ہوا حق الیقین تک آتا ہے۔ جب کہ مکھی پیدا ہوتے ہی حق الیقین کے مقام پر فائز ہو جاتی ہے۔ وہ جنم لیتے ہی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے مقامِ کار سے پاکیزہ پھلوں اور پھولوں سے رَس چوس کر لاتی ہے اور شہد جیسی مقدس سوغات میں منتقل کر دیتی ہے۔
شہد کی ہر مکھی کا ایک مقصد حیات ہے اور وہ ساری زندگی اسی پر سختی سے کاربند رہتی ہے۔ نوعمری ہی سے جو وظیفہ انہیں دیا جاتا ہے وہ اسی پر گام زَن رہتی ہیں۔ وہ اپنے مقصد سے اِدھر اُدھر نہیں بھٹکتی ہیں۔ جب تک انہیں نتیجہ حاصل نہ ہوجائے اس وقت تک وہ چین سے نہیں بیٹھتیں۔ گویا جہدِ ملسل ان کی فطرتِ ثانیہ ہوتی ہے۔
شہد کی مکھیاں ہمیشہ ایک گروہ کی صورت میں مجتمع ہو کر رہتی ہیں۔ان میں کسی قسم کا کوئی اختلاف اور اعتراض نہیں ہوتا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ جب ہر کوئی ہمہ تن گوش ہو کر اپنے کام میں جُت جائے تو پھر شہد پیدا ہوتا ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ شہد کیا ہے؟ قرآن حکیم فرماتا ہے :
شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهٗ فِيْهِ شِفَآء لِّلنَّاسِ ط اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَo
النحل، 16 : 69
’’ایک پینے کی چیز ہے (وہ شہد ہے) جس کے رنگ جداگانہ ہوتے ہیں۔ اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانی ہےo‘‘
شہد کی مکھی کے کارخانے میں ہر ایک کارکن کی الگ الگ ذمہ داری اور کام ہوتا ہے۔ کچھ کارکن سفر کرکے ثمرات کا جوس چوس کرلاتے ہیں اور آکر اپنے چھتے میں منتقل کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ملکہ کی اولاد کو پالتی ہیں اور کچھ مل کر خوراک مہیا کرتی ہیں۔ کچھ مکھیاں شہد اور گھر کی حفاظت پر مامور ہوتی ہیں۔ اس طرح ہر کارکن کے لئے ایک وظیفہ اور کام ہے۔ ایک مکھی ایسی بھی ہوتی ہے جو امور داخلہ و خارجہ کی نگرانی کرتی ہے کہ کتنی مکھیاں باہر گئی ہیں اور کتنی واپس آئی ہیں۔ مکھیاں اپنی ملکہ (قائد، امیر و رہنما) کی اِجازت کے بغیر اِدھر سے اُدھر نہیں ہو سکتیں۔ ان میں اتحاد کا یہ عالم ہے کہ جو کارکن یعنی مکھی اپنے چھتے یعنی گھر اور مرکز سے جدا ہو جائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ وہ یا تو کسی دوسرے چھتے میں جائے گی، وہاں ٹھہرنے کی اِجازت مانگے گی اور اگر اجازت مل گئی تو وہاں ٹھہر جائے گی، مگر جس مکھی نے چھتے سے بغاوت کی ہو گی اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔ شہد کی مکھی اپنے اجتماع میں رہتی ہے تو حیات میں رہتی ہے، مرکز سے جدا ہوجائے تو اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ایک کارکن کے لیے اس سے بہتر مرکز سے وابستگی کی مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ گویا مرکز سے علیحدگی تحریکی موت کے مترادف ہے۔
جب ملکہ کی زیرِ نگرانی مسلسل تربیتی عمل سے گزرتے ہوئے اس کے شاگرد یعنی دیگر ملکات تیار ہوتی ہیں تو پھر وہ اپنے تربیت یافتہ کارکنوں کو دیگر مقامات پر بھیجتی ہیں تو ایک نئی ریاست کا قیام وجود میں آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مرکز کے نمائندہ ذیلی مراکز وجود میں آنے لگتے ہیں۔ اس طرح شہد کی مکھی کی منظم زندگی تنظیم سازی کا ایک نادر نمونہ ہے۔
قرآن حکیم کے فرمان کے مطابق شہد کی مکھی مندرجہ ذیل تین مقامات پر اپنے چھتے بناتی ہے :
1۔ پہاڑ
2۔ صحرا
3۔ درخت
اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کی فطرت میں طہارت، لطافت اور پاکیزگی رکھ دی ہے۔ وہ پاک جگہ پر اپنا مرکز بناتی ہے۔ وہ نہ ہی کسی گندگی پر بیٹھتی ہے اور نہ ہی ناپاک شے کو پسند کرتی ہے۔
اِس سے یہ سبق حاصل ہوا کہ اُس سے شہد کی صورت میں فائدہ، اِس لیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ طاہر بھی ہے اور مطہر بھی۔ دوسرے لفظوں وہ خود بھی طاہر ہے اور جو طہارت اس سے نکلتی ہے وہ بھی لوگوں کے لیے باعثِ شفا ہے۔
شہد کی مکھی میں ایک خوبی یہ ہے کہ اگر بیمار ہوجائے تو وہ خود تو بیماری کی تکلیف اٹھاتی ہے مگر اس کا شہد کسی کو بیمار نہیں کرتا۔ وہ اپنے آپ کو ختم کردیتی ہے مگر کسی کو ضرر نہیں پہنچاتی۔ گویا وہ زبان حال سے کہتی ہے کہ جب قدرت نے الہام کے ذریعے میرے اندر شفا ہی رکھی ہے تو میری زندگی کا مقصد شفا، شفا اور فقط شفا ہے۔ میں تو گم راہی سے پاک شفا کا حامل شہد مہیا کرنے پر فائز ہوں۔ شہد کی مکھی کی یہ خوبی اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ مصطفوی مشن کا اَدنیٰ سے اَدنیٰ کارکن حق پر قائم رہتے ہوئے لوگوں کو دونوں جہانوں کی کام یابی اور خیر و برکات کے لیے سیدھے راستے کی دعوت دینے والا ہو۔
شہد کی مکھی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مشن اور مرکز کے ساتھ انتہائی وفادار اور بے لوث ہوتی ہے۔ وہ سیکڑوں میلوں کا سفر ہی کیوں نہ طے کرلے، وہ جو شہد بناتی ہے خود نہیں کھاتی۔ اس کی وفاداری کا عالم یہ ہے کہ اسے بھوک سے مرنا گوارہ ہے مگر جس ذمہ داری پر اسے مامور کیا گیا ہے، اسے بہر صورت پورا کرے گی۔
اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کو اگلا حکم یہ دیا :
فَاسْلُکِيْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلُـلًا۔
النحل، 16 : 68
’’پھر اپنے رب کے (سمجھائے ہوئے) راستوں پر (جو اُن پھلوں اور پھولوں تک جاتے ہیں جن سے تو نے رس چوسنا ہے، دوسری مکھیوں کے لیے بھی) آسانی فراہم کرتے ہوئے چلا کر۔‘‘
یعنی اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کو حکم دیا کہ ان راستوں پر چلتی چلی جاؤ جو خدا نے تمہارے لیے مسخر کیے ہیں۔ اُس منہجِ حیات پر چلو جو تمہیں عطا کیا گیا ہے۔ پس جو کوئی حکم اِلٰہی کی اتباع میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اُسے کامیابی کی نوید سنا دی جاتی ہے۔ جس طرح کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :
مَنْ سَلَکَ طَرِيْقًا یَبْتَغِي فِيْهِ عِلْمًا سَلَکَ اللهُ لَهُ طَرِيْقًا إِلَی الْجَنَّةِ۔
1۔ ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقہ علی
العبادۃ، 5 : 48، رقم : 2682
2۔ أبو داود، السنن، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3 : 317، رقم : 3641
3۔ ابن ماجہ، السنن، المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 : 81، رقم :
223
جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔
یعنی طالبِ خیر اور طالبِ معرفت کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی میں محنت، مشقت اور سخت کوشی کی صفات بھی کوٹ کوٹ کر عطا کی ہیں۔ اگر آپ عالم حیوانات میں دیکھیں تو آپ کو زیادہ تر جانور سستی و کاہلی کی علامت بنے نظر آئیں گے۔ اگر ہم شہد کی مکھی کی زندگی کا جائزہ لیں تو اس کی فطرت میں جد و جہد کا اتنا ملکہ رکھا گیاہے کہ انسان میں بھی اس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ جدید سائنسی تحقیق بتاتی ہے کہ ایک شہد کی مکھی کو ایک کلو شہد بنانے کے لیے چار ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
اللہ رب العزت نے شہد کی مکھی کو جہدِ مسلسل کرنے پر اسے وہ مقام عطا کیا کہ اس کے شہد میں شفا رکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ النحل کی آیات نمبر 68 اور 69 میں شہد کی مکھی کو منہج حیات دیتے ہوئے اَمر کے تین صیغے بیان فرمائے ہیں : اِتَّخِذِيْ؛ کُلِيْ اور فَاسْلُکِيْ۔ اللہ تعالیٰ نے اِن تین اَحکامات کے ذریعے حصولِ مقصد کی راہ اور کامیابی کا طریقہ سمجھا دیا ہے ۔ اس آیتِ مبارکہ کی رو سے کہ اگر کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ہو تو اپنے اندر یہ صفات پیدا کرو۔ اس حوالے سے شہد کی مکھی کو اِتَّخِذِيْ کے ذریعے ایک طریقہ کار دے دیا کہ یہ راستے بنا دیے ہیں، ان پر اطاعت کے ساتھ چلتی چلی جاؤ تو پھر خیر ہی خیر ملتی چلی جائے گی۔
اس کے بعد فرمایا : کُلِيْ۔ اِس میں اللہ رب العزت نے اِستفادہ کا ضابطہ بیان فرما دیا کہ حلال شے کھاؤ گے تو حلا ل نتیجہ پیدا ہوگا۔ گویا رزقِ حلال کی طرف اشارہ کر دیا۔ طہارت اور پاکیزگی، تقویٰ و اخلاص اور نیت کی صداقت کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے کہ اگر نیت صاف ہوگی تو نتیجہ بھی درست نکلے گا۔ فَاسْلُکِيْ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اگر صداقت کے ساتھ سفر کرو گے تو آخر منز ل تک پہنچ جاؤ گے۔
شہد کی تقریباً پچیس اقسام ہوتی ہیں۔ اسے پھلوں اور پھولوں کے ساتھ نسبت دی جاتی ہے چنانچہ جس پھل پر مکھی زیادہ بیٹھتی ہے اس کے شہد کو بھی اُسی پھل کے ساتھ نسبت ملتی ہے۔ اِسی طرح انسان اگر عرفاء کی مجلس میں بیٹھے گا تو عارف ہو جائے گا۔ اگر علمائے حق کی صحبت میں بیٹھے گا تو عالم ہو جائے گا۔ اہل صدق کی مجلس کو اختیار کرے گا تو صادق ہو جائے گا۔
اگر تصوف کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو سالک کے لئے سلوک اور ایک پیکر کامل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ایسا مردِ قلند درکار ہوتا ہے، جو اسے سلوک کے مرحلوں سے گزار کر منزلِ مقصود تک پہنچا دے۔ اس لئے فرمایا کہ ہم نے شہد کی مکھی کے لئے راستے مسخر کر دیے کہ اگر وہ ان راستوں پر چلے گی تو منزل تک پہنچ جائے گی۔ اگر وہ ادھر اُدھر نہ بھٹکے گی، صبح جائے گی اور شام کو واپس آجائے گی۔ منہاج اس راستے کو کہتے ہیں جو خود نہیں بنتا بلکہ خدا کے اِذن سے بنتا ہے۔ صاحب مراد اور کامل شخصیت وہ ہوتی ہے جو خود سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ رب العزت کے اذن اور امر سے ہوتی ہے۔
اس حقیقت کو اگر ہم آج کے تناظر میں دیکھیں تو بلاشبہ ہمارے لئے قیادت کے شایانِ شان اور کامل شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ آپ ان کے چھتے میں چلے جائی جسے تحریک منہاج القرآن کہتے ہیں۔ پھر تحریکِ منہاج القرآن کا ہر کارکن جو اس پر عمل کرتا چلا جائے اور اس کے نتیجے میں جو رس لائے گا امتِ بیمار کے لئے وہ شہد کی مثل باعثِ شفا ہوگا۔
شہد کی مکھی کی دوسری خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی اعتراض نہیں کرتی۔ قیادت کی جانب سے سے جس راستے پر چلنے کا حکم ملتا ہے تو وہ بلا چوں و چراں چل پڑتی ہے۔ جب مشن کو حق مان لیا تو فَاسْلُکِيْ یعنی اس سلوک پر چلو گے تو منزل ملے گی اور اس پر اگر نہیں چلو گے تو منزل نہیں ملے گی ۔ قابلِ غور بات ہے کہ اب آپ کو راستہ مل گیا ہے، تو آپ نے منزل کے حصول کے مشکلات کو خاطر میں نہ لائے بغیر چلتے رہنا ہے۔ اگر ایک مکھی ایک کلو شہد کے لیے چار ہزار کلومیٹر سفر کرتی ہے تو آپ اندازہ لگالیں کہ آپ کو کتنا سفر کرنا پڑے گا!
اللہ رب العزت کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔ عین اسی طرح مصطفوی اِنقلاب کا بھی ایک وقت معین ہے، لیکن اس کے لیے جہد مسلسل اور عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ اِن شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا۔ بس آپ اپنے خون پسینے کی محنت اور مسلسل جد وجہد کے ساتھ مقاصد کے حصول میں سرگرداں رہیں۔ اَجر عطا کرنے والے رب کے ہاں تو کوئی کمی نہیں یہ تو ہماری قوتوں اور کوششوں پر منحصر ہے۔
تحریک منہاج القرآن وہ پلیٹ فارم ہے جس سے حق کا راستہ دکھلایا جاتاہے اور بتایا جاتا ہے کہ صرف ان راستوں پر چلنا ہے۔ اس سفر کے لیے ضروری زادِ راہ للہیت، اخلاص، تقویٰ، طہارت و عبادت اور نسبت ہے۔یہ اوصاف جس قدر ہماری جدوجہد کا حصہ ہوں گے توسفر بھی اتنا ہی جلدی طے ہو گا۔
منزل کے حصول تک اس زادِ راہ کو مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ شہد کی مکھیاں لڑتی ہیں نہ جھگڑتی ہیںوہ تو فقط اپنا اپنا کام کرتی ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ اپنا اپنا وظیفہ سنبھال لیں اور جس جس ذمہ داری کی تکمیل پر قائد کی طرف سے مامور کیا گیا ہے اس کے حصول میں ذرہ برابر بھی کوتاہی اور غفلت نہ کی جائے۔
اگر قائد کی نگاہوں سے ہماری کوتاہیاں چھپ بھی جائیں تو اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے یہ سب کچھ کیسے چھپے گا؟ وہ پاک ذات تو ہماری رگِ جاں سے بھی قریب ہے اور وہ ہمارے دل کی کیفیات اور دماغ کے تصورات سے بھی بخوبی آگاہ ہے۔ قائدِ انقلاب تو دنیا بھر میں بے شمار چھتے بنا چکے ہیں، جب کوئی کارکن تیار ہوجاتا ہے تو اسے مطلوبہ جگہ بھیج دیتے ہیں تاکہ اُدھر بھی اللہ تعالیٰ کے دین کی سلطنت قائم ہو اور مشن کا مرکزبن جائے۔ اگر مقصد عالم گیر مصطفوی انقلاب کاہے تو دنیا بھر میں مشن کا پیغام پہنچانا ہے۔ تحریک کی طرف سے ہر جمعہ کو بارگاهِ رِسالت مآب ﷺ میں ہدیہ ہائے درود کی شکل میں جو شہد پیش کیا جاتا ہے، کیا آپ ﷺ اسے چکھتے نہیں ہوں گے؟
دراصل خدمت وہی مقبول ہوتی ہے جو باقاعدہ کسی منہاج سے ہو رہی ہو، ورنہ لاکھوں کروڑوں افراد ایسے ہیں جو بغیر راستے کے اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔ آپ خوش قسمت ہیں کہ تمہیں راستہ بھی مل گیا اور مراد بھی مل گئی۔ اس منہاج میں توحید کی تعلیم بھی مل رہی ہے اور نسبت رِسالت کی پختگی بھی میسر ہے۔یہاں تقویٰ و طہارت، علمیّت و فکریّت کا اِستدلال و اِستنباط بھی موجود ہے۔ شہد کی مکھی کا طریقہ کار دنیا کے نظاموں سے مختلف ہے۔ آپ جیسا کھاتے ہیں ویسا ہی خارِج ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شہد کی مکھی نے جو رس چوسا اسے شہد میں تبدیل کر کے دوسروں کے لیے نفع بخش بنا دیا۔ وہ اپنے اوپر تکلیف جھیل کر لوگوں کو شہد جیسی نعمت سے نوازتی ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ حقیقی کارکن وہی ہے جو راهِ حق میں پیش آنے والی تکالیف اور مصائب کو ہمت، حوصلے اور صبر سے برداشت کرے۔ شہد کی مکھی اس قدر ناتواں اور کم زور ہو کر بھی اپنے مشن کی خاطر اتنا سفر کرتی ہے، کبھی تند و تیز ہوائیں آتی ہوں گی، طوفان آتے ہوں گے، سمندر کی طغیانیاں اسے پریشان کرتی ہوں گی، لیکن وہ تمام مسافتوں اور مراحل و مصائب سے گزر کر منزلِ مقصود پر پہنچ جاتی ہے۔
ہماری منزل بھی مصطفوی انقلاب ہے جس کا راستہ حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دکھایا ہے۔ اب ہمارا یہ فرض ہے کہ مخالفتوں، مزاحمتوں، رکاوٹوں، مصائب و آلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اور طعن و تشنیع سے بے نیاز ہو کر حصولِ منزل تک سرگرم عمل رہیں۔
شہد کی مکھی کی جہد مسلسل سے تعبیر زندگی کے مطالعہ سے ہمیں ایک اور سبق بھی ملتا ہے کہ حالات کیسے بھی ہوں، ہمیں اپنی محنت، کوشش اور تگ و دو جاری رکھنی چاہیے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور اُس کا شکر بجا لاتے رہنا چاہیے کیونکہ شکرِ اِلٰہی ہی درحقیقت نعمتوں میں اِضافہ کا سبب بنتا ہے۔ سورۃ ابراہیم میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌo
ابراھیم، 14 : 7
’’اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تم پر (نعمتوں میں) ضرور اضافہ کروں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب یقینا سخت ہےo‘‘
اس کے برعکس اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اِنکار درحقیقت اُس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اِسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ النحل میں آگے چل کر ایک آیت میں مثال بیان فرمائی ہے :
وَضَرَبَ اللهُ مَثَـلًا قَرْیَةً کَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللهِ فَاَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَo
النحل، 16 : 112
اور اللہ نے ایک ایسی بستی کی مثال بیان فرمائی ہے جو (بڑے) اَمن اور اِطمینان سے (آباد) تھی اس کا رزق اس کے (مکینوں کے) پاس ہر طرف سے بڑی وسعت و فراغت کے ساتھ آتا تھا پھر اس بستی (والوں) نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے اسے بھوک اور خوف کے عذاب کا لباس پہنا دیا ان اعمال کے سبب سے جو وہ کرتے تھےo
یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں اور تحدیث نعمت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُنہیں وہ مقام عطا کرتا ہے جو دوسروں کے لیے نفع رسانی کا باعث بنتا ہے۔ لیکن جب وہی قوم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو فراموش کرکے اُس کی ناشکری کا اِرتکاب کر بیٹھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس قوم پر بھوک اور خوف مسلط کر دیتا ہے اور وہ قوم طرح طرح کے آلام و مصائب کا شکار ہو کر گرداب میں پھنستی چلی جاتی ہے۔
اِس آیت مبارکہ میں بیان کی گئی بستی سے مراد زمانہ ماضی کی کوئی قوم بھی ہو سکتی ہے جیسے حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت شعیب یا حضرت لوط علیھم السلام کے زمانوں کے خوش حال اور آسودہ حال لوگ مراد تھے۔ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اُنہیں دنیاوی آفتوں اور مصیبتوں نے آگھیرا اور اُن پر قحط کی صورت میں بھوک اور پیاس مسلط کر دی گئی۔ دوسرا قول یہ بھی ہے کہ اِس سے مراد کفارِ مکہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں مرکزی مقام عطا کرتے ہوئے مکہ مکرمہ کو جائے اَمن بنایا تھا کیونکہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اِس شہر کے بارے میں خصوصی دعا فرمائی تھی :
رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِناً وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْیَومِ الْاٰخِرِ۔
البقرۃ، 2 : 126
اے میرے رب! اسے اَمن والا شہر بنا دے اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں سے نواز (یعنی) ان لوگوں کو جو ان میں سے اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے۔
پھر اِسی شہر میں حضور نبی اکرم ﷺ کی بعثت کی دعا کی گئی۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اِسماعیل علیھما السلام نے عرض کیا :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّيْهِمْ۔
البقرۃ، 2 : 129
اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( ﷺ ) مبعوث فرما جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے (کر دانائے راز بنا دے) اور ان (کے نفوس و قلوب) کو خوب پاک صاف کر دے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اِس شہرِ مکہ میں ہر طرح کی نعمتیں عطا کی گئیں اور اسے ایک مرکزی مقام حاصل ہوگیا تھا۔ اس وقت دنیا میں یہ سب سے زیادہ پُراَمن شہر تھا۔ حافظ ابن کثیر سورۃ النحل کی آیت نمبر 112 کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مکہ پُراَمن اور پُر سکون شہر تھا، اس کے ارد گرد کے لوگوں کو ہر وقت اپنی جان کا خطرہ رہتا تھا لیکن اُس پُرفتن دور میں بھی اگر کوئی مکہ مکرمہ میں داخل ہوجاتا تو اُسے اَمن میسر آجاتا اور وہ ہر طرح کے خوف سے بے نیاز ہو جاتا۔ جیسا کہ سورۃ القصص میں فرمایا گیا ہے :
وَقَالُوْٓا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰی مَعَکَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا ط اَوَلَمْ نُمَکِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا یُّجْبٰٓی اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ کُلِّ شَيْئٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَلٰـکِنَّ اَکْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَo
القصص، 28 : 57
اور (قدر ناشناس)کہتے ہیں کہ اگر ہم آپ کی معیّت میں ہدایت کی پیروی کر لیں تو ہم اپنے ملک سے اُچک لیے جائیں گے۔ کیا ہم نے انہیں (اس) اَمن والے حرم (شہرِ مکہ جو آپ ہی کا وطن ہے) میں نہیں بسایا جہاں ہماری طرف سے رزق کے طور پر (دنیا کی ہر سمت سے) ہرجنس کے پھل پہنچائے جاتے ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے (کہ یہ سب کچھ کس کے صدقے سے ہو رہا ہے)o
(1) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 2 : 590
یعنی اہل مکہ کی جانب ہر طرف سے رِزق کھنچا چلا آتا تھا اور یہی نکتہ سورۃ النحل کی آیت نمبر 112 میں مذکور ہے کہ اُن کے پاس ہر طرف سے رِزق بڑی وُسعت کے ساتھ آتا تھا۔ جب اہل مکہ نے ان نعمتوں کا اِنکار کیا اور سب سے بڑی نعمت جو تاجدارِ کائنات ﷺ کی صورت میں انہیں عطا ہوئی، اس کا انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر دو عذاب مسلط کیے :
1۔ ایک بھوک اور پیاس
2۔ دوسرا دشمن کے خوف کا
یعنی جو پہلو مکہ کا اِمتیازی وصف تھا۔ اُنہی دو پہلووں میں اہل مکہ بدترین پستی کا شکار ہوگئے۔ اُن کے پاس ہر طرف سے رزق اور پھل بکثرت آتے تھے لیکن حضور نبی اکرم ﷺ کی نافرمانی کے باعث انہیں تنگ دست کر دیا گیا اور یہاں تک کہ اہل مکہ اونٹ کے خون آلود بال کھانے پر مجبور ہو گئے۔ مزید برآں ان کے ہاں اَمن بھی رُخصت ہوگیا اور خوف کے سیاہ بادل ہر وقت اَہل مکہ پر منڈلانے لگے۔ ہجرت مدینہ کے بعد ہمہ وقت اُن پر مسلمانوں کا رُعب و دبدبہ اور سطوت و ہیبت طاری رہتی اور حملوں کا د ھڑکا لگا رہتا۔
گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائے خاص کے نتیجے میں اس شہر کو ہر طرح کی نعمتوں کی فراوانی عطا کی گئی لیکن جب سب سے بڑی نعمت کا انکار کیا گیا تو اس شہر والوں سے تمام نعمتیں چھین کر انہیں محروم کر دیا گیا۔
اِسی طرح اِس آیت مبارکہ کا اِطلاق بعض مفسرین کے نزدیک مدینہ منورہ پر بھی ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی آمد کے بعد یہ شہر یثرب سے مدینہ منورہ بنا اور پھر آپ ﷺ نے اسے حرم بنایا اور اس شہر کو آپ ﷺ کا مسکن و مدفن ہونے کا اِعزاز بھی حاصل ہوا؛ لیکن جب لوگوں نے ان نعمتوں کی ناقدری کی اور انہیں ان نعمتوں کا اِحساس نہ رہا تو اُمت اِنتشار کا شکار ہو گئی اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تین دن تک مسجد نبوی میں اذان نہ ہوئی، (1) لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے تھے اور کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہ رہی تھی۔
(1) 1۔ دارمی، السنن، باب : (15)، ما أکرم اللہ تعالی نبیہ
ﷺ بعد موتہ، 1 : 56، رقم : 93
2۔ ابو نعیم، دلائل النبوۃ : 496
3۔ مقریزی، اِمتاع الاسماع، 14 : 615
4۔ سیوطی، الخصائص الکبری، 2 : 280
اِس سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک قومیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی شکر گزار رہتی ہیں، اُس وقت تک انہیں اُلوہی نعمتیں بھی ملتی رہتی ہیں لیکن جب وہ نعمتوں کا اِنکار کرتی ہیں تو ذلت و رُسوائی اُن کا مقدر کر دی جاتی ہے۔
آج اُمت مسلمہ معاشی ناہمواری اور سیاسی زبوں حالی کا شکار ہے تو اس کی وجہ صرف اور صرف کفرانِ نعمت ہے۔ اُمتِ مسلمہ دنیا کے ستر فیصد وسائل کی مالک ہونے کے باوجود اَغیار کی دست نگر ہے ۔ عالم یہ ہے کہ وہ اپنی بقا کے لیے دوسروں کی سامنے ہاتھ پھیلا رہی ہے۔ آج ملک خداداد پاکستان میں ہر طرف افراتفری اور بداَمنی ہے، معاشی بدحالی اور سیاسی اِنتشار کی فراوانی ہے۔ بھائی ہی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ چار مختلف موسموں کا حامل زرعی ملک ہونے کے باوُجود غذائی اَجناس کی قلّت کا شکار ہے۔ دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود ملک میں پانی اور بجلی کی شدید قلت ہے۔ قدرتی معدنیات سے مالا مال ہونے کے باوجود معاشی خوش حالی نہیں ہے اور لوگ بنیادی ضروریات ہی سے محروم ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دین کی نعمت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ہم نے قرآنِ مجید جیسی عظیم نعمت پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اسے طاق میں بند کرکے چومنے ، آنکھوں پر لگانے اور حلف اٹھانے کے لیے سجا دیا ہے۔ اللہ رب العزت نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا کی ہیں، لیکن ہم نے داخلی اِفتراق و اِنتشار کے باعث ان نعمتوں کو ضائع کر دیا ہے۔ تمام نعمتوں کی فراوانی ہونے کے باوجود ہم ذلت کی گھاٹی میں اترتے چلے جارہے ہیں۔
لهٰذا آج اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر ان نعمتوں کے ساتھ جڑ جانے اور اپنا جینا مرنا صرف اور صرف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا پر وقف کردینے ہی سے ہم اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرسکتے ہیں۔ جیسا کہ حکم دیا گیا۔
وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللهِ۔
النحل، 16 : 114
اور اللہ کی نعمت کا شکر بجا لاتے رہو۔
تصوف کی اِصطلاحات میں ایک مقامِ تمکین ہوتا ہے اور دوسرا مقامِ تلوین ہوتا ہے۔ تلوین میں رنگ بدلتے ہیں، جبکہ تمکین میں ایک ہی رنگ رہتا ہے۔ جب بندہ کارکن ہوتا ہے تو تلوین کی کیفیت ہوتی ہے۔ جب ایک رنگ بدلتا ہے تو دوسرا رنگ آتا ہے۔ پھر ترقی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اِرتفاع اور ارتقا ہوتا چلا جاتا ہے۔ پھر منزل تک پہنچتے ہیں تو تَمَکُّن ملتا ہے۔ امام قشیریؒ لکھتے ہیں کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام مقامِ تلوین پر فائز تھے اور آقا ﷺ مقامِ تمکین پر فائز تھے۔ حضور ﷺ کا مقامِ تمکین یہ ہے کہ معراج سے ویسے ہی واپس تشریف لائے جیسے وہاں گئے تھے کہ سب کچھ جذب کر لیا۔ اگر کچھ مل جائے اور اسے جذب کر لیا جائے تو اسے تمکن کہتے ہیں۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ کوئی نعمت مل جائے تو اس کو اِظہار سے چھپایا جائے۔
’نہ صلہ کی تمنا، نہ ستائش کی پروا‘ کے مصداق آپ مستقل مزاجی سے محنت کرتے چلے جائیں کیونکہ جن کے لیے خدمت سرانجام دے رہے ہیں، ان کی نگاہوں سے توکچھ مخفی نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ہم محنت کر کر کے کھپ گئے ہیں، لیکن ہمیں وہ پذیرائی نہیں ملی جس کے ہم مستحق تھے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں، البتہ اگر یہ عقیدہ اپنا لیا کہ کاش یہ ٹوٹی پھوٹی کوشش اُس بارگاہ میں قبول ہوجائے تو آپ کو سب کچھ مل جائے گا۔
ہماری منزل اور ہمارا منہاج ہمارے سامنے ہے۔ اگر مستقل مزاجی سے تکالیف پر صبر کرتے ہوئے مشن کی خدمت کا کام جاری رکھیں گے تو کوئی قوت اور طاقت آپ کو اپنی منزل سے دور نہیں کرسکتی۔ آپ نے صلہ اور ستائش کی تمنا کیے بغیر محنت کرکے اپنے اپنے حصے کا شہد لانا ہے۔ ہماری جدوجہد کا واحد مقصد اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی رضا کا حصول ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved