جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات میں اِجتماعاتِ ذکر اور محافلِ نعت کا اِنعقاد اَدب و اِحترام اور جوش و جذبے سے کیا جاتا ہے۔ شبِ ولادت چراغاں کا اِہتمام جشنِ میلاد کا ایک اور ایمان اَفروز پہلو ہے۔ عمارتوں اور شاہراہوں کو رنگا رنگ روشنیوں سے سجایا جاتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِنسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر علم و آگہی کے اُجالوں میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نورِ اِلٰہی کا مظہر اَتم ہے۔ لہٰذا دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خوشیاں منانے کے لیے بساطِ زندگی کو رنگ و نور سے سجایاجاتا ہے۔ ذہن میں سوال آسکتا ہے کہ کیا اَوائل دورِ اسلام میں بھی اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟ دِقتِ نظر سے دیکھا جائے تو یہ عمل ثقہ روایات کے مطابق خود ربِ ذوالجلال کی سنت ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ ثقفیہ رضی ﷲ عنہما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت حضرت آمنہ رضی ﷲ عنہا کے پاس تھیں۔ آپ شبِ ولادت کی بابت فرماتی ہیں:
فما ولدته خرج منها نور أضاء له البیت الذی نحن فیه والدّار، فما شیء أنظر إلیه إلا نور.
’’پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی تو سیدہ آمنہ کے جسمِ اَطہر سے ایسا نور نکلا جس سے پورا گھر اور حویلی جگمگ کرنے لگی اور مجھے ہر ایک شے میں نور ہی نور نظر آیا۔‘‘
2۔ حضرت آمنہ رضی ﷲ عنہا سے ایک روایت یوں مروی ہے:
إنی رأیت حین ولدته أنه خرج منی نور أضاءت منه قصور بصری من أرض الشام.
’’جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ بے شک مجھ سے ایسا نور نکلا جس کی ضیاء پاشیوں سے سر زمینِ شام میں بصرہ کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘
اِنسان جب جشن مناتے ہیں تو اپنی بساط کے مطابق روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں، قمقے جلاتے ہیں، اپنے گھروں، محلوں اور بازاروں کو ان روشن قمقموں اور چراغوں سے مزین و منور کرتے ہیں، لیکن وہ خالقِ کائنات جس کی بساط میں شرق و غرب ہے اُس نے جب چاہا کہ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پر چراغاں کروں تو نہ صرف شرق تا غرب زمین کو منور کر دیا بلکہ آسمانی کائنات کو بھی اِس خوشی میں شامل کرتے ہوئے ستاروں کو قمقمے بنا کر زمین کے قریب کر دیا۔
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت عبد ﷲ ثقیفہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں:
حضرت ولادة رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم فرأیت البیت حین وضع قد امتلأ نوراً، ورأیت النجوم تدنو حتی ظننت أنھا ستقع علیّ.
’’جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو (میں خانہ کعبہ کے پاس تھی) میں نے دیکھا کہ خانہ کعبہ نور سے منور ہوگیا ہے اور ستارے زمین کے اتنے قریب آگئے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ کہیں مجھ پر نہ گر پڑیں۔‘‘
مکہ مکرمہ نہایت برکتوں والا شہر ہے۔ وہاں بیت اللہ بھی ہے اور مولد رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ اس شہر کی قسمیں کھاتا ہے۔ اہلِ مکہ کے لیے مکی ہونا ایک اعزاز ہے۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اہلِ مکہ ہمیشہ جشن مناتے اور چراغاں کا خاص اہتمام کرتے۔ اَئمہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتب میں کیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند روایات درج ذیل ہیں:
اِمام محمد جار ﷲ بن ظہیرہ حنفی (م 986ھ) اہلِ مکہ کے جشنِ میلاد کے بارے میں لکھتے ہیں:
وجرت العادة بمکة لیلة الثانی عشر من ربیع الأول فی کل عام أن قاضی مکة الشافعی یتهیّـأ لزیارة هذا المحل الشریف بعد صلاة المغرب فی جمع عظیم، منهم الثلاثة القضاة وأکثر الأعیان من الفقهاء والفضلائ، وذوی البیوت بفوانیس کثیرة وشموع عظیمة وزحام عظیم۔ ویدعی فیه للسلطان ولأمیر مکة، وللقاضی الشافعی بعد تقدم خطبة مناسبة للمقام، ثم یعود منه إلی المسجد الحرام قبیل العشائ، ویجلس خلف مقام الخلیل ں بأزاء قبة الفراشین، ویدعو الداعی لمن ذکر آنفاً بحضور القضاة وأکثر الفقهاء. ثم یصلّون العشاء وینصرفون، ولم أقف علی أول من سن ذالک، سألت مؤرخی العصر فلم أجد عندھم علماً بذلک.
ابن ظهیرة، الجامع اللطیف فی فضل مکة وأهلها وبناء البیت الشریف: 201، 202
’’ہر سال مکہ مکرمہ میں بارہ ربیع الاول کی رات اہلِ مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ - جو کہ شافعی ہیں - مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں میں تینوں مذاہبِ فقہ کے قاضی، اکثر فقہائ، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔ وہاں جا کر مولد شریف کے موضوع پر خطبہ دینے کے بعد بادشاہِ وقت، امیرِ مکہ اور شافعی قاضی کے لیے (منتظم ہونے کی وجہ سے) دعا کی جاتی ہے۔ پھر وہ وہاں سے عشاء سے تھوڑا پہلے مسجد حرام میں آجاتے ہیں اور صفائی کرنے والوں کے قبہ کے مقابل مقامِ ابراہیم کے پیچھے بیٹھتے ہیں۔ بعد ازاں دعا کرنے والا کثیر فقہاء اور قضاۃ کی موجودگی میں دعا کا کہنے والوں کے لیے خصوصی دعا کرتا ہے اور پھر عشاء کی نماز ادا کرنے کے بعد سارے الوداع ہو جاتے ہیں۔ (مصنف فرماتے ہیں کہ) مجھے علم نہیں کہ یہ سلسلہ کس نے شروع کیا تھا اور بہت سے ہم عصر مؤرّخین سے پوچھنے کے باوُجود اس کا پتہ نہیں چل سکا۔‘‘
علامہ قطب الدین حنفی (م 988ھ) نے کتاب الإعلام بأعلام بیت ﷲ الحرام فی تاریخ مکۃ المشرفۃ میں اہلِ مکہ کی محافلِ میلاد کی بابت تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
یزار مولد النبی صلی الله علیه وآله وسلم المکانی فی اللیلة الثانیة عشر من شھر ربیع الأول فی کل عام، فیجتمع الفقهاء والأعیان علی نظام المسجد الحرام والقضاة الأربعة بمکة المشرفة بعد صلاة المغرب بالشموع الکثیرة والمفرغات والفوانیس والمشاغل وجمیع المشائخ مع طوائفهم بالأعلام الکثیرة ویخرجون من المسجد إلی سوق اللیل ویمشون فیه إلی محل المولد الشریف بازدحام ویخطب فیه شخص ویدعو للسلطنة الشریفة، ثم یعودون إلی المسجد الحرام ویجلسون صفوفاً فی وسط المسجد من جهة الباب الشریف خلف مقام الشافعیة ویقف رئیس زمزم بین یدی ناظر الحرم الشریف والقضاة ویدعو للسلطان ویلبسه الناظر خلعة ویلبس شیخ الفراشین خلعة۔ ثم یؤذّن للعشاء ویصلی الناس علی عادتهم، ثم یمشی الفقهاء مع ناظر الحرم إلی الباب الذی یخرج منه من المسجد، ثم یتفرّقون۔ وهذه من أعظم مواکب ناظر الحرم الشریف بمکة المشرفة ویأتی الناس من البدو والحضر وأهل جدة، وسکان الأودیة فی تلک اللیلة ویفرحون بھا.
قطب الدین، کتاب الإعلام بأعلام بیت ﷲ الحرام فی تاریخ مکة المشرفة: 355، 356
’’ہر سال باقاعدگی سے بارہ ربیع الاول کی رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کی جاتی ہے۔ (تمام علاقوں سے) فقہائ، گورنر اور چاروں مذاہب کے قاضی مغرب کی نماز کے بعد مسجد حرام میں اکٹھے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں ہوتیں ہیں۔ یہ (مشعل بردار) جلوس کی شکل میں مسجد سے نکل کر سوق اللیل سے گزرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جائے ولادت کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔ پھر ایک عالم دین وہاں خطاب کرتا ہے اور اس سلطنتِ شریفہ کے لیے دعا کرتا ہے۔ پھر تمام لوگ دوبارہ مسجد حرام میں آنے کے بعد باب شریف کی طرف رُخ کرکے مقامِ شافعیہ کے پیچھے مسجد کے وسط میں بیٹھ جاتے ہیں اور رئیسِ زَم زَم حرم شریف کے نگران کے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ بعد ازاں قاضی بادشاہِ وقت کو بلاتے ہیں، حرم شریف کا نگران اس کی دستار بندی کرتا ہے اور صفائی کرنے والوں کے شیخ کو بھی خلعت سے نوازتا ہے۔ پھر عشاء کی اذان ہوتی اور لوگ اپنے طریقہ کے مطابق نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر حرم پاک کے نگران کی معیت میں مسجد سے باہر جانے والے دروازے کی طرف فقہاء آتے اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا اجتماع ہوتا کہ دور دراز دیہاتوں، شہروں حتیٰ کہ جدہ کے لوگ بھی اس محفل میں شریک ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر خوشی کا اِظہار کرتے تھے۔‘‘
اِس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ خوشی کے موقع پر چراغاں کرنا سنتِ اِلٰہیہ ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ میلاد سے بڑھ کر خوشی کا موقع کون سا ہوسکتا ہے! لہٰذا ہمیں چاہیے کہ بحث و نزاع میں پڑنے کی بجائے سنتِ اِلٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مکہ کے طریق پر جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر حسبِ اِستطاعت چراغاں کا اِہتمام کریں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved