معمولات میلاد

صلوۃ و سلام

محافلِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اَہم جزو بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہدیہ صلوٰۃ و سلام پیش کرنا ہے۔ صلوٰۃ و سلام ایک منفرد عمل ہے جو مقبولِ بارگاہِ اِلٰہی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرب و رضا کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے۔ فوری اَثرات و نتائج کے حامل اَعمال میں اِسے خاص اَہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ عمل اللہ رب العزت اور ملائکہ کی سنت ہے۔ وہ ہمہ وقت محبوبِ رب العالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ جملہ اہلِ ایمان کو بھی صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکمِ خداوندی ہے۔ اِس حکم کے تحت محبوبِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہمہ وقت درود و سلام بھیجنا اہلِ ایمان کا وظیفۂ حیات ہے۔ جب آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دن آتا ہے تو اہلِ محبت کے درود و سلام پر مشتمل اِس عملِ خیر میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور ہر طرف صَلِّ علٰی کے نغمے گونجتے سنائی دیتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کی سنت اور حکم ہے

اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.

الأحزاب، 33: 56

’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

صلوٰۃ و سلام کا قرآنی حکم مطلق ہے، عملِ درود و سلام ایک ایسی عبادت ہے جس میں وقت، جگہ یا کیفیت کی کوئی پابندی نہیں۔ آپ کسی بھی حالت میں، بیٹھ کر، لیٹ کر یا کھڑے ہو کر درود و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ جس طرح آپ اِسے محفلِ میلاد سے باہر پڑھ سکتے ہیں اُسی طرح محفلِ میلاد میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔ حالتِ قیام میں سلام پڑھنا زیادہ فضیلت کا حامل ہے کیوں کہ یہ کمالِ اَدب و اِحترام پر دلالت کرتا ہے۔ سورۃ الاحزاب کی مذکورہ آیت کے لفظ تسلیمًا کے ذریعے بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام پیش کرنے کے آداب ہی سکھائے جا رہے ہیں۔ صلوٰۃ بھیجنا سنتِ الٰہیہ ہے۔ انسانی ماحول، ضرورت اور زمانے کے تغیرات سے اَحکام میں تبدیلی ناگزیر ہو جاتی ہے مگر سنتِ اِلٰہیہ میں تبدیلی نہیں ہوتی، اﷲ تعالیٰ کی اس سنت کو اَبدی، دائمی اور آفاقی قانون کا درجہ حاصل رہتا ہے جو ہردور میں بعینهٖ ایک ہی شکل میں قائم و برقرار رہتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اﷲِ تَبْدِیْــلًاo

فاطر، 35: 43

’’سو آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا بڑی تاکید سے حکم فرمایا ہے:

لِتُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَرَ سُوْلِهٖ وَتُعَزِّرُوْهُ وَتُوَقِّرُوْهُ.

الفتح، 48: 9

’’تاکہ (اے لوگو!) تم اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور ان (کے دین) کی مدد کرو اور ان کی بے حد تعظیم و تکریم کرو، اور (ساتھ) اﷲ کی صبح و شام تسبیح کرو۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی آوازیں پست رکھنے کاحکم دیاگیا، اِرشاد فرمایا:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ کَجَهْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo

الحجرات، 49: 2

’’اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی (مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اَعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اَعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔‘‘

پس جس طرح تعظیم و توقیر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے ادب و احترام ضروری اَمر ہے۔

سلام کی اہمیت

قرآن حکیم کی رُو سے سلام کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ قرآن حکیم نے ان واقعات اور مواقع کا ذکر کیا ہے جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ انبیاء اور صلحاء پر سلام بھیجا۔ ایسی آیات کریمہ سے سلام کی اہمیت کا اندازہ بخوبی ہوجاتا ہے:

1۔ میلادِ یحییٰ علیہ السلام پر سلام کے حوالے سے ارشاد فرمایا:

وَسَلَامٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّاo

مریم، 19: 15

’’اور یحییٰ پر سلام ہو اُن کے میلاد کے دن اور اُن کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔‘‘

2۔ اللہ تعالیٰ نے کلام کی نسبت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف کرتے ہوئے فرمایا:

وَالسَّلٰـمُ عَلَيَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَیَوْمَ اَمُوْتُ وَیَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّاo

مریم، 19: 33

’’اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن اور میری وفات کے دن اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا۔‘‘

ان آیاتِ کریمہ سے انبیاء کرام علیہم السلام کے اَیامِ ولادت و بعثت اور وفات پر سلام کے تناظر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پر سلام پڑھنے کی اَہمیت کا اظہار ہوتا ہے۔

3۔ تمام انبیاء اور رُسل علیہم السلام پر من حیث المجموع سلام بھیجتے ہوئے اِرشاد فرمایا:

وَسَلٰـمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَo

الصافات، 37: 181

’’اور سلام ہو پیغمبروں پر۔‘‘

4۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی حمد اور اپنے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجنے کا حکم فرمایا:

قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰـمٌ عَلٰی عِبَادِهِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی.

النحل، 27: 59

’’فرما دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں اور اس کے منتخب (برگزیدہ) بندوں پر سلامتی ہو۔‘‘

قرآن حکیم نے انبیاء کرام علیہم السلام کا یہ طریقہ اور سنت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے پاس بہرِ ملاقات آنے والے ہر فرد کو سلام کہتے۔ ذیل میں چند آیات بطور نمونہ دی جاتی ہیں:

5۔ وَاِذَا جَآئَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰـتِـنَا فَقُلْ سَلٰـمٌ عَلَیْکُمْ.

الأنعام، 6: 54

’’اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو آپ (ان سے شفقتًا) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو۔‘‘

6۔ وَلَقَدْ جَآئَتْ رُسُلُنَا اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰی قَالُوْا سَلٰـمًاط قَالَ سَلٰـمٌ.

هود، 11: 69

’’اور بے شک ہمارے فرستادہ فرشتے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے انہوں نے سلام کیا (ابراہیم علیہ السلام نے بھی جواباً) سلام کیا۔‘‘

7۔ اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاط قَالَ اِنَّا مِنْکُمْ وَجِلُوْنَo

الحجر، 15: 52

’’جب وہ ابراہیم (علیہ السلام)کے پاس آئے تو انہوں نے (آپ کو) سلام کہا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ ہم آپ سے کچھ ڈر محسوس کررہے ہیں۔‘‘

8۔ ایمان والوں کو گھر میں داخل ہونے پر سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰی اَهْلِهَاط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَo

النور، 24: 27

’’اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو، یہ تمہارے لیے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔‘‘

9۔ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّةً مِّنْ عِنْدِ اﷲِ مُبٰرَکَةً طَیِّبَةً.

النور، 24: 61

’’پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے۔‘‘

10۔ لیلۃ القدر میں جب جبرائیل امین علیہ السلام لاکھوں فرشتوں کے جلو میں سطح زمین پر نزول کرتے ہیں تو طلوعِ فجر تک ان کا سلسلۂ سلام جاری رہتا ہے۔ سورۃ القدر میں ہے:

تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَةُ وَالرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْج مِنْ کُلِّ اَمْرٍo سَـلَامٌقف هِيَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo

القدر، 97: 4-5

’’اس(رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرئیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر اَمر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ(رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔‘‘

اس رات سپیدۂ سحر نمودار ہونے تک ہر طرف سے سلام کی صدائیں آتی رہتی ہیں۔

11۔ جب اہلِ ایمان کی میدانِ حشر میں آمد ہوگی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ان کی آپس میں ملاقات اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کا استقبال سلام سے ہوگا۔ ارشاد خداوندی ہے:

سَـلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍo

یٰس، 36: 58

’’(تم پر) سلام ہو، (یہ) ربِ رحیم کی طرف سے فرمایا جائے گا۔‘‘

12۔ تَحِیَّتُهُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَهٗ سَـلَامٌ.

الأحزاب، 33: 44

’’جس دن وہ اس سے ملیں گے ان (کی ملاقات) کا تحفہ سلام ہوگا۔‘‘

جب اللہ سے ملاقات اور دیدارِ الٰہی کے لیے انہیں بلایا جائے گا تو اس دن سلام کا خاص تحفہ ان کی نذر کیا جائے گا، یہ سلام لمحاتِ وصل کا خصوصی تحفہ اور اَرمغانِ خاص ہوگا۔

13۔ اللہ بزرگ و برتر نے اپنے برگزیدہ بندوں پر سلام بھیجنے کو بہت اہمیت دی ہے۔ قیامت کے دن جب وہ بارگاہِ خداوندی میں حاضر ہوں گے اور انہیں جنت میں داخل کیا جائے گا تو وہاں پر ان کا استقبال اللہ رب العزت کی طرف سے کلماتِ سلام سے کیا جائے گا۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس کا ذکر ہے:

وَنَادُوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ سَلٰـمٌ عَلَیْکُمْ.

الأعراف، 7: 46

’’اور وہ اہلِ جنت کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔‘‘

14۔ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَـآئِهِمْ وَاَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّیّٰتِهِمْ وَالْمَـلَائِکَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍo سَـلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِo

الرعد، 13: 23، 24

’’(جہاں) سدا بہار باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے آباء و اَجداد اور ان کی بیویاں اور ان کی اولاد میں سے جو بھی نیکوکار ہوگا اور فرشتے ان کے پاس (جنت کے) ہر دروازے سے آئیں گے (انہیں خوش آمدید کہتے اور مبارک باد دیتے ہوئے کہیں گے)۔ تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کرنے کے صلہ میں، پس (اب دیکھو) آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔‘‘

15۔ اَلَّذِیْنَ تَتَوَفّٰهُمُ الْمَلٰئِکَةُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo

النحل، 16: 32

’’جن کی روحیں فرشتے اس حال میں قبض کرتے ہیں کہ وہ (نیکی و اِطاعت کے باعث) پاکیزہ اور خوش و خرم ہوں (ان سے فرشتے قبضِ روح کے وقت ہی کہہ دیتے ہیں:) تم پر سلامی ہو تم جنت میں داخل ہو جاؤ اُن (اَعمالِ صالحہ) کے باعث جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘

16۔ فَسَلٰـمٌ لَّکَ مِنْ اَصْحٰبِ الْیَمِیْنِo

الواقعة، 56: 91

’’تو (اس سے کہا جائے گا:) تمہارے لئے دائیں جانب والوں کی طرف سے سلام ہے (یا اے نبی! آپ پر اَصحابِ یمین کی جانب سے سلام ہے)۔‘‘

اس مضمون سے جس چیز کی وضاحت مقصود ہے اور جس نکتے پر زور دینا مطلوب ہے وہ سلام کی اَہمیت و خصوصیت سے متعلق ہے۔ سلام کو عام کرنے کا عمل اللہ تعالیٰ، جبرائیل علیہ السلام اور تمام ملائکہ کی سنت ہے۔ شبِ قدر میں آسمانوںکی بلندیوں سے فرشتوں کا روئے زمین پر نزولِ اِجلال ساکنانِ عالمِ بالا کا معمول ہے۔ مومنین اور مقبولانِ الٰہی کا جنت میں داخلہ سلام سے ہوگا اور لقائے الٰہی کے وقت صالح اور نیکوکار بندوں کا اِستقبال بھی سلام کے تحفے سے کیا جائے گا۔ اَنبیاء کرام علیہم السلام کا معمول رہا ہے کہ اپنی ولادت کے دن کے حوالے سے ان کی زبانوں پر قرآن حکیم کے ارشاد کے مطابق وَالسَّلٰـمُ عَلَيَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ کے کلمات تھے۔ یہ اِرشادِ خداوندی سلام کی خصوصی اَہمیت و معنویت پر دلالت کرتا ہے۔

سلام کی مستقل حیثیت

قرآن حکیم کے درجِ ذیل اِرشاد پر عمل کے اعتبار سے بعض ذہنوں میں مغالطہ پایا جاتا ہے:

اِرشاد باری تعالیٰ ہے:

اِنَّ ﷲَ وَمَلٰئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّط یٰـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo

الأحزاب، 33: 56

’’بے شک اللہ اور اُس کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘‘

اللہ رب العزت کا یہ فرمان اہل ایمان کے نام پیغام ہے۔ اللہ رب العزت نے صلوٰۃ اور سلام میں فرق اور امتیاز کیا ہے، بعض لوگ سلام کے تصور یا سلام کے جداگانہ تشخص پر اعتراض کرتے ہیں اور تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سلام پہلے ہی صلوٰۃ (درودِ ابراہیمی) میں شامل کردیا گیا ہے، جیسا کہ مذکور ہے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰهِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِیْمَ انَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.

ان کے نزدیک سلام، صلوٰۃ ہی کا حصہ ہے۔ اس لیے اس کی علیحدہ سے کوئی ضرورت نہیں۔ یہ نقطہء نظر درست نہیں کیوں کہ سلام، صلوٰۃ کا حصہ ہونے کے باوجود ایک جداگانہ تشخص رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں دو باتوں کا حکم دیا ہے:

  1. صَلُّوْا عَلَیْهِ (تم ان پر درود بھیجا کرو)۔
  2. وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا (اور خوب سلام بھیجا کرو)۔

یہاں باری تعالیٰ نے صلوۃ و سلام دونوں کا الگ الگ بیان فرمایا ہے لہٰذا جس طرح دو الگ الگ حکم ہیں ان کی تعمیل کے تقاضے بھی الگ الگ ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ میں صلوٰۃ و سلام دونوں کے نذرانے پیش کیے جائیں گے۔

درج ذیل پہلوؤں سے سلام کی اہمیت مزید اجاگر ہوتی ہے:

(1) حمد کی قبولیت بہ واسطۂ سلام

سلام کی اہمیت اِس قدر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی قبولیت کا انحصار سلام پرہے۔ قرآن حکیم فرماتا ہے:

سُبْحٰنَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلٰـمٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَo وَالْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِیْنَo

الصافات، 37: 180-182

’’آپ کا رب جو عزت کا مالک ہے اُن (باتوں) سے پاک ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور (تمام) رسولوں پر سلام ہو۔ اور سب تعریفیں اﷲ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘

اِن آیات میں اللہ رب العزت اپنی تعریف و تحمیدمیں مشغول بندوں سے فرما رہا ہے کہ میری ذات تمہاری تعریفوں کی حد اور گنجائش سے کہیں بلند و برتر ہے۔ تم میری تعریف اور مدح و ستائش کا حق ادا ہی نہیں کرسکتے۔ میری عظمت اور بزرگی کا ادراک تمہارے بس کی بات نہیں۔ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری تعریفیں مجھ تک رسائی پاسکیں اور تمہاری حمدیں میری بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازی جائیں تو اس کے لیے تمہیں میرے پیغمبروں پر سلام بھیجنا ہوگا۔ سلام ہی ذریعۂ مدح و ستائش ہے۔ جب تک انبیاء و رسل کے واسطۂ سلام کو درمیان میں نہ لایا جائے گا تب تک تمہاری تعریفوں اور حمدوں کی رسائی مجھ تک نہ ہوسکے گی۔سو مجھ تک رسائی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ’’سلام علی المرسلین‘‘ یعنی انبیاء و مرسلین پر سلام بھیجنے سے مشروط ہے۔ تمہارا پیغمبروں پر سلام بھیجنا رافعِ حمد بن جائے گا اس لیے کہ ان پر بھیجا ہوا سلام ہمیشہ قابلِ قبول ہوتا ہے۔ صلوۃ اور سلام کی معیت میں آئی ہوئی حمد کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اور وہ ہمیشہ میری بارگاہ تک رسائی حاصل کر لیتی ہے۔

(2) تشہد میں سلام

نماز میں تشہد کا آغاز کلماتِ حمد سے کیا جاتا ہے۔ اِس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجا جاتا ہے۔ بعد ازاں شہادت ہے جس میں توحید اور رِسالت کی گواہی دی جاتی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور آخر میں دعا ہے۔ اِس طرح حالتِ تشہد میں دعا کے ساتھ نماز کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اگر تجزیہ کیا جائے تو پورے تشہد میں کل چار چیزیں ہوتی ہیں:

  1. حمد: تشہد کا حصۂ اَوّل خالصتاً اللہ تعالیٰ کی تعریف کے لیے وقف ہے:

اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ

  1. سلام: دوسرا حصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اَقدس پر سلام کے لیے مختص ہے:

اَلسَّـلَامُ عَلَیْکَ اَیُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهٗ.

اِس طرح ایک حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اور ایک حصہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص ہے۔

  1. شہادت: تیسرا حصہ شہادت ہے جو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے مشترک ہے:

اَشْهَدُ اَنْ لَّا اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهٗ وَرَسُوْلُهٗ.

اِس میں نصف حصہ اللہ تعالیٰ کے لیے اورنصف حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے۔

  1. صلوٰۃ: چوتھا حصہ صلوٰۃ ہے جو خالصتاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ہے:

اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰهِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِیْمَ انَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ. اَللّٰهُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرٰهِیْمَ وَعَلٰی آلِ اِبْرٰهِیْمَ انَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.

چنانچہ تشہدکے اَجزائے ترکیبی کا تناسب جو اللہ تعالیٰ کو مقبول ہے یہ ہے کہ عبادت کا اڑھائی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام کے لیے خاص ہے جبکہ ڈیڑھ حصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے لیے خاص ہے ۔اِس کے ساتھ جب دعا کو ملایا جائے تو ہماری نماز اور دعا قبول ہوتی ہے۔ تکمیلِ صلوٰۃ کے بعد خروج عن الصلوٰۃ کے لیے بھی سلام ہی کفایت کرتا ہے، اِس لیے کہ نماز کو عملِ سلام پر ہی ختم کیا جائے گا:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ.

اور یہ سلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے اَولیاء و صالحین، مومنین اور تمام اَفرادِ اُمت کے لیے ہے۔ گویا ہر طرف سلام ہی سلام ہے۔

اس بحث سے سلام کی اہمیت اور اس کے بارے میں تاکید کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہم سلام سے کیسے گریز کر سکتے ہیں؟

صلوٰۃ کے بعد سلام بھیجنے کاحکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اَز راہِ ہدایت تلقین فرمائی ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں صلوٰۃ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجتے رہیں۔

حضرت علی بن حسین رضی اﷲ عنہما اپنے جد امجد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وصلّوا عليّ وسلّموا حیثما کنتم، فَسَیَبْلُغُنِی سلامکم وصلاتکم.

  1. ابن اسحاق أزدی، فضل الصلاۃ علی النبی صلی الله علیه وآله وسلم : 35، رقم: 20
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 367، رقم: 8790
  3. ابن أبی شیبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7542
  4. ابن کثیر کی ’تفسیر القرآن العظیم (3:515)‘
  5. عسقلانی نے بھی ’’لسان المیزان (2: 106)‘‘
  6. ’کنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال (1: 498، رقم: 2199)‘

’’اور تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو، تمہارے درود و سلام مجھ تک (خود) پہنچتے ہیں۔‘‘

اِس حدیث شریف میں دو باتوں کی تلقین کی گئی ہے: ایک صلوٰۃ اور دوسرا سلام۔ لہٰذا جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واضح اِرشاد ہے کہ ’’مجھ پر درود پڑھو اور سلام بھیجو‘‘ تو پھر ہم اِنہیں کیسے ایک تصور کر سکتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے نام لیواؤں کو یہی تلقین فرمائی کہ مجھ پر صلوٰۃ اور سلام بھیجا کرو۔

درود وسلام کی بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رسائی

اُمتی کا یہ نذرانہ بارگاہِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مختلف طریقوں سے پہنچتاہے جس کا ثبوت متعدد احادیث سے ملتاہے۔ ذیل میں ہم اُن اَحادیث مبارکہ کو متعلقہ عنوانات کے تحت بیان کر رہے ہیں:

1۔ درود و سلام کا بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں براہِ راست پہنچنا

یہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص میں سے ہے کہ اُمتی جہاں کہیں بھی ہوں اُن کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام بلاواسطہ خود بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں پہنچتا ہے۔ اس کے لیے احادیث میں تَبْلُغُنِی، فَتَبْلُغُنِی، یَبْلُغُنِی، فَسَیَبْلُغُنِی وغیرہ جیسے اَلفاظ وارد ہوئے ہیں، جو لغوی اعتبار سے معروف کے صیغے ہیں مجہول کے نہیں، اور اِن صیغوں کا فاعل خود صلا تکم اور سلامکم ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل روایات سے ظاہر ہے:

1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

صلّوا عليّ، فإنّ صلاتکم تَبلُغُنِی حیث کنتم.

  1. أبوداؤد، السنن، کتاب المناسک، باب زیارة القبور، 2: 176، رقم: 2042
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 367
  3. ابن أبی شیبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7542
  4. طبرانی، المعجم الأوسط، 8: 82، 83، رقم: 8030
  5. بیهقی، شعب الإیمان، 3: 491، رقم: 4162
  6. مقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی صلی الله علیه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 11: 59، 71
  7. ابن قیم، جلاء الأفہام فی الصلاۃ والسلام علی خیر الأنام صلی الله علیه وآله وسلم: 42، رقم: 61
  8. ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 3: 514
  9. عسقلانی، فتح الباری، 6: 488

’’مجھ پر درود بھیجتے رہو، بے شک تمہاری طرف سے بھیجے گئے درود (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں خواہ تم کہیں بھی ہو۔‘‘

2۔ حضرت علی بن حسین اپنے دادا حضرت علی رضوان اللہ علیہم اجمعین سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

فإن تسلیمکم یَبْلُغُنِی أین ما کنتم.

  1. أبو یعلی، المسند، 1: 361، رقم: 469
  2. مقدسی، الأحادیث المختارۃ، 2: 49، رقم: 428
  3. هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 4: 3
  4. عسقلانی، لسان المیزان، 2: 106

’’پس تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارے سلام مجھ تک (خود) پہنچتے ہیں۔‘‘

3۔ سیدنا حسن بن علی رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

صلّوا عليّ وسلّموا، فإن صلا تکم وسلامکم یَبْلُغُنِی أین ما کنتم.

  1. أبو یعلی، المسند، 12: 131، رقم: 6761
  2. ابن قیم، جلاء الأفہام فی الصّلاة والسّلام علی خیر الأنام صلی الله علیه وآله وسلم: 42، رقم: 60

’’مجھ پر درود و سلام بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود و سلام (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں اگرچہ تم جہاں بھی ہو۔‘‘

4۔ سیدنا حسن بن حسن بن علی رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

حیثما کنتم فصلّوا عليّ، فإن صلا تکم تَبْلُغُنِی.

  1. طبرانی، المعجم الکبیر، 3: 82، رقم: 2729
  2. أحمد بن حنبل، المسند (2: 367)
  3. طبرانی، المعجم الأوسط (1: 238، رقم: 367)
  4. عبد الرزاق، المصنف (3: 577، رقم: 6726)
  5. دولابی، الذریۃ الطاہرۃ: 73، رقم: 199
  6. منذری، الترغیب والترہیب من الحدیث الشریف (2: 362)
  7. هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10: 162
  8. ابن قیم، جلاء الأفہام فی الصّلاة والسّلام علی خیر الأنام صلی الله علیه وآله وسلم : 42، رقم: 61

’’تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود مجھ تک پہنچتے ہیں۔‘‘

5۔ سیدنا حسن بن حسین رضی اللہ عنہما ہی روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وصلّوا عليّ، فإن صلا تکم تَبْلُغُنِی حیثما کنتم.

  1. ابن إسحاق أزدی، فضل الصّلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 45، رقم: 30
  2. ابن أبی شیبة، المصنف، 2: 150، رقم: 7543
  3. عبد الرزاق، المصنف (3:17، رقم: 4839)

’’اور مجھ پر درود بھیجتے رہا کرو، بے شک تمہارے درود (خود) مجھ تک پہنچتے ہیں اگرچہ تم جہاں بھی ہو۔‘‘

2۔ درود و سلام براہِ راست حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سماعت کرتے ہیں

درود شریف وہ مقبول ترین اور پاکیزہ عمل ہے جس میں ربِ کائنات بھی اپنے ملائکہ اور بندوں کے ساتھ شریک ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اُمتیوںکا درود و سلام سُنتے ہیں۔

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أکثروا الصّلاة علیّ یوم الجمعة، فإنه یوم مشھود تشھده الملائکة، لیس من عبد یصلی علیّ إلا بلغنی صوته حیث کان.

’’جمعہ کے روز مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، بے شک جمعہ کا دن یومِ مشہود ہے (کیوں کہ) اس میں ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ جو آدمی مجھ پر درود پڑھے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ کسی بھی جگہ پڑھے۔‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا آپ کی وفات کے بعد بھی ہم یہ عمل جاری رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

وبعد وفاتی، إن اﷲ حرّم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء.

  1. ابن قیم، جلاء الأفہام فی الصّلاۃ والسّلام علی خیر الأنام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ص: 63، رقم: 108)‘‘ میں کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
  2. ہیتمی، الدرّ المنضود فی الصّلاۃ والسّلام علی صاحب المقام المحمود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 155، 156
  3. سخاوی نے ’’القول البدیع فی الصّلاۃ علی الحبیب الشفیع (ص: 158، 159)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے طبرانی نے روایت کیا ہے۔
  4. نبہانی، حجّۃ اﷲ علی العالمین فی معجزات سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 713

’’(ہاں) میری وفات کے بعد بھی (تم یہ عمل جاری رکھو)، بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین پر اَنبیاء کے جسموں کو کھانا حرام کر دیا ہے۔‘‘

اِس حدیث مبارکہ میں بَلَغَنِی صَوتُہُ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی فرشتہ صلوٰۃ و سلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ تک نہیں پہنچاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بلاواسطہ درود و سلام پڑھنے والے کی آواز سماعت فرماتے ہیں۔ اس میں دور و نزدیک کی قید ہے نہ کسی کا پہنچانا شرط ہے بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سننا ثابت ہے۔ اَعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان (1272-1340ھ) نے کیا خوب کہا ہے:

دور و نزدیک کے سننے والے وہ کان
کانِ لعلِ کرامت پہ لاکھوں سلام

احمد رضا خان، حدائقِ بخشش، 2: 206

ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزدیک سے درود بھیجتے ہیں ، دور سے درود بھیجتے ہیں اور بعد میں آنے والے بھی بھیجیں گے، کیا یہ سب درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیش کیے جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أسمع صلاة أهلِ محبتی وأعرفهم.

  1. جزولی، دلائل الخیرات وشوارق الأنوار فی ذکر الصّلاة علی النّبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 18
  2. فاسی، مطالع المسرّات بجلاء دلائل الخیرات وشوارق الأنوار فی ذکر الصلاة علی النبی المختار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : 81

’’میں اہلِ محبت کا درود خود سنتا ہوں اور اُنہیں پہچانتا (بھی) ہوں۔‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہلِ محبت کا درود نہ صرف خود سُنتے ہیں بلکہ بھیجنے والوں کو پہچانتے بھی ہیں، اگرچہ وہ دور کسی مقام پر اور بعد کے کسی زمانے میں ہی کیوں نہ ہوں۔

3۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام کا جواب بھی عطا فرماتے ہیں

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ صرف اُمت کی طرف سے بھیجا جانے والا درود و سلام سُنتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من أحد یسلّم عليّ إلا ردّ اﷲ عليّ روحی، حتی أردّ علیه السّلام.

  1. أبوداود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارة القبور، 2: 175، رقم: 2041
  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2: 527
  3. طبرانی، المعجم الأوسط، 4: 84، رقم: 3116
  4. بیهقی، السنن الکبری، 5: 245
  5. بیهقی، شعب الإیمان، 2:217، رقم: 1581
  6. منذری، الترغیب و الترهیب من الحدیث الشریف، 2: 362، رقم: 2573
  7. هیثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10: 162

’’جب کوئی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح واپس لوٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من مسلم سلّم عليّ فی شرق ولا غرب، إلا أنا وملائکة ربّی نردّ علیه السّلام.

  1. أبو نعیم، حلیة الأولیاء وطبقات الأصفیاء، 6: 349
  2. مقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی صلی الله علیه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 11: 59
  3. ابن قیم، جلاء الأفهام فی الصلاة والسلام علی خیر الأنام صلی الله علیه وآله وسلم: 19، رقم: 20
  4. سخاوی، القول البدیع فی الصلاة علی الحبیب الشفیع صلی الله علیه وآله وسلم: 156

’’مشرق و مغرب میں جو مسلمان بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے میں اور میرے رب کے فرشتے اُس کے (بھیجے ہوئے) سلام کا جواب دیتے ہیں۔‘‘

4۔ ملائکہ کا بارگاہِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سلام پیش کرنا

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ہے کہ خود بھی اپنے غلاموں کا درود و سلام سنتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ فرشتے اَدباً حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بے کس پناہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کا سلام پہنچاتے ہیں۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

من صلی علیّ فی یوم الجمعة و لیلة الجمعة مائة مرة، قضی اﷲ له مائة حاجة: سبعین من حوائج الآخرة وثلاثین من حوائج الدنیا، ثم یوکّل اﷲ بذالک ملکًا یدخله فی قبری کما یدخل علیکم الھدایا، یخبرنی من صلی علیّ باسمه ونسبه إلی عشیرته، فأثبته عندی فی صحیفة بیضاء.

  1. بیهقی، شعب الإیمان، 3: 111، رقم:3035
  2. فیروز آبادی، الصلات والبشر فی الصلاة علی خیر البشر صلی الله علیه وآله وسلم: 77
  3. سیوطی، الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور، 5: 219
  4. زرقانی، شرح المواهب اللدنیة بالمنح المحمدیة، 7: 372
  5. سخاوی، القول البدیع فی الصلاة علی الحبیب الشفیع صلی الله علیه وآله وسلم: 156

’’جو شخص مجھ پر جمعہ کے روز اور جمعہ کی رات درود پڑھے اللہ اُس کی سو حاجتیں پوری کرتا ہے، سترآخرت کی اور تیس دُنیاکی۔ پھر اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتا ہے جو (اُس کی طرف سے) میری قبر میں اِس طرح درود پیش کرتا ہے جس طرح تمہیں ہدیے پیش کیے جاتے ہیں۔ وہ مجھے اُس آدمی کے نام و نسب کی اُس کے خاندان سمیت خبر دیتا ہے، پس میں اُسے اپنے پاس سفید صحیفے میں ثبت (ریکارڈ) کر لیتا ہوں۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

إن ﷲ ملائکة سیّاحین فی الأرض، یبلّغونی من أمتی السلام.

  1. نسائی، السنن، کتاب السهو، باب السلام علی النبي، 3: 31، رقم: 1282
  2. نسائی، عمل الیوم و اللیلة: 167، رقم: 66
  3. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 387، 441، 452
  4. دارمی، السنن، 2: 409، رقم: 2774
  5. ابن حبان، الصحیح، 3:195، رقم: 914
  6. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5: 307، 308، رقم: 1924، 1925
  7. أبویعلی، المسند، 9: 137، رقم: 5213
  8. عبد الرزاق، المصنف،2:215، رقم: 3116

ابن حبان کی بیان کردہ روایت کی اسناد امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہیں اور اس کے رِجال ثقہ ہیں۔ حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے جبکہ ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔ ابن قیم نے اس کی اسناد کو صحیح کہا ہے۔

’’اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے ایسے ہیں جو زمین پر پھرتے رہتے ہیں، اور میری اُمت کی طرف سے جو سلام بھیجا جاتا ہے مجھے پہنچاتے ہیں۔‘‘

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

أکثروا عليّ من الصلاة فی کل یوم جمعة، فإنّ صلاة أمّتی تُعرَض علیّ فی کلِّ یوم جمعة، فمن کان أکثرهم علیّ صلاة کان أقربهم منّی منزلة.

  1. بیهقی، شعب الإیمان، 3: 110، رقم: 3032
  2. بیهقی، السنن الکبری، 3: 249، رقم: 5791
  3. دیلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1: 81، رقم: 250
  4. منذری، الترغیب والترهیب من الحدیث الشریف، 2: 328، رقم: 2583
  5. سبکی، شفاء السقام فی زیارة خیر الأنام: 136
  6. مقریزی، إمتاع الأسماع بما للنبی صلی الله علیه وآله وسلم من الأحوال والأموال والحفدة والمتاع، 11: 66
  7. ابن قیم، جلاء الأفهام فی الصلاة والسلام علی خیر الأنام صلی الله علیه وآله وسلم: 40، رقم: 56
  8. عظیم آبادی، عون المعبود علی سنن أبی داؤد، 4: 272

’’ہر جمعہ کے روز مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھو، بے شک میری اُمت کا درود ہر جمعہ کے دن مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ پس جس نے مجھ پر کثرت سے درود بھیجا وہ مرتبہ کے اِعتبار سے سب سے بڑھ کر میرے قریب ہوگا۔‘‘

اِن اَحادیثِ مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دور و نزدیک ہر جگہ سے اپنے اُمتیوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام سنتے ہیں۔ فرشتہ صرف اَز رُوئے اَدب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اُمتیوں کی طرف سے پیش کیا جانے والا درود و سلام پہنچاتا ہے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام اُمتیوں کے درود و سلام کی نہ صرف آواز پہنچتی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں۔ اتنے واضح اَحکامات اور کثیر فضائل کے باوُجود بھی اگر کوئی صلاۃ و سلام پر اِعتراض کرے اور اِس کے لیے منعقدہ محافلِ میلاد پر طعن و تشنیع کرے تو اسے صرف بدبختی پر محمول کیا جائے گا۔ انہیں چاہیے کہ قرآن و سنت کے دلائل کے روشنی میں حقائق کی معرفت حاصل کریں۔

ہم نے اِس باب میں درود و سلام کی فضیلت و اَہمیت بارے صرف چند احادیث بیان کی ہیں، ورنہ اِس موضوع پر احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے، ائمہ نے اِس موضوع پر الگ کتب تالیف کی ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ہماری کتاب البدر التمام فی الصلوٰۃ علیٰ صاحبِ الدُّنُوّ والمقام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مطالعہ کریں۔

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved